Views: 37
حضور نبی مکرم ﷺ کی ذاتِ مقدسہ بلاشبہ ہر بندۂِ مومن کے لیے اسوۂِ حسنہ اور بہترین نمونہ ہے۔ محبت و اطاعتِ مصطفیٰ ﷺ ہی سے انسان اللہ رب العزت کی محبت اور رضا و خوشنودی کو حاصل کر سکتا ہے۔ اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی رضا و خوشنودی کو حاصل کر لینا ہی در حقیقت ہر بندۂِ مومن کا حقیقی مقصدِ حیات ہے اور یہی دنیا و آخرت کی حقیقی کامیابی ہے۔
اب ہم حضور نبی مکرم ﷺ کی سخاوت کے حوالے سے چند نکات بیان کرتے ہیں۔
حضور نبی مکرم ﷺ سب سے زیادہ سخی!!!
یوں تو سارا سال ہی حضور نبی مکرم ﷺ اللہ تعالیٰ کی عطاء کردہ نعمتوں کو اس کی مخلوق میں بانٹتے رہتے مگر جب رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوتا تو حضور نبی مکرم ﷺ کی سخاوت میں مزید اضافہ ہو جاتا۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے:
صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6009
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ:
کَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَيْرِ وَکَانَ أَجْوَدَ مَا يَکُونُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام کَانَ يَلْقَاهُ فِي کُلِّ سَنَةٍ فِي رَمَضَانَ حَتَّی يَنْسَلِخَ فَيَعْرِضُ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْقُرْآنَ فَإِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَجْوَدَ بِالْخَيْرِ مِنْ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ۔
رسول اللہ ﷺ تمام لوگوں میں سے مال کے عطا کرنے میں سخی تھے اور تمام اوقات سے زیادہ رمضان کے مہینے میں آپ ﷺ کی سخاوت ہوتی تھی اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہر سال رمضان کے اختتام تک آپ سے ملاقات کرتے تھے رسول اللہ ﷺ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو قرآن مجید سناتے تھے اور جب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کرتے تھے تو آپ ﷺ چلتی ہوئی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوجاتے تھے۔
حضور نبی مکرم ﷺ کبھی کسی مانگنے والے کو “نہ” نہیں کہتے!!!
صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6018
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ روایت کرتے ہیں:
مَا سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ شَيْئًا قَطُّ فَقَالَ لَا۔
کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہ ﷺ سے کوئی چیز مانگی گئی ہو اور آپ ﷺ نے (جواب میں) “نہ” فرمایا ہو۔
سخاوتِ مصطفیٰﷺ کا نمونہ:
صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6021
حضرت انس بن مالک ؓ روایت کرتے ہیں:
أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَنَمًا بَيْنَ جَبَلَيْنِ فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ فَأَتَی قَوْمَهُ فَقَالَ أَيْ قَوْمِ أَسْلِمُوا فَوَاللَّهِ إِنَّ مُحَمَّدًا لَيُعْطِي عَطَائً مَا يَخَافُ الْفَقْرَ۔
ایک آدمی نے نبی ﷺ سے دو پہاڑوں کے درمیان کی بکریاں مانگیں تو آپ نے اسے اتنی ہی بکریاں عطا فرما دیں وہ آدمی اپنی قوم کے پاس آیا اور کہنے لگا اے قوم اسلام قبول کرلو اللہ کی قسم! محمد ﷺ خوب عطا فرماتے ہیں اور فقر سے نہیں ڈرتے۔
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی صرف دنیا کی وجہ سے مسلمان ہوتا تھا، پھر اسلام لانے کے بعد اس کو اسلام، دنیا اور ما فیہا سے زیادہ محبوب ہو جاتا تھا۔
فقر کے باوجود سخاوت:
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2471
ام المؤمنین عائشہ ؓ فرماتی ہیں:
إِنْ كُنَّا آَلَ مُحَمَّدٍ نَمْكُثُ شَهْرًا مَا نَسْتَوْقِدُ بِنَارٍ إِنْ هُوَ إِلَّا الْمَاءُ وَالتَّمْرُ۔
ہم آل محمد ﷺ کا یہ حال تھا کہ ایک ایک مہینہ چولہا نہیں جلاتے تھے، ہمارا گزر بسر صرف کھجور اور پانی پر ہوتا تھا۔
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2069
حضرت انس ؓ سے روایت ہے:
أَنَّهُ مَشَى إِلَى النَّبِيِّ ﷺ بِخُبْزِ شَعِيرٍ وَإِهَالَةٍ سَنِخَةٍ، وَلَقَدْ رَهَنَ النَّبِيُّ ﷺ، دِرْعًا لَهُ بِالْمَدِينَةِ عِنْدَ يَهُودِيٍّ، وَأَخَذَ مِنْهُ شَعِيرًا لِأَهْلِهِ، وَلَقَدْ سَمِعْتُهُ يَقُولُ: مَا أَمْسَى عِنْدَ آلِ مُحَمَّدٍ ﷺ صَاعُ، بُرٍّ وَلَا صَاعُ حَبٍّ، وَإِنَّ عِنْدَهُ لَتِسْعَ نِسْوَةٍ.
وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں جَو کی روٹی اور پرانی چیزیں لے گئے۔ نبی کریم ﷺ نے اس وقت اپنی زرہ مدینہ میں ایک یہودی کے یہاں گروی رکھی تھی اور اس سے اپنے گھر والوں کے لیے قرض لیا تھا۔ میں نے خود آپ کو یہ فرماتے سنا کہ محمد ﷺ کے گھرانے میں کوئی شام ایسی نہیں آئی جس میں ان کے پاس ایک صاع گیہوں یا ایک صاع کوئی غلہ موجود رہا ہو، حالانکہ آپ ﷺ کی گھر والیوں کی تعداد نو تھی۔
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5416
حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے:
مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ ﷺ مُنْذُ قَدِمَ الْمَدِينَةَ مِنْ طَعَامِ الْبُرِّ ثَلَاثَ لَيَالٍ تِبَاعًا حَتَّى قُبِضَ.
مدینہ ہجرت کرنے کے بعد آل محمد ﷺ نے کبھی برابر تین دن تک گیہوں کی روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی یہاں تک کہ آپ دنیا سے تشریف لے گئے۔
ایک طرف یہ عالم ہے کہ تین دن مسلسل گیہوں کی روٹی پیٹ بھر کر میسر نہیں ہے مگر دوسری طرف سخاوت کا یہ عالم ہے کہ فرماتے ہیں اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اس کو خرچ کیے بغیر تین دن سے زیادہ کا عرصہ گزر جائے؛
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 6444
حضرت ابوذر غفاری روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَا يَسُرُّنِي أَنَّ عِنْدِي مِثْلَ أُحُدٍ هَذَا ذَهَبًا تَمْضِي عَلَيَّ ثَالِثَةٌ وَعِنْدِي مِنْهُ دِينَارٌ إِلَّا شَيْئًا أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ إِلَّا أَنْ أَقُولَ بِهِ فِي عِبَادِ اللَّهِ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا عَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ شِمَالِهِ، وَمِنْ خَلْفِهِ، ثُمَّ مَشَى، فَقَالَ: إِنَّ الْأَكْثَرِينَ هُمُ الْأَقَلُّونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، إِلَّا مَنْ قَالَ: هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا عَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ شِمَالِهِ، وَمِنْ خَلْفِهِ، وَقَلِيلٌ مَا هُمْ،
مجھے اس سے بالکل خوشی نہیں ہوگی کہ میرے پاس اس احد کے برابر سونا ہو اور اس پر تین دن اس طرح گذر جائیں کہ اس میں سے ایک دینار بھی باقی رہ جائے سوا اس تھوڑی سی رقم کے جو میں قرض کی ادائیگی کے لیے چھوڑ دوں بلکہ میں اسے اللہ کے بندوں میں اس طرح خرچ کروں اپنی دائیں طرف سے، بائیں طرف سے اور پیچھے سے۔ پھر نبی کریم ﷺ چلتے رہے، اس کے بعد فرمایا، زیادہ مال جمع رکھنے والے ہی قیامت کے دن مفلس ہوں گے سوا اس شخص کے جو اس مال کو اس اس طرح دائیں طرف سے، بائیں طرف سے اور پیچھے سے خرچ کرے اور ایسے لوگ کم ہیں۔
ایک طرف اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی حالت یہ ہے کہ کئی کئی دن پیٹ بھر کھانا میسر نہیں ہے مگر جب حاجت مندوں کی باری آتی ہے تو سخاوتِ مصطفیٰ جیسی کوئی مثال نہیں ملتی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی حضور نبی مکرم ﷺ کے اسوۂِ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ مال خرچ کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین