اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہی حقیقتِ ایمان ہے۔ اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو حاصل کر لینا یا حاصل کرنے کی کوشش کرنا، یہی حقیقی مقصدِ حیات ہے۔ اور جو شخص اپنے حقیقی مقصدِ حیات کو پہچان لے اور اس کے حصول کی کوشش میں لگا رہے، وہی حقیقی معنوں میں کامیاب ہے۔
امام حسین علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے:
مَاذَا وَجَدَ مَنْ فَقَدَكَ وَ مَا الّذِى فَقَدَ مَنْ وَجَدَكَ؟
اے اللہ! جس نے تجھے کھو دیا، اس نے کیا پایا اور جسے تو مل گیا، اس نے کیا کھویا؟
اب اللہ کی محبت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے دل کی سرزمین کو ہر غیر کی محبت سے پاک کیا جائے۔ اگر دل میں دنیا کی محبت غالب ہو، تو ایسے دل میں اللہ کی محبت کا بیج پرورش نہیں پا سکتا۔ تو اپنے مقصدِ حقیقی کو پانے کے لیے ضروری ہے کہ ہر طالبِ حق اپنے دل کو دنیا کی محبت سے پاک کرلے۔ دل کو دنیا کی محبت سے پاک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دنیا کی حقیقت کو سمجھا جائے تاکہ اس کے حملوں سے بچنے کے لیے مناسب تدابیر اختیار کی جاسکیں۔
دنیا کی محبت سے مراد دنیوی خواہشات کی محبت ہے جیسے سورۃ آلِ عمران کی آیت نمبر 14 میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا؛
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالۡبَـنِيۡنَ وَالۡقَنَاطِيۡرِ الۡمُقَنۡطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالۡفِضَّةِ وَالۡخَـيۡلِ الۡمُسَوَّمَةِ وَالۡاَنۡعَامِ وَالۡحَـرۡثِؕ ذٰ لِكَ مَتَاعُ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا ۚ وَاللّٰهُ عِنۡدَهٗ حُسۡنُ الۡمَاٰبِ ۞
“لوگوں کے لئے ان خواہشات کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے (جن میں) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشان کئے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں)، یہ (سب) دنیوی زندگی کا سامان ہے، اور اﷲ کے پاس بہتر ٹھکانا ہے”
یہ پانچ قسم کی خواہشات ہیں، جن کی محبت کو انسان کے لیے خوب آراستہ کردیا گیا ہے۔ انہی خواہشات کی محبت کو انسان کے لیے آزمائش بنایا گیا ہے۔ جب تک یہ محبتیں ضروریات کی حد تک رہیں یا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود کے مطابق رہیں، تب تک یہ خواہشات اور ان کی محبت جائز ہے لیکن اگر یہ محبتیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت پر غالب آجائیں یا انسان ان خواہشات کے حصول کو اپنی زندگی کا مقصدِ حقیقی سمجھ بیٹھے اور انہیں حاصل کرنے کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متعین کردہ حدود کو توڑ دے تو یہی خواہشات اور ان کی محبت انسان کے لیے ہلاکت کا باعث بنتی ہے۔
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2336
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سَوَّارٍ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عِيَاضٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ لِكُلِّ أُمَّةٍ فِتْنَةً، وَفِتْنَةُ أُمَّتِي الْمَالُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ.
کعب بن عیاض ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ہر امت کی آزمائش کسی نہ کسی چیز میں ہے اور میری امت کی آزمائش مال میں ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال، آیت نمبر 28
وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَاۤ اَمۡوَالُكُمۡ وَاَوۡلَادُكُمۡ فِتۡنَةٌ ۙ وَّاَنَّ اللّٰهَ عِنۡدَهٗۤ اَجۡرٌ عَظِيۡمٌ ۞
اور جان لو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد تو بس فتنہ ہی ہیں اور یہ کہ اللہ ہی کے پاس اجرِ عظیم ہے،
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2339
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَهْرَمُ ابْنُ آدَمَ وَيَشِبُّ مِنْهُ اثْنَتَانِ: الْحِرْصُ عَلَى الْعُمُرِ، وَالْحِرْصُ عَلَى الْمَالِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آدمی بوڑھا ہوجاتا ہے البتہ اس کے اندر دو چیزیں جوان رہتی ہیں ایک (لمبی) زندگی کی خواہش، دوسرے مال کی حرص ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
زیادہ سے زیادہ مال و دولتِ دنیا کمانے کی حرص و ہوس ہی وہ بنیادی وجہ ہے جو اکثر ہمیں اپنے مالکِ حقیقی کی یاد سے ہی غافل کر دیتی ہے اور نتیجتاً ہمیں دنیا اس طرح جکڑ لیتی ہے کہ پھر ہمیں اپنا بھی ہوش نہیں رہتا۔
القرآن – سورۃ نمبر 59 الحشر، آیت نمبر 19
وَلَا تَكُوۡنُوۡا كَالَّذِيۡنَ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنۡسٰٮهُمۡ اَنۡفُسَهُمۡؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ۞
اور اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اللہ کو بھلا بیٹھے پھر اللہ نے اُن کی جانوں کو ہی اُن سے بھلا دیا، وہی لوگ نافرمان ہیں،
یعنی جو لوگ اس دنیا اور اس دنیا کی خواہشات کے حصول میں اتنے مگن ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے رب کو ہی بھول بیٹھتے ہیں تو اللہ رب العزت بھی انہیں دنیا کے ہی حوالے کر دیتے ہیں۔ پھر انہیں دنیا اور اس کے معاملات میں اتنا الجھا دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو بھی بھول جاتے ہیں یعنی انہیں اپنا بھی ہوش نہیں رہتا۔ نہ دن کو سکون ملتا ہے اور نہ رات کو چین۔ ایک نہ ختم ہونے والی خواہشات کے حصول کی دوڑ میں وہ بھاگتے رہتے ہیں۔
القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف، آیت نمبر 35
وَاِنۡ كُلُّ ذٰ لِكَ لَمَّا مَتَاعُ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا ؕ وَالۡاٰخِرَةُ عِنۡدَ رَبِّكَ لِلۡمُتَّقِيۡنَ ۞
اور یہ سب دنیا کی زندگی کا تھوڑا سا سامان ہے۔ اور آخرت تمہارے پروردگار کے ہاں پرہیزگاروں کے لئے ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 87 الأعلى، آیت نمبر 16، 17
بَلۡ تُؤۡثِرُوۡنَ الۡحَيٰوةَ الدُّنۡيَا ۞ وَالۡاٰخِرَةُ خَيۡرٌ وَّ اَبۡقٰىؕ ۞
بلکہ تم (اﷲ کی طرف رجوع کرنے کی بجائے) دنیاوی زندگی (کی لذتوں) کو اختیار کرتے ہو، حالانکہ آخرت (کی لذت و راحت) بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے،
خالقِ کائنات خود ارشاد فرما رہا ہے کہ اے انسان تو دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دے رہا ہے حالانکہ آخرت کی زندگی تیرے لیے بہتر بھی ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والی بھی ہے۔ دنیا بھی فانی ہے، دنیا کی لذتیں اور چاہتیں بھی فانی ہیں۔ وہ زندگی جو ہمیشہ رہنے والی ہے، وہ زندگی جہاں موت کو بھی موت آجائے گی، وہ زندگی جو محبوبِ حقیقی کی قربت و معیت میں گزرے گی، اے انسان تو اس کی فکر کر، اپنے مقصدِ حیات کو پہچان تاکہ جب تو اس دنیا سے رخصت ہو تو تیرے چہرے پر اطمینان اور سکون ہو اور آخرت میں تجھے کامیابی کا پروانہ مل سکے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اس دنیا کی حقیقت کو سمجھنے اور اس کے حملوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اپنا حقیقی مقصدِ حیات پہچاننے اور اسے حاصل کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین