اولاد کے حقوق اور والدین کے فرائض

زندگی کا حق:

استقرارِ حمل کے چار ماہ بعد بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے لہٰذا اس کے بعد اسقاطِ حمل کرنا گناہِ کبیرہ، حرام اور قتلِ انسانی کے مترادف ہے۔

نمازِ جنازہ اور وراثت کا حق:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2750
جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا اسْتَهَلَّ الصَّبِيُّ صُلِّيَ عَلَيْهِ وَوَرِثَ.
بچہ پیدائش کے وقت رو دے تو اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اور وہ وارث بھی ہوگا ۔

نفقہ کا حق: بچے کے نان نفقہ کی ذمہ داری باپ پر ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 65 الطلاق، آیت نمبر 6
وَاِنۡ كُنَّ اُولَاتِ حَمۡلٍ فَاَنۡفِقُوا عَلَيۡهِنَّ حَتّٰى يَضَعۡنَ حَمۡلَهُنَّ‌‌ ۚ فَاِنۡ اَرۡضَعۡنَ لَـكُمۡ فَاٰ تُوۡهُنَّ اُجُوۡرَهُنَّ‌۔
اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ اپنا بچہ جَن لیں، پھر اگر وہ تمہاری خاطر (بچے کو) دودھ پلائیں تو انہیں اُن کا معاوضہ ادا کرتے رہو۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 1691
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ:
أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّدَقَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عِنْدِي دِينَارٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى نَفْسِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عِنْدِي آخَرُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى وَلَدِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عِنْدِي آخَرُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى زَوْجَتِكَ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ زَوْجِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عِنْدِي آخَرُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى خَادِمِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عِنْدِي آخَرُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْتَ أَبْصَرُ.
نبی اکرم ﷺ نے صدقہ کا حکم دیا تو ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس ایک دینار ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اسے اپنے کام میں لے آؤ ، تو اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اسے اپنے بیٹے کو دے دو ، اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اسے اپنی بیوی کو دے دو ، اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اسے اپنے خادم کو دے دو ، اس نے کہا میرے پاس ایک اور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اب تم زیادہ بہتر جانتے ہو (کہ کسے دیا جائے) ۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 1676
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ خَيْرَ الصَّدَقَةِ مَا تَرَكَ غِنًى، ‏‏‏‏‏‏أَوْ تُصُدِّقَ بِهِ عَنْ ظَهْرِ غِنًى، ‏‏‏‏‏‏وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ.
بہترین صدقہ وہ ہے جو آدمی کو مالدار باقی رکھے یا (یوں فرمایا) وہ صدقہ ہے جسے دینے کے بعد مالک مالدار رہے اور صدقہ پہلے اسے دو جس کی تم کفالت کرتے ہو ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1965
ابومسعود انصاری ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
نَفَقَةُ الرَّجُلِ عَلَى أَهْلِهِ صَدَقَةٌ۔
آدمی کا اپنے بال بچوں پر خرچ کرنا صدقہ ہے۔

فطرانہ کا حق:

جنین (استقرارِ حمل کے بعد اور پیدائش سے پہلے) کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا بالاتفاق مستحب ہے۔

بچے کی پیدائش پر خوشی و مسرت کا اظہار کرنا دراصل نعمتِ خداوندی پر شکر بجا لانا ہے۔

بچوں کے ساتھ یکساں رویہ رکھنا:

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 5146
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ كَانَتْ لَهُ أُنْثَى فَلَمْ يَئِدْهَا وَلَمْ يُهِنْهَا وَلَمْ يُؤْثِرْ وَلَدَهُ عَلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ يَعْنِي الذُّكُورَ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ۔
جس کے پاس کوئی لڑکی ہو اور وہ اسے زندہ درگور نہ کرے، نہ اسے کمتر جانے، نہ لڑکے کو اس پر فوقیت دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا ۔

بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنا۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 5105
حضرت ابورافع ؓ کہتے ہیں:
رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَذَّنَ فِي أُذُنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ حِينَ وَلَدَتْهُ فَاطِمَةُ بِالصَّلَاةِ.
میں نے رسول اللہ ﷺ کو حسن بن علی کے کان میں جس وقت فاطمہ ؓ نے انہیں جنا اذان کہتے دیکھا جیسے نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے۔

کنزالعمال، حدیث نمبر: 45426
حضرت امام حسین علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
من ولد له ولد فأذن في أذنه اليمنى وأقام في أذنه اليسرى لم تضره أم الصبيان (ع – عن الحسين).
جس شخص کے یہاں بچہ پیدا ہوا اسے چاہیے کہ بچے کی دائیں کان میں اذان دے اور بائیں کان میں اقامت کہے۔ اس بچے کو ام الصبیان کی تکلیف نہیں ہوگی۔

تحنیک (گھٹی دینا):

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 5106
ام المؤمنین عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُؤْتٰى بِالصِّبْيَانِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَدْعُو لَهُمْ بِالْبَرَكَةِ، وَيُحَنِّكُهُمْ۔
رسول اللہ ﷺ کے پاس نومولود بچے لائے جاتے تھے تو آپ ان کے لیے برکت کی دعا فرماتے اور انہیں گھٹی دیتے۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 5615
حضرت ابوموسی ؓ روایت کرتے ہیں:
وُلِدَ لِي غُلَامٌ فَأَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ ﷺ فَسَمَّاهُ إِبْرَاهِيمَ وَحَنَّکَهُ بِتَمْرَةٍ.
میرے ہاں بچہ پیدا ہوا تو میں اسے نبی ﷺ کے پاس لایا آپ ﷺ نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور کھجور سے گھٹی دی۔

نام رکھنا، عقیقہ کرنا، ختنہ کروانا اور بال منڈوانا:

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 3126
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وُلِدَ لِي اللَّيْلَةَ غُلَامٌ، ‏‏‏‏‏‏فَسَمَّيْتُهُ بِاسْمِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ۔
آج رات میرے یہاں بچہ پیدا ہوا، میں نے اس کا نام اپنے والد ابراہیم کے نام پر رکھا۔

سنن کبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر: 19270
سمرہ بن جندب ؓ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
کُلُّ غُلاَمٍ رَہِینَۃٌ بِعَقِیقَتِہِ تُذْبَحُ عَنْہُ یَوْمَ سَابِعِہِ وَیُحْلَقُ رَأْسُہُ وَیُسَمَّی ۔ [صحیح ]
ہر بچہ عقیقہ کے عوض گروی رکھا ہوتا ہے تو ساتویں دن بچے کی جانب سے عقیقہ کیا جائے اور سر مونڈ کر نام رکھا دیا جائے۔

سنن کبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر: 19278
حضرت عائشہ ؓ سے مروی حدیث میں ہے:
عَقَّ رَسُولُ اللَّہِ – (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) – عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ یَوْمَ السَّابِعِ وَسَمَّاہُمَا وَأَمَرَ أَنْ یُمَاطَ عَنْ رَأْسِہِمَا الأَذَی۔
رسول اللہ ﷺ نے حسن و حسین کی جانب سے ساتویں دن عقیقہ کیا اور ان کے نام رکھے اور ان کے سر سے تکلیف کو دور کرنے (ان کے بال مونڈنے) کا حکم دیا۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1515
سلمان بن عامر ضبی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَعَ الْغُلَامِ عَقِيقَةٌ فَأَهْرِيقُوا عَنْهُ دَمًا،‏‏‏‏ وَأَمِيطُوا عَنْهُ الْأَذَى۔
بچے کے پیدا ہونے پر عقیقہ (اس کا حق) ہے، لہٰذا اس کی طرف سے خون بہاؤ (جانور ذبح کرو) اور اس سے مصائب و آلام دور کرو ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1516
ام کرز ؓ روایت کرتی ہیں:
أَنَّهَا سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْعَقِيقَةِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ عَنِْ الْغُلَامِ شَاتَانِ،‏‏‏‏ وَعَنِ الْأُنْثَى وَاحِدَةٌ،‏‏‏‏ وَلَا يَضُرُّكُمْ ذُكْرَانًا كُنَّ أَمْ إِنَاثًا۔
انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے گی، وہ جانور نر یا ہو مادہ اس میں تمہارے لیے کوئی حرج نہیں ۔

سنن کبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر: 17569
حضرت جابر فرماتے ہیں:
عَقَّ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ وَخَتَنَہُمَا لِسَبْعَۃِ أَیَّامٍ۔ [صحیح لغیرہ]
نبی ﷺ نے حسن و حسین کا ساتویں دن عقیقہ کیا اور ختنہ کیا۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 4948
ابوالدرداء ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّكُمْ تُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَسْمَائِكُمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَحْسِنُوا أَسْمَاءَكُمْ،‏‏‏‏
قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے باپ دادا کے ناموں کے ساتھ پکارے جاؤ گے، تو اپنے نام اچھے رکھا کرو۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3733
عبداللہ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں:
أَنَّ ابْنَةً لِعُمَرَ كَانَ يُقَالُ لَهَا:‏‏‏‏ عَاصِيَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَسَمَّاهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ جَمِيلَةَ.
حضرت عمر ؓ کی ایک بیٹی کا نام عاصیہ تھا (یعنی گنہگار، نافرمان) تو رسول اللہ ﷺ نے ان کا نام بدل کر جمیلہ رکھ دیا۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2839
ام المؤمنین عائشہ ؓ سے روایت ہے:
أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ كَانَ يُغَيِّرُ الِاسْمَ الْقَبِيحَ۔
نبی اکرم ﷺ برا نام بدل دیا کرتے تھے۔

نومولود کے بالوں کے وزن کے مطابق صدقہ کرنا: یہ مستحب عمل ہے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1519
حضرت علی المرتضیٰ ؓ روایت کرتے ہیں:
عَقَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْحَسَنِ بِشَاةٍ،‏‏‏‏ وَقَالَ:‏‏‏‏ يَا فَاطِمَةُ،‏‏‏‏ احْلِقِي رَأْسَهُ،‏‏‏‏ وَتَصَدَّقِي بِزِنَةِ شَعْرِهِ فِضَّةً،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَوَزَنَتْهُ،‏‏‏‏ فَكَانَ وَزْنُهُ دِرْهَمًا أَوْ بَعْضَ دِرْهَمٍ۔
رسول اللہ ﷺ نے حسن کی طرف سے عقیقے میں ایک بکری ذبح کی، اور فرمایا: فاطمہ! ان کے سر کے بال اتارو اور ان کے بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرو ، فاطمہ ؓ نے ان کے بالوں کو تولا تو ان کا وزن ایک درہم کے برابر یا اس سے کچھ کم ہوا۔

دو سال تک ماں کا دودھ پلانا:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 233
وَالۡوَالِدٰتُ يُرۡضِعۡنَ اَوۡلَادَهُنَّ حَوۡلَيۡنِ كَامِلَيۡنِ‌ لِمَنۡ اَرَادَ اَنۡ يُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ ‌ ؕ وَعَلَى الۡمَوۡلُوۡدِ لَهٗ رِزۡقُهُنَّ وَكِسۡوَتُهُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ‌ؕ لَا تُكَلَّفُ نَفۡسٌ اِلَّا وُسۡعَهَا ۚ لَا تُضَآرَّ وَالِدَةٌ ۢ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوۡلُوۡدٌ لَّهٗ بِوَلَدِهٖ وَعَلَى الۡوَارِثِ مِثۡلُ ذٰ لِكَ ۚ فَاِنۡ اَرَادَا فِصَالًا عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَا ‌ؕ وَاِنۡ اَرَدْتُّمۡ اَنۡ تَسۡتَرۡضِعُوۡٓا اَوۡلَادَكُمۡ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكُمۡ اِذَا سَلَّمۡتُمۡ مَّآ اٰتَيۡتُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ‌ؕ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعۡلَمُوۡٓا اَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرٌ ۞
اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں یہ (حکم) اس کے لئے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے، اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ پر لازم ہے، کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے، (اور) نہ ماں کو اس کے بچے کے باعث نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کے سبب سے، اور وارثوں پر بھی یہی حکم عائد ہوگا، پھر اگر ماں باپ دونوں باہمی رضا مندی اور مشورے سے (دو برس سے پہلے ہی) دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں، اور پھر اگر تم اپنی اولاد کو (دایہ سے) دودھ پلوانے کا ارادہ رکھتے ہو تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں جب کہ جو تم دستور کے مطابق دیتے ہو انہیں ادا کر دو، اور اﷲ سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ بیشک جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ اسے خوب دیکھنے والا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 31 لقمان، آیت نمبر 14
وَوَصَّيۡنَا الۡاِنۡسٰنَ بِوَالِدَيۡهِ‌ۚ حَمَلَتۡهُ اُمُّهٗ وَهۡنًا عَلٰى وَهۡنٍ وَّفِصٰلُهٗ فِىۡ عَامَيۡنِ اَنِ اشۡكُرۡ لِىۡ وَلِـوَالِدَيۡكَؕ اِلَىَّ الۡمَصِيۡرُ ۞
اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں (نیکی کا) تاکیدی حکم فرمایا، جسے اس کی ماں تکلیف پر تکلیف کی حالت میں (اپنے پیٹ میں) برداشت کرتی رہی اور جس کا دودھ چھوٹنا بھی دو سال میں ہے (اسے یہ حکم دیا) کہ تو میرا (بھی) شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی۔ (تجھے) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔

جب بچہ بولنے لگے تو اسے کلمہ طیبہ سکھانا:

شعب الایمان، حدیث نمبر 8649
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اِفْتَحُوا عَلٰی صِبْیَانِکُم اَوَّلَ کَلِمَۃٍ بِلَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ۔
بچہ جب بولنا سیکھنے لگے تو اسے سب سے پہلے لا الہ الااللہ یاد کرواؤ۔

اولاد کے ساتھ نرمی اور شفقت سے پیش آنا:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2612
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ مِنْ أَكْمَلِ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا وَأَلْطَفُهُمْ بِأَهْلِهِ۔
مومنوں میں سب سے زیادہ کامل ایمان والے لوگ وہ ہیں جن کے اخلاق سب سے اچھے ہیں اور وہ اپنے گھر والوں سے سب سے زیادہ نرمی و شفقت سے پیش آتے ہیں۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 516
حضرت ابوقتادہ انصاری ؓ سے روایت ہے:
أَنّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يُصَلِّي وَهُوَ حَامِلٌ أُمَامَةَ بِنْتَ زَيْنَبَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ‏‏‏‏‏‏وَلِأَبِي الْعَاصِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَهَا وَإِذَا قَامَ حَمَلَهَا.
رسول اللہ ﷺ (نفلی) نماز ادا فرما رہے تھے اور آپ نے حضرت امامہ بنت زینب بنت رسول اللہ ﷺ (یعنی اپنی نواسی) کو اُٹھایا ہوا تھا جو ابوالعاص بن ربیع بن عبدشمس سے تھیں۔ جب آپ سجدے میں جاتے تو اسے بٹھا دیتے اور جب قیام فرماتے تو اٹھا لیتے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3784
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حَامِلَ الْحَسَینِ بْنِ عَلِيٍّ عَلَى عَاتِقِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ نِعْمَ الْمَرْكَبُ رَكِبْتَ يَا غُلَامُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ:‏‏‏‏ وَنِعْمَ الرَّاكِبُ هُوَ .
رسول اللہ ﷺ حسین بن علی ؓ کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے تو ایک شخص نے کہا: بیٹے! کیا ہی اچھی سواری ہے جس پر تو سوار ہے، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اور سوار بھی کیا ہی اچھا ہے ۔

تعلیم و تربیت:

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 495
عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ سِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ.
جب تمہاری اولاد سات سال کی ہوجائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو انہیں اس پر (یعنی نماز نہ پڑھنے پر) مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو ۔

متفرق احکام:

بچے کو نظرِ بد سے بچانے کے لیے دم کرنا:

صحیح بخاری, حدیث نمبر: 5740
ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
الْعَيْنُ حَقٌّ۔
نظر کا لگ جانا حقیقت ہے۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 4737
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں:
كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُعَوِّذُ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ:‏‏‏‏ “أُعِيذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ” ثُمَّ يَقُولُ:‏‏‏‏ كَانَ أَبُوكُمْ يُعَوِّذُ بِهِمَا إِسْمَاعِيلَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق.
نبی اکرم ﷺ حسن اور حسین ؓ کے لیے (ان الفاظ میں) اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے تھے “أعيذكما بکلمات الله التامة من کل شيطان وهامة ومن کل عين لامة” میں تم دونوں کے لیے پناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے کلمات کے ذریعہ، ہر شیطان سے، ہر زہریلے کیڑے (سانپ بچھو وغیرہ) سے اور ہر نظر بد والی آنکھ سے پھر فرماتے: تمہارے باپ (ابراہیم) اسماعیل و اسحاق کے لیے بھی انہی کلمات کے ذریعہ پناہ مانگتے تھے ۔

اچھا نام رکھنا، ادب و علم سکھانا، اور شادی کروانا:

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 3138
حضرت ابو سعید ؓ اور حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
من وُلِدَ لَهُ وَلَدٌ فَلْيُحْسِنِ اسْمَهُ وَأَدَبَهُ فَإِذَا بَلَغَ فَلْيُزَوِّجْهُ فَإِنْ بَلَغَ وَلَمْ يُزَوِّجْهُ فَأَصَابَ إِثْمًا فَإِنَّمَا إثمه على أَبِيه۔
جس کے ہاں بچہ پیدا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اس کا اچھا نام رکھے، اسے ادب سکھائے اور جب وہ بالغ ہو جائے تو اس کی شادی کر دے، اگر وہ بالغ ہو جائے اور وہ (والد) اس کی شادی نہ کرے اور وہ کسی گناہ (زنا وغیرہ) کا ارتکاب کر لے تو اس کا گناہ اس کے والد پر ہے۔

اولاد کے حقوق:

1) زندگی کا حق
2) نمازِ جنازہ کا حق
3) وراثت کا حق
4) نفقہ کا حق
5) فطرانہ کا حق
6) تحنیک (گھٹی دینا)
7) کان میں اذان و اقامت کہنا
8) اولاد کا اچھا نام رکھنا
9) عقیقہ کرنا
10) بال منڈوانا اور بالوں کے وزن کے برابر صدقہ کرنا
11) ختنہ کروانا
12) جب بولنے لگے تو کلمہ طیبہ سکھانا
13) دو سال تک ماں کا دودھ پلانا
14) اولاد کو ادب و علم سکھانا
15) اولاد کی بروقت شادی کرنا
16) اولاد کی بہترین تربیت کرنا
17) اولاد کے ساتھ حسنِ اخلاق (نرمی و شفقت) سے پیش آنا
18) اولاد کے ساتھ یکساں سلوک کرنا

مآخذ و مراجع:
بچوں کی پرورش اور والدین کا کردار (رحمِ مادر سے ایک سال کی عمر تک)

Leave a Reply