Views: 43
آج کا لفظِ قرآنی: حمد۔ حَمِدَ یَحْمَدُ حَمْدًا۔ باب (سَمِعَ)
حمد کا معنی ہے “محسن کی تعریف کرنا”۔ حمد دراصل ایسی تعریف کو کہتے ہیں جو شکر کے جذبے کے ساتھ ہو۔تعریف اور شکر کا یہ امتزاج عربی میں حمد کہلاتا ہے ۔اس مفہوم کو ادا کرنے کے لیے اردو میں کوئی لفظ نہیں ہے۔(قرآنی ڈکشنری)
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ (الفاتحه، آیت 1) تمام تعریفیں اور تمام شکر اللہ ہی کے لیےہے۔
محسن کے اختیاری فعل یا صفت کے سبب، شکر کے جذبے سے سرشار ہو کر تعریف کرنے کو حمد کہتے ہیں ۔ اس لفظ کا مادہ ہے ح،م،د۔ باب سَمِعَ (س) ہے۔اصل میں تھا حَمدٌ بروزن فَعْلٌ، سَمعٌ، صیغہ اسم مصدر ثلاثی مجرد ۔ اس پر نون تنوین تثنیہ کا قانون جاری ہوا ہے ۔ (صیغہائے قرآنیہ)
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ تعالیٰ: الثناء علیه باالفضیلۃِ وھو اخصُّ من المدحِ و اَعَمُّ مِنَ الشُّکْرِ۔ فَکُلُّ شُکْرٍ حَمْدٌ وَ لَیسَ کُلُّ مَدحٍ حَمْدًا۔ (المفردات القرآن)
امام راغب اصفہانی کے بقول حمد، مدح اور شکر کے مجموعے کا نام ہے ۔ لیکن ہر مدح حمد نہیں ہوتی۔ مدح کی دو صورتیں ہوتی ہیں ۔
پہلی صورت یہ ہے کہ کسی انسان یا شے کی خِلقی صفات کی وجہ سے مدح (تعریف) کرنا، یہ مدح تو ہے لیکن اس مدح کو حمد نہیں کہتے۔ مثلاً کسی کی گوری رنگت کی وجہ سے تعریف کرنا، کسی کے خوبصورت نین نقش دیکھ کر اس کی تعریف کرنا وغیرہ ۔
دوسری صورت یہ ہے کہ کسی انسان یا شے کی اختیاری صفات کی وجہ سے مدح (تعریف) کرنا۔ یعنی ایسی صفات کی وجہ سے تعریف کرنا جس میں اسے اختیار ہو کہ چاہے تو کرے چاہے تو نہ کرے۔ مثلاً کسی کی سخاوت کی وجہ سے اس کی تعریف کرنا وغیرہ ۔ سخاوت انسان کا اختیار ہے وہ کسی سے سخاوت والا معاملہ کرے یا بخل والا معاملہ کرے ۔
لہٰذا ایسی اختیاری صفات کی وجہ سے جو مدح کی جاتی ہے اسے حمد کہتے ہیں ۔ تو حمد مدح کے لحاظ سے خاص ہے جیسا کہ اوپر وضاحت کی گئی ہے ۔
امامِ راغب نے آگے مزید فرمایا ہے کہ “اعم من الشکر” یعنی حمد شکر کے لحاظ سے عام ہے۔ یعنی ہر شکر حمد ہے۔ تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر شکر حمد ہے لیکن ہر حمد شکر نہیں ہے ۔ کیونکہ حمد کے لیے شکر کے ساتھ خاص مدح (بسبب افعالِ اختیاری) کا شامل ہونا ضروری ہے ۔
تو حمد کا معنی بنے گا کسی کے اختیاری فعل یا صفت کی وجہ سے اس کی تعریف کرنا اور چونکہ اس اختیاری فعل سے آپ کو نفع بھی حاصل ہوا ہے تو لہٰذا اس احسان کی وجہ سے اس کا شکر بھی ادا کرنا۔