کچھ اہلِ لغت کے نزدیک لفظِ محبت الحَبُّ وَالْحَبَّۃُ سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں دانہ یا بیج۔ (رسالہ قشیریہ، امام ابو القاسم القشیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)
جیسے قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
اِنَّ اللّٰہَ فَالِقُ الۡحَبِّ وَ النَّوٰی۔
بے شک اللہ ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑ کر (ان سے درخت اگاتا ہے۔)
تو محبت گویا بیج کی طرح ہوتی ہے۔ اب بیج کی خصوصیات میں غور و خوض کرنے سے حقیقی محبت کا معنیٰ اور مفہوم بڑا واضح ہو جاتا ہے۔
بیج کی خصوصیات اور محبتِ کاملہ:
بیج کی یہ خوبی ہے کہ وہ جس درخت کا بیج ہوتا ہے اس درخت کی ساری خوبیوں، اور صفات کا نچوڑ اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتا ہے۔ اسی طرح انسان جس سے محبت کرتا ہے اس محبوب کی صفات اور خصوصیات بھی اس محبت کے بیج میں موجود ہوتی ہیں۔ اب جیسے جیسے یہ محبت کا بیج پروان چڑھتا ہے ویسے ویسے محبوب کی صفات محب میں ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ جس قدر محبوب کی صفات محب میں ظاہر ہوتی ہیں محبت اسی قدر مضبوط اور کامل ہوتی ہے۔ محبت کا بیج جیسے جیسے پرورش پاتا ہے ویسے ویسے محب کی اپنی صفات کا رنگ اترتا جاتا ہے اور محبوب کی صفات کا رنگ چڑھتا جاتا ہے۔
حضرت جنید بغدادی رح سے کسی نے پوچھا کہ محبت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا محب (محبت کرنے والے) میں محبوب کی صفات کا آجانا، یہ محبت ہے۔ (رسالہ قشیریہ، امام ابو القاسم القشیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)
اگر کوئی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا دعویٰ کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ان صفات اور خصوصیات کو بھی اپنائے جن کا حکم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اگر رحمت و شفقت فرمانے والی ہے تو انسان کو بھی سراپا رحمت و شفقت ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اگر معاف فرمانے والے ہیں تو انسان کو بھی درگزر کرتے ہوئے معاف کرنے والا ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات عدل و انصاف فرمانے والی ہے تو ہمارے معاملات میں بھی عدل و انصاف نظر آنا چاہیے۔ محبوب اگر وعدہ خلافی نہیں کرتا تو محب کو بھی یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ وعدہ خلافی کرے۔ الغرض محبت کامل یہ ہے محب کی صفات کو دیکھو تو محبوب کی صفات کی جھلک نظر آئے۔ اور محب کے اعمال و افعال کو دیکھو تو محبوب کے افعال کی جھلک نظر آئے۔
وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنْ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ،
ترجمہ:
اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہوجاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 6502)
تو محبت جب کامل ہو جاتی ہے تو زبان محب کی ہوتی ہے اور کلام محبوب کی طرف سے ہوتا ہے۔ کلام محب کا ہوتا ہے مگر تاثیر محبوب سے مل رہی ہوتی ہے۔ ہاتھ محب کے ہوتے ہیں، عمل محبوب کی طرف سے ہوتے ہیں۔ عمل محب کا ہوتا ہے مگر طاقت اور قوت محبوب کی طرف سے مل رہی ہوتی ہے۔
غزوہ بدر میں کنکریاں پھینکنے والی ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تھی مگر اس کے پیچھے طاقت اور قوت خدا کی تھی۔ قرآن پاک میں اس واقعہ کا اللہ رب العزت نے ذکر فرمایا ہے؛
فَلَمۡ تَقۡتُلُوۡهُمۡ وَلٰـكِنَّ اللّٰهَ قَتَلَهُمۡۖ وَمَا رَمَيۡتَ اِذۡ رَمَيۡتَ وَ لٰـكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى ۚ وَلِيُبۡلِىَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ مِنۡهُ بَلَاۤءً حَسَنًا ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ ۞
ترجمہ:
(اے سپاہیانِ لشکرِ اسلام!) ان کافروں کو تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کر دیا، اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے، اور یہ (اس لئے) کہ وہ اہلِ ایمان کو اپنی طرف سے اچھے انعامات سے نوازے، بیشک اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے، القرآن – (سورۃ نمبر 8 الأنفال، آیت نمبر 17)
محبت کے بیج کی پرورش میں رکاوٹ:
بیج کی نشوونما کے لیے ضروری ہوتا ہے ہے کہ زمین کو اچھی طرح سے تیار کیا جائے۔ جڑی بوٹیوں اور خاردار جھاڑیوں سے زمین کو پاک کیا جاتا ہے تاکہ بیج کو پروان چڑھنے میں کوئی دقت نہ ہو۔ اسی طرح محبت کا بیج جس دل کی سرزمین میں اگتا ہے اس دل کی سرزمین کو بھی دل کی بیماریوں، جڑی بوٹیوں اور جھاڑیوں سے پاک کرنا پڑتا ہے تاکہ محبت کا بیج با آسانی نشوونما پا سکے۔
جو چیزیں محبت کے بیج کو پروان چڑھانے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں وہ دل کی زمین کی جڑی بوٹیاں ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہر وہ چیز جو محبوب کی یاد سے غافل کر دے وہ دل کی سرزمین میں ایک جڑی بوٹی اور خاردار جھاڑی کی طرح ہے۔ جیسے محبوب کے غیر کی محبت، دنیا کی محبت، مال و دولت کی ہوس، اقتدار اور حاکمیت کی طمع، نفسانی خواہشات کی غلامی، گناہوں کی لذت، حسد، بغض، کینہ، عداوت، غصہ، انا پرستی، غرور و تکبر، وغیرہ۔ یہ وہ ساری جڑی بوٹیاں ہیں جن کی موجودگی میں محبت کا بیج پروان نہیں چڑھ سکتا۔
حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ أَبِي السَّفَرِ، حَدَّثَنَا شِهَابُ بْنُ عَبَّادٍ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَمْرٍو الْقُرَشِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ إِذَا أَنَا عَمِلْتُهُ أَحَبَّنِي اللَّهُ، وَأَحَبَّنِي النَّاسُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ازْهَدْ فِي الدُّنْيَا يُحِبَّكَ اللَّهُ، وَازْهَدْ فِيمَا فِي أَيْدِي النَّاسِ يُحِبُّوكَ.
ترجمہ:
سہل بن سعد ساعدی ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک شخص نے آ کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جسے میں کروں تو اللہ تعالیٰ بھی مجھ سے محبت کرے، اور لوگ بھی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دنیا سے بےرغبتی رکھو، اللہ تم کو محبوب رکھے گا، اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے بےنیاز ہوجاؤ، تو لوگ تم سے محبت کریں گے ۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 4102)
اگر کوئی چاہتا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حقیقی محبت کے بیج کو پروان چڑھا کر ایک نفع بخش تناور درخت بنائے تو اسے چاہیے کہ اپنے دل کی سرزمین کو دنیا کی محبت اور اس جیسی دوسری جڑی بوٹیوں سے پاک کر لے۔
حضرت شبلی رح فرماتے ہیں کہ محبت کو محبت اس لیے کہتے ہیں کہ یہ محبوب کے علاوہ دل سے ہر چیز کو مٹا دیتی ہے۔ (رسالہ قشیریہ، امام ابو القاسم القشیری رح)
حضرت شبلی رح فرماتے ہیں کہ محبت دل میں بسی ہوئی آگ کی طرح ہوتی ہے جو محبوب کی مراد کے علاوہ ہر چیز کو جلا دیتی ہے۔ (رسالہ قشیریہ، امام ابو القاسم القشیری رح)
اے چارہ گرِ شوق کوئی ایسی دوا دے
جو دل سے ہر اک غیر کی چاہت کو مٹا دے
(ڈاکٹر طاہر القادری)
محبت باعث حلاوت ایمان:
صحیح بخاری, حدیث نمبر: 6041
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَجِدُ أَحَدٌ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ حَتَّى يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَحَتَّى أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى الْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَهُ اللَّهُ، وَحَتَّى يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا.
حضرت انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کوئی شخص ایمان کی حلاوت (مٹھاس) اس وقت تک نہیں پاسکتا جب تک وہ کسی شخص سے محبت کرئے تو صرف اللہ کے لیے کرے اور اس کو آگ میں ڈالا جانا اچھا لگے لیکن ایمان کے بعد کفر میں جانا اسے پسند نہ ہو، اور جب تک اللہ اور اس کے رسول سے اسے ان کے سوا دوسری تمام چیزوں کے مقابلے میں زیادہ محبت نہ ہو۔
انسان اسی کے ساتھ ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے:
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 6168
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا انسان اس کے ساتھ ہے جس سے وہ محبت رکھتا ہے۔
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 6167
عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَتَى السَّاعَةُ قَائِمَةٌ ؟ قَالَ: وَيْلَكَ، وَمَا أَعْدَدْتَ لَهَا ؟ قَالَ: مَا أَعْدَدْتُ لَهَا إِلَّا أَنِّي أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، قَالَ: إِنَّكَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَفَقُلْنَا: وَنَحْنُ كَذَلِكَ ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَفَرِحْنَا يَوْمَئِذٍ فَرَحًا شَدِيدًا،
حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ ایک بدوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: یا رسول اللہ! قیامت کب آئے گی؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، افسوس ويلك تم نے اس قیامت کے لیے کیا تیاری کرلی ہے؟ انہوں نے عرض کیا میں نے اس کے لیے تو کوئی تیاری نہیں کی ہے البتہ میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر تم قیامت کے دن ان کے ساتھ ہو، جس سے تم محبت رکھتے ہو۔ ہم نے عرض کیا اور ہمارے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوگا؟ فرمایا کہ ہاں۔ ہم اس دن بہت زیادہ خوش ہوئے،
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 6171
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَتَى السَّاعَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ: مَا أَعْدَدْتَ لَهَا ؟قَالَ: مَا أَعْدَدْتُ لَهَا مِنْ كَثِيرِ صَلَاةٍ وَلَا صَوْمٍ وَلَا صَدَقَةٍ وَلَكِنِّي أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، قَالَ: أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ.
حضرت انس بن مالک ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا: یا رسول اللہ! قیامت کب قائم ہوگی؟ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تم نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اس کے لیے بہت ساری نمازیں، روزے اور صدقے نہیں تیار کر رکھے ہیں، لیکن میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اس کے ساتھ ہو جس سے تم محبت رکھتے ہو۔
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 6169
قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تَقُولُ فِي رَجُلٍ أَحَبَّ قَوْمًا وَلَمْ يَلْحَقْ بِهِمْ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ،
حضرت عبداللہ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کا اس شخص کے بارے میں کیا ارشاد ہے جو ایک جماعت سے محبت رکھتا ہے لیکن ان سے میل نہیں ہوسکا ہے؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ انسان اس کے ساتھ ہے جس سے وہ محبت رکھتا ہے۔
محبت کی علامات:
القرآن – سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 54
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ يَّرۡتَدَّ مِنۡكُمۡ عَنۡ دِيۡـنِهٖ فَسَوۡفَ يَاۡتِى اللّٰهُ بِقَوۡمٍ يُّحِبُّهُمۡ وَيُحِبُّوۡنَهٗۤ ۙ اَذِلَّةٍ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اَعِزَّةٍ عَلَى الۡكٰفِرِيۡنَ يُجَاهِدُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَلَا يَخَافُوۡنَ لَوۡمَةَ لَاۤئِمٍ ؕ ذٰ لِكَ فَضۡلُ اللّٰهِ يُؤۡتِيۡهِ مَنۡ يَّشَآءُ ؕ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيۡمٌ ۞
اے ایمان والو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اﷲ (ان کی جگہ) ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ (خود) محبت فرماتا ہوگا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے وہ مومنوں پر نرم (اور) کافروں پر سخت ہوں گے اﷲ کی راہ میں (خوب) جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔ یہ (انقلابی کردار) اللہ کافضل ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اﷲ وسعت والا (ہے) خوب جاننے والا ہے،
سرکارِ د وعالم، رسُولِ مُحتَشَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ معظم ہے۔
مَنْ اَحَبَّ شَیْأً اَکْثَرَ ذِکْرَہٗ جو شخص جس سے محبت کرتا ہے اکثر اس کا ذکر کثرت سے کرتا ہے ۔
(کنزالعمال، ۱/۲۱۷،حدیث۱۸۲۵البقرۃ، الجزء الاول)
قال الإمام القسطلاني : من علامات محبته ﷺ کثرۃ ذکره، فمن أحب شیئاً أکثر من ذکره۔وقیل : للمحب ثلاث علامات : أن یکون کلامه ذکر المحبوب، وصمته فکراً فیه، وعمله طاعۃ له۔
امام قسطلانی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ محبت کی ایک علامت آپ ﷺ کا بکثرت ذکر کرنا ہے۔ کیوں کہ جو شخص جس چیز سے محبت کرتا ہے اس کا ذکر بھی زیادہ کرتا ہے اور یہ بھی مذکور ہے : محب کی تین علامات ہیں : ایک یہ کہ اس کا کلام محبوب کا ذکر ہو، اس کی خاموشی محبوب کی فکر ہو اور اس کا عمل محبوب کی فرمانبرداری ہو۔ (القسطلاني في المواھب اللّدنّیّۃ بِالْمنحِ الْمحمّدیّۃ، 2 / 495)
صوفیاء کے نزدیک محبت کا مفہوم:
حضرت جنید رح نے محبوب کے غلبۂِ ذکر کا بیان کیا ہے کہ محب کے دل میں صفاتِ محبوب کی یاد کے بغیر کوئی اور چیز غالب نہیں ہونی چاہیے اور اپنی صفات سے کلی طور پر غافل ہو جانا چاہیے کہ ان کا احساس تک نہ رہے۔ (رسالہ قشیریہ، امام ابو القاسم القشیری رح)
حضرت شبلی رح فرماتے ہیں کہ؛
سُمِّیَتُ الْمَحَبَّۃُ لِاَنَّھَا تَمْحُوْ مِنَ الْقَلْبِ مَا سِوَی الْمَحْبُوبِ
محبت کا نام محبت اسی لیے رکھا گیا ہے کہ وہ دل سے محبوب کے ماسویٰ کو مٹا دیتی ہے۔ (کشف المحجوب)
حضرت با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں؛ “اَلْمَحَبَّۃُ اِسْتِقْلَالُ الْکَثِیْرِ مِنْ نَّفْسِکَ وَاسْتِکْثَارُ الْقَلِیْلِ مِنْ حَبِیْبِکَ” محبت یہ ہے کہ اپنے بہت کو تھوڑا جانے اور محبوب کے تھوڑے کو بہت جانے۔ (کشف المحجوب) یعنی اپنے زیادہ عمل کو بھی کم جاننا اور محبوب کی تھوڑی سی کرم نوازی کو بھی زیادہ جاننا۔
محبت کا مفہوم: (رسالہ قشیریہ، امام ابو القاسم القشیری رح)
(اب ایک ہے اللہ کی بندے سے محبت اور ایک ہے بندے کی اللہ سے محبت۔)
حق تعالیٰ کی بندے سے محبت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو کوئی خاص انعام دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ جب اللہ تعالٰی بندے کو اپنے قرب سے نوازتا ہے اور اسے بلند مقام و مرتبہ دیتا ہے تو اسے “محبت” کہتے ہیں۔
ایک گروہ کے نزدیک محبت یہ ہے کہ اللہ اپنے بندے کا (فرشتوں وغیرہ میں) ذکر کرتا ہے، اس کی تعریف کرتا ہے، اس کے بارے میں کلام کرتا ہے۔
امام ابنِ قیم مدارج السالکین میں فرماتے ہیں کہ محبت دل کی قوت، روح کی غذا ہے، اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔
محبوب کی طلب میں دل سفر کرے اور زبان اس کے ذکر میں ہمیشہ رطب اللسان رہے اس کی طلب میں دل کا سفر اس کی ملاقات کا شوق ہے۔ اور زبان پر ہر وقت ذکر جاری رہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص کسی سے محبت کرتا ہے تو اس کا ذکر کثرت سے کرتا ہے۔
(المواہب الدنیہ، امام احمد بن محمد قسطلانی رحمہ اللہ علیہ)
محبت کوشش سے نہیں بلکہ نصیب سے ملتی ہے:
محبت کوشش یا محنت سے حاصل نہیں ہوتی۔ یہ عطا ہے، نصیب ہے، بلکہ یہ بڑے ہی نصیب کی بات ہے۔ زمین کے سفر میں اگر کوئی چیز آسمانی ہے۔ تو وہ ”محبت” ہے۔ (واصف علی واصف رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی خیرات عطاء فرمائے۔ آمین