انفاق فی سبیل اللہ کا حکم:
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 254
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰكُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ يَّاۡتِىَ يَوۡمٌ لَّا بَيۡعٌ فِيۡهِ وَلَا خُلَّةٌ وَّلَا شَفَاعَةٌ ؕ وَالۡكٰفِرُوۡنَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ۞
اے ایمان والو! جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے (اﷲ کی راہ میں) خرچ کرو قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس میں نہ کوئی خرید و فروخت ہوگی اور (کافروں کے لئے) نہ کوئی دوستی (کار آمد) ہوگی اور نہ (کوئی) سفارش، اور یہ کفار ہی ظالم ہیں۔
انفاق فی سبیل اللہ کی حکمت:
القرآن – سورۃ نمبر 59 الحشر، آیت نمبر 7
كَىۡ لَا يَكُوۡنَ دُوۡلَةًۢ بَيۡنَ الۡاَغۡنِيَآءِ مِنۡكُمۡ ؕ
(یہ نظامِ تقسیم اس لئے ہے) تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مال داروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے)۔
انفاق فی سبیل اللہ محبتِ الہٰیہ کے حصول کا ذریعہ ہے:
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 195
وَاَنۡفِقُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَلَا تُلۡقُوۡا بِاَيۡدِيۡكُمۡ اِلَى التَّهۡلُكَةِ ۖ ۛۚ وَاَحۡسِنُوۡا ۛۚ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ ۞
اور اﷲ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور نیکی اختیار کرو، بیشک اﷲ نیکوکاروں سے محبت فرماتا ہے۔
اہلِ محبت ہمیشہ سخی ہوتے ہیں!!!
سخاوت کرنا یعنی اللہ رب العزت کی عطاء کردہ نعمتوں کو اس کی مخلوق میں سے ضرورت مندوں پر خرچ کرنا اہلِ محبت کی نشانی ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 177
وَاٰتَى الۡمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِى الۡقُرۡبٰى وَالۡيَتٰمٰى وَالۡمَسٰكِيۡنَ وَابۡنَ السَّبِيۡلِۙ وَالسَّآئِلِيۡنَ وَفِى الرِّقَابِۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّکٰوةَ ۚ وَالۡمُوۡفُوۡنَ بِعَهۡدِهِمۡ اِذَا عٰهَدُوۡا ۚ
اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں۔
انفاق فی سبیل اللہ اگر خالصتاً حصولِ رضائے الٰہی کے لیے کیا جائے تو اس کا اجر انوار و تجلیات الٰہیہ کی صورت میں بندے کے قلب و باطن پر اترتا ہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل آیتِ مبارکہ میں ارشاد فرمایا:
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 265
وَمَثَلُ الَّذِيۡنَ يُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَهُمُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰهِ وَ تَثۡبِيۡتًا مِّنۡ اَنۡفُسِهِمۡ كَمَثَلِ جَنَّةٍۢ بِرَبۡوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ فَاٰتَتۡ اُكُلَهَا ضِعۡفَيۡنِۚ فَاِنۡ لَّمۡ يُصِبۡهَا وَابِلٌ فَطَلٌّؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرٌ ۞
اور جو لوگ اپنے مال اﷲ کی رضا حاصل کرنے اور اپنے آپ کو (ایمان و اطاعت پر) مضبوط کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک ایسے باغ کی سی ہے جو اونچی سطح پر ہو اس پر زوردار بارش ہو تو وہ دوگنا پھل لائے، اور اگر اسے زوردار بارش نہ ملے تو (اسے) شبنم (یا ہلکی سی پھوار) بھی کافی ہو، اور اﷲ تمہارے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے۔
انفاق فی سبیل اللہ باعثِ قرب و رضائے خدا و مصطفیٰ ﷺ ہے:
القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 99
وَمِنَ الۡاَعۡرَابِ مَنۡ يُّؤۡمِنُ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنۡفِقُ قُرُبٰتٍ عِنۡدَ اللّٰهِ وَصَلَوٰتِ الرَّسُوۡلِؕ اَلَاۤ اِنَّهَا قُرۡبَةٌ لَّهُمۡؕ سَيُدۡخِلُهُمُ اللّٰهُ فِىۡ رَحۡمَتِهٖ ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ ۞
اور بادیہ نشینوں میں (ہی) وہ شخص (بھی) ہے جو اﷲ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور جو کچھ (راہِ خدا میں) خرچ کرتاہے اسے اﷲ کے حضور تقرب اور رسول ﷺ کی (رحمت بھری) دعائیں لینے کا ذریعہ سمجھتا ہے، سن لو! بیشک وہ ان کے لئے باعثِ قربِ الٰہی ہے، جلد ہی اﷲ انہیں اپنی رحمت میں داخل فرما دے گا۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
نیکی اور تقویٰ کا حصول انفاق فی سبیل اللہ کے بغیر ناممکن ہے:
القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 92
لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰى تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ؕ وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَىۡءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيۡمٌ ۞
تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے جب تک تم (اللہ کی راہ میں) اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو، اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو بیشک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔
انفاق فی سبیل اللہ تقویٰ، تزکیۂِ نفس اور رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے:
القرآن – سورۃ نمبر 92 الليل، آیت نمبر 17-21
وَسَيُجَنَّبُهَا الۡاَتۡقَىۙ ۞ الَّذِىۡ يُؤۡتِىۡ مَالَهٗ يَتَزَكّٰىۚ ۞ وَمَا لِاَحَدٍ عِنۡدَهٗ مِنۡ نِّعۡمَةٍ تُجۡزٰٓىۙ ۞ اِلَّا ابۡتِغَآءَ وَجۡهِ رَبِّهِ الۡاَعۡلٰىۚ ۞ وَلَسَوۡفَ يَرۡضٰى ۞
اور اس (آگ) سے اس بڑے پرہیزگار شخص کو بچا لیا جائے گا، جو اپنا مال (اﷲ کی راہ میں) دیتا ہے کہ (اپنے جان و مال کی) پاکیزگی حاصل کرے، اور کسی کا اس پر کوئی احسان نہیں کہ جس کا بدلہ دیا جا رہا ہو، مگر (وہ) صرف اپنے ربِ عظیم کی رضا جوئی کے لئے (مال خرچ کر رہا ہے)، اور عنقریب وہ (اﷲ کی عطا سے اور اﷲ اس کی وفا سے) راضی ہو جائے گا۔
انفاق فی سبیل، تزکیۂِ نفس اور دعاؤں کی قبولیت کا ذریعہ ہے:
القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 103
خُذۡ مِنۡ اَمۡوَالِهِمۡ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمۡ وَتُزَكِّيۡهِمۡ بِهَا وَصَلِّ عَلَيۡهِمۡؕ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمۡؕ وَاللّٰهُ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ ۞
آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں اور ان کے (نفوس) کا تزکیہ کر دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بیشک آپ کی دعا ان کے لئے (باعثِ) تسکین ہے، اور اﷲ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔
اس آیتِ مبارکہ کے اندر زکوٰۃ، صدقات اور خیرات یعنی اللہ رب العزت کے رستے میں اپنے اموال کے خرچ کرنے (انفاق فی سبیل اللہ) کو تزکیہ نفوس اور دعاؤں کی قبولیت کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ اللہ کے رستے میں اپنی حلال کمائی میں سے خرچ کرنا خود انسان کے اپنے نفس کی پاکیزگی اور طہارت کا باعث بنتا ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ سے انسان کے اندر سے بخل و کنجوسی کی خرابی کا خاتمہ ہوتا ہے اور اس کے نفس میں سخاوت کی خوبی پیدا ہوتی ہے جو انسان کے لیے دنیا و آخرت کی کامیابی کا باعث ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 59 الحشر، آیت نمبر 9
وَمَنۡ يُّوۡقَ شُحَّ نَـفۡسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَۚ ۞
اور جو شخص اپنے نفس کے بُخل سے بچا لیا گیا پس وہی لوگ ہی بامراد و کامیاب ہیں۔
اسی طرح جب انسان اپنے مال و دولت میں سے دوسرے انسانوں پر خرچ کرتا ہے تو یہ عمل اس کی دعاؤں کی قبولیت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
زمین کی پیداوار پر زکوٰۃ یعنی عشر کا حکم:
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 267
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِنۡ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبۡتُمۡ وَمِمَّاۤ اَخۡرَجۡنَا لَـكُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ۔
اے ایمان والو! ان پاکیزہ کمائیوں میں سے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا ہے (اﷲ کی راہ میں) خرچ کیا کرو۔
یتیموں اور محتاجوں پر اپنا مال خرچ نہ کرنا دین کو جھٹلانے کے مترادف ہے:
القرآن – سورۃ نمبر 107 الماعون، آیت نمبر 1-3
اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِ ۞ فَذٰلِكَ الَّذِيْ يَدُعُّ الْيَتِيْمَ ۞ وَلَا يَحُضُّ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ ۞
کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے۔ تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔ اور محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔
انسان کے مال میں حاجت مندوں کا بھی حق ہے:
القرآن – سورۃ نمبر 51 الذاريات، آیت نمبر 19
وَفِىۡۤ اَمۡوَالِهِمۡ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالۡمَحۡرُوۡمِ ۞
اور اُن کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجت مندوں) کا حق مقرر تھا۔
اللہ کے رستے میں خرچ کرنے کی کوئی حد نہیں:
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 219
وَيَسۡــئَلُوۡنَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلِ الۡعَفۡوَؕ
اور آپ سے یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں؟ فرما دیں: جو ضرورت سے زائد ہے (خرچ کر دو)
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 215
يَسۡــئَلُوۡنَكَ مَاذَا يُنۡفِقُوۡنَ ؕ قُلۡ مَآ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ خَيۡرٍ۔
آپ سے پوچھتے ہیں کہ (اﷲ کی راہ میں) کیا خرچ کریں، فرما دیں: جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے)۔
سخاوت (خرچ کرنا) نیکی و تقویٰ کی علامت ہے جبکہ بخل (کنجوسی) بدی و دین کو جھٹلانے کی علامت ہے۔ سخاوت کرنے والے کو آسانیاں عطا ہوتی ہیں جبکہ بخیل کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔
القرآن – سورۃ نمبر 92 الليل، آیت نمبر 5-10
فَاَمَّا مَنۡ اَعۡطٰى وَاتَّقٰىۙ ۞ وَصَدَّقَ بِالۡحُسۡنٰىۙ ۞ فَسَنُيَسِّرُهٗ لِلۡيُسۡرٰىؕ ۞ وَاَمَّا مَنۡۢ بَخِلَ وَاسۡتَغۡنٰىۙ ۞ وَكَذَّبَ بِالۡحُسۡنٰىۙ ۞ فَسَنُيَسِّرُهٗ لِلۡعُسۡرٰىؕ ۞
پس جس نے (اپنا مال اﷲ کی راہ میں) دیا اور پرہیزگاری اختیار کی، اور اس نے (اِنفاق و تقوٰی کے ذریعے) اچھائی (یعنی دینِ حق اور آخرت) کی تصدیق کی،تو ہم عنقریب اسے آسانی (یعنی رضائے الٰہی) کے لئے سہولت فراہم کر دیں گے۔ اور جس نے بخل کیا اور (راہِ حق میں مال خرچ کرنے سے) بے پروا رہا، اور اس نے (یوں) اچھائی (یعنی دینِ حق اور آخرت) کو جھٹلایا۔ تو ہم عنقریب اسے سختی (یعنی عذاب کی طرف بڑھنے) کے لئے سہولت فراہم کر دیں گے (تاکہ وہ تیزی سے مستحقِ عذاب ٹھہرے)۔
مال و دولت کو جمع کرنا باعثِ ہلاکت ہے:
القرآن – سورۃ نمبر 104 الهمزة
آیت نمبر 1۔3
وَيۡلٌ لِّـكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ ۞ اۨلَّذِىۡ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَهٗ ۞ يَحۡسَبُ اَنَّ مَالَهٗۤ اَخۡلَدَهٗ ۞
ہر اس شخص کے لئے ہلاکت ہے جو (روبرو) طعنہ زنی کرنے والا ہے (اور پسِ پشت) عیب جوئی کرنے والا ہے،(خرابی و تباہی ہے اس شخص کے لئے) جس نے مال جمع کیا اور اسے گن گن کر رکھتا ہے۔ وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس کی دولت اسے ہمیشہ زندہ رکھے گی۔
خرچ کرنے کا ضابطۂِ اخلاق:
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 273
لِلۡفُقَرَآءِ الَّذِيۡنَ اُحۡصِرُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ لَا يَسۡتَطِيۡعُوۡنَ ضَرۡبًا فِى الۡاَرۡضِ يَحۡسَبُهُمُ الۡجَاهِلُ اَغۡنِيَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِۚ تَعۡرِفُهُمۡ بِسِيۡمٰهُمۡۚ لَا يَسۡــئَلُوۡنَ النَّاسَ اِلۡحَــافًا ؕ وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ خَيۡرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيۡمٌ ۞
(خیرات) ان فقراءکا حق ہے جو اﷲ کی راہ میں (کسبِ معاش سے) روک دیئے گئے ہیں وہ (امورِ دین میں ہمہ وقت مشغول رہنے کے باعث) زمین میں چل پھر بھی نہیں سکتے ان کے (زُھداً) طمع سے باز رہنے کے باعث نادان (جو ان کے حال سے بے خبر ہے) انہیں مالدار سمجھے ہوئے ہے، تم انہیں ان کی صورت سے پہچان لو گے، وہ لوگوں سے بالکل سوال ہی نہیں کرتے کہ کہیں (مخلوق کے سامنے) گڑگڑانا نہ پڑے، اور تم جو مال بھی خرچ کرو تو بیشک اﷲ اسے خوب جانتا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 215
يَسۡــئَلُوۡنَكَ مَاذَا يُنۡفِقُوۡنَ ؕ قُلۡ مَآ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ خَيۡرٍ فَلِلۡوَالِدَيۡنِ وَالۡاَقۡرَبِيۡنَ وَالۡيَتٰمٰى وَالۡمَسٰكِيۡنِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِؕ وَمَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَيۡرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيۡمٌ ۞
آپ سے پوچھتے ہیں کہ (اﷲ کی راہ میں) کیا خرچ کریں، فرما دیں: جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے)، مگر اس کے حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتہ دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں، اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو بیشک اﷲ اسے خوب جاننے والا ہے۔
پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کرنا:
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 274
اَلَّذِيۡنَ يُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَهُمۡ بِالَّيۡلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً فَلَهُمۡ اَجۡرُهُمۡ عِنۡدَ رَبِّهِمۡۚ وَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ ۞
جو لوگ (اﷲ کی راہ میں) شب و روز اپنے مال پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں تو ان کے لئے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور (روزِ قیامت) ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 271
اِنۡ تُبۡدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا هِىَۚ وَاِنۡ تُخۡفُوۡهَا وَ تُؤۡتُوۡهَا الۡفُقَرَآءَ فَهُوَ خَيۡرٌ لَّكُمۡؕ وَيُكَفِّرُ عَنۡكُمۡ مِّنۡ سَيِّاٰتِكُمۡؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ ۞
اگر تم خیرات ظاہر کر کے دو تو یہ بھی اچھا ہے (اس سے دوسروں کو ترغیب ہوگی)، اور اگر تم انہیں مخفی رکھو اور وہ محتاجوں کو پہنچا دو تو یہ تمہارے لئے (اور) بہتر ہے، اور اﷲ (اس خیرات کی وجہ سے) تمہارے کچھ گناہوں کو تم سے دور فرما دے گا، اور اﷲ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔
قرضِ حسنہ:
کسی تنگ دست و ضرورت مند کو قرضِ حسنہ دینا بھی انفاق فی سبیل اللہ کی ایک شکل ہے اور باعثِ اجر و ثواب ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 245
مَنۡ ذَا الَّذِىۡ يُقۡرِضُ اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضۡعَافًا کَثِيۡرَةً ؕ وَاللّٰهُ يَقۡبِضُ وَيَبۡصُۜطُ ۖ وَ اِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ ۞
کون ہے جو اﷲ کو قرضِ حسنہ دے پھر وہ اس کے لئے اسے کئی گنا بڑھا دے گا، اور اﷲ ہی (تمہارے رزق میں) تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے،
القرآن – سورۃ نمبر 57 الحديد، آیت نمبر 18
اِنَّ الۡمُصَّدِّقِيۡنَ وَالۡمُصَّدِّقٰتِ وَاَقۡرَضُوا اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا يُّضٰعَفُ لَهُمۡ وَلَهُمۡ اَجۡرٌ كَرِيۡمٌ ۞
بیشک صدقہ و خیرات دینے والے مرد اور صدقہ و خیرات دینے والی عورتیں اور جنہوں نے اللہ کو قرضِ حسنہ کے طور پر قرض دیا ان کے لئے (صدقہ و قرضہ کا اجر) کئی گنا بڑھا دیا جائے گا اور اُن کے لئے بڑی عزت والا ثواب ہوگا،
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 280
وَاِنۡ كَانَ ذُوۡ عُسۡرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيۡسَرَةٍ ؕ وَاَنۡ تَصَدَّقُوۡا خَيۡرٌ لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۞
اور اگر قرض دار تنگدست ہو تو خوشحالی تک مہلت دی جانی چاہئے، اور تمہارا (قرض کو) معاف کر دینا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تمہیں معلوم ہو (کہ غریب کی دل جوئی اﷲ کی نگاہ میں کیا مقام رکھتی ہے)۔
متفرق احکام:
القرآن – سورۃ نمبر 58 المجادلة، آیت نمبر 12
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نَاجَيۡتُمُ الرَّسُوۡلَ فَقَدِّمُوۡا بَيۡنَ يَدَىۡ نَجۡوٰٮكُمۡ صَدَقَةً ؕ ذٰ لِكَ خَيۡرٌ لَّكُمۡ وَاَطۡهَرُ ؕ فَاِنۡ لَّمۡ تَجِدُوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ ۞
اے ایمان والو! جب تم رسول ﷺ سے کوئی راز کی بات تنہائی میں عرض کرنا چاہو تو اپنی رازدارانہ بات کہنے سے پہلے کچھ صدقہ و خیرات کر لیا کرو، یہ (عمل) تمہارے لئے بہتر اور پاکیزہ تر ہے، پھر اگر (خیرات کے لئے) کچھ نہ پاؤ تو بیشک اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین