علم

ابتدا ہے رب کریم کے نام سے جو آنکھوں کی خیانت کو بھی جاننے والا ہے اور جو سینوں میں چھپی ہوئی باتوں کو بھی جاننے والا ہے۔

علم صفتِ عالم الغیب والموجودات ہے۔ علم باعثِ رفعِ حجابات ہے۔ علم آدمی کے لیے وجہِ شرف و فضیلت و عنایات ہے۔ علم باعثِ بلندیِٔ درجات ہے۔ علم تارکِ جہل و ظلمات ہے۔ علم، معرفتِ مقصدِ حیات ہے۔ علم مقصدِ بعثتِ انبیاء اور معرفتِ نظامِ کائنات ہے۔ علم معرفتِ خالق المخلوقات ہے۔

اِنَّمَا یَخۡشَی اللّٰہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمٰٓؤُا۔
بس اللہ کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔
(القرآن، 35، 28)

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ۔
اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں ایسے علم سے جو کوئی فائدہ نہ دے۔
(صحیح مسلم، 2722)

سید علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں ‘تحصیل علم کی فرضیت اور اس کی اہمیت’ پر جو باب قائم کیا ہے اس میں سے کچھ نکات درج ذیل ہیں۔

1) وہ شخص جو علم کو دنیاوی عزت و جاہ کی غرض سے حاصل کرتا ہے، در حقیقت وہ عالم کہلانے کا مستحق ہی نہیں ہے۔
2) علم کی تعریف، معلوم کو گھیرنا اور معلوم کا اظہار و بیان ہے۔
3) اَلْعِلْمُ صِفَۃٌ یَصِیْرُ الْجَاھِلَ بِھَا عَالِمًا۔ علم ایسی صفت ہے جس کے ذریعے جاہل، عالم بن جاتا ہے۔
4) حضرت ابو علی ثقفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: اَلْعِلْمُ حَیٰوۃُ الْقَلْبِ مِنَ الْجَھْلِ وَ نُوْرُ الْعَیْنِ مِنَ الظُّلْمَۃِ جہالت اور تاریکی کے مقابلہ میں علم دل کی زندگی اور آنکھوں کا نور ہے۔
5) جاہل کے دل پر ہزار بار پل صراط سے گزرنا اس سے زیادہ آسان ہے کہ وہ ایک علمی مسئلہ سیکھے۔ فاسق کے لیے جہنم میں خیمہ نصب کرنا اس سے زیادہ محبوب ہے کہ وہ کسی ایک علمی مسئلہ پر عمل پیرا ہو۔
6) بندہ کتنا ہی کامل علم حاصل کر لے، علم الٰہی کے مقابلے میں وہ جاہل ہی ہے۔ اس لیے اسے چاہیے کہ وہ ہمیشہ یہ سمجھے کہ میں کچھ نہیں جانتا۔
7) حضرت محمد بن فضل علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ علوم تین طرح کے ہیں: علم من اللہ (علم شریعت)، علم مع اللہ (علم طریقت)، علم بااللہ (علم معرفت)۔

تصوف

اہل علم کی ایک جماعت کہتی ہے کہ صوفی کو اس لیے صوفی کہا جاتا ہے کہ وہ وہ صوف (پشمینہ) کے کپڑے پہنتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ اول صف میں ہوتے ہیں اور ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ یہ اصحاب صفہ کی نیابت کرتے ہیں۔

ایک بزرگ نے فرمایا کہ “مَن صَافَاہُ الْحُبَّ فَھُوَ صَافٍ وَمَن صَافَاہُ الْحَبِیْبَ فَھُوَ صُوْفِیٌّ” جس کی محبت پاک و صاف ہے وہ صافی ہے اور جو دوست میں مستغرق ہوکر اس کے غیر سے بری ہو، وہ صوفی ہے۔

تصوف کو ماننے والوں اور اس پر عمل کرنے والوں کی قسمیں:

1) صوفی وہ ہے جو خود کو فنا کر کے حق کے ساتھ مل جائے اور خواہشات نفسانیہ کو مار کر حقیقت سے پیوستہ ہو جائے۔
2) متصوف وہ ہے جو ریاضت و مجاہدے کے ذریعہ اس مقام کی طلب کرے اور وہ اس مقام کی طلب و حصول میں صادق و راست باز رہے۔
3) مستصوف وہ ہے جو دنیاوی عزت و منزلت اور مال و دولت کی خاطر خود کو ایسا بنا لے اور اسے مذکورہ منازل و مقامات کی کچھ خبر نہ ہو۔

حضرت ابو الحسن نوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ “اَلْتَّصَوُّفُ تَرْکُ کُلِِّ حَظٍّ النَّفْسِ” تمام نفسانی لذات و حظوظ سے دست کشی کا نام تصوف ہے۔

امام محمد باقر سلام اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ “اَلْتَّصَوُّفُ خُلْقٌ فَمَنْ زَادَ عَلَیکَ فِی الْخُلْقِ زَادَ عَلَیکَ فِی الْتَّصَوُّفِ” تصوف پاکیزہ اخلاق کا نام ہے، جس کے جتنے پاکیزہ اخلاق ہوں گے اتنا ہی وہ صوفی ہوگا۔

حضرت شبلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ”اَلصُّوْفِیُّ لَا یَرٰی فِی الدَّارَیْنِ مَعَ اللّٰہِ غَیْرَ اللّٰہِ” صوفی وہ ہے جو دونوں جہان میں بجز ذات الٰہی کے کچھ نہ دیکھے۔

حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ تصوف کی بنیاد آٹھ خصلتوں پر ہے۔ یہ آٹھ خصلتیں آٹھ نبیوں کی اقتداء میں ہیں۔ سخاوت (حضرت ابرہیم علیہ السلام)، رضا (حضرت اسماعیل علیہ السلام)، صبر (حضرت ایوب علیہ السلام)، اشارہ (حضرت زکریا علیہ السلام)، غربت (حضرت یحییٰ علیہ السلام)، گدڑی (حضرت موسیٰ علیہ السلام)، سیاحت (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) اور فقر (سید دو عالم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔

حضرت علی بن بندار نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اَلْتَّصَوُّفُ اِسْقَاطُ الرُّؤْیَۃِ لِلْحَقِّ ظَاھِرًا وَ بَاطِنًا تصوف یہ ہے کہ صوفی اپنے ظاہر و باطن میں حق کی خاطر خود کو نہ دیکھے۔

حضرت محمد بن عمر بن احمد مقری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ؛ اَلْتَّصَوُّفُ اِسْتِقَامَۃُ الْاَحْوَالِ مَعَ الْحَقِّ ۔ حق کے ساتھ احوال کی استقامت کا نام تصوف ہے۔

حضرت ابو حفص حداد نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے کہ “تصوف سرا سر ادب ہے”

حضرت ابو الحسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ؛ لَیْسَ التَّصَوُّفُ رَسُوْمًا وَلَا عُلُوْمًا وَلٰکِنَّہٗ اَخْلَاقٌ ۔ تصوف رسم و علم کا نام نہیں بلکہ وصف و اخلاق کا نام ہے۔

حضرت مرتعش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ؛ اَلْتَّصَوُّفُ حُسْنُ الْخُلُق ۔ نیک خصائل کا نام تصوف ہے۔

حضرت ابو علی قزوینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ؛ اَلْتَّصَوُّفُ ھُوَ الْاَخْلَاقُ الرَّضِیَّۃُ۔ پسندیدہ اور محمودہ افعال و اخلاق کا نام تصوف ہے۔

حضرت ابو الحسن نوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ؛ اَلْتَّصَوُّفُ ھُوَ حُرِیَّۃٌ وَالْفَتْوَۃُ وَ تَرْکُ التَّکَلُّفِ وَالسَّخَأ وَبَذْلُ الدُّنْیَا۔ یعنی نفس اور حرص و ہوا کی غلامی سے آزادی پانے، باطل کے مقابلہ میں جرأت و مردانگی دکھانے، دنیاوی تکلفات کو ترک کر دینے، اپنے مال کو دوسروں پر صرف کرنے، اور دنیا کو دوسروں کے لیے چھوڑ دینے کا نام تصوف ہے۔

کشف المحجوب از سید علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ

حقیقت رضا

حضرت حارث محاسبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ “اَلرِّضَا سُکُوْنُ الْقَلْبِ تَحْتَ مَجَارِی الْاَحْکَامِ” احکام الٰہی کے اجراء پر سکون قلب کا نام رضا ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ذَاقَ طَعْمَ الْاِیْمَانِ مَن رَضِیَ بِاللّٰہِ رَبًّا اس نے ایمان کا ذائقہ پا لیا جو اللہ کے رب ہونے پر راضی ہو گیا۔

امیر المؤمنین حضرت امام حسن علیہ السّلام کے آگے حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول رکھا گیا کہ اَلْفَقْرُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنَ الْغِنَاءِ وَالسُّقْمُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنَ الصِّحَّتِ میرے نزدیک مفلسی تونگری سے اور بیماری صحت مندی سے زیادہ محبوب ہے۔ حضرت امام حسن علیہ السّلام نے فرمایا: رَحِمَ اللّٰہُ اَبَا ذَرٍّ اَمَّا اَنَا اَقُوْلُ مَن اَشْرَفَ عَلٰی حُسْنِ اِخْتِیَارِ اللّٰہِ لَہُ لَمْ یَتَمَنَّ غَیْرَ مَا اَخْتَارَ اللّٰہُ لَہُ اللہ تعالیٰ ابوذر پر رحم فرمائے میں تو یہ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے بندے کے لیے جو اختیار فرمایا ہے بندہ خدا کے اختیار کردہ حالت کے سوا کسی اور حالت کی آرزو نہ کرے، اللہ تعالیٰ بندے کے لیے جو پسند فرمائے بندہ اسی کو چاہے۔

رضا بندے کو غفلت سے چھڑاتی اور غموں کے پنجوں سے بچاتی ہے اور غیر کے اندیشے کو دل سے نکالتی اور تکلیفوں کی بندشوں سے نجات دیتی ہے کیونکہ رضا کی صفت ہی آزاد کرنا ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مَن لَّم یَرْضِ بِاللّٰہِ بِقَضَائِهٖ شَغَلَ قَلْبُهٗ وَتَعِبَ بَدَنُهٗ جو اللہ کی رضا اور اس کی قضا پر راضی نہ ہو اس نے اپنے دل کو تقدیر و اسباب میں مشغول کرکے بدن کو سختی میں ڈال دیا۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ایک دعا میں فرمایا؛ اَسْاَلُکَ اَلرِّضَا بَعْدَ الْقَضَاءِ میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں کہ نزول قضا کے بعد مجھے راضی رکھنا۔

حضرت عتبۃ الغلام رات بھر نہیں سوئے اور دن چڑھے تک یہی کہتے رہے کہ اِن تُعَذِّبْنِی فَاَنَا لَکَ مُحِبٌّ وَاِنْ تَرْحَمْنِیْ فَاَنَا لَکَ مُحِبٌّ اگر تو مجھے عذاب میں ڈال دے یا رحمت کی چادر میں ڈھانپ لے، دونوں حالتوں میں میں تجھ سے محبت کرتا رہوں گا۔

رضا محبت کا نتیجہ ہے اور محبت کرنے والا، محبوب کے ہر فعل پر راضی رہتا ہے۔

کشف المحجوب از سید علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ

سیدنا ابو حفص عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

آپ کا قول ہے کہ “اَلْعُزْلَۃُ رَاحَۃٌ مِّنْ خُلَفَاءِ السُّوءِ” بدوں کی ہم نشینی سے گوشہ نشینی میں چین و راحت ہے۔

اسی طرح آپ نے فرمایا: “دَارٌ اُسِّسَت عَلَی الْبَلْوٰی بِلَا بَلْوٰی مَحَالٌ” دنیا ایسا گھر ہے جس کی بنیاد بلاؤں پر رکھی گئی ہے محال ہے کہ بغیر بلا کے وہ رہ سکے۔

(کشف المحجوب از سید علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ)

یکم محرم الحرام۔ یومِ شہادت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔

حقیقی منزل

ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ وہ اس دنیا سے کامیاب ہو کر لوٹے اور جب وہ مرے تو اسے یہ اطمینان اور سکون ہو کہ اس نے اپنی حقیقی منزل کو پا لیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کی حقیقی منزل کیا ہے؟

حقیقی منزل:

انسان کی حقیقی منزل یہ ہے کہ وہ اس مقصدِ حیات کو پانے میں کامیاب ہو جائے کی جس مقصد کی خاطر اللہ رب العزت نے اسے پیدا کیا ہے۔

مقصدِ حیات کیا ہے؟

انسان کی زندگی کا واحد مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک اللہ رب العزت کی رضا و خوشنودی کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔

حقیقی کامیابی کیا ہے؟

جو انسان اپنے حقیقی مقصدِ حیات (یعنی اپنی منزل) کو پہچان لے اور اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے وہ کامیاب ہے۔ اور اگر کوئی شخص شخص ساری زندگی اپنے اصل مقصود کو ہی نہ پہچان سکے تو دنیوی زندگی میں جو مرضی حاصل کر لے وہ ناکام و نامراد ہے۔

منزل تک پہنچنے کا راستہ:

ہر منزل تک پہنچنے کا کوئی نہ کوئی راستہ ہوتا ہے۔ حقیقی منزل (مقصدِ حیات) تک پہنچنے کے راستے کو صراطِ مستقیم کہتے ہیں۔ جس کی ہدایت کے لیے ہم ہر نماز میں سورۃ الفاتحہ میں اللہ رب العزت سے دعا کرتے ہیں۔

صراطِ مستقیم کون سا راستہ ہے؟

صراطِ مستقیم اللہ رب العزت کے انعام یافتہ بندوں کا راستہ ہے۔ ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ رب العزت نے انعام فرمایا ہے۔ اور یہ ان لوگوں کا راستہ نہیں ہے جو گمراہ ہوئے یا جن پر اللہ رب العزت کا غضب ہوا۔

راستہ تاریک کب ہوتا ہے؟

جب انسان گناہ کرتا ہے، ظلم کرتا ہے یا اللہ رب العزت کے احکامات کی نافرمانی کرتا ہے تو اس کا راستہ تاریک ہو جاتا ہے۔ جب راستہ تاریک ہوتا ہے تو انسان سفر نہیں کر سکتا جس کی وجہ سے وہ منزل تک نہیں پہنچ پاتا۔

راستہ (صراطِ مستقیم) روشن کیسے ہوتا ہے؟

جب انسان اللہ رب العزت کے احکامات پر عمل کرتا ہے، نیک اعمال کرتا ہے، برے اعمال سے پچتا ہے تو اس سے انسان کو نور ملتا ہے۔ اس نور سے انسان کا راستہ روشن ہوتا ہے۔ جب راستہ روشن ہوتا ہے تو واضح دکھائی دیتا ہے۔ جب راستہ واضح دکھائی دیتا ہے تو انسان کا سفر شروع ہوتا ہے اور بالآخر وہ اپنی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔

یہی وہ نور ہے جس کی روشنی میں انسان کو قیامت کے دن جنت میں لے جانے والا راستہ صاف دکھائی دے گا۔ اور اسی نور کی روشنی میں سفر کرتے ہوئے بندۂِ مومن جنت میں داخل ہو جائے گا۔

القرآن – سورۃ نمبر 57 الحديد، آیت نمبر 12
يَوۡمَ تَرَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ يَسۡعٰى نُوۡرُهُمۡ بَيۡنَ اَيۡدِيۡهِمۡ وَبِاَيۡمَانِهِمۡ بُشۡرٰٮكُمُ الۡيَوۡمَ جَنّٰتٌ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا‌ؕ ذٰلِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ‌ۚ‏ ۞
(اے حبیب!) جس دن آپ (اپنی امّت کے) مومن مَردوں اور مومن عورتوں کو دیکھیں گے کہ اُن کا نور اُن کے آگے اور اُن کی دائیں جانب تیزی سے چل رہا ہوگا (اور اُن سے کہا جائے گا:) تمہیں بشارت ہو آج (تمہارے لئے) جنتیں ہیں جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں (تم) ہمیشہ ان میں رہو گے، یہی بہت بڑی کامیابی ہے،

جن لوگوں نے اس دنیا میں رہتے ہوئے نیک اعمال کا نور جمع نہیں کیا ہوگا وہ قیامت کے اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے جہنم کے گڑھے میں جاگریں گے۔

القرآن – سورۃ نمبر 57 الحديد، آیت نمبر 13
يَوۡمَ يَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَالۡمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوا انْظُرُوۡنَا نَقۡتَبِسۡ مِنۡ نُّوۡرِكُمۡ‌ۚ قِيۡلَ ارۡجِعُوۡا وَرَآءَكُمۡ فَالۡتَمِسُوۡا نُوۡرًاؕ فَضُرِبَ بَيۡنَهُمۡ بِسُوۡرٍ لَّهٗ بَابٌؕ بَاطِنُهٗ فِيۡهِ الرَّحۡمَةُ وَظَاهِرُهٗ مِنۡ قِبَلِهِ الۡعَذَابُؕ ۞
جس دن منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں سے کہیں گے: ذرا ہم پر (بھی) نظرِ (التفات) کر دو ہم تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں۔ ان سے کہا جائے گا: تم اپنے پیچھے پلٹ جاؤ اور (وہاں جاکر) نور تلاش کرو (جہاں تم نور کا انکار کرتے تھے)، تو (اسی وقت) ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا، اس کے اندر کی جانب رحمت ہوگی اور اس کے باہر کی جانب اُس طرف سے عذاب ہوگا،

القرآن – سورۃ نمبر 57 الحديد، آیت نمبر 14
يُنَادُوۡنَهُمۡ اَلَمۡ نَكُنۡ مَّعَكُمۡ‌ؕ قَالُوۡا بَلٰى وَلٰـكِنَّكُمۡ فَتَنۡتُمۡ اَنۡفُسَكُمۡ وَ تَرَبَّصۡتُمۡ وَارۡتَبۡتُمۡ وَغَرَّتۡكُمُ الۡاَمَانِىُّ حَتّٰى جَآءَ اَمۡرُ اللّٰهِ وَ غَرَّكُمۡ بِاللّٰهِ الۡغَرُوۡرُ ۞
وہ (منافق) اُن (مومنوں) کو پکار کر کہیں گے: کیا ہم (دنیا میں) تمہاری سنگت میں نہ تھے؟ وہ کہیں گے: کیوں نہیں! لیکن تم نے اپنے آپ کو (منافقت کے) فتنہ میں مبتلا کر دیا تھا اور تم (ہمارے لئے برائی اور نقصان کے) منتظر رہتے تھے اور تم (نبوّتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دینِ اسلام میں) شک کرتے تھے اور باطل امیدوں نے تمہیں دھوکے میں ڈال دیا، یہاں تک کہ اللہ کا اَمرِ (موت) آپہنچا اور تمہیں اللہ کے بارے میں دغا باز (شیطان) دھوکہ دیتا رہا۔

راستے میں پیش آنے والی رکاوٹیں:

جیسے راستے میں بعض اوقات ڈاکوؤں اور لٹیروں سے واسطہ پڑتا ہے جو انسان کو گمراہ کر دیتے ہیں اسی طرح حقیقی منزل تک پہنچانے والے راستے میں بھی کچھ دشمن، ڈاکو اور لٹیرے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کی پہچان ضروری ہے تاکہ انسان ان سے اپنی حفاظت کر سکے۔

القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 16
قَالَ فَبِمَاۤ اَغۡوَيۡتَنِىۡ لَاَقۡعُدَنَّ لَهُمۡ صِرَاطَكَ الۡمُسۡتَقِيۡمَۙ‏ ۞
اس (ابلیس) نے کہا: پس اس وجہ سے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے (مجھے قَسم ہے کہ) میں (بھی) ان (افرادِ بنی آدم کو گمراہ کرنے) کے لئے تیری سیدھی راہ پر ضرور بیٹھوں گا (تآنکہ انہیں راہِ حق سے ہٹا دوں)،

اس راستے میں انسان کے چار دشمن ہیں:

1) شیطان
2) نفسِ امارہ
3) محبتِ دنیا
4) شیطان کی اتباع کرنے والے اور محبتِ دنیا میں گرفتار لوگ

راستے میں انسان کے مددگار اور دوست:

1) اللہ رب العزت
2) حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
3) اللہ رب العزت کے انعام یافتہ بندے

حاصلِ کلام:

ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی انسان اپنی حقیقی منزل کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی ذات کو ظلم، گناہ اور معصیت سے پاک کرلے۔ کیونکہ جب تک وہ اپنی ذات کو ظلم کے اندھیروں سے نہیں بچاتا وہ منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔

ظلم کے ہوتے ہوئے نہ انسان کی ذات میں کوئی تبدیلی واقع ہو سکتی ہے اور نہ معاشرے کے اندر کوئی تبدیلی واقع ہو سکتی ہے۔ کیونکہ ظلم اندھیرا ہے (حدیثِ رسول ﷺ)، جہاں اندھیرا ہو وہاں راستہ نظر نہیں آتا اور جب راستہ نظر نہ آئے تو منزل نہیں ملتی۔

ظلم، عدل، اور احسان

اِنَّ اللّٰهَ يَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَالۡاِحۡسَانِ وَاِيۡتَآىِٕ ذِى الۡقُرۡبٰى وَيَنۡهٰى عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَالۡمُنۡكَرِ وَالۡبَغۡىِ‌ۚ يَعِظُكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَذَكَّرُوۡنَ ۞

ظلم:

و الظلم عند اھل اللغۃ و کثیر من العلماء وَضْعُ الشَّیئِ فی غیر موضِعِہِ المختصِّ بہ اِمَّا بنقصانٍ او بزیادۃٍ۔ و اما بعُدُولٍ عن وقتہ او مکانہ۔ (المفردات، راغب اصفہانی)

اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کے صحیح وقت اور اصلی جگہ سے ہٹا کر۔

القرآن – سورۃ نمبر 49 الحجرات، آیت نمبر 11
وَمَنۡ لَّمۡ يَتُبۡ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ۞
اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 18 الكهف، آیت نمبر 59
وَتِلۡكَ الۡقُرٰٓى اَهۡلَكۡنٰهُمۡ لَمَّا ظَلَمُوۡا وَجَعَلۡنَا لِمَهۡلِكِهِمۡ مَّوۡعِدًا ۞
یہ عذاب رسیدہ بستیاں تمہارے سامنے موجود ہیں انہوں نے جب ظلم کیا تو ہم نے انہیں ہلاک کر دیا، اور ان میں سے ہر ایک کی ہلاکت کے لیے ہم نے وقت مقرر کر رکھا تھا۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2447
عبداللہ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
الظُّلْمُ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
ظلم قیامت کے دن اندھیرے ہوں گے۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 5124
وَعَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «إِن اللَّهَ لَيُمْلِي لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ يفلته» ثمَّ يقْرَأ (وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظالمة)الْآيَة. مُتَّفق عَلَيْهِ

ابوموسی ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ بے شک اللہ ظالم کو ڈھیل دیتا رہتا ہے لیکن وہ جب اسے پکڑتا ہے تو پھر اسے چھوڑتا نہیں۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:’’ تیرے رب کی پکڑ اسی طرح ہوتی ہے جب وہ بستی کے ظالموں کو پکڑتا ہے۔‘‘ متفق علیہ۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 5127
وَعَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ؟» . قَالُوا: الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ. فَقَالَ: «إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي مَنْ يَأْتِي يَوْم الْقِيَامَة بِصَلَاة وَصِيَام وَزَكَاة وَيَأْتِي وَقَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا. وَأَكَلَ مَالَ هَذَا. وَسَفَكَ دَمَ هَذَا وَضَرَبَ هَذَا فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يَقْضِيَ مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ طُرح فِي النَّار» . رَوَاهُ مُسلم

ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا، جس شخص کے پاس درہم ہوں نہ مال و متاع، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ میری امت میں سے مفلس وہ شخص ہے جو روز قیامت نماز، روزے اور زکوۃ لے کر آئے گا اور وہ بھی آ جائے گا جسے اس نے گالی دی ہو گی، جس کسی پر بہتان لگایا ہو گا، جس کسی کا مال کھایا ہو گا، جس کسی کا خون بہایا ہو گا اور جس کسی کو مارا پیٹا ہو گا، اس (مظلوم) کو اس کی نیکیوں میں سے نیکیاں دے دی جائیں گی، اور اگر اس کے ذمے حقوق کی ادائیگی سے پہلے ہی اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو ان (حق داروں) کے گناہ لے کر اس شخص پر ڈال دیے جائیں گے پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘ رواہ مسلم۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2168
عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ أَيُّهَا النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ هَذِهِ الْآيَةَ:‏‏‏‏ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ سورة المائدة آية 105 وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابٍ مِنْهُ .

ابوبکر صدیق ؓ کہتے ہیں کہ لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو «يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسکم لا يضرکم من ضل إذا اهتديتم» اے ایمان والو! اپنی فکر کرو گمراہ ہونے والا تمہیں کوئی ضرر نہیں پہنچائے گا جب تم نے ہدایت پالی (المائدہ: ١٠٥ ) اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: جب لوگ ظالم کو دیکھ کر اس کا ہاتھ نہ پکڑیں (یعنی ظلم نہ روک دیں) تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا عذاب لوگوں پر عام کر دے۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 4006
وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ،‏‏‏‏ وَقَالَ:‏‏‏‏ لَا،‏‏‏‏ حَتَّى تَأْخُذُوا عَلَى يَدَيِ الظَّالِمِ،‏‏‏‏ فَتَأْطِرُوهُ عَلَى الْحَقِّ أَطْرًا.

ابوعبیدہ (عامر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر آپ بیٹھ گئے اور فرمایا: تم اس وقت تک عذاب سے محفوظ نہیں رہ سکتے جب تک کہ تم ظالم کو ظلم کرتے دیکھ کر اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے انصاف کرنے پر مجبور نہ کر دو ۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 5126
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلِمَةٌ لِأَخِيهِ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَيْءٍ مِنْهُ الْيَوْمَ قَبْلَ أَنْ لَا يَكُونَ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلِمَتِهِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ» . رَوَاهُ البُخَارِيّ

ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جس شخص پر اپنے (مسلمان) بھائی کا، اس کی عزت سے متعلق یا کسی اور چیز سے متعلق کوئی حق ہو تو وہ (دنیا میں)، اس سے معافی تلافی کروا لے قبل اس کے کہ وہ دن آ جائے جب اس کے پاس درہم و دینار نہیں ہوں گے، اگر اس کے پاس عمل صالح ہوں گے تو وہ اس سے اس کے ظلم کے بقدر لے لیے جائیں گے، اور اگر اس کی نیکیاں نہیں ہوں گی تو حق دار کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیے جائیں گے۔‘‘ رواہ البخاری۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 5129
وَعَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَكُونُوا إِمَّعَةً تَقُولُونَ: إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَحْسَنَّا وَإِنْ ظَلَمُوا ظَلَمْنَا وَلَكِنْ وَطِّنُوا أَنْفُسَكُمْ إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَنْ تُحْسِنُوا وإِن أساؤوا فَلَا تظلموا . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ. وَيصِح وَقفه على ابْن مَسْعُود

حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ امّعہ نہ بنو، (وہ اس طرح کہ) تم کہو: اگر لوگوں نے اچھا سلوک کیا تو ہم بھی اچھا سلوک کریں گے، اور اگر انہوں نے ظلم کیا تو ہم بھی ظلم کریں گے، بلکہ تم اپنے آپ سے عزم کرو کہ اگر لوگوں نے اچھا سلوک کیا تو تم بھی اچھا سلوک کرو گے اور اگر انہوں نے برا سلوک کیا تو تم ظلم نہیں کرو گے۔‘‘ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔

عدل و انصاف:

العدالۃ و المعادلۃ: لفظ یقتضی معنی المساواۃ۔ فان العدل ھو المساواۃ فی المکافاۃ ان خیرا فخیر، و ان شرا فشر۔ و الاحسان ان یقابل الخیر باکثر منہ، و الشر باقل منہ۔ (المفردات، راغب اصفہانی)

العدالۃ و المعادلۃ کے لفظ میں مساوات کے معنی پائے جاتے ہیں۔ کسی چیز کے برابر اس کا بدلہ دینے کا نام عدل ہے یعنی نیکی کا بدلہ نیکی سے اور برائی کا بدلہ برائی سے۔ نیکی کے مقابلے میں زیادہ نیکی اور برائی کے مقابلے میں مساحمت سے کام لینے کو احسان کہتے ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 16 النحل، آیت نمبر 90
اِنَّ اللّٰهَ يَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَالۡاِحۡسَانِ وَاِيۡتَآىِٕ ذِى الۡقُرۡبٰى وَيَنۡهٰى عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَالۡمُنۡكَرِ وَالۡبَغۡىِ‌ۚ يَعِظُكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَذَكَّرُوۡنَ ۞
بیشک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو،

القرآن – سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 8
وَلَا يَجۡرِمَنَّكُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰٓى اَ لَّا تَعۡدِلُوۡا‌ ؕ اِعۡدِلُوۡا هُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰى‌۔
اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 58
وَاِذَا حَكَمۡتُمۡ بَيۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡكُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ‌ ؕ
اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔

احسان:

الاحسان فوق العدل۔ و ذاک ان العدل ھو ان یعطی ما علیہ، و یاخذ ما لہ۔ و الاحسان ان یعطی اکثر مما علیہ و یاخذ اقل مما لہ۔ فا لاحسان زائد علی العدل فتحری العدل واجب و تحری الاحسان ندب و تطوع۔ (المفردات، راغب اصفہانی)

احسان عدل سے بڑھ کر ہے۔ کیونکہ دوسرے کا حق پورا ادا کرنا اور اپنا حق پورا لینے کا نام عدل ہے۔ اور احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے۔ لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا واجب ہے مگر احسان مندوب (یعنی فرض سے تجاوز کر کے تطوع بجا لانا) ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 55 الرحمن، آیت نمبر 60
هَلۡ جَزَآءُ الْاِحۡسَانِ اِلَّا الۡاِحۡسَانُ‌ۚ ۞
احسان کا بدلہ احسان کے سوا کچھ نہیں ہے۔

وبالوالدین احساناً

القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 134
الَّذِيۡنَ يُنۡفِقُوۡنَ فِى السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ وَالۡكٰظِمِيۡنَ الۡغَيۡظَ وَالۡعَافِيۡنَ عَنِ النَّاسِ‌ؕ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ‌ۚ ۞
یہ وہ لوگ ہیں جو فراخی اور تنگی (دونوں حالتوں) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں، اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 29 العنكبوت، آیت نمبر 69
وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الۡمُحۡسِنِيۡنَ۞
اور بیشک اﷲ صاحبانِ احسان کو اپنی معیّت سے نوازتا ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 195
اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ ۞
بیشک اﷲ نیکوکاروں سے محبت فرماتا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 91
مَا عَلَى الۡمُحۡسِنِيۡنَ مِنۡ سَبِيۡلٍ‌ؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌۙ‏ ۞
نیکوکاروں (یعنی صاحبانِ احسان) پر الزام کی کوئی راہ نہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 125
وَمَنۡ اَحۡسَنُ دِيۡنًا مِّمَّنۡ اَسۡلَمَ وَجۡهَهٗ لِلّٰهِ وَهُوَ مُحۡسِنٌ۔
اور دینی اعتبار سے اُس شخص سے بہتر کون ہو سکتا ہے جس نے اپنا رُوئے نیاز اللہ کے لئے جھکا دیا اور وہ صاحبِ احسان بھی ہوا۔

ہلاکت و تباہی سے بچنے کا طریق بھی ‘احسان’ ہے:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 195
وَاَنۡفِقُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَلَا تُلۡقُوۡا بِاَيۡدِيۡكُمۡ اِلَى التَّهۡلُكَةِ ۖ ۛۚ وَاَحۡسِنُوۡا ۛۚ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ ۞
اور اﷲ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور نیکی اختیار کرو، بیشک اﷲ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہر شخص پر ہر عمل میں احسان کو واجب قرار دیا گیا ہے۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 5055
حضرت شداد بن اوس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ کَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلَی کُلِّ شَيْئٍ فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ وَلْيُحِدَّ أَحَدُکُمْ شَفْرَتَهُ فَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ۔
اللہ تعالیٰ نے ہر کام میں احسان فرض کیا ہے۔ جب بھی تم قتل کرو تو اچھی طرح قتل کرو اور جب بھی تم ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو اور تم میں سے ایک کو چاہئے کہ اپنی چھری کو تیز کرے اور اپنے جانور کو آرام دے۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 175
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُحْسِنْ إِلَی جَارِهِ۔
جو شخص اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے ہمسائے کے ساتھ احسان سے پیش آئے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1987
حضرت ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اتَّقِ اللَّهِ حَيْثُمَا كُنْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَتْبِعِ السَّيِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا، ‏‏‏‏‏‏وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ۔
تم جہاں بھی ہو اللہ سے ڈرتے رہو، گناہ کے بعد نیکی کیا کرو، وہ اسے مٹا دے گی اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آیا کرو۔

محرم الحرام 1445ھ

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 6135
سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں،
لَمَّا نزلت هَذِه الْآيَة [ندْعُ أبناءنا وأبناءكم] دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ: «اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أهل بَيْتِي» رَوَاهُ مُسلم

جب یہ آیت (نَدْعُ اَبْنَاءَ نَا وَ اَبْنَاءَ کُمْ) نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین ؓ کو بلایا اور فرمایا:’’ اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔‘‘ رواہ مسلم۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 6136
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں،
خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةً وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ فَدَخَلَ مَعَهُ ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا ثُمَّ جَاءَ عَلَيٌّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ قَالَ: [إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أهل الْبَيْت وَيُطَهِّركُمْ تَطْهِيرا] رَوَاهُ مُسلم

صبح کے وقت نبی ﷺ نکلے اس وقت آپ پر کالے بالوں سے بنی ہوئی نقش دار چادر تھی، اس دوران حسن بن علی ؓ تشریف لائے تو آپ نے انہیں اپنے ساتھ اس (چادر) میں داخل فرما لیا، پھر حسین ؓ آئے تو آپ نے انہیں بھی داخل فرما لیا، پھر فاطمہ ؓ آئیں تو آپ نے انہیں بھی داخل فرما لیا، پھر علی ؓ تشریف لائے تو آپ نے انہیں بھی داخل فرما لیا، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:’’ اللہ صرف یہی چاہتا ہے، اے اہل بیت! کہ وہ تم سے گناہ کی گندگی دور فرما دے اور تمہیں مکمل طور پر پاک صاف کر دے۔‘‘ رواہ مسلم۔

قرآن اور اہل سے جڑنے کی ترغیب:

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 6140
زید بن ارقم ؓ بیان کرتے ہیں، ایک روز مکہ اور مدینہ کے درمیان پانی کی جگہ پر خم نامی مقام پر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا، آپ ﷺ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، وعظ و نصیحت کی پھر فرمایا:’’

أمَّا بعدُ أَلا أيُّها النَّاس فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَنِي رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ: أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللَّهِ وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ وَرَغَّبَ فِيهِ ثُمَّ قَالَ: «وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي»

امابعد! لوگو! سنو! میں بھی انسان ہوں، قریب ہے کہ میرے رب کا قاصد آئے اور میں اس کی بات قبول کر لوں، میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، ان دونوں میں سے پہلی چیز اللہ کی کتاب ہے، اس میں ہدایت اور نور ہے، تم اللہ کی کتاب کو پکڑو اور اس سے تمسک اختیار کرو۔‘‘ آپ نے اللہ کی کتاب (پر عمل کرنے) پر ابھارا اور اس کے متعلق ترغیب دلائی، پھر فرمایا:’’ (دوسری چیز) میرے اہل بیت، میں اپنے اہل بیت کے متعلق تمہیں اللہ سے ڈراتا ہوں، اپنے اہل بیت کے متعلق میں تمہیں اللہ سے ڈراتا ہوں۔‘‘ رواہ مسلم۔

جنتی جوانوں کے سردار:

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 6163
ابوسعید ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شباب أهل الْجنَّة» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
حسن و حسین اہل جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ صحیح، رواہ الترمذی۔

محبت حسن و حسین باعث محبت خدا و مصطفیٰ ہے:

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 6165
وَعَن\nأسامةَ بنِ زيدٍ قَالَ: طَرَقْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي بَعْضِ الْحَاجَةِ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُشْتَمِلٌ عَلَى شَيْء وَلَا أَدْرِي مَا هُوَ فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنْ حَاجَتِي قُلْتُ: مَا هَذَا الَّذِي أَنْتَ مُشْتَمِلٌ عَلَيْهِ؟ فَكَشَفَهُ فَإِذَا الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ عَلَى وَرِكَيْهِ. فَقَالَ: «هَذَانِ ابْنَايَ وَابْنَا ابْنَتِي اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُمَا فأحبهما وَأحب من يحبهما» رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ

ترجمہ:
اسامہ بن زید ؓ بیان کرتے ہیں، ایک رات کسی ضرورت کے تحت میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، نبی ﷺ باہر تشریف لائے تو آپ کسی چیز کو چھپائے ہوئے تھے، میں نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا چیز تھی؟ جب میں اپنے کام سے فارغ ہوا تو میں نے عرض کیا: آپ نے یہ کیا چیز چھپا رکھی ہے؟ آپ نے کپڑا اٹھایا تو آپ کے دونوں کولہوں پر حسن و حسین ؓ تھے، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ یہ دونوں میرے بیٹے ہیں، اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں، اے اللہ! میں انہیں محبوب رکھتا ہوں، تو بھی ان سے محبت فرما، اور ان سے محبت رکھنے والے سے بھی محبت فرما۔‘‘ صحیح، رواہ الترمذی۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 6169
وَعَن يعلى بن مرَّة قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا حُسَيْنٌ سِبَطٌ مِنَ الأسباط» رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ\n

یعلی بن مرہ ؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں، جو شخص حسین سے محبت کرتا ہے تو اللہ اس سے محبت کرے اور حسین میری اولاد سے ہیں۔‘‘ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔

اہل بیت کی محبت راہ نجات ہے:

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 6183
ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: اس حال میں کہ وہ کعبہ کے دروازے کو پکڑے ہوئے تھے، میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:’’
أَلَا إِنَّ مِثْلَ أَهْلِ بَيْتِي فِيكُمْ مِثْلُ سَفِينَةِ نُوحٍ مَنْ رَكِبَهَا نَجَا وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا هلك» . رَوَاهُ أَحْمد

سن لو! تم میں میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہو گیا وہ نجات پا گیا اور جو اس سے رہ گیا وہ ہلاک ہو گیا۔‘‘

شہادتِ حسین علیہ السلام کی خبر حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود دی ہے:

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 6180
ام الفضل بنت حارث ؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا:

اللہ کے رسول! میں نے رات ایک عجیب سا خواب دیکھا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ وہ کیا ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: وہ بہت شدید ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ وہ کیا ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: میں نے دیکھا کہ گویا گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جو آپ کے جسم اطہر سے کاٹ کر میری گود میں رکھ دیا گیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ تم نے خیر دیکھی ہے، ان شاء اللہ فاطمہ بچے کو جنم دیں گی اور وہ تمہاری گود میں ہو گا۔‘‘ فاطمہ ؓ نے حسین ؓ کو جنم دیا اور وہ میری گود میں تھا جیسے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا۔ ایک روز میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے حسین ؓ کو آپ کی گود میں رکھ دیا۔ پھر میں کسی اور طرف متوجہ ہو گئی، اچانک دیکھا تو رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، وہ بیان کرتی ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے نبی! میرے والدین آپ پر قربان ہوں! آپ کو کیا ہوا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ جبریل ؑ میرے پاس تشریف لائے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ میری امت عنقریب میرے اس بیٹے کو شہید کر دے گی۔ میں نے کہا: اس (بچے) کو؟ انہوں نے کہا: ہاں! اور انہوں نے مجھے اس (جگہ) کی سرخ مٹی لا کر دی۔‘‘ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ۔

جامع ترمذی, حدیث نمبر: 3771
حضرت سلمیٰ کہتی ہیں:

قَالَتْ:‏‏‏‏ دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَوَهِيَ تَبْكِي، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَا يُبْكِيكِ ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعْنِي فِي الْمَنَامِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلَى رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ التُّرَابُ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَا لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ شَهِدْتُ قَتْلَ الْحُسَيْنِ آنِفًا. قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا غَرِيبٌ.

میں ام المؤمنین ام سلمہ ؓ کے پاس آئی، وہ رو رہی تھیں، میں نے پوچھا: آپ کیوں رو رہی ہیں؟ وہ بولیں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے (یعنی خواب میں) آپ کے سر اور داڑھی پر مٹی تھی، تو میں نے عرض کیا: آپ کو کیا ہوا ہے؟ اللہ کے رسول! تو آپ نے فرمایا: میں نے حسین کا قتل ابھی ابھی دیکھا ہے ۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 6181
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:

میں نے ایک روز نصف النہار کے وقت نبی ﷺ کو خواب میں دیکھا کہ آپ کے بال پراگندہ ہیں اور جسم اطہر غبار آلود ہے، آپ کے ہاتھ میں خون کی بوتل ہے، میں نے عرض کیا، میرے والدین آپ پر قربان ہوں، یہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ یہ حسین اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے، میں آج صبح سے اسے اکٹھا کر رہا ہوں۔‘‘ میں نے اس وقت کو یاد رکھا اور بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اسی وقت انہیں شہید کیا گیا تھا۔ دونوں احادیث کو بیہقی نے دلائل النبوۃ میں روایت کیا ہے اور آخری حدیث کو امام احمد نے بھی روایت کیا ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ و احمد۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3778
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ:

میں عبیداللہ بن زیاد کے پاس تھا کہ حسین ؓ کا سر لایا گیا تو وہ ان کی ناک میں اپنی چھڑی مار کر کہنے لگا میں نے اس جیسا حسین کسی کو نہیں دیکھا۔ تو میں نے کہا: سنو یہ اہل بیت میں رسول اللہ ﷺ سے سب سے زیادہ مشابہ تھے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3770
عبدالرحمٰن بن ابی نعم سے روایت ہے کہ اہل عراق کے ایک شخص نے ابن عمر ؓ سے مچھر کے خون کے بارے میں پوچھا جو کپڑے میں لگ جائے کہ اس کا کیا حکم ہے؟ تو ابن عمر ؓ نے کہا:

انْظُرُوا إِلَى هَذَا يَسْأَلُ عَنْ دَمِ الْبَعُوضِ وَقَدْ قَتَلُوا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، ‏‏‏‏‏‏وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ هُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْيَا . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا صَحِيحٌ۔

اس شخص کو دیکھو یہ مچھر کے خون کا حکم پوچھ رہا ہے! حالانکہ انہیں لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے نواسہ کو شہید کیا ہے، اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: حسن اور حسین ؓ یہ دونوں میری دنیا کے پھول ہیں ۔

مناقبِ اہلِ بیت علیہم السلام و رضوان اللہ علیہم اجمعین

القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى، آیت نمبر 23
قُلْ لَّاۤ اَسۡئَـــلُـكُمۡ عَلَيۡهِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّةَ فِى الۡقُرۡبٰى‌ؕ

فرما دیجئے: میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (اپنی اور اللہ کی) قرابت و قربت سے محبت (چاہتا ہوں)۔

الحديث رقم 5 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 47، الرقم : 2641۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : لَمَّانَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ : (قُلْ لاَّ أَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمًوَدَّةَ فِي الْقُرْبَي) قَالُوْا : يَارَسُوْلَ اللهِ، مَنْ قَرَابَتُکَ هَؤُلاءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ : عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ وَابْنَاهُمَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت : (قُلْ لاَّ أَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمًوَدَّةَ فِي الْقُرْبَي) نازل ہوئی تو صحابہ کرام نے عرض کیا :

یا رسول اللہ! آپ کی قرابت کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : علی، فاطمہ اور ان کے دو بیٹے (حسن و حسین)۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3786
عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ رَبِيبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا سورة الأحزاب آية 33 فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ،‏‏‏‏ وَحَسَنًا،‏‏‏‏ وَحُسَيْنًا فَجَلَّلَهُمْ بِكِسَاءٍ،‏‏‏‏ وَعَلِيٌّ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَجَلَّلَهُ بِكِسَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ:‏‏‏‏ وَأَنَا مَعَهُمْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَنْتِ عَلَى مَكَانِكِ وَأَنْتِ إِلَى خَيْرٍ . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَابِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي الْحَمْرَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَهَذَا غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ.
نبی اکرم ﷺ کے «ربيب» (پروردہ) عمر بن ابی سلمہ ؓ کہتے ہیں کہ جب آیت کریمہ «إنما يريد اللہ ليذهب عنکم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا» اے اہل بیت النبوۃ! اللہ چاہتا ہے کہ تم سے (کفر و شرک) کی گندگی دور کر دے، اور تمہاری خوب تطہیر کر دے (الاحزاب: ٣٣) ، نبی اکرم ﷺ پر ام سلمہ ؓ کے گھر میں اتریں تو آپ نے فاطمہ اور حسن و حسین ؓ کو بلایا اور آپ نے انہیں ایک چادر میں ڈھانپ لیا اور علی ؓ آپ کی پشت مبارک کے پیچھے تھے تو آپ نے انہیں بھی چادر میں چھپالیا، پھر فرمایا: «اللهم هؤلاء أهل بيتي فأذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيرا» اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں تو ان کی ناپاکی کو دور فرما دے اور انہیں اچھی طرح پاک کر دے ، ام سلمہ نے عرض کیا: اللہ کے نبی! میں بھی انہیں کے ساتھ ہوں، آپ نے فرمایا : تو اپنی جگہ پر رہ اور تو بھی نیکی پر ہے ۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 6135
سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں،
لَمَّا نزلت هَذِه الْآيَة [ندْعُ أبناءنا وأبناءكم] دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ: «اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أهل بَيْتِي» رَوَاهُ مُسلم

جب یہ آیت (نَدْعُ اَبْنَاءَ نَا وَ اَبْنَاءَ کُمْ) نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین ؓ کو بلایا اور فرمایا:’’ اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔‘‘ رواہ مسلم۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3787
زید بن ارقم ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي، ‏‏‏‏‏‏أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الْآخَرِ، ‏‏‏‏‏‏كِتَابُ اللَّهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي،‏‏‏‏ وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ، ‏‏‏‏‏‏فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا . قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ.
میں تم میں ایسی چیز چھوڑنے والا ہوں کہ اگر تم اسے پکڑے رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے: ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے اور وہ اللہ کی کتاب ہے گویا وہ ایک رسی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے، اور دوسری میری «عترت» یعنی میرے اہل بیت ہیں یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ یہ دونوں حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے، تو تم دیکھ لو کہ ان دونوں کے سلسلہ میں تم میری کیسی جانشینی کر رہے ہو۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3786
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ:
رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّتِهِ يَوْمَ عَرَفَةَ وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ الْقَصْوَاءِ يَخْطُبُ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ:‏‏‏‏ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا، ‏‏‏‏‏‏كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي۔
میں نے رسول اللہ ﷺ کو حجۃ الوداع میں عرفہ کے دن دیکھا، آپ اپنی اونٹنی قصواء پر سوار ہو کر خطبہ دے رہے تھے، میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا: اے لوگو! میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم اسے پکڑے رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے: ایک اللہ کی کتاب ہے دوسرے میری «عترت» یعنی اہل بیت ہیں۔

عَنِ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي تَارِکٌ فِيْکُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوْا إِنِ اتَّبَعْتُمُوْهُمَا، وَهُمَا : کِتَابُ اللهِ، وَأَهْلُ بَيْتِي عِتْرَتِي. ثُمَّ قَالَ : أَ تَعْلَمُوْنَ أَنِّي أَوْلَي بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ قَالُوْا : نَعَمْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيُّ مَوْلَاهُ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحٌ.
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے لوگو! میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جانے والا ہوں اور اگر تم ان کی اتباع کرو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے اور وہ دو چیزیں کتاب اللہ اور میرے اہل بیت ہیں پھر آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو میں مؤمنین کی جانوں سے بڑھ کر ان کو عزیز ہوں آپ ﷺ نے ایسا تین مرتبہ فرمایا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : ہاں یا رسول اللہ! تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس کا میں مولی ہوں علی بھی اس کا مولی ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3789
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَحِبُّوا اللَّهَ لِمَا يَغْذُوكُمْ مِنْ نِعَمِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحِبُّونِي بِحُبِّ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحِبُّوا أَهْلَ بَيْتِي لِحُبِّي . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
اللہ سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمتیں کھلا رہا ہے، اور محبت کرو مجھ سے اللہ کی خاطر، اور میرے اہل بیت سے میری خاطر ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3874
عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرٍ التَّيْمِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ دَخَلْتُ مَعَ عَمَّتِي عَلَى عَائِشَةَ،‏‏‏‏ فَسُئِلَتْ:‏‏‏‏ أَيُّ النَّاسِ كَانَ أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ فَاطِمَةُ ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ:‏‏‏‏ مِنَ الرِّجَالِ ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ زَوْجُهَا إِنْ كَانَ مَا عَلِمْتُ صَوَّامًا قَوَّامًا .
جمیع بن عمیر تیمی کہتے ہیں کہ میں اپنے چچا کے ساتھ عائشہ ؓ کے پاس آیا تو ان سے پوچھا گیا: لوگوں میں رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب کون تھا؟ تو انہوں نے کہا: فاطمہ، پھر پوچھا گیا: مردوں میں کون تھا؟ انہوں نے کہا: ان کے شوہر، یعنی علی، میں خوب جانتی ہوں وہ بہت روزہ دار اور تہجد گزار تھے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3782
براء ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حسن اور حسین ؓ کو دیکھا تو فرمایا:
اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا۔ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.

«اللهم إني أحبهما فأحبهما» اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان دونوں سے محبت فرما ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3784
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَامِلَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ عَلَى عَاتِقِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ نِعْمَ الْمَرْكَبُ رَكِبْتَ يَا غُلَامُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ وَنِعْمَ الرَّاكِبُ هُوَ۔

رسول اللہ ﷺ حسین بن علی ؓ کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے تو ایک شخص نے کہا: بیٹے! کیا ہی اچھی سواری ہے جس پر تو سوار ہے، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اور سوار بھی کیا ہی اچھا ہے ۔

جامع ترمذی, حدیث نمبر: 3772
انس بن مالک کہتے ہیں:
سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَيُّ أَهْلِ بَيْتِكَ أَحَبُّ إِلَيْكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ يَقُولُ لِفَاطِمَةَ:‏‏‏‏ ادْعِي لِيَ ابْنَيَّ ،‏‏‏‏ فَيَشُمُّهُمَا وَيَضُمُّهُمَا إِلَيْهِ.

رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ آپ کے اہل بیت میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: حسن اور حسین ؓ ، آپ فاطمہ ؓ سے فرماتے: میرے دونوں بیٹوں کو بلاؤ، پھر آپ انہیں چومتے اور انہیں اپنے سینہ سے لگاتے ۔

جامع ترمذی, حدیث نمبر: 3774
بریدہ ؓ کہتے ہیں کہ:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُنَا إِذْ جَاءَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ عَلَيْهِمَا قَمِيصَانِ أَحْمَرَانِ يَمْشِيَانِ وَيَعْثُرَانِ،‏‏‏‏ فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمِنْبَرِ فَحَمَلَهُمَا،‏‏‏‏ وَوَضَعَهُمَا بَيْنَ يَدَيْهِ،‏‏‏‏ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ صَدَقَ اللَّهُ إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ سورة التغابن آية 15 فَنَظَرْتُ إِلَى هَذَيْنِ الصَّبِيَّيْنِ يَمْشِيَانِ وَيَعْثُرَانِ،‏‏‏‏ فَلَمْ أَصْبِرْ حَتَّى قَطَعْتُ حَدِيثِي وَرَفَعْتُهُمَا .

رسول اللہ ﷺ ہمیں خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک حسن اور حسین ؓ دونوں سرخ قمیص پہنے ہوئے گرتے پڑتے چلے آ رہے تھے، آپ نے منبر سے اتر کر ان دونوں کو اٹھا لیا، اور ان کو لا کر اپنے سامنے بٹھا لیا، پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے «إنما أموالکم وأولادکم فتنة» تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں، میں نے ان دونوں کو گرتے پڑتے آتے ہوئے دیکھا تو صبر نہیں کرسکا، یہاں تک کہ اپنی بات روک کر میں نے انہیں اٹھا لیا۔

’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم جب قریش کی جماعت سے ملتے اور وہ باہم گفتگو کررہے ہوتے تو گفتگو روک دیتے ہم نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں اس امر کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا : لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جب میرے اہل بیت سے کسی کو دیکھتے ہیں تو گفتگو روک دیتے ہیں؟ اللہ رب العزت کی قسم! کسی شخص کے دل میں اس قت تک ایمان داخل نہیں ہوگا جب تک ان سے اللہ تعالیٰ کے لیے اور میرے قرابت کی وجہ سے محبت نہ کرے۔ اسے امام ابن ماجہ اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

’’حضرت عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی جان سے بھی محبوب تر نہ ہو جاؤں اور میرے اھلِ بیت اسے اس کے اہل خانہ سے محبوب تر نہ ہو جائیں اور میری اولاد اسے اپنی اولاد سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائے اور میری ذات اسے اپنی ذات سے محبوب تر نہ ہو جائے۔‘‘

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3768
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْحَسَنُ،‏‏‏‏ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ .
حسن اور حسین اہل جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3781
حذیفہ ؓ کہتے ہیں کہ:
سَأَلَتْنِي أُمِّي مَتَى عَهْدُكَ ؟ تَعْنِي بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَا لِي بِهِ عَهْدٌ مُنْذُ كَذَا وَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏فَنَالَتْ مِنِّي، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لَهَا:‏‏‏‏ دَعِينِي آتِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُصَلِّيَ مَعَهُ الْمَغْرِبَ وَأَسْأَلُهُ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لِي وَلَكِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّيْتُ مَعَهُ الْمَغْرِبَ فَصَلَّى حَتَّى صَلَّى الْعِشَاءَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ انْفَتَلَ فَتَبِعْتُهُ،‏‏‏‏ فَسَمِعَ صَوْتِي،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ هَذَا حُذَيْفَةُ ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا حَاجَتُكَ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ وَلِأُمِّكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ هَذَا مَلَكٌ لَمْ يَنْزِلِ الْأَرْضَ قَطُّ قَبْلَ هَذِهِ اللَّيْلَةِ اسْتَأْذَنَ رَبَّهُ أَنْ يُسَلِّمَ عَلَيَّ،‏‏‏‏ وَيُبَشِّرَنِي بِأَنَّ فَاطِمَةَ سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ . قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ.
مجھ سے میری والدہ نے پوچھا: تو نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حال ہی میں کب گئے تھے؟ میں نے کہا: اتنے اتنے دنوں سے میں ان کے پاس نہیں جاسکا ہوں، تو وہ مجھ پر خفا ہوئیں، میں نے ان سے کہا: اب مجھے نبی اکرم ﷺ کے پاس جانے دیجئیے میں آپ کے ساتھ نماز مغرب پڑھوں گا اور آپ سے میں اپنے اور آپ کے لیے دعا مغفرت کی درخواست کروں گا، چناچہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور آپ کے ساتھ مغرب پڑھی پھر آپ (نوافل) پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ نے عشاء پڑھی، پھر آپ لوٹے تو میں بھی آپ کے ساتھ پیچھے پیچھے چلا، آپ نے میری آواز سنی تو فرمایا: کون ہو؟ حذیفہ؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، حذیفہ ہوں، آپ نے فرمایا: «ما حاجتک غفر اللہ لک ولأمك» کیا بات ہے؟ بخشے اللہ تمہیں اور تمہاری ماں کو (پھر) آپ نے فرمایا: یہ ایک فرشتہ تھا جو اس رات سے پہلے زمین پر کبھی نہیں اترا تھا، اس نے اپنے رب سے مجھے سلام کرنے اور یہ بشارت دینے کی اجازت مانگی کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین ؓ اہل جنت کے جوانوں (یعنی جو دنیا میں جوان تھے ان) کے سردار ہیں۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3769
اسامہ بن زید ؓ کہتے ہیں کہ میں ایک رات کسی ضرورت سے نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، آپ ﷺ نکلے تو آپ ایک ایسی چیز لپیٹے ہوئے تھے جسے میں نہیں جان پا رہا تھا کہ کیا ہے، پھر جب میں اپنی ضرورت سے فارغ ہوا تو میں نے عرض کیا: یہ کیا ہے جس کو آپ لپیٹے ہوئے ہیں؟ تو آپ نے اسے کھولا تو وہ حسن اور حسین ؓ تھے، آپ ﷺ کے کولہے سے چپکے ہوئے تھے، پھر آپ نے فرمایا:
هَذَانِ ابْنَايَ وَابْنَا ابْنَتِيَ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُمَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَحِبَّهُمَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَحِبَّ مَنْ يُحِبُّهُمَا .
یہ دونوں میرے بیٹے اور میرے نواسے ہیں، اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان سے محبت کر اور اس سے بھی محبت کر جو ان سے محبت کرے ۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6256
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت حسن کے لئے فرمایا:
اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ وَأَحْبِبْ مَنْ يُحِبُّهُ
اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر اور تو اس سے محبت کر جو اس سے محبت کرے۔

کنزالعمال، حدیث نمبر: 34226
أتاني ملك فسلم علي، نزل من السماء لم ينزل قبلها، فبشرني أن الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة وأن فاطمة سيدة نساء أهل الجنة. ” ابن عساكر – عن حذيفة”.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک فرشتہ میرے پاس آیا پس اس نے مجھے اسلام کیا جو آسمان سے اترا اور اس سے پہلے کبھی نہیں اتر اس نے مجھے خوشخبری دی کہ حسن اور حسین ؓ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں اور بیشک فاطمہ ؓ جنتیوں کے عورتوں کی سردار ہیں۔ (ابن عساکر بروایت حذیفہ)

کنزالعمال، حدیث نمبر: 34256
ابناي هذان الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة وأبوهما خير منهما. ” ابن عساكر – عن علي وعن ابن عمر”.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے یہ دوبیٹے یعنی حسن اور حسین ؓ جنتیوں کے نوجوانوں کے سردار ہیں اور ان کے والد ان دونوں سے بہتر ہیں۔ (تاریخ ابن عساکربروایت علی اور بروایت ابن عمر)

کنزالعمال، حدیث نمبر: 34258
“أما رأيت العارض الذي عرض لي قبيل؟ هو ملك من الملائكة لم يهبط إلى الأرض قط قبل هذه الليلة، استأذن ربه عز وجل أن يسلم علي ويبشرني أن الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة وأن فاطمة سيدة نساء أهل الجنة.” حم، ت، ن، حب، عن حذيفة”.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آپ نے وہ بادل نہیں دیکھا جو تھوڑی دیر پہلے میرے لیے پیش کیا گیا وہ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے جو کبھی بھی اس رات سے پہلے زمین پر نہیں اترا، اپنے رب عزوجل سے اس بات کی اجازت لی کہ مجھے سلام کہے اور اس بات کی بشارت دے کہ حسن اور حسین جنتیوں کے نوجوانوں کے سردار ہیں اور فاطمہ ؓ جنتیوں کی عورتوں کی سردار ہیں۔ (احمدبن حنبل ترمذی نسائی، ابن حبان بروایت حذیفہ)

کنزالعمال، حدیث نمبر: 34293
“الحسن والحسين من أحبهما أحببته، ومن أحببته أحبه الله، ومن أحبه الله أدخله جنات النعيم، ومن أبغضهما أو بغى عليهما أبغضته، ومن أبغضته أبغضه الله، ومن أبغضه الله أدخله نار جهنم وله عذاب مقيم. ” أبو نعيم، كر – عن سلمان، أبو نعيم – عن أبي هريرة”.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حسن اور حسین جو ان سے محبت کرے میں اس سے محبت کروں گا اور جس سے میں نے محبت کی تو اللہ اس سے محبت کرے گا اور جس سے اللہ نے محبت کی تو اللہ تعالیٰ اس کو نعمتوں کے باغات میں داخل کرے گا اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا، ان دونوں پر زیادتی کی تو میں اس سے بغض رکھوں گا اور جس سے میں بغض رکھا اللہ اس کو ناپسندکرے گا اور جس کو اللہ ناپسند کرے تو اللہ اس کو جہنم کی آگ میں داخل کرے گا اور اس پر ہمیشہ رہنے والا عذاب ہوگا۔ (ابونعیم تاریخ ابن عساکر بروایت سلمان ابونعیم بروایت ابوہریرہ)

کنزالعمال، حدیث نمبر: 34295
“الحسن والحسين ابناي من أحبهما أحبني، ومن أحبني أحبه الله، ومن أحبه الله أدخله الجنة، ومن أبغضهما أبغضني، ومن أبغضني أبغضه الله، ومن أبغضه الله أدخله النار. ” ك وتعقب عن سلمان”.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حسن اور حسین میرے دوبیٹے ہیں جو ان سے محبت رکھے گا میں اس سے محبت رکھوں گا اور جس سے میں محبت کروں اللہ اس سے محبت کرے گا اور جس سے اللہ محبت کرے وہ اسے جنت میں داخل کرے گا اور جس نے دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اللہ اس کو ناپسندکرے اور جس کو اللہ ناپسند کرے تو وہ اس کو جہنم میں داخل کرے گا۔ (مستدرک حاکم وتعقب بروایت سلمان)

کنزالعمال، حدیث نمبر: 34301
“من أحبني فليحب هذين – يعني الحسن والحسين.”طب – عن ابن مسعود”.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو مجھ سے محبت رکھتا ہے تو وہ ان دونوں سے محبت کرے یعنی حسن اور حسین سے۔ (طبرانی بروایت ابن مسعود)

کنزالعمال، حدیث نمبر: 34307
أخبرني جبريل أن حسينا يقتل بشاطئ الفرات.” ابن سعد – عن علي”.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے جبرائیل (علیہ السلام) نے بتایا کہ حسین فرات کے کنارے قتل کئے جائیں گے۔ (ابن سعدبروایت علی)

کنزالعمال، حدیث نمبر: 34309
“أتاني جبريل فأخبرني أن أمتي ستقتل ابني هذا – يعني الحسين وأتاني بتربة من تربته حمراء. ” د، ك – عن أم الفضل بنت الحارث.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جبرائیل (علیہ السلام) میرے پاس آئے اور انھوں نے مجھے بتایا کہ میری امت عنقریب میرے اس بیٹے کو قتل کرے گی یعنی حسین کو اور میرے پاس اس کی سرخی مٹی لے کر آئے۔ (ابوداؤد مستدرک حاکم بروایت ام الفضل بنت الحارث)

کنزالعمال، حدیث نمبر: 34322
“أخبرني جبريل أن ابني الحسين يقتل بأرض العراق، فقلت لجبريل: أرني تربة الأرض التي يقتل فيها، فجاء، فهذه تربتها. ” ابن سعد – عن أم سلمة”.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے جبرائیل (علیہ السلام ) نے یہ خبردی کہ میرا بیٹا حسین عراق کی زمین پر قتل کیا جائے گا، تو میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے کہا، مجھے وہ مٹی دکھائیں جہاں یہ قتل کیا جائے گا تو وہ لے آئے اور یہ اس کی مٹی ہے۔ (ابن سعد روایت ام سلمہ)

کنزالعمال، حدیث نمبر: 34326
“إن جبريل أخبرني أن ابني هذا يقتل، وأنه اشتد غضب الله على من يقتله.” ابن عساكر – عن أم سلمة”.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے بتایا کہ میرا یہ بیٹا قتل کیا جائے گا اس شخص پر اللہ کا غصہ شدید ہوگا جو اسے قتل کرے گا۔ (تاریخ ابن عساکربروایت ام سلمہ)

کنزالعمال، حدیث نمبر: 34332
“يا عائشة؟ ألا أعجبك؟ لقد دخل علي ملك آنفا ما دخل علي قط فقال: إن ابني هذا مقتول؛ وقال: إن شئت أريتك تربة يقتل فيها؛ فتناول الملك يده فأراني تربة حمراء. ” طب – عن عائشة”.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! کیا میں تجھے عجیب بات نہ بتاؤں؟ ابھی میرے پاس ایک فرشتہ داخل ہوا جو میرے پاس کبھی بھی داخل نہیں ہوا تو اس نے کہا: میرا یہ بیٹا مقتول ہے اور کہا: اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو وہی مٹی دکھاؤں جہاں یہ قتل کیا جائے گا، فرشتے نے اپنا ہاتھ لیا اور مجھے سرخ مٹی دکھائی۔ (طبرانی بروایت عائشہ)

صلہ رحمی

صلہ رحمی سے مراد ہے رشتوں کو جوڑنا، رشتوں کا احترام کرنا، رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنا وغیرہ۔

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء, آیت نمبر 36
وَاعۡبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشۡرِكُوۡا بِهٖ شَيۡـئًـا‌ ؕ وَّبِالۡوَالِدَيۡنِ اِحۡسَانًا وَّبِذِى الۡقُرۡبٰى وَالۡيَتٰمٰى وَ الۡمَسٰكِيۡنِ وَالۡجَـارِ ذِى الۡقُرۡبٰى وَالۡجَـارِ الۡجُـنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالۡجَـنۡۢبِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِ ۙ وَمَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُكُمۡ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنۡ كَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا ۞
اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)، بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہو،

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3253
يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، ‏‏‏‏‏‏وَصِلُوا الْأَرْحَامَ، ‏‏‏‏‏‏وَصَلُّوا بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ، ‏‏‏‏‏‏تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ.
عبداللہ بن سلام ؓ کہتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: لوگو! سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، رشتوں کو جوڑو، اور رات میں جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز ادا کرو، (ایسا کرنے سے) تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو گے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5982
قِيلَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ:‏‏‏‏ تَعْبُدُ اللَّهَ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ، ‏‏‏‏‏‏وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، ‏‏‏‏‏‏وَتَصِلُ الرَّحِمَ ذَرْهَا۔
ایک صاحب نے کہا: یا رسول اللہ! کوئی ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت میں لے جائے۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اللہ کی عبادت کر اور اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کر، نماز قائم کر، زکوٰۃ دیتے رہو اور صلہ رحمی کرتے رہو۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5991
حضرت حسن بن عمرو اور فطر بن خلیفہ نبی مکرم ﷺ سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنِ الْوَاصِلُ الَّذِي إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا.
کسی کام کا بدلہ دینا صلہ رحمی نہیں ہے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ نہ کیا جا رہا ہو تب بھی وہ صلہ رحمی کرے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5989
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
الرَّحِمُ شِجْنَةٌ فَمَنْ وَصَلَهَا وَصَلْتُهُ وَمَنْ قَطَعَهَا قَطَعْتُهُ.
رحم (رشتہ داری رحمن سے ملی ہوئی) شاخ ہے جو شخص اس سے ملے میں اس سے ملتا ہوں اور جو اس سے قطع تعلق کرے میں اس سے قطع تعلق کرتا ہوں۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5988
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الرَّحِمَ شَجْنَةٌ مِنَ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ اللَّهُ:‏‏‏‏ مَنْ وَصَلَكِ وَصَلْتُهُ وَمَنْ قَطَعَكِ قَطَعْتُهُ.
رحم کا تعلق رحمن سے جڑا ہوا ہے پس جو کوئی اس سے اپنے آپ کو جوڑتا ہے اللہ پاک نے فرمایا کہ میں بھی اس کو اپنے سے جوڑ لیتا ہوں اور جو کوئی اسے توڑتا ہے میں بھی اپنے آپ کو اس سے توڑ لیتا ہوں۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5986
حضرت انس بن مالک ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ وَيُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ.
جو چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی عمردراز ہو تو وہ صلہ رحمی کیا کرے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5984
حضرت جبیر بن مطعم ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعٌ.
قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔

مسند احمد، حدیث نمبر: 1594
فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنَا اللَّهُ وَأَنَا الرَّحْمَنُ خَلَقْتُ الرَّحِمَ وَشَقَقْتُ لَهَا مِنْ اسْمِي فَمَنْ وَصَلَهَا وَصَلْتُهُ وَمَنْ قَطَعَهَا بَتَتُّهُ
حضرت عبدالرحمن ؓ نے فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں رحمان ہوں، میں نے رحم کو پیدا کیا ہے اور اسے اپنے نام سے نکالا ہے، جو اسے جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا اور جو اسے توڑے گا، میں اسے توڑ کر پاش پاش کردوں گا۔

صلہ رحمی کیوں کریں ؟

1: اس لیے کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے۔
2: نیت اللہ اور اس کے رسول کی رضا و خوشنودی رکھیں
3: نفس کا تزکیہ و تربیت
4: انسان صاحب احسان بن جاتا ہے
5: دنیا میں فائدہ: اس سے آپ کی عمر اور رزق میں اللہ برکت پیدا کر دے گا
6: آخرت کا فائدہ: یہ جنت میں لے جانے والا عمل ہے

تجارت یا کاروبار میں کامیابی کا اکیس (21) نکاتی فارمولا

اسلام ایک مکمل ضابطۂِ حیات ہے جو ہر شعبے سے وابستہ افراد کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ اس مضمون میں قرآن و حدیث کی تعلیمات سے اخذ ہونے والے کچھ نکات بیان کیے گئے ہیں جو کاروبار یا تجارت کے شعبے سے وابستہ افراد کے لیے عملی ہدایات فراہم کرتے ہیں۔ یہ نکات مندرجہ ذیل ہیں:

1) تجارت یا کاروبار کے دوران اللہ کی یاد سے غافل نہ ہونا۔

القرآن – سورۃ نمبر 62 الجمعة، آیت نمبر 9
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِىَ لِلصَّلٰوةِ مِنۡ يَّوۡمِ الۡجُمُعَةِ فَاسۡعَوۡا اِلٰى ذِكۡرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الۡبَيۡعَ‌ ؕ ذٰ لِكُمۡ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۞
اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لئے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

القرآن – سورۃ نمبر 20 طه، آیت نمبر 124
وَمَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِكۡرِىۡ فَاِنَّ لَـهٗ مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا۔
اور جس نے میرے ذکر (یعنی میری یاد اور نصیحت) سے روگردانی کی تو اس کے لئے دنیاوی معاش (بھی) تنگ کردیا جائے گا۔

2) تقویٰ و پرہیزگاری (گناہوں کے ارتکاب سے بچنا + اطاعتِ الٰہی) اختیار کرنا

القرآن – سورۃ نمبر 65 الطلاق، آیت نمبر 2،3
وَمَنۡ يَّـتَّـقِ اللّٰهَ يَجۡعَلْ لَّهٗ مَخۡرَجًا ۞ وَّيَرۡزُقۡهُ مِنۡ حَيۡثُ لَا يَحۡتَسِبُ‌۔
اور جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لئے (دنیا و آخرت کے رنج و غم سے) نکلنے کی راہ پیدا فرما دیتا ہے، اور اسے ایسی جگہ سے رِزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔

3) ہمیشہ سچ بولنا اور ایمانداری سے کام کرنا

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1209
ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ، ‏‏‏‏‏‏وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ۔
سچا اور امانت دار تاجر (قیامت کے دن) انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا ۔

4) رزقِ حلال کمانے کو عبادت سمجھنا

طلب الحلال فریضۃ بعد الفریضۃ
رزقِ حلال کی تلاش فرض عبادت کے بعد (سب سے بڑا) فریضہ ہے۔
طبرانی، المعجم الکبیر، رقم: 9993

5) ملازمت کے بجائے کاروبار کو ترجیح دینا

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2153
عمر بن الخطاب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْجَالِبُ مَرْزُوقٌ۔
جالب (مال درآمد) کرنے والا روزی پاتا ہے۔

6) ذخیرہ اندوزی نہ کرنا اور نہ ہی مصنوعی طور پر قیمتیں بڑھانا

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2153
عمر بن الخطاب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَالْمُحْتَكِرُ مَلْعُونٌ.
اور محتکر (ذخیرہ اندوزی کرنے والا) ملعون ہے۔

7) ناپ تول میں عدل و انصاف کرنا اور احسان والا معاملہ کرنا

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2222
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا وَزَنْتُمْ فَأَرْجِحُوا.
جب تولو تو جھکا کر تولو ۔

8) دھوکے اور خیانت سے بچنا

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2224
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَيْسَ مِنَّا مَنْ غَشَّ.
جو دھوکہ دے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

9) مال بیچنے کے لیے قسمیں نہ کھانا

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2209
ابوقتادہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِيَّاكُمْ وَالْحَلِفَ فِي الْبَيْعِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ يُنَفِّقُ ثُمَّ يَمْحَقُ.
بیع (خریدو فروخت) میں قسمیں کھانے سے بچو، کیونکہ اس سے گرم بازاری تو ہوجاتی ہے اور برکت جاتی رہتی ہے ۔

10) معاملات میں نرم دلی کا مظاہرہ کرنا

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1319
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ سَمْحَ الْبَيْعِ، ‏‏‏‏‏‏سَمْحَ الشِّرَاءِ، ‏‏‏‏‏‏سَمْحَ الْقَضَاءِ۔
اللہ تعالیٰ بیچنے، خریدنے اور قرض کے مطالبہ میں نرمی و آسانی کو پسند کرتا ہے ۔

11) غرور و تکبر اور ناشکری سے بچنا

القرآن – سورۃ نمبر 28 القصص، آیت نمبر 58
وَكَمۡ اَهۡلَـكۡنَا مِنۡ قَرۡيَةٍۢ بَطِرَتۡ مَعِيۡشَتَهَا۔
اور ہم نے کتنی ہی (ایسی) بستیوں کو برباد کر ڈالا جو اپنی خوشحال معیشت پر غرور و ناشکری کر رہی تھیں۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 265
عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ کَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ کِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَکُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً قَالَ إِنَّ اللَّهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ
جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا اس پر ایک آدمی نے عرض کیا کہ ایک آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کی جوتی بھی اچھی ہو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ جمیل ہے اور جمال ہی کو پسند کرتا ہے تکبر تو حق کی طرف سے منہ موڑنے اور دوسرے لوگوں کو کمتر سمجھنے کو کہتے ہیں۔

12) حرام ذرائع تجارت سے بچنا

مسند احمد، حدیث نمبر: 2111
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا حَرَّمَ عَلَى قَوْمٍ أَكْلَ شَيْءٍ حَرَّمَ عَلَيْهِمْ ثَمَنَهُ.
حالانکہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پر کسی چیز کو کھانا حرام قرار دیتا ہے تو ان پر اس کی قیمت بھی حرام کردیتا ہے۔

13) قبضے سے پہلے چیز کو نہ بیچنا

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1232
حکیم بن حزام ؓ کہتے ہیں
لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ۔
جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے اس کی بیع نہ کرو ۔

14) بیع پر بیع نہ کرنا ( کسی دوسرے مسلمان تاجر کا طے کیا ہوا سودا خراب نہ کرنا)

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 3436
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تَلَقَّوْا السِّلَعَ حَتَّى يُهْبَطَ بِهَا الْأَسْوَاقَ.
کوئی کسی کی بیع پر بیع نہ کرے اور تاجر سے پہلے ہی مل کر سودا نہ کرے جب تک کہ وہ اپنا سامان بازار میں نہ اتار لے۔

15) بیچی ہوئی چیز قیمت کے بدلے واپس لے لینا

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2199
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ أَقَالَ مُسْلِمًا، ‏‏‏‏‏‏أَقَالَهُ اللَّهُ عَثْرَتَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
جو شخص کسی مسلمان کے اقالے کو مان لے (یعنی اس کے ساتھ بیع کے فسخ پر راضی ہوجائے) تو اللہ تعالیٰ (اس احسان کے بدلہ میں) قیامت کے دن اس کے گناہوں کو مٹا دے گا ۔

16) تجارتی معاہدات کو لکھنا اور ان کی مکمل پاسداری کرنا (بھلے اس میں نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے)

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 34
وَاَوۡفُوۡا بِالۡعَهۡدِ‌ۚ اِنَّ الۡعَهۡدَ كَانَ مَسۡــئُوۡلًا ۞
اور وعدہ پورا کیا کرو، بیشک وعدہ کی ضرور پوچھ گچھ ہوگی۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1352
عمرو بن عوف مزنی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ،‏‏‏‏ إِلَّا صُلْحًا حَرَّمَ حَلَالًا،‏‏‏‏ أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا،‏‏‏‏ وَالْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا،‏‏‏‏ أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا۔
صلح مسلمان کے درمیان نافذ ہوگی سوائے ایسی صلح کے جو کسی حلال کو حرام کر دے یا کسی حرام کو حلال۔ اور مسلمان اپنی شرطوں کے پابند ہیں۔ سوائے ایسی شرط کے جو کسی حلال کو حرام کر دے یا کسی حرام کو حلال ۔

17) قیمتوں کے تعین کے اسلامی اصول کی پاسداری کرنا

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2185
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّمَا الْبَيْعُ عَنْ تَرَاضٍ.
بیع بیچنے والے اور خریدنے والے کی باہمی رضا مندی سے منعقد ہوتی ہے ۔

18) مزدور (و ملازمین) کو وقت پر اجرت دینا

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2443
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَعْطُوا الْأَجِيرَ أَجْرَهُ قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُهُ.
مزدور کو اس کا پسینہ سوکھنے سے پہلے اس کی مزدوری دے دو۔

19) لگی ہوئی روزی (ملازمت یا کاروبار) کو نہ چھوڑنا

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2148
ام المؤمنین عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں:
فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ:‏‏‏‏ إِذَا سَبَّبَ اللَّهُ لِأَحَدِكُمْ رِزْقًا مِنْ وَجْهٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَدَعْهُ حَتَّى يَتَغَيَّرَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ يَتَنَكَّرَ لَهُ.
میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: اللہ تعالیٰ جب تم میں سے کسی کے لیے روزی کا کوئی ذریعہ پیدا کر دے، تو وہ اسے نہ چھوڑے یہاں تک کہ وہ بدل جائے، یا بگڑ جائے ۔

20) معاملات میں میانہ روی اختیار کرنا

مسند احمد، حدیث نمبر: 4048
حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَا عَالَ مَنْ اقْتَصَدَ۔
میانہ روی سے چلنے والا کبھی محتاج اور تنگدست نہیں ہوتا۔

21) سخاوت کرنا اور بخل و کنجوسی سے بچنا:

القرآن – سورۃ نمبر 34 سبإ، آیت نمبر 39
قُلۡ اِنَّ رَبِّىۡ يَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖ وَيَقۡدِرُ لَهٗ ؕ وَمَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ فَهُوَ يُخۡلِفُهٗ ۚ وَهُوَ خَيۡرُ الرّٰزِقِيۡنَ ۞
فرما دیجئے: بیشک میرا رب اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رِزق کشادہ فرما دیتا ہے اور جس کے لئے (چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے، اور تم (اﷲ کی راہ میں) جو کچھ بھی خرچ کرو گے تو وہ اس کے بدلہ میں اور دے گا اور وہ سب سے بہتر رِزق دینے والا ہے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1433
حضرت اسماء ؓ روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے انہیں فرمایا:
لَا تُوكِي فَيُوكَى عَلَيْكِ.
خیرات کو مت روک ورنہ تیرا رزق بھی روک دیا جائے گا۔

یہ ایک عظیم پیغمبر اور عظیم معیشت دان حضور نبی مکرم ﷺ کے دیے ہوئے اصول و ضوابط ہیں جن پر عمل کرنے سے انسان اپنے معاشی معاملات کو بہترین انداز میں چلا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان اصول و ضوابط کے مطابق اپنے معاشی معاملات کو سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین