ظلم، عدل، اور احسان

اِنَّ اللّٰهَ يَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَالۡاِحۡسَانِ وَاِيۡتَآىِٕ ذِى الۡقُرۡبٰى وَيَنۡهٰى عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَالۡمُنۡكَرِ وَالۡبَغۡىِ‌ۚ يَعِظُكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَذَكَّرُوۡنَ ۞

ظلم:

و الظلم عند اھل اللغۃ و کثیر من العلماء وَضْعُ الشَّیئِ فی غیر موضِعِہِ المختصِّ بہ اِمَّا بنقصانٍ او بزیادۃٍ۔ و اما بعُدُولٍ عن وقتہ او مکانہ۔ (المفردات، راغب اصفہانی)

اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کے صحیح وقت اور اصلی جگہ سے ہٹا کر۔

القرآن – سورۃ نمبر 49 الحجرات، آیت نمبر 11
وَمَنۡ لَّمۡ يَتُبۡ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ۞
اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 18 الكهف، آیت نمبر 59
وَتِلۡكَ الۡقُرٰٓى اَهۡلَكۡنٰهُمۡ لَمَّا ظَلَمُوۡا وَجَعَلۡنَا لِمَهۡلِكِهِمۡ مَّوۡعِدًا ۞
یہ عذاب رسیدہ بستیاں تمہارے سامنے موجود ہیں انہوں نے جب ظلم کیا تو ہم نے انہیں ہلاک کر دیا، اور ان میں سے ہر ایک کی ہلاکت کے لیے ہم نے وقت مقرر کر رکھا تھا۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2447
عبداللہ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
الظُّلْمُ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
ظلم قیامت کے دن اندھیرے ہوں گے۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 5124
وَعَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «إِن اللَّهَ لَيُمْلِي لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ يفلته» ثمَّ يقْرَأ (وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظالمة)الْآيَة. مُتَّفق عَلَيْهِ

ابوموسی ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ بے شک اللہ ظالم کو ڈھیل دیتا رہتا ہے لیکن وہ جب اسے پکڑتا ہے تو پھر اسے چھوڑتا نہیں۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:’’ تیرے رب کی پکڑ اسی طرح ہوتی ہے جب وہ بستی کے ظالموں کو پکڑتا ہے۔‘‘ متفق علیہ۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 5127
وَعَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ؟» . قَالُوا: الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ. فَقَالَ: «إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي مَنْ يَأْتِي يَوْم الْقِيَامَة بِصَلَاة وَصِيَام وَزَكَاة وَيَأْتِي وَقَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا. وَأَكَلَ مَالَ هَذَا. وَسَفَكَ دَمَ هَذَا وَضَرَبَ هَذَا فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يَقْضِيَ مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ طُرح فِي النَّار» . رَوَاهُ مُسلم

ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا، جس شخص کے پاس درہم ہوں نہ مال و متاع، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ میری امت میں سے مفلس وہ شخص ہے جو روز قیامت نماز، روزے اور زکوۃ لے کر آئے گا اور وہ بھی آ جائے گا جسے اس نے گالی دی ہو گی، جس کسی پر بہتان لگایا ہو گا، جس کسی کا مال کھایا ہو گا، جس کسی کا خون بہایا ہو گا اور جس کسی کو مارا پیٹا ہو گا، اس (مظلوم) کو اس کی نیکیوں میں سے نیکیاں دے دی جائیں گی، اور اگر اس کے ذمے حقوق کی ادائیگی سے پہلے ہی اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو ان (حق داروں) کے گناہ لے کر اس شخص پر ڈال دیے جائیں گے پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘ رواہ مسلم۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2168
عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ أَيُّهَا النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ هَذِهِ الْآيَةَ:‏‏‏‏ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ سورة المائدة آية 105 وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابٍ مِنْهُ .

ابوبکر صدیق ؓ کہتے ہیں کہ لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو «يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسکم لا يضرکم من ضل إذا اهتديتم» اے ایمان والو! اپنی فکر کرو گمراہ ہونے والا تمہیں کوئی ضرر نہیں پہنچائے گا جب تم نے ہدایت پالی (المائدہ: ١٠٥ ) اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: جب لوگ ظالم کو دیکھ کر اس کا ہاتھ نہ پکڑیں (یعنی ظلم نہ روک دیں) تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا عذاب لوگوں پر عام کر دے۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 4006
وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ،‏‏‏‏ وَقَالَ:‏‏‏‏ لَا،‏‏‏‏ حَتَّى تَأْخُذُوا عَلَى يَدَيِ الظَّالِمِ،‏‏‏‏ فَتَأْطِرُوهُ عَلَى الْحَقِّ أَطْرًا.

ابوعبیدہ (عامر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر آپ بیٹھ گئے اور فرمایا: تم اس وقت تک عذاب سے محفوظ نہیں رہ سکتے جب تک کہ تم ظالم کو ظلم کرتے دیکھ کر اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے انصاف کرنے پر مجبور نہ کر دو ۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 5126
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلِمَةٌ لِأَخِيهِ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَيْءٍ مِنْهُ الْيَوْمَ قَبْلَ أَنْ لَا يَكُونَ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلِمَتِهِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ» . رَوَاهُ البُخَارِيّ

ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جس شخص پر اپنے (مسلمان) بھائی کا، اس کی عزت سے متعلق یا کسی اور چیز سے متعلق کوئی حق ہو تو وہ (دنیا میں)، اس سے معافی تلافی کروا لے قبل اس کے کہ وہ دن آ جائے جب اس کے پاس درہم و دینار نہیں ہوں گے، اگر اس کے پاس عمل صالح ہوں گے تو وہ اس سے اس کے ظلم کے بقدر لے لیے جائیں گے، اور اگر اس کی نیکیاں نہیں ہوں گی تو حق دار کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیے جائیں گے۔‘‘ رواہ البخاری۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 5129
وَعَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَكُونُوا إِمَّعَةً تَقُولُونَ: إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَحْسَنَّا وَإِنْ ظَلَمُوا ظَلَمْنَا وَلَكِنْ وَطِّنُوا أَنْفُسَكُمْ إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَنْ تُحْسِنُوا وإِن أساؤوا فَلَا تظلموا . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ. وَيصِح وَقفه على ابْن مَسْعُود

حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ امّعہ نہ بنو، (وہ اس طرح کہ) تم کہو: اگر لوگوں نے اچھا سلوک کیا تو ہم بھی اچھا سلوک کریں گے، اور اگر انہوں نے ظلم کیا تو ہم بھی ظلم کریں گے، بلکہ تم اپنے آپ سے عزم کرو کہ اگر لوگوں نے اچھا سلوک کیا تو تم بھی اچھا سلوک کرو گے اور اگر انہوں نے برا سلوک کیا تو تم ظلم نہیں کرو گے۔‘‘ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔

عدل و انصاف:

العدالۃ و المعادلۃ: لفظ یقتضی معنی المساواۃ۔ فان العدل ھو المساواۃ فی المکافاۃ ان خیرا فخیر، و ان شرا فشر۔ و الاحسان ان یقابل الخیر باکثر منہ، و الشر باقل منہ۔ (المفردات، راغب اصفہانی)

العدالۃ و المعادلۃ کے لفظ میں مساوات کے معنی پائے جاتے ہیں۔ کسی چیز کے برابر اس کا بدلہ دینے کا نام عدل ہے یعنی نیکی کا بدلہ نیکی سے اور برائی کا بدلہ برائی سے۔ نیکی کے مقابلے میں زیادہ نیکی اور برائی کے مقابلے میں مساحمت سے کام لینے کو احسان کہتے ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 16 النحل، آیت نمبر 90
اِنَّ اللّٰهَ يَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَالۡاِحۡسَانِ وَاِيۡتَآىِٕ ذِى الۡقُرۡبٰى وَيَنۡهٰى عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَالۡمُنۡكَرِ وَالۡبَغۡىِ‌ۚ يَعِظُكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَذَكَّرُوۡنَ ۞
بیشک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو،

القرآن – سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 8
وَلَا يَجۡرِمَنَّكُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰٓى اَ لَّا تَعۡدِلُوۡا‌ ؕ اِعۡدِلُوۡا هُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰى‌۔
اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 58
وَاِذَا حَكَمۡتُمۡ بَيۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡكُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ‌ ؕ
اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔

احسان:

الاحسان فوق العدل۔ و ذاک ان العدل ھو ان یعطی ما علیہ، و یاخذ ما لہ۔ و الاحسان ان یعطی اکثر مما علیہ و یاخذ اقل مما لہ۔ فا لاحسان زائد علی العدل فتحری العدل واجب و تحری الاحسان ندب و تطوع۔ (المفردات، راغب اصفہانی)

احسان عدل سے بڑھ کر ہے۔ کیونکہ دوسرے کا حق پورا ادا کرنا اور اپنا حق پورا لینے کا نام عدل ہے۔ اور احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے۔ لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا واجب ہے مگر احسان مندوب (یعنی فرض سے تجاوز کر کے تطوع بجا لانا) ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 55 الرحمن، آیت نمبر 60
هَلۡ جَزَآءُ الْاِحۡسَانِ اِلَّا الۡاِحۡسَانُ‌ۚ ۞
احسان کا بدلہ احسان کے سوا کچھ نہیں ہے۔

وبالوالدین احساناً

القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 134
الَّذِيۡنَ يُنۡفِقُوۡنَ فِى السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ وَالۡكٰظِمِيۡنَ الۡغَيۡظَ وَالۡعَافِيۡنَ عَنِ النَّاسِ‌ؕ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ‌ۚ ۞
یہ وہ لوگ ہیں جو فراخی اور تنگی (دونوں حالتوں) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں، اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 29 العنكبوت، آیت نمبر 69
وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الۡمُحۡسِنِيۡنَ۞
اور بیشک اﷲ صاحبانِ احسان کو اپنی معیّت سے نوازتا ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 195
اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ ۞
بیشک اﷲ نیکوکاروں سے محبت فرماتا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 91
مَا عَلَى الۡمُحۡسِنِيۡنَ مِنۡ سَبِيۡلٍ‌ؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌۙ‏ ۞
نیکوکاروں (یعنی صاحبانِ احسان) پر الزام کی کوئی راہ نہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 125
وَمَنۡ اَحۡسَنُ دِيۡنًا مِّمَّنۡ اَسۡلَمَ وَجۡهَهٗ لِلّٰهِ وَهُوَ مُحۡسِنٌ۔
اور دینی اعتبار سے اُس شخص سے بہتر کون ہو سکتا ہے جس نے اپنا رُوئے نیاز اللہ کے لئے جھکا دیا اور وہ صاحبِ احسان بھی ہوا۔

ہلاکت و تباہی سے بچنے کا طریق بھی ‘احسان’ ہے:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 195
وَاَنۡفِقُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَلَا تُلۡقُوۡا بِاَيۡدِيۡكُمۡ اِلَى التَّهۡلُكَةِ ۖ ۛۚ وَاَحۡسِنُوۡا ۛۚ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ ۞
اور اﷲ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور نیکی اختیار کرو، بیشک اﷲ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہر شخص پر ہر عمل میں احسان کو واجب قرار دیا گیا ہے۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 5055
حضرت شداد بن اوس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ کَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلَی کُلِّ شَيْئٍ فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ وَلْيُحِدَّ أَحَدُکُمْ شَفْرَتَهُ فَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ۔
اللہ تعالیٰ نے ہر کام میں احسان فرض کیا ہے۔ جب بھی تم قتل کرو تو اچھی طرح قتل کرو اور جب بھی تم ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو اور تم میں سے ایک کو چاہئے کہ اپنی چھری کو تیز کرے اور اپنے جانور کو آرام دے۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 175
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُحْسِنْ إِلَی جَارِهِ۔
جو شخص اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے ہمسائے کے ساتھ احسان سے پیش آئے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1987
حضرت ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اتَّقِ اللَّهِ حَيْثُمَا كُنْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَتْبِعِ السَّيِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا، ‏‏‏‏‏‏وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ۔
تم جہاں بھی ہو اللہ سے ڈرتے رہو، گناہ کے بعد نیکی کیا کرو، وہ اسے مٹا دے گی اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آیا کرو۔

Leave a Reply