لفظِ معجزہ کا لغوی معنیٰ:
لفظِ معجزہ کا مادۂِ اشتقاق: عَجِزَ، یَعْجَزُ، عَجْزًا ہے۔ جس کے معنیٰ: “کسی چیز پر قادِر نہ ہونا”، “کسی کام کی طاقت نہ رکھنا” یا “کسی امر سے عاجز آجانا” وغیرہ ہیں۔ محاورۂِ عرب میں کہتے ہیں: “عَجِزَ فُلَانٌ عَنِ الْعَمَلِ” یعنی “فلاں آدمی وہ کام کرنے سے عاجز آگیا”۔ أی کبر و صار لا یستطیعہ فھو عاجزٌ (المنجد:488)
امام راغب اصفہانی، المفردات میں فرماتے ہیں:
“والعجز أصلہ التّأخر عن الشئ، و حصولہ عند عجز الأمر، أی: مؤخرہ ۔۔۔۔ و صار فی التعارف اِسماً للقصور عن فعل الشئ، وھو ضد القدرۃ۔”
“عجز” کے اصلی معنی کسی چیز سے پیچھے رہ جانے یا اس کے ایسے وقت میں حاصل ہونے کے ہیں جبکہ اس کا وقت نکل چکا ہو۔۔۔۔ عام طور پر یہ لفظ کسی کام کے کرنے سے قاصر رہ جانے پر بولا جاتا ہے اور یہ “القدرۃ” کی ضد ہے۔
لفظِ معجزہ کا مفہوم:
“امر خارق العادۃ یعجز البشر عن ان یأتو بمثلہ”
معجزہ اس خارق العادت چیز کو کہتے ہیں جس کی مثل لانے سے فردِ بشر عاجز آجائے۔ (المنجد)
الشفاء میں قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“اِعلم ان معنیٰ تسمیتنا ما جاءت بہ الانبیاء معجزۃ ھو ان الخلق عجزوا عن الاتیان بمثلھا”
یہ بات بخوبی جان لینی چاہیے کہ جو کچھ انبیاء علیہم السلام اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں اسے ہم نے معجزے کا نام اس لیے دیا ہے کہ مخلوق اس کی مثل لانے سے عاجز ہوتی ہے۔ (الشفاء، 1: 349)
“المعجزۃ عبارۃٌ عن اظہار قدرہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ و حکمتہ علٰی ید نبی مرسل بین امتہ بحیث یعجز اھل عصرہ عن اِیراد مثلھا”
معجزہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کا اس کے برگزیدہ نبی کے دستِ مبارک پر اظہار ہے تاکہ وہ اپنی امت اور اہلِ زمانہ کو اس کی مثل لانے سے عاجز کر دے۔
(معارج النبوۃ، 4: 377)
ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی اپنی کتاب فلسفہ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں لکھتے ہیں:
“رسولانِ مکرم اور انبیائے محتشم کے دستِ حق پرست پر قدرتِ خداوندی سے رونما ہونے والے ماورائے عقل واقعات کو ‘معجزہ’ کہتے ہیں”۔ خارق العادت افعال کی وضاحت کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں:
وہ افعال جو معمول سے ہٹ کر بلکہ خلافِ معمول ہوتے ہیں اور ان کی کامل توجیہہ کسی طور پر بھی ممکن نہیں ہوتی۔ انہیں خارقِ عادت افعال کہا جاتا ہے۔ یہ خارقِ عادت افعال چار اقسام کے ہوتے ہیں:
1) معجزہ: انبیاء و رسل سے جب (اللہ تعالٰی کی عطا و توفیق سے) کوئی خارقِ عادت واقعہ صادر ہوتا ہے تو اسے معجزہ کہتے ہیں۔ جیسے حضور نبی مکرم ﷺ کو معجزہ معراج اور دیگر کئی معجزات عطاء کیے گئے۔
2) ارھاص: وہ خارقِ عادت واقعہ جو کسی نبی یا رسول کی ولادت کے وقت یا پیدائش مبارکہ سے پہلے ہوتا ہے، اسے ارھاص کہتے ہیں۔ مثلاً جس سال حضور سرورِ کائنات علیہ الصلاۃ والسلام کی ولادت باسعادت ہوئی، اس سال آمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے پورے شہرِ مکہ میں کسی کے ہاں لڑکی پیدا نہ ہوئی بلکہ ربِ کائنات نے سب کو بیٹے عطا فرمائے۔
3) کرامت: وہ خارقِ عادت افعال جو مومنین، صالحین اور اولیائے کرام کے ہاتھوں صادر ہوتے ہیں، انہیں کرامت کہتے ہیں۔ مثلاً سیدنا سلیمان علیہ السلام کے صحابی حضرت آصف برخیا کا پلک جھپکنے سے پہلے ملکۂ سبا کا تخت آپ کی خدمت میں پیش کر دینا۔
4) استدراج: وہ خارقِ عادت افعال جو کسی کافر، مشرک، فاسق، فاجر اور ساحر کے ہاتھ سے صادر ہوں، انہیں استدراج کہتے ہیں۔ مثلاً سامری جادوگر نے سونے کا بچھڑا بنا کر اس کے منہ سے آواز پیدا کرلی جس کے نتیجے میں بنی اسرائیل نے اس کی پرستش شروع کر دی۔
آپ مزید فرماتے ہیں:
“معجزہ کہتے ہی اس امر کو ہیں جو عقل کی جملہ صلاحیتوں کو عاجز کردے۔”
مندرجہ بالا وضاحت سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ معجزہ در حقیقت کہتے ہی اس فعل کو ہیں جس کو سمجھنے سے عقلِ انسانی قاصر ہو۔ اور جس کی مثال یا نظیر لانے سے مخلوق عاجز ہو۔ یہ خاص اللہ رب العزت کی توفیق اور عطا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں اور نبیوں کو معجزات عطاء کرتے ہیں تاکہ ان کی حقانیت ثابت ہوسکے۔
معجزہ اس عمل یا واقعہ کو کہتے ہیں جس میں تین خصوصیات پائی جاتی ہوں:
1) وہ واقعہ خارق العادت ہو یعنی خلافِ معمول ہو۔
2) اس کو سمجھنے سے عقلِ انسانی عاجز آجائے۔
3) اس کی نظیر یا مثل پیش کرنے سے انسان عاجز آجائے۔
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 7274
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ نَبِيٌّ إِلَّا أُعْطِيَ مِنَ الْآيَاتِ مَا مِثْلُهُ، أُومِنَ أَوْ آمَنَ عَلَيْهِ الْبَشَرُ، وَإِنَّمَا كَانَ الَّذِي أُوتِيتُ وَحْيًا أَوْحَاهُ اللَّهُ إِلَيَّ، فَأَرْجُو أَنِّي أَكْثَرُهُمْ تَابِعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا انبیاء میں سے کوئی نبی ایسا نہیں جن کو کچھ نشانیاں (یعنی معجزات) نہ دئیے گئے ہوں جن کے مطابق ان پر ایمان لایا گیا (آپ ﷺ نے فرمایا کہ) انسان ایمان لائے اور مجھے جو بڑا معجزہ دیا گیا وہ قرآن مجید ہے جو اللہ نے میری طرف بھیجا، پس میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن شمار میں تمام انبیاء سے زیادہ پیروی کرنے والے میرے ہوں گے۔
قرآن بذاتِ خود ایک معجزہ ہے:
جس دور میں حضور نبی مکرم ﷺ کا ظہور ہوا ہے اس دور میں فصاحت و بلاغت کے ساتھ کلام کرنے کا فن عروج پر تھا۔ اہلِ عرب کو اپنی زبان اور کلام پر اتنا ناز اور فخر تھا کہ اپنے آپ کو عرب (اہلِ زبان یعنی واضح اور فصیح کلام کرنے والے) کہتے تھے اور دوسری زبانیں بولنے والوں کو عجم (گونگا) کہتے تھے۔ اس دور میں قرآن اپنے اندر فصاحت و بلاغت لیے ہوئے حضور نبی مکرم ﷺ کی زبان پر جاری ہوا۔
اب جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا کہ معجزہ اس چیز کو کہتے ہیں جس کے اندر مزکورہ بالا تین خصوصیات پائی جاتی ہوں۔ تو اگر قرآنِ مجید پر غور کریں تو 1) خلافِ معمول بات یہ تھی کہ یہ کلام اس شخص کی زبان سے جاری ہو رہا ہے جو کسی مدرسے یا مکتب کا پڑھا ہوا نہیں ہے۔ اگر کوئی پڑھا لکھا انسان اس طرح کا کلام کرتا تو کوئی تعجب کی بات نہ ہوتی مگر یہ کلام کرنے والا انسان خود امی لقب سے مشہور ہے۔ 2) اُس دور کے لوگوں کی عقل اس بات کو سمجھنے سے عاجز آگئی کہ یہ کلام کوئی امی لقب شخص کیسے کر سکتا ہے؟ 3) قرآن میں اللہ رب العزت نے خود یہ کھلا چیلنج دے دیا کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ یہ کسی بشر کا کلام ہے تو آؤ اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا کر لے آؤ۔
القرآن – سورۃ نمبر 10 يونس، آیت نمبر 38
اَمۡ يَقُوۡلُوۡنَ افۡتَـرٰٮهُ ؕ قُلۡ فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَةٍ مِّثۡلِهٖ وَادۡعُوۡا مَنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ ۞
کیا وہ کہتے ہیں کہ اسے رسول ﷺ نے خود گھڑ لیا ہے، آپ فرما دیجئے: پھر تم اس کی مثل کوئی (ایک) سورت لے آؤ (اور اپنی مدد کے لئے) اللہ کے سوا جنہیں تم بلاسکتے ہو بلا لو اگر تم سچے ہو،
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 23
وَاِنۡ کُنۡتُمۡ فِىۡ رَيۡبٍ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلٰى عَبۡدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَةٍ مِّنۡ مِّثۡلِهٖ وَادۡعُوۡا شُهَدَآءَكُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ ۞
اور اگر تم اس (کلام) کے بارے میں شک میں مبتلا ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ، اور (اس کام کے لئے بیشک) اللہ کے سوا اپنے (سب) حمائتیوں کو بلا لو اگر تم (اپنے شک اور انکار میں) سچے ہو،
القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 88
قُلْ لَّئِنِ اجۡتَمَعَتِ الۡاِنۡسُ وَالۡجِنُّ عَلٰٓى اَنۡ يَّاۡتُوۡا بِمِثۡلِ هٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لَا يَاۡتُوۡنَ بِمِثۡلِهٖ وَلَوۡ كَانَ بَعۡضُهُمۡ لِبَعۡضٍ ظَهِيۡرًا ۞
فرما دیجئے: اگر تمام انسان اور جنّات اس بات پر جمع ہو جائیں کہ وہ اس قرآن کے مثل (کوئی دوسرا کلام بنا) لائیں گے تو (بھی) وہ اس کی مثل نہیں لاسکتے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں۔
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 24
فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا وَلَنۡ تَفۡعَلُوۡا فَاتَّقُوۡا النَّارَ الَّتِىۡ وَقُوۡدُهَا النَّاسُ وَالۡحِجَارَةُ ۖۚ اُعِدَّتۡ لِلۡكٰفِرِيۡنَ ۞
پھر اگر تم ایسا نہ کر سکو اور ہرگز نہ کر سکو گے تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی (یعنی کافر) اور پتھر (یعنی ان کے بت) ہیں، جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے،
یہاں اللہ رب العزت نے کفار و مشرکین کو کھلا چیلنج دیا ہے کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ یہ قرآن معاذاللہ رسول مکرم ﷺ نے خود گھڑ لیا ہے تو اس کی مثل کوئی ایک سورت ہی لے آؤ۔ چونکہ انسان اپنے تمام تر وسائل اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر بھی قرآن کی مثل ایک سورت، آیت یا جملہ بنانے سے عاجز ہے لہٰذا قرآن، حضور نبی مکرم ﷺ کا ایک دائمی معجزہ ہے جو اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کو عطاء کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس معجزۂِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعنی قرآنِ مجید کو سیکھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین