کچھ اہلِ لغت کے نزدیک لفظِ محبت الحَبُّ وَالْحَبَّۃُ سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں دانہ یا بیج۔ (رسالہ قشیریہ، امام ابو القاسم القشیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)
جیسے قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
اِنَّ اللّٰہَ فَالِقُ الۡحَبِّ وَ النَّوٰی۔
بے شک اللہ ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑ کر (ان سے درخت اگاتا ہے۔)
تو محبت گویا بیج کی طرح ہوتی ہے۔ اب بیج جب درخت بنتا ہے تو اس پر شاخیں بھی لگتی ہیں، پتے، پھل اور پھول لگتے ہیں جس سے وہ درخت انسانوں کے لیے نفع بخش بن جاتا ہے۔ تو گویا بیج جب پرورش پا کر ایک تناور درخت بنتا ہے تب اس سے ان خوبیوں اور خاصیتوں کا اظہار ہوتا ہے جو اصلاً اس بیج کے اندر موجود تھیں۔ بالکل اسی طرح محبت کا بیج جب اہلِ محبت کی صحبت اور محبوب کے ذکر کے پانی سے پرورش پا کر ایک تناور درخت بنتا ہے تو محب میں بھی محبوب کی صفات اور خصوصیات کی جھلک نظر آنا شروع ہو جاتی ہے۔ تو گویا جیسے جیسے محبت کمال کو پہنچتی ہے ویسے ویسے محب میں محبوب کی صفات کا ظہور بدرجہ اتم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
حضرت ابو القاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں؛
اَلْمَحَبَّۃُ مَحْوُ الْمُحِبِّ بِصِفَاتِہٖ وَ اِثْبَاتُ الْمَحْبُوْبِ لِذٰاتِہٖ
محبت یہ ہے کہ محب اپنی صفات کو محبوب کی صفات اور اس کی ذات کے اثبات میں فنا کر دے۔ (کشف المحجوب)
محبت اور آزمائش:
اب سوال یہ ہے کہ محبت اور آزمائش کا آپس میں کیا تعلق ہے اور آخر محبت کے لیے آزمائش کی ضرورت ہی کیا ہے؟ تو اس کا جواب بھی بیج کی مثال میں ہی پوشیدہ ہے۔
بیج سے درخت بنانے کے لیے اسے پہلے درخت سے جدا کیا جاتا ہے۔ ایسے نہیں ہو سکتا کہ درخت کے اوپر ہی بیج رہے اور اسی سے ایک نیا درخت وجود میں آ جائے۔ اسے جدائی اور فراق کی آزمائش سے گزارا جاتا ہے۔ بعینہٖ اہلِ محبت کو بھی ہجر اور فراق کی بھٹی سے گزارا جاتا ہے۔ محبوب کی قربت، معیت اور صحبت کی یاد میں تڑپایا جاتا ہے۔
عالمِ ارواح میں جب ساری روحیں اکٹھی تھیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ تو تمام روحوں نے جواب دیا قَالُو بَلٰی کیوں نہیں باری تعالیٰ تو ہی ہمارا رب ہے، تو ہی ہمارا محبوب حقیقی ہے۔ پھر تمام روحوں کو زمین پر بھیجا گیا تاکہ اس دعوائے محبت کی آزمائش کی جائے۔ روحوں کو محبوب نے اپنی قربت اور معیت سے دور کر کے اس دنیا میں بھیج دیا ہے۔ ہمارا یہاں ہجر اور فراق کی بھٹی میں تڑپنا بھی تو اس محبت کی آزمائش ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس محبت کا بیج ہمارے دلوں میں ڈال کر ہی ہمیں اس دنیا میں بھیجا ہے اور یہی محبتِ حقیقی ہی تو ہے جس کی پہچان اور معرفت حاصل کرنا ہمارا واحد مقصدِ حیات ہے۔ اس محبت کے بیج کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ ایک تناور درخت بن کر محبوبِ حقیقی کی رضا و خوشنودی حاصل کر سکے۔
زمین کے سفر میں اگر کوئی چیز آسمانی ہے۔ تو وہ ”محبت” ہے۔ (واصف علی واصف رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ)
اسی طرح آپ دیکھیں کہ بیج کو اگر آپ پہلے ہی زمین کے اوپر رکھ دیں تو اس کی پرورش نہیں ہو پاتی۔ اس لیے اسے زمین کے اندر دبایا جاتا ہے پھر اس کے اوپر تیز ہوائیں، آندھیاں اور طوفان بھی گزارے جاتے ہیں۔ پھر طرح طرح کی موسمی سختیوں سے بھی بیج کو گزارا جاتا ہے۔ اسی طرح بیج جب درخت بنتا ہے تو کبھی موسمِ بہار آتا ہے جس میں پھل، پھول اور پتے نکلتے ہیں تو کبھی موسمِ خزاں بھی آتا ہے جس میں پتے جھڑ جاتے ہیں۔ الغرض بیج کو مختلف طرح کی موسمی اور زمینی سختیوں سے گزارا جاتا ہے تاکہ اس کی پرورش بہترین انداز میں ہو سکے۔
بالکل اسی طرح محبت کے بیج کو بھی پروان چڑھانے کے لیے محب کو مختلف طریقوں سے آزمایا جاتا ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ محبت کے دعوے میں کتنی سچائی ہے۔ کبھی نعمت دے کر آزمایا جاتا ہے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ بندہ شکر کرتا ہے یا نعمت میں گم ہو کر محبوب کو ہی بھول جاتا ہے۔ کبھی دکھ تکلیف اور غم دے کر آزمایا جاتا ہے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ بندہ صبر کرتا ہے یا محبوبِ حقیقی سے شکوے اور شکایتیں کرتا ہے۔
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ يُّتۡرَكُوۡۤا اَنۡ يَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَهُمۡ لَا يُفۡتَـنُوۡنَ ۞
کیا لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ (صرف) ان کے (اتنا) کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں چھوڑ دیئے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گی،
القرآن – سورۃ نمبر 29 العنكبوت، آیت نمبر 2
حضرت یحییٰ بن معاذ رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں؛
حَقِیْقَۃُ الْمَحَبَّۃِ لَا یَنْقُصُ بِالْجَفَاءِ وَلَا یَزِیْدُ بِالْبِرِّ وَ الْعَطَاءِ
حقیقی محبت نہ جفا سے کم ہوتی ہے اور نیکی و عطا سے بڑھتی ہے۔ (کشف المحجوب)
اہلِ محبت تو وہ ہیں جو ہر حال میں محبوب کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔ بہار ہو یا خزاں، آندھی ہو یا طوفان، نعمت ملے یا مصیبت، خوشحالی ہو یا تنگدستی، خوشی ہو یا غمی ہر حال میں وہ محبوب کی رضا میں راضی رہتے ہیں۔ اگر نعمت ملے تو شکر بجا لاتے ہیں اور اگر دکھ، تکلیف یا مصیبت آ جائے تو صبر کرتے ہیں مگر محبوب سے شکوہ و شکایت نہیں کرتے۔ وہ محبوب کی طرف سے ملنے والے دکھوں غموں اور تکالیف میں بھی عجب کیف اور لذت محسوس کرتے ہیں۔
جے سوہنا میڈے دکھ وچ راضی
تے میں سکھ نوں چلھے ڈاھواں
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2350
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ نَبْهَانَ بْنِ صَفْوَانَ الثَّقَفِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ أَسْلَمَ، حَدَّثَنَا شَدَّادٌ أَبُو طَلْحَةَ الرَّاسِبِيُّ، عَنْ أَبِي الْوَازِعِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ، فَقَالَ: انْظُرْ مَاذَا تَقُولُ ؟ قَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ، فَقَالَ: انْظُرْ مَاذَا تَقُولُ ؟ قَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ تُحِبُّنِي فَأَعِدَّ لِلْفَقْرِ تِجْفَافًا، فَإِنَّ الْفَقْرَ أَسْرَعُ إِلَى مَنْ يُحِبُّنِي مِنَ السَّيْلِ إِلَى مُنْتَهَاهُ . وقال ابو عیسیٰ ھٰذا حدیث حسن (منہاج السوی)
ترجمہ:
عبداللہ بن مغفل ؓ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں، آپ نے فرمایا: جو کہہ رہے ہو اس کے بارے میں سوچ سمجھ لو ، اس نے پھر کہا: اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں، آپ نے فرمایا: جو کہہ رہے ہو اس کے بارے میں سوچ سمجھ لو ، اس نے پھر کہا: اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں، اسی طرح تین دفعہ کہا تو آپ نے فرمایا: اگر تم مجھ سے واقعی محبت کرتے ہو تو فقر و محتاجی کا ٹاٹ تیار رکھو اس لیے کہ جو شخص مجھے دوست بنانا چاہتا ہے اس کی طرف فقر اتنی تیزی سے جاتا ہے کہ اتنا تیز سیلاب کا پانی بھی اپنے بہاؤ کے رخ پر نہیں جاتا ۔
تو گویا محبت میں آزمائش شرط ہے۔ اگر محبت کا دعویٰ کیا ہے تو تکالیف، اور مصائب سے آزمائش بھی ہوگی۔ کبھی بھوک سے آزمایا جائے گا تو کبھی خوف سے۔ کبھی مال و تجارت میں نقصان ہوگا تو کبھی بیماری اور موت سے آزمایا جائے گا۔
وَلَـنَبۡلُوَنَّكُمۡ بِشَىۡءٍ مِّنَ الۡخَـوۡفِ وَالۡجُـوۡعِ وَنَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَالۡاَنۡفُسِ وَالثَّمَرٰتِؕ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيۡنَۙ ۞
اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں،
(القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 155)
اور آزمائش کے وقت کیا گیا صبر انسان کو محبوب کی قربت اور معیت سے نواز دیتا ہے۔
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَعِيۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَالصَّلٰوةِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيۡنَ ۞
اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقیناً اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہے،
(القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 153)
آپ دیکھیں کہ محب کی سب بڑی خواہش اور چاہت یہی ہوتی ہے کہ اسے محبوب کی قربت، صحبت، اور معیت ملے۔ اور محبوبِ حقیقی اللہ وحدہ لا شریک کا یہ اصول ہے کہ وہ اپنی معیت اور قربت انہی لوگوں کو دیتا ہے جو آزمائش کے وقت صبر کرتے ہیں۔ تو چونکہ محبوب کی قربت و معیت کی شرط صبر ہے اور صبر آزمائش پر ہی کیا جاتا ہے لہٰذا آزمائش گویا تکمیلِ محبت کی شرط ہے۔ آزمائش کے ذریعے محبت کے بیج کی پرورش ہوتی ہے۔ جب انسان آزمائش پر صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے درجات کو بلند کرتا رہتا ہے تاوقتیکہ اسے اپنی قربت و معیت سے نواز دیتا ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: عِظَمُ الْجَزَاءِ مَعَ عِظَمِ الْبَلَاءِ، وَإِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا ابْتَلَاهُمْ، فَمَنْ رَضِيَ فَلَهُ الرِّضَا، وَمَنْ سَخِطَ فَلَهُ السُّخْطُ.
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جتنی بڑی مصیبت ہوتی ہے اتنا ہی بڑا ثواب ہوتا ہے، اور بیشک اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو اسے آزماتا ہے، پھر جو کوئی اس سے راضی و خوش رہے تو وہ اس سے راضی رہتا ہے، اور جو کوئی اس سے خفا ہو تو وہ بھی اس سے خفا ہوجاتا ہے ۔
(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 4031)
سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 4032
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْمُؤْمِنُ الَّذِي يُخَالِطُ النَّاسَ وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ، أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لَا يُخَالِطُ النَّاسَ وَلَا يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ.
وہ مومن جو لوگوں سے مل جل کر رہتا ہے، اور ان کی ایذاء پر صبر کرتا ہے، تو اس کا ثواب اس مومن سے زیادہ ہے جو لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے، اور ان کی ایذاء رسانی پر صبر نہیں کرتا ہے۔
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2399
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا يَزَالُ الْبَلَاءُ بِالْمُؤْمِنِ وَالْمُؤْمِنَةِ فِي نَفْسِهِ وَوَلَدِهِ وَمَالِهِ حَتَّى يَلْقَى اللَّهَ وَمَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مومن مرد اور مومن عورت کی جان، اولاد، اور مال میں آزمائشیں آتی رہتی ہیں یہاں تک کہ جب وہ مرنے کے بعد اللہ سے ملاقات کرتے ہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔
کنزالعمال، حدیث نمبر: 8663
8663- عن أبي وائل عن ابن مسعود أو غيره من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم – شك هشام الدستوائي قال: إذا أحب الله عبدا ابتلاه، فمن حبه إياه يمسه البلاء حتى يدعوه فيسمع دعاءه. “هب”.
٨٦٦٣۔۔۔ ابو وائل سے روایت ہے وہ حضرت عبداللہ بن مسعود یا کسی اور صحابی رسول ﷺ سے نقل کرتے ہیں، ہشام دستوائی کو شک ہے، فرمایا: اللہ تعالیٰ جسے پسند کرتے ہیں اسے مصیب میں مبتلا کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت کی ایک علامت یہ ہے کہ بندہ کو کوئی مصیبت و آزمائش پہنچے اور وہ اللہ تعالیٰ کو پکارے اور اللہ تعالیٰ اس کی پکارودعاسنیں۔ (بیھقی فی الشعب)
مسند احمد، حدیث نمبر: 10952
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي عَمْرٌو عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ شَكَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجَتَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اصْبِرْ أَبَا سَعِيدٍ فَإِنَّ الْفَقْرَ إِلَى مَنْ يُحِبُّنِي مِنْكُمْ أَسْرَعُ مِنْ السَّيْلِ عَلَى أَعْلَى الْوَادِي وَمِنْ أَعْلَى الْجَبَلِ إِلَى أَسْفَلِهِ.
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ انہوں نے نبی ﷺ سے تنگدستی کی شکایت کی تو نبی ﷺ نے فرمایا ابوسعید! صبر کرو، کیونکہ مجھ سے محبت کرنے والوں کی طرف فقر وفاقہ اس سیلاب سے بھی زیادہ تیزی سے بڑھتا ہے جو اوپر کی جانب سے نیچے آئے۔
مسند احمد، حدیث نمبر: 10952
الغرض جیسے موسمِ خزاں میں درخت پر آزمائش اترتی ہے ویسے ہی محبت کے دعویدار کو بھی مختلف مصائب و آلام سے آزمایا جاتا ہے۔ لہٰذا کسی کی غربت، تنگدستی یا مصیبت پر اس کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے محبوب حقیقی کی طرف سے کسی آزمائش میں مبتلا ہو اور وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک محبوب ہو۔ کیونکہ جتنے اللہ کے محبوب اور برگزیدہ بندے گزرے ہیں وہ انتہا درجے کی سختیوں، مصائب اور تکالیف سے آزمائے گئے ہیں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً ؟ قَالَ: الْأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ الْأَمْثَلُ، فَالْأَمْثَلُ، فَيُبْتَلَى الرَّجُلُ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ، فَإِنْ كَانَ دِينُهُ صُلْبًا اشْتَدَّ بَلَاؤُهُ، وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَّةٌ ابْتُلِيَ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ، فَمَا يَبْرَحُ الْبَلَاءُ بِالْعَبْدِ حَتَّى يَتْرُكَهُ يَمْشِي عَلَى الْأَرْضِ مَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وفي الباب عن أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأُخْتِ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً ؟ قَالَ: الْأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ.
ترجمہ:
سعد بن ابی وقاص ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! سب سے زیادہ مصیبت کس پر آتی ہے؟ آپ نے فرمایا: انبیاء و رسل پر، پھر جو ان کے بعد مرتبہ میں ہیں، پھر جو ان کے بعد ہیں، بندے کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے، اگر بندہ اپنے دین میں سخت ہے تو اس کی مصیبت بھی سخت ہوتی ہے اور اگر وہ اپنے دین میں نرم ہوتا ہے تو اس کے دین کے مطابق مصیبت بھی ہوتی ہے، پھر مصیبت بندے کے ساتھ ہمیشہ رہتی ہے، یہاں تک کہ بندہ روئے زمین پر اس حال میں چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا ۔
(جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2398 )
حضرتِ ایوب علیہ السلام کی طویل مدت بیماری میں گزری مگر زبان سے کبھی شکوہ و شکایت نہیں کیا۔ حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ میں رکھا گیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں پھینک دیا گیا۔ حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکا گیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب نمرود نے آگ میں پھینکا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام حاضر خدمت ہوئے اور کہا ھَل لَکَ اِلَیَّ مِن حَاجَۃٍ؟ کہ کیا آپ کو مجھ سے کوئی حاجت ہے؟ تو آپ نے فرمایا “اَمَا الَیْکَ فَلَا” حاجت تو ہے مگر تم سے نہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا کہ پھر اللہ تعالیٰ سے عرض کیجئے؟ تو آپ نے فرمایا “حَسْبِی سُؤَالِی عِلْمُہٗ بِحَالِی” حق تعالیٰ میرے سوال سے بے نیاز ہے وہ میری حالت کو جانتا ہے۔ (کشف المحجوب)
مطلب کہ وہ میرے حال سے بخوبی واقف ہے اسے پتہ ہے کہ مجھے آگ میں پھینکا جا رہا ہے اگر میرا اللہ میرا محبوب یہی چاہتا ہے کہ مجھے آگ میں جلایا جائے تو پھر میری بھی وہی چاہت ہے جو میرے محبوب کی چاہت ہے۔
سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے
اسی طرح خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ کہ جن کے تصدق اور وسیلے سے یہ بزمِ کائنات سجائی گئی آپ پر طائف کے بازاروں میں پتھر پھینکے گئے مگر آپ کی زبانِ اقدس سے بددعا نہیں نکلی۔ مکے کی گلیوں میں آپ پر کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا مگر آپ کوڑا پھینکنے والی بڑھیا کے گھر عیادت کے لیے تشریف لے جاتے۔ نماز کے دوران آپ پر اوجھڑی ڈال دی جاتی مگر آپ کمال حلم اور بردباری سے سب کچھ برداشت کرتے رہے کیونکہ آپ تو اپنے محبوب حقیقی کی رضا کے لیے کام کر رہے تھے اور آپ اس حقیقت کو بخوبی جانتے تھے کہ راہِ محبت میں آزمائش شرط ہوا کرتی ہے۔ اور اہلِ محبت کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ محبوب کی طرف سے ملنے والی آزمائش پر شکوے اور شکایتیں کریں۔ بلکہ محب تو اپنا سب کچھ حتیٰ کہ اپنی جان بھی محبوب کی خاطر قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔
حضرت محمد بن فضل رح فرماتے ہیں کہ محبوب کی محبت کے سوا دل سے ہر محبت کو نکال دینا، یہ محبت ہے۔ (رسالہ قشیریہ)
حضرت ابو عبداللہ قرشی فرماتے ہیں کہ حقیقی محبت یہ ہے کہ محب اپنا سب کچھ محبوب کو پیش کر دے اور اپنا کچھ بھی نہ رہے۔ (رسالہ قشیریہ)
اور پھر محبت کی انتہا تو یہ ہے کہ محبوب کی رضا و خوشنودی کی خاطر محب اپنی جان ہی قربان کر دے۔ اگر بات شہادت کی ہو، تو سید الشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام سے بڑھ کر بھی کوئی ہے کہ جنہوں نہ صرف اپنی بلکہ اپنے پورے خاندان کی جانیں رضائے محبوب کی خاطر قربان کر دیں۔
صدق خلیل بھی ہے عشق صبر حسین بھی ہے عشق!
معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق!
(علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ)
حاصلِ کلام یہ ہے کہ محبت میں آزمائش شرط ہے۔ جیسے موسمیاتی سختیوں اور زمینی آزمائشوں کے بغیر بیج کی نشوونما نہیں ہو پاتی اسی طرح مصیبتوں اور آزمائشوں کے بغیر محبت کے بیج کی پرورش بھی ممکن نہیں ہے۔ حقیقی محبت یہ ہے کہ محب ہر حال میں محبوبِ حقیقی کی رضا میں راضی رہے تاکہ محبت کے بیج کی نشوونما ہوتی رہے اور بالآخر محب کو محبوب کا وصال نصیب ہو جائے۔
جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں
ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزا ہی نہیں
(نظم بلال ؓ، علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ)