القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 254
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰكُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ يَّاۡتِىَ يَوۡمٌ لَّا بَيۡعٌ فِيۡهِ وَلَا خُلَّةٌ وَّلَا شَفَاعَةٌ ؕ وَالۡكٰفِرُوۡنَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ۞
اے ایمان والو! جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے (اﷲ کی راہ میں) خرچ کرو قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس میں نہ کوئی خرید و فروخت ہوگی اور (کافروں کے لئے) نہ کوئی دوستی (کار آمد) ہوگی اور نہ (کوئی) سفارش، اور یہ کفار ہی ظالم ہیں۔
سخاوت (خرچ) کرنے کی ترغیب و فضیلت:
القرآن – سورۃ نمبر 57 الحديد، آیت نمبر 10
وَ مَا لَـكُمۡ اَلَّا تُنۡفِقُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَلِلّٰهِ مِيۡـرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِؕ۔
اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ آسمانوں اور زمین کی ساری ملکیت اللہ ہی کی ہے (تم تو فقط اس مالک کے نائب ہو)۔
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 177
وَاٰتَى الۡمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِى الۡقُرۡبٰى وَالۡيَتٰمٰى وَالۡمَسٰكِيۡنَ وَابۡنَ السَّبِيۡلِۙ وَالسَّآئِلِيۡنَ وَفِى الرِّقَابِۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّکٰوةَ ۚ وَالۡمُوۡفُوۡنَ بِعَهۡدِهِمۡ اِذَا عٰهَدُوۡا ۚ
اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں۔
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 4684
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَنْفِقْ، أُنْفِقْ عَلَيْكَ، وَقَالَ: يَدُ اللَّهِ مَلْأَى لَا تَغِيضُهَا نَفَقَةٌ سَحَّاءُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ، وَقَالَ: أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ، فَإِنَّهُ لَمْ يَغِضْ مَا فِي يَدِهِ،
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندو! (میری راہ میں) خرچ کرو تو میں بھی تم پر خرچ کروں گا اور فرمایا، اللہ کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں۔ رات اور دن مسلسل خرچ کرنے سے بھی خالی نہیں ہوتے اور فرمایا تم نے دیکھا نہیں جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے، مسلسل خرچ کئے جا رہا ہے لیکن اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔
سنن نسائی، حدیث نمبر: 2534
حضرت طارق محاربی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب وہ مدینہ آئے تو رسول اللہ ﷺ خطبہ میں ارشاد فرما رہے تھے:
يَدُ الْمُعْطِي الْعُلْيَا، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ أُمَّكَ وَأَبَاكَ وَأُخْتَكَ وَأَخَاكَ، ثُمَّ أَدْنَاكَ أَدْنَاكَ۔
دینے والے کا ہاتھ اوپر والا ہے، اور پہلے انہیں دو جن کی کفالت و نگہداشت کی ذمہ داری تم پر ہو: پہلے اپنی ماں کو، پھر اپنے باپ کو، پھر اپنی بہن کو، پھر اپنے بھائی کو، پھر اپنے قریبی کو، پھر اس کے بعد کے قریبی کو۔
صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2388
حضرت ابوامامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
يَا ابْنَ آدَمَ إِنَّکَ أَنْ تَبْذُلَ الْفَضْلَ خَيْرٌ لَکَ وَأَنْ تُمْسِکَهُ شَرٌّ لَکَ وَلَا تُلَامُ عَلَی کَفَافٍ وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنْ الْيَدِ السُّفْلَی۔
اے ابن آدم اپنی ضرورت سے زائد مال خرچ کردینا تیرے لئے بہتر ہے اگر تو اس کو روک لے گا تو تیرے لئے برا ہوگا اور دینے کی ابتداء اپنے اہل و عیال سے کر اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 55
حضرت ابو مسعود ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِذَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَى أَهْلِهِ يَحْتَسِبُهَا فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ.
جب آدمی ثواب کی نیت سے اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے تو وہ (جو کچھ خرچ کرتا ہے) اس کے لیے صدقہ (کا ثواب) ہے۔
سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 4063
مالک بن نضلۃ الجشمی ؓ کہتے ہیں:
أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ فِي ثَوْبٍ دُونٍ، فَقَالَ: أَلَكَ مَالٌ ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: مِنْ أَيِّ الْمَالِ ؟ قَالَ: قَدْ آتَانِي اللَّهُ مِنَ الْإِبِلِ وَالْغَنَمِ وَالْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ، قَالَ: فَإِذَا آتَاكَ اللَّهُ مَالًا، فَلْيُرَ أَثَرُ نِعْمَةِ اللَّهِ عَلَيْكَ وَكَرَامَتِهِ۔
میں نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک معمولی کپڑے میں آیا تو آپ نے فرمایا: کیا تم مالدار ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں مالدار ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کس قسم کا مال ہے؟ تو انہوں نے کہا: اونٹ، بکریاں، گھوڑے، غلام (ہر طرح کے مال سے) اللہ نے مجھے نوازا ہے، یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ نے تمہیں مال و دولت سے نوازا ہے تو اللہ کی نعمت اور اس کے اعزاز کا اثر تمہارے اوپر نظر آنا چاہیئے ۔
سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2140
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
السَّاعِي عَلَى الْأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَكَالَّذِي يَقُومُ اللَّيْلَ وَيَصُومُ النَّهَارَ.
بیوہ عورتوں اور مسکینوں کے لیے محنت و کوشش کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے مانند ہے، اور اس شخص کے مانند ہے جو رات بھر قیام کرتا، اور دن کو روزہ رکھتا ہے ۔
بخل (کنجوسی) کی ممانعت و وعید:
القرآن – سورۃ نمبر 89 الفجر، آیت نمبر 20
وَّتُحِبُّوۡنَ الۡمَالَ حُبًّا جَمًّا ؕ ۞
اور تم مال و دولت سے حد درجہ محبت رکھتے ہو۔
القرآن – سورۃ نمبر 100 العاديات، آیت نمبر 8
وَاِنَّهٗ لِحُبِّ الۡخَيۡرِ لَشَدِيۡدٌ ؕ ۞
اور بیشک وہ مال کی محبت میں بہت سخت ہے،
القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 100
قُلْ لَّوۡ اَنۡـتُمۡ تَمۡلِكُوۡنَ خَزَآئِنَ رَحۡمَةِ رَبِّىۡۤ اِذًا لَّاَمۡسَكۡتُمۡ خَشۡيَةَ الۡاِنۡفَاقِ ؕ وَكَانَ الۡاِنۡسَانُ قَتُوۡرًا ۞
فرما دیجئے: اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے تو تب بھی (سب) خرچ ہوجانے کے خوف سے تم (اپنے ہاتھ) روکے رکھتے، اور انسان بہت ہی تنگ دل اور بخیل واقع ہوا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 104 الهمزة
آیت نمبر 1۔3
وَيۡلٌ لِّـكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ ۞ اۨلَّذِىۡ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَهٗ ۞ يَحۡسَبُ اَنَّ مَالَهٗۤ اَخۡلَدَهٗ ۞
ہر اس شخص کے لئے ہلاکت ہے جو (روبرو) طعنہ زنی کرنے والا ہے (اور پسِ پشت) عیب جوئی کرنے والا ہے،(خرابی و تباہی ہے اس شخص کے لئے) جس نے مال جمع کیا اور اسے گن گن کر رکھتا ہے۔ وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس کی دولت اسے ہمیشہ زندہ رکھے گی۔
القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 180
وَلَا يَحۡسَبَنَّ الَّذِيۡنَ يَبۡخَلُوۡنَ بِمَاۤ اٰتٰٮهُمُ اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖ هُوَ خَيۡـرًا لَّهُمۡؕ بَلۡ هُوَ شَرٌّ لَّهُمۡؕ سَيُطَوَّقُوۡنَ مَا بَخِلُوۡا بِهٖ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ ؕ وَ لِلّٰهِ مِيۡرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ ۞
اور جو لوگ اس (مال و دولت) میں سے دینے میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کیا ہے وہ ہرگز اس بخل کو اپنے حق میں بہتر خیال نہ کریں، بلکہ یہ ان کے حق میں برا ہے، عنقریب روزِ قیامت انہیں (گلے میں) اس مال کا طوق پہنایا جائے گا جس میں وہ بخل کرتے رہے ہوں گے، اور اللہ ہی آسمانوں اور زمین کا وارث ہے، اور اللہ تمہارے سب کاموں سے آگاہ ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 37
اۨلَّذِيۡنَ يَـبۡخَلُوۡنَ وَيَاۡمُرُوۡنَ النَّاسَ بِالۡبُخۡلِ وَيَكۡتُمُوۡنَ مَاۤ اٰتٰٮهُمُ اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖ ؕ وَ اَعۡتَدۡنَا لِلۡكٰفِرِيۡنَ عَذَابًا مُّهِيۡنًا ۞
جو لوگ (خود بھی) بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو (بھی) بخل کا حکم دیتے ہیں اور اس (نعمت) کو چھپاتے ہیں جواللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کی ہے، اور ہم نے کافروں کے لئے ذلت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے،
القرآن – سورۃ نمبر 92 الليل، آیت نمبر 11
وَمَا يُغۡنِىۡ عَنۡهُ مَالُهٗۤ اِذَا تَرَدّٰىؕ ۞
اور اس کا مال اس کے کسی کام نہیں آئے گا جب وہ ہلاکت (کے گڑھے) میں گرے گا،
القرآن – سورۃ نمبر 59 الحشر، آیت نمبر 9
وَمَنۡ يُّوۡقَ شُحَّ نَـفۡسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَۚ ۞
اور جو شخص اپنے نفس کے بُخل سے بچا لیا گیا پس وہی لوگ ہی بامراد و کامیاب ہیں۔
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1962
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
خَصْلَتَانِ لَا تَجْتَمِعَانِ فِي مُؤْمِنٍ: الْبُخْلُ، وَسُوءُ الْخُلُقِ۔
مومن کے اندر دو خصلتیں جمع نہیں ہوسکتیں 1) بخل اور 2) بداخلاقی ۔
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2591
حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَنْفِقِي، وَلَا تُحْصِي فَيُحْصِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ، وَلَا تُوعِي فَيُوعِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ.
خرچ کیا کر، گن (گن) کر نہ دو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن کر دے گا اور اور ہاتھ نہ روکو ورنہ اللہ بھی تم سے اپنا ہاتھ روک لے گا۔
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1963
ابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ خِبٌّ وَلَا مَنَّانٌ وَلَا بَخِيلٌ۔
دھوکہ باز، احسان جتانے والا اور بخیل جنت میں نہیں داخل ہوں گے ۔
خرچ کرنے میں اعتدال:
القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 29
وَلَا تَجۡعَلۡ يَدَكَ مَغۡلُوۡلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَلَا تَبۡسُطۡهَا كُلَّ الۡبَسۡطِ فَتَقۡعُدَ مَلُوۡمًا مَّحۡسُوۡرًا ۞
اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھا ہوا رکھو (کہ کسی کو کچھ نہ دو) اور نہ ہی اسے سارا کا سارا کھول دو (کہ سب کچھ ہی دے ڈالو) کہ پھر تمہیں خود ملامت زدہ (اور) تھکا ہارا بن کر بیٹھنا پڑے۔
القرآن – سورۃ نمبر 25 الفرقان، آیت نمبر 67
وَالَّذِيۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ يُسۡرِفُوۡا وَلَمۡ يَقۡتُرُوۡا وَكَانَ بَيۡنَ ذٰلِكَ قَوَامًا ۞
اور (یہ) وہ لوگ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بے جا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان کا خرچ کرنا (زیادتی اور کمی کی) ان دو حدوں کے درمیان اعتدال پر (مبنی) ہوتا ہے۔
سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 4776
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الْهَدْيَ الصَّالِحَ، وَالسَّمْتَ الصَّالِحَ، وَالِاقْتِصَادَ، جُزْءٌ مِنْ خَمْسَةٍ وَعِشْرِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ.
راست روی، خوش خلقی اور میانہ روی نبوت کا پچیسواں حصہ ہے۔
فضول خرچی کی ممانعت:
القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 31
يٰبَنِىۡۤ اٰدَمَ خُذُوۡا زِيۡنَتَكُمۡ عِنۡدَ كُلِّ مَسۡجِدٍ وَّكُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا وَلَا تُسۡرِفُوۡا ۚ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الۡمُسۡرِفِيۡنَ ۞
اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔
القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 26
وَاٰتِ ذَا الۡقُرۡبٰى حَقَّهٗ وَالۡمِسۡكِيۡنَ وَابۡنَ السَّبِيۡلِ وَلَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِيۡرًا ۞
اور قرابت داروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو) اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤ۔
القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 27
اِنَّ الۡمُبَذِّرِيۡنَ كَانُوۡۤا اِخۡوَانَ الشَّيٰطِيۡنِ ؕ وَكَانَ الشَّيۡطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوۡرًا ۞
بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے،
خرچ کرنے کے درجات:
1) حاجات (absolute needs)
وہ مصارفِ حیات جن کے بغیر زندگی گزارنا ممکن نہیں۔ یہ ہر شخص کا بنیادی حق ہے اور معاشرے کے ہر فرد تک ان کی فراہمی ریاست کا فرض ہے۔ ان کی شرعی حیثیت فرض کی ہے۔ تین چیزیں حاجات کے زمرے میں آتی ہیں:
1) خوراک (روٹی) 2) لباس (کپڑا) 3) رہائش (مکان)
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2341
حضرت عثمان بن عفان ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَيْسَ لِابْنِ آدَمَ حَقٌّ فِي سِوَى هَذِهِ الْخِصَالِ بَيْتٌ يَسْكُنُهُ، وَثَوْبٌ يُوَارِي عَوْرَتَهُ، وَجِلْفُ الْخُبْزِ وَالْمَاءِ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ حَدِيثُ الْحُرَيْثِ بْنِ السَّائِبِ، وَسَمِعْتُ أَبَا دَاوُدَ سُلَيْمَانَ بْنَ سَلْمٍ الْبَلْخِيَّ يَقُولُ: قَالَ النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ: جِلْفُ الْخُبْزِ يَعْنِي: لَيْسَ مَعَهُ إِدَامٌ.
دنیا کی چیزوں میں سے ابن آدم کا حق سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اس کے لیے ایک گھر ہو جس میں وہ زندگی بسر کرسکے اور اتنا کپڑا ہو جس سے وہ اپنا ستر ڈھانپ سکے، اور روٹی اور پانی کے لیے برتن ہوں جن سے وہ کھانے پینے کا جتن کرسکے ۔
2) ضروریات (necessities)
وہ مصارفِ حیات جن کے بغیر انسان زندہ تو رہ سکتا ہے لیکن یہ زندگی انتہائی تکلیف دہ اور کٹھن ہوگی۔ اگر معاشرے میں ہر فرد کی حاجات پوری ہو جائیں تو ریاست کا فرض ہے کہ وہ سب کے لیے بنیادی ضروریات کا بھی بندوبست کرے۔ مثلاً بجلی، پانی، گیس، تعلیم، اور صحت وغیرہ۔ ان کی شرعی حیثیت واجب کی ہے۔
3) تسہیلات (facilities and amenities)
وہ مصارفِ حیات جو ایک پر سکون زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہیں۔ تسہیلات میں سواری (گاڑی، کار وغیرہ)، ذرائع ابلاغ (ریڈیو، ٹی وی وغیرہ) جیسی دیگر اشیاء شامل ہیں۔ ان کی شرعی حیثیت مستحب کی ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص رزقِ حلال سے ان تسہیلات کو حاصل کر سکے تو یہ اس کا حق ہے۔
4) تزئینات و تحسینات (decorations)
وہ مصارفِ حیات جو انسانی زندگی میں محض آسائش اور آرائش کا باعث ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص رزقِ حلال کے دائرہ میں رہتے ہوئے اور اپنے زیرِ کفالت تمام افراد کا حق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ تزئینات و تحسینات اختیار کرے تو یہ اس کے لیے شرعی اعتبار سے مباح ہے۔
5) اسرافات (luxuries)
وہ غیر ضروری مصارفِ حیات جو آسائش سے بڑھ کر محض تصنع، نمود و نمائش، بے جا آرائش و زیبائش اور تکلفات پر مبنی ہوتے ہیں۔ ایسی چیزوں کو شرعی اعتبار سے ناپسندیدہ اور مکروہ قرار دیا گیا ہے۔ مثلاً فضول رسومات اور ان پر کیا جانے والا بے تحاشہ خرچ، دولت کی بے جا نمود و نمائش وغیرہ
6) تبذیرات (extravagances)
تبذیرات سے مراد وہ فضول خرچی، اسراف، اور پر تعیش تقریبات ہیں جو محض دولت کی نمائش اور عیش پرستی کے اظہار کے لیے منعقد کی جاتی ہیں۔ شرعی اعتبار سے یہ چیزیں حرام کے زمرے میں آتی ہیں۔ یہ در حقیقت وہ مال ہے جسے حضور نبی مکرم ﷺ نے شرعاً و قانوناً معاشرے کے محروم المعیشت افراد کا حق قرار دیا ہے۔
(زکوٰۃ اور صدقات، 58-61)
تنگدستی میں سخاوت:
سنن نسائی، حدیث نمبر: 2529
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
سَبَقَ دِرْهَمٌ مِائَةَ أَلْفِ دِرْهَمٍ، قَالُوا: وَكَيْفَ ؟ قَالَ: كَانَ لِرَجُلٍ دِرْهَمَانِ تَصَدَّقَ بِأَحَدِهِمَا، وَانْطَلَقَ رَجُلٌ إِلَى عُرْضِ مَالِهِ فَأَخَذَ مِنْهُ مِائَةَ أَلْفِ دِرْهَمٍ فَتَصَدَّقَ بِهَا.
ایک درہم ایک لاکھ درہم سے بڑھ گیا ، لوگوں نے (حیرت سے) پوچھا: یہ کیسے؟ آپ نے فرمایا: ایک شخص کے پاس دو درہم تھے، ان دو میں سے اس نے ایک صدقہ کردیا، اور دوسرا شخص اپنی دولت (کے انبار کے) ایک گوشے کی طرف گیا اور اس (ڈھیر) میں سے ایک لاکھ درہم لیا، اور اسے صدقہ کردیا۔
قناعت کی فضیلت:
سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 4138
عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ هُدِيَ إِلَى الْإِسْلَامِ، وَرُزِقَ الْكَفَافَ وَقَنَعَ بِهِ.
کامیاب ہوگیا وہ شخص جس کو اسلام کی ہدایت نصیب ہوئی، اور ضرورت کے مطابق روزی ملی، اور اس نے اس پر قناعت کی ۔
سوال سے بچنے کی فضیلت:
سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 1643
ثوبان ؓ جو رسول اللہ ﷺ کے غلام تھے، کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ تَكْفُلُ لِي أَنْ لَا يَسْأَلَ النَّاسَ شَيْئًا وَأَتَكَفَّلُ لَهُ بِالْجَنَّةِ؟فَقَالَ ثَوْبَانُ: أَنَا، فَكَانَ لَا يَسْأَلُ أَحَدًا شَيْئًا.
کون ہے جو مجھے اس بات کی ضمانت دے کہ وہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کرے گا اور میں اسے جنت کی ضمانت دوں؟ ، ثوبان نے کہا: میں (ضمانت دیتا ہوں) ، چناچہ وہ کسی سے کوئی چیز نہیں مانگتے تھے۔
بن مانگے مال لینا:
سنن نسائی، حدیث نمبر: 2608
حضرت عمر بن خطاب ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے انہیں فرمایا:
مَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ، وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ فَخُذْهُ وَمَا لَا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ.
تمہارے پاس اس طرح کا جو بھی مال آئے جس کا نہ تم حرص رکھتے ہو اور نہ تم اس کے طلب گار ہو تو وہ مال لے لو، اور جو اس طرح نہ آئے اس کے پیچھے اپنے آپ کو نہ ڈالو ۔
مانگنے اور سوال کرنے کی ممانعت:
سنن نسائی، حدیث نمبر: 2586
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَأَنْ يَحْتَزِمَ أَحَدُكُمْ حُزْمَةَ حَطَبٍ عَلَى ظَهْرِهِ فَيَبِيعَهَا، خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَسْأَلَ رَجُلًا فَيُعْطِيَهُ أَوْ يَمْنَعَهُ.
اگر تم میں سے کوئی لکڑیوں کا ایک گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے، پھر اسے بیچے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی آدمی سے مانگے، تو اسے دیا جائے یا نہ دیا جائے۔
سنن نسائی، حدیث نمبر: 2587
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَسْأَلُ حَتَّى يَأْتِيَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَيْسَ فِي وَجْهِهِ مُزْعَةٌ مِنْ لَحْمٍ.
آدمی برابر مانگتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ قیامت کے روز ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر کوئی لوتھڑا گوشت نہ ہوگا ۔
سنن نسائی، حدیث نمبر: 2588
عائذ بن عمرو رضی الله عنہ سے روایت ہے:
أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ فَأَعْطَاهُ، فَلَمَّا وَضَعَ رِجْلَهُ عَلَى أُسْكُفَّةِ الْبَاب: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَوْ تَعْلَمُونَ مَا فِي الْمَسْأَلَةِ مَا مَشَى أَحَدٌ إِلَى أَحَدٍ يَسْأَلُهُ شَيْئًا.
ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، اور اس نے آپ سے مانگا تو آپ نے اسے دیا۔ جب (وہ لوٹ کر چلا اور) اس نے اپنا پیر دروازے کے چوکھٹ پر رکھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تم لوگ جان پاتے کہ بھیک مانگنے میں کیا (برائی) ہے تو کوئی کسی کے پاس کچھ بھی مانگنے نہ جاتا ۔
اللہ تعالیٰ کے نام پر مانگنے کی ممانعت:
سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 1671
جابر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا يُسْأَلُ بِوَجْهِ اللَّهِ إِلَّا الْجَنَّةُ.
اللہ کے نام پر سوائے جنت کے کوئی چیز نہ مانگی جائے ۔
قرضِ حسنہ:
اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی خاطر تنگ دست و ضرورت مند کی حاجت روائی کی خاطر اسے قرض دینا ایک مستحسن اور باعثِ اجر و ثواب عمل ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 245
مَنۡ ذَا الَّذِىۡ يُقۡرِضُ اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضۡعَافًا کَثِيۡرَةً
کون ہے جو اﷲ کو قرضِ حسنہ دے پھر وہ اس کے لئے اسے کئی گنا بڑھا دے گا۔
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 280
وَاِنۡ كَانَ ذُوۡ عُسۡرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيۡسَرَةٍ ؕ وَاَنۡ تَصَدَّقُوۡا خَيۡرٌ لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۞
اور اگر قرض دار تنگدست ہو تو خوشحالی تک مہلت دی جانی چاہئے، اور تمہارا (قرض کو) معاف کر دینا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تمہیں معلوم ہو۔
قرض ادا نہ کرنے کی وعید:
ایک طرف قرآنِ مجید کی تعلیمات قرض دینے والے کو ترغیب دلاتی ہیں کہ وہ تنگ دست قرضدار کو خوشحالی تک مہلت دے اور اگر ہو سکے تو رضائے الٰہی کی خاطر قرض معاف کر دے۔ دوسری طرف قرض ادا نہ کرنے کی اس قدر وعید ہے کہ شہید کو بھی قرض معاف نہیں کیا گیا بلکہ اس سے بھی قرض کا حساب لیا جائے گا۔ قرض ادا نہ کرنے کی وعید کے حوالے سے چند احادیثِ مبارکہ مندرجہ ذیل ہیں:
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1640
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُكَفِّرُ كُلَّ خَطِيئَةٍ، إِلَّا الدَّيْنَ۔
اللہ کی راہ میں شہادت (شہید کے لیے) ہر گناہ کا کفارہ بن جاتی ہے، سوائے قرض کے۔
سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2435
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الدَّيْنَ يُقْضَى مِنْ صَاحِبِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِذَا مَاتَ إِلَّا مَنْ يَدِينُ فِي ثَلَاثِ خِلَالٍ: الرَّجُلُ تَضْعُفُ قُوَّتُهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَسْتَدِينُ يَتَقَوَّى بِهِ لِعَدُوِّ اللَّهِ وَعَدُوِّهِ، وَرَجُلٌ يَمُوتُ عِنْدَهُ مُسْلِمٌ، لَا يَجِدُ مَا يُكَفِّنُهُ وَيُوَارِيهِ إِلَّا بِدَيْنٍ، وَرَجُلٌ خَافَ اللَّهَ عَلَى نَفْسِهِ الْعُزْبَةَ، فَيَنْكِحُ خَشْيَةً عَلَى دِينِهِ فَإِنَّ اللَّهَ يَقْضِي عَنْ هَؤُلَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
جب مقروض مرجائے تو قیامت کے دن قرض دار کے قرض کی ادائیگی اس سے ضرور کرائی جائے گی سوائے اس کے کہ اس (مقروض) نے تین باتوں میں سے کسی کے لیے قرض لیا ہو، ایک وہ جس کی طاقت جہاد میں کمزور پڑجائے تو وہ قرض لے کر اپنی طاقت بڑھائے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے اور اپنے دشمن سے جہاد کے قابل ہوجائے، دوسرا وہ شخص جس کے پاس کوئی مسلمان مرجائے اور اس کے پاس اس کے کفن دفن کے لیے سوائے قرض کے کوئی چارہ نہ ہو، تیسرا وہ شخص، جو تجرد (بغیر شادی کے رہنے) سے اپنے نفس پر ڈرے، اور اپنے دین کو مبتلائے آفت ہونے کے اندیشے سے قرض لے کر نکاح کرے، تو اللہ تعالیٰ ان تینوں کا قرض قیامت کے دن ادا کر دے گا ۔
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1266
سمرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
عَلَى الْيَدِ مَا أَخَذَتْ حَتَّى تُؤَدِّيَ .
عاریتاً (ادھار) لی ہوئی شے کی ذمہ داری ہے جب تک کہ واپس نہ کر دی جائے۔
اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
مآخذ و مراجع:
زکوٰۃ اور صدقات (سلسلہ تعلیمات اسلام)