تصفیۂِ قلب

دل کی اصلاح کے ذریعے دل کو پاک و صاف کر لینے کو تصفیۂِ قلب کہتے ہیں۔

Views: 33

دل کی اصلاح کے ذریعے دل کو پاک و صاف کر لینے کو تصفیۂِ قلب کہتے ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 83 المطففين، آیت نمبر 14
كَلَّا‌ بَلۡ ۜ رَانَ عَلٰى قُلُوۡبِهِمۡ مَّا كَانُوۡا يَكۡسِبُوۡنَ ۞
(ایسا) ہرگز نہیں بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) ان کے دلوں پر ان اَعمالِ (بد) کا زنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کمایا کرتے تھے۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 4244
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ كَانَتْ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ فِي قَلْبِهِ،‏‏‏‏ فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ،‏‏‏‏ صُقِلَ قَلْبُهُ،‏‏‏‏ فَإِنْ زَادَ زَادَتْ،‏‏‏‏ فَذَلِكَ الرَّانُ الَّذِي ذَكَرَهُ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ سورة المطففين آية 14.
جب مومن کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ (داغ) لگ جاتا ہے، اگر وہ توبہ کرے، باز آجائے اور مغفرت طلب کرے تو اس کا دل صاف کردیا جاتا ہے، اور اگر وہ (گناہ میں) بڑھتا چلا جائے تو پھر وہ دھبہ بھی بڑھتا جاتا ہے، یہ وہی زنگ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کیا ہے: كلا بل ران على قلوبهم ما کانوا يکسبون ہرگز نہیں بلکہ ان کے برے اعمال نے ان کے دلوں پر زنگ پکڑ لیا ہے جو وہ کرتے ہیں (سورة المطففين: 14) ۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 52
حضرت نعمان بن بشیر روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ.
سن لو بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہوگا سارا بدن درست ہوگا اور جہاں بگڑا سارا بدن بگڑ گیا۔ سن لو وہ ٹکڑا آدمی کا دل ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 50 ق، آیت نمبر 37
اِنَّ فِىۡ ذٰلِكَ لَذِكۡرٰى لِمَنۡ كَانَ لَهٗ قَلۡبٌ اَوۡ اَلۡقَى السَّمۡعَ وَهُوَ شَهِيۡدٌ ۞
بیشک اس میں یقیناً انتباہ اور تذکّر ہے اس شخص کے لئے جو صاحبِ دل ہے (یعنی غفلت سے دوری اور قلبی بیداری رکھتا ہے) یا کان لگا کرسُنتا ہے (یعنی توجہ کو یک سُو اور غیر سے منقطع رکھتا ہے) اور وہ (باطنی) مشاہدہ میں ہے (یعنی حسن و جمالِ الوھیّت کی تجلّیات میں گم رہتا ہے)،

القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء، آیت نمبر 88، 89
يَوۡمَ لَا يَنۡفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوۡنَۙ ۞ اِلَّا مَنۡ اَتَى اللّٰهَ بِقَلۡبٍ سَلِيۡمٍؕ ۞
جس دن نہ کوئی مال نفع دے گا اور نہ اولاد، مگر وہی شخص (نفع مند ہوگا) جو اللہ کی بارگاہ میں سلامتی والے بے عیب دل کے ساتھ حاضر ہوا،

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2411
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا تُكْثِرُوا الْكَلَامَ بِغَيْرِ ذِكْرِ اللَّهِ فَإِنَّ كَثْرَةَ الْكَلَامِ بِغَيْرِ ذِكْرِ اللَّهِ قَسْوَةٌ لِلْقَلْبِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنَ اللَّهِ الْقَلْبُ الْقَاسِي .
ذکر الٰہی کے سوا کثرت کلام سے پرہیز کرو اس لیے کہ ذکر الٰہی کے سوا کثرت کلام دل کو سخت بنا دیتا ہے اور لوگوں میں اللہ سے سب سے زیادہ دور سخت دل والا ہوگا ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 2276)

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 2286
عبداللہ بن عمر ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے:
لِكُلِّ شَيْءٍ صِقَالَةٌ وَصِقَالَةُ الْقُلُوبِ ذِكْرُ اللَّهِ وَمَا مِنْ شَيْءٍ أَنْجَى مِنْ عَذَابِ اللَّهِ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ»
ہر چیز کے لئے ایک صفائی کرنے والی چیز ہوتی ہے، جبکہ دلوں کی صفائی کرنے والی چیز اللہ کا ذکر ہے، اور اللہ کے ذکر سے بڑھ کر، اللہ کے عذاب سے بچانے والی کوئی چیز نہیں۔‘‘

میں جو سر بسجدہ ہوا کبھی، تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
علامہ اقبال

Leave a Reply