اصلاحِ احوال کے چار بنیادی درجات – جمعۃ المبارک، 17 شعبان 1444ھ، بمطابق 10 مارچ 2023ء

1) ایمان – سب سے بڑی دولت ہے
2) اطاعت – سب سے حسین قید ہے
3) رضا – سب بڑی کامیابی ہے
4) محبت – سب سے بڑی خوش نصیبی ہے

1) ایمان: اس شخص سے بڑھ کر امیر کوئی نہیں، جسے ایمان کی دولت مل جائے۔ بھلے اس کے شب و روز فاقوں میں ہی کیوں نہ گزرتے ہوں۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 65
حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الْإِيمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَوْلٌ بِاللِّسَانِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَمَلٌ بِالْأَرْكَانِ.
ایمان دل کی معرفت، زبان سے اقرار اور اعضائے بدن سے عمل کا نام ہے۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 153
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ أَوْ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْأَذَی عَنْ الطَّرِيقِ وَالْحَيَائُ شُعْبَةٌ مِنْ الْإِيمَانِ۔
ایمان کی ستر سے کچھ اوپر یا ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں جن میں سب سے بڑھ کر لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کا قول ہے اور سب سے ادنیٰ تکلیف دہ چیز کو راستہ سے دور کردینا ہے اور حیاء بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 128 (متفق علیہ)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک موقعہ پر جبکہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور نبی مکرم ﷺ کی سواری پر آپ کے پیچھے سوار تھے تو حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا مُعَاذُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا أُخْبِرُ بِهِ النَّاسَ فَيَسْتَبْشِرُوا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِذًا يَتَّكِلُوا، ‏‏‏‏‏‏وَأَخْبَرَ بِهَا مُعَاذٌ عِنْدَ مَوْتِهِ تَأَثُّمًا.
اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں یا رسول اللہ! آپ ﷺ نے (دوبارہ) فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں اے اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے (سہ بارہ) فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں، اے اللہ کے رسول، تین بار ایسا ہوا۔ (اس کے بعد) آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ اس پر (دوزخ کی) آگ حرام کردیتا ہے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ! کیا اس بات سے لوگوں کو باخبر نہ کر دوں تاکہ وہ خوش ہوجائیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا (اگر تم یہ خبر سناؤ گے) تو لوگ اس پر بھروسہ کر بیٹھیں گے (اور عمل چھوڑ دیں گے) معاذ ؓ نے انتقال کے وقت یہ حدیث اس خیال سے بیان فرما دی کہ کہیں حدیث رسول چھپانے کے گناہ پر ان سے آخرت میں مواخذہ نہ ہو۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 257
اَللّٰهُ وَلِىُّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا يُخۡرِجُهُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوۡرِ‌ؕ
اﷲ ایمان والوں کا دوست ہے وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے۔

گویا جو بندۂِ مومن حقیقتِ ایمان کو پا لیتا ہے اسے اللہ اپنا دوست بنا لیتا ہے۔ اور اسے بدی کے اندھیروں سے نکال کر نیکی اور ہدایت کے راستے دکھا دیتا ہے۔

2) اطاعت (عمل/اسلام): اس شخص سے بڑھ کر آزاد اور پر سکون کوئی نہیں، جو اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کی قید میں ڈال دے۔ اس قیدی سے بڑھ کر آزاد کوئی نہیں ہے جس نے اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کی قید میں ڈال دیا ہے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2324
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ۔
دنیا مومن کے لیے قید خانہ (جیل) ہے اور کافر کے لیے جنت (باغ و بہار) ہے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 8
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ، ‏‏‏‏‏‏شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحَجِّ، ‏‏‏‏‏‏وَصَوْمِ رَمَضَانَ.
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ اول گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔

3) رضائے الٰہی: اس شخص سے بڑھ کر کامیاب کوئی نہیں، جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا و خوشنودی مل جائے۔

القرآن – سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 119
رَضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ‌ ؕ ذٰ لِكَ الۡـفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ ۞
ﷲ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے، یہی (رضائے الٰہی) سب سے بڑی کامیابی ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 72
وَعَدَ اللّٰهُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا وَمَسٰكِنَ طَيِّبَةً فِىۡ جَنّٰتِ عَدۡنٍ‌ ؕ وَرِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكۡبَرُ‌ ؕ ذٰ لِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ ۞
اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے جنتوں کا وعدہ فرما لیا ہے جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور ایسے پاکیزہ مکانات کا بھی (وعدہ فرمایا ہے) جوجنت کے خاص مقام پر سدا بہار باغات میں ہیں، اور (پھر) اللہ کی رضا اور خوشنودی (ان سب نعمتوں سے) بڑھ کر ہے (جو بڑے اجر کے طور پر نصیب ہوگی)، یہی زبردست کامیابی ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 45 الجاثية، آیت نمبر 30
فَاَمَّا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَيُدۡخِلُهُمۡ رَبُّهُمۡ فِىۡ رَحۡمَتِهٖ‌ ؕ ذٰلِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡمُبِيۡنُ ۞
پس جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے تو اُن کا رب انہیں اپنی رحمت میں داخل فرما لے گا، یہی تو واضح کامیابی ہے،

4) محبت: اس شخص سے بڑھ کر خوش نصیب کوئی نہیں، جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت مل جائے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 6040
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِذَا أَحَبَّ اللَّهُ عَبْدًا نَادَى جِبْرِيلَ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ، ‏‏‏‏‏‏فَيُنَادِي جِبْرِيلُ فِي أَهْلِ السَّمَاءِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبُّوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي أَهْلِ الْأَرْضِ.
جب اللہ کسی بندہ سے محبت کرتا ہے تو جبرائیل (علیہ السلام) کو آواز دیتا ہے کہ اللہ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو۔ جبرائیل (علیہ السلام) بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر وہ تمام آسمان والوں میں آواز دیتے ہیں کہ اللہ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے۔ تم بھی اس سے محبت کرو۔ پھر تمام آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد وہ زمین میں بھی (اللہ کے بندوں کا) مقبول اور محبوب بن جاتا ہے۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 5011
حضرت معاذ بن جبل ؓ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَجَبَتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَحَابِّينَ فِيَّ وَالْمُتَجَالِسِينَ فِيَّ وَالْمُتَزَاوِرِينَ فِيَّ وَالْمُتَبَاذِلِينَ فِيَّ. رَوَاهُ مَالِكٌ. وَفِي رِوَايَةِ التِّرْمِذِيَّ قَالَ: يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: الْمُتَحَابُّونَ فِي جَلَالِي لَهُمْ مَنَابِرُ مِنْ نُورٍ يَغْبِطُهُمُ النَّبِيُّونَ وَالشُّهَدَاء
’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میری محبت واجب ہو گئی ہے ان لوگوں کے لیے 1) جو میری خاطر باہم محبت کرتے ہیں، 2) میری خاطر باہم ملاقاتیں کرتے ہیں، 3) اور میری خاطر ہی ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں، ‘‘ مالک۔ اور ترمذی کی روایت میں ہے، فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میری جلالت و عظمت کی خاطر باہم محبت کرنے والوں کے لیے نور کے منبر ہیں، ان پر انبیا ؑ اور شہداء بھی رشک کریں گے۔‘‘

المختصر، دولتِ ایمان سے بڑی کوئی دولت اس دنیا میں نہیں ہے لہٰذا اس کی حفاظت کی انسان کو ہر وقت فکر کرنی چاہیے۔ ایمان کی تکمیل دین کے احکامات کی اطاعت سے ہوتی ہے۔ جب انسان اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت میں قید کر لیتا ہے تو وہ حقیقی معنوں میں آزاد ہو جاتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کی قید سے بڑھ کر حسین اور کوئی قید نہیں ہے۔ پھر اس اطاعت کے نتیجے میں جس انسان کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا و خوشنودی حاصل ہو جائے، اس سے بڑی کامیابی اور کوئی نہیں ہے کیونکہ یہی انسان کا حقیقی مقصدِ حیات ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا و خوشنودی کے حصول سے ہی انسان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کا اہل بنتا ہے۔ اور جس انسان کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کی ایک چنگاری بھی نصیب ہو جائے اس سے بڑھ کر خوش نصیب اور خوش بخت انسان اور کوئی نہیں ہے۔

Leave a Reply