اس مضمون میں ہم انسانی نفوس کی مختلف اقسام و درجات کو سمجھتے ہیں تاکہ ہم اپنے نفس کی موجودہ قسم یا درجے کو پہچان کر اس کی اصلاح کر سکیں۔
1۔ نفسِ امارہ:
نفسِ امارہ، نفس کی وہ قسم ہے جو انسان کو برائی کی طرف راغب کرتا ہے۔ اس درجے میں نفس، انسان کا دشمن ہوتا ہے جو شیطان کا ساتھی و کارندہ بن کر انسان کو برائی کا حکم دیتا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 12 يوسف، آیت نمبر 53
وَمَاۤ اُبَرِّئُ نَفۡسِىۡۚ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوۡٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّىۡ ؕاِنَّ رَبِّىۡ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ ۞
اور میں اپنے نفس کی برات (کا دعوٰی) نہیں کرتا، بیشک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے سوائے اس کے جس پر میرا رب رحم فرما دے۔ بیشک میرا رب بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے،
یہی نفس انسان کو اللہ رب العزت کے بھیجے ہوئے دین سے روگردانی پر آمادہ کرتا ہے۔ حالانکہ دین تو فقط انسان کی اپنی ہدایت و ابدی نفع کے لیے احکامات نافذ کرتا ہے۔ لہٰذا یہ اس نفس کی اپنی بے وقوفی ہے کہ وہ اپنے فائدے کی چیز سے بھی روگردانی کرتا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 130
وَمَنۡ يَّرۡغَبُ عَنۡ مِّلَّةِ اِبۡرٰهٖمَ اِلَّا مَنۡ سَفِهَ نَفۡسَهٗ۔
اور کون ہے جو ابراہیم ؑ کے دین سے رُوگرداں ہو سوائے اس کے جس کا نفس احمق ہے۔
یہی نفسِ امارہ انسان کو اپنی خواہشات کا غلام بنا دیتا ہے اور وہ انسان پھر اپنے خالقِ حقیقی اللہ رب العزت کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے بجائے اپنی ساری زندگی اسی نفس کی خواہشات کو پورا کرنے میں لگا دیتا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 25 الفرقان، آیت نمبر 43
اَرَءَيۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰٮهُ ؕ
کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے؟
اگر انسان عبادت و ریاضت کرے، خلوصِ نیت کے ساتھ اپنے معاملات کو درست کرلے، اور اللہ رب العزت کی رضا و خوشنودی کو اپنا مقصدِ حیات بنا کر اپنی ساری کوششیں اور کاوشیں محبوبِ حقیقی کو راضی کرنے کے لیے کرتا رہے تو رفتہ رفتہ یہ نفسِ انسانی امارہ کے درجے سے ترقی پا کر نفسِ لوامہ کے درجے پر فائز ہو جاتا ہے۔
2۔ نفسِ لوامہ:
نفسِ لوامہ ملامت کرنے والے نفس کو کہتے ہیں۔ جب انسان کوئی برائی کرتا ہے تو نفسِ لوامہ انسان کو ملامت کرتا ہے جس سے اسے اپنے کیے پر پشیمانی ہوتی ہے اور وہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرتا ہے اور آئندہ گناہوں سے بچنے کی نیت کرتا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 75 القيامة، آیت نمبر 2
وَلَاۤ اُقۡسِمُ بِالنَّفۡسِ اللَّوَّامَةِؕ ۞
اور میں قسم کھاتا ہوں (برائیوں پر) ملامت کرنے والے نفس کی۔
اگر مزید عبادت، ریاضت و مجاہدہ کرے تو یہ نفس ترقی پا کر اگلے درجے یعنی نفسِ ملہمہ پر فائز ہو جاتا ہے۔
3۔ نفسِ ملہمہ:
اس درجے میں نفسِ انسانی کے اندر نیکی اور بدی، اچھائی اور برائی، بدکاری اور پرہیزگاری کی تمیز پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ نفس انسان کے اندر نیکی کے خیالات ڈالتا (الہام کرتا) ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 91 الشمس، آیت نمبر 7,8
وَنَفۡسٍ وَّمَا سَوّٰٮهَا۞ فَاَلۡهَمَهَا فُجُوۡرَهَا وَتَقۡوٰٮهَا ۞
اور انسانی جان کی قَسم اور اسے ہمہ پہلو توازن و درستگی دینے والے کی قَسم، پھر اس نے اسے (نفس کو) اس کی بدکاری اور پرہیزگاری (کی تمیز) سمجھا دی،
اب اسے دونوں رستوں کی ہدایت مل چکی ہے، وہ چاہے تو نیکی کے رستے کو اختیار کر لے اور چاہے تو برائی کے رستے کو اختیار کر لے۔
4۔ نفسِ مطمئنہ:
نفسِ مطمئنہ اطمینان اور سکون پا جانے والے نفس کو کہتے ہیں۔ نفس کے اس درجے سے ولایت کی ابتدا ہوتی ہے۔ مندرجہ ذیل آیت میں اللہ رب العزت نے نفسِ مطمئنہ، نفسِ راضیہ، اور نفسِ مرضیہ کا ذکر کیا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 89 الفجر، آیت نمبر 27، 28
يٰۤاَيَّتُهَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّةُ ۞ ارۡجِعِىۡۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرۡضِيَّةً ۞
اے اطمینان پا جانے والے نفس، تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آکہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی۔
5۔ نفسِ راضیہ:
نفس کے اس درجے میں انسان اللہ رب العزت کے ہر فیصلے سے راضی رہتا ہے، ہر فیصلے کو بدل و جان قبول کرتا ہے اور اسے امرِ الٰہی مان کر اس پر سرِ تسلیم خم کرتا ہے۔ سخت تکالیف و مصائب میں بھی اس کی زبان شکوہ و شکایت سے پاک رہتی ہے۔ مندرجہ ذیل آیت میں اللہ رب العزت نے نفسِ مطمئنہ، نفسِ راضیہ، اور نفسِ مرضیہ کا ذکر کیا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 89 الفجر، آیت نمبر 27، 28
يٰۤاَيَّتُهَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّةُ ۞ ارۡجِعِىۡۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرۡضِيَّةً ۞
اے اطمینان پا جانے والے نفس، تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آکہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی۔
6۔ نفسِ مرضیہ:
نفس کے اس درجے میں اللہ رب العزت انسان سے راضی ہو جاتا ہے۔ مندرجہ ذیل آیت میں اللہ رب العزت نے نفسِ مطمئنہ، نفسِ راضیہ، اور نفسِ مرضیہ کا ذکر کیا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 89 الفجر، آیت نمبر 27، 28
يٰۤاَيَّتُهَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّةُ ۞ ارۡجِعِىۡۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرۡضِيَّةً ۞
اے اطمینان پا جانے والے نفس، تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آکہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی۔
القرآن – سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 119
رَضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ ؕ ذٰ لِكَ الۡـفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ ۞
ﷲ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے، یہی (رضائے الٰہی) سب سے بڑی کامیابی ہے،
القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 72
وَرِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكۡبَرُ ؕ ذٰ لِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ ۞
اور اللہ کی رضا اور خوشنودی سب سے بڑھ کر ہے، یہی زبردست کامیابی ہے۔
7۔ نفسِ کاملہ (صافیہ):
یہ نفس کا آخری اور کامل درجہ ہے۔ نفس کے اس درجے کا حامل انسان عبدیت کے کمال تک پہنچ جاتا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 89 الفجر، آیت نمبر 29، 30
فَادۡخُلِىۡ فِىۡ عِبٰدِىۙ ۞ وَادۡخُلِىۡ جَنَّتِى ۞
پس تو میرے (کامل) بندوں میں شامل ہو جا، اور میری جنتِ (قربت و دیدار) میں داخل ہو جا۔
(صحیح بخاری، حدیث نمبر: 6502)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنْ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ،
اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہوجاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں۔
نفس کا تزکیہ کن اعمال سے ہوتا ہے:
یوں تو ساری عبادات کی غرض و غایت یہی ہے کہ انسان کے نفس کا تزکیہ ہو، قلب کا تصفیہ ہو اور اس کا ظاہر و باطن ہر طرح کی برائیوں، غلاظتوں اور سفلی جذبات و خیالات سے پاک ہو کر فقط اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت، رضا اور خوشنودی کا طلبگار بن جائے۔ مگر کچھ اعمال و عبادات خاص ہیں جو انسان کے نفس کا تزکیہ کرنے میں بڑی کارآمد ہیں۔ مثلاً
1) انفاق فی سبیل اللہ:
القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 103
خُذۡ مِنۡ اَمۡوَالِهِمۡ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمۡ وَتُزَكِّيۡهِمۡ بِهَا وَصَلِّ عَلَيۡهِمۡؕ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمۡؕ وَاللّٰهُ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ ۞
آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں اور ان کے (نفوس) کا تزکیہ کر دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بیشک آپ کی دعا ان کے لئے (باعثِ) تسکین ہے، اور اﷲ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔
اس آیتِ مبارکہ کے اندر زکوٰۃ، صدقات اور خیرات یعنی اللہ رب العزت کے رستے میں اپنے اموال کے خرچ کرنے (انفاق فی سبیل اللہ) کو تزکیہ نفوس کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ گویا اللہ کے رستے میں اپنی حلال کمائی میں سے خرچ کرنا خود انسان کے اپنے نفس کی پاکیزگی اور طہارت کا باعث بنتا ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ سے انسان کے اندر سے بخل و کنجوسی کی خرابی کا خاتمہ ہوتا ہے اور اس کے نفس میں سخاوت کی خوبی پیدا ہوتی ہے جو انسان کے لیے دنیا و آخرت کی کامیابی کا باعث ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 59 الحشر، آیت نمبر 9
وَمَنۡ يُّوۡقَ شُحَّ نَـفۡسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَۚ ۞
اور جو شخص اپنے نفس کے بُخل سے بچا لیا گیا پس وہی لوگ ہی بامراد و کامیاب ہیں۔
2) روزہ
روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس سے انسان کے ظاہر (جسم) کی بھی تطہیر ہوتی ہے اور انسان کے باطن کا بھی تزکیہ و تصفیہ ہو جاتا ہے۔ حضور نبی مکرم ﷺ نے روزے کو جسم کی زکوٰۃ قرار دیا ہے؛
سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1745
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لِكُلِّ شَيْءٍ زَكَاةٌ، وَزَكَاةُ الْجَسَدِ الصَّوْمُ ، زَادَ مُحْرِزٌ فِي حَدِيثِهِ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الصِّيَامُ نِصْفُ الصَّبْرِ .
ہر چیز کی زکاۃ ہے، اور بدن کی زکاۃ روزہ ہے، محرز کی روایت میں اتنا اضافہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: روزہ آدھا صبر ہے ۔
زکوٰۃ کا معنیٰ ہے کسی شے کا عمدہ ترین حصے کو کہتے ہیں (مصباح اللغات) اور اسی مادے کے الفاظ ہیں، زکا، زکّٰی، تزکیہ جس کے معنی ہیں نشوونما پانا اور پاک صاف ہونا۔
حدیثِ مبارکہ میں حضور نبی مکرم ﷺ نے روزے کو جسم کی زکوٰۃ قرار دیا ہے تو گویا:
1) انسان کے جسم سے جو عمدہ ترین کام لیا جا سکتا ہے وہ رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر روزہ رکھنا ہے
2) روزہ انسان کے ظاہر اور باطن کی صفائی (تزکیہ) کر دیتا ہے
3) روزہ انسان کی جسمانی و روحانی نشوونما میں برکت پیدا کر دیتا ہے۔
انسان کے اندر فطری طور پر شہوت کا مادہ رکھا گیا ہے جس کو اگر مناسب تربیت سے قابو نہ کیا جائے تو یہی جذبہ نفسانی خواہشات کی صورت میں انسان کو برائی کی طرف راغب کرتا ہے۔ ان نفسانی شہوات و خواہشات کو تہذیب کے دائرے میں لانے کے لیے حضور نبی مکرم ﷺ نے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے۔
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5066
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَارَةُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ عَلْقَمَةَ والْأَسْوَدِ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَبَابًا لَا نَجِدُ شَيْئًا، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں نوجوان تھے اور ہمیں کوئی چیز میسر نہیں تھی۔ نبی کریم ﷺ نے ہم سے فرمایا کہ نوجوانوں کی جماعت! تم میں جسے بھی نکاح کرنے کے لیے مالی طاقت ہو اسے نکاح کرلینا چاہیے کیونکہ یہ نظر کو نیچی رکھنے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا عمل ہے اور جو کوئی نکاح کی بوجہ غربت طاقت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ اس کی خواہشات نفسانی کو توڑ دے گا۔
الغرض تمام عبادات یعنی نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ و صدقات (انفاق فی سبیل اللہ) وغیرہ کا مقصود نفسِ انسانی کا تزکیہ و تصفیہ کرنا ہے تاکہ اسے نفسِ امارہ سے نفسِ مطمئنہ اور بعد ازاں نفسِ کاملہ کے درجے پر فائز کیا جا سکے۔ اور اسی میں انسان کی دنیوی اور اخروی کامیابی کا راز مضمر ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے نفس کی قباحتوں سے محفوظ فرمائے اور اپنے نفوس کا تزکیہ اور تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین