صدقۂِ فطر کی فرضیت اور احکام:
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1503
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ:
فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى الْعَبْدِ، وَالْحُرِّ، وَالذَّكَرِ، وَالْأُنْثَى، وَالصَّغِيرِ، وَالْكَبِيرِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ.
رسول اللہ ﷺ نے فطر کی زکوٰۃ (صدقہ فطر) فرض قرار دی تھی جو ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو کے برابر ہے ۔ غلام ‘ آزاد ‘ مرد ‘ عورت ‘ چھوٹے اور بڑے تمام مسلمانوں پر۔ آپ ﷺ کا حکم یہ تھا کہ نماز (عید) کے لیے جانے سے پہلے یہ صدقہ ادا کردیا جائے۔
1) صدقۂِ فطر کا حکم کیا ہے؟
فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ زَكَاةَ الْفِطْرِ۔
رسول اللہ ﷺ نے فطر کی زکوٰۃ (صدقہ فطر) فرض قرار دی تھی۔
2) صدقۂِ فطر کی مقدار کیا ہے؟
صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ۔
(صدقۂِ فطر کی مقدار) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو کے برابر ہے۔
3) صدقۂِ فطر کن لوگوں پر فرض ہے؟
عَلَى الْعَبْدِ، وَالْحُرِّ، وَالذَّكَرِ، وَالْأُنْثَى، وَالصَّغِيرِ، وَالْكَبِيرِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ۔
غلام، آزاد، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے تمام مسلمانوں پر۔
4) صدقۂِ فطر کی ادائیگی کا وقت کیا ہے؟
وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ
آپ ﷺ کا حکم یہ تھا کہ نماز (عید الفطر) کے لیے جانے سے پہلے یہ صدقۂِ فطر ادا کردیا جائے۔
زکوٰۃ اور صدقۂِ فطر میں فرق کیا ہے؟
زکوٰۃ کے لیے شرط ہے کہ نصابِ زکوٰۃ پر سال کا عرصہ گزر چکا ہو جبکہ صدقۂِ فطر میں نصابِ زکوٰۃ پر سال کا گزرنا شرط نہیں بلکہ اگر کسی شخص کے پاس عید الفطر کے دن نصابِ زکوٰۃ کے برابر مال اس کی حاجاتِ اصلیہ سے زائد موجود ہے تو اس پر صدقۂِ فطر کی ادائیگی واجب ہے۔
نصابِ زکوٰۃ کی مالیت بمطابق 1444ھ، 2023ء:
1,20,000 روپے۔
یعنی اگر کسی شخص کے پاس آج کے دور (1444ھ، بمطابق 2023ء) 120,000 روپے یا اس سے زیادہ مالیت کی رقم (کرنسی) یا اس مالیت کے برابر قیمتی چیزیں سونا، چاندی وغیرہ موجود ہو تو وہ شخص صاحبِ نصاب ہے۔ اس پر زکوٰۃ ادا کرنا بھی واجب ہے اور صدقۂِ فطر ادا کرنا بھی واجب ہے۔ اگر اس مال پر سال کا عرصہ گزر چکا ہے تو اس مال کا اڑھائی فیصد زکوٰۃ کی مد میں غرباء و مساکین اور دوسرے مصارفِ زکوٰۃ پہ خرچ کرنا واجب ہے۔ جبکہ صدقۂِ فطر کے لیے مال پر سال کا گزرنا شرط نہیں ہے بلکہ اگر کچھ دن پہلے وہ شخص صاحبِ نصاب بنا ہے تو اس پر صدقۂِ فطر ادا کرنا واجب ہے۔
صدقۂِ فطر کی حکمت:
سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 1609
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ، مَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ فَهِيَ زَكَاةٌ مَقْبُولَةٌ، وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ فَهِيَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ.
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر صائم کو لغو اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کے کھانے کے لیے فرض کیا ہے، لہٰذا جو اسے (عید کی) نماز سے پہلے ادا کرے گا تو یہ مقبول صدقہ ہوگا اور جو اسے نماز کے بعد ادا کرے گا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہوگا۔
صدقۂِ فطر کی مقدار:
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1506
حضرت ابو سعید خدری ؓ روایت کرتے ہیں کہ:
كُنَّا نُخْرِجُ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ.
ہم فطرہ کی زکوٰۃ ایک صاع اناج یا گیہوں یا ایک صاع جَو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع زبیب (خشک انگور یا انجیر) نکالا کرتے تھے۔
صدقۂِ فطر (و فدیہ فی روزہ) کی قیمت (ایک فرد) کے مختلف درجات بمطابق 1444ھ (2023) – (دارالافتاء):
گندم کا آٹا (دو کلوگرام): 320 روپے
جو (چار کلوگرام): 1000 روپے
کھجور (چار کلوگرام) – درمیانی کوالٹی: 2400 روپے
کھجور (چار کلوگرام) – اعلیٰ کوالٹی: 10800 روپے
کشمکش (چار کلوگرام): 4800 روپے
پنیر (چار کلوگرام): 9250 روپے
گویا صدقۂِ فطر (و فدیہ فی روزہ) کی کم سے کم مقدار ایک فرد کے لیے 320 روپے جبکہ زیادہ سے زیادہ 10,800 روپے ہے بمطابق 1444ھ (2023)۔ اگر کوئی اس بھی زیادہ دینا چاہے تو اس کے لیے باعثِ اجر و ثواب ہے۔ ہر فرد اپنی مالی حیثیت اور طرزِ زندگی کے مطابق طے شدہ صدقۂِ فطر (و فدیہ فی روزہ) ادا کرے۔ تاکہ غرباء و مساکین کو زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقی معنوں میں دینِ اسلام کی تعلیمات کا فہم عطا فرمائے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین