فضیلت و احکامِ رمضان المبارک – جمعۃ المبارک، 02 رمضان المبارک 1444ھ، بمطابق 24 مارچ 2023ء

1) روزے کی فرضیت، 2) روزوں کا مقصد کیا ہے؟ 3) افطار کی مسنون دعا 4) افطار کروانے کا ثواب 5) روزوں کی فضیلت 6) قیام اللیل (تراویح) کی فضیلت 7) متفرق احکام

روزے کی فرضیت و دیگر احکام قرآنی آیات کی روشنی میں:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 183
يٰٓـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا كُتِبَ عَلَيۡکُمُ الصِّيَامُ کَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُوۡنَۙ ۞
اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ،

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 184
اَيَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍؕ فَمَنۡ كَانَ مِنۡكُمۡ مَّرِيۡضًا اَوۡ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنۡ اَيَّامٍ اُخَرَ‌ؕ وَعَلَى الَّذِيۡنَ يُطِيۡقُوۡنَهٗ فِدۡيَةٌ طَعَامُ مِسۡكِيۡنٍؕ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَيۡرًا فَهُوَ خَيۡرٌ لَّهٗ ؕ وَاَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَيۡرٌ لَّـکُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۞
(یہ) گنتی کے چند دن (ہیں)، پس اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کر لے، اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو ان کے ذمے ایک مسکین کے کھانے کا بدلہ ہے، پھر جو کوئی اپنی خوشی سے (زیادہ) نیکی کرے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے، اور تمہارا روزہ رکھ لینا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تمہیں سمجھ ہو،

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 185
شَهۡرُ رَمَضَانَ الَّذِىۡٓ اُنۡزِلَ فِيۡهِ الۡقُرۡاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الۡهُدٰى وَالۡفُرۡقَانِۚ فَمَنۡ شَهِدَ مِنۡكُمُ الشَّهۡرَ فَلۡيَـصُمۡهُ ؕ وَمَنۡ کَانَ مَرِيۡضًا اَوۡ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنۡ اَيَّامٍ اُخَرَؕ يُرِيۡدُ اللّٰهُ بِکُمُ الۡيُسۡرَ وَلَا يُرِيۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ وَلِتُکۡمِلُوا الۡعِدَّةَ وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰٮكُمۡ وَلَعَلَّکُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ ۞
رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں، پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پا لے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے، اﷲ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے دشواری نہیں چاہتا، اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کر سکو اور اس لئے کہ اس نے تمہیں جو ہدایت فرمائی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو اور اس لئے کہ تم شکر گزار بن جاؤ،

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 187
اُحِلَّ لَـکُمۡ لَيۡلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآئِكُمۡ‌ؕ هُنَّ لِبَاسٌ لَّـكُمۡ وَاَنۡـتُمۡ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ؕ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّکُمۡ كُنۡتُمۡ تَخۡتَانُوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ فَتَابَ عَلَيۡكُمۡ وَعَفَا عَنۡكُمۡۚ فَالۡــئٰنَ بَاشِرُوۡهُنَّ وَابۡتَغُوۡا مَا کَتَبَ اللّٰهُ لَـكُمۡ وَكُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَـكُمُ الۡخَـيۡطُ الۡاَبۡيَضُ مِنَ الۡخَـيۡطِ الۡاَسۡوَدِ مِنَ الۡفَجۡرِ‌ؕ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى الَّيۡلِ‌ۚ وَلَا تُبَاشِرُوۡهُنَّ وَاَنۡـتُمۡ عٰكِفُوۡنَ فِى الۡمَسٰجِدِؕ تِلۡكَ حُدُوۡدُ اللّٰهِ فَلَا تَقۡرَبُوۡهَا ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ اٰيٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمۡ يَتَّقُوۡنَ ۞
تمہارے لئے روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے، وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو، اﷲ کو معلوم ہے کہ تم اپنے حق میں خیانت کرتے تھے سو اس نے تمہارے حال پر رحم کیا اور تمہیں معاف فرما دیا، پس اب (روزوں کی راتوں میں بیشک) ان سے مباشرت کیا کرو اور جو اﷲ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے چاہا کرو اور کھاتے پیتے رہا کرو یہاں تک کہ تم پر صبح کا سفید ڈورا (رات کے) سیاہ ڈورے سے (الگ ہو کر) نمایاں ہو جائے، پھر روزہ رات (کی آمد) تک پورا کرو، اور عورتوں سے اس دوران شب باشی نہ کیا کرو جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو، یہ اﷲ کی (قائم کردہ) حدیں ہیں پس ان (کے توڑنے) کے نزدیک نہ جاؤ، اسی طرح اﷲ لوگوں کے لئے اپنی آیتیں (کھول کر) بیان فرماتا ہے تاکہ وہ پرہیزگاری اختیار کریں،

روزے داروں کی فضیلت کے بارے میں دیگر آیاتِ قرآنی:
القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 112
القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب، آیت نمبر 35
القرآن – سورۃ نمبر 66 التحريم، آیت نمبر 5

رمضان المبارک کا مقصد گناہوں سے بچنا ہے:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1903
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ.
اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا (روزے رکھ کر بھی) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔

سنن نسائی، حدیث نمبر: 2108
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أَتَاكُمْ رَمَضَانُ شَهْرٌ مُبَارَكٌ، ‏‏‏‏‏‏فَرَضَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ، ‏‏‏‏‏‏تُفْتَحُ فِيهِ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَتُغْلَقُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَحِيمِ، ‏‏‏‏‏‏وَتُغَلُّ فِيهِ مَرَدَةُ الشَّيَاطِينِ لِلَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، ‏‏‏‏‏‏مَنْ حُرِمَ خَيْرَهَا فَقَدْ حُرِمَ.
رمضان کا مبارک مہینہ تمہارے پاس آچکا ہے، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کردیئے ہیں، اس میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور سرکش شیاطین کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں، اور اس میں اللہ تعالیٰ کے لیے ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس کے خیر سے محروم رہا تو وہ بس محروم ہی رہا ۔

کھجور یا پانی کے ساتھ افطار:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 658
سلمان بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا أَفْطَرَ أَحَدُكُمْ فَلْيُفْطِرْ عَلَى تَمْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ بَرَكَةٌ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ تَمْرًا فَالْمَاءُ فَإِنَّهُ طَهُور۔
جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو کھجور سے افطار کرے، کیونکہ اس میں برکت ہے، اگر کھجور میسر نہ ہو تو پانی سے افطار کرے وہ نہایت پاکیزہ چیز ہے۔

روزہ افطار کے وقت کی مسنون دعا:

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 2358
حضرت معاذ بن زہرہ روایت کرتے ہیں:
أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا أَفْطَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ.
انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب روزہ افطار فرماتے تو یہ دعا پڑھتے: “اللهم لک صمت وعلى رزقک أفطرت‏‏” اے اللہ! میں نے تیری ہی خاطر روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کیا ۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 2357
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے:
ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ.
پیاس ختم ہوگئی، رگیں تر ہوگئیں، اور اگر اللہ نے چاہا تو ثواب مل گیا ۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1753
عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ لِلصَّائِمِ عِنْدَ فِطْرِهِ لَدَعْوَةً مَا تُرَدُّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ إِذَا أَفْطَرَ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِرَحْمَتِكَ الَّتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ تَغْفِرَ لِي.
روزہ دار کی دعا افطار کے وقت رد نہیں کی جاتی ۔ ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کو سنا کہ جب وہ افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے: “اے اللہ! میں تیری رحمت کے ذریعہ سوال کرتا ہوں جو ہر چیز کو وسیع ہے کہ مجھے بخش دے”.

روزہ افطار کروانے کا ثواب:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1746
حضرت زید بن خالد جُہَنِی ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِمْ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا۔
جو کوئی کسی روزہ دار کو افطار کرا دے تو اس کو روزہ دار کے برابر ثواب ملے گا، اور روزہ دار کے ثواب میں سے کوئی کمی نہیں ہوگی۔

فضیلتِ رمضان المبارک:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 38
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
جس نے رمضان کے روزے ایمان اور خالص نیت کے ساتھ رکھے اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے گئے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1899
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏فُتِحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وفی روایۃ: فُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّۃِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ.
جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، (اور ایک روایت میں ہے کہ) جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیطان (زنجیروں میں) جکڑ دیے جاتے ہیں۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1904
حضرت ابوصالح ؓ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
قَالَ اللَّهُ:‏‏‏‏ كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا الصِّيَامَ فَإِنَّهُ لِي، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَالصِّيَامُ جُنَّةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ فَلَا يَرْفُثْ وَلَا يَصْخَبْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَقُلْ:‏‏‏‏ إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ، ‏‏‏‏‏‏لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا:‏‏‏‏ إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ.
اللہ پاک فرماتا ہے کہ انسان کا ہر نیک عمل خود اسی کے لیے ہے مگر روزہ کہ وہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور روزہ گناہوں کی ایک ڈھال ہے، اگر کوئی روزے سے ہو تو اسے فحش گوئی نہ کرنی چاہیے اور نہ شور مچائے، اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا لڑنا چاہیے تو اس کا جواب صرف یہ ہو کہ میں ایک روزہ دار آدمی ہوں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے! روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ بہتر ہے، روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوں گی (ایک تو جب) وہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور (دوسرے) جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزے کا ثواب پا کر خوش ہوگا۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1894
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الصِّيَامُ جُنَّةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَرْفُثْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَجْهَلْ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِ امْرُؤٌ قَاتَلَهُ أَوْ شَاتَمَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَقُلْ:‏‏‏‏ إِنِّي صَائِمٌ مَرَّتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ تَعَالَى مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ، ‏‏‏‏‏‏يَتْرُكُ طَعَامَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَشَرَابَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَشَهْوَتَهُ مِنْ أَجْلِي الصِّيَامُ لِي، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا أَجْزِي بِهِ وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا.
روزہ دوزخ سے بچنے کے لیے ایک ڈھال ہے اس لیے (روزہ دار) نہ فحش باتیں کرے اور نہ جہالت کی باتیں اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گالی دے تو اس کا جواب صرف یہ ہونا چاہیے کہ میں روزہ دار ہوں، (یہ الفاظ) دو مرتبہ (کہہ دے) اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ اور پاکیزہ ہے، (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) بندہ اپنا کھانا پینا اور اپنی شہوت میرے لیے چھوڑ دیتا ہے، روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور (دوسری) نیکیوں کا ثواب بھی اصل نیکی کے دس گنا ہوتا ہے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2790
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَقَامَ الصَّلَاةَ، ‏‏‏‏‏‏وَصَامَ رَمَضَانَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ۔
جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور نماز قائم کرے اور رمضان کے روزے رکھے تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ وہ جنت میں داخل کرے گا۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1896
حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا، ‏‏‏‏‏‏يُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ الرَّيَّانُ، ‏‏‏‏‏‏يَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏يُقَالُ:‏‏‏‏ أَيْنَ الصَّائِمُونَ ؟ فَيَقُومُونَ، ‏‏‏‏‏‏لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا دَخَلُوا أُغْلِقَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ.
جنت کا ایک دروازہ ہے جسے ریان کہتے ہیں قیامت کے دن اس دروازہ سے صرف روزہ دار ہی جنت میں داخل ہوں گے، ان کے سوا اور کوئی اس میں سے نہیں داخل ہوگا، پکارا جائے گا کہ روزہ دار کہاں ہے؟ وہ کھڑے ہوجائیں گے ان کے سوا اس سے اور کوئی نہیں اندر جانے پائے گا اور جب یہ لوگ اندر چلے جائیں گے تو یہ دروازہ بند کردیا جائے گا پھر اس سے کوئی اندر نہ جاسکے گا۔

سنن نسائی، حدیث نمبر: 2225
حضرت ابوامامہ باہلی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:
يَا رَسُولَ اللَّهِ ! مُرْنِي بِعَمَلٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ عَلَيْكَ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَا عَدْلَ لَهُ،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! مُرْنِي بِعَمَلٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ عَلَيْكَ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَا عِدْلَ لَهُ.
اللہ کے رسول! مجھے کسی کام کا حکم فرمایئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: روزے کو لازم پکڑو کیونکہ اس جیسا کوئی (عمل) نہیں ہے ۔ میں نے (پھر) عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے کسی کام کا حکم دیجئیے! آپ ﷺ نے فرمایا: روزے کو لازم پکڑو کیونکہ اس کے برابر کوئی عمل نہیں ہے ۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1745
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لِكُلِّ شَيْءٍ زَكَاةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَزَكَاةُ الْجَسَدِ الصَّوْمُ ، ‏‏‏‏‏‏زَادَ مُحْرِزٌ فِي حَدِيثِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ الصِّيَامُ نِصْفُ الصَّبْرِ .
ہر چیز کی زکاۃ ہے، اور بدن کی زکاۃ روزہ ہے، محرز کی روایت میں اتنا اضافہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: روزہ آدھا صبر ہے ۔

رمضان المبارک میں قیام (نماز تراویح) کی فضیلت:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 37
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
جس نے رمضان میں بحالت ایمان ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیئے گئے۔

سنن نسائی، حدیث نمبر: 2210
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أَنَّهُ ذَكَرَ شَهْرَ رَمَضَانَ فَفَضَّلَهُ عَلَى الشُّهُورِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، ‏‏‏‏‏‏خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ،‏‏‏‏
آپ نے ماہ رمضان کا ذکر کیا تو اسے تمام مہینوں میں افضل قرار دیا اور فرمایا: جس نے رمضان میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے قیام اللیل کیا (یعنی نماز تراویح پڑھی) تو وہ اپنے گناہوں سے ایسے ہی نکل جائے گا جیسے اس کی ماں نے اسے آج ہی جنا ہو ۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1783
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّی فِي الْمَسْجِدِ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَصَلَّی بِصَلَاتِهِ نَاسٌ ثُمَّ صَلَّی مِنْ الْقَابِلَةِ فَکَثُرَ النَّاسُ ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنْ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ أَوْ الرَّابِعَةِ فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ قَدْ رَأَيْتُ الَّذِي صَنَعْتُمْ فَلَمْ يَمْنَعْنِي مِنْ الْخُرُوجِ إِلَيْکُمْ إِلَّا أَنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْکُمْ قَالَ وَذَلِکَ فِي رَمَضَانَ۔
رسول اللہ ﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی، آپ ﷺ کے ساتھ کچھ لوگوں نے بھی نماز پڑھی پھر آپ ﷺ نے اگلی رات نماز پڑھی تو لوگ زیادہ ہوگئے پھر لوگ تیسری یا چوتھی رات بھی مسجد میں جمع ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ باہر تشریف نہ لائے پھر جب صبح ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا میں نے تمہیں دیکھا تھا تو مجھے تمہاری طرف نکلنے کے لئے کسی نے نہیں روکا سوائے اس کے کہ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کردی جائے۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ واقعہ رمضان المبارک ہی کے بارے میں تھا۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 1377
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا أُنَاسٌ فِي رَمَضَانَ يُصَلُّونَ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا هَؤُلَاءِ ؟فَقِيلَ:‏‏‏‏ هَؤُلَاءِ نَاسٌ لَيْسَ مَعَهُمْ قُرْآنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ يُصَلِّي وَهُمْ يُصَلُّونَ بِصَلَاتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَصَابُوا، ‏‏‏‏‏‏وَنِعْمَ مَا صَنَعُوا. قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ لَيْسَ هَذَا الْحَدِيثُ بِالْقَوِيِّ، ‏‏‏‏‏‏مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ ضَعِيفٌ.
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ (ایک بار) رسول اللہ ﷺ نکلے تو دیکھا کہ کچھ لوگ رمضان میں مسجد کے ایک گوشے میں نماز پڑھ رہے ہیں، آپ نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ ، لوگوں نے عرض کیا: یہ وہ لوگ ہیں جن کو قرآن یاد نہیں ہے، لہٰذا ابی بن کعب ؓ کے پیچھے یہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں، نبی اکرم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا: انہوں نے ٹھیک کیا اور ایک بہتر کام کیا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث قوی نہیں ہے اس لیے کہ مسلم بن خالد ضعیف ہیں۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2010
حضرت عبدالرحمٰن بن عبدالقاری ؓ روایت کرتے ہیں کہ:
خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَيْلَةً فِي رَمَضَانَ إِلَى الْمَسْجِدِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ، ‏‏‏‏‏‏يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ إِنِّي أَرَى لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَى وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ قَارِئِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَالَّتِي يَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِي يَقُومُونَ يُرِيدُ آخِرَ اللَّيْلِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ أَوَّلَهُ.
میں عمر بن خطاب ؓ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس پر عمر ؓ نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہوگا، چناچہ آپ نے یہی ٹھان کر ابی بن کعب ؓ کو ان کا امام بنادیا۔ پھر ایک رات جو میں ان کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز (تراویح) پڑھ رہے ہیں۔ عمر ؓ نے فرمایا، یہ نیا طریقہ بہتر اور مناسب ہے اور (رات کا) وہ حصہ جس میں یہ لوگ سو جاتے ہیں اس حصہ سے بہتر اور افضل ہے جس میں یہ نماز پڑھتے ہیں۔ آپ کی مراد رات کے آخری حصہ (کی فضیلت) سے تھی کیونکہ لوگ یہ نماز رات کے شروع ہی میں پڑھ لیتے تھے۔

موطا امام مالک، حدیث نمبر: 231
عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ أَنَّهُ قَالَ کَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَکْعَةً۔
یزید بن رومان سے روایت ہے کہ حضرت عمر کے زمانے میں لوگ (بشمول وتر) تیئس رکعتیں پڑھتے تھے۔

ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر: 7770
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ، عَنْ عَبْدِالْمَلِکِ، عَنْ عَطَائٍ، قَالَ: أَدْرَکْت النَّاسَ وَہُمْ یُصَلُّونَ ثَلاَثًا وَعِشْرِینَ رَکْعَۃً بِالْوِتْرِ۔
حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا جو رمضان میں وتر کے ساتھ تیئس رکعات پڑھا کرتے تھے۔

موطا امام مالک، حدیث نمبر: 232
عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ أَنَّهُ سَمِعَ الْأَعْرَجَ يَقُولُ مَا أَدْرَکْتُ النَّاسَ إِلَّا وَهُمْ يَلْعَنُونَ الْکَفَرَةَ فِي رَمَضَانَ قَالَ وَکَانَ الْقَارِئُ يَقْرَأُ سُورَةَ الْبَقَرَةِ فِي ثَمَانِ رَکَعَاتٍ فَإِذَا قَامَ بِهَا فِي اثْنَتَيْ عَشْرَةَ رَکْعَةً رَأَی النَّاسُ أَنَّهُ قَدْ خَفَّفَ۔
داؤد بن حصین سے روایت ہے، انہوں نے حضرت اعرج کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے لوگوں کو اس حال میں پایا کہ وہ رمضان میں کافروں پر لعنت کیا کرتے تھے انہوں نے فرمایا (نمازِ تراویح میں) قاری سورۃ البقرہ کو آٹھ رکعتوں میں پڑھتا اور جب باقی بارہ رکعتیں پڑھی جاتیں تو لوگ دیکھتے کہ امام انہیں ہلکی (مختصر) کر دیتا۔

سنن کبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر: 4605
ہشام بن عروہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ:
أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ جَمَعَ النَّاسَ عَلَی قِیَامِ شَہْرِ رَمَضَانَ ، الرِّجَالَ عَلَی أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ، وَالنِّسَائَ عَلَی سُلَیْمَانَ بْنِ أَبِی حَثْمَۃَ۔
حضرت عمر ؓ نے لوگوں کو قیامِ رمضان کے لیے ابی بن کعب پر جمع کردیا اور عورتوں کو سلیمان بن ابی حثمہ پر جمع کردیا۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 806
قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَأَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلِيٍّ وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِشْرِينَ رَكْعَةً، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ الشَّافِعِيُّ:‏‏‏‏ وَهَكَذَا أَدْرَكْتُ بِبَلَدِنَا بِمَكَّةَ يُصَلُّونَ عِشْرِينَ رَكْعَةً۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اور اکثر اہل علم ان احادیث کی بنا پر جو عمر، علی اور دوسرے صحابہ کرام ؓ سے مروی ہے بیس رکعت تراویح کے قائل ہیں۔ اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے۔ اور شافعی کہتے ہیں: اسی طرح سے میں نے اپنے شہر مکہ میں بیس رکعت تراویح پڑھتے پایا،

نوٹ: نماز تراویح کا پڑھنا مرد و عورت سب کے لیے سنتِ مؤکدہ ہے اور اس کا چھوڑنا جائز نہیں۔ (روزہ اور اعتکاف از افادات شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری)

رمضان المبارک میں سخاوت:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 663
انس ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا: کون سا صدقہ افضل ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا:
صَدَقَةٌ فِي رَمَضَانَ۔
رمضان میں صدقہ کرنا ۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1902
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ:
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام يَلْقَاهُ كُلَّ لَيْلَةٍ فِي رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى يَنْسَلِخَ يَعْرِضُ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام، ‏‏‏‏‏‏كَانَ أَجْوَدَ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ.
نبی کریم ﷺ سخاوت اور خیر کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ ﷺ کی سخاوت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی تھی جب جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ سے رمضان میں ملتے، جبرائیل (علیہ السلام) نبی کریم ﷺ سے رمضان شریف کی ہر رات میں ملتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔ نبی کریم ﷺ جبرائیل (علیہ السلام) سے قرآن کا دور کرتے تھے، جب جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ سے ملنے لگتے تو آپ ﷺ چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہوجایا کرتے تھے۔

روزے میں بھول کر کھاپی لینا:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1933
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِذَا نَسِيَ فَأَكَلَ وَشَرِبَ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّمَا أَطْعَمَهُ اللَّهُ وَسَقَاهُ.
جب کوئی بھول گیا اور کچھ کھا پی لیا تو اسے چاہیے کہ اپنا روزہ پورا کرے۔ کیونکہ اس کو اللہ نے کھلایا اور پلایا۔

سفر میں روزے کا حکم:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1943
حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ:
أَنَّ حَمْزَةَ بْنَ عَمْرٍو الْأَسْلَمِيَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَأَصُومُ فِي السَّفَرِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ كَثِيرَ الصِّيَامِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنْ شِئْتَ فَصُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ شِئْتَ فَأَفْطِرْ.
حمزہ بن عمرو اسلمی ؓ نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی میں سفر میں روزہ رکھوں؟ وہ روزے بکثرت رکھا کرتے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر جی چاہے تو روزہ رکھ اور جی چاہے افطار کر۔

رمضان المبارک کی ابتدا اور انتہا چاند کی روویت سے مشروط ہے:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1906
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ:
أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْا الْهِلَالَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ.
رسول اللہ ﷺ نے رمضان کا ذکر کیا تو فرمایا کہ جب تک چاند نہ دیکھو روزہ شروع نہ کرو، اسی طرح جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ موقوف نہ کرو اور اگر بادل چھا جائے تو تیس دن پورے کرلو۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1907
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَيْلَةً، ‏‏‏‏‏‏فَلَا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا الْعِدَّةَ ثَلَاثِينَ.
مہینہ کبھی انتیس راتوں کا بھی ہوتا ہے اس لیے (انتیس پورے ہوجانے پر) جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ شروع کرو اور اگر بادل ہوجائے تو تیس دن کا شمار پورا کرلو۔

روزے کا کفارہ:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1936
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ:
بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏هَلَكْتُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا لَكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ وَقَعْتُ عَلَى امْرَأَتِي وَأَنَا صَائِمٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ هَلْ تَجِدُ رَقَبَةً تُعْتِقُهَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَصُومَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ فَهَلْ تَجِدُ إِطْعَامَ سِتِّينَ مِسْكِينًا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَمَكَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَيْنَا نَحْنُ عَلَى ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِيهَا تَمْرٌ وَالْعَرَقُ الْمِكْتَلُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَيْنَ السَّائِلُ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خُذْهَا فَتَصَدَّقْ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الرَّجُلُ:‏‏‏‏ أَعَلَى أَفْقَرَ مِنِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَوَاللَّهِ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا يُرِيدُ الْحَرَّتَيْنِ أَهْلُ بَيْتٍ أَفْقَرُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي، ‏‏‏‏‏‏فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ أَنْيَابُهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أَطْعِمْهُ أَهْلَكَ.
ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں تھے کہ ایک شخص نے حاضر ہو کر کہا کہ یا رسول اللہ! میں تو تباہ ہوگیا، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کیا بات ہوئی؟ اس نے کہا کہ میں نے روزہ کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کرلیا ہے، اس پر رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا کیا تمہارے پاس کوئی غلام ہے جسے تم آزاد کرسکو؟ اس نے کہا نہیں، پھر آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کیا پے در پے دو مہینے کے روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے عرض کی نہیں، پھر آپ ﷺ نے پوچھا کیا تم کو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی طاقت ہے؟ اس نے اس کا جواب بھی انکار میں دیا، راوی نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر گئے، ہم بھی اپنی اسی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ کی خدمت میں ایک بڑا تھیلا (عرق نامی) پیش کیا گیا جس میں کھجوریں تھیں۔ عرق تھیلے کو کہتے ہیں (جسے کھجور کی چھال سے بناتے ہیں) نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ سائل کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ میں حاضر ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا کے اسے لے لو اور صدقہ کر دو، اس شخص نے کہا یا رسول اللہ! کیا میں اپنے سے زیادہ محتاج پر صدقہ کر دوں، بخدا ان دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیان کوئی بھی گھرانہ میرے گھر سے زیادہ محتاج نہیں ہے، اس پر نبی کریم ﷺ اس طرح ہنس پڑے کہ آپ کے آگے کے دانت دیکھے جاسکے۔ پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اچھا جا اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دے۔

روزہ غلطیوں اور گناہوں کا کفارہ ہے:
البقرہ 2، 196
سورۃ النساء 4، 92
سورۃ المائدہ 5، 89
سورۃ نمبر 58, 4

اعتکاف:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 125
وَاِذۡ جَعَلۡنَا الۡبَيۡتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَاَمۡنًا ؕ وَاتَّخِذُوۡا مِنۡ مَّقَامِ اِبۡرٰهٖمَ مُصَلًّى‌ ؕ وَعَهِدۡنَآ اِلٰٓى اِبۡرٰهٖمَ وَاِسۡمٰعِيۡلَ اَنۡ طَهِّرَا بَيۡتِىَ لِلطَّآئِفِيۡنَ وَالۡعٰكِفِيۡنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوۡدِ ۞
اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کے لئے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم ؑ کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو، اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیھما السلام) کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک (صاف) کر دو،

لیلۃ القدر:

القرآن – سورۃ نمبر 44 الدخان، آیت نمبر 3، 4
اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰهُ فِىۡ لَيۡلَةٍ مُّبٰـرَكَةٍ‌ اِنَّا كُنَّا مُنۡذِرِيۡنَ ۞ فِيۡهَا يُفۡرَقُ كُلُّ اَمۡرٍ حَكِيۡمٍۙ‏ ۞
بیشک ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں اتارا ہے بیشک ہم ڈر سنانے والے ہیں،اس (رات) میں ہر حکمت والے کام کا (جدا جدا) فیصلہ کر دیا جاتا ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 97 القدر، آیت نمبر 1
اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰهُ فِىۡ لَيۡلَةِ الۡقَدۡرِ ۞ وَمَاۤ اَدۡرٰٮكَ مَا لَيۡلَةُ الۡقَدۡرِؕ ۞ لَيۡلَةُ الۡقَدۡرِ ۙ خَيۡرٌ مِّنۡ اَلۡفِ شَهۡرٍؕ ۞ تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِكَةُ وَالرُّوۡحُ فِيۡهَا بِاِذۡنِ رَبِّهِمۡ‌ۚ مِّنۡ كُلِّ اَمۡرٍ ۞ سَلٰمٌ هِىَ حَتّٰى مَطۡلَعِ الۡفَجۡرِ  ۞
بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے،اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ) شبِ قدر کیا ہے،شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے،اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں،یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے،

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1901
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، ‏‏‏‏‏‏غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، ‏‏‏‏‏‏غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
جو کوئی شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے عبادت میں کھڑا ہو اس کے تمام اگلے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے اگلے تمام گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔

سنن نسائی، حدیث نمبر: 2108
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، ‏‏‏‏‏‏مَنْ حُرِمَ خَيْرَهَا فَقَدْ حُرِمَ.
اس ( رمضان المبارک کے مہینے) میں اللہ تعالیٰ کی ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس کے خیر سے محروم رہا تو وہ بس محروم ہی رہا ۔

وفات کے بعد روزوں کی قضا:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1952
حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ، ‏‏‏‏‏‏صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ۔
اگر کوئی شخص مرجائے اور اس کے ذمہ روزے واجب ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھ دے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1953
حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ:
جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَفَأَقْضِيهِ عَنْهَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَدَيْنُ اللَّهِ أَحَقُّ أَنْ يُقْضَى۔
ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ! میری ماں کا انتقال ہوگیا اور ان کے ذمے ایک مہینے کے روزے باقی رہ گئے ہیں۔ کیا میں ان کی طرف سے قضاء رکھ سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ضرور، اللہ تعالیٰ کا قرض اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اسے ادا کردیا جائے۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1757
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامُ شَهْرٍ فَلْيُطْعَمْ عَنْهُ مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينٌ .
جو شخص مرجائے، اور اس پہ رمضان کے روزے ہوں تو اس کی جانب سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3545
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ دَخَلَ عَلَيْهِ رَمَضَانُ ثُمَّ انْسَلَخَ قَبْلَ أَنْ يُغْفَرَ لَهُ۔
اس شخص کی بھی ناک خاک آلود ہو جس کی زندگی میں رمضان کا مہینہ آیا اور اس کی مغفرت ہوئے بغیر وہ مہینہ گزر گیا۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 1968
ابوہریرہ ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
يُغْفَرُ لِأُمَّتِهِ فِي آخِرِ لَيْلَةٍ فِي رَمَضَانَ۔ قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَهِيَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ؟ قَالَ: «لَا وَلَكِنَّ الْعَامِلَ إِنَّمَا يُوَفَّى أجره إِذا قضى عمله» . رَوَاهُ أَحْمد
رمضان کی آخری رات ان کو (یعنی میری) امت کو بخش دیا جاتا ہے۔ عرض کیا گیا، اللہ کے رسول! کیا وہ شب قدر ہے؟ فرمایا:’’ نہیں، لیکن جب کام کرنے والا اپنا کام مکمل کر لیتا ہے تو اسے پورا پورا اجر دیا جاتا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقی معنوں میں رمضان المبارک کی برکتیں اور رحمتیں سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Leave a Reply