یہ ایک ایسا بنیادی سوال ہے جس کے بارے میں ہر ذی شعور انسان اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر ضرور سوچتا ہے۔ کہ آخر اسے اس دنیا میں کیوں بھیجا گیا ہے، اور اس کی زندگی کا کیا مقصد ہے؟ اس سوال کا جواب جتنا جلدی ہو سکے تلاش کر لینا چاہیے۔ کیونکہ اس سے انسان کی سوچ، فکر، اور ترجیحات کا تعین ہوتا ہے۔ اگر انسان اپنے حقیقی مقصدِ حیات کا تعین کیے بغیر زندگی گزار دے تو اس کی زندگی کا اختتام شدید پچھتاوے پر ہوتا ہے۔
مقصدِ حیات کو پہچاننے کے حوالے سے تین قسموں کے لوگ موجود ہیں۔
پہلی قسم کے لوگ وہ ہیں جو ساری زندگی اس سوال کو دبائے رکھتے ہیں اور اگر کبھی ان کا ضمیر انہیں اس سوال کی یاد دہانی کروائے بھی تو وہ اسے یہ کہہ کر بہلا دیتے ہیں کہ زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے، بس ہم پیدا ہوئے ہیں، چند دن کی زندگی ہے خوب موج مستی کرتے ہیں جب موت آئے گی تو دیکھ لیں گے کہ کیا ہوتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کو دعوتِ فکر دیتے ہوئے قرآن کہتا ہے؛
اَفَحَسِبۡتُمۡ اَنَّمَا خَلَقۡنٰكُمۡ عَبَثًا وَّاَنَّكُمۡ اِلَيۡنَا لَا تُرۡجَعُوۡنَ ۞
سو کیا تم نے یہ خیال کر لیا تھا کہ ہم نے تمہیں بے کار (و بے مقصد) پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟،
القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 115
وَمَا خَلَقۡنَا السَّمَآءَ وَالۡاَرۡضَ وَمَا بَيۡنَهُمَا بَاطِلًا ؕ ذٰ لِكَ ظَنُّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡاۚ فَوَيۡلٌ لِّلَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنَ النَّارِؕ ۞
اور ہم نے آسمانوں کو اور زمین کو اور جو کائنات دونوں کے درمیان ہے اسے بے مقصد و بے مصلحت نہیں بنایا۔ یہ (بے مقصد یعنی اتفاقیہ تخلیق) کافر لوگوں کا خیال و نظریہ ہے۔ سو کافر لوگوں کے لئے آتشِ دوزخ کی ہلاکت ہے،
القرآن – سورۃ نمبر 38 ص، آیت نمبر 27
اس قسم سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنی ساری زندگی ایک افراتفری کے عالم میں، دوسرے لوگوں کی دیکھا دیکھی گزار دیتے ہیں۔ اور انہیں ساری زندگی یہ سمجھ ہی نہیں آتی یا یہ سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملتی کہ ان کی زندگی کا حقیقی مقصد کیا تھا؟ شاعر نے لکھا ہے؛
کیا کہیں احباب کیا کارِ نمایاں کر گئے
بی اے کیا نوکر ہوئے پنشن لی اور مر گئے
(اکبر الٰہ آبادی)
انہیں ساری زندگی اس سوال کی سمجھ ہی نہیں آتی کہ وہ اس دنیا میں کیوں بھیجے گئے ہیں۔ یہ لوگ ساری زندگی غفلت میں گزار دیتے ہیں اور ایسے لوگوں کی نشانی یہ ہے کہ یہ لوگ زندگی سے حد درجے کی محبت کرتے ہیں اور موت سے ڈرتے ہیں کیونکہ انہوں نے موت کے لیے کوئی تیاری نہیں کی ہوتی۔
دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو سوچ سمجھ کر اپنی زندگی کے لیے غلط مقصد متعین کر لیتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے مقصد کو حاصل کر لینے کے بعد بھی مطمئن نہیں ہوتے اور اسی پچھتاوے میں رہتے ہیں کہ جس مقصد کے حصول کے لیے اپنی ساری زندگی لگا دی وہ تو حقیقی مقصدِ حیات تھا ہی نہیں۔
مثال کے طور پر کچھ لوگ عورت اور اولاد کی محبت، مال و دولت کی ہوس، جاہ و منصب کی چاہت وغیرہ کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اور جب ان میں سے کوئی خواہش پوری نہیں ہوتی تو اس کو حاصل کرنے کے لیے جائز و ناجائز، حلال و حرام کی پرواہ کیے بغیر ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ کسی طریقے سے وہ اپنی اس خواہش کو پورا کر لیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ خواہشات تو محض اللہ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہیں۔ جیسا کہ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 14 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالۡبَـنِيۡنَ وَالۡقَنَاطِيۡرِ الۡمُقَنۡطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالۡفِضَّةِ وَالۡخَـيۡلِ الۡمُسَوَّمَةِ وَالۡاَنۡعَامِ وَالۡحَـرۡثِؕ ذٰ لِكَ مَتَاعُ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا ۚ وَاللّٰهُ عِنۡدَهٗ حُسۡنُ الۡمَاٰبِ ۞
“لوگوں کے لئے ان خواہشات کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے (جن میں) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشان کئے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں)، یہ (سب) دنیوی زندگی کا سامان ہے، اور اﷲ کے پاس بہتر ٹھکانا ہے”
یہ خواہشات تو محض انسان کی آزمائش کے لیے تھیں۔ اللہ تعالیٰ کسی کو یہ نعمتیں دے کر آزماتا ہے اور کسی کو ان سے محروم رکھ کر آزماتا ہے۔ انسان کی آزمائش یہ ہوتی ہے کہ جب اسے کسی خواہش سے محروم رکھ کر آزمایا جائے تو کیا وہ اس کے حاصل کرنے کے لیے حرام اور ناجائز ذرائع استعمال کرتا ہے یا اسے خدا کی رضا سمجھ کر اس پہ صبر کرتا ہے۔
جو لوگ آزمائشوں پہ صبر کر لیتے ہیں وہی اپنے حقیقی مقصدِ حیات کے حصول میں کامیاب ہوتے ہیں اور جو لوگ آزمائشوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے حلال و حرام کا فرق بھول جاتے ہیں وہ کامیاب ہو کر بھی کبھی مطمئن نہیں ہوتے اور ساری عمر پچھتاوے میں گزارتے ہیں۔
فَاَعۡرِضۡ عَنۡ مَّنۡ تَوَلّٰى عَنۡ ذِكۡرِنَا وَلَمۡ يُرِدۡ اِلَّا الۡحَيٰوةَ الدُّنۡيَا ۞
سو آپ اپنی توجّہ اس سے ہٹا لیں جو ہماری یاد سے رُوگردانی کرتا ہے اور سوائے دنیوی زندگی کے اور کوئی مقصد نہیں رکھتا،
القرآن – سورۃ نمبر 53 النجم، آیت نمبر 29
اس آیتِ مبارکہ میں واضح طور پر ایسے لوگوں کی مجلس و صحبت سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے جو اللہ رب العزت کی یاد سے غافل ہیں اور جنہوں نے اپنے لیے غلط مقصد متعین کر لیا ہے یعنی دنیا کو اپنا مقصدِ حیات بنا لیا ہے اور ہر وقت دنیوی معاملات میں ہی مشغول رہتے ہیں۔
اب یہ بات واضح ہو گئی کہ مال و دولت کی فراوانی، بنیک بیلنس، جائیدادیں اور جاگیریں بنانا، ایک دوسرے پر فخر و برتری، کسی عہدے اور منصب کی چاہت، وغیرہ انسان کی زندگی کا حقیقی مقصد نہیں ہو سکتے۔ پھر آخر حقیقی مقصدِ حیات کیا ہے؟ جس کے حصول کے بعد انسان پر سکون اور مطمئن ہو جائے اور زندگی کے اختتام پر اسے کسی قسم کا پچھتاوا نہ ہو۔ اس کا جواب تیسری قسم کے لوگ حاصل کرتے ہیں۔
تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو دنیا کی بے ثباتی، انسانی رشتوں اور تعلقات کی حقیقت، اور اپنی زندگی اور موت کے حقیقی مقصد کو پہچان لیتے ہیں۔
اۨلَّذِىۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَالۡحَيٰوةَ لِيَبۡلُوَكُمۡ اَيُّكُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡغَفُوۡرُۙ ۞
جس نے موت اور زندگی کو (اِس لئے) پیدا فرمایا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے، اور وہ غالب ہے بڑا بخشنے والا ہے،
القرآن – سورۃ نمبر 67 الملك، آیت نمبر 2
وہ یہ جان جاتے ہیں کہ انسان کی زندگی کا حقیقی مقصد اپنے خالقِ حقیقی کو پہچاننا اور اس کی رضا و خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ انہیں اس بات کا بخوبی ادراک ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے اپنے اعمال سے اللہ تعالیٰ کو راضی کر لیا تو تبھی وہ حقیقی معنوں میں کامیاب ہوں گے۔ اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی حاصل نہیں کر سکے تو وہ دنیا کی جو چیز بھی حاصل کر لیں انہیں کبھی حقیقی سکون اور راحت نہیں ملے گی۔
قُلۡ اِنَّ صَلَاتِىۡ وَنُسُكِىۡ وَ مَحۡيَاىَ وَمَمَاتِىۡ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ ۞
“فرما دیجئے کہ بیشک میری نماز اور میرا حج اور قربانی ( سمیت سب بندگی ) اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے”
سورۃ الانعام، آیت نمبر 162
اس آیت میں بھی اللہ رب العزت نے انسان کے حقیقی مقصدِ حیات کو بڑی وضاحت سے بیان کر دیا ہے۔ کہ انسان جو بھی عمل یا عبادات کرے یا زندگی کے شب و روز گزارے اس کے ہر عمل کا واحد مقصد اللہ رب العزت کی رضا کا حصول ہونا چاہیے جو کہ انسان کا حقیقی مقصدِ حیات ہے۔
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 425
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ،
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے لا إله إلا الله کہنے والے پر اگر اس کا مقصد خالص اللہ کی رضا حاصل کرنا ہو دوزخ کی آگ حرام کردی ہے۔
جس انسان کو اپنے حقیقی مقصدِ حیات کا ادراک ہو جاتا ہے اس کی نشانی یہ ہے کہ وہ نعمتوں پر شکر گزار ہوتا ہے اور آزمائشوں کو اللہ کی رضا سمجھ کر صبر کر لیتا ہے۔ ایسا انسان کبھی دوسرے انسانوں سے شکوہ و شکایت نہیں کرتا کیونکہ وہ یہ جانتا ہے کہ انسان تو محض وسیلہ بنتے ہیں اصل میں تو وہ اپنے رب کی طرف سے آزمایا جا رہا ہے۔
یہ لوگ اپنی زندگی، عارضی دنیوی خواہشات کے حصول کے بجائے ان کاموں میں صرف کرتے ہیں جو اللہ کی رضا و خوشنودی کا باعث بنیں۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 207 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں؛
“اور (اس کے برعکس) لوگوں میں کوئی شخص ایسا بھی ہوتا ہے جو اﷲ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنی جان بھی بیچ ڈالتا ہے، اور اﷲ بندوں پر بڑی مہربانی فرمانے والا ہے”۔
ایسے لوگ ہمہ وقت اس کوشش میں رہتے ہیں کہ کسی طریقے سے وہ اپنے محبوبِ حقیقی اللہ وحدہ لا شریک کو راضی کر لیں اور اس کی ناراضگی والے کاموں سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ جب انسان اللہ کی رضا کے لیے اس کے بتائے ہوئے احکامات کے مطابق زندگی گزارتا ہے تب اسے حقیقی راحت و اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے حقیقی مقصدِ حیات کی طرف گامزن ہوتا ہے۔
سورۃ الرعد، آیت نمبر 28 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں؛
“جو لوگ ایمان لائے اور ان کے دل اﷲ کے ذکر سے مطمئن ہوتے ہیں، جان لو کہ اﷲ ہی کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے”
اب یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ انسان بے سکون یا بے اطمینان کیوں ہوتا ہے؟ انسان کی روح یہ چاہتی ہے کہ انسان اپنے حقیقی مقصدِ حیات کو پہچانے اور وہ ایسے اعمال کرے جس سے اس کا خالق راضی ہو جائے۔ جبکہ جسم دنیوی نفع اور آسائشوں کا حصول چاہتا ہے اور وہ اس کے مطابق عمل کرنا چاہتا ہے۔ اس روح اور جسم کی باہمی کشمکش سے بے سکونی جنم لیتی ہے۔ کیونکہ انسان اپنے حقیقی مقصدِ حیات سے ہٹ کر عمل کر رہا ہوتا ہے۔ اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ یہ فرما رہے ہیں کہ اے انسان اگر تو سکون کی تلاش میں ہے تو پھر اپنے حقیقی مقصدِ حیات کو پہچان، اس کے حصول کے لیے کوشش کر، اپنے محبوبِ حقیقی کی یاد میں رہا کر، اس کا ذکر کثرت سے کیا کر تاکہ تیرے دل کو اطمینان اور سکون مل سکے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقی مقصدِ حیات پہچاننے اور اسے حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی
علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ
(جنید حسن)