ابتدا ہے رب کریم کے نام سے جو آنکھوں کی خیانت کو بھی جاننے والا ہے اور جو سینوں میں چھپی ہوئی باتوں کو بھی جاننے والا ہے۔
علم صفتِ عالم الغیب والموجودات ہے۔ علم باعثِ رفعِ حجابات ہے۔ علم آدمی کے لیے وجہِ شرف و فضیلت و عنایات ہے۔ علم باعثِ بلندیِٔ درجات ہے۔ علم تارکِ جہل و ظلمات ہے۔ علم، معرفتِ مقصدِ حیات ہے۔ علم مقصدِ بعثتِ انبیاء اور معرفتِ نظامِ کائنات ہے۔ علم معرفتِ خالق المخلوقات ہے۔
اِنَّمَا یَخۡشَی اللّٰہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمٰٓؤُا۔
بس اللہ کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔
(القرآن، 35، 28)
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ۔
اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں ایسے علم سے جو کوئی فائدہ نہ دے۔
(صحیح مسلم، 2722)
سید علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں ‘تحصیل علم کی فرضیت اور اس کی اہمیت’ پر جو باب قائم کیا ہے اس میں سے کچھ نکات درج ذیل ہیں۔
1) وہ شخص جو علم کو دنیاوی عزت و جاہ کی غرض سے حاصل کرتا ہے، در حقیقت وہ عالم کہلانے کا مستحق ہی نہیں ہے۔
2) علم کی تعریف، معلوم کو گھیرنا اور معلوم کا اظہار و بیان ہے۔
3) اَلْعِلْمُ صِفَۃٌ یَصِیْرُ الْجَاھِلَ بِھَا عَالِمًا۔ علم ایسی صفت ہے جس کے ذریعے جاہل، عالم بن جاتا ہے۔
4) حضرت ابو علی ثقفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: اَلْعِلْمُ حَیٰوۃُ الْقَلْبِ مِنَ الْجَھْلِ وَ نُوْرُ الْعَیْنِ مِنَ الظُّلْمَۃِ جہالت اور تاریکی کے مقابلہ میں علم دل کی زندگی اور آنکھوں کا نور ہے۔
5) جاہل کے دل پر ہزار بار پل صراط سے گزرنا اس سے زیادہ آسان ہے کہ وہ ایک علمی مسئلہ سیکھے۔ فاسق کے لیے جہنم میں خیمہ نصب کرنا اس سے زیادہ محبوب ہے کہ وہ کسی ایک علمی مسئلہ پر عمل پیرا ہو۔
6) بندہ کتنا ہی کامل علم حاصل کر لے، علم الٰہی کے مقابلے میں وہ جاہل ہی ہے۔ اس لیے اسے چاہیے کہ وہ ہمیشہ یہ سمجھے کہ میں کچھ نہیں جانتا۔
7) حضرت محمد بن فضل علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ علوم تین طرح کے ہیں: علم من اللہ (علم شریعت)، علم مع اللہ (علم طریقت)، علم بااللہ (علم معرفت)۔