فضائل و احکامِ رمضان المبارک – جمعۃ المبارک، 23 رمضان المبارک 1444ھ، بمطابق 14 اپریل 2023ء

بحکمِ خداوندی رمضان المبارک کے روزے ہر مسلمان پر فرض کیے گئے ہیں۔ روزے کی فرضیت کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے اندر تقوٰی کا نور پیدا ہو جائے اور اس کا ظاہر و باطن ہر طرح کی آلائشوں، گناہوں اور برائیوں سے پاک و صاف ہو جائے۔ ذیل میں ہم نے فضائل و احکامِ رمضان المبارک کے حوالے سے مندرجہ ذیل موضوعات کو احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

1) روزے کی فضیلت 2) رمضان المبارک اور تلاوتِ قرآن 3) رمضان المبارک اور سخاوت 4) رمضان المبارک اور سحری 5) رمضان المبارک اور افطاری 6) روزہ نہ رکھنے پر وعید 7) روزے کا فدیہ 8) سفر میں روزہ 9) رمضان المبارک کے آخری عشرے میں حضور نبی مکرم ﷺ کا معمول 10) لیلۃالقدر 11) متفرق احکام

روزے کی فضیلت:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2840
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بَعَّدَ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا.
جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں (جہاد کرتے ہوئے) ایک دن بھی روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے ستر سال (کی مسافت کی دوری تک) دور کر دیتا ہے۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1639
عثمان بن ابی العاص ثقفی ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الصِّيَامُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ كَجُنَّةِ أَحَدِكُمْ مِنَ الْقِتَالِ.
روزہ دوزخ کی آگ سے یوں ڈھال ہے جیسے تم میں سے کسی کے پاس لڑائی کے وقت ڈھال ہوتی ہے ۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے:
کان رسول اللہ ﷺ اذا دَخَلَ رمضانَ لَغَیَّرَ لَونُہُ و کَثُرَتْ صَلَاتُہُ، وابْتَھَلَ فِی الدُّعَاءِ، وَأَشْفَقَ مِنْہُ۔
جب ماہِ رمضان شروع ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کا رنگ متغیر ہو جاتا، آپ کی نمازوں میں اضافہ ہو جاتا، اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کرتے اور اس کا خوف طاری رکھتے۔

رمضان المبارک اور تلاوتِ قرآن:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 6
حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے مروی ہے:
كَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ۔
حضرت جبرائیل (علیہ السلام) رمضان کی ہر رات میں آپ ﷺ سے ملاقات کرتے اور آپ ﷺ کے ساتھ قرآن کا دورہ کرتے۔

مسند احمد، حدیث نمبر: 6337
حضرت عبداللہ ابن عمرو ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
الصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَقُولُ الصِّيَامُ أَيْ رَبِّ مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ وَيَقُولُ الْقُرْآنُ مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ قَالَ فَيُشَفَّعَانِ۔
روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے، روزہ کہے گا کہ پروردگار میں نے دن کے وقت اسے کھانے اور خواہشات کی تکمیل سے روکے رکھا اس لئے اس کے متعلق میری سفارش قبول فرما اور قرآن کہے گا کہ میں نے رات کو اسے سونے سے روکے رکھا اس لئے اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما چناچہ ان دونوں کی سفارش قبول کرلی جائے گی۔

رمضان المبارک اور سخاوت:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1902
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے:
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام يَلْقَاهُ كُلَّ لَيْلَةٍ فِي رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى يَنْسَلِخَ يَعْرِضُ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام، ‏‏‏‏‏‏كَانَ أَجْوَدَ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ.
نبی کریم ﷺ سخاوت اور خیر کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ ﷺ کی سخاوت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی تھی جب جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ سے رمضان میں ملتے، جبرائیل (علیہ السلام) نبی کریم ﷺ سے رمضان شریف کی ہر رات میں ملتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔ نبی کریم ﷺ جبرائیل (علیہ السلام) سے قرآن کا دور کرتے تھے، جب جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ سے ملنے لگتے تو آپ ﷺ چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہوجایا کرتے تھے۔

رمضان المبارک اور سحری:

القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 31
كُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا وَلَا تُسۡرِفُوۡا‌ ۚ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الۡمُسۡرِفِيۡنَ ۞
کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2549
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السُّحُورِ بَرَکَةً۔
سحری کھایا کرو کیونکہ سحری کے کھانے میں برکت ہوتی ہے۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2550
حضرت عمر بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
فَصْلُ مَا بَيْنَ صِيَامِنَا وَصِيَامِ أَهْلِ الْکِتَابِ أَکْلَةُ السَّحَرِ۔
ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان سحری کھانے کا فرق ہے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1921
زید بن ثابت ؓ روایت کرتے ہیں:
تَسَحَّرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ كَمْ كَانَ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالسَّحُورِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ قَدْرُ خَمْسِينَ آيَةً.
نبی کریم ﷺ کے ساتھ ہم نے سحری کھائی، پھر آپ ﷺ صبح کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ میں نے پوچھا کہ سحری اور اذان میں کتنا فاصلہ ہوتا تھا تو انہوں نے کہا کہ پچاس آیتیں (پڑھنے) کے موافق فاصلہ ہوتا تھا۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2552
حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے:
تَسَحَّرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ثُمَّ قُمْنَا إِلَی الصَّلَاةِ قُلْتُ کَمْ کَانَ قَدْرُ مَا بَيْنَهُمَا قَالَ خَمْسِينَ آيَةً۔
ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سحری کھائی پھر نماز کے لئے کھڑے ہوئے میں نے عرض کیا کہ سحری کھانے اور نماز کے درمیان کتنا وقفہ تھا آپ نے فرمایا پچاس آیات کے برابر۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 2350
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا سَمِعَ أَحَدُكُمُ النِّدَاءَ وَالْإِنَاءُ عَلَى يَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَضَعْهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ مِنْهُ.
تم میں سے کوئی جب صبح کی اذان سنے اور (کھانے پینے کا) برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اسے اپنی ضرورت پوری کئے بغیر نہ رکھے۔

رمضان المبارک اور افطاری:

القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 31
كُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا وَلَا تُسۡرِفُوۡا‌ ۚ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الۡمُسۡرِفِيۡنَ ۞
کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2554
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ۔
لوگ ہمیشہ بھلائی کے ساتھ رہیں گے جب تک روزہ جلد افطار کرتے رہیں گے۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 2358
حضرت معاذ بن زہرہ روایت کرتے ہیں:
أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا أَفْطَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ.
انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب روزہ افطار فرماتے تو یہ دعا پڑھتے: “اللهم لک صمت وعلى رزقک أفطرت‏‏” اے اللہ! میں نے تیری ہی خاطر روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کیا ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 696
حضرت انس بن مالک ؓ روایت کرتے ہیں:
كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُفْطِرُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَى رُطَبَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ لَمْ تَكُنْ رُطَبَاتٌ فَتُمَيْرَاتٌ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تُمَيْرَاتٌ حَسَا حَسَوَاتٍ مِنْ مَاءٍ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَرُوِيَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يُفْطِرُ فِي الشِّتَاءِ عَلَى تَمَرَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الصَّيْفِ عَلَى الْمَاءِ۔
نبی اکرم ﷺ (مغرب) پڑھنے سے پہلے چند تر کھجوروں سے افطار کرتے تھے، اور اگر تر کھجوریں نہ ہوتیں تو چند خشک کھجوروں سے اور اگر خشک کھجوریں بھی میسر نہ ہوتیں تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سردیوں میں چند کھجوروں سے افطار کرتے اور گرمیوں میں پانی سے۔

روزہ نہ رکھنے پر وعید:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 723
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ أَفْطَرَ يَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ رُخْصَةٍ وَلَا مَرَضٍ، ‏‏‏‏‏‏لَمْ يَقْضِ عَنْهُ صَوْمُ الدَّهْرِ كُلِّهِ وَإِنْ صَامَهُ .
جس نے بغیر کسی شرعی رخصت اور بغیر کسی بیماری کے رمضان کا کوئی روزہ نہیں رکھا تو پورے سال کا روزہ بھی اس (کے اجر) کو پورا نہیں کر پائے گا چاہے وہ پورا سال روزے سے رہے ۔

روزے کا فدیہ:

ایسا مسلمان مرد یا عورت جو بڑھاپے یا کسی ایسی بیماری جس کی وجہ سے روزہ رکھنے سے عاجز ہو اور یہ عجز دائمی ہو ایسی صورت میں ہر روزہ کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلانا فدیہ کہلاتا ہے۔ فدیہ فی روزہ صدقہ فطر کے برابر ہوتا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 184
وَعَلَى الَّذِيۡنَ يُطِيۡقُوۡنَهٗ فِدۡيَةٌ طَعَامُ مِسۡكِيۡنٍؕ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَيۡرًا فَهُوَ خَيۡرٌ لَّهٗ۔
اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو ان کے ذمے ایک مسکین کے کھانے کا بدلہ ہے، پھر جو کوئی اپنی خوشی سے (زیادہ) نیکی کرے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے۔

سفر میں روزہ:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2609
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے:
لَا تَعِبْ عَلَی مَنْ صَامَ وَلَا عَلَی مَنْ أَفْطَرَ قَدْ صَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي السَّفَرِ وَأَفْطَرَ.
ہم برا بھلا نہیں کہتے تھے کہ جو آدمی سفر میں روزہ رکھے اور نہ ہی برا بھلا کہتے ہیں جو آدمی سفر میں روزہ نہ رکھے تحقیق رسول اللہ ﷺ نے سفر میں روزہ رکھا بھی اور روزہ افطار بھی کیا ہے۔

مسافر کو روزہ رکھنے یا چھوڑنے کا اختیار ہے۔ لیکن اگر سفر میں دشواری نہ ہو تو روزہ رکھنا افضل ہے۔ یاد رہے اگر کوئی سفر یا بیماری کی وجہ سے روزہ چھوڑتا ہے تو بعد میں اس روزے کی قضا لازم ہے۔

رمضان المبارک کے آخری عشرے میں حضور نبی مکرم ﷺ کا معمول:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2024
حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں:
كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ، ‏‏‏‏‏‏شَدَّ مِئْزَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْيَا لَيْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ.
جب (رمضان کا) آخری عشرہ آتا تو نبی کریم ﷺ اپنا تہبند مضبوط باندھتے (یعنی اپنی کمر پوری طرح کس لیتے) اور ان راتوں میں آپ خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگایا کرتے تھے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2020
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَاوِرُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقُولُ:‏‏‏‏ تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ.
نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے اور فرماتے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں شب قدر کو تلاش کرو۔

لیلۃالقدر:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1644
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رمضان آیا تو رسول کرام ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ هَذَا الشَّهْرَ قَدْ حَضَرَكُمْ وَفِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، ‏‏‏‏‏‏مَنْ حُرِمَهَا فَقَدْ حُرِمَ الْخَيْرَ كُلَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يُحْرَمُ خَيْرَهَا إِلَّا مَحْرُومٌ.
یہ مہینہ آگیا اور اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس سے محروم رہا وہ ہر طرح کے خیر (بھلائی) سے محروم رہا، اور اس کی بھلائی سے محروم وہی رہے گا جو (واقعتاً) محروم ہو ۔

مسند احمد, حدیث نمبر: 19486
حضرت ابوبکرہ ؓ سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
الْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ لِتِسْعٍ يَبْقَيْنَ أَوْ لِسَبْعٍ يَبْقَيْنَ أَوْ لِخَمْسٍ أَوْ لِثَلَاثٍ أَوْ آخِرِ لَيْلَةٍ۔
شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کیا کرو اکیسویں شب، تئیسویں شب، پچیس ویں شب یا ستائیسویں شب یا آخری رات میں۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3513
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں:
قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَرَأَيْتَ إِنْ عَلِمْتُ أَيُّ لَيْلَةٍ لَيْلَةُ الْقَدْرِ مَا أَقُولُ فِيهَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ قُولِي:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ كَرِيمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي۔
میں نے کہا: اللہ کے رسول! اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کون سی رات لیلۃ القدر ہے تو میں اس میں کیا پڑھوں؟ آپ نے فرمایا: پڑھو «اللهم إنک عفو کريم تحب العفو فاعف عني» اے اللہ! تو عفو و درگزر کرنے والا مہربان ہے، اور عفو و درگزر کرنے کو تو پسند کرتا ہے، اس لیے تو ہمیں معاف و درگزر کر دے ۔

امت کی بخشش و مغفرت:

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر 1968
ابوہریرہ ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
يُغْفَرُ لِأُمَّتِهِ فِي آخِرِ لَيْلَةٍ فِي رَمَضَانَ۔ قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَهِيَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ؟ قَالَ: «لَا وَلَكِنَّ الْعَامِلَ إِنَّمَا يُوَفَّى أجره إِذا قضى عمله» . رَوَاهُ أَحْمد
رمضان کی آخری رات ان کی (یعنی میری) امت کو بخش دیا جاتا ہے۔ عرض کیا گیا، اللہ کے رسول! کیا وہ شب قدر ہے؟ فرمایا:’’ نہیں، لیکن جب کام کرنے والا اپنا کام مکمل کر لیتا ہے تو اسے پورا پورا اجر دیا جاتا ہے۔‘‘

متفرق احکام:

روؤیتِ ہلالِ رمضان المبارک:

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 2341
حضرت عکرمہ روایت کرتے ہیں:
أَنَّهُمْ شَكُّوا فِي هِلَالِ رَمَضَانَ مَرَّةً، ‏‏‏‏‏‏فَأَرَادُوا أَنْ لَا يَقُومُوا وَلَا يَصُومُوا، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ مِنْ الْحَرَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَشَهِدَ أَنَّهُ رَأَى الْهِلَالَ، ‏‏‏‏‏‏فَأُتِيَ بِهِ النَّبِيَّ ﷺ ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَتَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏وَشَهِدَ أَنَّهُ رَأَى الْهِلَالَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ بِلَالًا، ‏‏‏‏‏‏فَنَادَى فِي النَّاسِ أَنْ يَقُومُوا وَأَنْ يَصُومُوا۔
ایک بار لوگوں کو رمضان کے چاند (کی روئیت) سے متعلق شک ہوا اور انہوں نے یہ ارادہ کرلیا کہ نہ تو قیام کریں (تراویح پڑھیں) گے اور نہ روزے رکھیں گے، اتنے میں مقام حرہ سے ایک اعرابی آگیا اور اس نے چاند دیکھنے کی گواہی دی چناچہ اسے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں لے جایا گیا، آپ نے اس سے سوال کیا: کیا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہیں؟ اس نے کہا: ہاں، اور چاند دیکھنے کی گواہی بھی دی چناچہ آپ ﷺ نے بلال ؓ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں منادی کردیں کہ لوگ قیام کریں (تراویح پڑھیں) اور روزہ رکھیں۔

رمضان المبارک سے دو دن پہلے روزہ نہ رکھنے کا حکم:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2518
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا تَقَدَّمُوا رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ وَلَا يَوْمَيْنِ إِلَّا رَجُلٌ کَانَ يَصُومُ صَوْمًا فَلْيَصُمْهُ۔
تم رمضان المبارک سے نہ ایک دن اور نہ ہی دو دن پہلے روزہ رکھو سوائے اس آدمی کے جو اس دن روزہ رکھتا تھا تو اسے چاہیے کہ وہ رکھ لے۔

کیا قے آنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 720
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ ذَرَعَهُ الْقَيْءُ فَلَيْسَ عَلَيْهِ قَضَاءٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنِ اسْتَقَاءَ عَمْدًا فَلْيَقْضِ .
جسے قے آ جائے اس پر روزے کی قضاء لازم نہیں اور جو جان بوجھ کر قے کرے تو اسے روزے کی قضاء کرنی چاہیئے۔

Leave a Reply