اہل علم کی ایک جماعت کہتی ہے کہ صوفی کو اس لیے صوفی کہا جاتا ہے کہ وہ وہ صوف (پشمینہ) کے کپڑے پہنتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ اول صف میں ہوتے ہیں اور ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ یہ اصحاب صفہ کی نیابت کرتے ہیں۔
ایک بزرگ نے فرمایا کہ “مَن صَافَاہُ الْحُبَّ فَھُوَ صَافٍ وَمَن صَافَاہُ الْحَبِیْبَ فَھُوَ صُوْفِیٌّ” جس کی محبت پاک و صاف ہے وہ صافی ہے اور جو دوست میں مستغرق ہوکر اس کے غیر سے بری ہو، وہ صوفی ہے۔
تصوف کو ماننے والوں اور اس پر عمل کرنے والوں کی قسمیں:
1) صوفی وہ ہے جو خود کو فنا کر کے حق کے ساتھ مل جائے اور خواہشات نفسانیہ کو مار کر حقیقت سے پیوستہ ہو جائے۔
2) متصوف وہ ہے جو ریاضت و مجاہدے کے ذریعہ اس مقام کی طلب کرے اور وہ اس مقام کی طلب و حصول میں صادق و راست باز رہے۔
3) مستصوف وہ ہے جو دنیاوی عزت و منزلت اور مال و دولت کی خاطر خود کو ایسا بنا لے اور اسے مذکورہ منازل و مقامات کی کچھ خبر نہ ہو۔
حضرت ابو الحسن نوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ “اَلْتَّصَوُّفُ تَرْکُ کُلِِّ حَظٍّ النَّفْسِ” تمام نفسانی لذات و حظوظ سے دست کشی کا نام تصوف ہے۔
امام محمد باقر سلام اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ “اَلْتَّصَوُّفُ خُلْقٌ فَمَنْ زَادَ عَلَیکَ فِی الْخُلْقِ زَادَ عَلَیکَ فِی الْتَّصَوُّفِ” تصوف پاکیزہ اخلاق کا نام ہے، جس کے جتنے پاکیزہ اخلاق ہوں گے اتنا ہی وہ صوفی ہوگا۔
حضرت شبلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ”اَلصُّوْفِیُّ لَا یَرٰی فِی الدَّارَیْنِ مَعَ اللّٰہِ غَیْرَ اللّٰہِ” صوفی وہ ہے جو دونوں جہان میں بجز ذات الٰہی کے کچھ نہ دیکھے۔
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ تصوف کی بنیاد آٹھ خصلتوں پر ہے۔ یہ آٹھ خصلتیں آٹھ نبیوں کی اقتداء میں ہیں۔ سخاوت (حضرت ابرہیم علیہ السلام)، رضا (حضرت اسماعیل علیہ السلام)، صبر (حضرت ایوب علیہ السلام)، اشارہ (حضرت زکریا علیہ السلام)، غربت (حضرت یحییٰ علیہ السلام)، گدڑی (حضرت موسیٰ علیہ السلام)، سیاحت (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) اور فقر (سید دو عالم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔
حضرت علی بن بندار نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اَلْتَّصَوُّفُ اِسْقَاطُ الرُّؤْیَۃِ لِلْحَقِّ ظَاھِرًا وَ بَاطِنًا تصوف یہ ہے کہ صوفی اپنے ظاہر و باطن میں حق کی خاطر خود کو نہ دیکھے۔
حضرت محمد بن عمر بن احمد مقری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ؛ اَلْتَّصَوُّفُ اِسْتِقَامَۃُ الْاَحْوَالِ مَعَ الْحَقِّ ۔ حق کے ساتھ احوال کی استقامت کا نام تصوف ہے۔
حضرت ابو حفص حداد نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے کہ “تصوف سرا سر ادب ہے”
حضرت ابو الحسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ؛ لَیْسَ التَّصَوُّفُ رَسُوْمًا وَلَا عُلُوْمًا وَلٰکِنَّہٗ اَخْلَاقٌ ۔ تصوف رسم و علم کا نام نہیں بلکہ وصف و اخلاق کا نام ہے۔
حضرت مرتعش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ؛ اَلْتَّصَوُّفُ حُسْنُ الْخُلُق ۔ نیک خصائل کا نام تصوف ہے۔
حضرت ابو علی قزوینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ؛ اَلْتَّصَوُّفُ ھُوَ الْاَخْلَاقُ الرَّضِیَّۃُ۔ پسندیدہ اور محمودہ افعال و اخلاق کا نام تصوف ہے۔
حضرت ابو الحسن نوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ؛ اَلْتَّصَوُّفُ ھُوَ حُرِیَّۃٌ وَالْفَتْوَۃُ وَ تَرْکُ التَّکَلُّفِ وَالسَّخَأ وَبَذْلُ الدُّنْیَا۔ یعنی نفس اور حرص و ہوا کی غلامی سے آزادی پانے، باطل کے مقابلہ میں جرأت و مردانگی دکھانے، دنیاوی تکلفات کو ترک کر دینے، اپنے مال کو دوسروں پر صرف کرنے، اور دنیا کو دوسروں کے لیے چھوڑ دینے کا نام تصوف ہے۔
کشف المحجوب از سید علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ