قرآن مجید میں طرزِ عمل کے دو درجات بیان کیے گئے ہیں:
1) عدل
2) احسان
القرآن – سورۃ نمبر 16 النحل، آیت نمبر 90
اِنَّ اللّٰهَ يَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَالۡاِحۡسَانِ۔
بیشک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے۔
امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ عدل یہ ہے کہ انسان پر جس قدر دینا واجب ہو اس قدر دے، اور جس قدر لینا اس کا حق ہو اس قدر لے۔ مگر احسان یہ ہے کہ جس قدر دینا واجب ہو اس سے زیادہ دے، اور جس قدر لینے کا حق ہو اس سے کم لے۔ (راغب اصفہانی، المفردات: 325)
القرآن – سورۃ نمبر 55 الرحمن، آیت نمبر 60
هَلۡ جَزَآءُ الْاِحۡسَانِ اِلَّا الۡاِحۡسَانُۚ ۞
احسان (نیکی) کا بدلہ احسان (نیکی) کے سوا کچھ نہیں ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 10 يونس، آیت نمبر 26
لِلَّذِيۡنَ اَحۡسَنُوا الۡحُسۡنٰى وَزِيَادَةٌ ؕ
ایسے لوگوں کے لئے جو احسان شعار ہیں نیک جزا ہے بلکہ (اس پر) اضافہ بھی ہے،
القرآن – سورۃ نمبر 29 العنكبوت، آیت نمبر 69
وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الۡمُحۡسِنِيۡنَ۞
اور بیشک اﷲ صاحبانِ احسان کو اپنی معیّت سے نوازتا ہے،
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 195
اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ ۞
بیشک اﷲ نیکوکاروں سے محبت فرماتا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 91
مَا عَلَى الۡمُحۡسِنِيۡنَ مِنۡ سَبِيۡلٍؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌۙ ۞
نیکوکاروں (یعنی صاحبانِ احسان) پر الزام کی کوئی راہ نہیں۔
القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 125
وَمَنۡ اَحۡسَنُ دِيۡنًا مِّمَّنۡ اَسۡلَمَ وَجۡهَهٗ لِلّٰهِ وَهُوَ مُحۡسِنٌ۔
اور دینی اعتبار سے اُس شخص سے بہتر کون ہو سکتا ہے جس نے اپنا رُوئے نیاز اللہ کے لئے جھکا دیا اور وہ صاحبِ احسان بھی ہوا۔
ہلاکت و تباہی سے بچنے کا طریق بھی ‘احسان’ ہے:
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 195
وَاَنۡفِقُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَلَا تُلۡقُوۡا بِاَيۡدِيۡكُمۡ اِلَى التَّهۡلُكَةِ ۖ ۛۚ وَاَحۡسِنُوۡا ۛۚ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ ۞
اور اﷲ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور نیکی اختیار کرو، بیشک اﷲ نیکوکاروں سے محبت فرماتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہر شخص پر ہر عمل میں احسان کو واجب قرار دیا گیا ہے۔
صحیح مسلم، حدیث نمبر: 5055
حضرت شداد بن اوس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ کَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلَی کُلِّ شَيْئٍ فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ وَلْيُحِدَّ أَحَدُکُمْ شَفْرَتَهُ فَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ۔
اللہ تعالیٰ نے ہر کام میں احسان فرض کیا ہے۔ جب بھی تم قتل کرو تو اچھی طرح قتل کرو اور جب بھی تم ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو اور تم میں سے ایک کو چاہئے کہ اپنی چھری کو تیز کرے اور اپنے جانور کو آرام دے۔
صحیح مسلم، حدیث نمبر: 175
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُحْسِنْ إِلَی جَارِهِ۔
جو شخص اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے ہمسائے کے ساتھ احسان سے پیش آئے۔
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1987
حضرت ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اتَّقِ اللَّهِ حَيْثُمَا كُنْتَ، وَأَتْبِعِ السَّيِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا، وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ۔
تم جہاں بھی ہو اللہ سے ڈرتے رہو، گناہ کے بعد نیکی کیا کرو، وہ اسے مٹا دے گی اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آیا کرو۔
عدل اور احسان میں فرق:
عدل شرطِ ایمان ہے اور احسان کمالِ ایمان ہے۔
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3675
حضرت عمر بن خطاب ؓ سے مروی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَتَصَدَّقَ فَوَافَقَ ذَلِكَ عِنْدِي مَالًا، فَقُلْتُ: الْيَوْمَ أَسْبِقُ أَبَا بَكْرٍ إِنْ سَبَقْتُهُ يَوْمًا، قَالَ: فَجِئْتُ بِنِصْفِ مَالِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ ؟ ، قُلْتُ: مِثْلَهُ، وَأَتَى أَبُو بَكْرٍ بِكُلِّ مَا عِنْدَهُ، فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ ؟ ، قَالَ: أَبْقَيْتُ لَهُمُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، قُلْتُ: وَاللَّهِ لَا أَسْبِقُهُ إِلَى شَيْءٍ أَبَدًا.
رسول اللہ ﷺ نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا اور اتفاق سے ان دنوں میرے پاس مال بھی تھا، میں نے (دل میں) کہا: اگر میں ابوبکر ؓ سے کسی دن آگے بڑھ سکوں گا تو آج کے دن آگے بڑھ جاؤں گا، پھر میں اپنا آدھا مال آپ کے پاس لے آیا، تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ میں نے عرض کیا: اتنا ہی (ان کے لیے بھی چھوڑا ہوں) اور ابوبکر ؓ وہ سب مال لے آئے جو ان کے پاس تھا، تو آپ نے پوچھا: ابوبکر! اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ تو انہوں نے عرض کیا: ان کے لیے تو اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ کر آیا ہوں، میں نے (اپنے جی میں) کہا: اللہ کی قسم! میں ان سے کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکوں گا۔
اس حدیث سے بخوبی واضح ہوگیا کہ حضرت عمر ؓ کا عمل عدل کا غماز تھا جب کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا عمل احسان کا آئینہ دار تھا۔
ماخذ و مراجع:
زکوٰۃ اور صدقات (سلسلہ تعلیمات اسلام)