القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 1
سُبۡحٰنَ الَّذِىۡۤ اَسۡرٰى بِعَبۡدِهٖ لَيۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ اِلَى الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِىۡ بٰرَكۡنَا حَوۡلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنۡ اٰيٰتِنَا ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيۡعُ الۡبَصِيۡرُ ۞
وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے،
ہر نبی اور رسول کو اُس دور کے تقاضوں کے مطابق اللہ رب العزت نے معجزات عطا فرمائے تاکہ ان کی حقانیت و صداقت ثابت ہوسکے۔ یوں تو حضور نبی مکرم ﷺ کی ذاتِ مبارکہ خود سراپا معجزہ ہے مگر حضور نبی مکرم ﷺ کے معجزۂِ معراج کو ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ ذیل میں ہم معجزۂِ معراجِ مصطفیٰ ﷺ کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔
واقعۂِ معراج کے تین مراحل:
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ نے حضور نبی مکرم ﷺ کے اس مقدس مرحلہ وار سفر کے باب میں اپنی کتاب “فوائد الفوائد” میں تین اصطلاحات استعمال فرمائی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
1: اسراء – مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا سفر
2: معراج – بیت المقدس سے مرحلہ وار ساتوں آسمانوں اور سدرۃ المنتہیٰ تک کا سفر
3: اعراج – سدرۃ المنتہیٰ سے مقامِ قاب قوسین تک عروج
(فوائد الفوائد، 4: 350)
مرحلۂِ اسراء – مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا سفر:
اس مرحلے میں حضور نبی مکرم ﷺ کو مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک لے جایا گیا۔اور یہ سفر آپ نے جنت سے لائی گئی سواری یعنی براق پر سوار ہو کر طے کیا۔ اس سفر میں حضرت جبرائیل امین علیہ السلام ستر ہزار فرشتوں سمیت آپ کے ہمراہ تھے۔ اس سفر کو “اسراء” کہتے ہیں جیسا کہ مندرجہ ذیل آیتِ مبارکہ کے اندر بیان ہوا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 1
سُبۡحٰنَ الَّذِىۡۤ اَسۡرٰى بِعَبۡدِهٖ لَيۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ اِلَى الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِىۡ بٰرَكۡنَا حَوۡلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنۡ اٰيٰتِنَا ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيۡعُ الۡبَصِيۡرُ ۞
وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے،
سفر کی ابتدا کیسے ہوئی ؟
صحیح البخاری کی روایت (حدیث نمبر 3207) کے مطابق حضور نبی مکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ “أَنَا عِنْدَ الْبَيْتِ بَيْنَ النَّائِمِ وَالْيَقْظَانِ” میں بیت اللہ کے قریب نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھا۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا کہ میں نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھا۔ اس سے ان لوگوں کا اعتراض رد ہو جاتا ہے جو کہتے ہیں کہ حضور کو معراج خواب میں کروائی گئی۔ اس کے بعد اسی روایت میں حضور نبی مکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ میرے سینے کو پیٹ کے آخری حصے تک چاک کیا گیا، میرے پیٹ کو آبِ زم زم سے دھویا گیا اور پھر اسے ایمان اور حکمت سے بھر دیا گیا۔ آپ مزید فرماتے ہیں کہ پھر ایک سواری لائی گئی جس کا رنگ سفید تھا، خچر سے چھوٹی تھی اور گدھے سے بڑی تھی۔ اس کا نام براق تھا۔ آپ اس سواری پر سوار ہو کر حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ہمراہ سفرِ معراج پر روانہ ہوگئے۔ اس مرحلے کی انتہا مسجدِ اقصیٰ یعنی بیت المقدس میں ہوئی، جہاں تمام انبیاء کرام علیہم السلام آپ کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ بیت المقدس میں تمام انبیاء علیہم السلام نے حضور نبی مکرم ﷺ کی امامت میں نماز ادا کی۔
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3131
عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِالْبُرَاقِ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ مُلْجَمًا مُسْرَجًا فَاسْتَصْعَبَ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ جِبْرِيلُ: أَبِمُحَمَّدٍ تَفْعَلُ هَذَا فَمَا رَكِبَكَ أَحَدٌ أَكْرَمُ عَلَى اللَّهِ مِنْهُ، قَالَ: فَارْفَضَّ عَرَقًا۔
انس ؓ کہتے ہیں کہ جس رات آپ ﷺ کو معراج حاصل ہوئی آپ کی سواری کے لیے براق لایا گیا۔ براق لگام لگایا ہوا تھا اور اس پر کاٹھی کسی ہوئی تھی، آپ نے اس پر سوار ہوتے وقت دقت محسوس کی تو جبرائیل (علیہ السلام) نے اسے یہ کہہ کر جھڑکا: تو محمد ﷺ کے ساتھ ایسا کر رہا ہے، تجھ پر اب تک ان سے زیادہ اللہ کے نزدیک کوئی معزز شخص سوار نہیں ہوا ہے، یہ سن کر براق پسینے پسینے ہوگیا۔
سنن نسائی، حدیث نمبر: 451
قال: حَدَّثَنَاأَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أُتِيتُ بِدَابَّةٍ فَوْقَ الْحِمَارِ وَدُونَ الْبَغْلِ خَطْوُهَا عِنْدَ مُنْتَهَى طَرْفِهَا فَرَكِبْتُ وَمَعِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام فَسِرْتُ، فَقَالَ: انْزِلْ فَصَلِّ، فَفَعَلْتُ، فَقَالَ: أَتَدْرِي أَيْنَ صَلَّيْتَ، صَلَّيْتَ بِطَيْبَةَ وَإِلَيْهَا الْمُهَاجَرُ، ثُمَّ قَالَ: انْزِلْ فَصَلِّ فَصَلَّيْتُ، فَقَالَ: أَتَدْرِي أَيْنَ صَلَّيْتَ، صَلَّيْتَ بِطُورِ سَيْنَاءَ حَيْثُ كَلَّمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، ثُمَّ قَالَ: انْزِلْ فَصَلِّ فَنَزَلْتُ فَصَلَّيْتُ، فَقَالَ: أَتَدْرِي أَيْنَ صَلَّيْتَ، صَلَّيْتَ بِبَيْتِ لَحْمٍ حَيْثُ وُلِدَ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَام، ثُمَّ دَخَلْتُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ فَجُمِعَ لِي الْأَنْبِيَاءُ عَلَيْهِمُ السَّلَام، فَقَدَّمَنِي جِبْرِيلُ حَتَّى أَمَمْتُهُمْ۔۔۔۔۔
یزید بن ابی مالک کہتے ہیں کہ انس بن مالک ؓ نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے پاس گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا ایک جانور لایا گیا، اس کا قدم وہاں پڑتا تھا جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی تھی، تو میں سوار ہوگیا، اور میرے ہمراہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے، میں چلا، پھر جبرائیل نے کہا: اتر کر نماز پڑھ لیجئیے، چناچہ میں نے ایسا ہی کیا، انہوں نے پوچھا: کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ آپ نے طیبہ میں نماز پڑھی ہے، اور اسی کی طرف ہجرت ہوگی، پھر انہوں نے کہا: اتر کر نماز پڑھئے، تو میں نے نماز پڑھی، انہوں نے کہا: کیا جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ آپ نے طور سینا پر نماز پڑھی ہے، جہاں اللہ عزوجل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام کیا تھا، پھر کہا: اتر کر نماز پڑھئے، میں نے اتر کر نماز پڑھی، انہوں نے پوچھا: کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ آپ نے بیت اللحم میں نماز پڑھی ہے، جہاں عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش ہوئی تھی، پھر میں بیت المقدس میں داخل ہوا، تو وہاں میرے لیے انبیاء (علیہم السلام) کو اکٹھا کیا گیا، جبرائیل نے مجھے آگے بڑھایا یہاں تک کہ میں نے ان کی امامت کی۔۔۔۔۔۔
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3132
عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ، قَالَ جِبْرِيلُ: بِإِصْبَعِهِ فَخَرَقَ بِهِ الْحَجَرَ وَشَدَّ بِهِ الْبُرَاقَ ،
بریدہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (معراج کی رات) جب ہم بیت المقدس پہنچے تو جبرائیل (علیہ السلام) نے اپنی انگلی کے اشارے سے پتھر میں شگاف کردیا اور براق کو اس سے باندھ دیا۔
یہی مضمون صحیح مسلم کی حدیث نمبر 428، 430، اور جامع ترمذی حدیث نمبر 3132 میں بھی بیان ہوا ہے۔
مرحلۂِ معراج – بیت المقدس سے مرحلہ وار ساتوں آسمانوں اور سدرۃ المنتہیٰ تک کا سفر:
دوسرے مرحلے میں حضور نبی مکرم ﷺ ساتوں آسمانوں سے گزرتے ہوئے سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے۔ یہاں تک جبرئیل امین علیہ السلام آپ کے ہمراہ تھے۔ اس سفر کو “معراج” کہتے ہیں۔
انبیائے کرام سے ملاقاتیں:
صحیح البخاری کی روایت (حدیث نمبر 3207) کے مطابق دورانِ سفر حضور نبی مکرم ﷺ کی مختلف انبیائے کرام علیہم السلام سے ملاقاتیں ہوئیں۔
1) پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔
2) دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔
3) تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔
4) چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔
5) پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔
6) چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔
7) اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3462
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَقِيتُ إِبْرَاهِيمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَقْرِئْ أُمَّتَكَ مِنِّي السَّلَامَ، وَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ الْجَنَّةَ طَيِّبَةُ التُّرْبَةِ عَذْبَةُ الْمَاءِ، وَأَنَّهَا قِيعَانٌ، وَأَنَّ غِرَاسَهَا سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ۔
جس رات مجھے معراج کرائی گئی، اس رات میں ابراہیم (علیہ السلام) سے ملا، ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا: اے محمد! اپنی امت کو میری جانب سے سلام کہہ دینا اور انہیں بتادینا کہ جنت کی مٹی بہت اچھی (زرخیز) ہے، اس کا پانی بہت میٹھا ہے، اور وہ خالی پڑی ہوئی ہے اور اس کی باغبانی: «سبحان اللہ والحمد لله ولا إله إلا اللہ والله أكبر» سے ہوتی ہے۔
بیت المعمور:
اس کے بعد حضور نبی مکرم ﷺ کو بیت المعمور دکھایا گیا، آپ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ بیت المعمور کیا ہے؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں ستر ہزار فرشتے روزانہ نماز پڑھتے ہیں اور جو فرشتہ ایک دفعہ یہاں نماز پڑھ لیتا ہے پھر دوبارہ اس کی باری نہیں آتی۔
مرحلۂِ اعراج – سدرۃ المنتہیٰ سے مقامِ قاب قوسین تک عروج:
تیسرے مرحلے میں حضور نبی مکرم ﷺ مقام دنیٰ، فتدلّٰی سے ہوتے ہوئے قاب قوسین اور اس سے بھی آگے قربتِ خاص تک پہنچے۔ اس سفر کے لیے حضور نبی مکرم ﷺ کی خدمت میں “رفرف” پیش کیا گیا جو کہ سبز رنگ کا ایک تخت تھا۔ اس سفر کو “اعراج” کہتے ہیں۔
القرآن – سورۃ نمبر 53 النجم، آیت نمبر 8
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰىۙ ۞
پھر وہ قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا۔
القرآن – سورۃ نمبر 53 النجم، آیت نمبر 9
فَكَانَ قَابَ قَوۡسَيۡنِ اَوۡ اَدۡنٰىۚ ۞
پھر (جلوۂ حق اور حبیبِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہو گیا)،
القرآن – سورۃ نمبر 53 النجم، آیت نمبر 10
فَاَوۡحٰۤى الٰى عَبۡدِهٖ مَاۤ اَوۡحٰىؕ ۞
پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (اﷲ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی،
حضور نبی مکرم ﷺ جب قاب قوسین سے بھی زیادہ قرب پر فائز ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تین تحفے پیش کیے۔ عرض کیا:
التحیات للہ والصلوات والطیبات۔
میری تمام قولی، مالی اور بدنی عبادتیں اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہیں (صرف اللہ کے لیے ہیں)
(معارج النبوۃ، 3: 149)
جواب میں حسبِ قاعدہ اللہ تعالیٰ نے بھی تین تحفے پیش کیے، فرمایا:
السَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا اَلنَّبِیُّ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہ وَ بَرَکَاتُهٗ
اے نبی! تمہارے اوپر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمت ہو اور اس کی برکتیں ہوں۔
(معارج النبوۃ، 3: 149)
حضور نبی مکرم ﷺ نے جوابًا عرض کیا:
السَّلَامُ عَلَیْنَا وَ عَلٰی عِبَادِ اللّٰہ الصَّالِحِیْنَ۔
سلام ہم سب پر اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں پر۔
(معارج النبوۃ، 3: 149)
جب یہاں تک گفتگو ہوچکی تو ملائکہ نے کہا:
اشھد ان لا الہ الااللہ و اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
(معارج النبوۃ، 3: 149)
صحیح مسلم، حدیث نمبر: 431
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَمَّا أُسْرِيَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْتُهِيَ بِهِ إِلَی سِدْرَةِ الْمُنْتَهَی وَهِيَ فِي السَّمَائِ السَّادِسَةِ إِلَيْهَا يَنْتَهِي مَا يُعْرَجُ بِهِ مِنْ الْأَرْضِ فَيُقْبَضُ مِنْهَا وَإِلَيْهَا يَنْتَهِي مَا يُهْبَطُ بِهِ مِنْ فَوْقِهَا فَيُقْبَضُ مِنْهَا قَالَ إِذْ يَغْشَی السِّدْرَةَ مَا يَغْشَی قَالَ فَرَاشٌ مِنْ ذَهَبٍ قَالَ فَأُعْطِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا أُعْطِيَ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ وَأُعْطِيَ خَوَاتِيمَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ وَغُفِرَ لِمَنْ لَمْ يُشْرِکْ بِاللَّهِ مِنْ أُمَّتِهِ شَيْئًا الْمُقْحِمَاتُ۔
حضرت عبداللہ ؓ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کو معراج کے لئے سیر کرائی گئی تو آپ ﷺ کو سدرۃ المنتہی تک لے جایا گیا جو کہ چھٹے آسمان میں واقع ہے زمین سے اوپر چڑھنے والی چیز اور اوپر سے نیچے آنی والی چیز یہاں آکر رک جاتی ہے پھر اسے لے جایا جاتا ہے اللہ نے فرمایا (اِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشٰى) 53۔ النجم: 16) کہ ڈھانک لیتی ہے وہ چیزیں کہ جو ڈھانک لیتی ہیں حضرت عبداللہ نے فرمایا یعنی سونے کے پتنگے۔ راوی نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کو تین چیزیں عطا کی گئیں پانچ نمازیں سورت البقرہ کی آخری آیتیں اور آپ ﷺ کی امت میں ہر ایک ایسے آدمی کو بخش دیا گیا جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے اور کبیرہ گناہوں سے بچا رہے۔
یہی مضمون سنن نسائی حدیث نمبر 452 میں بھی بیان ہوا ہے۔
پانچ نمازوں کا تحفہ:
اسی روایت (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3207) میں حضور نبی مکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ مجھ پر پچاس نمازیں فرض کی گئیں۔ آپ جب واپس لوٹے تو حضرتِ موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا کیا معاملہ ہوا، حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا کہ پچاس نمازیں فرض کی گئی ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ کی امت پچاس نمازیں نہیں پڑھ سکے گی آپ واپس جائیں اور نمازوں کی تعدا کم کروائیں۔ آپ واپس تشریف لے گئے تو اللہ رب العزت نے نمازوں کی تعداد پچاس سے کم کر کے چالیس کر دی۔ واپسی پر پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نمازیں مزید کم کروانے کے لیے کہا۔ اب کی بار اللہ رب العزت نے نمازوں کی تعداد تیس کردی۔ ایک دفعہ پھر لوٹے اور تعداد دس کر دی گئی۔ اس کے بعد پھر گئے تو تعداد پانچ کر دی گئی۔ (دوسری روایت کے مطابق ہر بار پانچ نمازیں کم کی گئیں) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پھر تعداد کم کروانے کے لیے کہا مگر حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا کہ میں اب معاملہ اللہ کے سپرد کر چکا ہوں۔ پھر آوازِ قدرت آئی کہ میں نے پانچ نمازیں فرض کر دی ہیں اور میں ایک نیکی کے بدلے دس گنا اجر دیتا ہوں یعنی جو پانچ نمازیں پڑھے گا اسے پچاس نمازوں کا ثواب ملے گا۔ مکمل حدیث مندرجہ ذیل ہے:
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 3207
حضرت مالک بن صعصعہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں ایک دفعہ بیت اللہ کے قریب نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھا، پھر آپ ﷺ نے دو آدمیوں کے درمیان لیٹے ہوئے ایک تیسرے آدمی کا ذکر فرمایا۔ اس کے بعد میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا، جو حکمت اور ایمان سے بھرپور تھا۔ میرے سینے کو پیٹ کے آخری حصے تک چاک کیا گیا۔ پھر میرا پیٹ زمزم کے پانی سے دھویا گیا اور اسے حکمت اور ایمان سے بھر دیا گیا۔ اس کے بعد میرے پاس ایک سواری لائی گئی۔ سفید، خچر سے چھوٹی اور گدھے سے بڑی یعنی براق، میں اس پر سوار ہو کر جبرائیل (علیہ السلام) کے ساتھ چلا۔ جب ہم آسمان دنیا پر پہنچے تو پوچھا گیا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جبرائیل۔ پوچھا گیا کہ آپ کے ساتھ اور کون صاحب آئے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ محمد ( ﷺ ) پوچھا گیا کہ کیا انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، اس پر جواب آیا کہ اچھی کشادہ جگہ آنے والے کیا ہی مبارک ہیں، پھر میں آدم (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا، آؤ پیارے بیٹے اور اچھے نبی۔ اس کے بعد ہم دوسرے آسمان پر پہنچے یہاں بھی وہی سوال ہوا۔ کون صاحب ہیں؟ کہا جبرائیل، سوال ہوا، آپ کے ساتھ کوئی اور صاحب بھی آئے ہیں؟ کہا کہ محمد ﷺ ، سوال ہوا انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ کہا کہ ہاں۔ اب ادھر سے جواب آیا، اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں، آنے والے کیا ہی مبارک ہیں۔ اس کے بعد میں عیسیٰ اور یحییٰ (علیہ السلام) سے ملا، ان حضرات نے بھی خوش آمدید، مرحبا کہا اپنے بھائی اور نبی کو۔ پھر ہم تیسرے آسمان پر آئے یہاں بھی سوال ہوا کون صاحب ہیں؟ جواب ملا جبرائیل، سوال ہوا، آپ کے ساتھ بھی کوئی ہے؟ کہا کہ محمد ﷺ ، سوال ہوا، انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ انہوں نے بتایا کہ ہاں، اب آواز آئی اچھی کشادہ جگہ آئے آنے والے کیا ہی صالح ہیں، یہاں یوسف (علیہ السلام) سے میں ملا اور انہیں سلام کیا، انہوں نے فرمایا، اچھی کشادہ جگہ آئے ہو میرے بھائی اور نبی، یہاں سے ہم چوتھے آسمان پر آئے اس پر بھی یہی سوال ہوا، کون صاحب، جواب دیا کہ جبرائیل، سوال ہوا، آپ کے ساتھ اور کون صاحب ہیں؟ کہا کہ محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا کیا انہیں لانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا، جواب دیا کہ ہاں، پھر آواز آئی، اچھی کشادہ جگہ آئے کیا ہی اچھے آنے والے ہیں۔ یہاں میں ادریس (علیہ السلام) سے ملا اور سلام کیا، انہوں نے فرمایا، مرحبا، بھائی اور نبی۔ یہاں سے ہم پانچویں آسمان پر آئے۔ یہاں بھی سوال ہوا کہ کون صاحب؟ جواب دیا کہ جبرائیل، پوچھا گیا اور آپ کے ساتھ اور کون صاحب آئے ہیں؟ جواب دیا کہ محمد ﷺ ، پوچھا گیا، انہیں بلانے کے لیے بھیجا گیا تھا؟ کہا کہ ہاں، آواز آئی، اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں۔ آنے والے کیا ہی اچھے ہیں۔ یہاں ہم ہارون (علیہ السلام) سے ملے اور میں نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا، مبارک میرے بھائی اور نبی، تم اچھی کشادہ جگہ آئے، یہاں سے ہم چھٹے آسمان پر آئے، یہاں بھی سوال ہوا، کون صاحب؟ جواب دیا کہ جبرائیل، پوچھا گیا، آپ کے ساتھ اور بھی کوئی ہیں؟ کہا کہ ہاں محمد ﷺ ہیں۔ پوچھا گیا، کیا انہیں بلایا گیا تھا کہا ہاں، کہا اچھی کشادہ جگہ آئے ہیں، اچھے آنے والے ہیں۔ یہاں میں موسیٰ (علیہ السلام) سے ملا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا، میرے بھائی اور نبی اچھی کشادہ جگہ آئے، جب میں وہاں سے آگے بڑھنے لگا تو وہ رونے لگے کسی نے پوچھا بزرگوار آپ کیوں رو رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ اے اللہ! یہ نوجوان جسے میرے بعد نبوت دی گئی، اس کی امت میں سے جنت میں داخل ہونے والے، میری امت کے جنت میں داخل ہونے والے لوگوں سے زیادہ ہوں گے۔ اس کے بعد ہم ساتویں آسمان پر آئے یہاں بھی سوال ہوا کہ کون صاحب ہیں؟ جواب دیا کہ جبرائیل، سوال ہوا کہ کوئی صاحب آپ کے ساتھ بھی ہیں؟ جواب دیا کہ محمد ﷺ پوچھا، انہیں بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ مرحبا، اچھے آنے والے۔ یہاں میں ابراہیم (علیہ السلام) سے ملا اور انہیں سلام کیا۔ انہوں نے فرمایا میرے بیٹے اور نبی، مبارک، اچھی کشادہ جگہ آئے ہو، اس کے بعد مجھے بیت المعمور دکھایا گیا۔ میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے اس کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے بتلایا کہ یہ بیت المعمور ہے۔ اس میں ستر ہزار فرشتے روزانہ نماز پڑھتے ہیں۔ اور ایک مرتبہ پڑھ کر جو اس سے نکل جاتا ہے تو پھر کبھی داخل نہیں ہوتا۔ اور مجھے سدرۃ المنتہیٰ بھی دکھایا گیا، اس کے پھل ایسے تھے جیسے مقام ہجر کے مٹکے ہوتے ہیں اور پتے ایسے تھے جیسے ہاتھی کے کان، اس کی جڑ سے چار نہریں نکلتی تھیں، دو نہریں تو باطنی تھیں اور دو ظاہری، میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ جو دو باطنی نہریں ہیں وہ تو جنت میں ہیں اور دو ظاہری نہریں دنیا میں نیل اور فرات ہیں، اس کے بعد مجھ پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کی گئیں۔ میں جب واپس ہوا اور موسیٰ (علیہ السلام) سے ملا تو انہوں نے پوچھا کہ کیا کر کے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ پچاس نمازیں مجھ پر فرض کی گئی ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ انسانوں کو میں تم سے زیادہ جانتا ہوں، بنی اسرائیل کا مجھے برا تجربہ ہوچکا ہے۔ تمہاری امت بھی اتنی نمازوں کی طاقت نہیں رکھتی، اس لیے اپنے رب کی بارگاہ میں دوبارہ حاضری دو، اور کچھ تخفیف کی درخواست کرو، میں واپس ہوا تو اللہ تعالیٰ نے نمازیں چالیس وقت کی کردیں۔ پھر بھی موسیٰ (علیہ السلام) اپنی بات (یعنی تخفیف کرانے) پر مصر رہے۔ اس مرتبہ تیس وقت کی رہ گئیں۔ پھر انہوں نے وہی فرمایا اور اس مرتبہ بارگاہ رب العزت میں میری درخواست کی پیشی پر اللہ تعالیٰ نے انہیں دس کردیا۔ میں جب موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا تو اب بھی انہوں نے کم کرانے کے لیے اپنا اصرار جاری رکھا۔ اور اس مرتبہ اللہ تعالیٰ نے پانچ وقت کی کردیں۔ اب موسیٰ (علیہ السلام) سے ملا، تو انہوں نے پھر دریافت فرمایا کہ کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے پانچ کردی ہیں۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے کم کرانے کا اصرار کیا۔ میں نے کہا کہ اب تو میں اللہ کے سپرد کرچکا۔ پھر آواز آئی۔ میں نے اپنا فریضہ (پانچ نمازوں کا) جاری کردیا۔ اپنے بندوں پر تخفیف کرچکا اور میں ایک نیکی کا بدلہ دس گنا دیتا ہوں۔ اور ہمام نے کہا، ان سے قتادہ نے کہا، ان سے حسن نے، ان سے ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے بیت المعمور کے بارے میں الگ روایت کی ہے۔
یہی مضمون کچھ الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ مندرجہ ذیل احادیث میں بھی بیان ہوا ہے:
1. صحیح بخاری، حدیث نمبر: 349، 3430
2. صحیح مسلم، حدیث نمبر: 411
3. سنن نسائی، حدیث نمبر: 449، 450، 451
متفرقاتِ سفرِ معراج:
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 4709
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں:
أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ بِإِيلِيَاءَ بِقَدَحَيْنِ مِنْ خَمْرٍ وَلَبَنٍ، فَنَظَرَ إِلَيْهِمَا، فَأَخَذَ اللَّبَنَ، قَالَ جِبْرِيلُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَاكَ لِلْفِطْرَةِ، لَوْ أَخَذْتَ الْخَمْرَ غَوَتْ أُمَّتُكَ.
معراج کی رات میں نبی کریم ﷺ کے سامنے بیت المقدس میں دو پیالے پیش کئے گئے ایک شراب کا اور دوسرا دودھ کا۔ نبی کریم ﷺ نے دونوں کو دیکھا پھر دودھ کا پیالہ اٹھا لیا۔ اس پر جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا کہ تمام حمد اس اللہ کے لیے ہے جس نے آپ کو فطرت (اسلام) کی ہدایت کی۔ اگر آپ شراب کا پیالہ اٹھا لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہوجاتی۔
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3276
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں:
لَمَّا بَلَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى، قَالَ: انْتَهَى إِلَيْهَا مَا يَعْرُجُ مِنَ الْأَرْضِ، وَمَا يَنْزِلُ مِنْ فَوْقَ ، قَالَ: فَأَعْطَاهُ اللَّهُ عِنْدَهَا ثَلَاثًا لَمْ يُعْطِهِنَّ نَبِيًّا كَانَ قَبْلَهُ، فُرِضَتْ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ خَمْسًا، وَأُعْطِيَ خَوَاتِيمَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، وَغُفِرَ لِأُمَّتِهِ الْمُقْحِمَاتُ مَا لَمْ يُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَى سورة النجم آية 16، قَالَ: السِّدْرَةُ فِي السَّمَاءِ السَّادِسَةِ، قَالَ سُفْيَانُ: فَرَاشٌ مِنْ ذَهَبٍ، وَأَشَارَ سُفْيَانُ بِيَدِهِ فَأَرْعَدَهَا، وَقَالَ غَيْرُ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ: إِلَيْهَا يَنْتَهِي عِلْمُ الْخَلْقِ لَا عِلْمَ لَهُمْ بِمَا فَوْقَ ذَلِكَ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ (معراج کی رات) سدرۃ المنتہیٰ کے پاس پہنچے تو کہا: یہی وہ آخری جگہ ہے جہاں زمین سے چیزیں اٹھ کر پہنچتی ہیں اور یہی وہ بلندی کی آخری حد ہے جہاں سے چیزیں نیچے آتی اور اترتی ہیں، یہیں اللہ نے آپ کو وہ تین چیزیں عطا فرمائیں جو آپ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں فرمائی تھیں، ( ١) آپ پر پانچ نمازیں فرض کی گئیں، ( ٢) سورة البقرہ کی «خواتیم» (آخری آیات) عطا کی گئیں، ( ٣) اور آپ کی امتیوں میں سے جنہوں نے اللہ کے ساتھ شرک نہیں کیا، ان کے مہلک و بھیانک گناہ بھی بخش دیئے گئے، (پھر) ابن مسعود ؓ نے آیت «إذ يغشی السدرة ما يغشی» ڈھانپ رہی تھی سدرہ کو جو چیز ڈھانپ رہی تھی (النجم: ١٦) ، پڑھ کر کہا «السدرہ» (بیری کا درخت) چھٹے آسمان پر ہے، سفیان کہتے ہیں: سونے کے پروانے ڈھانپ رہے تھے اور سفیان نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے انہیں چونکا دیا (یعنی تصور میں چونک کر ان پروانوں کے اڑنے کی کیفیت دکھائی) مالک بن مغول کے سوا اور لوگ کہتے ہیں کہ یہیں تک مخلوق کے علم کی پہنچ ہے اس سے اوپر کیا کچھ ہے کیا کچھ ہوتا ہے انہیں اس کا کچھ بھی علم اور کچھ بھی خبر نہیں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6157
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا
أَتَيْتُ وَفِي رِوَايَةِ هَدَّابٍ مَرَرْتُ عَلَی مُوسَی لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عِنْدَ الْکَثِيبِ الْأَحْمَرِ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ۔
معراج کی رات میں حضرت موسیٰ کے پاس سے گزرا اس حال میں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کثیب احمر کے پاس اپنی قبر میں کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔
رؤیتِ باری تعالیٰ:
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 4855
حضرت مسروق روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا:
يَا أُمَّتَاهْ، هَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَبَّهُ ؟ فَقَالَتْ: لَقَدْ قَفَّ شَعَرِي مِمَّا قُلْتَ أَيْنَ أَنْتَ مِنْ ثَلَاثٍ مَنْ حَدَّثَكَهُنَّ، فَقَدْ كَذَبَ مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّهُ فَقَدْ كَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ: لا تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ سورة الأنعام آية 103 وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ سورة الشورى آية 51،۔۔۔ وَلَكِنَّهُ رَأَى جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام فِي صُورَتِهِ مَرَّتَيْنِ.
اے ایمان والوں کی ماں! کیا محمد ﷺ نے معراج کی رات میں اپنے رب کو دیکھا تھا؟ عائشہ ؓ نے کہا تم نے ایسی بات کہی کہ میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے کیا تم ان تین باتوں سے بھی ناواقف ہو؟ جو شخص بھی تم میں سے یہ تین باتیں بیان کرے وہ جھوٹا ہے جو شخص یہ کہتا ہو کہ محمد ﷺ نے شب معراج میں اپنے رب کو دیکھا تھا وہ جھوٹا ہے۔ پھر انہوں نے آیت لا تدرکه الأبصار وهو يدرک الأبصار وهو اللطيف الخبير سے لے کر من وراء حجاب تک کی تلاوت کی اور کہا کہ کسی انسان کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ سے بات کرے سوا اس کے کہ وحی کے ذریعہ ہو یا پھر پردے کے پیچھے سے ہو۔ ہاں نبی کریم ﷺ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو ان کی اصل صورت میں دو مرتبہ دیکھا تھا۔
اسی سے ملتا جلتا مضمون بیان ہوا ہے:
صحیح البخاری، حدیث نمبر 4856، 4857
صحیح مسلم، حدیث نمبر 432، 433، 434، 435، 439، 442
صحیح بخاری, حدیث نمبر: 4858
عبداللہ بن مسعود ؓ نے آیت لقد رأى من آيات ربه الکبرى یعنی آپ نے اپنے رب کی عظیم نشانیاں دیکھیں کے متعلق بتلایا:
رَأَى رَفْرَفًا أَخْضَرَ قَدْ سَدَّ الْأُفُقَ.
نبی کریم ﷺ نے رفرف (سبز فرش) کو دیکھا جس نے آسمان کے کناروں کو ڈھانپ لیا تھا۔
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3280
حضرت ابوسلمہ سے روایت ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِ اللَّهِ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى 9 فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى 10 سورة النجم آية 9-10، وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَى 13 عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى 14 سورة النجم آية 13-14 ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: قَدْ رَآهُ النَّبِيُّ ﷺ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ابن عباس ؓ نے آیت: «ولقد رآه نزلة أخری عند سدرة المنتهى» «فأوحی إلى عبده ما أوحی» «فكان قاب قوسين أو أدنی» کی تفسیر میں کہا: نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے۔
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 4716
عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا:
وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلا فِتْنَةً لِلنَّاسِ سورة الإسراء آية 60، قَالَ: هِيَ رُؤْيَا عَيْنٍ، أُرِيَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ، وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ سورة الإسراء آية 60، شَجَرَةُ الزَّقُّومِ.
آیت وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس میں رؤيا سے آنکھ کا دیکھنا مراد ہے (بیداری میں نہ کہ خواب میں) یعنی وہ جو نبی کریم ﷺ کو شب معراج میں دکھایا گیا اور شجرة الملعونة سے تھوہڑ کا درخت مراد ہے۔
صحیح مسلم، حدیث نمبر: 436
حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں:
رَآهُ بِقَلْبِهِ۔
نبی ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل سے دیکھا۔
اسی طرح کی بات جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3281 میں بھی بیان ہوئی ہے۔
صحیح مسلم، حدیث نمبر: 437
حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں:
مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَی وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَی قَالَ رَآهُ بِفُؤَادِهِ مَرَّتَيْنِ۔
اللہ تعالیٰ کے فرمان (مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَی وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَی) سے مراد یہ ہے کہ اللہ عزوجل کے رسول ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل میں دو مرتبہ دیکھا۔
صحیح مسلم، حدیث نمبر: 443
حضرت ابوذر ؓ فرماتے ہیں:
سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ هَلْ رَأَيْتَ رَبَّکَ قَالَ نُورٌ أَنَّی أَرَاهُ۔
میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ کیا آپ ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے آپ ﷺ نے فرمایا وہ تو نور ہے میں اس کو کیسے دیکھ سکتا ہوں۔
صحیح مسلم، حدیث نمبر: 444
حضرت عبداللہ بن شقیق روایت کرتے ہیں:
قُلْتُ لِأَبِي ذَرٍّ لَوْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ لَسَأَلْتُهُ فَقَالَ عَنْ أَيِّ شَيْئٍ کُنْتَ تَسْأَلُهُ قَالَ کُنْتُ أَسْأَلُهُ هَلْ رَأَيْتَ رَبَّکَ قَالَ أَبُو ذَرٍّ قَدْ سَأَلْتُ فَقَالَ رَأَيْتُ نُورًا۔
میں نے حضرت ابوذر ؓ سے کہا کہ تم کس بات کے بارے میں رسول اللہ ﷺ سے پوچھ رہے ہو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا ہے کہ کیا آپ ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے ایک نور دیکھا ہے۔
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3279
حضرت عکرمہ سے روایت ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: رَأَى مُحَمَّدٌ رَبَّهُ، قُلْتُ: أَلَيْسَ اللَّهُ يَقُولُ: لا تُدْرِكُهُ الأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ سورة الأنعام آية 103 قَالَ: وَيْحَكَ ذَاكَ إِذَا تَجَلَّى بِنُورِهِ الَّذِي هُوَ نُورُهُ، وَقَالَ: أُرِيَهُ وَقَدْ رَأَى مُحَمّدُ رَبَّهُ مَرَّتَيْنِ . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن عباس ؓ نے کہا: محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے، میں نے کہا: کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے «لا تدرکه الأبصار وهو يدرک الأبصار» اس کو آنکھیں نہیں پاسکتی ہیں ہاں وہ خود نگاہوں کو پا لیتا ہے (الانعام: ١٠٣) ، انہوں نے کہا: تم پر افسوس ہے (تم سمجھ نہیں سکے) یہ تو اس وقت کی بات ہے جب وہ اپنے ذاتی نور کے ساتھ تجلی فرمائے، انہوں نے کہا: آپ نے اپنے رب کو دو بار دیکھا ہے۔
جامع ترمذی, حدیث نمبر: 3134
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ: وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلا فِتْنَةً لِلنَّاسِ سورة الإسراء آية 60، قَالَ: هِيَ رُؤْيَا عَيْنٍ أُرِيَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ، قَالَ: وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ هِيَ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس ؓ آیت کریمہ: «وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس» اور نہیں کیا ہم نے وہ مشاہدہ کہ جسے ہم نے تمہیں کروایا ہے (یعنی إسراء و معراج کے موقع پر جو کچھ دکھلایا ہے) مگر لوگوں کی آزمائش کے لیے (بنی اسرائیل: ٦٠) ، کے بارے میں کہتے ہیں: اس سے مراد (کھلی) آنکھوں سے دیکھنا تھا، جس دن آپ کو بیت المقدس کی سیر کرائی گئی تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا «والشجرة الملعونة في القرآن» میں شجرہ «ملعونہ» سے مراد تھوہڑ کا درخت ہے۔
سفرِ معراج سے واپسی اور کفار و مشرکین کے اعتراضات:
جب حضور نبی مکرم ﷺ نے واپس آ کر اپنے سفرِ معراج کا ذکر کیا تو کفار و مشرکین کو اعتراضات کا موقع مل گیا۔ انہوں نے طرح طرح کے سوالات کرنا شروع کر دیے جیسے کہ بیت المقدس کے در و دیوار کیسے تھے، کھڑکیاں اور دروازے کیسے تھے وغیرہ وغیرہ۔ ان کے جوابات دینے کے لیے اللہ رب العزت نے بیت المقدس کو حضور نبی مکرم ﷺ کی آنکھوں کے سامنے ظاہر کردیا جسے دیکھ دیکھ کر آپ ان کے سوالات کے جوابات دیتے گئے۔
جامع ترمذی، کتاب: قرآن کی تفسیر کا بیان، باب: تفسیر سورت بنی اسرائیل، حدیث نمبر: 3133
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَمَّا كَذَّبَتْنِي قُرَيْشٌ قُمْتُ فِي الْحِجْرِ فَجَلا اللَّهُ لِي بَيْتَ الْمَقْدِسِ، فَطَفِقْتُ أُخْبِرُهُمْ عَنْ آيَاتِهِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِ ،
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب قریش نے مجھے (معراج کے سفر کے بارے میں) جھٹلا دیا کہ میں حجر (حطیم) میں کھڑا ہوا اور اللہ نے بیت المقدس کو میرے سامنے ظاہر کردیا اور میں اسے دیکھ دیکھ کر انہیں اس کی نشانیاں (پہچان) بتانے لگا ۔
یہی مضمون کچھ الفاظ کی کمی و بیشی کے ساتھ صحیح البخاری، حدیث نمبر 4710 میں بھی بیان ہوا ہے۔
حضرتِ ابو بکر کو صدیقِ اکبر کا لقب ملنا:
ابوجہل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جا کر کہتا ہے کہ تیرے نبی نے ایک ایسا دعویٰ کیا ہے کہ تو کبھی اسے تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہوگا۔ جب صدیقِ اکبر نے ابو جہل کی زبانی دعویٰ معراج سنا تو مسکرا کر فرمایا کہ میں تو محض حضور نبی مکرم ﷺ کی زبان اقدس سے سن کر خالقِ کائنات کو مان چکا ہوں۔ یہ سب باتیں تو اس سے بہت ہی کم درجہ کی ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق نے حضور نبی مکرم ﷺ کی بارگاہ سے تصدیق کیے بغیر سفرِ معراج کی تصدیق کردی۔ اس صبح آپ “صدیقِ اکبر” کے لقب سے سرفراز ہوئے یعنی ” سب سے بڑا تصدیق کرنے والا”
(تفسیر ابنِ کثیر، 3 : 10_11)
تیرا معراج کہ تو جانے کہاں تک پہنچا
میرا معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا