تزکیہ ‘پاک صاف کرنے’ اور ‘نشوونما دینے’ کو کہتے ہیں۔
امام راغب اصفہانی نے تزکیہ نفس کی تعریف یوں کی ہے:
خیرات و برکات کا نفسِ انسانی میں نشوونما پانا تزکیۂِ نفس کہلاتا ہے۔
(راغب اصفہانی، المفردات: 214)
القرآن – سورۃ نمبر 35 فاطر، آیت نمبر 18
اِنَّمَا تُنۡذِرُ الَّذِيۡنَ يَخۡشَوۡنَ رَبَّهُمۡ بِالۡغَيۡبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ ؕ وَمَنۡ تَزَكّٰى فَاِنَّمَا يَتَزَكّٰى لِنَفۡسِهٖ ؕ وَاِلَى اللّٰهِ الۡمَصِيۡرُ ۞
(اے حبیب!) آپ ان ہی لوگوں کو ڈر سناتے ہیں جو اپنے رب سے بن دیکھے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کوئی پاکیزگی حاصل کرتا ہے وہ اپنے ہی فائدہ کے لئے پاک ہوتا ہے، اور اﷲ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔
انسانی نفس کو ہر طرح کی برائیوں اور آلائشوں سے پاک کرنے کو تزکیۂِ نفس کہتے ہیں۔
قرآنِ مجید میں تزکیۂِ نفس کی اہمیت و فضیلت کے بارے میں اللہ رب العزت نے مختلف مقامات پر بیان کیا ہے۔
تزکیۂِ نفس کی اہمیت و فضیلت بیان کرنے سے پہلے اللہ رب العزت نے گیارہ قسمیں اٹھائی ہیں:
القرآن – سورۃ نمبر 91 الشمس، آیت نمبر 1-8
وَالشَّمۡسِ وَضُحٰٮهَا ۞ وَالۡقَمَرِ اِذَا تَلٰٮهَا ۞ وَالنَّهَارِ اِذَا جَلّٰٮهَا ۞ وَالَّيۡلِ اِذَا يَغۡشٰٮهَا ۞ وَالسَّمَآءِ وَمَا بَنٰٮهَا ۞ وَالۡاَرۡضِ وَمَا طَحٰٮهَا ۞ وَنَفۡسٍ وَّمَا سَوّٰٮهَا ۞ فَاَلۡهَمَهَا فُجُوۡرَهَا وَتَقۡوٰٮهَا ۞
1) سورج کی قَسم اور 2) اس کی روشنی کی قَسم، اور 3) چاند کی قَسم جب وہ سورج کی پیروی کرے (یعنی اس کی روشنی سے چمکے)، اور 4) دن کی قَسم جب وہ سورج کو ظاہر کرے (یعنی اسے روشن دکھائے)، اور 5) رات کی قَسم جب وہ سورج کو (زمین کی ایک سمت سے) ڈھانپ لے، اور 6) آسمان کی قَسم اور 7) اس (قوت) کی قَسم جس نے اسے (اذنِ الٰہی سے ایک وسیع کائنات کی شکل میں) تعمیر کیا، اور 8) زمین کی قَسم اور 9) اس (قوت) کی قَسم جو اسے (امرِ الٰہی سے سورج سے کھینچ دور) لے گئی، اور 10) نفس (یعنی انسانی جان) کی قَسم اور 11) اس کی قسم جس نے اس کو ( یعنی نفس کو) درست بنایا۔ پھر اس نے اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری (کی تمیز) سمجھا دی،
یہ گیارہ قسمیں کھانے کے بعد اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
القرآن – سورۃ نمبر 91 الشمس، آیت نمبر 9, 10
قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَكّٰٮهَا ۞ وَقَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰٮهَا ۞
بیشک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کا تزکیہ کر لیا اور بیشک وہ شخص نامراد ہوگیا جس نے اسے (گناہوں میں) ملوث کر لیا۔
جس شخص نے اپنے نفس کا تزکیہ کر لیا یعنی اسے پاک و صاف کر لیا، اسے ہر طرح کی برائیوں، آلائشوں اور گناہوں سے بچا لیا وہ فلاح پاگیا یعنی وہ کامیاب و کامران ہو گیا۔ اور جس نے اپنے نفس کا تزکیہ نہ کیا، اسے برائیوں اور گناہوں سے نہ پچایا بلکہ اسے گناہوں اور نا فرمانیوں میں مبتلا کر لیا، وہ ناکام و نامراد ہوگیا۔
تزکیۂِ نفس ہی سے انسان کو حقیقی کامیابی حاصل ہوتی ہے:
القرآن – سورۃ نمبر 87 الأعلى، آیت نمبر 14، 15
قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ تَزَكّٰىۙ ۞ وَذَكَرَ اسۡمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰى ۞
بیشک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیا، اور وہ اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہا اور (کثرت و پابندی سے) نماز پڑھتا رہا،
تزکیۂِ نفس، جنت کی ضمانت ہے:
القرآن – سورۃ نمبر 79 النازعات، آیت نمبر 40، 41
وَاَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفۡسَ عَنِ الۡهَوٰىۙ ۞ فَاِنَّ الۡجَـنَّةَ هِىَ الۡمَاۡوٰىؕ ۞
اور جو شخص اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا اور اُس نے (اپنے) نفس کو (بری) خواہشات و شہوات سے باز رکھا، تو بیشک جنت ہی (اُس کا) ٹھکانا ہوگا،
تزکیۂِ نفس، چار عظیم مقاصدِ نبوتِ محمدی ﷺ میں سے ہے:
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 151
كَمَآ اَرۡسَلۡنَا فِيۡکُمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡکُمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡكُمۡ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيۡکُمۡ وَيُعَلِّمُکُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِکۡمَةَ وَيُعَلِّمُكُمۡ مَّا لَمۡ تَكُوۡنُوۡا تَعۡلَمُوۡنَ ۞
اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اَسرارِ معرفت و حقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔
یہی مضمون مندرجہ ذیل آیاتِ مبارکہ میں بھی بیان ہوا ہے:
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 129
رَبَّنَا وَابۡعَثۡ فِيۡهِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡهُمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَ يُزَكِّيۡهِمۡؕ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ۞
اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول ﷺ مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 164
لَقَدۡ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِيۡهِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِهِمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيۡهِمۡ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ ۚ وَاِنۡ كَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ ۞
بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول ﷺ بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔
القرآن – سورۃ نمبر 62 الجمعة، آیت نمبر 2
هُوَ الَّذِىۡ بَعَثَ فِى الۡاُمِّيّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡهُمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيۡهِمۡ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَاِنۡ كَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍۙ ۞
وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول ﷺ کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، بیشک وہ لوگ اِن (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے،
مندرجہ بالا آیاتِ مبارکہ کی روشنی میں چار عظیم مقاصدِ نبوتِ محمدی ﷺ مندرجہ ذیل ہیں:
1) تلاوتِ قرآنِ مجید
2) تزکیۂِ نفس یعنی انسانی نفوس و قلوب کو پاک و صاف کرنا
3) کتاب کی تعلیم دینا
4) حکمت و دانائی کی تعلیم دینا
تزکیۂِ نفس کو حضور نبی مکرم ﷺ نے جہادِ اکبر کہا ہے:
ایک غزوے سے واپسی پر حضور نبی مکرم ﷺ نے صحابہ کرام سے مخاطب ہو کر فرمایا:
مرحبا بکم قدمتم من الجہاد الاصغر الی الجہاد الاکبر۔ قیل و ما الجہاد الاکبر قال جہاد النفس۔
تمہیں مرحبا ہو کہ تم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف لوٹ رہے ہو۔ پوچھا گیا وہ بڑا جہاد کون سا ہے؟ فرمایا وہ نفس سے جہاد ہے۔
(احیاء علوم الدین، 3، 57)
المجاھد من جاھد نفسہ فی طاعۃ اللہ
مجاہد وہ ہے جس نے اللہ کی اطاعت کے بارے میں اپنے نفس سے جہاد کیا۔
(احیاء علوم الدین، 3، 57)
تزکیۂِ نفس، ذکرِ الٰہی اور نماز سے بھی مقدم ہے:
القرآن – سورۃ نمبر 87 الأعلى، آیت نمبر 14، 15
قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ تَزَكّٰىۙ ۞ وَذَكَرَ اسۡمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰى ۞
بیشک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیا، اور وہ اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہا اور (کثرت و پابندی سے) نماز پڑھتا رہا،
یعنی ذکرِ الٰہی اور نماز سے حقیقی لطف و سرور تبھی حاصل ہوتا ہے جب انسان اپنے نفس کو ہر طرح کی برائیوں سے پاک و صاف کر لیتا ہے۔
نفس، انسان کے تین دشمنوں میں سے ایک ہے:
انسان کے تین بنیادی دشمن ہیں 1) شیطان 2) دنیا 3) نفس
القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 53
اِنَّ الشَّيۡطٰنَ يَنۡزَغُ بَيۡنَهُمۡؕ اِنَّ الشَّيۡطٰنَ كَانَ لِلۡاِنۡسَانِ عَدُوًّا مُّبِيۡنًا ۞
بیشک شیطان لوگوں کے درمیان فساد بپا کرتا ہے، یقینا شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے،
القرآن – سورۃ نمبر 18 الكهف، آیت نمبر 103
قُلۡ هَلۡ نُـنَبِّئُكُمۡ بِالۡاَخۡسَرِيۡنَ اَعۡمَالًا ۞ اَ لَّذِيۡنَ ضَلَّ سَعۡيُهُمۡ فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَهُمۡ يَحۡسَبُوۡنَ اَنَّهُمۡ يُحۡسِنُوۡنَ صُنۡعًا ۞
فرما دیجئے: کیا ہم تمہیں ایسے لوگوں سے خبردار کر دیں جو اعمال کے حساب سے سخت خسارہ پانے والے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کی ساری جد و جہد دنیا کی زندگی میں ہی برباد ہوگئی اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم بڑے اچھے کام انجام دے رہے ہیں،
القرآن – سورۃ نمبر 12 يوسف، آیت نمبر 53
وَمَاۤ اُبَرِّئُ نَفۡسِىۡۚ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوۡٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّىۡ ؕ
اور میں اپنے نفس کی برات (کا دعوٰی) نہیں کرتا، بیشک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے سوائے اس کے جس پر میرا رب رحم فرما دے۔
حضور نبی مکرم ﷺ نے تزکیۂِ نفس کی دعا ان الفاظ سے مانگی:
صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6906
حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے حضور نبی مکرم ﷺ اس طرح دعا مانگا کرتے تھے:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنْ الْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَالْهَرَمِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ اللَّهُمَّ آتِ نَفْسِي تَقْوَاهَا وَزَکِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَکَّاهَا أَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلَاهَا اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ وَمِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ وَمِنْ دَعْوَةٍ لَا يُسْتَجَابُ لَهَا۔
اے اللہ میں تجھ سے عاجز ہونے اور سستی اور بزدلی اور بخل اور بڑھاپے اور عذاب قبر سے پناہ مانگتا ہوں اے اللہ میرے نفس کو تقوی عطا کر اور اسے پاکیزہ بنا آپ ہی پاکیزہ بنانے والوں میں سے بہتر ہیں اور تو ہی کار ساز اور مولیٰ ہے اے اللہ میں تجھ سے ایسے علم سے پناہ مانگتا ہوں جو نفع دینے والا نہ ہو اور ایسے دل سے جو ڈرنے والا نہ ہو اور ایسے نفس سے جو سیر ہونے والا نہ ہو اور ایسی دعا سے جو قبول ہونے والی نہ ہو۔
سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3837
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْأَرْبَعِ: مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ، وَمِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ، وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ، وَمِنْ دُعَاءٍ لَا يُسْمَعُ.
اے اللہ! میں چار باتوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں: اس علم سے جو فائدہ نہ دے، اس دل سے جو اللہ کے سامنے نرم نہ ہو، اس نفس سے جو آسودہ نہ ہو اور اس دعا سے جو قبول نہ ہو ۔
تزکیۂِ نفس یعنی انسانی نفوس و قلوب کو باطنی بیماریوں اور برائیوں سے پاک و صاف کرنا چار عظیم مقاصدِ نبوتِ محمدی ﷺ میں سے ہے۔ اسی تزکیۂِ نفس کو اللہ رب العزت نے حقیقی کامیابی سے تعبیر کیا ہے اور اسی کو جنت کی ضمانت قرار دیا ہے۔ بقول بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ:
مَن عَرَفَ نَفْسَهٗ فَقَد عَرَفَ رَبَّهٗ
جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے نفس کو پہچاننے اور اس کا تزکیہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین