کامیاب لوگوں کی 27 نشانیاں – قرآنی آیات کی روشنی میںجمعۃ المبارک، 13 جمادی الآخر 1444ھ، بمطابق 06 جنوری 2023

ہر انسان کامیاب ہونا چاہتا ہے۔ ہر انسان نے اپنے ذہن میں کامیابی کا ایک تصور بنا رکھا ہوتا ہے اور اس تصور کے مطابق وہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہر وقت کوشاں رہتا ہے۔ بعض اوقات انسان اپنے قائم کردہ تصور کے مطابق کامیابی حاصل کرنے کے باوجود مطمئن نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جو کامیابی اور ناکامی کا معیار اس نے اپنے لیے قائم کیا ہوتا ہے وہ غلط ہوتا ہے۔

ہر انسان کامیاب ہونا چاہتا ہے۔ ہر انسان نے اپنے ذہن میں کامیابی کا ایک تصور بنا رکھا ہوتا ہے اور اس تصور کے مطابق وہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہر وقت کوشاں رہتا ہے۔ بعض اوقات انسان اپنے قائم کردہ تصور کے مطابق کامیابی حاصل کرنے کے باوجود مطمئن نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جو کامیابی اور ناکامی کا معیار اس نے اپنے لیے قائم کیا ہوتا ہے وہ غلط ہوتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ حقیقی کامیابی کیا ہے؟ اس سوال کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے مگر اس مضمون میں ہم قرآنی آیات کی روشنی میں کامیاب لوگوں کی 27 نشانیاں بیان کریں گے۔

مختصر خاکہ:

1) ایمان 2) تقویٰ و پرہیزگاری 3) نماز قائم کرنا 4) بیہودہ اور بے مقصد گفتگو سے بچنا 5) زکوٰۃ ادا کرنا 6) شرم گاہوں کی حفاظت کرنا 7) امانت میں خیانت نہ کرنا 8) وعدوں کی پاسداری کرنا 9) امر باالمعروف و نہی عن المنکر 10) صبر کرنا 11) ثابت قدم رہنا 12) شراب سے بچنا 13) جوئے سے بچنا 14) فال اور قسمت کا حال معلوم کرنے کے طریقوں سے بچنا 15) سود اور سودی کاروبار سے بچنا 16) نیکیوں کی کثرت کرنا 17) اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرنا 18) محبت و اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 19) کثرت سے اللہ کا ذکر کرنا 20) جہاد فی سبیل اللہ کرنا 21) توبہ کرنا 22) اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا طلبگار رہنا 23) قرابت داروں کا حق ادا کرنا 24) محتاجوں کا خیال رکھنا 25) مسافروں کی مدد کرنا 26) بخل و کنجوسی سے بچنا 27) نفس کا تزکیہ کرنا

اب ہم کامیاب لوگوں کی 27 نشانیاں ایک ایک کر کے بیان کرتے ہیں:

1) ایمان

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 1
قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَۙ ۞
بیشک ایمان والے مراد پا گئے،

کونسے مومن کامیاب ہیں؟

القرآن – سورۃ نمبر 58 المجادلة, آیت نمبر 22
لَا تَجِدُ قَوۡمًا يُّؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ يُوَآدُّوۡنَ مَنۡ حَآدَّ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَلَوۡ كَانُوۡۤا اٰبَآءَهُمۡ اَوۡ اَبۡنَآءَهُمۡ اَوۡ اِخۡوَانَهُمۡ اَوۡ عَشِيۡرَتَهُمۡ‌ؕ اُولٰٓئِكَ كَتَبَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمُ الۡاِيۡمَانَ وَاَيَّدَهُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡهُ‌ ؕ وَيُدۡخِلُهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا‌ ؕ رَضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ‌ ؕ اُولٰٓئِكَ حِزۡبُ اللّٰهِ‌ ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ اللّٰهِ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ  ۞
آپ اُن لوگوں کو جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کبھی اس شخص سے دوستی کرتے ہوئے نہ پائیں گے جو اللہ اور اُس کے رسول ﷺ سے دشمنی رکھتا ہے خواہ وہ اُن کے باپ (اور دادا) ہوں یا بیٹے (اور پوتے) ہوں یا اُن کے بھائی ہوں یا اُن کے قریبی رشتہ دار ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اُس (اللہ) نے ایمان ثبت فرما دیا ہے اور انہیں اپنی روح (یعنی فیضِ خاص) سے تقویت بخشی ہے، اور انہیں (ایسی) جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ اُن میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اللہ اُن سے راضی ہو گیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے ہیں، یہی اﷲ (والوں) کی جماعت ہے، یاد رکھو! بیشک اﷲ (والوں) کی جماعت ہی مراد پانے والی ہے،

تو گویا جو لوگ ایمان کی اس کیفیت اور حالت کو حاصل کر لیتے ہیں کہ وہ دوستی اور دشمنی کا معیار اللہ تعالیٰ کی ذات کو بنا لیتے ہیں وہی دراصل حقیقی مومن ہیں جن کو قرآن کہتا ہے کہ “بے شک ایمان والے مراد پاگئے یا کامیاب ہو گئے”۔

سنن نسائی, حدیث نمبر: 4875
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُعْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ. ح وَأَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَيَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَاعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ أَحْمَدُ فِي حَدِيثِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَسْرِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ التَّوْبَةُ مَعْرُوضَةٌ بَعْدُ.
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب زنا کرنے والا زنا کرتا ہے تو زنا کے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا، جب چوری کرنے والا چوری کرتا ہے تو چوری کے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا۔ جب شراب پینے والا شراب پیتا ہے تو پیتے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا، اس کے بعد بھی اب تک اس کی توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے ۔

2) تقویٰ و پرہیزگاری

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 189
وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ۞
اور اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ،

ہر اس کام کو کرنا، جس کے کرنے کا دین نے حکم دیا ہے اور ہر اس کام سے رک جانا جس سے رکنے کا دین نے حکم دیا ہے اسے تقویٰ کہتے ہیں۔ اور تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنا، یہ کامیاب لوگوں کی نشانی ہے۔

3) نماز
خشوع و خضوع یعنی انتہائی سکون اور دل جمعی کے ساتھ نماز ادا کرنا اور نمازوں کی حفاظت کرنا یعنی ہر ممکن کوشش کرنا کہ نماز اول وقت میں باجماعت ادا کی جائے اور کوئی نماز قضا نہ ہونے پائے، یہ کامیاب لوگوں کی نشانی ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 2
الَّذِيۡنَ هُمۡ فِىۡ صَلَاتِهِمۡ خَاشِعُوۡنَ ۞
جو لوگ اپنی نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 9
وَالَّذِيۡنَ هُمۡ عَلٰى صَلَوٰتِهِمۡ يُحَافِظُوۡنَ‌ۘ ۞
اور جو اپنی نمازوں کی (مداومت کے ساتھ) حفاظت کرنے والے ہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 22 الحج، آیت نمبر 77
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا ارۡكَعُوۡا وَاسۡجُدُوۡا وَ اعۡبُدُوۡا رَبَّكُمۡ وَافۡعَلُوۡا الۡخَيۡرَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ۩ ۞
اے ایمان والو! تم رکوع کرتے رہو اور سجود کرتے رہو، اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہو اور (دیگر) نیک کام کئے جاؤ تاکہ تم فلاح پا سکو۔

4) بیہودہ اور بے مقصد گفتگو سے بچنا

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 3
وَالَّذِيۡنَ هُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَۙ ۞
اور جو بیہودہ باتوں سے (ہر وقت) کنارہ کش رہتے ہیں،

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 173
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ وَمَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُکْرِمْ جَارَهُ وَمَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُکْرِمْ ضَيْفَهُ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص کا ایمان اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ہو پس اسے چاہئے کہ وہ اچھی بات کہے یا پھر اسے خاموش رہنا چاہئے اور جس شخص کا ایمان اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ہو اسے چاہئے کہ اپنے ہمسائے کی عزت کرے اور جس شخص کا ایمان اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ہو اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1477
الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنِ اكْتُبْ إِلَيَّ بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَتَبَ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ كَرِهَ لَكُمْ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ وَقَالَ وَإِضَاعَةَ الْمَالِ وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ.
حضرت مغیرہ ؓ نے لکھا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین باتیں پسند نہیں کرتا۔ 1) بلاوجہ کی گپ شپ، 2) فضول خرچی اور 3) لوگوں سے بہت مانگنا۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 4483
عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَمَنْعًا وَهَاتِ وَکَرِهَ لَکُمْ ثَلَاثًا قِيلَ وَقَالَ وَکَثْرَةَ السُّؤَالِ وَإِضَاعَةَ الْمَالِ۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تین باتوں کو تمہارے لئے ناپسند کیا ہے 1) فضول گفتگو 2) سوال کی کثرت اور 3) مال کو ضائع کرنا۔

حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب تم اپنے دل میں سختی، بدن میں کمزوری اور رزق میں تنگی دیکھو تو جان لو کہ تم نے ضرور کوئی فضول بات منہ سے نکالی ہے۔
منہاج العابدین، صفحہ (64,65)

5) زکوٰۃ ادا کرنا:

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 4
وَالَّذِيۡنَ هُمۡ لِلزَّكٰوةِ فَاعِلُوۡنَۙ ۞
اور جو (ہمیشہ) زکوٰۃ ادا (کر کے اپنی جان و مال کو پاک) کرتے رہتے ہیں،

6) شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 5
وَالَّذِيۡنَ هُمۡ لِفُرُوۡجِهِمۡ حٰفِظُوۡنَۙ ۞
اور جو (دائماً) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 6
اِلَّا عَلٰٓى اَزۡوَاجِهِمۡ اَوۡ مَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُهُمۡ فَاِنَّهُمۡ غَيۡرُ مَلُوۡمِيۡنَ‌ۚ‏ ۞
سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بیشک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 7
فَمَنِ ابۡتَغٰى وَرَآءَ ذٰ لِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡعٰدُوۡنَ‌ ۞
پھر جو شخص ان (حلال عورتوں) کے سوا کسی اور کا خواہش مند ہوا تو ایسے لوگ ہی حد سے تجاوز کرنے والے (سرکش) ہیں،

دینِ اسلام نے جو عورتیں ایک مرد کے لئے حلال کی ہیں ان کے علاوہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنا، اپنے نفس کو بری خواہشات، زنا، اور بدکاری سے بچانا کامیاب لوگوں کی نشانی ہے۔

جاری ہے ۔۔۔۔ (بقیہ انشاء اللہ اگلے جمعۃ المبارک پہ)

Leave a Reply