معاشرہ افراد سے مل کر بنتا ہے اور معاشرے کا بنیادی جزو ایک خاندان ہے۔ لہٰذا معاشرے کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ پہلے خاندان کی اصلاح کی جائے۔ اور خاندان کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ خاندان کا ہر فرد اپنے حقوق و فرائض کو پہچانے اور ان کے مطابق اپنی زندگی بسر کرے۔
خاندانی نظام کے انتہائی اہم رشتے یعنی رشتۂِ ازدواج کے حوالے سے قرآنِ مجید کے اندر خالقِ انسان نے بڑی وضاحت کے ساتھ کچھ اصول و ضوابط بیان کیے ہیں۔ اگر شوہر اور بیوی ان اصول و ضوابط کو اچھی طرح سمجھ لیں اور ان کے مطابق زندگی گزاریں تو یقیناً ان کی زندگی انتہائی راحت و سکون میں گزرے گی۔ جس کے نتیجے میں پورے خاندان کی اصلاح ہوگی جو بعد میں پورے معاشرے کی اصلاح کا باعث بنے گی۔ لہٰذا نکاح کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے قرآنِ مجید میں واضح طور پر ارشاد فرمایا کہ تم بغیر نکاح کے رہنے والے مردوں اور عورتوں کے نکاح کر دیا کرو۔
القرآن – سورۃ نمبر 24 النور، آیت نمبر 32
وَاَنۡكِحُوا الۡاَيَامٰى مِنۡكُمۡ وَالصّٰلِحِيۡنَ مِنۡ عِبَادِكُمۡ وَاِمَآئِكُمۡ ؕ اِنۡ يَّكُوۡنُوۡا فُقَرَآءَ يُغۡنِهِمُ اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖ ؕ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيۡمٌ ۞
اور تم اپنے مردوں اور عورتوں میں سے ان کا نکاح کر دیا کرو جو (عمرِ نکاح کے باوجود) بغیر ازدواجی زندگی کے (رہ رہے) ہوں اور اپنے باصلاحیت غلاموں اور باندیوں کا بھی (نکاح کر دیا کرو)، اگر وہ محتاج ہوں گے (تو) اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا، اور اللہ بڑی وسعت والا بڑے علم والا ہے،
اس موضوع پر علمائے کرام نے کئی کتب بھی تالیف کی ہیں۔ مندرجہ ذیل گفتگو کا بیش تر حصہ سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ کی کتاب “حقوق الزوجین” کا خلاصہ ہے۔ درجِ ذیل سطور میں ہم نے ان قرآنی اصول و ضوابط کو لکھا ہے جو خالقِ کائنات نے میاں اور بیوی کے اس رشتۂِ نکاح کے لیے متعین کیے ہیں۔
1) نکاح کے مقاصد:
1.1) عفت و عصمت کی حفاظت:
نکاح کا پہلا مقصد یہ ہے مرد اور عورت فحاشی، بے حیائ، اور زنا سے بچیں اور اپنی فطری خواہش کو پورا کرنے کے لیے نکاح کریں۔
القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 24
وَاُحِلَّ لَـكُمۡ مَّا وَرَآءَ ذٰ لِكُمۡ اَنۡ تَبۡتَـغُوۡا بِاَمۡوَالِكُمۡ مُّحۡصِنِيۡنَ غَيۡرَ مُسَافِحِيۡنَ ؕ
(یہ عورتیں جو تم پر حرام کی گئی ہیں) ان کے سوا (سب عورتیں) تمہارے لئے حلال کر دی گئی ہیں تاکہ تم اپنے اموال کے ذریعے طلبِ نکاح کرو پاک دامن رہتے ہوئے نہ کہ شہوت رانی کرتے ہوئے،
القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 25
فَانْكِحُوۡهُنَّ بِاِذۡنِ اَهۡلِهِنَّ وَاٰ تُوۡهُنَّ اُجُوۡرَهُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ مُحۡصَنٰتٍ غَيۡرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّلَا مُتَّخِذٰتِ اَخۡدَانٍ ؕ
پس ان (کنیزوں) سے ان کے مالکوں کی اجازت کے ساتھ نکاح کرو اور انہیں ان کے مَہر حسبِ دستور ادا کرو درآنحالیکہ وہ (عفت قائم رکھتے ہوئے) قیدِ نکاح میں آنے والی ہوں نہ بدکاری کرنے والی ہوں اور نہ درپردہ آشنائی کرنے والی ہوں،
القرآن – سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 5
وَالۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡـكِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ اِذَاۤ اٰتَيۡتُمُوۡهُنَّ اُجُوۡرَهُنَّ مُحۡصِنِيۡنَ غَيۡرَ مُسَافِحِيۡنَ وَلَا مُتَّخِذِىۡۤ اَخۡدَانٍؕ
اور ان لوگوں میں سے پاک دامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی (تمہارے لئے حلال ہیں) جب کہ تم انہیں ان کے مَہر ادا کر دو، (مگر شرط) یہ کہ تم (انہیں) قیدِ نکاح میں لانے والے (عفت شعار) بنو نہ کہ (محض ہوس رانی کی خاطر) اِعلانیہ بدکاری کرنے والے اور نہ خفیہ آشنائی کرنے والے۔
1.2) مودت و رحمت اور تسکین و راحت کا حصول
القرآن – سورۃ نمبر 30 الروم، آیت نمبر 21
وَمِنۡ اٰيٰتِهٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَكُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِكُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡكُنُوۡۤا اِلَيۡهَا وَجَعَلَ بَيۡنَكُمۡ مَّوَدَّةً وَّرَحۡمَةً۔
اور یہ (بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی۔
القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 189
هُوَ الَّذِىۡ خَلَقَكُمۡ مِّنۡ نَّـفۡسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنۡهَا زَوۡجَهَا لِيَسۡكُنَ اِلَيۡهَا۔
اور وہی (اللہ) ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا فرمایا اور اسی میں سے اس کا جوڑ بنایا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے۔
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 187
هُنَّ لِبَاسٌ لَّـكُمۡ وَاَنۡـتُمۡ لِبَاسٌ لَّهُنَّ۔
وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو،
القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 19
وَعَاشِرُوۡهُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ۔
اپنی بیویوں کے ساتھ اچھے طریقے سے برتاؤ کرو۔
2) نکاح کے لیے شرط ہے کہ مرد اور عورت مشرک نہ ہوں:
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 221
وَلَا تَنۡكِحُوا الۡمُشۡرِكٰتِ حَتّٰى يُؤۡمِنَّؕ وَلَاَمَةٌ مُّؤۡمِنَةٌ خَيۡرٌ مِّنۡ مُّشۡرِكَةٍ وَّلَوۡ اَعۡجَبَتۡكُمۡۚ وَلَا تُنۡكِحُوا الۡمُشۡرِكِيۡنَ حَتّٰى يُؤۡمِنُوۡا ؕ وَلَعَبۡدٌ مُّؤۡمِنٌ خَيۡرٌ مِّنۡ مُّشۡرِكٍ وَّلَوۡ اَعۡجَبَكُمۡؕ
مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ کیونکہ مشرک عورت خواہ تم کو کیسی ہی بھلی لگے اس سے مومن لونڈی بہتر ہے۔ مشرک مردوں سے اپنی عورتوں کے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں کیونکہ مشرک (مرد) سے خواہ وہ تم کو کیسا ہی بھلا لگے مومن غلام بہتر ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 72
اِنَّهٗ مَنۡ يُّشۡرِكۡ بِاللّٰهِ فَقَدۡ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيۡهِ الۡجَـنَّةَ وَمَاۡوٰٮهُ النَّارُ ؕ وَمَا لِلظّٰلِمِيۡنَ مِنۡ اَنۡصَارٍ ۞
جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا اُس پر اللہ نے جنت حرام کر دی اور اُس کا ٹھکانا جہنم ہے اور ایسے ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں۔
3) مومن مرد اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کر سکتا ہے:
القرآن – سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 5
وَالۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡـكِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ۔
اور حلال کی گئیں تمھارے لیے اہلِ کتاب میں سے وہ عورتیں جو محفوظ ہوں۔
4) عورت کو کسی کے نکاح میں دینا اس کے ولی کا اختیار ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 221
وَلَا تَنۡكِحُوا الۡمُشۡرِكٰتِ حَتّٰى يُؤۡمِنَّؕ
مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔
وَلَا تُنۡكِحُوا الۡمُشۡرِكِيۡنَ حَتّٰى يُؤۡمِنُوۡا ؕ
مشرک مردوں سے اپنی عورتوں کے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔
یہاں آیت کے الفاظ پر غور کریں۔ جب مرد کو حکم دیا تو فرمایا “(اے مردو تم) مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرو”۔ لیکن جب عورت کو حکم دیا تو ان کے ولیوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ “مشرک مردوں سے اپنی عورتوں کے نکاح نہ کرو”۔ تو اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ عورت کے نکاح کا اختیار اس کے ولی (ماں، باپ، یا سرپرست) کو دیا گیا ہے ہاں البتہ ولی کے لیے لازم ہے کہ عورت کا نکاح اس کی مرضی کے مطابق کرے۔
البتہ حدیثِ مبارکہ کی رو سے نکاح کے لیے عورت کی رضا مندی ضروری ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں:
أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا تُنْكَحُ الْأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ إِذْنُهَا ؟ قَالَ: أَنْ تَسْكُتَ.
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لی جائے اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کنواری عورت اذن کیونکر دے گی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس کی صورت یہ ہے کہ وہ خاموش رہ جائے۔ یہ خاموشی اس کا اذن سمجھی جائے گی۔
(صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5136)
5) مہر
مہر دراصل ازدواجی تعلق قائم ہونے کے اجر کے بدلے میں دیا جاتا ہے:
القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 24
فَمَا اسۡتَمۡتَعۡتُمۡ بِهٖ مِنۡهُنَّ فَاٰ تُوۡهُنَّ اُجُوۡرَهُنَّ فَرِيۡضَةً ؕ وَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكُمۡ فِيۡمَا تَرٰضَيۡـتُمۡ بِهٖ مِنۡۢ بَعۡدِ الۡـفَرِيۡضَةِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيۡمًا حَكِيۡمًا ۞
پھر جو ازدواجی زندگی کا لطف تم ان سے اٹھاؤ اس کے بدلے اُن کے مہر بطور فرض ادا کرو، البتہ مہر کی قرارداد ہو جانے کے بعد آپس کی رضامندی سے تمہارے درمیان اگر کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، اللہ علیم اور دانا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 21
وَ كَيۡفَ تَاۡخُذُوۡنَهٗ وَقَدۡ اَفۡضٰى بَعۡضُكُمۡ اِلٰى بَعۡضٍ۔
اور تم اپنا دیا ہو مہر ان سے کیسے چھین لو گے جب کہ تم ایک دوسرے سے لطف اندو ز ہو چکے ہو۔
اگر میاں بیوی میں ازدواجی تعلق قائم ہونے سے پہلے طلاق ہو جائے تو اس صورت میں شوہر کو نصف مہر دینا ہوگا:
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 237
وَاِنۡ طَلَّقۡتُمُوۡهُنَّ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَمَسُّوۡهُنَّ وَقَدۡ فَرَضۡتُمۡ لَهُنَّ فَرِيۡضَةً فَنِصۡفُ مَا فَرَضۡتُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ يَّعۡفُوۡنَ اَوۡ يَعۡفُوَا الَّذِىۡ بِيَدِهٖ عُقۡدَةُ النِّكَاحِ ؕ وَاَنۡ تَعۡفُوۡٓا اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰىؕ وَ لَا تَنۡسَوُا الۡفَضۡلَ بَيۡنَكُمۡؕ اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرٌ ۞
اور اگر تم نے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی ہے، لیکن مہر مقرر کیا جا چکا ہو، تو اس صورت میں نصف مہر دینا ہوگا یہ اور بات ہے کہ عورت نرمی برتے (اور مہر نہ لے) یا وہ مرد، جس کے اختیار میں عقد نکاح ہے، نرمی سے کام لے (اور پورا مہر دیدے)، اور تم (یعنی مرد) نرمی سے کام لو، تو یہ تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے آپس کے معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو تمہارے اعمال کو اللہ دیکھ رہا ہے۔
عورت کو اختیار ہے کہ وہ اپنی مرضی سے مہر کی رقم کو کم کر سکتی یا کلیتاً معاف کر سکتی ہے۔ اسی طرح مرد اگر فیاضی سے کام لینا چاہے تو وہ آدھے مہر کے بجائے پورا مہر بھی ادا کر سکتا ہے اور یہ عمل تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔
مہر کے لیے کوئی حد مقرر نہیں کی گئی:
القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 20
وَاِنۡ اَرَدتُّمُ اسۡتِبۡدَالَ زَوۡجٍ مَّكَانَ زَوۡجٍ ۙ وَّاٰتَيۡتُمۡ اِحۡدٰٮهُنَّ قِنۡطَارًا فَلَا تَاۡخُذُوۡا مِنۡهُ شَيۡــئًا ؕ اَ تَاۡخُذُوۡنَهٗ بُهۡتَانًا وَّاِثۡمًا مُّبِيۡنًا ۞
اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ ہی کر لو تو خواہ تم نے اُسے مہر میں ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو، اس میں سے کچھ واپس نہ لینا کیا تم اُسے بہتان لگا کر اور صریح ظلم کر کے واپس لو گے؟
6) مرد کی عورت پر فضیلت 7) نفقہ عورت کا واجبی حق ہے 8) عورت کو حکم ہے کہ وہ شوہر کی اطاعت کرے
القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 34
اَلرِّجَالُ قَوَّامُوۡنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعۡضَهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ وَّبِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِهِمۡ ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلۡغَيۡبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ ؕ
مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں.
عورت کا حق ہے کہ مرد اس پر اپنا مال (اسی مال کو نفقہ کہتے ہیں) خرچ کرے، اسی وجہ سے مرد کو عورت پر فضیلت دی گئی ہے اور اسی وجہ سے عورت کو مرد کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ عورت کی روزمرہ ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مردوں کو چاہیئے کہ وہ ان پر خرچ کریں۔ یہ مردوں پر فرض ہے اور یہ عورت کا واجبی حق ہے۔ ہاں اگر عورت خود اپنے اس حق سے دستبردار ہوجائے تو وہ ایک الگ بات ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا:
وَلَھُنَّ عَلَیْکُمْ رِزْقُھُنَّ وَکِسْوَتُھُنَّ بِالْمَعْرُوفِ۔
تم پر ان عورتوں کا یہ حق ہے کہ تم اپنی حیثیت کے مطابق ان کو اچھی خوراک اور اچھا لباس فراہم کیا کرو۔
(سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 1905)
اسی طرح عورت پر فرض ہے کہ وہ مرد کی اطاعت کرے، شوہر کی غیر موجودگی میں اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کرے۔
نفقہ استطاعت کے مطابق ہے:
القرآن – سورۃ نمبر 65 الطلاق، آیت نمبر 7
لِيُنۡفِقۡ ذُوۡ سَعَةٍ مِّنۡ سَعَتِهٖؕ وَمَنۡ قُدِرَ عَلَيۡهِ رِزۡقُهٗ فَلۡيُنۡفِقۡ مِمَّاۤ اٰتٰٮهُ اللّٰهُ۔
خوشحال آدمی اپنی خوشحالی کے مطابق نفقہ دے، اور جس کو رزق کم دیا گیا ہو وہ اُسی مال میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے۔
9) اگر عورت سرکشی پر اتر آئے تو اس صورت میں مرد کے لیے کیا حکم ہے؟
القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 34
وَالّٰتِىۡ تَخَافُوۡنَ نُشُوۡزَهُنَّ فَعِظُوۡهُنَّ وَاهۡجُرُوۡهُنَّ فِى الۡمَضَاجِعِ وَاضۡرِبُوۡهُنَّ ۚ فَاِنۡ اَطَعۡنَكُمۡ فَلَا تَبۡغُوۡا عَلَيۡهِنَّ سَبِيۡلًا ؕاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيۡرًا ۞
اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں اُن سے علیحدہ رہو اور مارو، پھر اگر وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو، یقین رکھو کہ اوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالا تر ہے۔
اگر عورت سرکشی پر اتر آئے تو مرد کو چاہیے کہ سب سے پہلے ہر ممکن طریقے سے عورت کو سمجھائے، اگر نہ سمجھے تو اس سے بستر الگ کر لے (ہجر فی المضاجع)، اور انتہائی سرکشی اور بغاوت کی صورت میں اصلاح کی غرض سے ہلکی مار (ضربِ غیر مبرح) کا اختیار بھی مرد کو دیا گیا ہے۔
10) میاں بیوی میں جھگڑا ہو جائے تو؟
القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 35
وَاِنۡ خِفۡتُمۡ شِقَاقَ بَيۡنِهِمَا فَابۡعَثُوۡا حَكَمًا مِّنۡ اَهۡلِهٖ وَحَكَمًا مِّنۡ اَهۡلِهَا ۚ اِنۡ يُّرِيۡدَاۤ اِصۡلَاحًا يُّوَفِّـقِ اللّٰهُ بَيۡنَهُمَا ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيۡمًا خَبِيۡرًا ۞
اور اگر تمہیں ان دونوں کے درمیان مخالفت کا اندیشہ ہو تو تم ایک مُنصِف مرد کے خاندان سے اور ایک مُنصِف عورت کے خاندان سے مقرر کر لو، اگر وہ دونوں (مُنصِف) صلح کرانے کا اِرادہ رکھیں تو اللہ ان دونوں کے درمیان موافقت پیدا فرما دے گا، بیشک اللہ خوب جاننے والا خبردار ہے،
11) ضرار یا ایذارسانی – کوئی عورت مرد کے بندِ نکاح میں اس طرح نہ روکی جائے کہ اس کے لیے موجبِ ضرر اور وجہِ حق تلفی ہو۔
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 231
وَلَا تُمۡسِكُوۡهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعۡتَدُوۡا ۚ
اور انہیں ضرار یعنی محض تکلیف دینے کے لئے نہ روکے رکھو کہ (ان پر) زیادتی کرتے رہو،
القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 129
فَلَا تَمِيۡلُوۡا كُلَّ الۡمَيۡلِ فَتَذَرُوۡهَا كَالۡمُعَلَّقَةِ ؕ
پس (ایک کی طرف) پورے میلان طبع کے ساتھ (یوں) نہ جھک جاؤ کہ دوسری کو (درمیان میں) لٹکتی ہوئی چیز کی طرح چھوڑ دو۔
12) صحبت سے اجتناب – عورت کی اوسط قوتِ برداشت چار مہینے ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 226
لِّـلَّذِيۡنَ يُؤۡلُوۡنَ مِنۡ نِّسَآئِهِمۡ تَرَبُّصُ اَرۡبَعَةِ اَشۡهُرٍۚ فَاِنۡ فَآءُوۡ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ ۞
اور ان لوگوں کے لئے جو اپنی بیویوں کے قریب نہ جانے کی قسم کھالیں چار ماہ کی مہلت ہے پس اگر وہ (اس مدت میں) رجوع کر لیں تو بیشک اﷲ بڑا بخشنے والا مہربان ہے،
یعنی عورت زیادہ سے زیادہ چار مہینے تک ازدواجی تعلق قائم کیے بغیر رہ سکتی ہے۔ لہٰذا مرد کو چاہیے کہ وہ عورت سے چار مہینے سے زیادہ دوری اختیار نہ کرے کیونکہ عورت کی اوسط قوتِ برداشت چار مہینے بیان کی گئی ہے۔
13) لعان – اگر شوہر اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگا دے تو کیا حکم ہے؟
القرآن – سورۃ نمبر 24 النور، آیت نمبر 6
وَالَّذِيۡنَ يَرۡمُوۡنَ اَزۡوَاجَهُمۡ وَلَمۡ يَكُنۡ لَّهُمۡ شُهَدَآءُ اِلَّاۤ اَنۡفُسُهُمۡ فَشَهَادَةُ اَحَدِهِمۡ اَرۡبَعُ شَهٰدٰتٍۭ بِاللّٰهِۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيۡنَ ۞
اور جو لوگ اپنی بیویوں پر (بدکاری کی) تہمت لگائیں اور ان کے پاس سوائے اپنی ذات کے کوئی گواہ نہ ہوں تو ایسے کسی بھی ایک شخص کی گواہی یہ ہے کہ (وہ خود) چار مرتبہ اللہ کی قَسم کھا کر گواہی دے کہ وہ (الزام لگانے میں) سچا ہے،
القرآن – سورۃ نمبر 24 النور، آیت نمبر 7
وَالۡخَـامِسَةُ اَنَّ لَـعۡنَتَ اللّٰهِ عَلَيۡهِ اِنۡ كَانَ مِنَ الۡكٰذِبِيۡنَ ۞
اور پانچویں مرتبہ یہ (کہے) کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹا ہو،
القرآن – سورۃ نمبر 24 النور، آیت نمبر 8
وَيَدۡرَؤُا عَنۡهَا الۡعَذَابَ اَنۡ تَشۡهَدَ اَرۡبَعَ شَهٰدٰتٍۢ بِاللّٰهِۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الۡكٰذِبِيۡنَۙ ۞
اور (اسی طرح) یہ بات اس (عورت) سے (بھی) سزا کو ٹال سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر (خود) گواہی دے کہ وہ (مرد اس تہمت کے لگانے میں) جھوٹا ہے،
القرآن – سورۃ نمبر 24 النور، آیت نمبر 9
وَالۡخَـامِسَةَ اَنَّ غَضَبَ اللّٰهِ عَلَيۡهَاۤ اِنۡ كَانَ مِنَ الصّٰدِقِيۡنَ ۞
اور پانچویں مرتبہ یہ (کہے) کہ اس پر (یعنی مجھ پر) اللہ کا غضب ہو اگر یہ (مرد اس الزام لگانے میں) سچا ہو،
جب مرد اور عورت دونوں اللہ کی قسم کھا لیں تو پھر دونوں کو علیحدہ کر دیا جائے۔
14) عقدۂِ نکاح یعنی نکاح کی گرہ مرد کے ہاتھ میں ہے
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 237
اِلَّاۤ اَنۡ يَّعۡفُوۡنَ اَوۡ يَعۡفُوَا الَّذِىۡ بِيَدِهٖ عُقۡدَةُ النِّكَاحِ ؕ
الا یہ کہ بیویاں مہر معاف کر دیں یا عفو سے کام لے وہ شخص جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔
مرد بحیثیت شوہر کے طلاق دینے یا نہ دینے کا کلی اختیار رکھتا ہے۔ جس طرح مرد کو طلاق کا حق دیا گیا ہے اسی طرح عورت کو علیحدگی یا خلع کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔
15) علیحدگی یا خلع
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 229
فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَ لَّا يُقِيۡمَا حُدُوۡدَ اللّٰهِۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَا فِيۡمَا افۡتَدَتۡ بِهٖؕ
پھر اگر تم کو اندیشہ ہو کہ وہ دونوں میاں بیوی حدود اللہ کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو ان دونوں پر کچھ گناہ نہیں کہ عورت فدیہ دے کر علیحدگی حاصل کر لے۔
16) طلاق اور حلالہ
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 229
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۖ فَاِمۡسَاكٌ ۢ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ تَسۡرِيۡحٌ ۢ بِاِحۡسَانٍ ؕ
طلاق (صرف) دو بار (تک) ہے، پھر یا تو (بیوی کو) اچھے طریقے سے (زوجیت میں) روک لینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے،
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 230
فَاِنۡ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنۡۢ بَعۡدُ حَتّٰى تَنۡكِحَ زَوۡجًا غَيۡرَهٗ ؕ فَاِنۡ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَآ اَنۡ يَّتَرَاجَعَآ اِنۡ ظَنَّآ اَنۡ يُّقِيۡمَا حُدُوۡدَ اللّٰهِؕ وَتِلۡكَ حُدُوۡدُ اللّٰهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوۡمٍ يَّعۡلَمُوۡنَ ۞
پھر اگر اس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اس کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر کے ساتھ نکاح کر لے، پھر اگر وہ (دوسرا شوہر) بھی طلاق دے دے تو اب ان دونوں (یعنی پہلے شوہر اور اس عورت) پر کوئی گناہ نہ ہوگا اگر وہ (دوبارہ رشتۂ زوجیت میں) پلٹ جائیں بشرطیکہ دونوں یہ خیال کریں کہ (اب) وہ حدودِ الٰہی قائم رکھ سکیں گے، یہ اﷲ کی (مقرر کردہ) حدود ہیں جنہیں وہ علم والوں کے لئے بیان فرماتا ہے،
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اَبْغَضُ الْحَلَالِ اِلَی اللّٰہ تعالیٰ الطَّلَاقُ
اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔
تَزَوَّجُوْا وَلَا تُطَلِّقُوْا فَاِنَّ اللّٰہ لَا یُحِبُّ الذَّوَّاقِیْنَ وَالذّوَّاقَات
شادیاں کرو اور طلاق نہ دو۔ کیونکہ اللہ مزے چکھنے والوں اور مزے چکھنے والیوں کو پسند نہیں کرتا۔
لَعَنَ اللّٰہُ کُلَّ ذَوَّاقٍ مِطْلَاقٍ
ہر طالبِ لذت بکثرت طلاق دینے والے پر اللہ نے لعنت کی ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 19
وَعَاشِرُوۡهُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ فَاِنۡ كَرِهۡتُمُوۡهُنَّ فَعَسٰۤى اَنۡ تَكۡرَهُوۡا شَيۡـئًـا وَّيَجۡعَلَ اللّٰهُ فِيۡهِ خَيۡرًا كَثِيۡرًا ۞
اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے برتاؤ کرو، پھر اگر تم انہیں نا پسند کرتے ہو تو ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی رکھ دے،
لہٰذا مرد کو چاہیے کہ وہ اپنے اس حقِ طلاق کو نہایت مجبوری اور محض ایک آخری چارۂِ کار کے طور پر ہی استعمال کرے۔
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 228
وَالۡمُطَلَّقٰتُ يَتَرَ بَّصۡنَ بِاَنۡفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوۡٓءٍ ؕ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ اَنۡ يَّكۡتُمۡنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِىۡٓ اَرۡحَامِهِنَّ اِنۡ كُنَّ يُؤۡمِنَّ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِؕ وَبُعُوۡلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ اِنۡ اَرَادُوۡٓا اِصۡلَاحًا ؕ وَلَهُنَّ مِثۡلُ الَّذِىۡ عَلَيۡهِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۖ وَلِلرِّجَالِ عَلَيۡهِنَّ دَرَجَةٌ ؕ وَاللّٰهُ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ ۞
اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں، اور ان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اسے چھپائیں جو اﷲ نے ان کے رحموں میں پیدا فرما دیا ہو، اگر وہ اﷲ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں، اور اس مدت کے اندر ان کے شوہروں کو انہیں (پھر) اپنی زوجیت میں لوٹا لینے کا حق زیادہ ہے اگر وہ اصلاح کا ارادہ کر لیں، اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر، البتہ مردوں کو ان پر فضیلت ہے، اور اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 65 الطلاق، آیت نمبر 1
يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ اِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوۡهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَاَحۡصُوا الۡعِدَّةَ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمۡ ۚ لَا تُخۡرِجُوۡهُنَّ مِنۡۢ بُيُوۡتِهِنَّ وَلَا يَخۡرُجۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ يَّاۡتِيۡنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ؕ وَتِلۡكَ حُدُوۡدُ اللّٰهِ ؕ وَمَنۡ يَّتَعَدَّ حُدُوۡدَ اللّٰهِ فَقَدۡ ظَلَمَ نَفۡسَهٗ ؕ لَا تَدۡرِىۡ لَعَلَّ اللّٰهَ يُحۡدِثُ بَعۡدَ ذٰ لِكَ اَمۡرًا ۞
اے نبی! (مسلمانوں سے فرما دیں:) جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کر بیٹھیں، اور یہ اللہ کی (مقررّہ) حدیں ہیں، اور جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو بیشک اُس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، (اے شخص!) تو نہیں جانتا شاید اللہ اِس کے (طلاق دینے کے) بعد (رجوع کی) کوئی نئی صورت پیدا فرما دے،
القرآن – سورۃ نمبر 65 الطلاق، آیت نمبر 2
فَاِذَا بَلَغۡنَ اَجَلَهُنَّ فَاَمۡسِكُوۡهُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ فَارِقُوۡهُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ وَّاَشۡهِدُوۡا ذَوَىۡ عَدۡلٍ مِّنۡكُمۡ وَاَقِيۡمُوا الشَّهَادَةَ لِلّٰهِ ؕ ذٰ لِكُمۡ يُوۡعَظُ بِهٖ مَنۡ كَانَ يُؤۡمِنُ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ ۙ وَمَنۡ يَّـتَّـقِ اللّٰهَ يَجۡعَلْ لَّهٗ مَخۡرَجًا ۞
پھر جب وہ اپنی مقررہ میعاد (کے ختم ہونے) کے قریب پہنچ جائیں تو انہیں بھلائی کے ساتھ (اپنی زوجیت میں) روک لو یا انہیں بھلائی کے ساتھ جدا کردو۔ اور اپنوں میں سے دو عادل مَردوں کو گواہ بنا لو اور گواہی اللہ کے لئے قائم کیا کرو، اِن (باتوں) سے اسی شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اور جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لئے (دنیا و آخرت کے رنج و غم سے) نکلنے کی راہ پیدا فرما دیتا ہے،
حالتِ حیض میں طلاق دینے سے منع کیا گیا ہے۔ طلاق دینے کا درست طریقہ یہ ہے کہ پہلے ایک طلاق دی جائے پھر عورت کے حیض کے بعد طہارت حاصل کرنے تک انتظار کرے، پھر دوسری طلاق دی جائے اور اسی طرح حیض کے بعد طہارت تک انتظار کرے، پھر تیسری طلاق دے۔ بیک وقت تین طلاقیں دینا گناہ ہے ہاں البتہ اس سے طلاق ہو جائے گی۔
مختصر خلاصہ:
1) نکاح کے دو بنیادی مقاصد ہیں 1.1) عصمت و عفت کی حفاظت 1.2) راحت و سکون کا حصول
2) ایمان، شرطِ نکاح ہے۔
3) اہلِ کتاب سے نکاح کی اجازت۔
4) عورت کے نکاح کا اختیار اس کے ولی کے پاس ہے۔
5) مہر عورت کا واجبی حق ہے۔ مہر کے لیے کوئی حد مقرر نہیں کی گئی۔
6) عورت کو نفقہ دینا مرد کی ذمہ داری ہے۔ نفقہ استطاعت کے مطابق ہے۔
7) عورت پر فرض ہے کہ وہ مرد کی اطاعت کرے۔
8) اگر عورت سرکشی پر اتر آئے تو اس صورت میں مرد کے لیے کیا حکم ہے؟ سمجھانا، بستر الگ، مار
9) میاں بیوی میں جھگڑا ہو جائے تو؟ مصالحت
10) عورت کا علیحدگی یا خلع کا اختیار۔
11) ضرار یا ایذارسانی – کوئی عورت مرد کے بندِ نکاح میں اس طرح نہ روکی جائے کہ اس کے لیے موجبِ ضرر اور وجہِ حق تلفی ہو۔
12) عورت کو رشتہِ نکاح میں معلق نہ رکھا جائے۔
13) صحبت سے اجتناب – عورت کی اوسط قوتِ برداشت چار مہینے ہے۔
14) لعان – اگر شوہر اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگا دے تو کیا حکم ہے؟
15) عقدۂِ نکاح یعنی نکاح کی گرہ مرد کے ہاتھ میں ہے۔
16) طلاق و حلالہ