محبت اور اطاعت میں کیا تعلق ہے؟ جمعۃ المبارک 15 ربیع الثانی 1444ھ بمطابق 11 نومبر 2022

سوال: محبت کی دین میں ضرورت کیا ہے؟ کیا محبت کے بغیر اطاعت ممکن ہے؟ محبت اور اطاعت کا تعلق کیا ہے؟ کیا صرف اطاعت کرنا کافی نہیں ہے؟

جواب: محبت شرطِ ایمان ہے۔ جبکہ اطاعت اظہارِ محبت کا نام ہے۔ جب تک محبت کامل نہیں ہوتی تب تک ایمان کامل نہیں ہوتا اور جب تک ایمان کامل نہیں ہوتا تب تک اطاعت ممکن نہیں ہوتی۔ محبت کے بغیر اطاعت، منافقت ہے۔

محبت شرطِ ایمان ہے:

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ۔
اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اللہ سے محبت کرتے ہیں۔
(سورۃ البقرہ ، 165)

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 4681
حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ شَابُورَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْقَاسِمِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ وَأَبْغَضَ لِلَّهِ وَأَعْطَى لِلَّهِ وَمَنَعَ لِلَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْإِيمَانَ.
ابوامامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اللہ ہی کے رضا کے لیے محبت کی، اللہ ہی کے رضا کے لیے دشمنی کی، اللہ ہی کے رضا کے لیے دیا، اللہ ہی کے رضا کے لیے منع کردیا تو اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا۔
سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 4681

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ ، لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ۔
بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ تم میں سے کوئی بھی ایماندار نہ ہو گا جب تک میں اس کے والد اور اولاد سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں۔
(صحیح البخاری 14، 15)

فَقَالَ لَهُ عُمَرُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا مِنْ نَفْسِي ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِكَ ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ : فَإِنَّهُ الْآنَ وَاللَّهِ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : الْآنَ يَا عُمَرُ .
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں، سوا میری اپنی جان کے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ ( ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا ) جب تک میں تمہیں تمہاری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: پھر واللہ! اب آپ مجھے میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، عمر! اب تیرا ایمان پورا ہوا۔
(صحیح البخاری 6632)

اطاعت اظہارِ محبت ہے:

محبت کا لفظ الحب سے نکلا ہے جس کے معنیٰ ہیں دانہ یا بیج۔ تو محبت گویا بیج کی طرح ہوتی ہے۔ اب بیج پر اگر ہم غور کریں تو بیج کے اندر درخت کی ساری خصوصیات کا عکس اور نچوڑ موجود ہوتا ہے لیکن ان خصوصیات کا ظہور تبھی ہوتا ہے جب وہ بیج پرورش پا کر ایک درخت بنتا ہے۔ اسی طرح جب انسان کسی سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے تو محبت کے بیج کی صورت میں محبوب کی صفات کا رنگ محب کے دل میں اتر آتا ہے مگر محب کی ذات میں محبوب کی صفات تب تک ظاہر نہیں ہوتیں جب تک وہ محبت کامل نہیں ہو جاتی۔ اور جب محبت کامل ہو کر ایک درخت کی صورت اختیار کرتی ہے تو محب اپنے محبوب کے ہر حکم کو بجا لاتا ہے اور ہر اس کام سے رک جاتا جس سے محبوب نے منع کیا ہوتا ہے اور اسی طرح محب کی ذات میں محبوب کی صفات کی صفات کی جھلک نظر آنے لگتی ہے۔

حضرت سہل بن عبداللہ تستری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں؛ “اَلْمَحَبَّۃُ مُعَانَقَۃُ الطَّاعَاتِ وَمُبَایَنَۃُ الْمُخَالَفَاتِ” محبوب کی اطاعت پر قائم رہنا اور محبوب کی مخالفت سے کنارہ کش ہوجانا، یہ محبت ہے۔ (کشف المحجوب)

محبت اور اطاعت کا تعلق کیا ہے؟

ابتدا میں محب محبت کا دعویٰ کرتا ہے اور اس دعوے یا اقرار سے محبت کا بیج اس کے دل کی زمین میں رکھ دیا جاتا ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ محبت کا صرف دعویٰ نہیں رہتا بلکہ دل بھی اس محبت کی تصدیق کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اسی زبان کے اقرار (اِقْرَارٌ بِاللِّسَان) اور دل کی تصدیق (تَصْدِیْقٌ بِاالْقَلب) کو ایمان کہتے ہیں۔ لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ محبت کا بیج ایمان ہے کہ جس میں محب زبان سے محبت کا دعویٰ بھی کرتا ہے اور دل کی زمین میں اس محبت کے بیج کی پرورش بھی کر رہا ہوتا ہے۔ اور جب محبت کا بیج پرورش پا کر ایک درخت بنتا ہے تو تب محب کی ذات میں محبوب کی صفات کی جھلک نظر آنے لگتی ہے اور محبوب کی تعلیمات و احکامات پر عمل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اور محبوبِ حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ کے اوامر (احکامات) پر عمل کرنا اور نواہی سے بچنا، یہی اسلام ہے اور اسے ہی اطاعت کہتے ہیں۔

محبت بیج کی طرح ہے اور محبت کا بیج جب پرورش پاکر درخت کی صورت اختیار ہے یعنی جب محبت کامل ہو جاتی ہے تو محب کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ، ہر وہ عمل کرے جس سے محبوب خوش ہوتا ہے اور ہر اس کام کو ترک کرے جس سے محبوب ناراض ہوتا ہے۔ تو گویا محبت کی بیج کی طرح ہے اور اطاعت اس درخت کی طرح ہے جس سے محبوب کی صفات کا اظہار ہوتا ہے۔ اب جیسے بیج کے بغیر درخت کا وجود ممکن نہیں اسی طرح محبت کے بغیر اطاعت ممکن نہیں۔ تو نتیجہ یہ نکلا کہ جب تک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا رشتہ اور تعلق مضبوط نہیں ہوتا تب تک اطاعت اور احکامات پر عمل کرنا بندۂِ مومن کو دشوار لگتا ہے۔ تب تک فجر کے لیے اٹھنا مشکل لگتا ہے، نماز کی پابندی مشکل لگتی ہے، روزہ رکھنا کٹھن محسوس ہوتا ہے، عبادات میں دل نہیں لگتا۔ لیکن جیسے جیسے یہ محبت کا بیج پرورش پا کر ایک درخت بنتا ہے تو بڑی آسانی سے انسان محبوب کے ہر حکم کی تعمیل شروع کر دیتا ہے اور اس کی ذات میں محبوب کی صفات کا رنگ نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ صوفیائے کرام اور بعض اہلِ حکمت و دانش علمائے کرام اطاعتِ خدا و مصطفیٰﷺ سے زیادہ محبتِ خدا و مصطفیٰﷺ پر زور دیتے ہیں۔ کیونکہ محبت بیج کی طرح ہے، محبت کامل ہوگئی تو اطاعت بھی خود بخود ہونا شروع ہو جائے گی لیکن اگر محبت ہی کامل نہیں ہوگی تو ایسی اطاعت بھی مؤَثر نہیں ہو پاتی۔

اس کی ایک مثال لے لیں کہ اگر آپ صرف اطاعت پر توجہ دیتے ہوئے بچے کو کہیں کہ نماز پڑھا کرو یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ہے تو وہ آپ کے ڈر یا کسی لالچ کی وجہ سے تو نماز پڑھ لیتا ہے لیکن جیسے ہی وہ بڑا ہوتا ہے یا جب اسے کسی کا ڈر بھی نہیں رہتا اور اسے کوئی دنیوی نفع بھی نظر نہیں آتا تو وہ نماز نہیں پڑھتا۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں معاشرے میں جنہیں کوئی پرواہ نہیں ہے کہ نماز نہ پڑھنے سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ لیکن اس کے برعکس اگر آپ شروع سے ہی بچے کے اندر اطاعت کے ساتھ ساتھ محبت کا جذبہ بھی پیدا کرنا شروع کر دیں اور یہ سمجھائیں کہ ہمارے اس دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے، ہمارا اپنے رب کے ساتھ تعلق کیسا ہے، اس تعلق کے تقاضے کیا ہیں، محبوبِ حقیقی کی محبت اور اس کی رضا کیسے حاصل ہوگی تو آپ دیکھیے گا جیسے جیسے یہ محبت کا تعلق پروان چڑھے گا بچہ خود بخود اطاعت اور احکامات و تعلیمات اسلامیہ کی پابندی شروع کر دے گا۔

تو اس ساری بحث سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ دین میں محبت روح کی مانند ہے اور اطاعت جسم کی مانند ہے۔

“محبت ایمان، اعمال اور مقامات کی روح ہے کہ اگر یہ نہ پائی جائے تو یہ تمام چیزیں ایسے جسم کی طرح ہیں جس میں روح نہ ہو۔”
(مدارج السالکین، امام ابن قیم)

اگر روح نکال دیں تو جسم مردہ ہو جاتا ہے اسی طرح اگر دین سے عشق اور محبت نکال دیں تو دین بھی محض تصورات کا ایک مجموعہ ہی رہ جاتا ہے۔ بقول اقبال؛

عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بتکدۂ تصورات!
(علامہ اقبال رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ)

تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے
دلِ مرتضیٰ سوزِ صدیق دے
جگر سے وہی تیر پھر پار کر
تمنا کو سینوں میں بیدار کر
اقبال

Leave a Reply