فضیلت و اہمیتِ علم – جمعۃ المبارک، 25 رجب 1444ھ، بمطابق 17 فروری 2023ء

علم کے معنی ہیں جاننا۔ جاننے والے کو عالم (جمع علماء) کہتے ہیں اور جس طریقۂِ کار کے ذریعے انسان کو علم حاصل کرنے کے قابل بنایا جاتا ہے اسے تعلیم کہتے ہیں۔ علم کی اہمیت اور فضیلت کے حوالے سے آج ہم مندرجہ ذیل دو پہلوؤں پر گفتگو کریں گے۔

ابتدا ہے رب کریم کے نام سے جو آنکھوں کی خیانت کو بھی جاننے والا ہے اور جو سینوں میں چھپی ہوئی باتوں کو بھی جاننے والا ہے۔

علم کے معنی ہیں جاننا۔ جاننے والے کو عالم (جمع علماء) کہتے ہیں اور جس طریقۂِ کار کے ذریعے انسان کو علم حاصل کرنے کے قابل بنایا جاتا ہے اسے تعلیم کہتے ہیں۔ علم کی اہمیت اور فضیلت کے حوالے سے آج ہم مندرجہ ذیل دو پہلوؤں پر گفتگو کریں گے۔

علم سیکھنا، پہلا حکمِ قرآن ہے

القرآن – سورۃ نمبر 96 العلق، آیت نمبر 5-1
اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّكَ الَّذِىۡ خَلَقَ‌ۚ ۞ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ عَلَقٍ‌ۚ‏ ۞ اِقۡرَاۡ وَرَبُّكَ الۡاَكۡرَمُۙ ۞ الَّذِىۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِۙ ۞ عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ يَعۡلَمۡؕ ۞
(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا، اس نے انسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلّق وجود سے پیدا کیا، پڑھیئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا، جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔

اللہ رب العزت نے اپنے کلام، قرآنِ مجید کی ابتدا علم کے موضوع سے کی۔ علم حاصل کرنے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کے اندر پہلا حکم جو اپنے حبیبِ مکرم ﷺ کو دیا اور ان کے ذریعے ہم انسانوں کو دیا ہے وہ علم سیکھنے کے متعلق ہے، فرمایا اِقْرَأ (پڑھ)۔ یعنی اے انسان اگر تو اپنی پیدائش کے مقصد کو پہچاننا چاہتا ہے، اپنے خالقِ حقیقی کی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہے اور اگر تو اس دنیا اور آخرت کی زندگی میں کامیاب ہونا چاہتا ہے تو پڑھ، تاکہ تجھے علم حاصل ہو سکے کہ تیری تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ تجھے اس دنیا میں کیوں بھیجا گیا ہے؟ تیرا پیدا کرنے والا کون ہے؟ اور کونسے کام ہیں جن کے کرنے سے تجھے حقیقی کامیابی ملے گی۔

لکھنا نہیں آتا تو مری جان پڑھا کر
ہو جائے گی مشکل تری آسان پڑھا کر
لا ریب تری روح کو تسکین ملے گی
تو کرب کے لمحات میں قرآن پڑھا کر
پڑھنے کے لیے تجھ کو اگر کچھ نہ ملے تو
چہروں پہ لکھے درد کے عنوان پڑھا کر
اللہ نے کیا کیا تجھے نعمت نہیں بخشی
فرصت جو ملے سورۂِ رحمان پڑھا کر
بے علم کوئی قوم ترقی نہیں کرتی
اس قوم میں ہے علم کا فقدان، پڑھا کر
آجائے گا آصف تجھے جینے کا قرینہ
تو سرورِ کونین کے فرمان پڑھا کر
(ڈاکٹر آصف راز پراچہ)

علم کی وجہ سے ہی انسان کو خلافتِ الٰہیہ کا منصب ملا ہے۔

اللہ رب العزت نے جب انسان کو زمین میں اپنا نائب (خلیفہ) مقرر کرنے کا ارادہ فرمایا تو اپنے اس ارادے کو ملائکہ کے سامنے پیش کیا۔ ملائکہ نے عرض کی یا باری تعالیٰ یہ انسان تو زمین میں فساد انگیزی اور خونریزی کرے گا۔ فرشتوں کے اس اعتراض کے جواب میں اللہ رب العزت نے انسان کی جس خوبی یا صفت کا تذکرہ کیا ہے وہ “علم” ہے۔ فرمایا:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 31
وَعَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمۡ عَلَى الۡمَلٰٓئِكَةِ فَقَالَ اَنۡۢبِـئُوۡنِىۡ بِاَسۡمَآءِ هٰٓؤُلَآءِ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ‏ ۞
اور اللہ نے آدم ؑ کو تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیئے پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا، اور فرمایا: مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو اگر تم (اپنے خیال میں) سچے ہو،

تو گویا اللہ رب العزت نے اپنے نامزد کردہ خلیفہ یعنی انسان کا تعارف کروانے کے لیے اس کو عطا کردہ صفتِ علم کا تذکرہ کیا۔ اللہ کی ذات تو بڑی بے نیاز ہے، وہ چاہتا تو انسان کی کسی اور صفت کو بھی انسان کے تعارف کے طور پر بیان کر سکتا تھا مگر اس نے خلافت کا اہل ہونے کے لیے جس صفت کا انتخاب کیا ہے وہ “علم” ہے۔ اشارہ اس طرف تھا کہ اس زمین میں جو میرا نائب اور خلیفہ ہوگا وہ اہلِ علم ہوگا اور علم ہی وہ صفت ہے جس سے اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کا نظامِ خلافت نافذ ہو سکتا ہے۔ تو اگر تم حقیقتاً اللہ کے نائب اور خلیفہ بننا چاہتے ہو تو پھر علم اور صاحبانِ علم کے ساتھ جڑ جاؤ۔ علم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لو۔ علم حاصل کرو اور اسے دوسروں تک پہنچاؤ کیونکہ یہی وہ راز ہے جس کے ذریعے انسان دنیا اور آخرت کی کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔

قرآن کے نزدیک، علم والے ہی حکومت و سرداری کے اہل ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 247
وَقَالَ لَهُمۡ نَبِيُّهُمۡ اِنَّ اللّٰهَ قَدۡ بَعَثَ لَـکُمۡ طَالُوۡتَ مَلِكًا ‌ؕ قَالُوۡٓا اَنّٰى يَكُوۡنُ لَهُ الۡمُلۡكُ عَلَيۡنَا وَنَحۡنُ اَحَقُّ بِالۡمُلۡكِ مِنۡهُ وَلَمۡ يُؤۡتَ سَعَةً مِّنَ الۡمَالِ‌ؕ قَالَ اِنَّ اللّٰهَ اصۡطَفٰٮهُ عَلَيۡکُمۡ وَزَادَهٗ بَسۡطَةً فِى الۡعِلۡمِ وَ الۡجِسۡمِ‌ؕ وَاللّٰهُ يُؤۡتِىۡ مُلۡکَهٗ مَنۡ يَّشَآءُ ‌ؕ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيۡمٌ ۞
اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا: بیشک اﷲ نے تمہارے لئے طالوت کو بادشاہ مقرّر فرمایا ہے، تو کہنے لگے کہ اسے ہم پر حکمرانی کیسے مل گئی حالانکہ ہم اس سے حکومت (کرنے) کے زیادہ حق دار ہیں اسے تو دولت کی فراوانی بھی نہیں دی گئی، (نبی نے) فرمایا: بیشک اﷲ نے اسے تم پر منتخب کر لیا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ کشادگی عطا فرما دی ہے، اور اﷲ اپنی سلطنت (کی امانت) جسے چاہتا ہے عطا فرما دیتا ہے، اور اﷲ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہے،

علم باعثِ بلندئِ درجات ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 58 المجادلة, آیت نمبر 11
وَالَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ ‌ؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ ۞
اللہ اُن لوگوں کے درجات بلند فرما دے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم سے نوازا گیا، اور اللہ اُن کاموں سے جو تم کرتے ہو خوب آگاہ ہے،

صحیح علم کے بغیر عمل کرنے پر بازپرس ہوگی:

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 36
وَلَا تَقۡفُ مَا لَـيۡسَ لَـكَ بِهٖ عِلۡمٌ‌ ؕ اِنَّ السَّمۡعَ وَالۡبَصَرَ وَالۡفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۤئِكَ كَانَ عَنۡهُ مَسۡئُوۡلًا ۞
اور (اے انسان!) تو اس بات کی پیروی نہ کر جس کا تجھے (صحیح) علم نہیں، بیشک کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے باز پرس ہوگی،

القرآن – سورۃ نمبر 10 يونس، آیت نمبر 89
وَلَا تَتَّبِعٰٓنِّ سَبِيۡلَ الَّذِيۡنَ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ۞
اور ایسے لوگوں کے راستہ کی پیروی نہ کرنا جو علم نہیں رکھتے،

ہدایت اور خشیت علم ہی سے ملتی ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 107
قُلۡ اٰمِنُوۡا بِهٖۤ اَوۡ لَا تُؤۡمِنُوۡٓا‌ ؕ اِنَّ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ مِنۡ قَبۡلِهٖۤ اِذَا يُتۡلٰى عَلَيۡهِمۡ يَخِرُّوۡنَ لِلۡاَذۡقَانِ سُجَّدًا ۙ ۞
فرما دیجئے: تم اس پر ایمان لاؤ یا ایمان نہ لاؤ، بیشک جن لوگوں کو اس سے قبل علمِ (کتاب) عطا کیا گیا تھا جب یہ (قرآن) انہیں پڑھ کر سنایا جاتا ہے وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں،

اِنَّمَا یَخۡشَی اللّٰہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمٰٓؤُا۔
بس اللہ کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔
(القرآن، 35، 28)

علم سیکھنے اور سکھانے کی فضیلت۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 243
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ أَفْضَلُ الصَّدَقَةِ أَنْ يَتَعَلَّمَ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ عِلْمًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُعَلِّمَهُ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ.
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سب سے بہتر اور افضل صدقہ یہ ہے کہ کوئی مسلمان علم سیکھے، پھر اسے اپنے مسلمان بھائی کو سکھائے ۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 203
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةِ أَشْيَاءَ: صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أوعلم ينْتَفع بِهِ أوولد صَالح يَدْعُو لَهُ۔
جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو تین کاموں کے سوا اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے۔ 1) صدقہ جاریہ، 2) وہ علم جس سے استفادہ کیا جائے اور 3) نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 279
ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا:
تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ وَعَلِّمُوهُ النَّاسَ تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ وَعَلِّمُوهَا النَّاسَ تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ وَعَلِّمُوهُ النَّاسَ فَإِنِّي امْرُؤٌ مَقْبُوضٌ وَالْعِلْمُ سَيُقْبَضُ وَتَظْهَرُ الْفِتَنُ حَتَّى يَخْتَلِفَ اثْنَانِ فِي فَرِيضَةٍ لَا يَجِدَانِ أَحَدًا يَفْصِلُ بَيْنَهُمَا»
’علم سیکھو اور اسے دوسروں کو سکھاؤ، فرائض (علم میراث) سیکھو اور اسے لوگوں کو سکھاؤ، قرآن سیکھو اور اسے لوگوں کو سکھاو، کیونکہ میری روح قبض کر لی جائے گی، اور (میرے بعد) علم بھی اٹھا لیا جائے گا، فتنے ظاہر ہو جائیں گے، حتیٰ کہ دو آدمی کسی فریضہ میں اختلاف کریں گے لیکن وہ اپنے درمیان فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں پائیں گے۔‘‘

علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے:

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 218
انس ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ وَوَاضِعُ الْعِلْمِ عِنْدَ غير أَهله كمقلد الْخَنَازِير الْجَوْهَر واللؤلؤ وَالذَّهَبَ» .
طلب علم ہر مسلمان پر فرض ہے، کسی ایسے شخص کو پڑھانے والا جو اس کی اہلیت نہ رکھتا ہو، خنزیروں کے گلے میں ہیرے جواہرات اور سونے کے ہار ڈالنے والے کی طرح ہے۔

علم کی بات چھپانے پر وعید:

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 223
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَهُ ثُمَّ كَتَمَهُ أُلْجِمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ۔
’جس شخص سے علم کی کوئی بات پوچھی جائے، جسے وہ جانتا ہو، پھر وہ اسے چھپائے تو روز قیامت اسے آگ کی لگام ڈالی جائے گی۔

علمِ قرآن کا حامل شخص قیامت کے دن شفاعت کرے گا۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2905
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَاسْتَظْهَرَهُ فَأَحَلَّ حَلَالَهُ وَحَرَّمَ حَرَامَهُ أَدْخَلَهُ اللَّهُ بِهِ الْجَنَّةَ، ‏‏‏‏‏‏وَشَفَّعَهُ فِي عَشْرَةٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ كُلُّهُمْ قَدْ وَجَبَتْ لَهُ النَّارُ۔
علی بن ابی طالب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے قرآن پڑھا اور اسے پوری طرح حفظ کرلیا، جس چیز کو قرآن نے حلال ٹھہرایا اسے حلال جانا اور جس چیز کو قرآن نے حرام ٹھہرایا اسے حرام سمجھا تو اللہ اسے اس قرآن کے ذریعہ جنت میں داخل فرمائے گا۔ اور اس کے خاندان کے دس ایسے لوگوں کے بارے میں اس (قرآن) کی سفارش قبول کرے گا جن پر جہنم واجب ہوچکی ہو گی۔

قرآن سیکھنے اور سکھانے والوں کو اللہ کی رحمت ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ ان کا ذکر ملائکہ کی مجلس میں فرماتا ہے۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6853
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ سَلَکَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَی الْجَنَّةِ وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ يَتْلُونَ کِتَابَ اللَّهِ وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمْ السَّکِينَةُ وَغَشِيَتْهُمْ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمْ الْمَلَائِکَةُ وَذَکَرَهُمْ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص ایسے راستے پر چلا جس میں علم کی تلاش کرتا ہو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان فرما دیتے ہیں اور جو لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے اور اس کی تعلیم میں مصروف ہوتے ہیں ان پر سکینہ نازل ہوتی ہے اور رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ ان کا ذکر اپنے پاس موجود فرشتوں میں کرتے ہیں۔

علم کی اقسام:

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 271
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: «حَفِظْتُ مِنْ رسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وِعَاءَيْنِ فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهُ فِيكُمْ وَأَمَّا الْآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهُ قُطِعَ هَذَا الْبُلْعُومُ يَعْنِي مجْرى الطَّعَام»
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ سے (علم کے) دو ظروف یاد کیے، ان میں سے ایک میں نے تمہارے درمیان نشر کر دیا، رہی دوسری قسم تو اگر میں اسے نشر کردوں تو میرا گلا کاٹ دیا جائے۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 238
ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أُنْزِلَ الْقُرْآنُ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ لِكُلِّ آيَةٍ مِنْهَا ظَهْرٌ وَبَطْنٌ وَلِكُلِّ حَدٍّ مَطْلَعٌ۔
قرآن سات قراءتوں میں نازل کیا گیا، اس میں سے ہر آیت کا ظاہر اور باطن ہے، اور ہر سطح کا مفہوم سمجھنے کے لیے مناسب استعداد کی ضرورت ہے۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 239
الْعِلْمُ ثَلَاثَةٌ: آيَةٌ مُحْكَمَةٌ أَوْ سُنَّةٌ قَائِمَةٌ أَوْ فَرِيضَةٌ عَادِلَةٌ وَمَا كَانَ سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ فضل۔
علم تین ہیں: آیت محکمہ یا سنت ثابتہ یا فریضہ عادلہ (ہر وہ فرض جس کی فرضیت پر مسلمانوں کا اجماع ہے) اور جو اس کے سوا ہو وہ افضل ہے۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 270
وَعَن الْحسن قَالَ: «الْعِلْمُ عِلْمَانِ فَعِلْمٌ فِي الْقَلْبِ فَذَاكَ الْعلم النافع وَعلم على اللِّسَان فَذَاك حُجَّةُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى ابْنِ آدَمَ»
حسن بصری ؒ بیان کرتے ہیں: علم کی دو اقسام ہیں، ایک علم دل میں ہے، وہ علم نفع مند ہے، اور ایک علم زبان پر ہے، وہ اللہ عزوجل کی ابن آدم کے خلاف حجت ہو گی۔

علمِ دین کی تجدید و احیاء:

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 247
وَعَنْهُ فِيمَا أَعْلَمُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةٍ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا» .
راوی حدیث ابوعلقمہ بیان کرتے ہیں کہ میری معلومات کے مطابق ابوہریرہ ؓ اسے رسول اللہ ﷺ سے مرفوع روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ اللہ عزوجل اس امت کے لیے ہر سو سال کے آخر پر کسی ایسے شخص کو بھیجے گا جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا۔‘‘

علم والا سب سے بڑا سخی ہے:

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 259
هَلْ تَدْرُونَ مَنْ أَجْوَدُ جُودًا؟» قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: «اللَّهُ تَعَالَى أَجْوَدُ جُودًا ثُمَّ أَنَا أَجْوَدُ بَنِي آدَمَ وَأَجْوَدُهُمْ مِنْ بَعْدِي رَجُلٌ عَلِمَ عِلْمًا فَنَشَرَهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَمِيرًا وَحده أَو قَالَ أمة وَحده۔
کیا تم جانتے ہو سب سے بڑا سخی کون ہے؟‘‘ صحابہ نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ سب سے بڑا سخی ہے، پھر اولاد آدم میں سب سے بڑا سخی میں ہوں، اور میرے بعد وہ شخص سخی ہے جس نے علم حاصل کیا اور اسے نشر کیا، روز قیامت وہ اس حیثیت سے آئے گا کہ وہ اکیلا ہی امیر ہو گا۔‘‘ یا فرمایا:’’ اکیلا ہی ایک امت ہو گا۔‘‘

اہلِ علم کون ہیں:

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 266
سفیان الثوری ؒ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب ؓ نے کعب ؓ سے پوچھا:
مَنْ أَرْبَابُ الْعِلْمِ؟ قَالَ: الَّذِي يَعْمَلُونَ بِمَا يَعْلَمُونَ. قَالَ: فَمَا أَخْرَجَ الْعِلْمَ مِنْ قُلُوبِ الْعُلَمَاءِ؟ قَالَ الطَّمَعُ.
اہل علم کون ہیں؟ انہوں نے کہا: جو اپنے علم کے مطابق عمل کرتے ہیں، پھر پوچھا: کون سی چیز علما کے دلوں سے علم نکال دیتی ہے؟ انہوں نے کہا: (دنیا کا) طمع۔

متفرق فضائلِ علم:

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 3641
حضرت ابوالدرداء نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے:
مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ الْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ وَالْحِيتَانُ فِي جَوْفِ الْمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ.
جو شخص طلب علم کے لیے راستہ طے کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اسے جنت کی راہ چلاتا ہے اور فرشتے طالب علم کی بخشش کی دعا کرتے ہیں یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں دعائیں کرتی ہیں، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہی ہے جیسے چودھویں رات کی تمام ستاروں پر، اور علماء انبیاء کے وارث ہیں، اور نبیوں نے اپنا وارث درہم و دینار کا نہیں بنایا بلکہ علم کا وارث بنایا تو جس نے علم حاصل کیا اس نے ایک وافر حصہ لیا ۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 213
وَعَن أبي أُمَامَة الْبَاهِلِيّ قَالَ: ذُكِرَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلَانِ أَحَدُهُمَا عَابِدٌ وَالْآخَرُ عَالِمٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ» ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ وَأَهْلَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ حَتَّى النَّمْلَةَ فِي جُحْرِهَا وَحَتَّى الْحُوتَ لَيُصَلُّونَ عَلَى معلم النَّاس الْخَيْر» .
ابوامامہ ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ سے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا، ان میں سے ایک عابد اور دوسرا عالم ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ عالم کی عابد پر اس طرح فضیلت ہے جس طرح میری فضیلت تمہارے ادنی آدمی پر ہے۔‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ بے شک اللہ، اس کے فرشتے، زمین و آسمان کی مخلوق حتیٰ کہ چیونٹی اپنے بل میں اور مچھلیاں، لوگوں کو خیر و بھلائی کی تعلیم دینے والے کے لیے دعائے خیر کرتی ہیں۔‘‘

علم سکھانے کی فضیلت:

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 3660
حضرت زید بن ثابت ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
‏‏نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَيْسَ بِفَقِيهٍ.
اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور اسے یاد رکھا یہاں تک کہ اسے دوسروں تک پہنچا دیا کیونکہ بہت سے حاملین فقہ ایسے ہیں جو فقہ کو اپنے سے زیادہ فقہ و بصیرت والے کو پہنچا دیتے ہیں، اور بہت سے فقہ کے حاملین خود فقیہ نہیں ہوتے ہیں ۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 198
عبداللہ عمرو ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً وَحَدِّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ۔
میری طرف سے پہنچا دو خواہ ایک آیت ہی ہو، بنی اسرائیل کے واقعات بیان کرو اس میں کوئی حرج نہیں، اور جو شخص عمداً مجھ پر جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 252
عکرمہ سے روایت ہے کہ ابن عباس ؓ نے فرمایا:
حَدِّثِ النَّاسَ كُلَّ جُمُعَةٍ مَرَّةً فَإِنْ أَبَيْتَ فَمَرَّتَيْنِ فَإِنْ أَكْثَرْتَ فَثَلَاثَ مَرَّاتٍ وَلَا تُمِلَّ النَّاسَ هَذَا الْقُرْآنَ وَلَا أُلْفِيَنَّكَ تَأْتِي الْقَوْمَ وَهُمْ فِي حَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِهِمْ فَتَقُصُّ عَلَيْهِمْ فَتَقْطَعُ عَلَيْهِمْ حَدِيثَهُمْ فَتُمِلَّهُمْ وَلَكِنْ أَنْصِتْ فَإِذَا أَمَرُوكَ فَحَدِّثْهُمْ وَهُمْ يَشْتَهُونَهُ وَانْظُرِ السَّجْعَ مِنَ الدُّعَاءِ فَاجْتَنِبْهُ فَإِنِّي عَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ لَا يَفْعَلُونَ ذَلِك۔
ہر جمعہ (سات دن) میں لوگوں سے ایک مرتبہ وعظ کرو، اگر تم (اس سے) انکار کرتے ہو تو پھر (ہفتہ میں) دو مرتبہ، اگر زیادہ کرتے ہو تو پھر تین مرتبہ، لوگوں کو اس قرآن سے اکتا نہ دو، میں تمہیں نہ پاؤں کہ تم لوگوں کے پاس آؤ اور وہ اپنی گفتگو میں مصروف ہوں اور تم ان کی بات کاٹ کر کے انہیں وعظ کرنا شروع کر دو، اس طرح تم انہیں اکتا دو گے، بلکہ تم (وہاں جا) کر خاموشی اختیار کرو، جب وہ تمہیں کہیں تو انہیں وعظ کرو، درآنحالیکہ وہ اس کی خواہش رکھتے ہوں اور مسجع و مقفع کلام میں دعا کرنے سے اجتناب کرو، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کو دیکھا کہ وہ ایسے نہیں کیا کرتے تھے۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 3661
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
‏‏‏‏‏وَاللَّهِ لَأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ بِهُدَاكَ رَجُلًا وَاحِدًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ.
قسم اللہ کی، اگر تیری رہنمائی سے اللہ تعالیٰ ایک آدمی کو بھی ہدایت دیدے تو یہ تیرے لیے سرخ اونٹ سے (جو بہت قیمتی اور عزیز ہوتے ہیں) بہتر ہے ۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 3664
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
‏‏‏‏مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا يُبْتَغَى بِهِ وَجْهُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَتَعَلَّمُهُ إِلَّا لِيُصِيبَ بِهِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْيَا لَمْ يَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏يَعْنِي رِيحَهَا.
جس شخص نے ایسا علم صرف دنیاوی مقصد کے لیے سیکھا جس سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی جاتی ہے تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا ۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 257
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِمَجْلِسَيْنِ فِي مَسْجِدِهِ فَقَالَ: «كِلَاهُمَا عَلَى خَيْرٍ وَأَحَدُهُمَا أَفْضَلُ مِنْ صَاحِبِهِ أَمَّا هَؤُلَاءِ فَيَدْعُونَ اللَّهَ وَيَرْغَبُونَ إِلَيْهِ فَإِنْ شَاءَ أَعْطَاهُمْ وَإِنْ شَاءَ مَنَعَهُمْ. وَأَمَّا هَؤُلَاءِ فَيَتَعَلَّمُونَ الْفِقْهَ أَوِ الْعِلْمَ وَيُعَلِّمُونَ الْجَاهِلَ فَهُمْ أَفْضَلُ وَإِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا» ثمَّ جلس فيهم.
عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد نبوی میں دو حلقوں کے پاس سے گزرے تو فرمایا:’’ دونوں خیرو بھلائی پر ہیں، لیکن ان میں ایک دوسرے سے افضل ہے، رہے وہ لوگ جو اللہ سے دعا کر رہے ہیں اور اس کے مشتاق ہیں، پس اگر وہ چاہے تو انہیں عطا فرمائے اور اگر چاہے تو عطا نہ فرمائے، اور رہے وہ لوگ جو فقہ یا علم سیکھ رہے ہیں اور جاہلوں کو تعلیم دے رہے ہیں، تو وہ بہتر ہیں، اور مجھے تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘ پھر آپ اس حلقے میں بیٹھ گئے۔

حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
نبوت کے بعد میرے نزدیک سب سے افضل درجہ دوسروں کو علم سکھانا ہے۔
(تہذیب الکمال)

غیر نافع علم سے پناہ:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3837
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْأَرْبَعِ:‏‏‏‏ مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ،‏‏‏‏ وَمِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ،‏‏‏‏ وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ،‏‏‏‏ وَمِنْ دُعَاءٍ لَا يُسْمَعُ.
اے اللہ! میں چار باتوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں: اس علم سے جو فائدہ نہ دے، اس دل سے جو اللہ کے سامنے نرم نہ ہو، اس نفس سے جو آسودہ نہ ہو اور اس دعا سے جو قبول نہ ہو ۔

فرمانِ سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم ہے:
“اپنے بچوں کو وہ تعلیم نہ دو جو تمہارے والدین نے تمہیں دی تھی، کیونکہ ان کا زمانہ تمہارے زمانے سے مختلف ہے”
(کتاب: فلسفہ معراج النبی – ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی)

علم کی اہمیت و فضیلت – مختصر خلاصہ

1) علم سیکھنا، پہلا حکمِ قرآن ہے
2) علم کی وجہ سے ہی انسان کو خلافتِ الٰہیہ کا منصب ملا ہے
3) قرآن کے نزدیک، علم والے ہی حکومت و سرداری کے اہل ہیں
4) علم باعثِ بلندئِ درجات ہے
5) صحیح علم کے بغیر عمل کرنے پر بازپرس ہوگی
6) علم سیکھنا اور سکھانا افضل ترین صدقہ ہے
7) علمِ قرآن کا حامل شخص قیامت کے دن شفاعت کرے گا
8) قرآن کا علم سیکھنے اور سکھانے والوں کو اللہ کی رحمت ڈھانپ لیتی ہے
9) اللہ رب العزت اہلِ علم کا ذکر ملائکہ کی مجلس میں فرماتے ہیں
10) طالبِ علم جنت کے راستے پر چلتا ہے
11) فرشتے اور مچھلیاں طالبِ علم کی بخشش کی دعا کرتی ہیں
12) علم عبادت سے افضل ہے
13) علماء انبیاء کے وارث ہیں

الغرض علم صفتِ عالم الغیب والموجودات ہے۔ علم باعثِ رفعِ حجابات ہے۔ علم آدمی کے لیے وجہِ شرف و فضیلت و عنایات ہے۔ علم باعثِ بلندیِٔ درجات ہے۔ علم تارکِ جہل و ظلمات ہے۔ علم، معرفتِ مقصدِ حیات ہے۔ علم مقصدِ بعثتِ انبیاء اور معرفتِ نظامِ کائنات ہے۔ علم معرفتِ خالق المخلوقات ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں علم سیکھنے اور سکھانے والوں میں شامل فرما لے اور اپنی اس نعمتِ علم سے ہمیں بھی کچھ خیرات عطاء فرمائے۔ آمین

Leave a Reply