قرآنِ مجید یا دیگر علمی متون کے حفظ کا آسان ترین طریقۂِ کار

سب سے پہلے جو بھی سبق آپ نے یاد کرنا ہے اس کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر لیں۔ مثال کے طور پر اگر چار قرآنی آیات حفظ کرنی ہیں تو مندرجہ ذیل طریقہ کار کو اپنائیں:

1) پہلی آیت کو بیس مرتبہ زبانی یاد کریں۔
2) دوسری آیت کو بیس مرتبہ زبانی یاد کریں۔
3) پھر پہلی اور دوسری آیات کو ملا کر دس مرتبہ زبانی یاد کریں تاکہ دونوں آیات کا ربط و تعلق اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے۔
4) پھر تیسری آیت کو بیس مرتبہ زبانی یاد کریں۔
5) پھر دوسری اور تیسری آیات کو ملا کر دس مرتبہ زبانی یاد کریں تاکہ دونوں آیات کا ربط و تعلق اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے۔
6) پھر چوتھی آیت کو بیس مرتبہ زبانی یاد کریں۔
7) پھر تیسری اور چوتھی آیات کو ملا کر دس مرتبہ زبانی یاد کریں تاکہ دونوں آیات کا ربط و تعلق اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے۔
8) پھر آخر میں چاروں آیات کو ملا کر دس مرتبہ زبانی یاد کریں تاکہ چاروں آیات کا ربط و تعلق اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے۔

اسی طرح دیگر علمی متون کو بھی حصوں میں تقسیم کر کے اوپر دیے گئے طریقہ کار کے مطابق حفظ کریں۔

دوہرائی کا طریقہ کار:

نیا سبق حفظ کرنے سے پہلے پچھلے پانچ اسباق کو اچھی طرح دوہرا لیں۔ پھر نیا سبق حفظ کریں۔ اسی طرح ان اسباق کے علاوہ جو پچھلے اسباق ہیں ان کو بھی ساتھ ساتھ دوہراتے رہیں۔ مثلاً آج کے سبق (چار آیات) کو حفظ کرنے سے پہلے پچھلے پانچ اسباق (بیس آیات) کو بھی دوہرائیں اور اب تک جتنا یاد کرچکے ہیں ان میں سے آدھا پارہ روزانہ دوہرائیں تاکہ پچھلے اسباق بھی ساتھ ساتھ پختہ ہوتے جائیں۔

مآخذ و مراجع:
اسھل طریقۃ لحفظ القرآن الکریم و طلب العلم الشرعی از عبد المحسن بن محمد القاسم (امام و خطیب المسجد النبوی الشریف)

تحفہ یا ہدیہ وصول کرنا

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2406
حضرت سالم بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عمر بن خطاب ؓ کو کچھ مال عطا کیا کرتے تھے۔ تو عمر نے آپ ﷺ سے عرض کیا اے اللہ کے رسول جو مجھ سے زیادہ فقیر ہو اس کو عطا کیا کریں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا:
خُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ أَوْ تَصَدَّقْ بِهِ وَمَا جَائَکَ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ فَخُذْهُ وَمَا لَا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَکَ قَالَ سَالِمٌ فَمِنْ أَجْلِ ذَلِکَ کَانَ ابْنُ عُمَرَ لَا يَسْأَلُ أَحَدًا شَيْئًا وَلَا يَرُدُّ شَيْئًا أُعْطِيَهُ۔
اسے لے لو اپنے پاس رکھو یا صدقہ کرو اور تیرے پاس جو مال اس طرح آئے کہ تو نہ خواہش کرنے والا ہو اور نہ مانگنے والا تو اسے لے لیا کرو اور جو اس طرح نہ آئے تو اپنے دل کو اس کی طرف ہی نہ لگاؤ۔ حضرت سالم کہتے ہیں اسی وجہ سے حضرت ابن عمر ؓ کسی سے کچھ نہ مانگتے تھے اور اگر کوئی آپ کو کچھ دے دیتا تو اسے لوٹاتے بھی نہ تھے۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2408
حضرت ابن ساعدی مالکی ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے مجھے صدقہ پر عامل مقرر فرمایا۔ جب میں اس سے فارغ ہوا اور رقم زکوٰۃ لا کر جمع کرا دی تو آپ ؓ نے میرے لئے کچھ اجرت کا حکم فرمایا۔ تو میں نے عرض کیا میں نے اللہ کی رضا کے لئے کام کیا اور میرا ثواب اللہ پر ہے تو آپ نے فرمایا:
خُذْ مَا أُعْطِيتَ فَإِنِّي عَمِلْتُ عَلَی عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَعَمَّلَنِي فَقُلْتُ مِثْلَ قَوْلِکَ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا أُعْطِيتَ شَيْئًا مِنْ غَيْرِ أَنْ تَسْأَلَ فَکُلْ وَتَصَدَّقْ۔
جو تجھے دیا جائے وصول کرلے کیونکہ میں بھی رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں عامل مقرر ہوا تھا آپ ﷺ نے مجھے اجرت دی تھی۔ تو میں نے تیرے کہنے کی طرح عرض کیا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا جو تجھے تیرے بغیر مانگے مل جائے تم اس کو کھاؤ اور صدقہ بھی کرو۔

حقوق الزوجین (میاں بیوی کے حقوق و فرائض)

حقوق الزوجین (میاں بیوی کے حقوق و فرائض):

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1846
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ لَمْ يَعْمَلْ بِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي، ‏‏‏‏‏‏وَتَزَوَّجُوا فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ كَانَ ذَا طَوْلٍ فَلْيَنْكِحْ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَعَلَيْهِ بِالصِّيَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ الصَّوْمَ لَهُ وِجَاءٌ.
نکاح میری سنت اور میرا طریقہ ہے، تو جو میری سنت پہ عمل نہ کرے وہ مجھ سے نہیں ہے، تم لوگ شادی کرو، اس لیے کہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر (قیامت کے دن) فخر کروں گا، اور جو صاحب استطاعت ہوں شادی کریں، اور جس کو شادی کی استطاعت نہ ہو وہ روزے رکھے، اس لیے کہ روزہ اس کی شہوت کو کچلنے کا ذریعہ ہے۔

خوشگوار ازدواجی زندگی کے لیے ضروری ہے کہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے حقوق و فرائض سے آگاہ ہوں۔ درجِ ذیل سطور میں ہم قرآن و حدیث کی تعلیمات کی روشنی میں شوہر اور بیوی کے حقوق و فرائض کا بیان کرتے ہیں۔

شوہر کے فرائض (بیوی کے حقوق):

1) اہل و عیال کی کفالت:

بیوی اور بچوں کی بنیادی ضروریات (خوراک، لباس، رہائش وغیرہ) کو پورا کرنا مرد کی ذمہ داری ہے۔ اسی وجہ سے مرد کو عورت پر ایک درجہ فضیلت دی گئی ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 34
اَلرِّجَالُ قَوَّامُوۡنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعۡضَهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ وَّبِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِهِمۡ‌۔
مرد عورتوں پر محافظ و منتظِم ہیں اس لئے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے (بھی) کہ مرد (ان پر) اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 2142
حضرت معاویہ بن حیدہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے اوپر ہماری بیوی کا کیا حق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
أَنْ تُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَتَكْسُوَهَا إِذَا اكْتَسَيْتَ أَوِ اكْتَسَبْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تَضْرِبْ الْوَجْهَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُقَبِّحْ وَلَا تَهْجُرْ إِلَّا فِي الْبَيْتِ.
جب تم کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ، جب پہنو یا کماؤ تو اسے بھی پہناؤ، چہرے پر نہ مارو، برا بھلا نہ کہو، اور گھر کے علاوہ اس سے جدائی اختیار نہ کرو ۔

2) حسنِ سلوک سے پیش آنا:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3895
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي۔
تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1162
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا، ‏‏‏‏‏‏وَخِيَارُكُمْ خِيَارُكُمْ لِنِسَائِهِمْ خُلُقًا۔
ایمان میں سب سے کامل مومن وہ ہے جو سب سے بہتر اخلاق والا ہو، اور تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اخلاق میں اپنی عورتوں کے حق میں سب سے بہتر ہو ۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1984
ام المؤمنین عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں:
مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَادِمًا لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا امْرَأَةً، ‏‏‏‏‏‏وَلَا ضَرَبَ بِيَدِهِ شَيْئًا.
رسول اللہ ﷺ نے نہ کسی خادم کو اپنے ہاتھ سے مارا، نہ کسی عورت کو، اور نہ کسی بھی چیز کو۔

3) حقوق کی پاسداری:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 3272
حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ وَلَا تُسَافِرْ الْمَرْأَةُ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ امْرَأَتِي خَرَجَتْ حَاجَّةً وَإِنِّي اکْتُتِبْتُ فِي غَزْوَةِ کَذَا وَکَذَا قَالَ انْطَلِقْ فَحُجَّ مَعَ امْرَأَتِکَ۔
کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ رہے سوائے اس کے کہ اس کا محرم اس کے ساتھ ہو اور نہ کوئی عورت سفر کرے سوائے اس کے کہ اس کا محرم اس کے ساتھ ہو۔ ایک آدمی کھڑا ہوا اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میری بیوی حج کے لئے نکلی ہے اور میرا نام فلاں فلاں غزوہ میں لکھ دیا گیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو جا اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کر (کہ اس کا بھی حق تم پر واجب ہے)۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 2133
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ كَانَتْ لَهُ امْرَأَتَانِ فَمَالَ إِلَى إِحْدَاهُمَا، ‏‏‏‏‏‏جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَشِقُّهُ مَائِلٌ.
جس کے پاس دو بیویاں ہوں اور اس کا میلان ایک کی جانب ہو تو وہ بروز قیامت اس حال میں آئے گا، کہ اس کا ایک دھڑا جھکا ہوا ہوگا (آدھا جسم فالج زدہ ہوگا) ۔

4) گھریلو امور میں معاونت:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2489
حضرت اسود ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ ؓ سے پوچھا کیا: رسول اللہ ﷺ جب اپنے گھر میں داخل ہوتے تھے تو کیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا:
كَانَ يَكُونَ فِي مَهْنَةِ أَهْلِهِ فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ قَامَ فَصَلَّى۔
آپ ﷺ اپنے گھر والوں کے کام کاج میں مشغول ہوجاتے تھے، پھر جب نماز کا وقت ہوجاتا تو کھڑے ہوتے اور نماز پڑھنے لگتے تھے۔

5) پردہ پوشی:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 187
هُنَّ لِبَاسٌ لَّـكُمۡ وَاَنۡـتُمۡ لِبَاسٌ لَّهُنَّ۔
وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو۔

بیوی کے فرائض (شوہر کے حقوق):

1) عزت و آبرو کی حفاظت:

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 34
فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلۡغَيۡبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ‌ ؕ
پس نیک بیویاں اطاعت شعار ہوتی ہیں شوہروں کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت کے ساتھ (اپنی عزت کی) حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں۔

مسند احمد، حدیث نمبر: 1573
حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِذَا صَلَّتْ الْمَرْأَةُ خَمْسَهَا وَصَامَتْ شَهْرَهَا وَحَفِظَتْ فَرْجَهَا وَأَطَاعَتْ زَوْجَهَا قِيلَ لَهَا ادْخُلِي الْجَنَّةَ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ شِئْتِ۔
جو عورت پانچ وقت کی نماز پڑھتی ہو، ماہ رمضان کے روزے رکھتی ہو، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتی ہو اور اپنے شوہر کی اطاعت کرتی ہو، اس سے کہا جائے گا کہ جنت کے جس دروازے سے چاہو، داخل ہوجاؤ۔

2) شوہر کی خوشنودی:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1161
ام المؤمنین ام سلمہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَيُّمَا امْرَأَةٍ مَاتَتْ وَزَوْجُهَا عَنْهَا رَاضٍ، ‏‏‏‏‏‏دَخَلَتِ الْجَنَّةَ۔
جو عورت مرجائے اور اس کا شوہر اس سے خوش ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگی ۔

3) حسنِ اخلاق:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1857
ابوامامہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے:
مَا اسْتَفَادَ الْمُؤْمِنُ بَعْدَ تَقْوَى اللَّهِ خَيْرًا لَهُ مِنْ زَوْجَةٍ صَالِحَةٍ، ‏‏‏‏‏‏إِنْ أَمَرَهَا أَطَاعَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ نَظَرَ إِلَيْهَا سَرَّتْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ أَقْسَمَ عَلَيْهَا أَبَرَّتْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ غَابَ عَنْهَا نَصَحَتْهُ فِي نَفْسِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَمَالِهِ.
تقویٰ کے بعد مومن کو نیک بیوی سے زیادہ کسی بھی چیز سے فائدہ نہیں ہوا، وہ ایسی نیک بیوی ہے کہ اگر شوہر اسے حکم دے تو اسے مانے، اور اگر اس کی جانب دیکھے تو وہ اسے خوش کر دے، اور اگر وہ اس (کے بھروسے) پر قسم کھالے تو اسے سچا کر دکھائے، اور اگر وہ موجود نہ ہو تو عورت اپنی ذات اور اس کے مال میں اس کی خیر خواہی کرے ۔

4) تقویٰ و پرہیزگاری:

مسند احمد، حدیث نمبر: 6279
حضرت ابن عمرو ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ الدُّنْيَا كُلَّهَا مَتَاعٌ وَخَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ۔
ساری دنیا متاع ہے اور دنیا کی بہترین متاع نیک عورت ہے۔

مسند احمد، حدیث نمبر: 1368
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مِنْ سَعَادَةِ ابْنِ آدَمَ ثَلَاثَةٌ وَمِنْ شِقْوَةِ ابْنِ آدَمَ ثَلَاثَةٌ مِنْ سَعَادَةِ ابْنِ آدَمَ الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ وَالْمَسْكَنُ الصَّالِحُ وَالْمَرْكَبُ الصَّالِحُ وَمِنْ شِقْوَةِ ابْنِ آدَمَ الْمَرْأَةُ السُّوءُ وَالْمَسْكَنُ السُّوءُ وَالْمَرْكَبُ السُّوءُ۔
تین چیزیں ابن آدم کی سعات مندی کی علامت ہیں اور تین چیزیں اس کی بدنصیبی کی علامت ہیں، ابن آدم کی خوش نصیبی تو یہ ہے کہ اسے نیک بیوی ملے، اچھی رہائش ملے اور عمدہ سواری ملے جبکہ اس کی بدنصیبی یہ ہے کہ اسے بری بیوی ملے، بری رہائش ملے اور بری سواری ملے۔

5) حقوق کی پاسداری:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 3540
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا مِنْ رَجُلٍ يَدْعُو امْرَأَتَهُ إِلَی فِرَاشِهَا فَتَأْبَی عَلَيْهِ إِلَّا کَانَ الَّذِي فِي السَّمَائِ سَاخِطًا عَلَيْهَا حَتَّی يَرْضَی عَنْهَا۔
کوئی آدمی جب اپنی بیوی کو اپنے بستر کی طرف بلائے اور وہ اس کے بلانے پر انکار کر دے تو آسمان والا یعنی اللہ اس عورت پر ناراض رہتا ہے جب تک اس کا شوہر اس سے راضی نہ ہو جائے۔

مآخذ و مراجع:
بچوں کی پرورش اور والدین کا کردار (سلسلہ تعلیمات اسلام)

عشر کے احکام و مسائل

عشر زکوٰۃ کی طرح ایک ایسا مقررہ حصہ ہے جو زرعی پیداوار پر دینا واجب ہوتا ہے۔ عشر کا کوئی نصاب مقرر نہیں ہے اور نہ ہی سال گزرنا شرط ہے۔ پیداوار قلیل ہو یا کثیر، سب میں عشر واجب ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 267
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِنۡ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبۡتُمۡ وَمِمَّاۤ اَخۡرَجۡنَا لَـكُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ ۖ
اے ایمان والو! ان پاکیزہ کمائیوں میں سے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا ہے (اﷲ کی راہ میں) خرچ کیا کرو۔

القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام، آیت نمبر 141
كُلُوۡا مِنۡ ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثۡمَرَ وَاٰتُوۡا حَقَّهٗ يَوۡمَ حَصَادِهٖ‌ ‌ۖ وَلَا تُسۡرِفُوۡا‌ ؕ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الۡمُسۡرِفِيۡنَ ۞
جب (یہ درخت) پھل لائیں تو تم ان کے پھل کھایا (بھی) کرو اور اس (کھیتی اور پھل) کے کٹنے کے دن اس کا (اﷲ کی طرف سے مقرر کردہ) حق (بھی) ادا کر دیا کرو اور فضول خرچی نہ کیا کرو، بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

عشر کی مقدار:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1483
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُيُونُ أَوْ كَانَ عَثَرِيًّا الْعُشْرُ وَمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ، ‏‏‏‏
وہ زمین جسے آسمان (بارش کا پانی) یا چشمہ سیراب کرتا ہو۔ یا وہ خودبخود نمی سے سیراب ہوجاتی ہو تو اس کی پیداوار سے دسواں حصہ لیا جائے اور وہ زمین جسے کنویں سے پانی کھینچ کر سیراب کیا جاتا ہو تو اس کی پیداوار سے بیسواں حصہ لیا جائے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اولاد کے حقوق اور والدین کے فرائض

زندگی کا حق:

استقرارِ حمل کے چار ماہ بعد بچے میں روح پھونک دی جاتی ہے لہٰذا اس کے بعد اسقاطِ حمل کرنا گناہِ کبیرہ، حرام اور قتلِ انسانی کے مترادف ہے۔

نمازِ جنازہ اور وراثت کا حق:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2750
جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا اسْتَهَلَّ الصَّبِيُّ صُلِّيَ عَلَيْهِ وَوَرِثَ.
بچہ پیدائش کے وقت رو دے تو اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اور وہ وارث بھی ہوگا ۔

نفقہ کا حق: بچے کے نان نفقہ کی ذمہ داری باپ پر ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 65 الطلاق، آیت نمبر 6
وَاِنۡ كُنَّ اُولَاتِ حَمۡلٍ فَاَنۡفِقُوا عَلَيۡهِنَّ حَتّٰى يَضَعۡنَ حَمۡلَهُنَّ‌‌ ۚ فَاِنۡ اَرۡضَعۡنَ لَـكُمۡ فَاٰ تُوۡهُنَّ اُجُوۡرَهُنَّ‌۔
اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ اپنا بچہ جَن لیں، پھر اگر وہ تمہاری خاطر (بچے کو) دودھ پلائیں تو انہیں اُن کا معاوضہ ادا کرتے رہو۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 1691
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ:
أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّدَقَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عِنْدِي دِينَارٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى نَفْسِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عِنْدِي آخَرُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى وَلَدِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عِنْدِي آخَرُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى زَوْجَتِكَ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ زَوْجِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عِنْدِي آخَرُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى خَادِمِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عِنْدِي آخَرُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْتَ أَبْصَرُ.
نبی اکرم ﷺ نے صدقہ کا حکم دیا تو ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس ایک دینار ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اسے اپنے کام میں لے آؤ ، تو اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اسے اپنے بیٹے کو دے دو ، اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اسے اپنی بیوی کو دے دو ، اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اسے اپنے خادم کو دے دو ، اس نے کہا میرے پاس ایک اور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اب تم زیادہ بہتر جانتے ہو (کہ کسے دیا جائے) ۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 1676
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ خَيْرَ الصَّدَقَةِ مَا تَرَكَ غِنًى، ‏‏‏‏‏‏أَوْ تُصُدِّقَ بِهِ عَنْ ظَهْرِ غِنًى، ‏‏‏‏‏‏وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ.
بہترین صدقہ وہ ہے جو آدمی کو مالدار باقی رکھے یا (یوں فرمایا) وہ صدقہ ہے جسے دینے کے بعد مالک مالدار رہے اور صدقہ پہلے اسے دو جس کی تم کفالت کرتے ہو ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1965
ابومسعود انصاری ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
نَفَقَةُ الرَّجُلِ عَلَى أَهْلِهِ صَدَقَةٌ۔
آدمی کا اپنے بال بچوں پر خرچ کرنا صدقہ ہے۔

فطرانہ کا حق:

جنین (استقرارِ حمل کے بعد اور پیدائش سے پہلے) کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا بالاتفاق مستحب ہے۔

بچے کی پیدائش پر خوشی و مسرت کا اظہار کرنا دراصل نعمتِ خداوندی پر شکر بجا لانا ہے۔

بچوں کے ساتھ یکساں رویہ رکھنا:

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 5146
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ كَانَتْ لَهُ أُنْثَى فَلَمْ يَئِدْهَا وَلَمْ يُهِنْهَا وَلَمْ يُؤْثِرْ وَلَدَهُ عَلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ يَعْنِي الذُّكُورَ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ۔
جس کے پاس کوئی لڑکی ہو اور وہ اسے زندہ درگور نہ کرے، نہ اسے کمتر جانے، نہ لڑکے کو اس پر فوقیت دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا ۔

بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنا۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 5105
حضرت ابورافع ؓ کہتے ہیں:
رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَذَّنَ فِي أُذُنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ حِينَ وَلَدَتْهُ فَاطِمَةُ بِالصَّلَاةِ.
میں نے رسول اللہ ﷺ کو حسن بن علی کے کان میں جس وقت فاطمہ ؓ نے انہیں جنا اذان کہتے دیکھا جیسے نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے۔

کنزالعمال، حدیث نمبر: 45426
حضرت امام حسین علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
من ولد له ولد فأذن في أذنه اليمنى وأقام في أذنه اليسرى لم تضره أم الصبيان (ع – عن الحسين).
جس شخص کے یہاں بچہ پیدا ہوا اسے چاہیے کہ بچے کی دائیں کان میں اذان دے اور بائیں کان میں اقامت کہے۔ اس بچے کو ام الصبیان کی تکلیف نہیں ہوگی۔

تحنیک (گھٹی دینا):

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 5106
ام المؤمنین عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُؤْتٰى بِالصِّبْيَانِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَدْعُو لَهُمْ بِالْبَرَكَةِ، وَيُحَنِّكُهُمْ۔
رسول اللہ ﷺ کے پاس نومولود بچے لائے جاتے تھے تو آپ ان کے لیے برکت کی دعا فرماتے اور انہیں گھٹی دیتے۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 5615
حضرت ابوموسی ؓ روایت کرتے ہیں:
وُلِدَ لِي غُلَامٌ فَأَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ ﷺ فَسَمَّاهُ إِبْرَاهِيمَ وَحَنَّکَهُ بِتَمْرَةٍ.
میرے ہاں بچہ پیدا ہوا تو میں اسے نبی ﷺ کے پاس لایا آپ ﷺ نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور کھجور سے گھٹی دی۔

نام رکھنا، عقیقہ کرنا، ختنہ کروانا اور بال منڈوانا:

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 3126
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وُلِدَ لِي اللَّيْلَةَ غُلَامٌ، ‏‏‏‏‏‏فَسَمَّيْتُهُ بِاسْمِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ۔
آج رات میرے یہاں بچہ پیدا ہوا، میں نے اس کا نام اپنے والد ابراہیم کے نام پر رکھا۔

سنن کبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر: 19270
سمرہ بن جندب ؓ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
کُلُّ غُلاَمٍ رَہِینَۃٌ بِعَقِیقَتِہِ تُذْبَحُ عَنْہُ یَوْمَ سَابِعِہِ وَیُحْلَقُ رَأْسُہُ وَیُسَمَّی ۔ [صحیح ]
ہر بچہ عقیقہ کے عوض گروی رکھا ہوتا ہے تو ساتویں دن بچے کی جانب سے عقیقہ کیا جائے اور سر مونڈ کر نام رکھا دیا جائے۔

سنن کبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر: 19278
حضرت عائشہ ؓ سے مروی حدیث میں ہے:
عَقَّ رَسُولُ اللَّہِ – (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) – عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ یَوْمَ السَّابِعِ وَسَمَّاہُمَا وَأَمَرَ أَنْ یُمَاطَ عَنْ رَأْسِہِمَا الأَذَی۔
رسول اللہ ﷺ نے حسن و حسین کی جانب سے ساتویں دن عقیقہ کیا اور ان کے نام رکھے اور ان کے سر سے تکلیف کو دور کرنے (ان کے بال مونڈنے) کا حکم دیا۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1515
سلمان بن عامر ضبی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَعَ الْغُلَامِ عَقِيقَةٌ فَأَهْرِيقُوا عَنْهُ دَمًا،‏‏‏‏ وَأَمِيطُوا عَنْهُ الْأَذَى۔
بچے کے پیدا ہونے پر عقیقہ (اس کا حق) ہے، لہٰذا اس کی طرف سے خون بہاؤ (جانور ذبح کرو) اور اس سے مصائب و آلام دور کرو ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1516
ام کرز ؓ روایت کرتی ہیں:
أَنَّهَا سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْعَقِيقَةِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ عَنِْ الْغُلَامِ شَاتَانِ،‏‏‏‏ وَعَنِ الْأُنْثَى وَاحِدَةٌ،‏‏‏‏ وَلَا يَضُرُّكُمْ ذُكْرَانًا كُنَّ أَمْ إِنَاثًا۔
انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے گی، وہ جانور نر یا ہو مادہ اس میں تمہارے لیے کوئی حرج نہیں ۔

سنن کبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر: 17569
حضرت جابر فرماتے ہیں:
عَقَّ رَسُولُ اللَّہِ -ﷺ- عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ وَخَتَنَہُمَا لِسَبْعَۃِ أَیَّامٍ۔ [صحیح لغیرہ]
نبی ﷺ نے حسن و حسین کا ساتویں دن عقیقہ کیا اور ختنہ کیا۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 4948
ابوالدرداء ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّكُمْ تُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَسْمَائِكُمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَحْسِنُوا أَسْمَاءَكُمْ،‏‏‏‏
قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے باپ دادا کے ناموں کے ساتھ پکارے جاؤ گے، تو اپنے نام اچھے رکھا کرو۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3733
عبداللہ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں:
أَنَّ ابْنَةً لِعُمَرَ كَانَ يُقَالُ لَهَا:‏‏‏‏ عَاصِيَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَسَمَّاهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ جَمِيلَةَ.
حضرت عمر ؓ کی ایک بیٹی کا نام عاصیہ تھا (یعنی گنہگار، نافرمان) تو رسول اللہ ﷺ نے ان کا نام بدل کر جمیلہ رکھ دیا۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2839
ام المؤمنین عائشہ ؓ سے روایت ہے:
أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ كَانَ يُغَيِّرُ الِاسْمَ الْقَبِيحَ۔
نبی اکرم ﷺ برا نام بدل دیا کرتے تھے۔

نومولود کے بالوں کے وزن کے مطابق صدقہ کرنا: یہ مستحب عمل ہے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1519
حضرت علی المرتضیٰ ؓ روایت کرتے ہیں:
عَقَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْحَسَنِ بِشَاةٍ،‏‏‏‏ وَقَالَ:‏‏‏‏ يَا فَاطِمَةُ،‏‏‏‏ احْلِقِي رَأْسَهُ،‏‏‏‏ وَتَصَدَّقِي بِزِنَةِ شَعْرِهِ فِضَّةً،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ فَوَزَنَتْهُ،‏‏‏‏ فَكَانَ وَزْنُهُ دِرْهَمًا أَوْ بَعْضَ دِرْهَمٍ۔
رسول اللہ ﷺ نے حسن کی طرف سے عقیقے میں ایک بکری ذبح کی، اور فرمایا: فاطمہ! ان کے سر کے بال اتارو اور ان کے بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرو ، فاطمہ ؓ نے ان کے بالوں کو تولا تو ان کا وزن ایک درہم کے برابر یا اس سے کچھ کم ہوا۔

دو سال تک ماں کا دودھ پلانا:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 233
وَالۡوَالِدٰتُ يُرۡضِعۡنَ اَوۡلَادَهُنَّ حَوۡلَيۡنِ كَامِلَيۡنِ‌ لِمَنۡ اَرَادَ اَنۡ يُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ ‌ ؕ وَعَلَى الۡمَوۡلُوۡدِ لَهٗ رِزۡقُهُنَّ وَكِسۡوَتُهُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ‌ؕ لَا تُكَلَّفُ نَفۡسٌ اِلَّا وُسۡعَهَا ۚ لَا تُضَآرَّ وَالِدَةٌ ۢ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوۡلُوۡدٌ لَّهٗ بِوَلَدِهٖ وَعَلَى الۡوَارِثِ مِثۡلُ ذٰ لِكَ ۚ فَاِنۡ اَرَادَا فِصَالًا عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَا ‌ؕ وَاِنۡ اَرَدْتُّمۡ اَنۡ تَسۡتَرۡضِعُوۡٓا اَوۡلَادَكُمۡ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكُمۡ اِذَا سَلَّمۡتُمۡ مَّآ اٰتَيۡتُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ‌ؕ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعۡلَمُوۡٓا اَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرٌ ۞
اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلائیں یہ (حکم) اس کے لئے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہے، اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور پہننا دستور کے مطابق بچے کے باپ پر لازم ہے، کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہ دی جائے، (اور) نہ ماں کو اس کے بچے کے باعث نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کے سبب سے، اور وارثوں پر بھی یہی حکم عائد ہوگا، پھر اگر ماں باپ دونوں باہمی رضا مندی اور مشورے سے (دو برس سے پہلے ہی) دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں، اور پھر اگر تم اپنی اولاد کو (دایہ سے) دودھ پلوانے کا ارادہ رکھتے ہو تب بھی تم پر کوئی گناہ نہیں جب کہ جو تم دستور کے مطابق دیتے ہو انہیں ادا کر دو، اور اﷲ سے ڈرتے رہو اور یہ جان لو کہ بیشک جو کچھ تم کرتے ہو اﷲ اسے خوب دیکھنے والا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 31 لقمان، آیت نمبر 14
وَوَصَّيۡنَا الۡاِنۡسٰنَ بِوَالِدَيۡهِ‌ۚ حَمَلَتۡهُ اُمُّهٗ وَهۡنًا عَلٰى وَهۡنٍ وَّفِصٰلُهٗ فِىۡ عَامَيۡنِ اَنِ اشۡكُرۡ لِىۡ وَلِـوَالِدَيۡكَؕ اِلَىَّ الۡمَصِيۡرُ ۞
اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں (نیکی کا) تاکیدی حکم فرمایا، جسے اس کی ماں تکلیف پر تکلیف کی حالت میں (اپنے پیٹ میں) برداشت کرتی رہی اور جس کا دودھ چھوٹنا بھی دو سال میں ہے (اسے یہ حکم دیا) کہ تو میرا (بھی) شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی۔ (تجھے) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔

جب بچہ بولنے لگے تو اسے کلمہ طیبہ سکھانا:

شعب الایمان، حدیث نمبر 8649
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اِفْتَحُوا عَلٰی صِبْیَانِکُم اَوَّلَ کَلِمَۃٍ بِلَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ۔
بچہ جب بولنا سیکھنے لگے تو اسے سب سے پہلے لا الہ الااللہ یاد کرواؤ۔

اولاد کے ساتھ نرمی اور شفقت سے پیش آنا:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2612
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ مِنْ أَكْمَلِ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا وَأَلْطَفُهُمْ بِأَهْلِهِ۔
مومنوں میں سب سے زیادہ کامل ایمان والے لوگ وہ ہیں جن کے اخلاق سب سے اچھے ہیں اور وہ اپنے گھر والوں سے سب سے زیادہ نرمی و شفقت سے پیش آتے ہیں۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 516
حضرت ابوقتادہ انصاری ؓ سے روایت ہے:
أَنّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يُصَلِّي وَهُوَ حَامِلٌ أُمَامَةَ بِنْتَ زَيْنَبَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ‏‏‏‏‏‏وَلِأَبِي الْعَاصِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَهَا وَإِذَا قَامَ حَمَلَهَا.
رسول اللہ ﷺ (نفلی) نماز ادا فرما رہے تھے اور آپ نے حضرت امامہ بنت زینب بنت رسول اللہ ﷺ (یعنی اپنی نواسی) کو اُٹھایا ہوا تھا جو ابوالعاص بن ربیع بن عبدشمس سے تھیں۔ جب آپ سجدے میں جاتے تو اسے بٹھا دیتے اور جب قیام فرماتے تو اٹھا لیتے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3784
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حَامِلَ الْحَسَینِ بْنِ عَلِيٍّ عَلَى عَاتِقِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ نِعْمَ الْمَرْكَبُ رَكِبْتَ يَا غُلَامُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ:‏‏‏‏ وَنِعْمَ الرَّاكِبُ هُوَ .
رسول اللہ ﷺ حسین بن علی ؓ کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے تو ایک شخص نے کہا: بیٹے! کیا ہی اچھی سواری ہے جس پر تو سوار ہے، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اور سوار بھی کیا ہی اچھا ہے ۔

تعلیم و تربیت:

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 495
عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ سِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ.
جب تمہاری اولاد سات سال کی ہوجائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو انہیں اس پر (یعنی نماز نہ پڑھنے پر) مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو ۔

متفرق احکام:

بچے کو نظرِ بد سے بچانے کے لیے دم کرنا:

صحیح بخاری, حدیث نمبر: 5740
ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
الْعَيْنُ حَقٌّ۔
نظر کا لگ جانا حقیقت ہے۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 4737
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں:
كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُعَوِّذُ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ:‏‏‏‏ “أُعِيذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ” ثُمَّ يَقُولُ:‏‏‏‏ كَانَ أَبُوكُمْ يُعَوِّذُ بِهِمَا إِسْمَاعِيلَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق.
نبی اکرم ﷺ حسن اور حسین ؓ کے لیے (ان الفاظ میں) اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے تھے “أعيذكما بکلمات الله التامة من کل شيطان وهامة ومن کل عين لامة” میں تم دونوں کے لیے پناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے کلمات کے ذریعہ، ہر شیطان سے، ہر زہریلے کیڑے (سانپ بچھو وغیرہ) سے اور ہر نظر بد والی آنکھ سے پھر فرماتے: تمہارے باپ (ابراہیم) اسماعیل و اسحاق کے لیے بھی انہی کلمات کے ذریعہ پناہ مانگتے تھے ۔

اچھا نام رکھنا، ادب و علم سکھانا، اور شادی کروانا:

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 3138
حضرت ابو سعید ؓ اور حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
من وُلِدَ لَهُ وَلَدٌ فَلْيُحْسِنِ اسْمَهُ وَأَدَبَهُ فَإِذَا بَلَغَ فَلْيُزَوِّجْهُ فَإِنْ بَلَغَ وَلَمْ يُزَوِّجْهُ فَأَصَابَ إِثْمًا فَإِنَّمَا إثمه على أَبِيه۔
جس کے ہاں بچہ پیدا ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اس کا اچھا نام رکھے، اسے ادب سکھائے اور جب وہ بالغ ہو جائے تو اس کی شادی کر دے، اگر وہ بالغ ہو جائے اور وہ (والد) اس کی شادی نہ کرے اور وہ کسی گناہ (زنا وغیرہ) کا ارتکاب کر لے تو اس کا گناہ اس کے والد پر ہے۔

اولاد کے حقوق:

1) زندگی کا حق
2) نمازِ جنازہ کا حق
3) وراثت کا حق
4) نفقہ کا حق
5) فطرانہ کا حق
6) تحنیک (گھٹی دینا)
7) کان میں اذان و اقامت کہنا
8) اولاد کا اچھا نام رکھنا
9) عقیقہ کرنا
10) بال منڈوانا اور بالوں کے وزن کے برابر صدقہ کرنا
11) ختنہ کروانا
12) جب بولنے لگے تو کلمہ طیبہ سکھانا
13) دو سال تک ماں کا دودھ پلانا
14) اولاد کو ادب و علم سکھانا
15) اولاد کی بروقت شادی کرنا
16) اولاد کی بہترین تربیت کرنا
17) اولاد کے ساتھ حسنِ اخلاق (نرمی و شفقت) سے پیش آنا
18) اولاد کے ساتھ یکساں سلوک کرنا

مآخذ و مراجع:
بچوں کی پرورش اور والدین کا کردار (رحمِ مادر سے ایک سال کی عمر تک)

عدل و احسان

قرآن مجید میں طرزِ عمل کے دو درجات بیان کیے گئے ہیں:

1) عدل
2) احسان

القرآن – سورۃ نمبر 16 النحل، آیت نمبر 90
اِنَّ اللّٰهَ يَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَالۡاِحۡسَانِ۔
بیشک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے۔

امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ عدل یہ ہے کہ انسان پر جس قدر دینا واجب ہو اس قدر دے، اور جس قدر لینا اس کا حق ہو اس قدر لے۔ مگر احسان یہ ہے کہ جس قدر دینا واجب ہو اس سے زیادہ دے، اور جس قدر لینے کا حق ہو اس سے کم لے۔ (راغب اصفہانی، المفردات: 325)

القرآن – سورۃ نمبر 55 الرحمن، آیت نمبر 60
هَلۡ جَزَآءُ الْاِحۡسَانِ اِلَّا الۡاِحۡسَانُ‌ۚ ۞
احسان (نیکی) کا بدلہ احسان (نیکی) کے سوا کچھ نہیں ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 10 يونس، آیت نمبر 26
لِلَّذِيۡنَ اَحۡسَنُوا الۡحُسۡنٰى وَزِيَادَةٌ ؕ
ایسے لوگوں کے لئے جو احسان شعار ہیں نیک جزا ہے بلکہ (اس پر) اضافہ بھی ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 29 العنكبوت، آیت نمبر 69
وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الۡمُحۡسِنِيۡنَ۞
اور بیشک اﷲ صاحبانِ احسان کو اپنی معیّت سے نوازتا ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 195
اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ ۞
بیشک اﷲ نیکوکاروں سے محبت فرماتا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 91
مَا عَلَى الۡمُحۡسِنِيۡنَ مِنۡ سَبِيۡلٍ‌ؕ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌۙ‏ ۞
نیکوکاروں (یعنی صاحبانِ احسان) پر الزام کی کوئی راہ نہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 125
وَمَنۡ اَحۡسَنُ دِيۡنًا مِّمَّنۡ اَسۡلَمَ وَجۡهَهٗ لِلّٰهِ وَهُوَ مُحۡسِنٌ۔
اور دینی اعتبار سے اُس شخص سے بہتر کون ہو سکتا ہے جس نے اپنا رُوئے نیاز اللہ کے لئے جھکا دیا اور وہ صاحبِ احسان بھی ہوا۔

ہلاکت و تباہی سے بچنے کا طریق بھی ‘احسان’ ہے:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 195
وَاَنۡفِقُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَلَا تُلۡقُوۡا بِاَيۡدِيۡكُمۡ اِلَى التَّهۡلُكَةِ ۖ ۛۚ وَاَحۡسِنُوۡا ۛۚ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ ۞
اور اﷲ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور نیکی اختیار کرو، بیشک اﷲ نیکوکاروں سے محبت فرماتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہر شخص پر ہر عمل میں احسان کو واجب قرار دیا گیا ہے۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 5055
حضرت شداد بن اوس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ کَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلَی کُلِّ شَيْئٍ فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ وَلْيُحِدَّ أَحَدُکُمْ شَفْرَتَهُ فَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ۔
اللہ تعالیٰ نے ہر کام میں احسان فرض کیا ہے۔ جب بھی تم قتل کرو تو اچھی طرح قتل کرو اور جب بھی تم ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو اور تم میں سے ایک کو چاہئے کہ اپنی چھری کو تیز کرے اور اپنے جانور کو آرام دے۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 175
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُحْسِنْ إِلَی جَارِهِ۔
جو شخص اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے ہمسائے کے ساتھ احسان سے پیش آئے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1987
حضرت ابوذر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اتَّقِ اللَّهِ حَيْثُمَا كُنْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَتْبِعِ السَّيِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا، ‏‏‏‏‏‏وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ۔
تم جہاں بھی ہو اللہ سے ڈرتے رہو، گناہ کے بعد نیکی کیا کرو، وہ اسے مٹا دے گی اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آیا کرو۔

عدل اور احسان میں فرق:
عدل شرطِ ایمان ہے اور احسان کمالِ ایمان ہے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3675
حضرت عمر بن خطاب ؓ سے مروی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَتَصَدَّقَ فَوَافَقَ ذَلِكَ عِنْدِي مَالًا، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ الْيَوْمَ أَسْبِقُ أَبَا بَكْرٍ إِنْ سَبَقْتُهُ يَوْمًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَجِئْتُ بِنِصْفِ مَالِي،‏‏‏‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ ؟ ،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ مِثْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَتَى أَبُو بَكْرٍ بِكُلِّ مَا عِنْدَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَبَا بَكْرٍ مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ ؟ ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَبْقَيْتُ لَهُمُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَا أَسْبِقُهُ إِلَى شَيْءٍ أَبَدًا.
رسول اللہ ﷺ نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا اور اتفاق سے ان دنوں میرے پاس مال بھی تھا، میں نے (دل میں) کہا: اگر میں ابوبکر ؓ سے کسی دن آگے بڑھ سکوں گا تو آج کے دن آگے بڑھ جاؤں گا، پھر میں اپنا آدھا مال آپ کے پاس لے آیا، تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ میں نے عرض کیا: اتنا ہی (ان کے لیے بھی چھوڑا ہوں) اور ابوبکر ؓ وہ سب مال لے آئے جو ان کے پاس تھا، تو آپ نے پوچھا: ابوبکر! اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ تو انہوں نے عرض کیا: ان کے لیے تو اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ کر آیا ہوں، میں نے (اپنے جی میں) کہا: اللہ کی قسم! میں ان سے کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکوں گا۔

اس حدیث سے بخوبی واضح ہوگیا کہ حضرت عمر ؓ کا عمل عدل کا غماز تھا جب کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا عمل احسان کا آئینہ دار تھا۔

ماخذ و مراجع:
زکوٰۃ اور صدقات (سلسلہ تعلیمات اسلام)

عید الفطر، یکم شوال 1444ھ، بمطابق 22 اپریل 2023 بروز ہفتہ

عید الفطر، یکم شوال 1444ھ، بمطابق 22 اپریل 2023 بروز ہفتہ۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 1134
حضرت انس ؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے (تو دیکھا کہ) ان کے لیے (سال میں) دو دن ہیں جن میں وہ کھیلتے کودتے ہیں تو آپ نے پوچھا: یہ دو دن کیسے ہیں؟ ، تو ان لوگوں نے کہا: جاہلیت میں ہم ان دونوں دنوں میں کھیلتے کودتے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا:‏‏‏‏ يَوْمَ الْأَضْحَى، ‏‏‏‏‏‏وَيَوْمَ الْفِطْرِ.
اللہ نے تمہیں ان دونوں کے عوض ان سے بہتر دو دن عطا فرما دیئے ہیں: ایک عید الاضحیٰ کا دن اور دوسرا عید الفطر کا دن ۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 2096
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
فَإِذَا كَانَ يَوْمُ عِيدِهِمْ يَعْنِي يَوْمَ فِطْرِهِمْ بَاهَى بِهِمْ مَلَائِكَتَهُ فَقَالَ: يَا مَلَائِكَتِي مَا جَزَاءُ أَجِيرٍ وَفَّى عَمَلَهُ؟ قَالُوا: رَبَّنَا جَزَاؤُهُ أَنْ يُوَفَّى أَجْرَهُ. قَالَ: مَلَائِكَتِي عَبِيدِي وَإِمَائِي قَضَوْا فَرِيضَتِي عَلَيْهِمْ ثُمَّ خَرَجُوا يَعُجُّونَ إِلَى الدُّعَاءِ وَعِزَّتِي وَجَلَالِي وَكَرَمِي وَعُلُوِّي وَارْتِفَاعِ مَكَاني لأجيبنهم. فَيَقُول: ارْجعُوا فقد غَفَرْتُ لَكُمْ وَبَدَّلْتُ سَيِّئَاتِكُمْ حَسَنَاتٍ. قَالَ: فَيَرْجِعُونَ مَغْفُورًا لَهُمْ . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الْإِيمَانِ
جب ان کی عید کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی وجہ سے اپنے فرشتوں پر فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے: میرے فرشتو! اس مزدور کی کیا جزا ہونی چاہیے جو اپنا کام پورا کرتا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں، پروردگار! اس کی جزا یہ ہے کہ اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے فرشتو! میرے بندوں اور میری لونڈیوں نے میری طرف سے ان پر عائد فریضے کو پورا کر دیا پھر وہ دعائیں پکارتے ہوئے نکلے ہیں، مجھے میری عزت و جلال، میرے کرم و علو اور اپنے بلند مقام کی قسم! میں ان کی دعائیں قبول کروں گا، وہ فرماتا ہے: واپس چلے جاؤ، میں نے تمہیں بخش دیا اور تمہاری خطاؤں کو نیکیوں میں بدل دیا، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ وہ اس حال میں واپس آتے ہیں کہ ان کی مغفرت ہو چکی ہوتی ہے۔‘‘

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1782
ابوامامہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ قَامَ لَيْلَتَيِ الْعِيدَيْنِ مُحْتَسِبًا لِلَّهِ، ‏‏‏‏‏‏لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ .
جو شخص عیدین کی راتوں میں ثواب کی نیت سے اللہ کی عبادت کرے گا، تو اس کا دل نہیں مرے گا جس دن دل مردہ ہوجائیں گے ۔

سنن کبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر: 5607
حضرت عطاء، حضرت جابر سے نقل فرماتے ہیں:
مَضَتِ السُّنَّۃُ أَنَّ فِی کُلِّ ثَلاَثَۃٍ إِمَامًا ، وَفِی کُلِّ أَرْبَعِینَ فَمَا فَوْقَ ذَلِکَ جُمُعَۃٌ وَفِطْرٌ وَأَضْحًی۔
سنت یہ ہے کہ ہر تین میں ایک امام ہو اور جب لوگ چالیس یا اس سے زیادہ ہوں تو جمعہ، عید الفطر، عید الضحیٰ واجب ہے؛ کیونکہ یہ جماعت ہے۔

سنن کبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر: 6149
حضرت ابو حویرث فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے عمرو بن حزم ؓ کو خط لکھا، جب وہ نجران میں تھے:
عَجِّلِ الأَضْحَی وَأَخِّرِ الْفِطْرَ وَذَکِّرِ النَّاسَ ۔
عید الاضحی کو جلدی پڑھ اور عید الفطر کو موخر کر کے پڑھ اور لوگوں کو نصیحت کر۔

خرچ کرنے کا ضابطۂِ اخلاق

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 254
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰكُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ يَّاۡتِىَ يَوۡمٌ لَّا بَيۡعٌ فِيۡهِ وَلَا خُلَّةٌ وَّلَا شَفَاعَةٌ ؕ وَالۡكٰفِرُوۡنَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ۞
اے ایمان والو! جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے (اﷲ کی راہ میں) خرچ کرو قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس میں نہ کوئی خرید و فروخت ہوگی اور (کافروں کے لئے) نہ کوئی دوستی (کار آمد) ہوگی اور نہ (کوئی) سفارش، اور یہ کفار ہی ظالم ہیں۔

سخاوت (خرچ) کرنے کی ترغیب و فضیلت:

القرآن – سورۃ نمبر 57 الحديد، آیت نمبر 10
وَ مَا لَـكُمۡ اَلَّا تُنۡفِقُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَلِلّٰهِ مِيۡـرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ‌ؕ۔
اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ آسمانوں اور زمین کی ساری ملکیت اللہ ہی کی ہے (تم تو فقط اس مالک کے نائب ہو)۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 177
وَاٰتَى الۡمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِى الۡقُرۡبٰى وَالۡيَتٰمٰى وَالۡمَسٰكِيۡنَ وَابۡنَ السَّبِيۡلِۙ وَالسَّآئِلِيۡنَ وَفِى الرِّقَابِ‌ۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّکٰوةَ ‌ ۚ وَالۡمُوۡفُوۡنَ بِعَهۡدِهِمۡ اِذَا عٰهَدُوۡا ۚ
اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 4684
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:‏‏‏‏ أَنْفِقْ، ‏‏‏‏‏‏أُنْفِقْ عَلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ يَدُ اللَّهِ مَلْأَى لَا تَغِيضُهَا نَفَقَةٌ سَحَّاءُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ لَمْ يَغِضْ مَا فِي يَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندو! (میری راہ میں) خرچ کرو تو میں بھی تم پر خرچ کروں گا اور فرمایا، اللہ کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں۔ رات اور دن مسلسل خرچ کرنے سے بھی خالی نہیں ہوتے اور فرمایا تم نے دیکھا نہیں جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے، مسلسل خرچ کئے جا رہا ہے لیکن اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔

سنن نسائی، حدیث نمبر: 2534
حضرت طارق محاربی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب وہ مدینہ آئے تو رسول اللہ ﷺ خطبہ میں ارشاد فرما رہے تھے:
يَدُ الْمُعْطِي الْعُلْيَا، ‏‏‏‏‏‏وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ أُمَّكَ وَأَبَاكَ وَأُخْتَكَ وَأَخَاكَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَدْنَاكَ أَدْنَاكَ۔
دینے والے کا ہاتھ اوپر والا ہے، اور پہلے انہیں دو جن کی کفالت و نگہداشت کی ذمہ داری تم پر ہو: پہلے اپنی ماں کو، پھر اپنے باپ کو، پھر اپنی بہن کو، پھر اپنے بھائی کو، پھر اپنے قریبی کو، پھر اس کے بعد کے قریبی کو۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2388
حضرت ابوامامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
يَا ابْنَ آدَمَ إِنَّکَ أَنْ تَبْذُلَ الْفَضْلَ خَيْرٌ لَکَ وَأَنْ تُمْسِکَهُ شَرٌّ لَکَ وَلَا تُلَامُ عَلَی کَفَافٍ وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنْ الْيَدِ السُّفْلَی۔
اے ابن آدم اپنی ضرورت سے زائد مال خرچ کردینا تیرے لئے بہتر ہے اگر تو اس کو روک لے گا تو تیرے لئے برا ہوگا اور دینے کی ابتداء اپنے اہل و عیال سے کر اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 55
حضرت ابو مسعود ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِذَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَى أَهْلِهِ يَحْتَسِبُهَا فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ.
جب آدمی ثواب کی نیت سے اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے تو وہ (جو کچھ خرچ کرتا ہے) اس کے لیے صدقہ (کا ثواب) ہے۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 4063
مالک بن نضلۃ الجشمی ؓ کہتے ہیں:
أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فِي ثَوْبٍ دُونٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَلَكَ مَالٌ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مِنْ أَيِّ الْمَالِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ قَدْ آتَانِي اللَّهُ مِنَ الْإِبِلِ وَالْغَنَمِ وَالْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَإِذَا آتَاكَ اللَّهُ مَالًا، ‏‏‏‏‏‏فَلْيُرَ أَثَرُ نِعْمَةِ اللَّهِ عَلَيْكَ وَكَرَامَتِهِ۔
میں نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک معمولی کپڑے میں آیا تو آپ نے فرمایا: کیا تم مالدار ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں مالدار ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کس قسم کا مال ہے؟ تو انہوں نے کہا: اونٹ، بکریاں، گھوڑے، غلام (ہر طرح کے مال سے) اللہ نے مجھے نوازا ہے، یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ نے تمہیں مال و دولت سے نوازا ہے تو اللہ کی نعمت اور اس کے اعزاز کا اثر تمہارے اوپر نظر آنا چاہیئے ۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2140
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
السَّاعِي عَلَى الْأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَكَالَّذِي يَقُومُ اللَّيْلَ وَيَصُومُ النَّهَارَ.
بیوہ عورتوں اور مسکینوں کے لیے محنت و کوشش کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے مانند ہے، اور اس شخص کے مانند ہے جو رات بھر قیام کرتا، اور دن کو روزہ رکھتا ہے ۔

بخل (کنجوسی) کی ممانعت و وعید:

القرآن – سورۃ نمبر 89 الفجر، آیت نمبر 20
وَّتُحِبُّوۡنَ الۡمَالَ حُبًّا جَمًّا ؕ‏ ۞
اور تم مال و دولت سے حد درجہ محبت رکھتے ہو۔

القرآن – سورۃ نمبر 100 العاديات، آیت نمبر 8
وَاِنَّهٗ لِحُبِّ الۡخَيۡرِ لَشَدِيۡدٌ ؕ‏ ۞
اور بیشک وہ مال کی محبت میں بہت سخت ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 100
قُلْ لَّوۡ اَنۡـتُمۡ تَمۡلِكُوۡنَ خَزَآئِنَ رَحۡمَةِ رَبِّىۡۤ اِذًا لَّاَمۡسَكۡتُمۡ خَشۡيَةَ الۡاِنۡفَاقِ‌ ؕ وَكَانَ الۡاِنۡسَانُ قَتُوۡرًا ۞
فرما دیجئے: اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے تو تب بھی (سب) خرچ ہوجانے کے خوف سے تم (اپنے ہاتھ) روکے رکھتے، اور انسان بہت ہی تنگ دل اور بخیل واقع ہوا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 104 الهمزة
آیت نمبر 1۔3
وَيۡلٌ لِّـكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ ۞ اۨلَّذِىۡ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَهٗ ۞ يَحۡسَبُ اَنَّ مَالَهٗۤ اَخۡلَدَهٗ‌ ۞
ہر اس شخص کے لئے ہلاکت ہے جو (روبرو) طعنہ زنی کرنے والا ہے (اور پسِ پشت) عیب جوئی کرنے والا ہے،(خرابی و تباہی ہے اس شخص کے لئے) جس نے مال جمع کیا اور اسے گن گن کر رکھتا ہے۔ وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس کی دولت اسے ہمیشہ زندہ رکھے گی۔

القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 180
وَلَا يَحۡسَبَنَّ الَّذِيۡنَ يَبۡخَلُوۡنَ بِمَاۤ اٰتٰٮهُمُ اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖ هُوَ خَيۡـرًا لَّهُمۡ‌ؕ بَلۡ هُوَ شَرٌّ لَّهُمۡ‌ؕ سَيُطَوَّقُوۡنَ مَا بَخِلُوۡا بِهٖ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ ‌ؕ وَ لِلّٰهِ مِيۡرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ ۞
اور جو لوگ اس (مال و دولت) میں سے دینے میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کیا ہے وہ ہرگز اس بخل کو اپنے حق میں بہتر خیال نہ کریں، بلکہ یہ ان کے حق میں برا ہے، عنقریب روزِ قیامت انہیں (گلے میں) اس مال کا طوق پہنایا جائے گا جس میں وہ بخل کرتے رہے ہوں گے، اور اللہ ہی آسمانوں اور زمین کا وارث ہے، اور اللہ تمہارے سب کاموں سے آگاہ ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 37
اۨلَّذِيۡنَ يَـبۡخَلُوۡنَ وَيَاۡمُرُوۡنَ النَّاسَ بِالۡبُخۡلِ وَيَكۡتُمُوۡنَ مَاۤ اٰتٰٮهُمُ اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖ‌ ؕ وَ اَعۡتَدۡنَا لِلۡكٰفِرِيۡنَ عَذَابًا مُّهِيۡنًا‌ ۞
جو لوگ (خود بھی) بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو (بھی) بخل کا حکم دیتے ہیں اور اس (نعمت) کو چھپاتے ہیں جواللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کی ہے، اور ہم نے کافروں کے لئے ذلت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 92 الليل، آیت نمبر 11
وَمَا يُغۡنِىۡ عَنۡهُ مَالُهٗۤ اِذَا تَرَدّٰىؕ ۞
اور اس کا مال اس کے کسی کام نہیں آئے گا جب وہ ہلاکت (کے گڑھے) میں گرے گا،

القرآن – سورۃ نمبر 59 الحشر، آیت نمبر 9
وَمَنۡ يُّوۡقَ شُحَّ نَـفۡسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‌ۚ ۞
اور جو شخص اپنے نفس کے بُخل سے بچا لیا گیا پس وہی لوگ ہی بامراد و کامیاب ہیں۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1962
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
خَصْلَتَانِ لَا تَجْتَمِعَانِ فِي مُؤْمِنٍ:‏‏‏‏ الْبُخْلُ، ‏‏‏‏‏‏وَسُوءُ الْخُلُقِ۔
مومن کے اندر دو خصلتیں جمع نہیں ہوسکتیں 1) بخل اور 2) بداخلاقی ۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2591
حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَنْفِقِي، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُحْصِي فَيُحْصِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُوعِي فَيُوعِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ.
خرچ کیا کر، گن (گن) کر نہ دو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن کر دے گا اور اور ہاتھ نہ روکو ورنہ اللہ بھی تم سے اپنا ہاتھ روک لے گا۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1963
ابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ خِبٌّ وَلَا مَنَّانٌ وَلَا بَخِيلٌ۔
دھوکہ باز، احسان جتانے والا اور بخیل جنت میں نہیں داخل ہوں گے ۔

خرچ کرنے میں اعتدال:

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 29
وَلَا تَجۡعَلۡ يَدَكَ مَغۡلُوۡلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَلَا تَبۡسُطۡهَا كُلَّ الۡبَسۡطِ فَتَقۡعُدَ مَلُوۡمًا مَّحۡسُوۡرًا ۞
اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھا ہوا رکھو (کہ کسی کو کچھ نہ دو) اور نہ ہی اسے سارا کا سارا کھول دو (کہ سب کچھ ہی دے ڈالو) کہ پھر تمہیں خود ملامت زدہ (اور) تھکا ہارا بن کر بیٹھنا پڑے۔

القرآن – سورۃ نمبر 25 الفرقان، آیت نمبر 67
وَالَّذِيۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ يُسۡرِفُوۡا وَلَمۡ يَقۡتُرُوۡا وَكَانَ بَيۡنَ ذٰلِكَ قَوَامًا‏ ۞
اور (یہ) وہ لوگ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بے جا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان کا خرچ کرنا (زیادتی اور کمی کی) ان دو حدوں کے درمیان اعتدال پر (مبنی) ہوتا ہے۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 4776
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الْهَدْيَ الصَّالِحَ، ‏‏‏‏‏‏وَالسَّمْتَ الصَّالِحَ، ‏‏‏‏‏‏وَالِاقْتِصَادَ، ‏‏‏‏‏‏جُزْءٌ مِنْ خَمْسَةٍ وَعِشْرِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ.
راست روی، خوش خلقی اور میانہ روی نبوت کا پچیسواں حصہ ہے۔

فضول خرچی کی ممانعت:

القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 31
يٰبَنِىۡۤ اٰدَمَ خُذُوۡا زِيۡنَتَكُمۡ عِنۡدَ كُلِّ مَسۡجِدٍ وَّكُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا وَلَا تُسۡرِفُوۡا‌ ۚ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الۡمُسۡرِفِيۡنَ ۞
اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 26
وَاٰتِ ذَا الۡقُرۡبٰى حَقَّهٗ وَالۡمِسۡكِيۡنَ وَابۡنَ السَّبِيۡلِ وَلَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِيۡرًا ۞
اور قرابت داروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو) اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤ۔

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 27
اِنَّ الۡمُبَذِّرِيۡنَ كَانُوۡۤا اِخۡوَانَ الشَّيٰطِيۡنِ‌ ؕ وَكَانَ الشَّيۡطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوۡرًا ۞
بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے،

خرچ کرنے کے درجات:

1) حاجات (absolute needs)
وہ مصارفِ حیات جن کے بغیر زندگی گزارنا ممکن نہیں۔ یہ ہر شخص کا بنیادی حق ہے اور معاشرے کے ہر فرد تک ان کی فراہمی ریاست کا فرض ہے۔ ان کی شرعی حیثیت فرض کی ہے۔ تین چیزیں حاجات کے زمرے میں آتی ہیں:
1) خوراک (روٹی) 2) لباس (کپڑا) 3) رہائش (مکان)

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2341
حضرت عثمان بن عفان ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَيْسَ لِابْنِ آدَمَ حَقٌّ فِي سِوَى هَذِهِ الْخِصَالِ بَيْتٌ يَسْكُنُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَثَوْبٌ يُوَارِي عَوْرَتَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَجِلْفُ الْخُبْزِ وَالْمَاءِ ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ حَدِيثُ الْحُرَيْثِ بْنِ السَّائِبِ، ‏‏‏‏‏‏وَسَمِعْتُ أَبَا دَاوُدَ سُلَيْمَانَ بْنَ سَلْمٍ الْبَلْخِيَّ يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ:‏‏‏‏ جِلْفُ الْخُبْزِ يَعْنِي:‏‏‏‏ لَيْسَ مَعَهُ إِدَامٌ.
دنیا کی چیزوں میں سے ابن آدم کا حق سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اس کے لیے ایک گھر ہو جس میں وہ زندگی بسر کرسکے اور اتنا کپڑا ہو جس سے وہ اپنا ستر ڈھانپ سکے، اور روٹی اور پانی کے لیے برتن ہوں جن سے وہ کھانے پینے کا جتن کرسکے ۔

2) ضروریات (necessities)
وہ مصارفِ حیات جن کے بغیر انسان زندہ تو رہ سکتا ہے لیکن یہ زندگی انتہائی تکلیف دہ اور کٹھن ہوگی۔ اگر معاشرے میں ہر فرد کی حاجات پوری ہو جائیں تو ریاست کا فرض ہے کہ وہ سب کے لیے بنیادی ضروریات کا بھی بندوبست کرے۔ مثلاً بجلی، پانی، گیس، تعلیم، اور صحت وغیرہ۔ ان کی شرعی حیثیت واجب کی ہے۔

3) تسہیلات (facilities and amenities)
وہ مصارفِ حیات جو ایک پر سکون زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہیں۔ تسہیلات میں سواری (گاڑی، کار وغیرہ)، ذرائع ابلاغ (ریڈیو، ٹی وی وغیرہ) جیسی دیگر اشیاء شامل ہیں۔ ان کی شرعی حیثیت مستحب کی ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص رزقِ حلال سے ان تسہیلات کو حاصل کر سکے تو یہ اس کا حق ہے۔

4) تزئینات و تحسینات (decorations)
وہ مصارفِ حیات جو انسانی زندگی میں محض آسائش اور آرائش کا باعث ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص رزقِ حلال کے دائرہ میں رہتے ہوئے اور اپنے زیرِ کفالت تمام افراد کا حق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ تزئینات و تحسینات اختیار کرے تو یہ اس کے لیے شرعی اعتبار سے مباح ہے۔

5) اسرافات (luxuries)
وہ غیر ضروری مصارفِ حیات جو آسائش سے بڑھ کر محض تصنع، نمود و نمائش، بے جا آرائش و زیبائش اور تکلفات پر مبنی ہوتے ہیں۔ ایسی چیزوں کو شرعی اعتبار سے ناپسندیدہ اور مکروہ قرار دیا گیا ہے۔ مثلاً فضول رسومات اور ان پر کیا جانے والا بے تحاشہ خرچ، دولت کی بے جا نمود و نمائش وغیرہ

6) تبذیرات (extravagances)
تبذیرات سے مراد وہ فضول خرچی، اسراف، اور پر تعیش تقریبات ہیں جو محض دولت کی نمائش اور عیش پرستی کے اظہار کے لیے منعقد کی جاتی ہیں۔ شرعی اعتبار سے یہ چیزیں حرام کے زمرے میں آتی ہیں۔ یہ در حقیقت وہ مال ہے جسے حضور نبی مکرم ﷺ نے شرعاً و قانوناً معاشرے کے محروم المعیشت افراد کا حق قرار دیا ہے۔
(زکوٰۃ اور صدقات، 58-61)

تنگدستی میں سخاوت:

سنن نسائی، حدیث نمبر: 2529
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
سَبَقَ دِرْهَمٌ مِائَةَ أَلْفِ دِرْهَمٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ وَكَيْفَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ لِرَجُلٍ دِرْهَمَانِ تَصَدَّقَ بِأَحَدِهِمَا، ‏‏‏‏‏‏وَانْطَلَقَ رَجُلٌ إِلَى عُرْضِ مَالِهِ فَأَخَذَ مِنْهُ مِائَةَ أَلْفِ دِرْهَمٍ فَتَصَدَّقَ بِهَا.
ایک درہم ایک لاکھ درہم سے بڑھ گیا ، لوگوں نے (حیرت سے) پوچھا: یہ کیسے؟ آپ نے فرمایا: ایک شخص کے پاس دو درہم تھے، ان دو میں سے اس نے ایک صدقہ کردیا، اور دوسرا شخص اپنی دولت (کے انبار کے) ایک گوشے کی طرف گیا اور اس (ڈھیر) میں سے ایک لاکھ درہم لیا، اور اسے صدقہ کردیا۔

قناعت کی فضیلت:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 4138
عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ هُدِيَ إِلَى الْإِسْلَامِ،‏‏‏‏ وَرُزِقَ الْكَفَافَ وَقَنَعَ بِهِ.
کامیاب ہوگیا وہ شخص جس کو اسلام کی ہدایت نصیب ہوئی، اور ضرورت کے مطابق روزی ملی، اور اس نے اس پر قناعت کی ۔

سوال سے بچنے کی فضیلت:

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 1643
ثوبان ؓ جو رسول اللہ ﷺ کے غلام تھے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ تَكْفُلُ لِي أَنْ لَا يَسْأَلَ النَّاسَ شَيْئًا وَأَتَكَفَّلُ لَهُ بِالْجَنَّةِ؟فَقَالَ ثَوْبَانُ:‏‏‏‏ أَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ لَا يَسْأَلُ أَحَدًا شَيْئًا.
کون ہے جو مجھے اس بات کی ضمانت دے کہ وہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کرے گا اور میں اسے جنت کی ضمانت دوں؟ ، ثوبان نے کہا: میں (ضمانت دیتا ہوں) ، چناچہ وہ کسی سے کوئی چیز نہیں مانگتے تھے۔

بن مانگے مال لینا:

سنن نسائی، حدیث نمبر: 2608
حضرت عمر بن خطاب ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے انہیں فرمایا:
مَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ فَخُذْهُ وَمَا لَا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ.
تمہارے پاس اس طرح کا جو بھی مال آئے جس کا نہ تم حرص رکھتے ہو اور نہ تم اس کے طلب گار ہو تو وہ مال لے لو، اور جو اس طرح نہ آئے اس کے پیچھے اپنے آپ کو نہ ڈالو ۔

مانگنے اور سوال کرنے کی ممانعت:

سنن نسائی، حدیث نمبر: 2586
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَأَنْ يَحْتَزِمَ أَحَدُكُمْ حُزْمَةَ حَطَبٍ عَلَى ظَهْرِهِ فَيَبِيعَهَا، ‏‏‏‏‏‏خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَسْأَلَ رَجُلًا فَيُعْطِيَهُ أَوْ يَمْنَعَهُ.
اگر تم میں سے کوئی لکڑیوں کا ایک گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے، پھر اسے بیچے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی آدمی سے مانگے، تو اسے دیا جائے یا نہ دیا جائے۔

سنن نسائی، حدیث نمبر: 2587
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَسْأَلُ حَتَّى يَأْتِيَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَيْسَ فِي وَجْهِهِ مُزْعَةٌ مِنْ لَحْمٍ.
آدمی برابر مانگتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ قیامت کے روز ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر کوئی لوتھڑا گوشت نہ ہوگا ۔

سنن نسائی، حدیث نمبر: 2588
عائذ بن عمرو رضی الله عنہ سے روایت ہے:
أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ فَأَعْطَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا وَضَعَ رِجْلَهُ عَلَى أُسْكُفَّةِ الْبَاب:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا فِي الْمَسْأَلَةِ مَا مَشَى أَحَدٌ إِلَى أَحَدٍ يَسْأَلُهُ شَيْئًا.
ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور اس نے آپ سے مانگا تو آپ نے اسے دیا۔ جب (وہ لوٹ کر چلا اور) اس نے اپنا پیر دروازے کے چوکھٹ پر رکھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تم لوگ جان پاتے کہ بھیک مانگنے میں کیا (برائی) ہے تو کوئی کسی کے پاس کچھ بھی مانگنے نہ جاتا ۔

اللہ تعالیٰ کے نام پر مانگنے کی ممانعت:

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 1671
جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا يُسْأَلُ بِوَجْهِ اللَّهِ إِلَّا الْجَنَّةُ.
اللہ کے نام پر سوائے جنت کے کوئی چیز نہ مانگی جائے ۔

قرضِ حسنہ:

اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی خاطر تنگ دست و ضرورت مند کی حاجت روائی کی خاطر اسے قرض دینا ایک مستحسن اور باعثِ اجر و ثواب عمل ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 245
مَنۡ ذَا الَّذِىۡ يُقۡرِضُ اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضۡعَافًا کَثِيۡرَةً
کون ہے جو اﷲ کو قرضِ حسنہ دے پھر وہ اس کے لئے اسے کئی گنا بڑھا دے گا۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 280
وَاِنۡ كَانَ ذُوۡ عُسۡرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيۡسَرَةٍ ‌ؕ وَاَنۡ تَصَدَّقُوۡا خَيۡرٌ لَّـكُمۡ‌ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۞
اور اگر قرض دار تنگدست ہو تو خوشحالی تک مہلت دی جانی چاہئے، اور تمہارا (قرض کو) معاف کر دینا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تمہیں معلوم ہو۔

قرض ادا نہ کرنے کی وعید:

ایک طرف قرآنِ مجید کی تعلیمات قرض دینے والے کو ترغیب دلاتی ہیں کہ وہ تنگ دست قرضدار کو خوشحالی تک مہلت دے اور اگر ہو سکے تو رضائے الٰہی کی خاطر قرض معاف کر دے۔ دوسری طرف قرض ادا نہ کرنے کی اس قدر وعید ہے کہ شہید کو بھی قرض معاف نہیں کیا گیا بلکہ اس سے بھی قرض کا حساب لیا جائے گا۔ قرض ادا نہ کرنے کی وعید کے حوالے سے چند احادیثِ مبارکہ مندرجہ ذیل ہیں:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1640
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُكَفِّرُ كُلَّ خَطِيئَةٍ، إِلَّا الدَّيْنَ۔
اللہ کی راہ میں شہادت (شہید کے لیے) ہر گناہ کا کفارہ بن جاتی ہے، سوائے قرض کے۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2435
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الدَّيْنَ يُقْضَى مِنْ صَاحِبِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِذَا مَاتَ إِلَّا مَنْ يَدِينُ فِي ثَلَاثِ خِلَالٍ:‏‏‏‏ الرَّجُلُ تَضْعُفُ قُوَّتُهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَسْتَدِينُ يَتَقَوَّى بِهِ لِعَدُوِّ اللَّهِ وَعَدُوِّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٌ يَمُوتُ عِنْدَهُ مُسْلِمٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا يَجِدُ مَا يُكَفِّنُهُ وَيُوَارِيهِ إِلَّا بِدَيْنٍ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٌ خَافَ اللَّهَ عَلَى نَفْسِهِ الْعُزْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَيَنْكِحُ خَشْيَةً عَلَى دِينِهِ فَإِنَّ اللَّهَ يَقْضِي عَنْ هَؤُلَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
جب مقروض مرجائے تو قیامت کے دن قرض دار کے قرض کی ادائیگی اس سے ضرور کرائی جائے گی سوائے اس کے کہ اس (مقروض) نے تین باتوں میں سے کسی کے لیے قرض لیا ہو، ایک وہ جس کی طاقت جہاد میں کمزور پڑجائے تو وہ قرض لے کر اپنی طاقت بڑھائے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے اور اپنے دشمن سے جہاد کے قابل ہوجائے، دوسرا وہ شخص جس کے پاس کوئی مسلمان مرجائے اور اس کے پاس اس کے کفن دفن کے لیے سوائے قرض کے کوئی چارہ نہ ہو، تیسرا وہ شخص، جو تجرد (بغیر شادی کے رہنے) سے اپنے نفس پر ڈرے، اور اپنے دین کو مبتلائے آفت ہونے کے اندیشے سے قرض لے کر نکاح کرے، تو اللہ تعالیٰ ان تینوں کا قرض قیامت کے دن ادا کر دے گا ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1266
سمرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
عَلَى الْيَدِ مَا أَخَذَتْ حَتَّى تُؤَدِّيَ .
عاریتاً (ادھار) لی ہوئی شے کی ذمہ داری ہے جب تک کہ واپس نہ کر دی جائے۔

اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

مآخذ و مراجع:
زکوٰۃ اور صدقات (سلسلہ تعلیمات اسلام)

ایمان سے یقین کا سفر

ایمان بالغیب کے بعد جب انسان کو اللہ رب العزت اپنی عطاء سے مشاہدات کرواتے ہیں تو اس کا ایمان ترقی پا کر درجۂِ ایقان تک پہنچ جاتا ہے۔ ایمان کو یقین میں بدلنے والے اسی ضابطۂِ اخلاق کو احسان، تزکیہ اور تصوف کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یقین و اطمینانِ قلب طلب کرنا:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 260
وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰهٖمُ رَبِّ اَرِنِىۡ كَيۡفَ تُحۡىِ الۡمَوۡتٰى ؕ قَالَ اَوَلَمۡ تُؤۡمِنۡ‌ؕ قَالَ بَلٰى وَلٰـكِنۡ لِّيَطۡمَئِنَّ قَلۡبِىۡ‌ؕ قَالَ فَخُذۡ اَرۡبَعَةً مِّنَ الطَّيۡرِ فَصُرۡهُنَّ اِلَيۡكَ ثُمَّ اجۡعَلۡ عَلٰى كُلِّ جَبَلٍ مِّنۡهُنَّ جُزۡءًا ثُمَّ ادۡعُهُنَّ يَاۡتِيۡنَكَ سَعۡيًا ‌ؕ وَاعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰهَ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ ۞
اور (وہ واقعہ بھی یاد کریں) جب ابراہیم ؑ نے عرض کیا: میرے رب! مجھے دکھا دے کہ تُو مُردوں کو کس طرح زندہ فرماتا ہے؟ ارشاد ہوا: کیا تم یقین نہیں رکھتے؟ اس نے عرض کیا: کیوں نہیں (یقین رکھتا ہوں) لیکن (چاہتا ہوں کہ) میرے دل کو بھی خوب سکون نصیب ہو جائے، ارشاد فرمایا: سو تم چار پرندے پکڑ لو پھر انہیں اپنی طرف مانوس کر لو پھر (انہیں ذبح کر کے) ان کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو پھر انہیں بلاؤ وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آجائیں گے، اور جان لو کہ یقینا اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام، آیت نمبر 75
وَكَذٰلِكَ نُرِىۡۤ اِبۡرٰهِيۡمَ مَلَـكُوۡتَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَلِيَكُوۡنَ مِنَ الۡمُوۡقِـنِيۡنَ ۞
اور اسی طرح ہم نے ابراہیم ؑ کو آسمانوں اور زمین کی تمام بادشاہتیں (یعنی عجائباتِ خلق) دکھائیں اور (یہ) اس لئے کہ وہ عین الیقین والوں میں ہوجائے،

اہلِ یقیں کو ملنے والا اجر:

القرآن – سورۃ نمبر 41 فصلت، آیت نمبر 30
اِنَّ الَّذِيۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَيۡهِمُ الۡمَلٰٓئِكَةُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَلَا تَحۡزَنُوۡا وَاَبۡشِرُوۡا بِالۡجَـنَّةِ الَّتِىۡ كُنۡتُمۡ تُوۡعَدُوۡنَ ۞
بے شک جن لوگوں نے کہا: ہمارا رب اﷲ ہے، پھر وہ (اِس پر مضبوطی سے) قائم ہوگئے، تو اُن پر فرشتے اترتے ہیں (اور کہتے ہیں) کہ تم خوف نہ کرو اور نہ غم کرو اور تم جنت کی خوشیاں مناؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔

مآخذ و مراجع:
حقیقتِ تصوف

سود کی حرمت قرآن و حدیث کی روشنی میں

قرآنی آیات:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 275
اَلَّذِيۡنَ يَاۡكُلُوۡنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوۡمُوۡنَ اِلَّا كَمَا يَقُوۡمُ الَّذِىۡ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيۡطٰنُ مِنَ الۡمَسِّ‌ؕ۔ ذٰ لِكَ بِاَنَّهُمۡ قَالُوۡۤا اِنَّمَا الۡبَيۡعُ مِثۡلُ الرِّبٰوا‌ ۘ‌ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الۡبَيۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا‌ ؕ فَمَنۡ جَآءَهٗ مَوۡعِظَةٌ مِّنۡ رَّبِّهٖ فَانۡتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَؕ وَاَمۡرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِ‌ؕ وَمَنۡ عَادَ فَاُولٰٓئِكَ اَصۡحٰبُ النَّارِ‌ۚ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ ۞
جو لوگ سُود کھاتے ہیں وہ (روزِ قیامت) کھڑے نہیں ہو سکیں گے مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان (آسیب) نے چھو کر بدحواس کر دیا ہو، یہ اس لئے کہ وہ کہتے تھے کہ تجارت (خرید و فروخت) بھی تو سود کی مانند ہے، حالانکہ اﷲ نے تجارت (سوداگری) کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کیا ہے، پس جس کے پاس اس کے رب کی جانب سے نصیحت پہنچی سو وہ (سود سے) باز آگیا تو جو پہلے گزر چکا وہ اسی کا ہے، اور اس کا معاملہ اﷲ کے سپرد ہے، اور جس نے پھر بھی لیا سو ایسے لوگ جہنمی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 278، 279
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَذَرُوۡا مَا بَقِىَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ ۞ فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرۡبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ‌ۚ وَاِنۡ تُبۡتُمۡ فَلَـكُمۡ رُءُوۡسُ اَمۡوَالِكُمۡ‌ۚ لَا تَظۡلِمُوۡنَ وَلَا تُظۡلَمُوۡنَ ۞
اے ایمان والو! اﷲ سے ڈرو اور جو کچھ بھی سود میں سے باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم (صدقِ دل سے) ایمان رکھتے ہو۔ پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے اعلانِ جنگ پر خبردار ہو جاؤ، اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے لئے تمہارے اصل مال (جائز) ہیں، نہ تم خود ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 160، 161
فَبِظُلۡمٍ مِّنَ الَّذِيۡنَ هَادُوۡا حَرَّمۡنَا عَلَيۡهِمۡ طَيِّبٰتٍ اُحِلَّتۡ لَهُمۡ وَبِصَدِّهِمۡ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ كَثِيۡرًا ۞ وَّاَخۡذِهِمُ الرِّبٰوا وَقَدۡ نُهُوۡا عَنۡهُ وَاَكۡلِـهِمۡ اَمۡوَالَ النَّاسِ بِالۡبَاطِلِ‌ ؕ وَاَعۡتَدۡنَـا لِلۡـكٰفِرِيۡنَ مِنۡهُمۡ عَذَابًا اَ لِيۡمًا ۞
پھر یہودیوں کے ظلم ہی کی وجہ سے ہم نے ان پر (کئی) پاکیزہ چیزیں حرام کر دیں جو (پہلے) ان کے لئے حلال کی جاچکی تھیں، اور اس وجہ سے (بھی) کہ وہ (لوگوں کو) اﷲ کی راہ سے بکثرت روکتے تھے۔ اور ان کے سود لینے کے سبب سے، حالانکہ وہ اس سے روکے گئے تھے، اور ان کے لوگوں کا ناحق مال کھانے کی وجہ سے (بھی انہیں سزا ملی) اور ہم نے ان میں سے کافروں کے لئے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 276
يَمۡحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَيُرۡبِى الصَّدَقٰتِ‌ؕ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيۡمٍ ۞
اور اﷲ سود کو مٹاتا ہے (یعنی سودی مال سے برکت کو ختم کرتا ہے) اور صدقات کو بڑھاتا ہے (یعنی صدقہ کے ذریعے مال کی برکت کو زیادہ کرتا ہے)، اور اﷲ کسی بھی ناسپاس نافرمان کو پسند نہیں کرتا۔

احادیثِ مبارکہ:

سود کی حرمت اور وعید:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 6857
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوبِقَاتِ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا هُنَّ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ الشِّرْكُ بِاللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَالسِّحْرُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَكْلُ الرِّبَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَكْلُ مَالِ الْيَتِيمِ، ‏‏‏‏‏‏وَالتَّوَلِّي يَوْمَ الزَّحْفِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلَاتِ.
سات مہلک گناہوں سے بچو۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ کیا کیا ہیں؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، ناحق کسی کی جان لینا جو اللہ نے حرام کیا ہے، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جنگ کے دن پیٹھ پھیرنا اور پاک دامن غافل مومن عورتوں کو تہمت لگانا۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 4093
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے:
لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ آکِلَ الرِّبَا وَمُؤْکِلَهُ وَکَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَقَالَ هُمْ سَوَائٌ.
رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے اور کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والوں پر لعنت فرمائی اور ارشاد فرمایا یہ سب گناہ میں برابر شریک ہیں۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2274
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الرِّبَا سَبْعُونَ حُوبًا أَيْسَرُهَا أَنْ يَنْكِحَ الرَّجُلُ أُمَّهُ.
سود ستر گناہوں کے برابر ہے جن میں سے سب سے چھوٹا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے نکاح کرے۔

سنن دار قطنی، حدیث نمبر: 2806
حضرت عبداللہ بن حنظلہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے:
دِرْهَمُ رِبًا يَأْكُلُهُ الرَّجُلُ وَهُوَ يَعْلَمُ أَشَدُّ مِنْ سِتَّةٍ وَثَلاَثِينَ زَنْيَةً.
سود کا ایک درہم جو ایک انسان کھاتا ہے اور جان بوجھ کر کھاتا ہے یہ اس کے لیے چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ شدید ہے (یعنی زیادہ برا ہے )۔

ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر: 38573
حضرت کعب نے فرمایا:
وَإِذَا رَأَیْت الزِّنَا قَدْ فَشَا فَاعْلَمْ ، أَنَّ الرِّبَا قَدْ فَشَا۔
جب تو دیکھے زنا عام ہوگیا تو جان لینا کہ سود پھیل چکا ہے۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2273
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَتَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عَلَى قَوْمٍ بُطُونُهُمْ كَالْبُيُوتِ فِيهَا الْحَيَّاتُ تُرَى مِنْ خَارِجِ بُطُونِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَنْ هَؤُلَاءِ يَا جِبْرَائِيلُ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَؤُلَاءِ أَكَلَةُ الرِّبَا.
معراج کی رات میں کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ مکانوں کے مانند تھے، ان میں باہر سے سانپ دکھائی دیتے تھے، میں نے کہا: جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: یہ سود خور ہیں ۔

سنن نسائی، حدیث نمبر: 5106
حضرت علی المرتضیٰ ؓ سے روایت ہے:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ:‏‏‏‏ لَعَنَ آكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَاتِبَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَانِعَ الصَّدَقَةِ۔
رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کا حساب لکھنے والے اور صدقہ نہ دینے والے پر لعنت فرمائی ہے۔

سنن دار قطنی، حدیث نمبر: 2843
حضرت ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں نبی کریم ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے
الآخِذُ وَالْمُعْطِى سَوَاءٌ فِى الرِّبَا۔
سود لینے والا اور دینے والابرابر (کے گناہ گار) ہوتے ہیں۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2278
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَيَأْتِيَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى مِنْهُمْ أَحَدٌ إِلَّا آكِلُ الرِّبَا فَمَنْ لَمْ يَأْكُلْ أَصَابَهُ مِنْ غُبَارِهِ.
یقیناً لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ کوئی ایسا نہ بچے گا جس نے سود نہ کھایا ہو، جو نہیں کھائے گا اسے بھی اس کا غبار لگ جائے گا ۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2279
عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَا أَحَدٌ أَكْثَرَ مِنَ الرِّبَا إِلَّا كَانَ عَاقِبَةُ أَمْرِهِ إِلَى قِلَّةٍ۔
جس نے بھی سود سے مال بڑھایا، اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ اس کا مال گھٹ جاتا ہے۔

سود کی مختلف شکلیں:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2259
عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الذَّهَبُ بِالْوَرِقِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ الذَّهَبُ بِالْوَرِقِ احْفَظُوا.
سونے کو چاندی سے بیچنا سود ہے مگر نقدا نقد ۔ ابوبکر بن ابی شیبہ کہتے ہیں کہ میں نے سفیان بن عیینہ کو کہتے سنا: یاد رکھو کہ سونے کو چاندی سے یعنی باوجود اختلاف جنس کے ادھار بیچنا ربا (سود) ہے۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 4089
حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
قَالَ إِنَّمَا الرِّبَا فِي النَّسِيئَةِ
سود صرف ادھار میں ہے۔

صحیح بخاری, حدیث نمبر: 2312
ابو سعید خدری ؓ روایت کرتے ہیں:
جَاءَ بِلَالٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَمْرٍ بَرْنِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مِنْ أَيْنَ هَذَا ؟ قَالَ بِلَالٌ:‏‏‏‏ كَانَ عِنْدَنَا تَمْرٌ رَدِيٌّ فَبِعْتُ مِنْهُ صَاعَيْنِ بِصَاعٍ لِنُطْعِمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ:‏‏‏‏ أَوَّهْ أَوَّهْ، ‏‏‏‏‏‏عَيْنُ الرِّبَا، ‏‏‏‏‏‏عَيْنُ الرِّبَا لَا تَفْعَلْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَشْتَرِيَ فَبِعِ التَّمْرَ بِبَيْعٍ آخَرَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اشْتَرِهِ.
بلال ؓ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں برنی کھجور (کھجور کی ایک عمدہ قسم) لے کر آئے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہ کہاں سے لائے ہو؟ انہوں نے کہا ہمارے پاس خراب کھجور تھی، اس کے دو صاع اس کے ایک صاع کے بدلے میں دے کر ہم اسے لائے ہیں۔ تاکہ ہم یہ آپ کو کھلائیں آپ ﷺ نے فرمایا توبہ توبہ یہ تو سود ہے بالکل سود۔ ایسا نہ کیا کر البتہ (اچھی کھجور) خریدنے کا ارادہ ہو تو (خراب) کھجور بیچ کر (اس کی قیمت سے) عمدہ خریدا کر۔

صحیح مسلم, حدیث نمبر: 4059
اوس بن حدثان سے روایت ہے:
أَقْبَلْتُ أَقُولُ مَنْ يَصْطَرِفُ الدَّرَاهِمَ فَقَالَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ وَهُوَ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَرِنَا ذَهَبَکَ ثُمَّ ائْتِنَا إِذَا جَائَ خَادِمُنَا نُعْطِکَ وَرِقَکَ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ کَلَّا وَاللَّهِ لَتُعْطِيَنَّهُ وَرِقَهُ أَوْ لَتَرُدَّنَّ إِلَيْهِ ذَهَبَهُ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْوَرِقُ بِالذَّهَبِ رِبًا إِلَّا هَائَ وَهَائَ وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ رِبًا إِلَّا هَائَ وَهَائَ وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ رِبًا إِلَّا هَائَ وَهَائَ وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ رِبًا إِلَّا هَائَ وَهَائَ۔
میں یہ کہتا ہوا آیا کہ کون دراہم فروخت کرتا ہے تو طلحہ بن عبیداللہ نے کہا اور وہ حضرت عمر بن خطاب کے پاس تشریف فرما تھے کہ ہمیں اپنا سونا دکھاؤ پھر تھوڑی دیر کے بعد آنا جب ہمارا خادم آجائے گا ہم تجھے تیری قیمت ادا کردیں گے تو عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا ہرگز نہیں اللہ کی قسم! تم اس کو اس کی قیمت ادا کرو یا اس کا سونا اسے واپس کردو کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چاندی سونے کے عوض سود ہے ہاں اگر نقد بہ نقد ہو اور گندم گندم کے عوض بیچنا سود ہے سوائے اس کے کہ دست بدست ہو اور جو جو کے بدلے فروخت کرنا سود ہے سوائے اس کے جو دست بدست ہو اور کھجور کو کھجور کے بدلے فروخت کرنا سود ہے سوائے اس کے کہ جو نقد بہ نقد ہو۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 3541
ابوامامہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ شَفَعَ لِأَخِيهِ بِشَفَاعَةٍ فَأَهْدَى لَهُ هَدِيَّةً عَلَيْهَا فَقَبِلَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَدْ أَتَى بَابًا عَظِيمًا مِنْ أَبْوَابِ الرِّبَا.
جس نے اپنے کسی بھائی کی کوئی سفارش کی اور کی اس نے اس سفارش کے بدلے میں سفارش کرنے والے کو کوئی چیز ہدیہ میں دی اور اس نے اسے قبول کرلیا تو وہ سود کے دروازوں میں سے ایک بڑے دروازے میں داخل ہوگیا۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 5045
سعید بن زید ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ مِنْ أَرْبَى الرِّبَا الِاسْتِطَالَةُ فِي عِرْضِ الْمُسْلِمِ بِغَيْرِ حَقٍّ۔
سود کی سب سے سنگین صورت مسلمان کی عزت کے بارے میں زبان درازی کرنا ہے۔

مسند احمد، حدیث نمبر: 20752
حضرت اسامہ بن زید ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا
لَا رِبَا فِيمَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ قَالَ يَعْنِي إِنَّمَا الرِّبَا فِي النَّسِيئَةِ
نقد معاملے میں سود نہیں ہوتا، وہ تو ادھار میں ہوتا ہے۔

مسند احمد، حدیث نمبر: 23107
حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے:
لَمَّا نَزَلَتْ الْآيَاتُ مِنْ آخِرِ الْبَقَرَةِ فِي الرِّبَا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَسْجِدِ وَحَرَّمَ التِّجَارَةَ فِي الْخَمْرِ۔
جب سورت بقرہ کی آخری آیات ” جو سود سے متعلق ہیں ” نازل ہوئیں تو نبی ﷺ مسجد کی طرف روانہ ہوئے اور شراب کی تجارت کو بھی حرام قرار دے دیا۔

سنن کبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر: 10938
حضرت فضالۃ بن عبید نبی ﷺ کے صحابی ہیں، فرماتے ہیں:
کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَۃً فَہُوَ وَجْہٌ مِنْ وُجُوہِ الرِّبَا۔
ہر وہ قرض جو نفع کا سبب بنے وہ سود کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے۔

سنن کبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر: 21134
عمرو بن عثمان فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ أَرْبَی الرِّبَا شَتْمُ الأَعْرَاضِ وَأَشَدُّ الشَّتْمِ الْہِجَائُ۔
یہ بھی سود کی شکل ہے کہ بےعزتی کی غرض سے گالیاں دینا اور سخت ترین گالی کسی کی مذمت بیان کرنا ہے۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 3334
عمرو ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے حجۃ الوداع میں سنا: آپ فرما رہے تھے:
أَلَا إِنَّ كُلَّ رِبًا مِنْ رِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ لَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ، ‏‏‏‏‏‏
سنو! زمانہ جاہلیت کے سارے سود کالعدم قرار دے دیئے گئے ہیں تمہارے لیے بس تمہارا اصل مال ہے نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ کوئی تم پر ظلم کرے (نہ تم کسی سے سود لو نہ تم سے کوئی سود لے)۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں سود کی لعنت سے چھٹکارا عطا فرمائے اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین