حقیقتِ دنیا – جمعۃ المبارک، 14 جمادی الاول 1444ھ، بمطابق 9 دسمبر 2022ء

انسان کا واحد اور حقیقی مقصد اللہ رب العزت کی رضا حاصل کرنا ہے۔ اس مقصدِ حقیقی کو پانے کے لیے ضروری ہے کہ ہر طالبِ حق اپنے دل کو دنیا کی محبت سے پاک کرلے۔ دل کو دنیا کی محبت سے پاک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دنیا کی حقیقت کو سمجھا جائے تاکہ اس کے حملوں سے بچنے کے لیے مناسب تدابیر اختیار کی جا سکیں۔ دنیا کی حقیقت کے حوالے سے مندرجہ ذیل نقاط قابلِ غور ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف، آیت نمبر 35
وَاِنۡ كُلُّ ذٰ لِكَ لَمَّا مَتَاعُ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا‌ ؕ وَالۡاٰخِرَةُ عِنۡدَ رَبِّكَ لِلۡمُتَّقِيۡنَ  ۞
اور یہ سب دنیا کی زندگی کا تھوڑا سا سامان ہے۔ اور آخرت تمہارے پروردگار کے ہاں پرہیزگاروں کے لئے ہے۔

انسان کا واحد اور حقیقی مقصد اللہ رب العزت کی رضا حاصل کرنا ہے۔ اس مقصدِ حقیقی کو پانے کے لیے ضروری ہے کہ ہر طالبِ حق اپنے دل کو دنیا کی محبت سے پاک کرلے۔ دل کو دنیا کی محبت سے پاک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دنیا کی حقیقت کو سمجھا جائے تاکہ اس کے حملوں سے بچنے کے لیے مناسب تدابیر اختیار کی جا سکیں۔ دنیا کی حقیقت کے حوالے سے مندرجہ ذیل نقاط قابلِ غور ہیں۔

1) دنیا ملعون ہے:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2322
أَلَا إِنَّ الدُّنْيَا مَلْعُونَةٌ، ‏‏‏‏‏‏مَلْعُونٌ مَا فِيهَا إِلَّا ذِكْرُ اللَّهِ وَمَا وَالَاهُ وَعَالِمٌ أَوْ مُتَعَلِّمٌ ، ‏‏‏‏‏‏
قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: بیشک دنیا ملعون ہے اور جو کچھ دنیا میں ہے وہ بھی ملعون ہے، سوائے اللہ کی یاد اور اس چیز کے جس کو اللہ پسند کرتا ہے، یا عالم (علم والے) اور متعلم (علم سیکھنے والے) کے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

یہاں حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چار چیزوں کا ذکر فرمایا ہے
1) اللہ کا ذکر اور اس کی یاد
2) ہر وہ چیز جس کو اللہ پسند فرماتا۔ یعنی ہر وہ شخص، ہر وہ عمل، ہر وہ بات جو اللہ کو پسند ہے
3) عالم یعنی علم سکھانے والے
4) متعلم یعنی علم سیکھنے والے

اور فرمایا کہ ان چار چیزوں کے علاوہ دنیا کی ہر شے ملعون ہے۔

2) دنیا ایک مسافر خانہ ہے:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2333
كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعُدَّ نَفْسَكَ فِي أَهْلِ الْقُبُورِ ، ‏‏‏‏‏‏
فَقَالَ لِي ابْنُ عُمَرَ:‏‏‏‏ إِذَا أَصْبَحْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَكَ بِالْمَسَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا أَمْسَيْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَكَ بِالصَّبَاحِ، ‏‏‏‏‏‏وَخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ قَبْلَ سَقَمِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَمِنْ حَيَاتِكَ قَبْلَ مَوْتِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي يَا عَبْدَ اللَّهِ مَا اسْمُكَ غَدًا، ‏‏‏‏‏‏
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے بدن کے بعض حصے کو پکڑ کر فرمایا: تم دنیا میں ایسے رہو گویا تم ایک مسافر یا راہ گیر ہو، اور اپنا شمار قبر والوں میں کرو ۔
مجاہد کہتے ہیں: ابن عمر ؓ نے مجھ سے کہا: جب تم صبح کرو تو شام کا یقین مت رکھو اور جب شام کرو تو صبح کا یقین نہ رکھو، اور بیماری سے قبل صحت و تندرستی کی حالت میں اور موت سے قبل زندگی کی حالت میں کچھ کرلو اس لیے کہ اللہ کے بندے! تمہیں نہیں معلوم کہ کل تمہارا نام کیا ہوگا۔

یہاں فرمایا کہ دنیا میں مسافر یا راہ گیر کی طرح رہو۔ اب مسافر، سفر کے دوران صرف ضرورت کے مطابق سامان اپنے ساتھ رکھتا تاکہ اس کا دھیان فقط اپنی منزل پر رہے نہ کی وہ سارا وقت سامان کی فکر میں ہی لگا رہے۔ اسی طرح انسان کو بھی چاہیے کہ وہ دنیوی خواہشات فقط ضرورت کی حد تک حاصل کرے اور استعمال کرے کیونکہ اگر وہ ہر وقت انہی خواہشات کے حصول کے لیے زندگی گزارے گا تو وہ ہمیشہ بے سکون و بے اطمینان رہے اور اپنے حقیقی مقصدِ حیات سے غافل رہے گا۔ انسان کو اپنی اصل توجہ اپنے حقیقی مقصدِ حیات کے حصول پر رکھنی چاہیے یعنی اس کی ہمہ وقت کوشش یہ ہو کہ وہ کونسے ایسے اعمال کرے کہ اس کا خالق و مالک اس سے راضی ہو جائے۔

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگوں میں سب سے زیادہ عقل مند وہ ہے جو دنیا (کی محبت) کو سب سے زیادہ چھوڑنے والا ہو۔
(اخرجہ الخوارزمی فی جامع المسانید للامام ابی حنیفہ رحمہ اللہ علیہ، 1/199)

عقل کا تقاضا تو یہی ہے کہ اپنی ساری صلاحیتیں اور کوششیں اپنے رب کو راضی کرنے میں لگائی جائیں۔ اور وہ تبھی ممکن ہے اگر انسان اس دنیوی سفر میں اپنی ضروریات اور خواہشات کو محدود رکھے۔ کیونکہ جس طرح مسافر کو زیادہ سامان سفر کے دوران پریشان رکھتا ہے اور ہر وقت اسی کے دھیان میں لگا رہتا ہے بعینہ اگر انسان اس دنیا کی خواہشات یعنی مال و دولت، بینک بیلنس، جائیدادوں، کاروبار وغیرہ بنانے اور انہی کی فراوانی میں لگا رہے گا تو یقیناً وہ اسی مسافر کی طرح بے سکون و بے اطمینان بھی رہے گا اور اپنے اصل مقصدِ حیات کے حصول میں بھی ناکام رہے گا۔

3) دنیا مومن کے لیے قید ہے:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2324
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دنیا مومن کے لیے قید خانہ (جیل) ہے اور کافر کے لیے جنت (باغ و بہار) ہے۔

جیل میں جو شخص قید ہوتا ہے اس کی اپنی مرضی نہیں چلتی، وہ جیل کے محافظ و نگہبان کی مرضی کے مطابق زندگی گزارتا ہے۔ اسی کی مرضی سے اٹھتا ہے، بیٹھتا ہے، کھاتا ہے، پیتا ہے، سوتا ہے، جاگتا ہے الغرض سارے معاملات اسی کی مرضی کے تابع ہوتے ہیں۔ اسی طرح بندۂِ مومن کے لیے بھی یہ دنیا قید کی طرح ہے یہاں پر اس نے ہر لمحہ اپنے رب کی مرضی کے مطابق گزارنا ہے۔ اپنی مرضی یا اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گزارنے کا اختیار اس دنیا میں کافر کو دیا گیا ہے کیونکہ یہ دنیا اس کے لیے جنت ہے۔ اور کافر کے لیے آخرت میں کوئی راحت نہیں ہے۔ ہماری خواہش یہ ہے کہ ہم ایمان کی دولت سے بھی سرفراز رہیں اور ہمارے لیے یہ دنیا بھی جنت کی طرح ہو، ہمارے پاس ہر قسم کی آسائش اور راحت موجود ہو، ہر نعمت میسر ہو، کوئی دکھ، تکلیف اور پریشانی نہ ہو۔ ہم اس دنیا کو جنت بنانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ جنت مرنے کے بعد ملنی ہے اور تب ملے گی اگر اس دنیا میں قیدی کی طرح زندگی گزاری۔ کونسی قید؟ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و اطاعت کی قید، دین کی متعین کردہ حدود کی پاسداری کی قید، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بجاآوری کی قید۔

4) دنیا کی محبت بے سکونی اور بے اطمینانی کی وجہ ہے:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “اَلزُّھْدُ فِی الدُّنْیَا یُرِیْحُ الْقَلْبَ وَالْجَسَدَ” دنیا سے بے رغبتی دل اور جسم (دونوں) کو سکون بخشتی ہے۔
اور امام قضاعی نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما سے روایت کرتے ہوئے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے: “وَالرَّغْبَۃُ فِی الدُّنْیَا تُکْثِرُ الْھَمَّ وَالْحُزْنَ وَالْبِطَالَۃُ تُقْسِی الْقَلْبَ” دنیا سے محبت غم و حزن میں اضافہ کرتی ہے اور فحش کلامی دل کو سخت کر دیتی ہے۔
الطبرانی، معجم الاوسط، حدیث نمبر 6120
القضاعی، مسند الشھاب، حدیث نمبر 278

دنیا سے بے رغبتی یہ ہے کہ انسان دنیا کی محبت کو دل سے نکال دے۔ دنیا کو فقط ضرورت کے تحت استعمال کرے۔ انسان اگر کوئی عمل کرے تو لوگوں کو خوش کرنے کے لیے نہیں بلکہ اللہ کو خوش کرنے کے لیے کرے۔ لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے بجائے، اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرنا، یہی دنیا سے بے رغبتی ہے اور اسی سے انسان کو سکون ملتا ہے۔ جتنا انسان دنیا کو خوش کرنے اور لوگوں کو خوش کرنے کی فکر میں رہتا ہے اتنا ہی وہ بے سکون رہتا ہے۔ اگر لوگوں کو خوش کرنا ہے تب بھی نیت اور ارادہ یہ ہو کہ اس سے اللہ رب العزت کی رضا حاصل ہوگی۔

5) دنیا کی محبت اور رزق کے معاملات:

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (دنیا سے) کٹ کر صرف اللہ عزوجل کی (راہ کی) طرف ہو جائے اللہ تعالیٰ اس کی ہر ضرورت پوری کرتا ہے اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے وہم و گمان بھی نہ ہو اور جو شخص (اللہ تعالیٰ سے) کٹ کر دنیا کی طرف ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اسی (دنیا) کے سپرد کر دیتا ہے۔
الطبرانی، المعجم الاوسط، حدیث نمبر 3359
البیہقی، شعب الایمان، حدیث نمبر 1076

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2344
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَوْ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَوَكَّلُونَ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ، ‏‏‏‏‏‏لَرُزِقْتُمْ كَمَا تُرْزَقُ الطَّيْرُ تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا ،
عمر بن خطاب ؓ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا: اگر تم لوگ اللہ پر توکل (بھروسہ) کرو جیسا کہ اس پر توکل (بھروسہ) کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق ملے گا جیسا کہ پرندوں کو ملتا ہے کہ صبح کو وہ بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ واپس آتے ہیں۔

6) دنیا سے بے رغبتی اور حکمت و دانائی:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 4101
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِذَا رَأَيْتُمُ الرَّجُلَ قَدْ أُعْطِيَ زُهْدًا فِي الدُّنْيَا،‏‏‏‏ وَقِلَّةَ مَنْطِقٍ،‏‏‏‏ فَاقْتَرِبُوا مِنْهُ فَإِنَّهُ يُلْقِي الْحِكْمَةَ.
ابوخلاد ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جو دنیا کی طرف سے بےرغبت ہے، اور کم گو بھی تو اس سے قربت اختیار کرو، کیونکہ وہ حکمت و دانائی کی بات بتائے گا۔

سنن ترمذی، حدیث نمبر 2320
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَوْ كَانَتِ الدُّنْيَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللَّهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ مَا سَقَى كَافِرًا مِنْهَا شَرْبَةَ مَاءٍ۔
حضرت سہل بن سعد روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی وقعت اگر ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کسی کافر کو اس میں سے ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا”۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2328
عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا تَتَّخِذُوا الضَّيْعَةَ فَتَرْغَبُوا فِي الدُّنْيَا۔
جائیداد کو مت بناؤ کہ اس کی وجہ سے تمہیں دنیا کی رغبت ہوجائے گی ۔

مندرجہ بالا احادیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس دنیا کی حقیقت کو واضح کیا ہے۔ کہیں فرمایا کہ یہ دنیا ملعون ہے، کہیں فرمایا یہ دنیا ایک مسافر خانہ ہے اور کہیں فرمایا کہ یہ دنیا بندۂِ مومن کے لیے قید خانہ ہے۔ انسان کی کامیابی یہ ہے کہ وہ اس دنیا میں رہے، اور اس دنیا کو اپنی ضروریات کی حد تک استعمال کرے، لیکن اس دنیا کی محبت سے اپنے دل کو پاک رکھے۔ تاکہ اس کے دل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا بیج پروان چڑھ سکے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقتِ دنیا کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ہمارے دلوں کو اس دنیا کی محبت سے پاک کردے۔ آمین

Leave a Reply