اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو پہچان لینا اور اسے اپنی زندگی کا حقیقی مقصدِ حیات سمجھتے ہوئے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے لوگ ہی حقیقتِ ایمان کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
حقیقتِ ایمان – محبتِ خدا و مصطفیٰﷺ
حقیقتِ مقصد حیات – حقیقتِ ایمان کو پا لینا
حقیقتِ فلاح و کامیابی – حقیقتِ مقصد حیات کو پا لینا
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق حقیقتِ ایمان کیا ہے؟
الطبرانی فی المعجم الکبیر، 3367
حضرت حارث بن مالک انصاری سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے گزرے تو آپ نے انہیں فرمایا: اے حارث! تو نے کیسے صبح کی ؟ انہوں نے عرض کیا: میں نے سچے مومن کی طرح صبح کی (یعنی حقیقت ایمان کے ساتھ صبح کی)، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یقیناً ہر ایک شے کی کوئی نہ کوئی حقیقت ہوتی ہے، سو تمہارے ایمان کی حقیقت کیا ہے؟ عرض کیا: (یا رسول اللہ!) میرا نفس دنیا سے بے رغبت ہو گیا ہے اور اسی وجہ سے میں اپنی راتوں میں بیدار رہتا ہوں اور دن میں پیاسا رہتا ہوں (یعنی دیدار الٰہی کی طلب میں) اور حالت یہ ہو گئی ہے گویا میں اپنے رب کے عرش کو سامنے ظاہر دیکھ رہا ہوں اور اہلِ جنت کو ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور اہلِ دوزخ کو تکلیف سے چلاتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے حارث! تو نے (حقیقت ایمان کو) پہچان لیا، اب (اس سے) چمٹ جا! یہ کلمہ آپ نے تین مرتبہ فرمایا۔
اور دوسری روایت جو حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے اس میں فرمایا: تو نے حقیقتِ ایمان کو پا لیا، پس اس حالت کو قائم رکھنا، تو وہ مومن ہے جس کے دل کو اللہ تعالیٰ نے نور سے بھر دیا ہے۔
تو حقیقتِ ایمان گویا یہ ہے کہ بندۂِ مومن کا دل اللہ کے نور سے بھر جائے اور پھر اس نور سے بندۂِ مومن اپنی دل کی آنکھوں سے آفاقی اور ابدی حُسن کو دیکھنے کے قابل ہو جائے۔
مشکوٰۃ المصابیح, حدیث نمبر: 5358
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَرَنِي رَبِّي بِتِسْعٍ: خَشْيَةِ اللَّهِ فِي السِّرِّ وَالْعَلَانِيَةِ وَكَلِمَةِ الْعَدْلِ فِي الْغَضَبِ وَالرِّضَى وَالْقَصْدِ فِي الْفَقْرِ وَالْغِنَى وَأَنْ أَصِلَ مَنْ قَطَعَنِي وَأُعْطِي مَنْ حَرَمَنِي وَأَعْفُو عَمَّنْ ظَلَمَنِي وَأَنْ يَكُونَ صَمْتِي فِكْرًا وَنُطْقِي ذِكْرًا وَنَظَرِي عِبْرَةً وَآمُرُ بِالْعُرْفِ «وَقِيلَ» بِالْمَعْرُوفِ رَوَاهُ رزين.
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ میرے رب نے مجھے نو چیزوں کا حکم فرمایا:
1) پوشیدہ و اعلانیہ ہر حالت میں اللہ کا ڈر رکھنا،
2) غضب و رضا میں حق بات کرنا،
3) فقر و مال داری میں میانہ روی اختیار کرنا،
4) جو شخص مجھ سے قطع تعلق کرے میں اس کے ساتھ تعلق قائم کروں،
5) جو شخص مجھے محروم رکھے میں اسے عطا کروں،
6) جس شخص نے مجھ پر ظلم کیا میں اسے معاف کروں،
7) میرا خاموش رہنا غور و فکر کا پیش خیمہ ہو،
8) میرا بولنا ذکر ہو
9) اور میرا دیکھنا عبرت ہو،
اور یہ کہ میں نیکی کا حکم دوں۔‘‘
سنن نسائی, حدیث نمبر: 4875
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ. ح وَأَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَيَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَاعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ أَحْمَدُ فِي حَدِيثِهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَسْرِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، ثُمَّ التَّوْبَةُ مَعْرُوضَةٌ بَعْدُ.
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب زنا کرنے والا زنا کرتا ہے تو زنا کے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا، جب چوری کرنے والا چوری کرتا ہے تو چوری کے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا۔ جب شراب پینے والا شراب پیتا ہے تو پیتے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا، اس کے بعد بھی اب تک اس کی توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے ۔
صحیح مسلم، حدیث نمبر: 173
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ وَمَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُکْرِمْ جَارَهُ وَمَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُکْرِمْ ضَيْفَهُ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص کا ایمان اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ہو پس اسے چاہئے کہ وہ اچھی بات کہے یا پھر اسے خاموش رہنا چاہئے اور جس شخص کا ایمان اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ہو اسے چاہئے کہ اپنے ہمسائے کی عزت کرے اور جس شخص کا ایمان اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ہو اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقتِ ایمان کو پہچاننے اور اس کیفیت اور حالت کو پانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین