انسان کی زندگی کا واحد مقصد، اللہ تعالیٰ کو پہچاننا، اس کی معرفت حاصل کرنا، اور اس کو راضی کرنا ہے۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راضی کر لیا، وہ کامیاب ہوگیا اور جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راضی نہ کرسکا وہ ناکام ہوگیا۔
امام حسین علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے:
مَاذَا وَجَدَ مَنْ فَقَدَكَ وَ مَا الّذِى فَقَدَ مَنْ وَجَدَكَ؟
اے اللہ! جس نے تجھے کھو دیا، اس نے کیا پایا اور جسے تو مل گیا، اس نے کیا کھویا؟
یعنی جس نے اللہ کو راضی کر لیا اس نے کچھ نہ پا کر بھی سب کچھ پا لیا، اور وہ کامیاب و کامران ہوگیا۔ اور جس نے اللہ کو ناراض کر دیا، اس نے سب کچھ پا کر بھی کچھ نہیں پایا، اور وہ ناکام و نامراد ہوگیا۔
القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 185
كُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَةُ الۡمَوۡتِؕ وَاِنَّمَا تُوَفَّوۡنَ اُجُوۡرَكُمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِؕ فَمَنۡ زُحۡزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدۡخِلَ الۡجَـنَّةَ فَقَدۡ فَازَ ؕ وَمَا الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ ۞
ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے، اور تمہارے اجر پورے کے پورے تو قیامت کے دن ہی دئیے جائیں گے، پس جو کوئی دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہ واقعۃً کامیاب ہو گیا، اور دنیا کی زندگی دھوکے کے مال کے سوا کچھ بھی نہیں،
کامیابی اور ناکامی کا تصور بھی انسان کے مقصدِ حیات کے تعین کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ جب تک انسان اپنے حقیقی مقصدِ حیات کو نہیں پہچانتا، وہ دنیوی آسائشوں اور آسانیوں کے حصول کو کامیابی سمجھتا ہے اور اپنی ساری صلاحیتیں انہیں دنیوی خواہشات کے حصول کے لیے صرف کر دیتا ہے۔ لیکن ان خواہشات کی تکمیل پر بھی اسے سکونِ قلب حاصل نہیں ہوتا اور جب موت کا وقت قریب آتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اس نے ساری زندگی ایک دھوکے اور فریب کے پیچھے ضائع کر دی۔ ایسے لوگوں کو دعوتِ فکر دیتے ہوئے قرآن کہتا ہے؛
القرآن – سورۃ نمبر 82 الإنفطار، آیت نمبر 6
يٰۤاَيُّهَا الۡاِنۡسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الۡكَرِيۡمِ ۞
اے انسان! تجھے کس چیز نے اپنے ربِ کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا،
اس کے برعکس جو لوگ اپنے حقیقی مقصدِ حیات کو پہچان لیتے ہیں، پھر ان کا ہر عمل اور ہر لمحہ اس فکر میں گزرتا ہے کہ وہ کیسے اپنے محبوبِ حقیقی اللہ رب العزت کو راضی کریں۔ ایسے لوگ اپنی زندگیاں محبوبِ حقیقی کی رضا کے حصول کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔
سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 207 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں؛
وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ يَّشۡرِىۡ نَفۡسَهُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰهِؕ وَ اللّٰهُ رَءُوۡفٌ ۢ بِالۡعِبَادِ ۞
اور (اس کے برعکس) لوگوں میں کوئی شخص ایسا بھی ہوتا ہے جو اﷲ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنی جان بھی بیچ ڈالتا ہے، اور اﷲ بندوں پر بڑی مہربانی فرمانے والا ہے،
الغرض خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر ہم حقیقی کامیابی چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی اصلاح کی فکر کرنا ہوگی، اپنے رب کو راضی کرنا ہوگا، اگر کوئی غلطیاں یا کوتاہیاں ہو چکی ہیں تو اللہ کے حضور توبہ کرنا ہوگی اور آئندہ کے لیے ہر اس عمل سے بچنا ہوگا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضگی کا باعث بنے۔
اللہ تعالیٰ تو بندے کے انتظار میں رہتا ہے کہ کب میرا بندہ میری طرف آئے اور میں اسے اپنی رحمت سے نوازوں۔ اللہ تو انسان کی شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، وہ اپنے بندے کی ہر پکار کو سنتا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر، آیت نمبر 53
قُلۡ يٰعِبَادِىَ الَّذِيۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَةِ اللّٰهِ ؕ اِنَّ اللّٰهَ يَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِيۡعًا ؕ اِنَّهٗ هُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِيۡمُ ۞
آپ فرما دیجئے: اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر لی ہے! تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بے شک اللہ سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے، وہ یقینا بڑا بخشنے والا، بہت رحم فرمانے والا ہے،
اور جب بندہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دنیوی ضروریات کو بھی پورا کر دیتا ہے۔ لیکن جو انسان اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات پر عمل نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اسے دنیوی معاملات میں ایسا الجھا دیتے ہیں کہ وہ سکون و اطمینان کی ساعتوں کے لیے بھی ترستا رہتا ہے اور پھر بھی اس کی محتاجی ختم نہیں ہوتی۔
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2466
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ زَائِدَةَ بْنِ نَشِيطٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي خَالِدٍ الْوَالِبِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: يَا ابْنَ آدَمَ تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِي أَمْلَأْ صَدْرَكَ غِنًى وَأَسُدَّ فَقْرَكَ، وَإِلَّا تَفْعَلْ مَلَأْتُ يَدَيْكَ شُغْلًا وَلَمْ أَسُدَّ فَقْرَكَ ، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو خَالِدٍ الْوَالِبِيُّ اسْمُهُ: هُرْمُزُ.
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ابن آدم! تو میری عبادت کے لیے فارغ تو ہو، میں تیرا سینہ بےنیازی سے بھر دوں گا، اور تیری محتاجی دور کردوں گا، اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرے ہاتھ کام کاج سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی (کبھی) ختم نہیں کروں گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
آج ہم اگر غور کریں تو ہم لوگ ہمہ وقت دنیا کمانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور ہمارے پاس اتنی فرصت بھی نہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے ہی وقت نکال سکیں۔ ہمارے ہاتھ واقعتاً کام کاج سے بھر دیے گئے ہیں لیکن پھر بھی بے سکونی اور بے اطمینانی کی زندگی گزارتے ہیں اور ہماری خواہشات ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتیں۔ ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ ہے، جس میں انسان شب و روز بھاگتا جا رہا ہے، نہ دن میں چین ہے نہ رات میں سکون۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمیں عبادت کے لیے وقت نہ نکالنے کی سزا مل رہی ہے؟ جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں ذکر آیا ہے۔
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2339
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَهْرَمُ ابْنُ آدَمَ وَيَشِبُّ مِنْهُ اثْنَتَانِ: الْحِرْصُ عَلَى الْعُمُرِ، وَالْحِرْصُ عَلَى الْمَالِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آدمی بوڑھا ہوجاتا ہے البتہ اس کے اندر دو چیزیں جوان رہتی ہیں ایک (لمبی) زندگی کی خواہش، دوسرے مال کی حرص ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
زیادہ سے زیادہ مال و دولتِ دنیا کمانے کی حرص و ہوس ہی وہ بنیادی وجہ ہے جو اکثر ہمیں اپنے مالکِ حقیقی کی یاد سے ہی غافل کر دیتی ہے اور نتیجتاً ہمیں دنیا اس طرح جکڑ لیتی ہے کہ پھر ہمیں اپنا بھی ہوش نہیں رہتا۔
القرآن – سورۃ نمبر 59 الحشر، آیت نمبر 19
وَلَا تَكُوۡنُوۡا كَالَّذِيۡنَ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنۡسٰٮهُمۡ اَنۡفُسَهُمۡؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ۞
اور اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اللہ کو بھلا بیٹھے پھر اللہ نے اُن کی جانوں کو ہی اُن سے بھلا دیا، وہی لوگ نافرمان ہیں،
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنا حقیقی مقصدِ حیات پہچاننے اور اسے حاصل کرنے کے لیے ہر لمحہ فکرمند رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین