علم

ابتدا ہے رب کریم کے نام سے جو آنکھوں کی خیانت کو بھی جاننے والا ہے اور جو سینوں میں چھپی ہوئی باتوں کو بھی جاننے والا ہے۔

علم صفتِ عالم الغیب والموجودات ہے۔ علم باعثِ رفعِ حجابات ہے۔ علم آدمی کے لیے وجہِ شرف و فضیلت و عنایات ہے۔ علم باعثِ بلندیِٔ درجات ہے۔ علم تارکِ جہل و ظلمات ہے۔ علم، معرفتِ مقصدِ حیات ہے۔ علم مقصدِ بعثتِ انبیاء اور معرفتِ نظامِ کائنات ہے۔ علم معرفتِ خالق المخلوقات ہے۔

اِنَّمَا یَخۡشَی اللّٰہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمٰٓؤُا۔
بس اللہ کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔
(القرآن، 35، 28)

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ۔
اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں ایسے علم سے جو کوئی فائدہ نہ دے۔
(صحیح مسلم، 2722)

سید علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں ‘تحصیل علم کی فرضیت اور اس کی اہمیت’ پر جو باب قائم کیا ہے اس میں سے کچھ نکات درج ذیل ہیں۔

1) وہ شخص جو علم کو دنیاوی عزت و جاہ کی غرض سے حاصل کرتا ہے، در حقیقت وہ عالم کہلانے کا مستحق ہی نہیں ہے۔
2) علم کی تعریف، معلوم کو گھیرنا اور معلوم کا اظہار و بیان ہے۔
3) اَلْعِلْمُ صِفَۃٌ یَصِیْرُ الْجَاھِلَ بِھَا عَالِمًا۔ علم ایسی صفت ہے جس کے ذریعے جاہل، عالم بن جاتا ہے۔
4) حضرت ابو علی ثقفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: اَلْعِلْمُ حَیٰوۃُ الْقَلْبِ مِنَ الْجَھْلِ وَ نُوْرُ الْعَیْنِ مِنَ الظُّلْمَۃِ جہالت اور تاریکی کے مقابلہ میں علم دل کی زندگی اور آنکھوں کا نور ہے۔
5) جاہل کے دل پر ہزار بار پل صراط سے گزرنا اس سے زیادہ آسان ہے کہ وہ ایک علمی مسئلہ سیکھے۔ فاسق کے لیے جہنم میں خیمہ نصب کرنا اس سے زیادہ محبوب ہے کہ وہ کسی ایک علمی مسئلہ پر عمل پیرا ہو۔
6) بندہ کتنا ہی کامل علم حاصل کر لے، علم الٰہی کے مقابلے میں وہ جاہل ہی ہے۔ اس لیے اسے چاہیے کہ وہ ہمیشہ یہ سمجھے کہ میں کچھ نہیں جانتا۔
7) حضرت محمد بن فضل علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ علوم تین طرح کے ہیں: علم من اللہ (علم شریعت)، علم مع اللہ (علم طریقت)، علم بااللہ (علم معرفت)۔

تصوف

اہل علم کی ایک جماعت کہتی ہے کہ صوفی کو اس لیے صوفی کہا جاتا ہے کہ وہ وہ صوف (پشمینہ) کے کپڑے پہنتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ اول صف میں ہوتے ہیں اور ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ یہ اصحاب صفہ کی نیابت کرتے ہیں۔

ایک بزرگ نے فرمایا کہ “مَن صَافَاہُ الْحُبَّ فَھُوَ صَافٍ وَمَن صَافَاہُ الْحَبِیْبَ فَھُوَ صُوْفِیٌّ” جس کی محبت پاک و صاف ہے وہ صافی ہے اور جو دوست میں مستغرق ہوکر اس کے غیر سے بری ہو، وہ صوفی ہے۔

تصوف کو ماننے والوں اور اس پر عمل کرنے والوں کی قسمیں:

1) صوفی وہ ہے جو خود کو فنا کر کے حق کے ساتھ مل جائے اور خواہشات نفسانیہ کو مار کر حقیقت سے پیوستہ ہو جائے۔
2) متصوف وہ ہے جو ریاضت و مجاہدے کے ذریعہ اس مقام کی طلب کرے اور وہ اس مقام کی طلب و حصول میں صادق و راست باز رہے۔
3) مستصوف وہ ہے جو دنیاوی عزت و منزلت اور مال و دولت کی خاطر خود کو ایسا بنا لے اور اسے مذکورہ منازل و مقامات کی کچھ خبر نہ ہو۔

حضرت ابو الحسن نوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ “اَلْتَّصَوُّفُ تَرْکُ کُلِِّ حَظٍّ النَّفْسِ” تمام نفسانی لذات و حظوظ سے دست کشی کا نام تصوف ہے۔

امام محمد باقر سلام اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ “اَلْتَّصَوُّفُ خُلْقٌ فَمَنْ زَادَ عَلَیکَ فِی الْخُلْقِ زَادَ عَلَیکَ فِی الْتَّصَوُّفِ” تصوف پاکیزہ اخلاق کا نام ہے، جس کے جتنے پاکیزہ اخلاق ہوں گے اتنا ہی وہ صوفی ہوگا۔

حضرت شبلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ”اَلصُّوْفِیُّ لَا یَرٰی فِی الدَّارَیْنِ مَعَ اللّٰہِ غَیْرَ اللّٰہِ” صوفی وہ ہے جو دونوں جہان میں بجز ذات الٰہی کے کچھ نہ دیکھے۔

حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ تصوف کی بنیاد آٹھ خصلتوں پر ہے۔ یہ آٹھ خصلتیں آٹھ نبیوں کی اقتداء میں ہیں۔ سخاوت (حضرت ابرہیم علیہ السلام)، رضا (حضرت اسماعیل علیہ السلام)، صبر (حضرت ایوب علیہ السلام)، اشارہ (حضرت زکریا علیہ السلام)، غربت (حضرت یحییٰ علیہ السلام)، گدڑی (حضرت موسیٰ علیہ السلام)، سیاحت (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) اور فقر (سید دو عالم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔

حضرت علی بن بندار نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اَلْتَّصَوُّفُ اِسْقَاطُ الرُّؤْیَۃِ لِلْحَقِّ ظَاھِرًا وَ بَاطِنًا تصوف یہ ہے کہ صوفی اپنے ظاہر و باطن میں حق کی خاطر خود کو نہ دیکھے۔

حضرت محمد بن عمر بن احمد مقری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ؛ اَلْتَّصَوُّفُ اِسْتِقَامَۃُ الْاَحْوَالِ مَعَ الْحَقِّ ۔ حق کے ساتھ احوال کی استقامت کا نام تصوف ہے۔

حضرت ابو حفص حداد نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے کہ “تصوف سرا سر ادب ہے”

حضرت ابو الحسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ؛ لَیْسَ التَّصَوُّفُ رَسُوْمًا وَلَا عُلُوْمًا وَلٰکِنَّہٗ اَخْلَاقٌ ۔ تصوف رسم و علم کا نام نہیں بلکہ وصف و اخلاق کا نام ہے۔

حضرت مرتعش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ؛ اَلْتَّصَوُّفُ حُسْنُ الْخُلُق ۔ نیک خصائل کا نام تصوف ہے۔

حضرت ابو علی قزوینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ؛ اَلْتَّصَوُّفُ ھُوَ الْاَخْلَاقُ الرَّضِیَّۃُ۔ پسندیدہ اور محمودہ افعال و اخلاق کا نام تصوف ہے۔

حضرت ابو الحسن نوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ؛ اَلْتَّصَوُّفُ ھُوَ حُرِیَّۃٌ وَالْفَتْوَۃُ وَ تَرْکُ التَّکَلُّفِ وَالسَّخَأ وَبَذْلُ الدُّنْیَا۔ یعنی نفس اور حرص و ہوا کی غلامی سے آزادی پانے، باطل کے مقابلہ میں جرأت و مردانگی دکھانے، دنیاوی تکلفات کو ترک کر دینے، اپنے مال کو دوسروں پر صرف کرنے، اور دنیا کو دوسروں کے لیے چھوڑ دینے کا نام تصوف ہے۔

کشف المحجوب از سید علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ

حقیقت رضا

حضرت حارث محاسبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ “اَلرِّضَا سُکُوْنُ الْقَلْبِ تَحْتَ مَجَارِی الْاَحْکَامِ” احکام الٰہی کے اجراء پر سکون قلب کا نام رضا ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ذَاقَ طَعْمَ الْاِیْمَانِ مَن رَضِیَ بِاللّٰہِ رَبًّا اس نے ایمان کا ذائقہ پا لیا جو اللہ کے رب ہونے پر راضی ہو گیا۔

امیر المؤمنین حضرت امام حسن علیہ السّلام کے آگے حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول رکھا گیا کہ اَلْفَقْرُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنَ الْغِنَاءِ وَالسُّقْمُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنَ الصِّحَّتِ میرے نزدیک مفلسی تونگری سے اور بیماری صحت مندی سے زیادہ محبوب ہے۔ حضرت امام حسن علیہ السّلام نے فرمایا: رَحِمَ اللّٰہُ اَبَا ذَرٍّ اَمَّا اَنَا اَقُوْلُ مَن اَشْرَفَ عَلٰی حُسْنِ اِخْتِیَارِ اللّٰہِ لَہُ لَمْ یَتَمَنَّ غَیْرَ مَا اَخْتَارَ اللّٰہُ لَہُ اللہ تعالیٰ ابوذر پر رحم فرمائے میں تو یہ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے بندے کے لیے جو اختیار فرمایا ہے بندہ خدا کے اختیار کردہ حالت کے سوا کسی اور حالت کی آرزو نہ کرے، اللہ تعالیٰ بندے کے لیے جو پسند فرمائے بندہ اسی کو چاہے۔

رضا بندے کو غفلت سے چھڑاتی اور غموں کے پنجوں سے بچاتی ہے اور غیر کے اندیشے کو دل سے نکالتی اور تکلیفوں کی بندشوں سے نجات دیتی ہے کیونکہ رضا کی صفت ہی آزاد کرنا ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مَن لَّم یَرْضِ بِاللّٰہِ بِقَضَائِهٖ شَغَلَ قَلْبُهٗ وَتَعِبَ بَدَنُهٗ جو اللہ کی رضا اور اس کی قضا پر راضی نہ ہو اس نے اپنے دل کو تقدیر و اسباب میں مشغول کرکے بدن کو سختی میں ڈال دیا۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ایک دعا میں فرمایا؛ اَسْاَلُکَ اَلرِّضَا بَعْدَ الْقَضَاءِ میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں کہ نزول قضا کے بعد مجھے راضی رکھنا۔

حضرت عتبۃ الغلام رات بھر نہیں سوئے اور دن چڑھے تک یہی کہتے رہے کہ اِن تُعَذِّبْنِی فَاَنَا لَکَ مُحِبٌّ وَاِنْ تَرْحَمْنِیْ فَاَنَا لَکَ مُحِبٌّ اگر تو مجھے عذاب میں ڈال دے یا رحمت کی چادر میں ڈھانپ لے، دونوں حالتوں میں میں تجھ سے محبت کرتا رہوں گا۔

رضا محبت کا نتیجہ ہے اور محبت کرنے والا، محبوب کے ہر فعل پر راضی رہتا ہے۔

کشف المحجوب از سید علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ

حقیقی منزل

ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ وہ اس دنیا سے کامیاب ہو کر لوٹے اور جب وہ مرے تو اسے یہ اطمینان اور سکون ہو کہ اس نے اپنی حقیقی منزل کو پا لیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کی حقیقی منزل کیا ہے؟

حقیقی منزل:

انسان کی حقیقی منزل یہ ہے کہ وہ اس مقصدِ حیات کو پانے میں کامیاب ہو جائے کی جس مقصد کی خاطر اللہ رب العزت نے اسے پیدا کیا ہے۔

مقصدِ حیات کیا ہے؟

انسان کی زندگی کا واحد مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک اللہ رب العزت کی رضا و خوشنودی کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔

حقیقی کامیابی کیا ہے؟

جو انسان اپنے حقیقی مقصدِ حیات (یعنی اپنی منزل) کو پہچان لے اور اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے وہ کامیاب ہے۔ اور اگر کوئی شخص شخص ساری زندگی اپنے اصل مقصود کو ہی نہ پہچان سکے تو دنیوی زندگی میں جو مرضی حاصل کر لے وہ ناکام و نامراد ہے۔

منزل تک پہنچنے کا راستہ:

ہر منزل تک پہنچنے کا کوئی نہ کوئی راستہ ہوتا ہے۔ حقیقی منزل (مقصدِ حیات) تک پہنچنے کے راستے کو صراطِ مستقیم کہتے ہیں۔ جس کی ہدایت کے لیے ہم ہر نماز میں سورۃ الفاتحہ میں اللہ رب العزت سے دعا کرتے ہیں۔

صراطِ مستقیم کون سا راستہ ہے؟

صراطِ مستقیم اللہ رب العزت کے انعام یافتہ بندوں کا راستہ ہے۔ ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ رب العزت نے انعام فرمایا ہے۔ اور یہ ان لوگوں کا راستہ نہیں ہے جو گمراہ ہوئے یا جن پر اللہ رب العزت کا غضب ہوا۔

راستہ تاریک کب ہوتا ہے؟

جب انسان گناہ کرتا ہے، ظلم کرتا ہے یا اللہ رب العزت کے احکامات کی نافرمانی کرتا ہے تو اس کا راستہ تاریک ہو جاتا ہے۔ جب راستہ تاریک ہوتا ہے تو انسان سفر نہیں کر سکتا جس کی وجہ سے وہ منزل تک نہیں پہنچ پاتا۔

راستہ (صراطِ مستقیم) روشن کیسے ہوتا ہے؟

جب انسان اللہ رب العزت کے احکامات پر عمل کرتا ہے، نیک اعمال کرتا ہے، برے اعمال سے پچتا ہے تو اس سے انسان کو نور ملتا ہے۔ اس نور سے انسان کا راستہ روشن ہوتا ہے۔ جب راستہ روشن ہوتا ہے تو واضح دکھائی دیتا ہے۔ جب راستہ واضح دکھائی دیتا ہے تو انسان کا سفر شروع ہوتا ہے اور بالآخر وہ اپنی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔

یہی وہ نور ہے جس کی روشنی میں انسان کو قیامت کے دن جنت میں لے جانے والا راستہ صاف دکھائی دے گا۔ اور اسی نور کی روشنی میں سفر کرتے ہوئے بندۂِ مومن جنت میں داخل ہو جائے گا۔

القرآن – سورۃ نمبر 57 الحديد، آیت نمبر 12
يَوۡمَ تَرَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ يَسۡعٰى نُوۡرُهُمۡ بَيۡنَ اَيۡدِيۡهِمۡ وَبِاَيۡمَانِهِمۡ بُشۡرٰٮكُمُ الۡيَوۡمَ جَنّٰتٌ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا‌ؕ ذٰلِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ‌ۚ‏ ۞
(اے حبیب!) جس دن آپ (اپنی امّت کے) مومن مَردوں اور مومن عورتوں کو دیکھیں گے کہ اُن کا نور اُن کے آگے اور اُن کی دائیں جانب تیزی سے چل رہا ہوگا (اور اُن سے کہا جائے گا:) تمہیں بشارت ہو آج (تمہارے لئے) جنتیں ہیں جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں (تم) ہمیشہ ان میں رہو گے، یہی بہت بڑی کامیابی ہے،

جن لوگوں نے اس دنیا میں رہتے ہوئے نیک اعمال کا نور جمع نہیں کیا ہوگا وہ قیامت کے اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے جہنم کے گڑھے میں جاگریں گے۔

القرآن – سورۃ نمبر 57 الحديد، آیت نمبر 13
يَوۡمَ يَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَالۡمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوا انْظُرُوۡنَا نَقۡتَبِسۡ مِنۡ نُّوۡرِكُمۡ‌ۚ قِيۡلَ ارۡجِعُوۡا وَرَآءَكُمۡ فَالۡتَمِسُوۡا نُوۡرًاؕ فَضُرِبَ بَيۡنَهُمۡ بِسُوۡرٍ لَّهٗ بَابٌؕ بَاطِنُهٗ فِيۡهِ الرَّحۡمَةُ وَظَاهِرُهٗ مِنۡ قِبَلِهِ الۡعَذَابُؕ ۞
جس دن منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں سے کہیں گے: ذرا ہم پر (بھی) نظرِ (التفات) کر دو ہم تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں۔ ان سے کہا جائے گا: تم اپنے پیچھے پلٹ جاؤ اور (وہاں جاکر) نور تلاش کرو (جہاں تم نور کا انکار کرتے تھے)، تو (اسی وقت) ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا، اس کے اندر کی جانب رحمت ہوگی اور اس کے باہر کی جانب اُس طرف سے عذاب ہوگا،

القرآن – سورۃ نمبر 57 الحديد، آیت نمبر 14
يُنَادُوۡنَهُمۡ اَلَمۡ نَكُنۡ مَّعَكُمۡ‌ؕ قَالُوۡا بَلٰى وَلٰـكِنَّكُمۡ فَتَنۡتُمۡ اَنۡفُسَكُمۡ وَ تَرَبَّصۡتُمۡ وَارۡتَبۡتُمۡ وَغَرَّتۡكُمُ الۡاَمَانِىُّ حَتّٰى جَآءَ اَمۡرُ اللّٰهِ وَ غَرَّكُمۡ بِاللّٰهِ الۡغَرُوۡرُ ۞
وہ (منافق) اُن (مومنوں) کو پکار کر کہیں گے: کیا ہم (دنیا میں) تمہاری سنگت میں نہ تھے؟ وہ کہیں گے: کیوں نہیں! لیکن تم نے اپنے آپ کو (منافقت کے) فتنہ میں مبتلا کر دیا تھا اور تم (ہمارے لئے برائی اور نقصان کے) منتظر رہتے تھے اور تم (نبوّتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دینِ اسلام میں) شک کرتے تھے اور باطل امیدوں نے تمہیں دھوکے میں ڈال دیا، یہاں تک کہ اللہ کا اَمرِ (موت) آپہنچا اور تمہیں اللہ کے بارے میں دغا باز (شیطان) دھوکہ دیتا رہا۔

راستے میں پیش آنے والی رکاوٹیں:

جیسے راستے میں بعض اوقات ڈاکوؤں اور لٹیروں سے واسطہ پڑتا ہے جو انسان کو گمراہ کر دیتے ہیں اسی طرح حقیقی منزل تک پہنچانے والے راستے میں بھی کچھ دشمن، ڈاکو اور لٹیرے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کی پہچان ضروری ہے تاکہ انسان ان سے اپنی حفاظت کر سکے۔

القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 16
قَالَ فَبِمَاۤ اَغۡوَيۡتَنِىۡ لَاَقۡعُدَنَّ لَهُمۡ صِرَاطَكَ الۡمُسۡتَقِيۡمَۙ‏ ۞
اس (ابلیس) نے کہا: پس اس وجہ سے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے (مجھے قَسم ہے کہ) میں (بھی) ان (افرادِ بنی آدم کو گمراہ کرنے) کے لئے تیری سیدھی راہ پر ضرور بیٹھوں گا (تآنکہ انہیں راہِ حق سے ہٹا دوں)،

اس راستے میں انسان کے چار دشمن ہیں:

1) شیطان
2) نفسِ امارہ
3) محبتِ دنیا
4) شیطان کی اتباع کرنے والے اور محبتِ دنیا میں گرفتار لوگ

راستے میں انسان کے مددگار اور دوست:

1) اللہ رب العزت
2) حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
3) اللہ رب العزت کے انعام یافتہ بندے

حاصلِ کلام:

ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی انسان اپنی حقیقی منزل کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی ذات کو ظلم، گناہ اور معصیت سے پاک کرلے۔ کیونکہ جب تک وہ اپنی ذات کو ظلم کے اندھیروں سے نہیں بچاتا وہ منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔

ظلم کے ہوتے ہوئے نہ انسان کی ذات میں کوئی تبدیلی واقع ہو سکتی ہے اور نہ معاشرے کے اندر کوئی تبدیلی واقع ہو سکتی ہے۔ کیونکہ ظلم اندھیرا ہے (حدیثِ رسول ﷺ)، جہاں اندھیرا ہو وہاں راستہ نظر نہیں آتا اور جب راستہ نظر نہ آئے تو منزل نہیں ملتی۔

ظلم، عدل، اور احسان

اِنَّ اللّٰهَ يَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَالۡاِحۡسَانِ وَاِيۡتَآىِٕ ذِى الۡقُرۡبٰى وَيَنۡهٰى عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَالۡمُنۡكَرِ وَالۡبَغۡىِ‌ۚ يَعِظُكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَذَكَّرُوۡنَ ۞

ظلم:

و الظلم عند اھل اللغۃ و کثیر من العلماء وَضْعُ الشَّیئِ فی غیر موضِعِہِ المختصِّ بہ اِمَّا بنقصانٍ او بزیادۃٍ۔ و اما بعُدُولٍ عن وقتہ او مکانہ۔ (المفردات، راغب اصفہانی)

اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کے صحیح وقت اور اصلی جگہ سے ہٹا کر۔

القرآن – سورۃ نمبر 49 الحجرات، آیت نمبر 11
وَمَنۡ لَّمۡ يَتُبۡ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ۞
اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 18 الكهف، آیت نمبر 59
وَتِلۡكَ الۡقُرٰٓى اَهۡلَكۡنٰهُمۡ لَمَّا ظَلَمُوۡا وَجَعَلۡنَا لِمَهۡلِكِهِمۡ مَّوۡعِدًا ۞
یہ عذاب رسیدہ بستیاں تمہارے سامنے موجود ہیں انہوں نے جب ظلم کیا تو ہم نے انہیں ہلاک کر دیا، اور ان میں سے ہر ایک کی ہلاکت کے لیے ہم نے وقت مقرر کر رکھا تھا۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2447
عبداللہ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
الظُّلْمُ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
ظلم قیامت کے دن اندھیرے ہوں گے۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 5124
وَعَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «إِن اللَّهَ لَيُمْلِي لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ يفلته» ثمَّ يقْرَأ (وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظالمة)الْآيَة. مُتَّفق عَلَيْهِ

ابوموسی ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ بے شک اللہ ظالم کو ڈھیل دیتا رہتا ہے لیکن وہ جب اسے پکڑتا ہے تو پھر اسے چھوڑتا نہیں۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:’’ تیرے رب کی پکڑ اسی طرح ہوتی ہے جب وہ بستی کے ظالموں کو پکڑتا ہے۔‘‘ متفق علیہ۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 5127
وَعَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ؟» . قَالُوا: الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ. فَقَالَ: «إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي مَنْ يَأْتِي يَوْم الْقِيَامَة بِصَلَاة وَصِيَام وَزَكَاة وَيَأْتِي وَقَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا. وَأَكَلَ مَالَ هَذَا. وَسَفَكَ دَمَ هَذَا وَضَرَبَ هَذَا فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يَقْضِيَ مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ طُرح فِي النَّار» . رَوَاهُ مُسلم

ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا، جس شخص کے پاس درہم ہوں نہ مال و متاع، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ میری امت میں سے مفلس وہ شخص ہے جو روز قیامت نماز، روزے اور زکوۃ لے کر آئے گا اور وہ بھی آ جائے گا جسے اس نے گالی دی ہو گی، جس کسی پر بہتان لگایا ہو گا، جس کسی کا مال کھایا ہو گا، جس کسی کا خون بہایا ہو گا اور جس کسی کو مارا پیٹا ہو گا، اس (مظلوم) کو اس کی نیکیوں میں سے نیکیاں دے دی جائیں گی، اور اگر اس کے ذمے حقوق کی ادائیگی سے پہلے ہی اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو ان (حق داروں) کے گناہ لے کر اس شخص پر ڈال دیے جائیں گے پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔‘‘ رواہ مسلم۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2168
عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ أَيُّهَا النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ هَذِهِ الْآيَةَ:‏‏‏‏ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ سورة المائدة آية 105 وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابٍ مِنْهُ .

ابوبکر صدیق ؓ کہتے ہیں کہ لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو «يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسکم لا يضرکم من ضل إذا اهتديتم» اے ایمان والو! اپنی فکر کرو گمراہ ہونے والا تمہیں کوئی ضرر نہیں پہنچائے گا جب تم نے ہدایت پالی (المائدہ: ١٠٥ ) اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: جب لوگ ظالم کو دیکھ کر اس کا ہاتھ نہ پکڑیں (یعنی ظلم نہ روک دیں) تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا عذاب لوگوں پر عام کر دے۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 4006
وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ،‏‏‏‏ وَقَالَ:‏‏‏‏ لَا،‏‏‏‏ حَتَّى تَأْخُذُوا عَلَى يَدَيِ الظَّالِمِ،‏‏‏‏ فَتَأْطِرُوهُ عَلَى الْحَقِّ أَطْرًا.

ابوعبیدہ (عامر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر آپ بیٹھ گئے اور فرمایا: تم اس وقت تک عذاب سے محفوظ نہیں رہ سکتے جب تک کہ تم ظالم کو ظلم کرتے دیکھ کر اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے انصاف کرنے پر مجبور نہ کر دو ۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 5126
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلِمَةٌ لِأَخِيهِ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَيْءٍ مِنْهُ الْيَوْمَ قَبْلَ أَنْ لَا يَكُونَ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلِمَتِهِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ» . رَوَاهُ البُخَارِيّ

ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جس شخص پر اپنے (مسلمان) بھائی کا، اس کی عزت سے متعلق یا کسی اور چیز سے متعلق کوئی حق ہو تو وہ (دنیا میں)، اس سے معافی تلافی کروا لے قبل اس کے کہ وہ دن آ جائے جب اس کے پاس درہم و دینار نہیں ہوں گے، اگر اس کے پاس عمل صالح ہوں گے تو وہ اس سے اس کے ظلم کے بقدر لے لیے جائیں گے، اور اگر اس کی نیکیاں نہیں ہوں گی تو حق دار کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیے جائیں گے۔‘‘ رواہ البخاری۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 5129
وَعَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَكُونُوا إِمَّعَةً تَقُولُونَ: إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَحْسَنَّا وَإِنْ ظَلَمُوا ظَلَمْنَا وَلَكِنْ وَطِّنُوا أَنْفُسَكُمْ إِنْ أَحْسَنَ النَّاسُ أَنْ تُحْسِنُوا وإِن أساؤوا فَلَا تظلموا . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ. وَيصِح وَقفه على ابْن مَسْعُود

حذیفہ ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ امّعہ نہ بنو، (وہ اس طرح کہ) تم کہو: اگر لوگوں نے اچھا سلوک کیا تو ہم بھی اچھا سلوک کریں گے، اور اگر انہوں نے ظلم کیا تو ہم بھی ظلم کریں گے، بلکہ تم اپنے آپ سے عزم کرو کہ اگر لوگوں نے اچھا سلوک کیا تو تم بھی اچھا سلوک کرو گے اور اگر انہوں نے برا سلوک کیا تو تم ظلم نہیں کرو گے۔‘‘ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔

عدل و انصاف:

العدالۃ و المعادلۃ: لفظ یقتضی معنی المساواۃ۔ فان العدل ھو المساواۃ فی المکافاۃ ان خیرا فخیر، و ان شرا فشر۔ و الاحسان ان یقابل الخیر باکثر منہ، و الشر باقل منہ۔ (المفردات، راغب اصفہانی)

العدالۃ و المعادلۃ کے لفظ میں مساوات کے معنی پائے جاتے ہیں۔ کسی چیز کے برابر اس کا بدلہ دینے کا نام عدل ہے یعنی نیکی کا بدلہ نیکی سے اور برائی کا بدلہ برائی سے۔ نیکی کے مقابلے میں زیادہ نیکی اور برائی کے مقابلے میں مساحمت سے کام لینے کو احسان کہتے ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 16 النحل، آیت نمبر 90
اِنَّ اللّٰهَ يَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَالۡاِحۡسَانِ وَاِيۡتَآىِٕ ذِى الۡقُرۡبٰى وَيَنۡهٰى عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَالۡمُنۡكَرِ وَالۡبَغۡىِ‌ۚ يَعِظُكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَذَكَّرُوۡنَ ۞
بیشک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے اور قرابت داروں کو دیتے رہنے کا اور بے حیائی اور برے کاموں اور سرکشی و نافرمانی سے منع فرماتا ہے، وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے تاکہ تم خوب یاد رکھو،

القرآن – سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 8
وَلَا يَجۡرِمَنَّكُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰٓى اَ لَّا تَعۡدِلُوۡا‌ ؕ اِعۡدِلُوۡا هُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰى‌۔
اور کسی قوم کی سخت دشمنی (بھی) تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم (اس سے) عدل نہ کرو۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 58
وَاِذَا حَكَمۡتُمۡ بَيۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡكُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ‌ ؕ
اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔

احسان:

الاحسان فوق العدل۔ و ذاک ان العدل ھو ان یعطی ما علیہ، و یاخذ ما لہ۔ و الاحسان ان یعطی اکثر مما علیہ و یاخذ اقل مما لہ۔ فا لاحسان زائد علی العدل فتحری العدل واجب و تحری الاحسان ندب و تطوع۔ (المفردات، راغب اصفہانی)

احسان عدل سے بڑھ کر ہے۔ کیونکہ دوسرے کا حق پورا ادا کرنا اور اپنا حق پورا لینے کا نام عدل ہے۔ اور احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے۔ لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا واجب ہے مگر احسان مندوب (یعنی فرض سے تجاوز کر کے تطوع بجا لانا) ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 55 الرحمن، آیت نمبر 60
هَلۡ جَزَآءُ الْاِحۡسَانِ اِلَّا الۡاِحۡسَانُ‌ۚ ۞
احسان کا بدلہ احسان کے سوا کچھ نہیں ہے۔

وبالوالدین احساناً

القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 134
الَّذِيۡنَ يُنۡفِقُوۡنَ فِى السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ وَالۡكٰظِمِيۡنَ الۡغَيۡظَ وَالۡعَافِيۡنَ عَنِ النَّاسِ‌ؕ وَاللّٰهُ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ‌ۚ ۞
یہ وہ لوگ ہیں جو فراخی اور تنگی (دونوں حالتوں) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں، اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 29 العنكبوت، آیت نمبر 69
وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الۡمُحۡسِنِيۡنَ۞
اور بیشک اﷲ صاحبانِ احسان کو اپنی معیّت سے نوازتا ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 195
اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ ۞
بیشک اﷲ نیکوکاروں سے محبت فرماتا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 91
مَا عَلَى الۡمُحۡسِنِيۡنَ مِنۡ سَبِيۡلٍ‌ؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌۙ‏ ۞
نیکوکاروں (یعنی صاحبانِ احسان) پر الزام کی کوئی راہ نہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 125
وَمَنۡ اَحۡسَنُ دِيۡنًا مِّمَّنۡ اَسۡلَمَ وَجۡهَهٗ لِلّٰهِ وَهُوَ مُحۡسِنٌ۔
اور دینی اعتبار سے اُس شخص سے بہتر کون ہو سکتا ہے جس نے اپنا رُوئے نیاز اللہ کے لئے جھکا دیا اور وہ صاحبِ احسان بھی ہوا۔

ہلاکت و تباہی سے بچنے کا طریق بھی ‘احسان’ ہے:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 195
وَاَنۡفِقُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَلَا تُلۡقُوۡا بِاَيۡدِيۡكُمۡ اِلَى التَّهۡلُكَةِ ۖ ۛۚ وَاَحۡسِنُوۡا ۛۚ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ ۞
اور اﷲ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور نیکی اختیار کرو، بیشک اﷲ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہر شخص پر ہر عمل میں احسان کو واجب قرار دیا گیا ہے۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 5055
حضرت شداد بن اوس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ کَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلَی کُلِّ شَيْئٍ فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ وَلْيُحِدَّ أَحَدُکُمْ شَفْرَتَهُ فَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ۔
اللہ تعالیٰ نے ہر کام میں احسان فرض کیا ہے۔ جب بھی تم قتل کرو تو اچھی طرح قتل کرو اور جب بھی تم ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو اور تم میں سے ایک کو چاہئے کہ اپنی چھری کو تیز کرے اور اپنے جانور کو آرام دے۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 175
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُحْسِنْ إِلَی جَارِهِ۔
جو شخص اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے ہمسائے کے ساتھ احسان سے پیش آئے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1987
حضرت ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اتَّقِ اللَّهِ حَيْثُمَا كُنْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَتْبِعِ السَّيِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا، ‏‏‏‏‏‏وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ۔
تم جہاں بھی ہو اللہ سے ڈرتے رہو، گناہ کے بعد نیکی کیا کرو، وہ اسے مٹا دے گی اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آیا کرو۔

محرم الحرام 1445ھ

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 6135
سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں،
لَمَّا نزلت هَذِه الْآيَة [ندْعُ أبناءنا وأبناءكم] دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ: «اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أهل بَيْتِي» رَوَاهُ مُسلم

جب یہ آیت (نَدْعُ اَبْنَاءَ نَا وَ اَبْنَاءَ کُمْ) نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین ؓ کو بلایا اور فرمایا:’’ اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔‘‘ رواہ مسلم۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 6136
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں،
خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةً وَعَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ فَدَخَلَ مَعَهُ ثُمَّ جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَدْخَلَهَا ثُمَّ جَاءَ عَلَيٌّ فَأَدْخَلَهُ ثُمَّ قَالَ: [إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أهل الْبَيْت وَيُطَهِّركُمْ تَطْهِيرا] رَوَاهُ مُسلم

صبح کے وقت نبی ﷺ نکلے اس وقت آپ پر کالے بالوں سے بنی ہوئی نقش دار چادر تھی، اس دوران حسن بن علی ؓ تشریف لائے تو آپ نے انہیں اپنے ساتھ اس (چادر) میں داخل فرما لیا، پھر حسین ؓ آئے تو آپ نے انہیں بھی داخل فرما لیا، پھر فاطمہ ؓ آئیں تو آپ نے انہیں بھی داخل فرما لیا، پھر علی ؓ تشریف لائے تو آپ نے انہیں بھی داخل فرما لیا، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:’’ اللہ صرف یہی چاہتا ہے، اے اہل بیت! کہ وہ تم سے گناہ کی گندگی دور فرما دے اور تمہیں مکمل طور پر پاک صاف کر دے۔‘‘ رواہ مسلم۔

قرآن اور اہل سے جڑنے کی ترغیب:

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 6140
زید بن ارقم ؓ بیان کرتے ہیں، ایک روز مکہ اور مدینہ کے درمیان پانی کی جگہ پر خم نامی مقام پر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا، آپ ﷺ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، وعظ و نصیحت کی پھر فرمایا:’’

أمَّا بعدُ أَلا أيُّها النَّاس فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَنِي رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ: أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللَّهِ وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ وَرَغَّبَ فِيهِ ثُمَّ قَالَ: «وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي»

امابعد! لوگو! سنو! میں بھی انسان ہوں، قریب ہے کہ میرے رب کا قاصد آئے اور میں اس کی بات قبول کر لوں، میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، ان دونوں میں سے پہلی چیز اللہ کی کتاب ہے، اس میں ہدایت اور نور ہے، تم اللہ کی کتاب کو پکڑو اور اس سے تمسک اختیار کرو۔‘‘ آپ نے اللہ کی کتاب (پر عمل کرنے) پر ابھارا اور اس کے متعلق ترغیب دلائی، پھر فرمایا:’’ (دوسری چیز) میرے اہل بیت، میں اپنے اہل بیت کے متعلق تمہیں اللہ سے ڈراتا ہوں، اپنے اہل بیت کے متعلق میں تمہیں اللہ سے ڈراتا ہوں۔‘‘ رواہ مسلم۔

جنتی جوانوں کے سردار:

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 6163
ابوسعید ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شباب أهل الْجنَّة» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
حسن و حسین اہل جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ صحیح، رواہ الترمذی۔

محبت حسن و حسین باعث محبت خدا و مصطفیٰ ہے:

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 6165
وَعَن\nأسامةَ بنِ زيدٍ قَالَ: طَرَقْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي بَعْضِ الْحَاجَةِ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُشْتَمِلٌ عَلَى شَيْء وَلَا أَدْرِي مَا هُوَ فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنْ حَاجَتِي قُلْتُ: مَا هَذَا الَّذِي أَنْتَ مُشْتَمِلٌ عَلَيْهِ؟ فَكَشَفَهُ فَإِذَا الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ عَلَى وَرِكَيْهِ. فَقَالَ: «هَذَانِ ابْنَايَ وَابْنَا ابْنَتِي اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُمَا فأحبهما وَأحب من يحبهما» رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ

ترجمہ:
اسامہ بن زید ؓ بیان کرتے ہیں، ایک رات کسی ضرورت کے تحت میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، نبی ﷺ باہر تشریف لائے تو آپ کسی چیز کو چھپائے ہوئے تھے، میں نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا چیز تھی؟ جب میں اپنے کام سے فارغ ہوا تو میں نے عرض کیا: آپ نے یہ کیا چیز چھپا رکھی ہے؟ آپ نے کپڑا اٹھایا تو آپ کے دونوں کولہوں پر حسن و حسین ؓ تھے، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ یہ دونوں میرے بیٹے ہیں، اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں، اے اللہ! میں انہیں محبوب رکھتا ہوں، تو بھی ان سے محبت فرما، اور ان سے محبت رکھنے والے سے بھی محبت فرما۔‘‘ صحیح، رواہ الترمذی۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 6169
وَعَن يعلى بن مرَّة قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا حُسَيْنٌ سِبَطٌ مِنَ الأسباط» رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ\n

یعلی بن مرہ ؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں، جو شخص حسین سے محبت کرتا ہے تو اللہ اس سے محبت کرے اور حسین میری اولاد سے ہیں۔‘‘ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی۔

اہل بیت کی محبت راہ نجات ہے:

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 6183
ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: اس حال میں کہ وہ کعبہ کے دروازے کو پکڑے ہوئے تھے، میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:’’
أَلَا إِنَّ مِثْلَ أَهْلِ بَيْتِي فِيكُمْ مِثْلُ سَفِينَةِ نُوحٍ مَنْ رَكِبَهَا نَجَا وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا هلك» . رَوَاهُ أَحْمد

سن لو! تم میں میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہو گیا وہ نجات پا گیا اور جو اس سے رہ گیا وہ ہلاک ہو گیا۔‘‘

شہادتِ حسین علیہ السلام کی خبر حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود دی ہے:

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 6180
ام الفضل بنت حارث ؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا:

اللہ کے رسول! میں نے رات ایک عجیب سا خواب دیکھا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ وہ کیا ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: وہ بہت شدید ہے، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ وہ کیا ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: میں نے دیکھا کہ گویا گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جو آپ کے جسم اطہر سے کاٹ کر میری گود میں رکھ دیا گیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ تم نے خیر دیکھی ہے، ان شاء اللہ فاطمہ بچے کو جنم دیں گی اور وہ تمہاری گود میں ہو گا۔‘‘ فاطمہ ؓ نے حسین ؓ کو جنم دیا اور وہ میری گود میں تھا جیسے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا۔ ایک روز میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے حسین ؓ کو آپ کی گود میں رکھ دیا۔ پھر میں کسی اور طرف متوجہ ہو گئی، اچانک دیکھا تو رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، وہ بیان کرتی ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے نبی! میرے والدین آپ پر قربان ہوں! آپ کو کیا ہوا؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ جبریل ؑ میرے پاس تشریف لائے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ میری امت عنقریب میرے اس بیٹے کو شہید کر دے گی۔ میں نے کہا: اس (بچے) کو؟ انہوں نے کہا: ہاں! اور انہوں نے مجھے اس (جگہ) کی سرخ مٹی لا کر دی۔‘‘ اسنادہ ضعیف، رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ۔

جامع ترمذی, حدیث نمبر: 3771
حضرت سلمیٰ کہتی ہیں:

قَالَتْ:‏‏‏‏ دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَوَهِيَ تَبْكِي، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَا يُبْكِيكِ ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعْنِي فِي الْمَنَامِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلَى رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ التُّرَابُ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَا لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ شَهِدْتُ قَتْلَ الْحُسَيْنِ آنِفًا. قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا غَرِيبٌ.

میں ام المؤمنین ام سلمہ ؓ کے پاس آئی، وہ رو رہی تھیں، میں نے پوچھا: آپ کیوں رو رہی ہیں؟ وہ بولیں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے (یعنی خواب میں) آپ کے سر اور داڑھی پر مٹی تھی، تو میں نے عرض کیا: آپ کو کیا ہوا ہے؟ اللہ کے رسول! تو آپ نے فرمایا: میں نے حسین کا قتل ابھی ابھی دیکھا ہے ۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 6181
ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:

میں نے ایک روز نصف النہار کے وقت نبی ﷺ کو خواب میں دیکھا کہ آپ کے بال پراگندہ ہیں اور جسم اطہر غبار آلود ہے، آپ کے ہاتھ میں خون کی بوتل ہے، میں نے عرض کیا، میرے والدین آپ پر قربان ہوں، یہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ یہ حسین اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے، میں آج صبح سے اسے اکٹھا کر رہا ہوں۔‘‘ میں نے اس وقت کو یاد رکھا اور بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ اسی وقت انہیں شہید کیا گیا تھا۔ دونوں احادیث کو بیہقی نے دلائل النبوۃ میں روایت کیا ہے اور آخری حدیث کو امام احمد نے بھی روایت کیا ہے۔ اسنادہ حسن، رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ و احمد۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3778
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ:

میں عبیداللہ بن زیاد کے پاس تھا کہ حسین ؓ کا سر لایا گیا تو وہ ان کی ناک میں اپنی چھڑی مار کر کہنے لگا میں نے اس جیسا حسین کسی کو نہیں دیکھا۔ تو میں نے کہا: سنو یہ اہل بیت میں رسول اللہ ﷺ سے سب سے زیادہ مشابہ تھے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3770
عبدالرحمٰن بن ابی نعم سے روایت ہے کہ اہل عراق کے ایک شخص نے ابن عمر ؓ سے مچھر کے خون کے بارے میں پوچھا جو کپڑے میں لگ جائے کہ اس کا کیا حکم ہے؟ تو ابن عمر ؓ نے کہا:

انْظُرُوا إِلَى هَذَا يَسْأَلُ عَنْ دَمِ الْبَعُوضِ وَقَدْ قَتَلُوا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، ‏‏‏‏‏‏وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ هُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْيَا . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا صَحِيحٌ۔

اس شخص کو دیکھو یہ مچھر کے خون کا حکم پوچھ رہا ہے! حالانکہ انہیں لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے نواسہ کو شہید کیا ہے، اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: حسن اور حسین ؓ یہ دونوں میری دنیا کے پھول ہیں ۔

صلہ رحمی

صلہ رحمی سے مراد ہے رشتوں کو جوڑنا، رشتوں کا احترام کرنا، رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنا وغیرہ۔

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء, آیت نمبر 36
وَاعۡبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشۡرِكُوۡا بِهٖ شَيۡـئًـا‌ ؕ وَّبِالۡوَالِدَيۡنِ اِحۡسَانًا وَّبِذِى الۡقُرۡبٰى وَالۡيَتٰمٰى وَ الۡمَسٰكِيۡنِ وَالۡجَـارِ ذِى الۡقُرۡبٰى وَالۡجَـارِ الۡجُـنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالۡجَـنۡۢبِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِ ۙ وَمَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُكُمۡ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنۡ كَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا ۞
اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)، بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہو،

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3253
يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، ‏‏‏‏‏‏وَصِلُوا الْأَرْحَامَ، ‏‏‏‏‏‏وَصَلُّوا بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ، ‏‏‏‏‏‏تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ.
عبداللہ بن سلام ؓ کہتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: لوگو! سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، رشتوں کو جوڑو، اور رات میں جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز ادا کرو، (ایسا کرنے سے) تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو گے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5982
قِيلَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ:‏‏‏‏ تَعْبُدُ اللَّهَ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ، ‏‏‏‏‏‏وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، ‏‏‏‏‏‏وَتَصِلُ الرَّحِمَ ذَرْهَا۔
ایک صاحب نے کہا: یا رسول اللہ! کوئی ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت میں لے جائے۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اللہ کی عبادت کر اور اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کر، نماز قائم کر، زکوٰۃ دیتے رہو اور صلہ رحمی کرتے رہو۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5991
حضرت حسن بن عمرو اور فطر بن خلیفہ نبی مکرم ﷺ سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنِ الْوَاصِلُ الَّذِي إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا.
کسی کام کا بدلہ دینا صلہ رحمی نہیں ہے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ نہ کیا جا رہا ہو تب بھی وہ صلہ رحمی کرے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5989
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
الرَّحِمُ شِجْنَةٌ فَمَنْ وَصَلَهَا وَصَلْتُهُ وَمَنْ قَطَعَهَا قَطَعْتُهُ.
رحم (رشتہ داری رحمن سے ملی ہوئی) شاخ ہے جو شخص اس سے ملے میں اس سے ملتا ہوں اور جو اس سے قطع تعلق کرے میں اس سے قطع تعلق کرتا ہوں۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5988
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الرَّحِمَ شَجْنَةٌ مِنَ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ اللَّهُ:‏‏‏‏ مَنْ وَصَلَكِ وَصَلْتُهُ وَمَنْ قَطَعَكِ قَطَعْتُهُ.
رحم کا تعلق رحمن سے جڑا ہوا ہے پس جو کوئی اس سے اپنے آپ کو جوڑتا ہے اللہ پاک نے فرمایا کہ میں بھی اس کو اپنے سے جوڑ لیتا ہوں اور جو کوئی اسے توڑتا ہے میں بھی اپنے آپ کو اس سے توڑ لیتا ہوں۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5986
حضرت انس بن مالک ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ وَيُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ.
جو چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی عمردراز ہو تو وہ صلہ رحمی کیا کرے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5984
حضرت جبیر بن مطعم ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعٌ.
قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔

مسند احمد، حدیث نمبر: 1594
فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنَا اللَّهُ وَأَنَا الرَّحْمَنُ خَلَقْتُ الرَّحِمَ وَشَقَقْتُ لَهَا مِنْ اسْمِي فَمَنْ وَصَلَهَا وَصَلْتُهُ وَمَنْ قَطَعَهَا بَتَتُّهُ
حضرت عبدالرحمن ؓ نے فرمایا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں رحمان ہوں، میں نے رحم کو پیدا کیا ہے اور اسے اپنے نام سے نکالا ہے، جو اسے جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا اور جو اسے توڑے گا، میں اسے توڑ کر پاش پاش کردوں گا۔

صلہ رحمی کیوں کریں ؟

1: اس لیے کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے۔
2: نیت اللہ اور اس کے رسول کی رضا و خوشنودی رکھیں
3: نفس کا تزکیہ و تربیت
4: انسان صاحب احسان بن جاتا ہے
5: دنیا میں فائدہ: اس سے آپ کی عمر اور رزق میں اللہ برکت پیدا کر دے گا
6: آخرت کا فائدہ: یہ جنت میں لے جانے والا عمل ہے

قربانی کی فضیلت اور احکام

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3123
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ وَلَمْ يُضَحِّ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا.
جس شخص کو (قربانی کی) وسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے، تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے ۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3121
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں:
ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عِيدٍ بِكَبْشَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ حِينَ وَجَّهَهُمَا:‏‏‏‏ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ.
رسول اللہ ﷺ نے عید الاضحی کے دن دو مینڈھوں کی قربانی کی، اور جس وقت ان کا منہ قبلے کی طرف کیا تو فرمایا: إني وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض حنيفا وما أنا من المشرکين إن صلاتي ونسکي ومحياي ومماتي لله رب العالمين لا شريك له وبذلک أمرت وأنا أول المسلمين اللهم منک ولک عن محمد وأمته میں اپنا رخ اس ذات کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں، بیشک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور مرنا سب اللہ ہی کے لیے ہے، جو سارے جہان کا رب ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور مجھے اسی کا حکم ہے اور سب سے پہلے میں اس کے تابعداروں میں سے ہوں، اے اللہ! یہ قربانی تیری ہی طرف سے ہے، اور تیرے ہی واسطے ہے، محمد اور اس کی امت کی طرف سے اسے قبول فرما۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5569
حضرت سلمہ بن الاکوع ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ ضَحَّى مِنْكُمْ فَلَا يُصْبِحَنَّ بَعْدَ ثَالِثَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَبَقِيَ فِي بَيْتِهِ مِنْهُ شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَفْعَلُ كَمَا فَعَلْنَا عَامَ الْمَاضِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُلُوا، ‏‏‏‏‏‏وَأَطْعِمُوا، ‏‏‏‏‏‏وَادَّخِرُوا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ ذَلِكَ الْعَامَ كَانَ بِالنَّاسِ جَهْدٌ فَأَرَدْتُ أَنْ تُعِينُوا فِيهَا.
جس نے تم میں سے قربانی کی تو تیسرے دن وہ اس حالت میں صبح کرے کہ اس کے گھر میں قربانی کے گوشت میں سے کچھ بھی باقی نہ ہو۔ دوسرے سال صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم اس سال بھی وہی کریں جو پچھلے سال کیا تھا۔ (کہ تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت بھی نہ رکھیں) ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اب کھاؤ، کھلاؤ اور جمع کرو۔ پچھلے سال تو چونکہ لوگ تنگی میں مبتلا تھے، اس لیے میں نے چاہا کہ تم لوگوں کی مشکلات میں ان کی مدد کرو۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5438
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ روایت کرتی ہیں:
مَا فَعَلَهُ إِلَّا فِي عَامٍ جَاعَ النَّاسُ أَرَادَ أَنْ يُطْعِمَ الْغَنِيُّ الْفَقِيرَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كُنَّا لَنَرْفَعُ الْكُرَاعَ بَعْدَ خَمْسَ عَشْرَةَ وَمَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خُبْزِ بُرٍّ مَأْدُومٍ ثَلَاثًا.
نبی کریم ﷺ نے ایسا کبھی نہیں کیا کہ تین دن سے زیادہ گوشت قربانی والا رکھنے سے منع فرمایا ہو۔ صرف اس سال یہ حکم دیا تھا جس سال قحط کی وجہ سے لوگ فاقے میں مبتلا تھے۔ مقصد یہ تھا کہ جو لوگ غنی ہیں وہ گوشت محتاجوں کو کھلائیں (اور جمع کر کے نہ رکھیں) اور ہم تو بکری کے پائے محفوظ کر کے رکھ لیتے تھے اور پندرہ دن بعد تک (کھاتے تھے) اور آل محمد ﷺ نے کبھی سالن کے ساتھ گیہوں کی روٹی تین دن تک برابر سیر ہو کر نہیں کھائی۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 965
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ فِي يَوْمِنَا هَذَا أَنْ نُصَلِّيَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ نَحَرَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَإِنَّمَا هُوَ لَحْمٌ قَدَّمَهُ لِأَهْلِهِ لَيْسَ مِنَ النُّسْكِ فِي شَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ أَبُو بُرْدَةَ بْنُ نِيَارٍ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَبَحْتُ وَعِنْدِي جَذَعَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُسِنَّةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اجْعَلْهُ مَكَانَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَنْ تُوفِيَ أَوْ تَجْزِيَ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ.
ہم اس دن پہلے نماز پڑھیں گے پھر خطبہ کے بعد واپس ہو کر قربانی کریں گے۔ جس نے اس طرح کیا اس نے ہماری سنت کے مطابق عمل کیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کی تو اس کا ذبیحہ گوشت کا جانور ہے جسے وہ گھر والوں کے لیے لایا ہے، قربانی سے اس کا کوئی بھی تعلق نہیں۔ ایک انصاری ؓ جن کا نام ابوبردہ بن نیار تھا بولے کہ یا رسول اللہ ﷺ میں نے تو (نماز سے پہلے ہی) قربانی کردی لیکن میرے پاس ایک سال کی پٹھیا ہے جو دوندی ہوئی بکری سے بھی اچھی ہے۔ آپ نے ﷺ فرمایا کہ اچھا اسی کو بکری کے بدلہ میں قربانی کرلو اور تمہارے بعد یہ کسی اور کے لیے کافی نہ ہوگی۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1707
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم روایت کرتے ہیں:
أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِجِلَالِ الْبُدْنِ الَّتِي نَحَرْتُ وَبِجُلُودِهَا.
مجھے رسول اللہ ﷺ نے ان قربانی کے جانوروں کے جھول اور ان کے چمڑے کو صدقہ کرنے کا حکم دیا تھا جن کی قربانی میں نے کردی تھی۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 929
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ وَقَفَتِ الْمَلَائِكَةُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ يَكْتُبُونَ الْأَوَّلَ فَالْأَوَّلَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَثَلُ الْمُهَجِّرِ كَمَثَلِ الَّذِي يُهْدِي بَدَنَةً ثُمَّ كَالَّذِي يُهْدِي بَقَرَةً ثُمَّ كَبْشًا ثُمَّ دَجَاجَةً ثُمَّ بَيْضَةً، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ طَوَوْا صُحُفَهُمْ وَيَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ.
جب جمعہ کا دن آتا ہے تو فرشتے جامع مسجد کے دروازے پر آنے والوں کے نام لکھتے ہیں، سب سے پہلے آنے والا اونٹ کی قربانی دینے والے کی طرح لکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد آنے والا گائے کی قربانی دینے والے کی طرح پھر مینڈھے کی قربانی کا ثواب رہتا ہے۔ اس کے بعد مرغی کا، اس کے بعد انڈے کا۔ لیکن جب امام (خطبہ دینے کے لیے) باہر آجاتا ہے تو یہ فرشتے اپنے دفاتر بند کردیتے ہیں اور خطبہ سننے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔

صلہ رحمی اور رزق میں برکت

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5986
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ وَيُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ.

جو چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی عمردراز ہو تو وہ صلہ رحمی کیا کرے۔

حضرت حسن بن عمرو اور فطر بن خلیفہ نبی مکرم ﷺ سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنِ الْوَاصِلُ الَّذِي إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا. (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5991)

کسی کام کا بدلہ دینا صلہ رحمی نہیں ہے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ نہ کیا جا رہا ہو تب بھی وہ صلہ رحمی کرے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5989
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
الرَّحِمُ شِجْنَةٌ فَمَنْ وَصَلَهَا وَصَلْتُهُ وَمَنْ قَطَعَهَا قَطَعْتُهُ.

رحم (رشتہ داری رحمن سے ملی ہوئی) شاخ ہے جو شخص اس سے ملے میں اس سے ملتا ہوں اور جو اس سے قطع تعلق کرے میں اس سے قطع تعلق کرتا ہوں۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5988
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الرَّحِمَ شَجْنَةٌ مِنَ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ اللَّهُ:‏‏‏‏ مَنْ وَصَلَكِ وَصَلْتُهُ وَمَنْ قَطَعَكِ قَطَعْتُهُ.
رحم کا تعلق رحمن سے جڑا ہوا ہے پس جو کوئی اس سے اپنے آپ کو جوڑتا ہے اللہ پاک نے فرمایا کہ میں بھی اس کو اپنے سے جوڑ لیتا ہوں اور جو کوئی اسے توڑتا ہے میں بھی اپنے آپ کو اس سے توڑ لیتا ہوں۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5984
حضرت جبیر بن مطعم ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعٌ.
قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔

مضامینِ سورۃ البقرہ کا مختصر خلاصہ اور فضائلِ سورۃ البقرہ

سورۃ البقرہ قرآنِ مجید کی سب سے بڑی سورت ہے اور اس کی کل آیات 286 ہیں۔ یہ مدنی سورتوں میں سے ہے اور ہجرتِ مدینہ کے بعد نازل ہونے والی پہلی سورت ہے (بیان القرآن، منہاج القرآن)۔ اس سورت میں علوم و معارف اور احکام کثرت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ اس سورت کی فضیلت کے بارے میں حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2877
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقَابِرَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ الْبَيْتَ الَّذِي تُقْرَأُ فِيهِ الْبَقَرَةُ لَا يَدْخُلُهُ الشَّيْطَانُ۔ ‏‏‏‏‏‏(قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ)
اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔ وہ گھر جس میں سورة البقرہ پڑھی جاتی ہے اس میں شیطان داخل نہیں ہوتا ۔

اس سورت کے کثیر الجہتی مضامین کا مختصر خلاصہ مندرجہ ذیل نکات میں ملاحظہ فرمائیں:

1) ہدایتِ ربانی کا قرآنی ضابطۂِ اخلاق (آیت 1-2)
2) مختلف انسانی طبقات (متقین، کفار، منافقین، فاسقین، خاشعین، محسنین وغیرہ) کی علامات و خصوصیات کا بیان
3) تخلیقِ آدم علیہ السلام اور منصبِ خلافت کا بیان (آیت 30 ۔۔۔)
4) بنی اسرائیل پر ہونے والی نعمتوں، ان کی نافرمانیوں اور اس کے نتیجے میں ان کے دائمی غضبِ الٰہی کے حقدار ٹھہرنے کا بیان (آیت 40 ۔۔۔)
5) حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ملتِ ابراہیم علیہ السلام کی آزمائشوں اور ان پر ہونے والی نوازشات کا تذکرہ (آیت 124 ۔۔۔)
6) تحویلِ قبلہ (قبلہ کی تبدیلی) کا واقعہ (آیات 142-152)
7) اہلِ ایمان کے لیے خصوصی ہدایات، رہنمائی اور احکام مثلاً:
8) نماز و صبر سے مدد طلب کرنا (آیت 153)
9) تفکر و تدبر کا بیان (آیت 164)
10) عشق و محبت کا بیان (آیت 165)
11) شیطانی امور، برائی، بے حیائ اور نفسانی خواہشات سے بچنا (آیات 168-169)
12) حرام چیزوں کی وضاحت اور ان سے بچنے کا حکم (آیت 173)
13) نیکی کے حقیقی تصور کی وضاحت (آیت 177)
14) قصاص و وصیت کے احکام (آیات 178 ۔۔۔)
15) روزہ اور اس کے احکام (آیات 183 ۔۔۔)
16) رشوت کی ممانعت (آیت 188)
17) جہاد فی سبیل اللہ کے احکام (آیت 190 ۔۔۔)
18) حج و عمرہ کے احکام (آیات 196-203)
19) اسلام میں پورے کا پورا داخل ہونا (آیت 208)
20) شراب و جوئے کی حرمت و ممانعت (آیت 219)
21) نکاح، خلع، طلاق و حیض کے احکام (آیات 221-242)
22) آیت الکرسی (آیات کی سردار)
23) حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت عزیر علیہ السلام کے واقعات کا تذکرہ (آیات 258-260)
24) انفاق فی سبیل اللہ، قرضِ حسنہ، کتابتِ لین دین، گواہی، اور سود کی حرمت کے احکام (آیات 261-282)
25) خواتیمِ سورۃ البقرہ (عقائد و دعائیں) کا بیان

چند واقعاتِ بنی اسرائیل کا تذکرہ:

1) فرعون کے مظالم اور ان سے نجات کا بیان (آیت 49 ۔۔۔)
2) حضرت موسیٰ علیہ السلام کا کوہِ طور پر جانا اور قوم کی بچھڑا پرستی (آیت 51 ۔۔۔)
3) من و سلویٰ جیسی نعمتوں کا اترنا (آیت 57)
4) پارہ چشموں کا پھوٹنا (آیت 60 ۔۔۔)
5) ہفتے کے دن کے احکام کی نافرمانی اور سزا (آیت 65 ۔۔۔)
6) گائے (بقرہ) کے ذبح کا واقعہ (ایک قول کے مطابق یہی اس سورت کی وجہِ تسمیہ ہے) (آیت 67 ۔۔۔)
7) تذکرہ سلیمان علیہ السلام اور ہاروت و ماروت (آیت 102)
8) واقعۂِ طالوت و جالوت (آیت 346 ۔۔۔)

متقین کی علامات و صفات (آیات 3,4):

1) ایمان بالغیب
2) اقامتِ صلوٰۃ
3) انفاق فی سبیل اللہ
4) ایمان بالوحی
5) آخرت پر یقین

منافقین کی علامات و صفات (آیات 20-8):

1) اقرار باللسان کے ساتھ تصدیق بالقلب کی عدم موجودگی
2) تعلقِ نبوت کی ضرورت و حاجت کا انکار
3) دھوکہ و مکر و فریب
4) جھوٹ بولنا
5) فساد انگیزی
6) کردار کا دوغلہ پن
7) صرف خود کو مصلح اور دوسروں کو بے وقوف سمجھنا
8) حق اور اہلِ حق کی مخالفت، استہزاء اور تحقیر (سازشیں کرنا)
9) تنگ نظری، تعصب اور عناد
10) مفاد پرستی (مصائب و تکالیف سے کترانا اور مفادات کے لیے ساتھ دینا)

چند اصولی احکامات:

1) علی الموسع قدرہ و علی المقتر قدرہ۔ صاحبِ وسعت پر اس کی حیثیت کے مطابق دینا واجب ہے جبکہ تنگدست پر اس کی حیثیت کے مطابق۔ (آیت 236)

2) فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ۔ تھوڑی جماعت بڑی جماعت پر غالب آ جاتی ہے اللہ کے اذن سے۔ (آیت 249)

3) لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا۔ اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ (آیت 286)

4) انسان کی عظمت و شرف کا راز علم میں ہے۔ (آیت 31)

ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول اس سورت میں ایک ہزار اوامر، ایک ہزار نواہی، ایک ہزار حکمتیں اور ایک ہزار اخبار و قصص بیان ہوئے ہیں (قرطبی، ابنِ کثیر)

فضائلِ سورۃ البقرہ:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2878
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لِكُلِّ شَيْءٍ سَنَامٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ سَنَامَ الْقُرْآنِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَفِيهَا آيَةٌ هِيَ سَيِّدَةُ آيِ الْقُرْآنِ هِيَ آيَةُ الْكُرْسِيِّ۔
ہر چیز کی ایک چوٹی ہوتی ہے۔ اور قرآن کی چوٹی سورة البقرہ ہے، اس سورة میں ایک آیت ہے یہ قرآن کی ساری آیتوں کی سردار ہے اور یہ آیت آیۃ الکرسی ہے ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2879
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ قَرَأَ حم الْمُؤْمِنَ إِلَى إِلَيْهِ الْمَصِيرُ ، ‏‏‏‏‏‏وَآيَةَ الْكُرْسِيِّ حِينَ يُصْبِحُ، ‏‏‏‏‏‏حُفِظَ بِهِمَا حَتَّى يُمْسِيَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ قَرَأَهُمَا حِينَ يُمْسِي حُفِظَ بِهِمَا حَتَّى يُصْبِحَ۔
جس نے سورة مومن کی (ابتدائی تین آیات) «حم» سے «إليه المصير» تک اور آیت الکرسی صبح ہی صبح (بیدار ہونے کے بعد ہی) پڑھی تو ان دونوں کے ذریعہ شام تک اس کی حفاظت کی جائے گی، اور جس نے ان دونوں کو شام ہوتے ہی پڑھا تو ان کے ذریعہ اس کی صبح ہونے تک حفاظت کی جائے گی ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2881
ابومسعود انصاری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ قَرَأَ الْآيَتَيْنِ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ فِي لَيْلَةٍ كَفَتَاهُ۔ ‏‏‏‏‏‏(قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ)
جس نے رات میں سورة البقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھیں وہ اس کے لیے کافی ہوگئیں۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2882
نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ كِتَابًا قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ بِأَلْفَيْ عَامٍ أَنْزَلَ مِنْهُ آيَتَيْنِ خَتَمَ بِهِمَا سُورَةَ الْبَقَرَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَقُولُ فِي دَارٍ ثَلَاثَ لَيَالٍ فَيَقْرَبُهَا شَيْطَانٌ۔ ‏‏‏‏‏‏(قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ)
اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے دو ہزار سال پہلے ایک کتاب لکھی، اس کتاب کی دو آیتیں نازل کیں اور انہیں دونوں آیتوں پر سورة البقرہ کو ختم کیا، جس گھر میں یہ دونوں آیتیں (مسلسل) تین راتیں پڑھی جائیں گی ممکن نہیں ہے کہ شیطان اس گھر کے قریب آسکے ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2876
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں:
بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَعْثًا وَهُمْ ذُو عَدَدٍ فَاسْتَقْرَأَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَاسْتَقْرَأَ كُلَّ رَجُلٍ مِنْهُمْ مَا مَعَهُ مِنَ الْقُرْآنِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَى عَلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ مِنْ أَحْدَثِهِمْ سِنًّا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا مَعَكَ يَا فُلَانُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ مَعِي كَذَا وَكَذَا وَسُورَةُ الْبَقَرَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَمَعَكَ سورة البقرة ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَاذْهَبْ فَأَنْتَ أَمِيرُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَشْرَافِهِمْ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مَا مَنَعَنِي أَنْ أَتَعَلَّمَ سورة البقرة إِلَّا خَشْيَةَ أَلَّا أَقُومَ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:‏‏‏‏ تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ وَاقْرَءُوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ مَثَلَ الْقُرْآنِ لِمَنْ تَعَلَّمَهُ فَقَرَأَهُ وَقَامَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏كَمَثَلِ جِرَابٍ مَحْشُوٍّ مِسْكًا يَفُوحُ رِيحُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمَثَلُ مَنْ تَعَلَّمَهُ فَيَرْقُدُ وَهُوَ فِي جَوْفِهِ، ‏‏‏‏‏‏كَمَثَلِ جِرَابٍ وُكِئَ عَلَى مِسْكٍ۔ ‏‏(قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ)
رسول اللہ ﷺ نے گنتی کے کچھ لشکری بھیجے (بھیجتے وقت) ان سے (قرآن) پڑھوایا، تو ان میں سے ہر ایک نے جسے جتنا قرآن یاد تھا پڑھ کر سنایا۔ جب ایک نوعمر نوجوان کا نمبر آیا تو آپ نے اس سے کہا: اے فلاں! تمہارے ساتھ کیا ہے یعنی تمہیں کون کون سی سورتیں یاد ہیں؟ اس نے کہا: مجھے فلاں فلاں اور سورة البقرہ یاد ہے۔ آپ نے کہا: کیا تمہیں سورة البقرہ یاد ہے؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: جاؤ تم ان سب کے امیر ہو ۔ ان کے شرفاء میں سے ایک نے کہا: اللہ کے رسول! قسم اللہ کی! میں نے سورة البقرہ صرف اسی ڈر سے یاد نہ کی کہ میں اسے (نماز تہجد میں) برابر پڑھ نہ سکوں گا۔ آپ نے فرمایا: قرآن سیکھو، اسے پڑھو اور پڑھاؤ۔ کیونکہ قرآن کی مثال اس شخص کے لیے جس نے اسے سیکھا اور پڑھا، اور اس پر عمل کیا اس تھیلی کی ہے جس میں مشک بھری ہوئی ہو اور چاروں طرف اس کی خوشبو پھیل رہی ہو، اور اس شخص کی مثال جس نے اسے سیکھا اور سو گیا اس کا علم اس کے سینے میں بند رہا۔ اس تھیلی کی سی ہے جو مشک بھر کر سیل بند کردی گئی ہو ۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1874
حضرت ابوامامہ باہلی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آپ ﷺ فرماتے ہیں:
اقْرَئُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لِأَصْحَابِهِ اقْرَئُوا الزَّهْرَاوَيْنِ الْبَقَرَةَ وَسُورَةَ آلِ عِمْرَانَ فَإِنَّهُمَا تَأْتِيَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ کَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ کَأَنَّهُمَا غَيَايَتَانِ أَوْ کَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ تُحَاجَّانِ عَنْ أَصْحَابِهِمَا اقْرَئُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَکَةٌ وَتَرْکَهَا حَسْرَةٌ وَلَا تَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ قَالَ مُعَاوِيَةُ بَلَغَنِي أَنَّ الْبَطَلَةَ السَّحَرَةُ۔
قرآن مجید پڑھا کرو کیونکہ یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لئے سفارشی بن کر آئے گا اور دو روشن سورتوں کو پڑھا کرو سورت البقرہ اور سورت آل عمران کیونکہ یہ قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جیسے کہ دو بادل ہوں یا دو سائبان ہوں یا دو اڑتے ہوئے پرندوں کی قطاریں ہوں اور وہ اپنے پڑھنے والوں کے بارے میں جھگڑا کریں گی، سورت البقرہ پڑھا کرو کیونکہ اس کا پڑھنا باعث برکت ہے اور اس کا چھوڑنا باعث حسرت ہے اور جادوگر اس کو حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآنِ مجید کو سیکھنے، سمجھنے، عمل کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے اور اعمال کو ہمارے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین