اسلامی معیشت کے بنیادی اصول – قرآن و حدیث کی روشنی میں

اس کائنات کا انتظام اللہ رب العزت ایک خاص اندازے اور تدبیر کے ساتھ چلا رہے ہیں اور اس نظام میں موجود ہر شے کچھ مقررہ اصول و ضوابط کے تحت کام کر رہی ہے۔ انسان کی دنیوی و اخروی کامیابی یہ ہے کہ وہ ان اصول و ضوابط کو سمجھ کر ان پر عمل پیرا ہو۔

اس دنیا میں ہر انسان کے لیے اللہ رب العزت نے رہائش اور رزق کا بندوبست بھی مناسب انداز میں کر دیا ہے۔ اس معیشت (رزق) کی تقسیم، رزق کی تقسیم کے لحاظ چند بنیادی اصول و ضوابط اللہ رب العزت نے قرآنِ مجید کے اندر اور حضور نبی مکرم ﷺ نے احادیثِ مبارکہ میں بیان کیے ہیں جو اس مضمون میں بیان کیے گئے ہیں۔

1۔ حقیقی ملکیت صرف اللہ کی ہے۔ انسان کی حیثیت محض نائب اور امین کی ہے:

یعنی ہر طرح کے اموال، ذرائع پیداوار، اور ذرائع معیشت کا حقیقی مالک اللہ رب العزت ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 284
لِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ‌ؕ۔
جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے سب اﷲ کے لئے ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 29
هُوَ الَّذِىۡ خَلَقَ لَـكُمۡ مَّا فِى الۡاَرۡضِ جَمِيۡعًا۔
وہی ہے جس نے سب کچھ جو زمین میں ہے تمہارے لئے پیدا کیا۔

القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 26
قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الۡمُلۡكِ تُؤۡتِى الۡمُلۡكَ مَنۡ تَشَآءُ وَتَنۡزِعُ الۡمُلۡكَ مِمَّنۡ تَشَآءُ وَتُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُ‌ ؕ بِيَدِكَ الۡخَيۡرُ‌ؕ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ ۞
(اے حبیب! یوں) عرض کیجئے: اے اﷲ، سلطنت کے مالک! تُو جسے چاہے سلطنت عطا فرما دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تُو جسے چاہے عزت عطا فرما دے اور جسے چاہے ذلّت دے، ساری بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے، بیشک تُو ہر چیز پر بڑی قدرت والا ہے۔

انسان کی حیثیت فقط نائب (خلیفہ) اور امین کی ہے۔ بحیثیت نائب (خلیفہ) اور امین کے انسان کی یہی آزمائش ہے کہ وہ اس امانتاً ملنے والی ملکیت کو مالکِ حقیقی (اللہ رب العزت) کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق استعمال کرے۔ اسی کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق اس ملکیت سے نفع حاصل کرے اور اسی کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق اس نفع کو اپنے اور دوسروں کے اوپر خرچ کرے۔

القرآن – سورۃ نمبر 57 الحديد، آیت نمبر 7
اٰمِنُوۡا بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ وَاَنۡفِقُوۡا مِمَّا جَعَلَـكُمۡ مُّسۡتَخۡلَفِيۡنَ فِيۡهِ‌ؕ فَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡكُمۡ وَاَنۡفَقُوۡا لَهُمۡ اَجۡرٌ كَبِيۡرٌ ۞
اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لاؤ اور اس (مال و دولت) میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں اپنا نائب (و امین) بنایا ہے، پس تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے خرچ کیا اُن کے لئے بہت بڑا اَجر ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 24 النور، آیت نمبر 55
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡكُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَـيَسۡتَخۡلِفَـنَّهُمۡ فِى الۡاَرۡضِ كَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡۖ۔
اللہ نے ایسے لوگوں سے وعدہ فرمایا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ ضرور انہی کو زمین میں خلافت (یعنی امانتِ اقتدار کا حق) عطا فرمائے گا جیسا کہ اس نے ان لوگوں کو (حقِ) حکومت بخشا تھا جو ان سے پہلے تھے۔

القرآن – سورۃ نمبر 57 الحديد، آیت نمبر 10
وَ مَا لَـكُمۡ اَلَّا تُنۡفِقُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَلِلّٰهِ مِيۡـرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ‌ؕ۔
اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ آسمانوں اور زمین کی ساری ملکیت اللہ ہی کی ہے (تم تو فقط اس مالک کے نائب ہو)،

2۔ جملہ اموال میں حاجت مندوں کا شرعی حق ہے:

معاشرے کے محروم افراد کا حق ہے کہ ان پر خرچ کیا جائے اور ان کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔

القرآن – سورۃ نمبر 51 الذاريات، آیت نمبر 19
وَفِىۡۤ اَمۡوَالِهِمۡ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالۡمَحۡرُوۡمِ ۞
اور اُن کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجت مندوں) کا حق مقرر تھا۔

القرآن – سورۃ نمبر 70 المعارج، آیت نمبر 24،25
وَالَّذِيۡنَ فِىۡۤ اَمۡوَالِهِمۡ حَقٌّ مَّعۡلُوۡمٌ ۞ لِّلسَّآئِلِ وَالۡمَحۡرُوۡمِ ۞
اور وہ (ایثار کیش) لوگ جن کے اَموال میں حصہ مقرر ہے۔ مانگنے والے اور نہ مانگنے والے محتاج کا۔

القرآن – سورۃ نمبر 41 فصلت، آیت نمبر 10
وَجَعَلَ فِيۡهَا رَوَاسِىَ مِنۡ فَوۡقِهَا وَبٰرَكَ فِيۡهَا وَقَدَّرَ فِيۡهَاۤ اَقۡوَاتَهَا فِىۡۤ اَرۡبَعَةِ اَيَّامٍؕ سَوَآءً لِّلسَّآئِلِيۡنَ ۞
اور اُس کے اندر (سے) بھاری پہاڑ (نکال کر) اس کے اوپر رکھ دیئے اور اس کے اندر (معدنیات، آبی ذخائر، قدرتی وسائل اور دیگر قوتوں کی) برکت رکھی، اور اس میں (جملہ مخلوق کے لئے) غذائیں (اور سامانِ معیشت) مقرر فرمائے (یہ سب کچھ اس نے) چار دنوں (یعنی چار ارتقائی زمانوں) میں مکمل کیا، (یہ سارا رِزق اصلًا) تمام طلب گاروں (اور حاجت مندوں) کے لئے برابر ہے۔

سوال: ہم کسی شخص پر کیوں خرچ کریں اگر اللہ چاہتا تو خود ہی اسے رزق عطاء فرما دیتا؟

جواب:
القرآن – سورۃ نمبر 36 يس، آیت نمبر 47
وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ ۙ قَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنُطۡعِمُ مَنۡ لَّوۡ يَشَآءُ اللّٰهُ اَطۡعَمَهٗٓ ۖ اِنۡ اَنۡـتُمۡ اِلَّا فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ‏ ۞
اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ تم اس میں سے (راہِ خدا میں) خرچ کرو جو تمہیں اللہ نے عطا کیا ہے تو کافر لوگ ایمان والوں سے کہتے ہیں: کیا ہم اس (غریب) شخص کو کھلائیں جسے اگر اللہ چاہتا تو (خود ہی) کھلا دیتا۔ تم تو کھلی گمراہی میں ہی (مبتلا) ہوگئے ہو۔

تو گویا قرآن کے مطابق اس طرح کی سوچ، کافرانہ سوچ ہے اور کھلی گمراہی ہے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 660
فاطمہ بنت قیس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ فِي الْمَالِ حَقًّا سِوَى الزَّكَاةِ .
مال میں زکاۃ کے علاوہ بھی حقوق ہیں ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 659
فاطمہ بنت قیس ؓ کہتی ہیں کہ میں نے زکاۃ کے بارے میں پوچھا، یا نبی اکرم ﷺ سے زکاۃ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
إِنَّ فِي الْمَالِ لَحَقًّا سِوَى الزَّكَاةِ ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ الَّتِي فِي الْبَقَرَةِ لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ سورة البقرة آية 177 الْآيَةَ.
مال میں زکاۃ کے علاوہ بھی کچھ حق ہے۔ پھر آپ نے سورة البقرہ کی یہ آیت تلاوت فرمائی: «ليس البر أن تولوا وجوهكم» نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے پھیر لو۔ الآیۃ۔

3۔ بنیادی حق المعاش اور ضروریات کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے:

القرآن – سورۃ نمبر 11 هود، آیت نمبر 6
وَمَا مِنۡ دَآ بَّةٍ فِى الۡاَرۡضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزۡقُهَا وَ يَعۡلَمُ مُسۡتَقَرَّهَا وَمُسۡتَوۡدَعَهَا‌ؕ كُلٌّ فِىۡ كِتٰبٍ مُّبِيۡنٍ ۞
اور زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا (جاندار) نہیں ہے مگر (یہ کہ) اس کا رزق اﷲ (کے ذمۂ کرم) پر ہے اور وہ اس کے ٹھہرنے کی جگہ کو اور اس کے امانت رکھے جانے کی جگہ کو (بھی) جانتا ہے، ہر بات کتابِ روشن (لوحِ محفوظ) میں (درج) ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 29 العنكبوت، آیت نمبر 60
وَكَاَيِّنۡ مِّنۡ دَآبَّةٍ لَّا تَحۡمِلُ رِزۡقَهَا ۖ اللّٰهُ يَرۡزُقُهَا وَاِيَّاكُمۡ‌‌ۖ وَهُوَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُ ۞
اور کتنے ہی جانور ہیں جو اپنی روزی (اپنے ساتھ) نہیں اٹھائے پھرتے، اﷲ انہیں بھی رزق عطا کرتا ہے اور تمہیں بھی، اور وہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام، آیت نمبر 151
وَلَا تَقۡتُلُوۡۤا اَوۡلَادَكُمۡ مِّنۡ اِمۡلَاقٍ‌ؕ نَحۡنُ نَرۡزُقُكُمۡ وَاِيَّاهُمۡ‌۔
اور مفلسی کے باعث اپنی اولاد کو قتل مت کرو۔ ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی (دیں گے)۔

رزق کی فراہمی اللہ رب العزت نے اپنے ذمے لی ہے۔ اللہ کے ذمے سے مراد اسلامی فلاحی ریاست کے حکمران کے ذمے ہے کیونکہ وہ اللہ رب العزت کا نائب اور خلیفہ ہے۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 1663
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ كَانَ عِنْدَهُ فَضْلُ ظَهْرٍ فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لَا ظَهْرَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ فَضْلُ زَادٍ فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لَا زَادَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ لَا حَقَّ لِأَحَدٍ مِنَّا فِي الْفَضْلِ.
جس کے پاس کوئی فاضل (ضرورت سے زائد) سواری ہو تو چاہیئے کہ اسے وہ ایسے شخص کو دیدے جس کے پاس سواری نہ ہو، جس کے پاس فاضل توشہ ہو تو چاہیئے کہ اسے وہ ایسے شخص کو دیدے جس کے پاس توشہ نہ ہو، یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ ہم میں سے فاضل چیز کا کسی کو کوئی حق نہیں ۔

اسلامی فلاحی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام شہریوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرے اور ان کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنائے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2341
عثمان بن عفان ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَيْسَ لِابْنِ آدَمَ حَقٌّ فِي سِوَى هَذِهِ الْخِصَالِ بَيْتٌ يَسْكُنُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَثَوْبٌ يُوَارِي عَوْرَتَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَجِلْفُ الْخُبْزِ وَالْمَاءِ۔
دنیا کی چیزوں میں سے ابن آدم کا حق سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اس کے لیے ایک گھر ہو جس میں وہ زندگی بسر کرسکے اور اتنا کپڑا ہو جس سے وہ اپنا ستر ڈھانپ سکے، اور روٹی اور پانی کے لیے برتن ہوں جن سے وہ کھانے پینے کا جتن کرسکے ۔

4) اسبابِ معیشت کی تقسیم اللہ رب العزت کی طرف سے ہے:

القرآن – سورۃ نمبر 51 الذاريات، آیت نمبر 58
اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الۡقُوَّةِ الۡمَتِيۡنُ ۞
بیشک اﷲ ہی ہر ایک کا روزی رساں ہے، بڑی قوت والا ہے، زبردست مضبوط ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 10
وَلَقَدۡ مَكَّـنّٰكُمۡ فِى الۡاَرۡضِ وَجَعَلۡنَا لَـكُمۡ فِيۡهَا مَعَايِشَ۔
اور بیشک ہم نے تم کو زمین میں تمکّن و تصرّف عطا کیا اور ہم نے اس میں تمہارے لئے اسبابِ معیشت پیدا کئے۔

القرآن – سورۃ نمبر 15 الحجر، آیت نمبر 20
وَجَعَلۡنَا لَـكُمۡ فِيۡهَا مَعَايِشَ وَمَنۡ لَّسۡتُمۡ لَهٗ بِرٰزِقِيۡنَ ۞
اور ہم نے اس میں تمہارے لئے اسبابِ معیشت پیدا کئے اور ان (انسانوں، جانوروں اور پرندوں) کے لئے بھی جنہیں تم رزق مہیا نہیں کرتے۔

القرآن – سورۃ نمبر 11 هود، آیت نمبر 6
وَمَا مِنۡ دَآبَّةٍ فِى الۡاَرۡضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزۡقُهَا وَ يَعۡلَمُ مُسۡتَقَرَّهَا وَمُسۡتَوۡدَعَهَا‌ؕ كُلٌّ فِىۡ كِتٰبٍ مُّبِيۡنٍ ۞
اور زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا (جاندار) نہیں ہے مگر (یہ کہ) اس کا رزق اﷲ (کے ذمۂ کرم) پر ہے اور وہ اس کے ٹھہرنے کی جگہ کو اور اس کے امانت رکھے جانے کی جگہ کو (بھی) جانتا ہے، ہر بات کتابِ روشن (لوحِ محفوظ) میں (درج) ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 28 القصص، آیت نمبر 82
وَيۡكَاَنَّ اللّٰهَ يَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖ وَيَقۡدِرُ‌ۚ۔
کتنا عجیب ہے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رزق کشادہ فرماتا اور (جس کے لئے چاہتا ہے) تنگ فرماتا ہے۔

5) رزق میں وسعت اور تنگی کی حکمت:

القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف، آیت نمبر 32
نَحۡنُ قَسَمۡنَا بَيۡنَهُمۡ مَّعِيۡشَتَهُمۡ فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَرَفَعۡنَا بَعۡضَهُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَـتَّخِذَ بَعۡضُهُمۡ بَعۡضًا سُخۡرِيًّا‌۔
ہم اِن کے درمیان دنیوی زندگی میں ان کے (اسبابِ) معیشت کو تقسیم کرتے ہیں اور ہم ہی ان میں سے بعض کو بعض پر (وسائل و دولت میں) درجات کی فوقیت دیتے ہیں، (کیا ہم یہ اس لئے کرتے ہیں) کہ ان میں سے بعض (جو امیر ہیں) بعض (غریبوں) کا مذاق اڑائیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى، آیت نمبر 27
وَلَوۡ بَسَطَ اللّٰهُ الرِّزۡقَ لِعِبَادِهٖ لَبَغَوۡا فِى الۡاَرۡضِ وَلٰكِنۡ يُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَآءُ ‌ؕ اِنَّهٗ بِعِبَادِهٖ خَبِيۡرٌۢ بَصِيۡرٌ ۞
اور اگر اللہ اپنے تمام بندوں کے لئے روزی کشادہ فرما دے تو وہ ضرور زمین میں سرکشی کرنے لگیں لیکن وہ (ضروریات کے) اندازے کے ساتھ جتنی چاہتا ہے اتارتا ہے، بیشک وہ اپنے بندوں (کی ضرورتوں) سے خبردار ہے خوب دیکھنے والا ہے۔

6) طلبِ رزق کی ترغیب:

القرآن – سورۃ نمبر 29 العنكبوت، آیت نمبر 17
اِنَّ الَّذِيۡنَ تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ لَا يَمۡلِكُوۡنَ لَـكُمۡ رِزۡقًا فَابۡتَغُوۡا عِنۡدَ اللّٰهِ الرِّزۡقَ وَاعۡبُدُوۡهُ وَاشۡكُرُوۡا لَهٗ ؕ اِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ ۞
بیشک تم اللہ کے سوا جن کی پوجا کرتے ہو وہ تمہارے لئے رزق کے مالک نہیں ہیں پس تم اللہ کی بارگاہ سے رزق طلب کیا کرو اور اسی کی عبادت کیا کرو اور اسی کا شکر بجا لایا کرو، تم اسی کی طرف پلٹائے جاؤ گے۔

القرآن – سورۃ نمبر 62 الجمعة، آیت نمبر 11
وَاِذَا رَاَوۡا تِجَارَةً اَوۡ لَهۡوَا۟ اۨنْفَضُّوۡۤا اِلَيۡهَا وَتَرَكُوۡكَ قَآئِمًا‌ ؕ قُلۡ مَا عِنۡدَ اللّٰهِ خَيۡرٌ مِّنَ اللَّهۡوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ‌ ؕ وَاللّٰهُ خَيۡرُ الرّٰزِقِيۡنَ ۞
اور جب انہوں نے کوئی تجارت یا کھیل تماشا دیکھا تو (اپنی حاجت مندی اور معاشی تنگی کے باعث) اس کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے اور آپ کو (خطبہ میں) کھڑے چھوڑ گئے، فرما دیجئے: جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل سے اور تجارت سے بہتر ہے، اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 73 المزمل، آیت نمبر 20
وَاٰخَرُوۡنَ يَضۡرِبُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ يَبۡتَغُوۡنَ مِنۡ فَضۡلِ اللّٰهِ‌ۙ۔
اور (بعض) دوسرے لوگ زمین میں سفر کریں گے تاکہ اﷲ کا فضل تلاش کریں۔

القرآن – سورۃ نمبر 16 النحل، آیت نمبر 14
وَهُوَ الَّذِىۡ سَخَّرَ الۡبَحۡرَ لِتَاۡكُلُوۡا مِنۡهُ لَحۡمًا طَرِيًّا وَّتَسۡتَخۡرِجُوۡا مِنۡهُ حِلۡيَةً تَلۡبَسُوۡنَهَا‌ۚ وَتَرَى الۡـفُلۡكَ مَوَاخِرَ فِيۡهِ وَلِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِهٖ وَلَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ‏ ۞
اور وہی ہے جس نے (فضا و بر کے علاوہ) بحر (یعنی دریاؤں اور سمندروں) کو بھی مسخر فرما دیا تاکہ تم اس میں سے تازہ (و پسندیدہ) گوشت کھاؤ اور تم اس میں سے موتی (وغیرہ) نکالو جنہیں تم زیبائش کے لئے پہنتے ہو، اور (اے انسان!) تُو کشتیوں (اور جہازوں) کو دیکھتا ہے جو (دریاؤں اور سمندروں کا) پانی چیرتے ہوئے اس میں چلے جاتے ہیں، اور (یہ سب کچھ اس لئے کیا) تاکہ تم (دور دور تک) اس کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرو اور یہ کہ تم شکر گزار بن جاؤ۔

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 66
رَبُّكُمُ الَّذِىۡ يُزۡجِىۡ لَـكُمُ الۡفُلۡكَ فِى الۡبَحۡرِ لِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِهٖؕ اِنَّهٗ كَانَ بِكُمۡ رَحِيۡمًا ۞
تمہارا رب وہ ہے جو سمندر (اور دریا) میں تمہارے لئے (جہاز اور) کشتیاں رواں فرماتا ہے تاکہ تم (اندرونی و بیرونی تجارت کے ذریعہ) اس کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرو، بیشک وہ تم پر بڑا مہربان ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 12
وَجَعَلۡنَا الَّيۡلَ وَالنَّهَارَ اٰيَتَيۡنِ‌ فَمَحَوۡنَاۤ اٰيَةَ الَّيۡلِ وَجَعَلۡنَاۤ اٰيَةَ النَّهَارِ مُبۡصِرَةً لِّتَبۡتَغُوۡا فَضۡلًا مِّنۡ رَّبِّكُمۡ۔
اور ہم نے رات اور دن کو (اپنی قدرت کی) دو نشانیاں بنایا پھر ہم نے رات کی نشانی کو تاریک بنایا اور ہم نے دن کی نشانی کو روشن بنایا تاکہ تم اپنے رب کا فضل (رزق) تلاش کر سکو۔

القرآن – سورۃ نمبر 62 الجمعة، آیت نمبر 10
فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوۡا فِى الۡاَرۡضِ وَابۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِ اللّٰهِ وَاذۡكُرُوا اللّٰهَ كَثِيۡرًا لَّعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ۞
پھر جب نماز ادا ہوچکے تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور (پھر) اللہ کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرنے لگو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ،

القرآن – سورۃ نمبر 28 القصص، آیت نمبر 77
وَابۡتَغِ فِيۡمَاۤ اٰتٰٮكَ اللّٰهُ الدَّارَ الۡاٰخِرَةَ‌ وَلَا تَنۡسَ نَصِيۡبَكَ مِنَ الدُّنۡيَا‌۔
اور تو اس (دولت) میں سے جو اللہ نے تجھے دے رکھی ہے آخرت کا گھر طلب کر، اور دنیا سے (بھی) اپنا حصہ نہ بھول۔

القرآن – سورۃ نمبر 53 النجم، آیت نمبر 39
وَاَنۡ لَّيۡسَ لِلۡاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىۙ ۞
اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہوگی۔

القرآن – سورۃ نمبر 29 العنكبوت، آیت نمبر 17
فَابۡتَغُوۡا عِنۡدَ اللّٰهِ الرِّزۡقَ وَاعۡبُدُوۡهُ وَاشۡكُرُوۡا لَهٗ ؕ اِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ ۞
پس تم اللہ کی بارگاہ سے رزق طلب کیا کرو اور اسی کی عبادت کیا کرو اور اسی کا شکر بجا لایا کرو، تم اسی کی طرف پلٹائے جاؤ گے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1358
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ أَطْيَبَ مَا أَكَلْتُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ،‏‏‏‏ وَإِنَّ أَوْلَادَكُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ .
سب سے پاکیزہ چیز جس کو تم کھاتے ہو تمہاری اپنی کمائی ہے اور تمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی میں سے ہے۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2141
عبداللہ بن خبیب کے چچا سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا بَأْسَ بِالْغِنَى لِمَنِ اتَّقَى وَالصِّحَّةُ لِمَنِ اتَّقَى خَيْرٌ مِنَ الْغِنَى وَطِيبُ النَّفْسِ مِنَ النَّعِيمِ.
اہل تقویٰ کے لیے مالداری کوئی حرج کی بات نہیں، اور تندرستی متقی کے لیے مالداری سے بہتر ہے، اور خوش دلی بھی ایک نعمت ہے۔

مرد و عورت کی کمائی:

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 32
لِلرِّجَالِ نَصِيۡبٌ مِّمَّا اكۡتَسَبُوۡا ؕ‌ وَلِلنِّسَآءِ نَصِيۡبٌ مِّمَّا اكۡتَسَبۡنَ‌ ؕ وَسۡئَـلُوا اللّٰهَ مِنۡ فَضۡلِهٖ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمًا ۞
مردوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور عورتوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور اللہ سے اس کا فضل مانگا کرو، بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے،

متفرقات:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1820
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
طَعَامُ الِاثْنَيْنِ كَافِي الثَّلَاثَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَطَعَامُ الثَّلَاثَةِ كَافِي الْأَرْبَعَةَ۔
دو آدمیوں کا کھانا تین آدمیوں کے لیے اور تین آدمیوں کا کھانا چار آدمیوں کے لیے کافی ہے ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اسلامی نظامِ معیشت کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

Leave a Reply