مناقبِ اہلِ بیت علیہم السلام و رضوان اللہ علیہم اجمعین
القرآن - سورۃ نمبر 42 الشورى، آیت نمبر 23
قُلْ لَّاۤ اَسۡئَـــلُـكُمۡ عَلَيۡهِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّةَ فِى الۡقُرۡبٰىؕ
Lectures delivered before the Jumma prayer.
القرآن - سورۃ نمبر 42 الشورى، آیت نمبر 23
قُلْ لَّاۤ اَسۡئَـــلُـكُمۡ عَلَيۡهِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّةَ فِى الۡقُرۡبٰىؕ
اسلام ایک مکمل ضابطۂِ حیات ہے جو ہر شعبے سے وابستہ افراد کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ اس مضمون میں قرآن و حدیث کی تعلیمات سے اخذ ہونے والے کچھ نکات بیان کیے گئے ہیں جو کاروبار یا تجارت کے شعبے سے وابستہ افراد کے لیے عملی ہدایات فراہم کرتے ہیں۔
اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔ جو زندگی کے ہر شعبے سے وابستہ افراد کو ایک مکمل ضابطۂِ اخلاق (اصول و ضوابط) دیتا ہے۔ جس پر عمل پیرا ہونے والا انسان حقیقی معنوں میں دنیوی و اخروی فلاح حاصل کر سکتا ہے۔
1۔ اللہ کے ذکر اور یاد سے غفلت نہ برتنا القرآن – سورۃ نمبر 20 طه، آیت نمبر 124وَمَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِكۡرِىۡ فَاِنَّ لَـهٗ مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا۔اور جس نے میرے ذکر (یعنی میری یاد اور نصیحت) سے روگردانی کی تو اس…
اس کائنات کا انتظام اللہ رب العزت ایک خاص اندازے اور تدبیر کے ساتھ چلا رہے ہیں اور اس نظام میں موجود ہر شے کچھ مقررہ اصول و ضوابط کے تحت کام کر رہی ہے۔ انسان کی دنیوی و اخروی کامیابی یہ ہے کہ وہ ان اصول و ضوابط کو سمجھ کر ان پر عمل پیرا ہو۔
بحکمِ خداوندی رمضان المبارک کے روزے ہر مسلمان پر فرض کیے گئے ہیں۔ روزے کی فرضیت کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے اندر تقوٰی کا نور پیدا ہو جائے اور اس کا ظاہر و باطن ہر طرح کی آلائشوں، گناہوں اور برائیوں سے پاک و صاف ہو جائے۔ ذیل میں ہم نے فضائل و احکامِ رمضان المبارک کے حوالے سے مندرجہ ذیل موضوعات کو احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
صدقۂِ فطر کی فرضیت اور احکام
1) روزے کی فرضیت، 2) روزوں کا مقصد کیا ہے؟ 3) افطار کی مسنون دعا 4) افطار کروانے کا ثواب 5) روزوں کی فضیلت 6) قیام اللیل (تراویح) کی فضیلت 7) متفرق احکام
امام راغب اصفہانی نے تزکیہ نفس کی تعریف یوں کی ہے:
خیرات و برکات کا نفسِ انسانی میں نشوونما پانا تزکیۂِ نفس کہلاتا ہے۔
(راغب اصفہانی، المفردات: 214)
1) ایمان - سب سے بڑی دولت ہے
2) اطاعت - سب سے حسین قید ہے
3) رضا - سب بڑی کامیابی ہے
4) محبت - سب سے بڑی خوش نصیبی ہے
یہ مضمون مندرجہ ذیل نکات پر مشتمل ہے:
1) معجزہ کسے کہتے ہیں؟
2) قرآنِ مجید میں مذکور معجزات کا تذکرہ۔
3) مجزات کا باعثِ تعجب ہونا۔
4) معجزات دراصل طاقت و قدرتِ خداوندی کا اظہار ہوتے ہیں۔
5) ہر نبی یا رسول کو عطاء ہونے والا معجزہ اُس زمانے کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے۔
لفظِ معجزہ کا مادۂِ اشتقاق: عَجِزَ، یَعْجَزُ، عَجْزًا ہے۔ جس کے معنیٰ: "کسی چیز پر قادِر نہ ہونا"، "کسی کام کی طاقت نہ رکھنا" یا "کسی امر سے عاجز آجانا" وغیرہ ہیں۔ محاورۂِ عرب میں کہتے ہیں: "عَجِزَ فُلَانٌ عَنِ الْعَمَلِ" یعنی "فلاں آدمی وہ کام کرنے سے عاجز آگیا"۔ أی کبر و صار لا یستطیعہ فھو عاجزٌ (المنجد:488)
علم کے معنی ہیں جاننا۔ جاننے والے کو عالم (جمع علماء) کہتے ہیں اور جس طریقۂِ کار کے ذریعے انسان کو علم حاصل کرنے کے قابل بنایا جاتا ہے اسے تعلیم کہتے ہیں۔ علم کی اہمیت اور فضیلت کے حوالے سے آج ہم مندرجہ ذیل دو پہلوؤں پر گفتگو کریں گے۔
قرآنِ مجید کے اندر اللہ رب العزت نے نکاح کے لیے جو لفظ استعمال کیا ہے وہ ہے "اِحْصَان" جس کے معنی ہیں قلعہ بندی کرنا یا قلعہ تعمیر کرنا۔ اسی طرح قلعہ تعمیر کرنے والے کو "مُحْصِنْ" کہتے ہیں اور قلعہ تعمیر کرنے والی عورت کو "مُحْصِنَہ" کہتے ہیں۔ تو گویا جب مرد اور عورت نکاح کے رشتے میں جڑتے ہیں تو وہ اپنے اردگرد ایک محفوظ قلعہ تعمیر کر لیتے ہیں جس سے وہ شیطانی اور نفسانی حملوں سے بچنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
معاشرہ افراد سے مل کر بنتا ہے اور معاشرے کا بنیادی جزو ایک خاندان ہے۔ لہٰذا معاشرے کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ پہلے خاندان کی اصلاح کی جائے۔ اور خاندان کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ خاندان کا ہر فرد اپنے حقوق و فرائض کو پہچانے اور ان کے مطابق اپنی زندگی بسر کرے۔
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 496عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنِ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَغَسَّلَ وَبَكَّرَ وَابْتَكَرَ وَدَنَا وَاسْتَمَعَ وَأَنْصَتَ كَانَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ يَخْطُوهَا أَجْرُ سَنَةٍ صِيَامُهَا وَقِيَامُهَا.حضرت اوس بن اوس ؓ کہتے…
پچھلے جمعۃ المبارک پہ ہم نے قرآنی آیات کی روشنی میں کامیاب لوگوں کی 27 خصوصیات بیان کی تھیں جن کا مختصر تذکرہ مندرجہ ذیل ہے:
ہر انسان کامیاب ہونا چاہتا ہے۔ ہر انسان نے اپنے ذہن میں کامیابی کا ایک تصور بنا رکھا ہوتا ہے اور اس تصور کے مطابق وہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہر وقت کوشاں رہتا ہے۔ بعض اوقات انسان اپنے قائم کردہ تصور کے مطابق کامیابی حاصل کرنے کے باوجود مطمئن نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جو کامیابی اور ناکامی کا معیار اس نے اپنے لیے قائم کیا ہوتا ہے وہ غلط ہوتا ہے۔
ہر انسان کامیاب ہونا چاہتا ہے۔ ہر انسان نے اپنے ذہن میں کامیابی کا ایک تصور بنا رکھا ہوتا ہے اور اس تصور کے مطابق وہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہر وقت کوشاں رہتا ہے۔ بعض اوقات انسان اپنے قائم کردہ تصور کے مطابق کامیابی حاصل کرنے کے باوجود مطمئن نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جو کامیابی اور ناکامی کا معیار اس نے اپنے لیے قائم کیا ہوتا ہے وہ غلط ہوتا ہے۔
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو پہچان لینا اور اسے اپنی زندگی کا حقیقی مقصدِ حیات سمجھتے ہوئے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے لوگ ہی حقیقتِ ایمان کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
انسان کی زندگی کا واحد مقصد اللہ رب العزت کو راضی کرنا ہے اور اگر انسان اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب بندوں میں شامل ہو جائے تو اس نے گویا دنیا و آخرت کی ساری بھلائیاں حاصل کر لیں۔ پچھلے مضمون میں ہم نے قرآن حکیم کی آیات کی روشنی میں اللہ کے محبوب بندوں کی 14 نشانیاں بیان کی تھیں جن کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے۔
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا و خوشنودی حاصل کرنا ہی انسان کا حقیقی مقصدِ حیات ہے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر، اگر کوئی انسان اللہ کا محبوب بن جائے تو اسے دنیا و آخرت کی ساری بھلائیاں مل جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا محبوب بننے کے حوالے سے قرآنِ حکیم مختلف مقامات پر انسان کی رہنمائی فرماتا ہے۔ اس حوالے سے چند گذارشات مندرجہ ذیل ہیں۔
انسان کا واحد اور حقیقی مقصد اللہ رب العزت کی رضا حاصل کرنا ہے۔ اس مقصدِ حقیقی کو پانے کے لیے ضروری ہے کہ ہر طالبِ حق اپنے دل کو دنیا کی محبت سے پاک کرلے۔ دل کو دنیا کی محبت سے پاک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دنیا کی حقیقت کو سمجھا جائے تاکہ اس کے حملوں سے بچنے کے لیے مناسب تدابیر اختیار کی جا سکیں۔ دنیا کی حقیقت کے حوالے سے مندرجہ ذیل نقاط قابلِ غور ہیں۔
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہی حقیقتِ ایمان ہے۔ اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو حاصل کر لینا یا حاصل کرنے کی کوشش کرنا، یہی حقیقی مقصدِ حیات ہے۔ اور جو شخص اپنے حقیقی مقصدِ حیات کو پہچان لے اور اس کے حصول کی کوشش میں لگا رہے، وہی حقیقی معنوں میں کامیاب ہے۔
انسان کی زندگی کا واحد مقصد، اللہ تعالیٰ کو پہچاننا، اس کی معرفت حاصل کرنا، اور اس کو راضی کرنا ہے۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راضی کر لیا، وہ کامیاب ہوگیا اور جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راضی نہ کرسکا وہ ناکام ہوگیا۔
یہ ایک ایسا بنیادی سوال ہے جس کے بارے میں ہر ذی شعور انسان اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر ضرور سوچتا ہے۔ کہ آخر اسے اس دنیا میں کیوں بھیجا گیا ہے، اور اس کی زندگی کا کیا مقصد ہے؟ اس سوال کا جواب جتنا جلدی ہو سکے تلاش کر لینا چاہیے۔ کیونکہ اس سے انسان کی سوچ، فکر، اور ترجیحات کا تعین ہوتا ہے۔ اگر انسان اپنے حقیقی مقصدِ حیات کا تعین کیے بغیر زندگی گزار دے تو اس کی زندگی کا اختتام شدید پچھتاوے پر ہوتا ہے۔
سوال: محبت کی دین میں ضرورت کیا ہے؟ کیا محبت کے بغیر اطاعت ممکن ہے؟ محبت اور اطاعت کا تعلق کیا ہے؟ کیا صرف اطاعت کرنا کافی نہیں ہے؟ جواب: محبت شرطِ ایمان ہے۔ جبکہ اطاعت اظہارِ محبت کا نام…
کچھ اہلِ لغت کے نزدیک لفظِ محبت الحَبُّ وَالْحَبَّۃُ سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں دانہ یا بیج۔ (رسالہ قشیریہ، امام ابو القاسم القشیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) جیسے قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: اِنَّ…
کچھ اہلِ لغت کے نزدیک لفظِ محبت الحَبُّ وَالْحَبَّۃُ سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں دانہ یا بیج۔ (رسالہ قشیریہ، امام ابو القاسم القشیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) جیسے قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: اِنَّ…
اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِہِمۡ۔یہ نبیِ ( مکرّم ) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حق دار ہیں۔القرآن، سورۃ الاحزاب 33، آیت 6 یَا صَاحِبَ الْجَمَالِ وَ یَا سَیِّدَ الْبَشَرمِنْ وَّجْہِکَ الْمُنِیْرِ لَقَدْ نُوِّرَ الْقَمَرلَا یُمْکِنُ…