ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ وہ اس دنیا سے کامیاب ہو کر لوٹے اور جب وہ مرے تو اسے یہ اطمینان اور سکون ہو کہ اس نے اپنی حقیقی منزل کو پا لیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کی حقیقی منزل کیا ہے؟
حقیقی منزل:
انسان کی حقیقی منزل یہ ہے کہ وہ اس مقصدِ حیات کو پانے میں کامیاب ہو جائے کی جس مقصد کی خاطر اللہ رب العزت نے اسے پیدا کیا ہے۔
مقصدِ حیات کیا ہے؟
انسان کی زندگی کا واحد مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک اللہ رب العزت کی رضا و خوشنودی کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔
حقیقی کامیابی کیا ہے؟
جو انسان اپنے حقیقی مقصدِ حیات (یعنی اپنی منزل) کو پہچان لے اور اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے وہ کامیاب ہے۔ اور اگر کوئی شخص شخص ساری زندگی اپنے اصل مقصود کو ہی نہ پہچان سکے تو دنیوی زندگی میں جو مرضی حاصل کر لے وہ ناکام و نامراد ہے۔
منزل تک پہنچنے کا راستہ:
ہر منزل تک پہنچنے کا کوئی نہ کوئی راستہ ہوتا ہے۔ حقیقی منزل (مقصدِ حیات) تک پہنچنے کے راستے کو صراطِ مستقیم کہتے ہیں۔ جس کی ہدایت کے لیے ہم ہر نماز میں سورۃ الفاتحہ میں اللہ رب العزت سے دعا کرتے ہیں۔
صراطِ مستقیم کون سا راستہ ہے؟
صراطِ مستقیم اللہ رب العزت کے انعام یافتہ بندوں کا راستہ ہے۔ ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ رب العزت نے انعام فرمایا ہے۔ اور یہ ان لوگوں کا راستہ نہیں ہے جو گمراہ ہوئے یا جن پر اللہ رب العزت کا غضب ہوا۔
راستہ تاریک کب ہوتا ہے؟
جب انسان گناہ کرتا ہے، ظلم کرتا ہے یا اللہ رب العزت کے احکامات کی نافرمانی کرتا ہے تو اس کا راستہ تاریک ہو جاتا ہے۔ جب راستہ تاریک ہوتا ہے تو انسان سفر نہیں کر سکتا جس کی وجہ سے وہ منزل تک نہیں پہنچ پاتا۔
راستہ (صراطِ مستقیم) روشن کیسے ہوتا ہے؟
جب انسان اللہ رب العزت کے احکامات پر عمل کرتا ہے، نیک اعمال کرتا ہے، برے اعمال سے پچتا ہے تو اس سے انسان کو نور ملتا ہے۔ اس نور سے انسان کا راستہ روشن ہوتا ہے۔ جب راستہ روشن ہوتا ہے تو واضح دکھائی دیتا ہے۔ جب راستہ واضح دکھائی دیتا ہے تو انسان کا سفر شروع ہوتا ہے اور بالآخر وہ اپنی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔
یہی وہ نور ہے جس کی روشنی میں انسان کو قیامت کے دن جنت میں لے جانے والا راستہ صاف دکھائی دے گا۔ اور اسی نور کی روشنی میں سفر کرتے ہوئے بندۂِ مومن جنت میں داخل ہو جائے گا۔
القرآن – سورۃ نمبر 57 الحديد، آیت نمبر 12
يَوۡمَ تَرَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ يَسۡعٰى نُوۡرُهُمۡ بَيۡنَ اَيۡدِيۡهِمۡ وَبِاَيۡمَانِهِمۡ بُشۡرٰٮكُمُ الۡيَوۡمَ جَنّٰتٌ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَاؕ ذٰلِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُۚ ۞
(اے حبیب!) جس دن آپ (اپنی امّت کے) مومن مَردوں اور مومن عورتوں کو دیکھیں گے کہ اُن کا نور اُن کے آگے اور اُن کی دائیں جانب تیزی سے چل رہا ہوگا (اور اُن سے کہا جائے گا:) تمہیں بشارت ہو آج (تمہارے لئے) جنتیں ہیں جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں (تم) ہمیشہ ان میں رہو گے، یہی بہت بڑی کامیابی ہے،
جن لوگوں نے اس دنیا میں رہتے ہوئے نیک اعمال کا نور جمع نہیں کیا ہوگا وہ قیامت کے اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے جہنم کے گڑھے میں جاگریں گے۔
القرآن – سورۃ نمبر 57 الحديد، آیت نمبر 13
يَوۡمَ يَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَالۡمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوا انْظُرُوۡنَا نَقۡتَبِسۡ مِنۡ نُّوۡرِكُمۡۚ قِيۡلَ ارۡجِعُوۡا وَرَآءَكُمۡ فَالۡتَمِسُوۡا نُوۡرًاؕ فَضُرِبَ بَيۡنَهُمۡ بِسُوۡرٍ لَّهٗ بَابٌؕ بَاطِنُهٗ فِيۡهِ الرَّحۡمَةُ وَظَاهِرُهٗ مِنۡ قِبَلِهِ الۡعَذَابُؕ ۞
جس دن منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں سے کہیں گے: ذرا ہم پر (بھی) نظرِ (التفات) کر دو ہم تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں۔ ان سے کہا جائے گا: تم اپنے پیچھے پلٹ جاؤ اور (وہاں جاکر) نور تلاش کرو (جہاں تم نور کا انکار کرتے تھے)، تو (اسی وقت) ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا، اس کے اندر کی جانب رحمت ہوگی اور اس کے باہر کی جانب اُس طرف سے عذاب ہوگا،
القرآن – سورۃ نمبر 57 الحديد، آیت نمبر 14
يُنَادُوۡنَهُمۡ اَلَمۡ نَكُنۡ مَّعَكُمۡؕ قَالُوۡا بَلٰى وَلٰـكِنَّكُمۡ فَتَنۡتُمۡ اَنۡفُسَكُمۡ وَ تَرَبَّصۡتُمۡ وَارۡتَبۡتُمۡ وَغَرَّتۡكُمُ الۡاَمَانِىُّ حَتّٰى جَآءَ اَمۡرُ اللّٰهِ وَ غَرَّكُمۡ بِاللّٰهِ الۡغَرُوۡرُ ۞
وہ (منافق) اُن (مومنوں) کو پکار کر کہیں گے: کیا ہم (دنیا میں) تمہاری سنگت میں نہ تھے؟ وہ کہیں گے: کیوں نہیں! لیکن تم نے اپنے آپ کو (منافقت کے) فتنہ میں مبتلا کر دیا تھا اور تم (ہمارے لئے برائی اور نقصان کے) منتظر رہتے تھے اور تم (نبوّتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دینِ اسلام میں) شک کرتے تھے اور باطل امیدوں نے تمہیں دھوکے میں ڈال دیا، یہاں تک کہ اللہ کا اَمرِ (موت) آپہنچا اور تمہیں اللہ کے بارے میں دغا باز (شیطان) دھوکہ دیتا رہا۔
راستے میں پیش آنے والی رکاوٹیں:
جیسے راستے میں بعض اوقات ڈاکوؤں اور لٹیروں سے واسطہ پڑتا ہے جو انسان کو گمراہ کر دیتے ہیں اسی طرح حقیقی منزل تک پہنچانے والے راستے میں بھی کچھ دشمن، ڈاکو اور لٹیرے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کی پہچان ضروری ہے تاکہ انسان ان سے اپنی حفاظت کر سکے۔
القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 16
قَالَ فَبِمَاۤ اَغۡوَيۡتَنِىۡ لَاَقۡعُدَنَّ لَهُمۡ صِرَاطَكَ الۡمُسۡتَقِيۡمَۙ ۞
اس (ابلیس) نے کہا: پس اس وجہ سے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے (مجھے قَسم ہے کہ) میں (بھی) ان (افرادِ بنی آدم کو گمراہ کرنے) کے لئے تیری سیدھی راہ پر ضرور بیٹھوں گا (تآنکہ انہیں راہِ حق سے ہٹا دوں)،
اس راستے میں انسان کے چار دشمن ہیں:
1) شیطان
2) نفسِ امارہ
3) محبتِ دنیا
4) شیطان کی اتباع کرنے والے اور محبتِ دنیا میں گرفتار لوگ
راستے میں انسان کے مددگار اور دوست:
1) اللہ رب العزت
2) حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
3) اللہ رب العزت کے انعام یافتہ بندے
حاصلِ کلام:
ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی انسان اپنی حقیقی منزل کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی ذات کو ظلم، گناہ اور معصیت سے پاک کرلے۔ کیونکہ جب تک وہ اپنی ذات کو ظلم کے اندھیروں سے نہیں بچاتا وہ منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔
ظلم کے ہوتے ہوئے نہ انسان کی ذات میں کوئی تبدیلی واقع ہو سکتی ہے اور نہ معاشرے کے اندر کوئی تبدیلی واقع ہو سکتی ہے۔ کیونکہ ظلم اندھیرا ہے (حدیثِ رسول ﷺ)، جہاں اندھیرا ہو وہاں راستہ نظر نہیں آتا اور جب راستہ نظر نہ آئے تو منزل نہیں ملتی۔