مناقبِ اہلِ بیت علیہم السلام و رضوان اللہ علیہم اجمعین

القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى، آیت نمبر 23
قُلْ لَّاۤ اَسۡئَـــلُـكُمۡ عَلَيۡهِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّةَ فِى الۡقُرۡبٰى‌ؕ

فرما دیجئے: میں اِس (تبلیغِ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (اپنی اور اللہ کی) قرابت و قربت سے محبت (چاہتا ہوں)۔

الحديث رقم 5 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 47، الرقم : 2641۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : لَمَّانَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ : (قُلْ لاَّ أَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمًوَدَّةَ فِي الْقُرْبَي) قَالُوْا : يَارَسُوْلَ اللهِ، مَنْ قَرَابَتُکَ هَؤُلاءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ : عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ وَابْنَاهُمَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت : (قُلْ لاَّ أَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمًوَدَّةَ فِي الْقُرْبَي) نازل ہوئی تو صحابہ کرام نے عرض کیا :

یا رسول اللہ! آپ کی قرابت کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : علی، فاطمہ اور ان کے دو بیٹے (حسن و حسین)۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3786
عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ رَبِيبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا سورة الأحزاب آية 33 فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ،‏‏‏‏ وَحَسَنًا،‏‏‏‏ وَحُسَيْنًا فَجَلَّلَهُمْ بِكِسَاءٍ،‏‏‏‏ وَعَلِيٌّ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَجَلَّلَهُ بِكِسَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ:‏‏‏‏ وَأَنَا مَعَهُمْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَنْتِ عَلَى مَكَانِكِ وَأَنْتِ إِلَى خَيْرٍ . قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَابِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي الْحَمْرَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَهَذَا غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ.
نبی اکرم ﷺ کے «ربيب» (پروردہ) عمر بن ابی سلمہ ؓ کہتے ہیں کہ جب آیت کریمہ «إنما يريد اللہ ليذهب عنکم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا» اے اہل بیت النبوۃ! اللہ چاہتا ہے کہ تم سے (کفر و شرک) کی گندگی دور کر دے، اور تمہاری خوب تطہیر کر دے (الاحزاب: ٣٣) ، نبی اکرم ﷺ پر ام سلمہ ؓ کے گھر میں اتریں تو آپ نے فاطمہ اور حسن و حسین ؓ کو بلایا اور آپ نے انہیں ایک چادر میں ڈھانپ لیا اور علی ؓ آپ کی پشت مبارک کے پیچھے تھے تو آپ نے انہیں بھی چادر میں چھپالیا، پھر فرمایا: «اللهم هؤلاء أهل بيتي فأذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيرا» اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں تو ان کی ناپاکی کو دور فرما دے اور انہیں اچھی طرح پاک کر دے ، ام سلمہ نے عرض کیا: اللہ کے نبی! میں بھی انہیں کے ساتھ ہوں، آپ نے فرمایا : تو اپنی جگہ پر رہ اور تو بھی نیکی پر ہے ۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 6135
سعد بن ابی وقاص ؓ بیان کرتے ہیں،
لَمَّا نزلت هَذِه الْآيَة [ندْعُ أبناءنا وأبناءكم] دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ: «اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أهل بَيْتِي» رَوَاهُ مُسلم

جب یہ آیت (نَدْعُ اَبْنَاءَ نَا وَ اَبْنَاءَ کُمْ) نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین ؓ کو بلایا اور فرمایا:’’ اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔‘‘ رواہ مسلم۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3787
زید بن ارقم ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي، ‏‏‏‏‏‏أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الْآخَرِ، ‏‏‏‏‏‏كِتَابُ اللَّهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، ‏‏‏‏‏‏وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي،‏‏‏‏ وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ، ‏‏‏‏‏‏فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا . قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ.
میں تم میں ایسی چیز چھوڑنے والا ہوں کہ اگر تم اسے پکڑے رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے: ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے اور وہ اللہ کی کتاب ہے گویا وہ ایک رسی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے، اور دوسری میری «عترت» یعنی میرے اہل بیت ہیں یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے، یہاں تک کہ یہ دونوں حوض کوثر پر میرے پاس آئیں گے، تو تم دیکھ لو کہ ان دونوں کے سلسلہ میں تم میری کیسی جانشینی کر رہے ہو۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3786
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ:
رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّتِهِ يَوْمَ عَرَفَةَ وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ الْقَصْوَاءِ يَخْطُبُ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ:‏‏‏‏ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا، ‏‏‏‏‏‏كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي۔
میں نے رسول اللہ ﷺ کو حجۃ الوداع میں عرفہ کے دن دیکھا، آپ اپنی اونٹنی قصواء پر سوار ہو کر خطبہ دے رہے تھے، میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا: اے لوگو! میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر تم اسے پکڑے رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے: ایک اللہ کی کتاب ہے دوسرے میری «عترت» یعنی اہل بیت ہیں۔

عَنِ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي تَارِکٌ فِيْکُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوْا إِنِ اتَّبَعْتُمُوْهُمَا، وَهُمَا : کِتَابُ اللهِ، وَأَهْلُ بَيْتِي عِتْرَتِي. ثُمَّ قَالَ : أَ تَعْلَمُوْنَ أَنِّي أَوْلَي بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ قَالُوْا : نَعَمْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيُّ مَوْلَاهُ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحٌ.
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اے لوگو! میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جانے والا ہوں اور اگر تم ان کی اتباع کرو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے اور وہ دو چیزیں کتاب اللہ اور میرے اہل بیت ہیں پھر آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو میں مؤمنین کی جانوں سے بڑھ کر ان کو عزیز ہوں آپ ﷺ نے ایسا تین مرتبہ فرمایا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : ہاں یا رسول اللہ! تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس کا میں مولی ہوں علی بھی اس کا مولی ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3789
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَحِبُّوا اللَّهَ لِمَا يَغْذُوكُمْ مِنْ نِعَمِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحِبُّونِي بِحُبِّ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحِبُّوا أَهْلَ بَيْتِي لِحُبِّي . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
اللہ سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمتیں کھلا رہا ہے، اور محبت کرو مجھ سے اللہ کی خاطر، اور میرے اہل بیت سے میری خاطر ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3874
عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرٍ التَّيْمِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ دَخَلْتُ مَعَ عَمَّتِي عَلَى عَائِشَةَ،‏‏‏‏ فَسُئِلَتْ:‏‏‏‏ أَيُّ النَّاسِ كَانَ أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ فَاطِمَةُ ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ:‏‏‏‏ مِنَ الرِّجَالِ ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ زَوْجُهَا إِنْ كَانَ مَا عَلِمْتُ صَوَّامًا قَوَّامًا .
جمیع بن عمیر تیمی کہتے ہیں کہ میں اپنے چچا کے ساتھ عائشہ ؓ کے پاس آیا تو ان سے پوچھا گیا: لوگوں میں رسول اللہ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب کون تھا؟ تو انہوں نے کہا: فاطمہ، پھر پوچھا گیا: مردوں میں کون تھا؟ انہوں نے کہا: ان کے شوہر، یعنی علی، میں خوب جانتی ہوں وہ بہت روزہ دار اور تہجد گزار تھے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3782
براء ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے حسن اور حسین ؓ کو دیکھا تو فرمایا:
اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا۔ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.

«اللهم إني أحبهما فأحبهما» اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان دونوں سے محبت فرما ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3784
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَامِلَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ عَلَى عَاتِقِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ نِعْمَ الْمَرْكَبُ رَكِبْتَ يَا غُلَامُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ وَنِعْمَ الرَّاكِبُ هُوَ۔

رسول اللہ ﷺ حسین بن علی ؓ کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے تو ایک شخص نے کہا: بیٹے! کیا ہی اچھی سواری ہے جس پر تو سوار ہے، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اور سوار بھی کیا ہی اچھا ہے ۔

جامع ترمذی, حدیث نمبر: 3772
انس بن مالک کہتے ہیں:
سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَيُّ أَهْلِ بَيْتِكَ أَحَبُّ إِلَيْكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ يَقُولُ لِفَاطِمَةَ:‏‏‏‏ ادْعِي لِيَ ابْنَيَّ ،‏‏‏‏ فَيَشُمُّهُمَا وَيَضُمُّهُمَا إِلَيْهِ.

رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ آپ کے اہل بیت میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: حسن اور حسین ؓ ، آپ فاطمہ ؓ سے فرماتے: میرے دونوں بیٹوں کو بلاؤ، پھر آپ انہیں چومتے اور انہیں اپنے سینہ سے لگاتے ۔

جامع ترمذی, حدیث نمبر: 3774
بریدہ ؓ کہتے ہیں کہ:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُنَا إِذْ جَاءَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ عَلَيْهِمَا قَمِيصَانِ أَحْمَرَانِ يَمْشِيَانِ وَيَعْثُرَانِ،‏‏‏‏ فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمِنْبَرِ فَحَمَلَهُمَا،‏‏‏‏ وَوَضَعَهُمَا بَيْنَ يَدَيْهِ،‏‏‏‏ ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ صَدَقَ اللَّهُ إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ سورة التغابن آية 15 فَنَظَرْتُ إِلَى هَذَيْنِ الصَّبِيَّيْنِ يَمْشِيَانِ وَيَعْثُرَانِ،‏‏‏‏ فَلَمْ أَصْبِرْ حَتَّى قَطَعْتُ حَدِيثِي وَرَفَعْتُهُمَا .

رسول اللہ ﷺ ہمیں خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک حسن اور حسین ؓ دونوں سرخ قمیص پہنے ہوئے گرتے پڑتے چلے آ رہے تھے، آپ نے منبر سے اتر کر ان دونوں کو اٹھا لیا، اور ان کو لا کر اپنے سامنے بٹھا لیا، پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے «إنما أموالکم وأولادکم فتنة» تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں، میں نے ان دونوں کو گرتے پڑتے آتے ہوئے دیکھا تو صبر نہیں کرسکا، یہاں تک کہ اپنی بات روک کر میں نے انہیں اٹھا لیا۔

’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم جب قریش کی جماعت سے ملتے اور وہ باہم گفتگو کررہے ہوتے تو گفتگو روک دیتے ہم نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں اس امر کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے فرمایا : لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جب میرے اہل بیت سے کسی کو دیکھتے ہیں تو گفتگو روک دیتے ہیں؟ اللہ رب العزت کی قسم! کسی شخص کے دل میں اس قت تک ایمان داخل نہیں ہوگا جب تک ان سے اللہ تعالیٰ کے لیے اور میرے قرابت کی وجہ سے محبت نہ کرے۔ اسے امام ابن ماجہ اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

’’حضرت عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی جان سے بھی محبوب تر نہ ہو جاؤں اور میرے اھلِ بیت اسے اس کے اہل خانہ سے محبوب تر نہ ہو جائیں اور میری اولاد اسے اپنی اولاد سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائے اور میری ذات اسے اپنی ذات سے محبوب تر نہ ہو جائے۔‘‘

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3768
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْحَسَنُ،‏‏‏‏ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ .
حسن اور حسین اہل جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3781
حذیفہ ؓ کہتے ہیں کہ:
سَأَلَتْنِي أُمِّي مَتَى عَهْدُكَ ؟ تَعْنِي بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَا لِي بِهِ عَهْدٌ مُنْذُ كَذَا وَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏فَنَالَتْ مِنِّي، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لَهَا:‏‏‏‏ دَعِينِي آتِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُصَلِّيَ مَعَهُ الْمَغْرِبَ وَأَسْأَلُهُ أَنْ يَسْتَغْفِرَ لِي وَلَكِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّيْتُ مَعَهُ الْمَغْرِبَ فَصَلَّى حَتَّى صَلَّى الْعِشَاءَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ انْفَتَلَ فَتَبِعْتُهُ،‏‏‏‏ فَسَمِعَ صَوْتِي،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ هَذَا حُذَيْفَةُ ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا حَاجَتُكَ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ وَلِأُمِّكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ هَذَا مَلَكٌ لَمْ يَنْزِلِ الْأَرْضَ قَطُّ قَبْلَ هَذِهِ اللَّيْلَةِ اسْتَأْذَنَ رَبَّهُ أَنْ يُسَلِّمَ عَلَيَّ،‏‏‏‏ وَيُبَشِّرَنِي بِأَنَّ فَاطِمَةَ سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ . قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ.
مجھ سے میری والدہ نے پوچھا: تو نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حال ہی میں کب گئے تھے؟ میں نے کہا: اتنے اتنے دنوں سے میں ان کے پاس نہیں جاسکا ہوں، تو وہ مجھ پر خفا ہوئیں، میں نے ان سے کہا: اب مجھے نبی اکرم ﷺ کے پاس جانے دیجئیے میں آپ کے ساتھ نماز مغرب پڑھوں گا اور آپ سے میں اپنے اور آپ کے لیے دعا مغفرت کی درخواست کروں گا، چناچہ میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور آپ کے ساتھ مغرب پڑھی پھر آپ (نوافل) پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ نے عشاء پڑھی، پھر آپ لوٹے تو میں بھی آپ کے ساتھ پیچھے پیچھے چلا، آپ نے میری آواز سنی تو فرمایا: کون ہو؟ حذیفہ؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، حذیفہ ہوں، آپ نے فرمایا: «ما حاجتک غفر اللہ لک ولأمك» کیا بات ہے؟ بخشے اللہ تمہیں اور تمہاری ماں کو (پھر) آپ نے فرمایا: یہ ایک فرشتہ تھا جو اس رات سے پہلے زمین پر کبھی نہیں اترا تھا، اس نے اپنے رب سے مجھے سلام کرنے اور یہ بشارت دینے کی اجازت مانگی کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین ؓ اہل جنت کے جوانوں (یعنی جو دنیا میں جوان تھے ان) کے سردار ہیں۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3769
اسامہ بن زید ؓ کہتے ہیں کہ میں ایک رات کسی ضرورت سے نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا، آپ ﷺ نکلے تو آپ ایک ایسی چیز لپیٹے ہوئے تھے جسے میں نہیں جان پا رہا تھا کہ کیا ہے، پھر جب میں اپنی ضرورت سے فارغ ہوا تو میں نے عرض کیا: یہ کیا ہے جس کو آپ لپیٹے ہوئے ہیں؟ تو آپ نے اسے کھولا تو وہ حسن اور حسین ؓ تھے، آپ ﷺ کے کولہے سے چپکے ہوئے تھے، پھر آپ نے فرمایا:
هَذَانِ ابْنَايَ وَابْنَا ابْنَتِيَ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُمَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَحِبَّهُمَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَحِبَّ مَنْ يُحِبُّهُمَا .
یہ دونوں میرے بیٹے اور میرے نواسے ہیں، اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان سے محبت کر اور اس سے بھی محبت کر جو ان سے محبت کرے ۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6256
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت حسن کے لئے فرمایا:
اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ وَأَحْبِبْ مَنْ يُحِبُّهُ
اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر اور تو اس سے محبت کر جو اس سے محبت کرے۔

کنزالعمال، حدیث نمبر: 34226
أتاني ملك فسلم علي، نزل من السماء لم ينزل قبلها، فبشرني أن الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة وأن فاطمة سيدة نساء أهل الجنة. ” ابن عساكر – عن حذيفة”.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک فرشتہ میرے پاس آیا پس اس نے مجھے اسلام کیا جو آسمان سے اترا اور اس سے پہلے کبھی نہیں اتر اس نے مجھے خوشخبری دی کہ حسن اور حسین ؓ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں اور بیشک فاطمہ ؓ جنتیوں کے عورتوں کی سردار ہیں۔ (ابن عساکر بروایت حذیفہ)

کنزالعمال، حدیث نمبر: 34256
ابناي هذان الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة وأبوهما خير منهما. ” ابن عساكر – عن علي وعن ابن عمر”.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے یہ دوبیٹے یعنی حسن اور حسین ؓ جنتیوں کے نوجوانوں کے سردار ہیں اور ان کے والد ان دونوں سے بہتر ہیں۔ (تاریخ ابن عساکربروایت علی اور بروایت ابن عمر)

کنزالعمال، حدیث نمبر: 34258
“أما رأيت العارض الذي عرض لي قبيل؟ هو ملك من الملائكة لم يهبط إلى الأرض قط قبل هذه الليلة، استأذن ربه عز وجل أن يسلم علي ويبشرني أن الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة وأن فاطمة سيدة نساء أهل الجنة.” حم، ت، ن، حب، عن حذيفة”.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آپ نے وہ بادل نہیں دیکھا جو تھوڑی دیر پہلے میرے لیے پیش کیا گیا وہ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے جو کبھی بھی اس رات سے پہلے زمین پر نہیں اترا، اپنے رب عزوجل سے اس بات کی اجازت لی کہ مجھے سلام کہے اور اس بات کی بشارت دے کہ حسن اور حسین جنتیوں کے نوجوانوں کے سردار ہیں اور فاطمہ ؓ جنتیوں کی عورتوں کی سردار ہیں۔ (احمدبن حنبل ترمذی نسائی، ابن حبان بروایت حذیفہ)

کنزالعمال، حدیث نمبر: 34293
“الحسن والحسين من أحبهما أحببته، ومن أحببته أحبه الله، ومن أحبه الله أدخله جنات النعيم، ومن أبغضهما أو بغى عليهما أبغضته، ومن أبغضته أبغضه الله، ومن أبغضه الله أدخله نار جهنم وله عذاب مقيم. ” أبو نعيم، كر – عن سلمان، أبو نعيم – عن أبي هريرة”.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حسن اور حسین جو ان سے محبت کرے میں اس سے محبت کروں گا اور جس سے میں نے محبت کی تو اللہ اس سے محبت کرے گا اور جس سے اللہ نے محبت کی تو اللہ تعالیٰ اس کو نعمتوں کے باغات میں داخل کرے گا اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا، ان دونوں پر زیادتی کی تو میں اس سے بغض رکھوں گا اور جس سے میں بغض رکھا اللہ اس کو ناپسندکرے گا اور جس کو اللہ ناپسند کرے تو اللہ اس کو جہنم کی آگ میں داخل کرے گا اور اس پر ہمیشہ رہنے والا عذاب ہوگا۔ (ابونعیم تاریخ ابن عساکر بروایت سلمان ابونعیم بروایت ابوہریرہ)

کنزالعمال، حدیث نمبر: 34295
“الحسن والحسين ابناي من أحبهما أحبني، ومن أحبني أحبه الله، ومن أحبه الله أدخله الجنة، ومن أبغضهما أبغضني، ومن أبغضني أبغضه الله، ومن أبغضه الله أدخله النار. ” ك وتعقب عن سلمان”.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حسن اور حسین میرے دوبیٹے ہیں جو ان سے محبت رکھے گا میں اس سے محبت رکھوں گا اور جس سے میں محبت کروں اللہ اس سے محبت کرے گا اور جس سے اللہ محبت کرے وہ اسے جنت میں داخل کرے گا اور جس نے دونوں سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اللہ اس کو ناپسندکرے اور جس کو اللہ ناپسند کرے تو وہ اس کو جہنم میں داخل کرے گا۔ (مستدرک حاکم وتعقب بروایت سلمان)

کنزالعمال، حدیث نمبر: 34301
“من أحبني فليحب هذين – يعني الحسن والحسين.”طب – عن ابن مسعود”.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو مجھ سے محبت رکھتا ہے تو وہ ان دونوں سے محبت کرے یعنی حسن اور حسین سے۔ (طبرانی بروایت ابن مسعود)

کنزالعمال، حدیث نمبر: 34307
أخبرني جبريل أن حسينا يقتل بشاطئ الفرات.” ابن سعد – عن علي”.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے جبرائیل (علیہ السلام) نے بتایا کہ حسین فرات کے کنارے قتل کئے جائیں گے۔ (ابن سعدبروایت علی)

کنزالعمال، حدیث نمبر: 34309
“أتاني جبريل فأخبرني أن أمتي ستقتل ابني هذا – يعني الحسين وأتاني بتربة من تربته حمراء. ” د، ك – عن أم الفضل بنت الحارث.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جبرائیل (علیہ السلام) میرے پاس آئے اور انھوں نے مجھے بتایا کہ میری امت عنقریب میرے اس بیٹے کو قتل کرے گی یعنی حسین کو اور میرے پاس اس کی سرخی مٹی لے کر آئے۔ (ابوداؤد مستدرک حاکم بروایت ام الفضل بنت الحارث)

کنزالعمال، حدیث نمبر: 34322
“أخبرني جبريل أن ابني الحسين يقتل بأرض العراق، فقلت لجبريل: أرني تربة الأرض التي يقتل فيها، فجاء، فهذه تربتها. ” ابن سعد – عن أم سلمة”.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے جبرائیل (علیہ السلام ) نے یہ خبردی کہ میرا بیٹا حسین عراق کی زمین پر قتل کیا جائے گا، تو میں نے جبرائیل (علیہ السلام) سے کہا، مجھے وہ مٹی دکھائیں جہاں یہ قتل کیا جائے گا تو وہ لے آئے اور یہ اس کی مٹی ہے۔ (ابن سعد روایت ام سلمہ)

کنزالعمال، حدیث نمبر: 34326
“إن جبريل أخبرني أن ابني هذا يقتل، وأنه اشتد غضب الله على من يقتله.” ابن عساكر – عن أم سلمة”.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے بتایا کہ میرا یہ بیٹا قتل کیا جائے گا اس شخص پر اللہ کا غصہ شدید ہوگا جو اسے قتل کرے گا۔ (تاریخ ابن عساکربروایت ام سلمہ)

کنزالعمال، حدیث نمبر: 34332
“يا عائشة؟ ألا أعجبك؟ لقد دخل علي ملك آنفا ما دخل علي قط فقال: إن ابني هذا مقتول؛ وقال: إن شئت أريتك تربة يقتل فيها؛ فتناول الملك يده فأراني تربة حمراء. ” طب – عن عائشة”.
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! کیا میں تجھے عجیب بات نہ بتاؤں؟ ابھی میرے پاس ایک فرشتہ داخل ہوا جو میرے پاس کبھی بھی داخل نہیں ہوا تو اس نے کہا: میرا یہ بیٹا مقتول ہے اور کہا: اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو وہی مٹی دکھاؤں جہاں یہ قتل کیا جائے گا، فرشتے نے اپنا ہاتھ لیا اور مجھے سرخ مٹی دکھائی۔ (طبرانی بروایت عائشہ)

تجارت یا کاروبار میں کامیابی کا اکیس (21) نکاتی فارمولا

اسلام ایک مکمل ضابطۂِ حیات ہے جو ہر شعبے سے وابستہ افراد کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ اس مضمون میں قرآن و حدیث کی تعلیمات سے اخذ ہونے والے کچھ نکات بیان کیے گئے ہیں جو کاروبار یا تجارت کے شعبے سے وابستہ افراد کے لیے عملی ہدایات فراہم کرتے ہیں۔ یہ نکات مندرجہ ذیل ہیں:

1) تجارت یا کاروبار کے دوران اللہ کی یاد سے غافل نہ ہونا۔

القرآن – سورۃ نمبر 62 الجمعة، آیت نمبر 9
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِىَ لِلصَّلٰوةِ مِنۡ يَّوۡمِ الۡجُمُعَةِ فَاسۡعَوۡا اِلٰى ذِكۡرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الۡبَيۡعَ‌ ؕ ذٰ لِكُمۡ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۞
اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لئے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

القرآن – سورۃ نمبر 20 طه، آیت نمبر 124
وَمَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِكۡرِىۡ فَاِنَّ لَـهٗ مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا۔
اور جس نے میرے ذکر (یعنی میری یاد اور نصیحت) سے روگردانی کی تو اس کے لئے دنیاوی معاش (بھی) تنگ کردیا جائے گا۔

2) تقویٰ و پرہیزگاری (گناہوں کے ارتکاب سے بچنا + اطاعتِ الٰہی) اختیار کرنا

القرآن – سورۃ نمبر 65 الطلاق، آیت نمبر 2،3
وَمَنۡ يَّـتَّـقِ اللّٰهَ يَجۡعَلْ لَّهٗ مَخۡرَجًا ۞ وَّيَرۡزُقۡهُ مِنۡ حَيۡثُ لَا يَحۡتَسِبُ‌۔
اور جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لئے (دنیا و آخرت کے رنج و غم سے) نکلنے کی راہ پیدا فرما دیتا ہے، اور اسے ایسی جگہ سے رِزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔

3) ہمیشہ سچ بولنا اور ایمانداری سے کام کرنا

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1209
ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ، ‏‏‏‏‏‏وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ۔
سچا اور امانت دار تاجر (قیامت کے دن) انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا ۔

4) رزقِ حلال کمانے کو عبادت سمجھنا

طلب الحلال فریضۃ بعد الفریضۃ
رزقِ حلال کی تلاش فرض عبادت کے بعد (سب سے بڑا) فریضہ ہے۔
طبرانی، المعجم الکبیر، رقم: 9993

5) ملازمت کے بجائے کاروبار کو ترجیح دینا

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2153
عمر بن الخطاب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْجَالِبُ مَرْزُوقٌ۔
جالب (مال درآمد) کرنے والا روزی پاتا ہے۔

6) ذخیرہ اندوزی نہ کرنا اور نہ ہی مصنوعی طور پر قیمتیں بڑھانا

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2153
عمر بن الخطاب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَالْمُحْتَكِرُ مَلْعُونٌ.
اور محتکر (ذخیرہ اندوزی کرنے والا) ملعون ہے۔

7) ناپ تول میں عدل و انصاف کرنا اور احسان والا معاملہ کرنا

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2222
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا وَزَنْتُمْ فَأَرْجِحُوا.
جب تولو تو جھکا کر تولو ۔

8) دھوکے اور خیانت سے بچنا

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2224
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَيْسَ مِنَّا مَنْ غَشَّ.
جو دھوکہ دے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

9) مال بیچنے کے لیے قسمیں نہ کھانا

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2209
ابوقتادہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِيَّاكُمْ وَالْحَلِفَ فِي الْبَيْعِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ يُنَفِّقُ ثُمَّ يَمْحَقُ.
بیع (خریدو فروخت) میں قسمیں کھانے سے بچو، کیونکہ اس سے گرم بازاری تو ہوجاتی ہے اور برکت جاتی رہتی ہے ۔

10) معاملات میں نرم دلی کا مظاہرہ کرنا

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1319
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ سَمْحَ الْبَيْعِ، ‏‏‏‏‏‏سَمْحَ الشِّرَاءِ، ‏‏‏‏‏‏سَمْحَ الْقَضَاءِ۔
اللہ تعالیٰ بیچنے، خریدنے اور قرض کے مطالبہ میں نرمی و آسانی کو پسند کرتا ہے ۔

11) غرور و تکبر اور ناشکری سے بچنا

القرآن – سورۃ نمبر 28 القصص، آیت نمبر 58
وَكَمۡ اَهۡلَـكۡنَا مِنۡ قَرۡيَةٍۢ بَطِرَتۡ مَعِيۡشَتَهَا۔
اور ہم نے کتنی ہی (ایسی) بستیوں کو برباد کر ڈالا جو اپنی خوشحال معیشت پر غرور و ناشکری کر رہی تھیں۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 265
عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ کَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ کِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَکُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً قَالَ إِنَّ اللَّهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ
جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا اس پر ایک آدمی نے عرض کیا کہ ایک آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کی جوتی بھی اچھی ہو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ جمیل ہے اور جمال ہی کو پسند کرتا ہے تکبر تو حق کی طرف سے منہ موڑنے اور دوسرے لوگوں کو کمتر سمجھنے کو کہتے ہیں۔

12) حرام ذرائع تجارت سے بچنا

مسند احمد، حدیث نمبر: 2111
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا حَرَّمَ عَلَى قَوْمٍ أَكْلَ شَيْءٍ حَرَّمَ عَلَيْهِمْ ثَمَنَهُ.
حالانکہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پر کسی چیز کو کھانا حرام قرار دیتا ہے تو ان پر اس کی قیمت بھی حرام کردیتا ہے۔

13) قبضے سے پہلے چیز کو نہ بیچنا

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1232
حکیم بن حزام ؓ کہتے ہیں
لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ۔
جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے اس کی بیع نہ کرو ۔

14) بیع پر بیع نہ کرنا ( کسی دوسرے مسلمان تاجر کا طے کیا ہوا سودا خراب نہ کرنا)

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 3436
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تَلَقَّوْا السِّلَعَ حَتَّى يُهْبَطَ بِهَا الْأَسْوَاقَ.
کوئی کسی کی بیع پر بیع نہ کرے اور تاجر سے پہلے ہی مل کر سودا نہ کرے جب تک کہ وہ اپنا سامان بازار میں نہ اتار لے۔

15) بیچی ہوئی چیز قیمت کے بدلے واپس لے لینا

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2199
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ أَقَالَ مُسْلِمًا، ‏‏‏‏‏‏أَقَالَهُ اللَّهُ عَثْرَتَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
جو شخص کسی مسلمان کے اقالے کو مان لے (یعنی اس کے ساتھ بیع کے فسخ پر راضی ہوجائے) تو اللہ تعالیٰ (اس احسان کے بدلہ میں) قیامت کے دن اس کے گناہوں کو مٹا دے گا ۔

16) تجارتی معاہدات کو لکھنا اور ان کی مکمل پاسداری کرنا (بھلے اس میں نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے)

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 34
وَاَوۡفُوۡا بِالۡعَهۡدِ‌ۚ اِنَّ الۡعَهۡدَ كَانَ مَسۡــئُوۡلًا ۞
اور وعدہ پورا کیا کرو، بیشک وعدہ کی ضرور پوچھ گچھ ہوگی۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1352
عمرو بن عوف مزنی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ،‏‏‏‏ إِلَّا صُلْحًا حَرَّمَ حَلَالًا،‏‏‏‏ أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا،‏‏‏‏ وَالْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا،‏‏‏‏ أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا۔
صلح مسلمان کے درمیان نافذ ہوگی سوائے ایسی صلح کے جو کسی حلال کو حرام کر دے یا کسی حرام کو حلال۔ اور مسلمان اپنی شرطوں کے پابند ہیں۔ سوائے ایسی شرط کے جو کسی حلال کو حرام کر دے یا کسی حرام کو حلال ۔

17) قیمتوں کے تعین کے اسلامی اصول کی پاسداری کرنا

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2185
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّمَا الْبَيْعُ عَنْ تَرَاضٍ.
بیع بیچنے والے اور خریدنے والے کی باہمی رضا مندی سے منعقد ہوتی ہے ۔

18) مزدور (و ملازمین) کو وقت پر اجرت دینا

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2443
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَعْطُوا الْأَجِيرَ أَجْرَهُ قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُهُ.
مزدور کو اس کا پسینہ سوکھنے سے پہلے اس کی مزدوری دے دو۔

19) لگی ہوئی روزی (ملازمت یا کاروبار) کو نہ چھوڑنا

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2148
ام المؤمنین عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں:
فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ:‏‏‏‏ إِذَا سَبَّبَ اللَّهُ لِأَحَدِكُمْ رِزْقًا مِنْ وَجْهٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَدَعْهُ حَتَّى يَتَغَيَّرَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ يَتَنَكَّرَ لَهُ.
میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: اللہ تعالیٰ جب تم میں سے کسی کے لیے روزی کا کوئی ذریعہ پیدا کر دے، تو وہ اسے نہ چھوڑے یہاں تک کہ وہ بدل جائے، یا بگڑ جائے ۔

20) معاملات میں میانہ روی اختیار کرنا

مسند احمد، حدیث نمبر: 4048
حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَا عَالَ مَنْ اقْتَصَدَ۔
میانہ روی سے چلنے والا کبھی محتاج اور تنگدست نہیں ہوتا۔

21) سخاوت کرنا اور بخل و کنجوسی سے بچنا:

القرآن – سورۃ نمبر 34 سبإ، آیت نمبر 39
قُلۡ اِنَّ رَبِّىۡ يَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖ وَيَقۡدِرُ لَهٗ ؕ وَمَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ فَهُوَ يُخۡلِفُهٗ ۚ وَهُوَ خَيۡرُ الرّٰزِقِيۡنَ ۞
فرما دیجئے: بیشک میرا رب اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رِزق کشادہ فرما دیتا ہے اور جس کے لئے (چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے، اور تم (اﷲ کی راہ میں) جو کچھ بھی خرچ کرو گے تو وہ اس کے بدلہ میں اور دے گا اور وہ سب سے بہتر رِزق دینے والا ہے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1433
حضرت اسماء ؓ روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے انہیں فرمایا:
لَا تُوكِي فَيُوكَى عَلَيْكِ.
خیرات کو مت روک ورنہ تیرا رزق بھی روک دیا جائے گا۔

یہ ایک عظیم پیغمبر اور عظیم معیشت دان حضور نبی مکرم ﷺ کے دیے ہوئے اصول و ضوابط ہیں جن پر عمل کرنے سے انسان اپنے معاشی معاملات کو بہترین انداز میں چلا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان اصول و ضوابط کے مطابق اپنے معاشی معاملات کو سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اسلامی اصولِ تجارت قرآن و حدیث کی روشنی میں

اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔ جو زندگی کے ہر شعبے سے وابستہ افراد کو ایک مکمل ضابطۂِ اخلاق (اصول و ضوابط) دیتا ہے۔ جس پر عمل پیرا ہونے والا انسان حقیقی معنوں میں دنیوی و اخروی فلاح حاصل کر سکتا ہے۔

اس مضمون میں رزق کمانے والوں اور کاروبار و تجارت سے وابستہ افراد کے لیے انتہائی مفید اصولی ہدایات قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کی گئی ہیں۔

سچائی اور امانتداری:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1209
ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ، ‏‏‏‏‏‏وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ۔ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ۔
سچا اور امانت دار تاجر (قیامت کے دن) انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1210
رفاعہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ التُّجَّارَ يُبْعَثُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فُجَّارًا إِلَّا مَنِ اتَّقَى اللَّهَ وَبَرَّ، ‏‏‏‏‏‏وَصَدَقَ۔
تاجر لوگ قیامت کے دن گنہگار اٹھائے جائیں گے سوائے اس کے جو اللہ سے ڈرے نیک کام کرے اور سچ بولے ۔

رزقِ حلال کمانا عبادت ہے:

القرآن – سورۃ نمبر 28 القصص، آیت نمبر 77
وَابۡتَغِ فِيۡمَاۤ اٰتٰٮكَ اللّٰهُ الدَّارَ الۡاٰخِرَةَ‌ وَلَا تَنۡسَ نَصِيۡبَكَ مِنَ الدُّنۡيَا‌۔
اور تو اس (دولت) میں سے جو اللہ نے تجھے دے رکھی ہے آخرت کا گھر طلب کر، اور دنیا سے (بھی) اپنا حصہ نہ بھول۔

طلب الحلال فریضۃ بعد الفریضۃ
رزقِ حلال کی تلاش فرض عبادت کے بعد (سب سے بڑا) فریضہ ہے۔
طبرانی، المعجم الکبیر، رقم: 9993

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2138
مقدام بن معدیکرب زبیدی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَا كَسَبَ الرَّجُلُ كَسْبًا أَطْيَبَ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ وَمَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَى نَفْسِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَهْلِهِ وَوَلَدِهِ وَخَادِمِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَهُوَ صَدَقَةٌ.
آدمی کی کوئی کمائی اس کمائی سے بہتر نہیں جسے اس نے اپنی محنت سے کمایا ہو، اور آدمی اپنی ذات، اپنی بیوی، اپنے بچوں اور اپنے خادم پر جو خرچ کرے وہ صدقہ ہے ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1358
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ أَطْيَبَ مَا أَكَلْتُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ،‏‏‏‏ وَإِنَّ أَوْلَادَكُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ .
سب سے پاکیزہ چیز جس کو تم کھاتے ہو تمہاری اپنی کمائی ہے اور تمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی میں سے ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 32
لِلرِّجَالِ نَصِيۡبٌ مِّمَّا اكۡتَسَبُوۡا ؕ‌ وَلِلنِّسَآءِ نَصِيۡبٌ مِّمَّا اكۡتَسَبۡنَ‌ ؕ وَسۡئَـلُوا اللّٰهَ مِنۡ فَضۡلِهٖ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمًا ۞
مردوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور عورتوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور اللہ سے اس کا فضل مانگا کرو، بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔

کاروبار کرنے والے کو رزق دیا جاتا ہے:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2153
عمر بن الخطاب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْجَالِبُ مَرْزُوقٌ۔
جالب (مال درآمد) کرنے والا روزی پاتا ہے۔

ذخیرہ اندوزی کرنے کی ممانعت:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2153
عمر بن الخطاب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَالْمُحْتَكِرُ مَلْعُونٌ.
اور (ذخیرہ اندوزی) کرنے والا ملعون ہے۔

مسند احمد، حدیث نمبر: 4648
حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ احْتَكَرَ طَعَامًا أَرْبَعِينَ لَيْلَةً فَقَدْ بَرِئَ مِنْ اللَّهِ تَعَالَى وَبَرِئَ اللَّهُ تَعَالَى مِنْهُ وَأَيُّمَا أَهْلُ عَرْصَةٍ أَصْبَحَ فِيهِمْ امْرُؤٌ جَائِعٌ فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُمْ ذِمَّةُ اللَّهِ تَعَالَى۔
جو شخص چالیس دن تک غذائی ضروریات کی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے وہ اللہ سے بری ہے اور اللہ اس سے بری ہے اور جس خاندان میں ایک آدمی بھی بھوکارہا ان سب سے اللہ کا ذمہ بری ہے۔

تجارت (خرید و فروخت) کرتے وقت اللہ کے ذکر اور یاد سے غافل نہ ہونا:

القرآن – سورۃ نمبر 24 النور، آیت نمبر 37،38
رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡهِيۡهِمۡ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيۡعٌ عَنۡ ذِكۡرِ اللّٰهِ وَاِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِيۡتَآءِ الزَّكٰوةِ‌ۖ يَخَافُوۡنَ يَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِيۡهِ الۡقُلُوۡبُ وَالۡاَبۡصَارُ ۞ لِيَجۡزِيَهُمُ اللّٰهُ اَحۡسَنَ مَا عَمِلُوۡا وَيَزِيۡدَهُمۡ مِّنۡ فَضۡلِهٖ‌ؕ وَاللّٰهُ يَرۡزُقُ مَنۡ يَّشَآءُ بِغَيۡرِ حِسَابٍ ۞
(اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے اور نہ نماز قائم کرنے سے اور نہ زکوٰۃ ادا کرنے سے (بلکہ دنیوی فرائض کی ادائیگی کے دوران بھی) وہ (ہمہ وقت) اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں (خوف کے باعث) دل اور آنکھیں (سب) الٹ پلٹ ہو جائیں گی۔ تاکہ اللہ انہیں ان (نیک) اعمال کا بہتر بدلہ دے جو انہوں نے کئے ہیں اور اپنے فضل سے انہیں اور (بھی) زیادہ (عطا) فرما دے، اور اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق (و عطا) سے نوازتا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 62 الجمعة، آیت نمبر 9
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِىَ لِلصَّلٰوةِ مِنۡ يَّوۡمِ الۡجُمُعَةِ فَاسۡعَوۡا اِلٰى ذِكۡرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الۡبَيۡعَ‌ ؕ ذٰ لِكُمۡ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۞
اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لئے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

تاجر کے لیے دس لاکھ نیکیاں، دس لاکھ برائیوں کا مٹنا، اور دس لاکھ درجات کی بلندی:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3428
عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ دَخَلَ السُّوقَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ بِيَدِهِ الْخَيْرُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏كَتَبَ اللَّهُ لَهُ أَلْفَ أَلْفِ حَسَنَةٍ وَمَحَا عَنْهُ أَلْفَ أَلْفِ سَيِّئَةٍ وَرَفَعَ لَهُ أَلْفَ أَلْفِ دَرَجَةٍ۔
جس نے بازار میں داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھی: «لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد يحيي ويميت وهو حي لا يموت بيده الخير وهو علی كل شيء قدير» نہیں کوئی معبود برحق ہے مگر اللہ اکیلا، اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اسی کے لیے ملک (بادشاہت) ہے اور اسی کے لیے حمد و ثناء ہے وہی زندہ کرتا اور وہی مارتا ہے، وہ زندہ ہے کبھی مرے گا نہیں، اسی کے ہاتھ میں ساری بھلائیاں ہیں، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے دس لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اور اس کی دس لاکھ برائیاں مٹا دیتا ہے اور اس کے دس لاکھ درجے بلند فرماتا ہے ۔

ناپ تول میں انصاف کرنا:

القرآن – سورۃ نمبر 11 هود، آیت نمبر 85
وَيٰقَوۡمِ اَوۡفُوا الۡمِكۡيَالَ وَالۡمِيۡزَانَ بِالۡقِسۡطِ‌ وَلَا تَبۡخَسُوا النَّاسَ اَشۡيَآءَهُمۡ وَلَا تَعۡثَوۡا فِى الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِيۡنَ‏ ۞
اور اے میری قوم! تم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پورے کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو اور فساد کرنے والے بن کر ملک میں تباہی مت مچاتے پھرو۔

القرآن – سورۃ نمبر 55 الرحمن، آیت نمبر 9
وَاَقِيۡمُوا الۡوَزۡنَ بِالۡقِسۡطِ وَلَا تُخۡسِرُوا الۡمِيۡزَانَ ۞
اور انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول کو کم نہ کرو۔

کنزالعمال، حدیث نمبر: 9338
يا وزان زن وأرجح۔
اے وزن کرنے والے! وزن کر اور زیادہ دے۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2222
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا وَزَنْتُمْ فَأَرْجِحُوا.
جب تولو تو جھکا کر تولو ۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 4019
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَلَمْ يَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ،‏‏‏‏ إِلَّا أُخِذُوا بِالسِّنِينَ،‏‏‏‏ وَشِدَّةِ الْمَئُونَةِ،‏‏‏‏ وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَيْهِمْ،‏‏‏‏
جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قحط، معاشی تنگی اور اپنے حکمرانوں کی زیادتی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

دھوکے اور خیانت سے بچنا:

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 29
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡكُلُوۡۤا اَمۡوَالَـكُمۡ بَيۡنَكُمۡ بِالۡبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنۡ تَكُوۡنَ تِجَارَةً عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡكُمۡ‌ ۚ وَلَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡـفُسَكُمۡ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمۡ رَحِيۡمًا ۞ اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے کوئی تجارت ہو، اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہے،

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2224
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں:
مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِرَجُلٍ يَبِيعُ طَعَامًا، ‏‏‏‏‏‏فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهِ فَإِذَا هُوَ مَغْشُوشٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:‏‏‏‏ لَيْسَ مِنَّا مَنْ غَشَّ.
رسول اللہ ﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو گیہوں (غلہ) بیچ رہا تھا، آپ نے اپنا ہاتھ اس کے اندر ڈالا تو وہ مغشوش (غیر خالص اور دھوکے والا گڑبڑ) تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: جو دھوکہ دے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2247
عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ مَنْ بَاعَ عَيْبًا لَمْ يُبَيِّنْهُ لَمْ يَزَلْ فِي مَقْتِ مِنَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ تَزَلِ الْمَلَائِكَةُ تَلْعَنُهُ.
واثلہ بن اسقع ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: جو کوئی عیب دار چیز بیچے اور اس کے عیب کو بیان نہ کرے، تو وہ برابر اللہ تعالیٰ کے غضب میں رہے گا، اور فرشتے اس پر برابر لعنت کرتے رہیں گے ۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2246
عقبہ بن عامر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:
الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ بَاعَ مِنْ أَخِيهِ بَيْعًا فِيهِ عَيْبٌ إِلَّا بَيَّنَهُ لَهُ.
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ہاتھ کوئی ایسی چیز بیچے جس میں عیب ہو، مگر یہ کہ وہ اس کو اس سے بیان کر دے۔

خرید و فروخت کرتے وقت قسمیں کھانے سے بچنا:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2209
ابوقتادہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِيَّاكُمْ وَالْحَلِفَ فِي الْبَيْعِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ يُنَفِّقُ ثُمَّ يَمْحَقُ.
بیع (خریدو فروخت) میں قسمیں کھانے سے بچو، کیونکہ اس سے گرم بازاری تو ہوجاتی ہے اور برکت جاتی رہتی ہے ۔

وہ اوصاف جن سے کمائی میں پاکیزگی اور برکت پیدا ہوتی ہے:

کنزالعمال، حدیث نمبر: 9340
إن أطيب الكسب كسب التجار الذين إذا حدثوا لم يكذبوا، وإذا ائتمنوا لم يخونوا، وإذا وعدوا لم يخلفوا، وإذا اشتروا لم يذموا، وإذا باعوا لم يطروا، وإذا كان عليهم لم يمطلوا، وإذا كان لهم لم يعسروا.

سب سے پاک کمائی ان تاجروں کی ہے جو:

1) بات کرتے ہوئے جھوٹ نہیں بولتے،
2) ان کے پاس امانت رکھوائی جائے تو خیانت نہیں کرتے،
3) وعدہ کرلیں تو وعدہ خلافی نہیں کرتے،
4) خریدتے ہیں تو برائی نہیں کرتے،
5) بیچتے ہیں تو دھتکارتے نہیں،
6) اگر کسی کا قرض دینا ہو تو ٹال مٹول نہیں کرتے،
7) اگر کسی سے قرض وصول کرنا ہو تو سختی نہیں کرتے۔

قرضِ حسنہ دینا:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 245
مَنۡ ذَا الَّذِىۡ يُقۡرِضُ اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضۡعَافًا کَثِيۡرَةً ‌ؕ وَاللّٰهُ يَقۡبِضُ وَيَبۡصُۜطُ ۖ وَ اِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ ۞
کون ہے جو اﷲ کو قرضِ حسنہ دے پھر وہ اس کے لئے اسے کئی گنا بڑھا دے گا، اور اﷲ ہی (تمہارے رزق میں) تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے،

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 280
وَاِنۡ كَانَ ذُوۡ عُسۡرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيۡسَرَةٍ ‌ؕ وَاَنۡ تَصَدَّقُوۡا خَيۡرٌ لَّـكُمۡ‌ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۞
اور اگر قرض دار تنگدست ہو تو خوشحالی تک مہلت دی جانی چاہئے، اور تمہارا (قرض کو) معاف کر دینا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تمہیں معلوم ہو۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2431
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
رَأَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عَلَى بَاب:‏‏‏‏ الْجَنَّةِ مَكْتُوبًا الصَّدَقَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَالْقَرْضُ بِثَمَانِيَةَ عَشَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا جِبْرِيلُ مَا بَالُ الْقَرْضِ أَفْضَلُ مِنَ الصَّدَقَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لِأَنَّ السَّائِلَ يَسْأَلُ وَعِنْدَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُسْتَقْرِضُ لَا يَسْتَقْرِضُ إِلَّا مِنْ حَاجَةٍ.
معراج کی رات میں نے جنت کے دروازے پر لکھا دیکھا کہ صدقہ کا ثواب دس گنا ہے، اور قرض کا اٹھارہ گنا، میں نے کہا: جبرائیل! کیا بات ہے؟ قرض صدقہ سے افضل کیسے ہے؟ تو کہا: اس لیے کہ سائل سوال کرتا ہے حالانکہ اس کے پاس کھانے کو ہوتا ہے، اور قرض لینے والا قرض اس وقت تک نہیں مانگتا جب تک اس کو واقعی ضرورت نہ ہو ۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 4000
حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُنْجِيَهُ اللَّهُ مِنْ کُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلْيُنَفِّسْ عَنْ مُعْسِرٍ أَوْ يَضَعْ عَنْهُ۔
جس کو یہ پسند ہو کہ اللہ اسے قیامت کے دن کی سختیوں سے نجات دے تو چاہئے کہ وہ مفلس (مقروض) کو مہلت دے یا اس کا قرض معاف کر دے۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2418
بریدہ اسلمی ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا كَانَ لَهُ بِكُلِّ يَوْمٍ صَدَقَةٌ وَمَنْ أَنْظَرَهُ بَعْدَ حِلِّهِ كَانَ لَهُ مِثْلُهُ فِي كُلِّ يَوْمٍ صَدَقَةٌ.
جو کسی تنگ دست کو مہلت دے گا تو اس کو ہر دن کے حساب سے ایک صدقہ کا ثواب ملے گا، اور جو کسی تنگ دست کو میعاد گزر جانے کے بعد مہلت دے گا تو اس کو ہر دن کے حساب سے اس کے قرض کے (برابر) صدقہ کا ثواب ملے گا ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1317
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں:
أَنَّ رَجُلًا تَقَاضَى رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَأَغْلَظَ لَهُ فَهَمَّ بِهِ أَصْحَابُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:‏‏‏‏ دَعُوهُ فَإِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ اشْتَرُوا لَهُ بَعِيرًا، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْطُوهُ إِيَّاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَطَلَبُوهُ فَلَمْ يَجِدُوا إِلَّا سِنَّا أَفْضَلَ مِنْ سِنِّهِ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اشْتَرُوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْطُوهُ إِيَّاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ خَيْرَكُمْ أَحْسَنُكُمْ قَضَاءً .
ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے (قرض کا) تقاضہ کیا اور سختی کی، صحابہ نے اسے دفع کرنے کا قصد کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو، کیونکہ حقدار کو کہنے کا حق ہے ، پھر آپ نے فرمایا: اسے ایک اونٹ خرید کر دے دو ، لوگوں نے تلاش کیا تو انہیں ایسا ہی اونٹ ملا جو اس کے اونٹ سے بہتر تھا، آپ نے فرمایا: اسی کو خرید کر دے دو، کیونکہ تم میں بہتر وہ لوگ ہیں جو قرض کی ادائیگی میں بہتر ہوں ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1640
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُكَفِّرُ كُلَّ خَطِيئَةٍ، إِلَّا الدَّيْنَ۔
اللہ کی راہ میں شہادت (شہید کے لیے) ہر گناہ کا کفارہ بن جاتی ہے، سوائے قرض کے۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2414
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ دِينَارٌ أَوْ دِرْهَمٌ قُضِيَ مِنْ حَسَنَاتِهِ لَيْسَ ثَمَّ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ.
جو مرجائے اور اس کے ذمہ کسی کا کوئی دینار یا درہم ہو تو (قیامت میں) جہاں دینار اور درہم نہیں ہوگا، اس کی نیکیوں سے ادا کیا جائے گا ۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2412
ثوبان ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ فَارَقَ الرُّوحُ الْجَسَدَ وَهُوَ بَرِيءٌ مِنْ ثَلَاثٍ دَخَلَ الْجَنَّةَ مِنَ الْكِبْرِ وَالْغُلُولِ وَالدَّيْنِ.
جس کی روح بدن سے جدا ہوئی اور وہ تین چیزوں غرور (گھمنڈ) خیانت اور قرض سے پاک ہو، تو وہ جنت میں داخل ہوگا ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1079
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِهِ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ۔
مومن کی جان اس کے قرض کی وجہ سے اٹکی رہتی ہے جب تک کہ اس کی ادائیگی نہ ہوجائے۔

حرام ذرائع تجارت سے بچنا:

جو چیز اسلام نے حرام قرار دی ہے اس کی تجارت (خرید و فروخت) بھی حرام ہے۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 3685
عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے:
أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏نَهَى عَنِ الْخَمْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَيْسِرِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْكُوبَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْغُبَيْرَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ قَالَ ابْنُ سَلَامٍ أَبُو عُبَيْدٍ:‏‏‏‏ الْغُبَيْرَاءُ:‏‏‏‏ السُّكْرُكَةُ تُعْمَلُ مِنَ الذُّرَةِ، ‏‏‏‏‏‏شَرَابٌ يَعْمَلُهُ الْحَبَشَةُ.
نبی اکرم ﷺ نے شراب، جوا، کوبہ (چوسر یا ڈھولک) اور غبیراء سے منع کیا، اور فرمایا: ہر نشہ آور چیز حرام ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن سلام ابو عبید نے کہا ہے: غبیراء ایسی شراب ہے جو مکئی سے بنائی جاتی ہے حبشہ کے لوگ اسے بناتے ہیں۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1297
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے فتح مکہ کے سال مکہ کے اندر رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:
إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَيْعَ الْخَمْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَيْتَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْخِنْزِيرِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْأَصْنَامِ ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَرَأَيْتَ شُحُومَ الْمَيْتَةِ ؟ فَإِنَّهُ يُطْلَى بِهَا السُّفُنُ، ‏‏‏‏‏‏وَيُدْهَنُ بِهَا الْجُلُودُ، ‏‏‏‏‏‏وَيَسْتَصْبِحُ بِهَا النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏هُوَ حَرَامٌ ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ:‏‏‏‏ قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَيْهِمُ الشُّحُومَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَجْمَلُوهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ بَاعُوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَكَلُوا ثَمَنَهُ۔
اللہ اور اس کے رسول نے شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کی بیع کو حرام قرار دیا ہے، عرض کیا گیا، اللہ کے رسول! مجھے مردار کی چربی کے بارے میں بتائیے، اسے کشتیوں پہ ملا جاتا ہے، چمڑوں پہ لگایا جاتا ہے، اور لوگ اس سے چراغ جلاتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، یہ جائز نہیں، یہ حرام ہے ، پھر آپ نے اسی وقت فرمایا: یہود پر اللہ کی مار ہو، اللہ نے ان کے لیے چربی حرام قرار دے دی، تو انہوں نے اس کو پگھلایا پھر اسے بیچا اور اس کی قیمت کھائی ۔

مسند احمد، حدیث نمبر: 1937
عبدالرحمن بن وعلہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے شراب کی تجارت کے متعلق مسئلہ دریافت کیا؟ انہوں نے فرمایا:
كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ صَدِيقٌ مِنْ ثَقِيفٍ أَوْ مِنْ دَوْسٍ فَلَقِيَهُ بِمَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ بِرَاوِيَةِ خَمْرٍ يُهْدِيهَا إِلَيْهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَا أَبَا فُلَانٍ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ اللَّهَ حَرَّمَهَا فَأَقْبَلَ الرَّجُلُ عَلَى غُلَامِهِ فَقَالَ اذْهَبْ فَبِعْهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَبَا فُلَانٍ بِمَاذَا أَمَرْتَهُ قَالَ أَمَرْتُهُ أَنْ يَبِيعَهَا قَالَ إِنَّ الَّذِي حَرَّمَ شُرْبَهَا حَرَّمَ بَيْعَهَا فَأَمَرَ بِهَا فَأُفْرِغَتْ فِي الْبَطْحَاءِ۔
قبیلہ ثقیف یا دوس میں نبی ﷺ کا ایک دوست رہتا تھا، وہ فتح مکہ کے سال مکہ مکرمہ میں نبی ﷺ سے ملاقات کے لئے شراب کا ایک مشکیزہ بطور ہدیہ کے لے کر آیا، نبی ﷺ نے اس سے فرمایا اے فلاں! کیا تمہارے علم میں یہ بات نہیں کہ اللہ نے شراب کو حرام قرار دے دیا ہے؟ یہ سن کر وہ شخص اپنے غلام کی طرف متوجہ ہو کر سرگوشی میں اسے کہنے لگا کہ اسے لے جا کر بیچ دو، نبی ﷺ نے اس سے پوچھا کہ اے ابو فلاں! تم نے اسے کیا کہا ہے؟ اس نے کہا کہ میں نے اسے یہ حکم دیا ہے کہ اسے بیچ آئے، نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس ذات نے اس کا پینا حرام قرار دیا ہے، اسی نے اس کی خریدو فروخت بھی حرام کردی ہے چناچہ اس کے حکم پر اس شراب کو وادی بطحاء میں بہا دیا گیا۔

مسند احمد، حدیث نمبر: 2111
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ حُرِّمَتْ عَلَيْهِمْ الشُّحُومُ فَبَاعُوهَا وَأَكَلُوا أَثْمَانَهَا وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا حَرَّمَ عَلَى قَوْمٍ أَكْلَ شَيْءٍ حَرَّمَ عَلَيْهِمْ ثَمَنَهُ.
اللہ تعالیٰ یہودیوں پر لعنت فرمائے کہ ان پر چربی کو حرام قرار دیا گیا لیکن انہوں نے اسے پگھلا کر اس کا تیل بنا لیا اور اسے فروخت کرنا شروع کردیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پر کسی چیز کو کھانا حرام قرار دیتا ہے تو ان پر اس کی قیمت بھی حرام کردیتا ہے۔

مسند احمد،حدیث نمبر: 21253
حضرت ابو امامہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا تَبِيعُوا الْمُغَنِّيَاتِ وَلَا تَشْتَرُوهُنَّ وَلَا تُعَلِّمُوهُنَّ وَلَا خَيْرَ فِي تِجَارَةٍ فِيهِنَّ وَثَمَنُهُنَّ حَرَامٌ۔
گانا گانے والی باندیوں کی خریدوفروخت نہ کرو اور انہیں گانے بجانے کی تعلیم نہ دلواؤ اور ان کی تجارت میں کوئی خیر نہیں اور ان کی قیمت میں (کمائی) کھانا حرام ہے۔

قبضے سے پہلے چیز کو بیچنے کی ممانعت:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1232
حکیم بن حزام ؓ کہتے ہیں
أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَأْتِينِي الرَّجُلُ، ‏‏‏‏‏‏يَسْأَلُنِي مِنَ الْبَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدِي أَبْتَاعُ لَهُ مِنَ السُّوقِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَبِيعُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ۔
میرے پاس کچھ لوگ آتے ہیں اور اس چیز کو بیچنے کے لیے کہتے ہیں جو میرے پاس نہیں ہوتی، تو کیا میں اس چیز کو ان کے لیے بازار سے خرید کر لاؤں پھر فروخت کروں؟ آپ نے فرمایا: جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے اس کی بیع نہ کرو ۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 3503
حکیم بن حزام ؓ کہتے ہیں میں نے عرض کیا:
يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏يَأْتِينِي الرَّجُلُ فَيُرِيدُ مِنِّي الْبَيْعَ لَيْسَ عِنْدِي أَفَأَبْتَاعُهُ لَهُ مِنَ السُّوقِ. فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ.
اللہ کے رسول! آدمی آتا ہے اور مجھ سے اس چیز کی بیع کرنا چاہتا ہے جو میرے پاس موجود نہیں ہوتی، تو کیا میں اس سے سودا کرلوں، اور بازار سے لا کر اسے وہ چیز دے دوں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: جو چیز تمہارے پاس موجود نہ ہو اسے نہ بیچو ۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 3499
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں:
ابْتَعْتُ زَيْتًا فِي السُّوقِ فَلَمَّا اسْتَوْجَبْتُهُ لِنَفْسِي، ‏‏‏‏‏‏لَقِيَنِي رَجُلٌ فَأَعْطَانِي بِهِ رِبْحًا حَسَنًا، ‏‏‏‏‏‏فَأَرَدْتُ أَنْ أَضْرِبَ عَلَى يَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَ رَجُلٌ مِنْ خَلْفِي بِذِرَاعِي فَالْتَفَتُّ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا تَبِعْهُ حَيْثُ ابْتَعْتَهُ حَتَّى تَحُوزَهُ إِلَى رَحْلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَنَهَى أَنْ تُبَاعَ السِّلَعُ حَيْثُ تُبْتَاعُ حَتَّى يَحُوزَهَا التُّجَّارُ إِلَى رِحَالِهِمْ.
میں نے بازار میں تیل خریدا، تو جب اس بیع کو میں نے مکمل کرلیا، تو مجھے ایک شخص ملا، وہ مجھے اس کا اچھا نفع دینے لگا، تو میں نے ارادہ کیا کہ اس سے سودا پکا کرلوں اتنے میں ایک شخص نے پیچھے سے میرا ہاتھ پکڑ لیا، میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ زید بن ثابت ؓ تھے، انہوں نے کہا: جب تک کہ تم اسے جہاں سے خریدے ہو وہاں سے اٹھا کر اپنے ٹھکانے پر نہ لے آؤ نہ بیچنا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے سامان کو اسی جگہ بیچنے سے روکا ہے، جس جگہ خریدا گیا ہے یہاں تک کہ تجار سامان تجارت کو اپنے ٹھکانوں پر لے آئیں۔

بیع پر بیع کرنے کی ممانعت:

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 3436
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تَلَقَّوْا السِّلَعَ حَتَّى يُهْبَطَ بِهَا الْأَسْوَاقَ.
کوئی کسی کی بیع پر بیع نہ کرے اور تاجر سے پہلے ہی مل کر سودا نہ کرے جب تک کہ وہ اپنا سامان بازار میں نہ اتار لے۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 2088
سمرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أَيُّمَا امْرَأَةٍ زَوَّجَهَا وَلِيَّانِ فَهِيَ لِلْأَوَّلِ مِنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَيُّمَا رَجُلٍ بَاعَ بَيْعًا مِنْ رَجُلَيْنِ فَهُوَ لِلْأَوَّلِ مِنْهُمَا.
جس عورت کا نکاح دو ولی کردیں تو وہ اس کی ہوگی جس سے پہلے نکاح ہوا ہے اور جس شخص نے ایک ہی چیز کو دو آدمیوں سے فروخت کردیا تو وہ اس کی ہے جس سے پہلے بیچی گئی ۔

مندرجہ بالا احادیث میں بیع پر بیع سے تب ممانعت ہے جب سودا طے ہو چکا ہو جبکہ نیلامی کے ذریعے بولی لگانا اور زیادہ قیمت لگانا جائز ہے:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1218
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ بَاعَ حِلْسًا وَقَدَحًا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ يَشْتَرِي هَذَا الْحِلْسَ وَالْقَدَحَ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ أَخَذْتُهُمَا بِدِرْهَمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ:‏‏‏‏ مَنْ يَزِيدُ عَلَى دِرْهَمٍ مَنْ يَزِيدُ عَلَى دِرْهَمٍ ، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْطَاهُ رَجُلٌ دِرْهَمَيْنِ فَبَاعَهُمَا مِنْهُ.
رسول اللہ ﷺ نے ایک ٹاٹ جو کجاوہ کے نیچے بچھایا جاتا ہے اور ایک پیالہ بیچا، آپ نے فرمایا: یہ ٹاٹ اور پیالہ کون خریدے گا؟ ایک آدمی نے عرض کیا: میں انہیں ایک درہم میں لے سکتا ہوں ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ایک درہم سے زیادہ کون دے گا؟ تو ایک آدمی نے آپ کو دو درہم دیا، تو آپ نے اسی کے ہاتھ سے یہ دونوں چیزیں بیچ دیں۔

لگی ہوئی روزی کو چھوڑنے کی ممانعت:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2148
ام المؤمنین عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں:
فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ:‏‏‏‏ إِذَا سَبَّبَ اللَّهُ لِأَحَدِكُمْ رِزْقًا مِنْ وَجْهٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَدَعْهُ حَتَّى يَتَغَيَّرَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ يَتَنَكَّرَ لَهُ.
میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: اللہ تعالیٰ جب تم میں سے کسی کے لیے روزی کا کوئی ذریعہ پیدا کر دے، تو وہ اسے نہ چھوڑے یہاں تک کہ وہ بدل جائے، یا بگڑ جائے ۔

بیچی ہوئی چیز واپس لے لینا:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2199
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ أَقَالَ مُسْلِمًا، ‏‏‏‏‏‏أَقَالَهُ اللَّهُ عَثْرَتَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
جو شخص کسی مسلمان کے اقالے کو مان لے (یعنی اس کے ساتھ بیع کے فسخ پر راضی ہوجائے) تو اللہ تعالیٰ (اس احسان کے بدلہ میں) قیامت کے دن اس کے گناہوں کو مٹا دے گا ۔

تجارتی معاہدہ یا سودہ:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 282
وَلَا تَسۡــئَمُوۡۤا اَنۡ تَكۡتُبُوۡهُ صَغِيۡرًا اَوۡ كَبِيۡرًا اِلٰٓى اَجَلِهٖ‌ؕ ذٰ لِكُمۡ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰهِ وَاَقۡوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَاَدۡنٰۤى اَلَّا تَرۡتَابُوۡٓا اِلَّاۤ اَنۡ تَكُوۡنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيۡرُوۡنَهَا بَيۡنَكُمۡ فَلَيۡسَ عَلَيۡكُمۡ جُنَاحٌ اَلَّا تَكۡتُبُوۡهَا ‌ؕ وَاَشۡهِدُوۡۤا اِذَا تَبَايَعۡتُمۡ۔
اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے اپنی میعاد تک لکھ رکھنے میں اکتایا نہ کرو، یہ تمہارا دستاویز تیار کر لینا اﷲ کے نزدیک زیادہ قرینِ انصاف ہے اور گواہی کے لئے مضبوط تر اور یہ اس کے بھی قریب تر ہے کہ تم شک میں مبتلا نہ ہو سوائے اس کے کہ دست بدست ایسی تجارت ہو جس کا لین دین تم آپس میں کرتے رہتے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے کا کوئی گناہ نہیں، اور جب بھی آپس میں خرید و فروخت کرو تو گواہ بنا لیا کرو۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1352
عمرو بن عوف مزنی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ،‏‏‏‏ إِلَّا صُلْحًا حَرَّمَ حَلَالًا،‏‏‏‏ أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا،‏‏‏‏ وَالْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا،‏‏‏‏ أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا۔
صلح مسلمان کے درمیان نافذ ہوگی سوائے ایسی صلح کے جو کسی حلال کو حرام کر دے یا کسی حرام کو حلال۔ اور مسلمان اپنی شرطوں کے پابند ہیں۔ سوائے ایسی شرط کے جو کسی حلال کو حرام کر دے یا کسی حرام کو حلال ۔

تجارتی معاہدات کی پاسداری:

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 34
وَاَوۡفُوۡا بِالۡعَهۡدِ‌ۚ اِنَّ الۡعَهۡدَ كَانَ مَسۡــئُوۡلًا ۞
اور وعدہ پورا کیا کرو، بیشک وعدہ کی ضرور پوچھ گچھ ہوگی۔

قیمتوں کا تعین:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2185
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّمَا الْبَيْعُ عَنْ تَرَاضٍ.
بیع بیچنے والے اور خریدنے والے کی باہمی رضا مندی سے منعقد ہوتی ہے ۔

سنن ابن ماجہ, حدیث نمبر: 2200
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں:
غَلَا السِّعْرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَدْ غَلَا السِّعْرُ فَسَعِّرْ لَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّازِقُ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي لَأَرْجُو، ‏‏‏‏‏‏أَنْ أَلْقَى رَبِّي وَلَيْسَ أَحَدٌ يَطْلُبُنِي بِمَظْلَمَةٍ فِي دَمٍ وَلَا مَالٍ.
رسول اللہ ﷺ کے عہد میں ایک دفعہ قیمتیں چڑھ گئیں، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے لیے ایک نرخ (بھاؤ) مقرر کر دیجئیے! آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ ہی نرخ مقرر کرنے والا ہے، کبھی کم کردیتا ہے اور کبھی زیادہ کردیتا ہے، وہی روزی دینے والا ہے، اور مجھے امید ہے کہ میں اپنے رب سے اس حال میں ملوں کہ کوئی مجھ سے جان یا مال میں کسی ظلم کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو۔

مزدور کی مزدوری وقت پر دینا:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2443
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَعْطُوا الْأَجِيرَ أَجْرَهُ قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُهُ.
مزدور کو اس کا پسینہ سوکھنے سے پہلے اس کی مزدوری دے دو۔

تکبر اور دوسرے کو کمتر سمجھنے کی ممانعت:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 265
عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ کَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ کِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَکُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً قَالَ إِنَّ اللَّهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ
جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا اس پر ایک آدمی نے عرض کیا کہ ایک آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کی جوتی بھی اچھی ہو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ جمیل ہے اور جمال ہی کو پسند کرتا ہے تکبر تو حق کی طرف سے منہ موڑنے اور دوسرے لوگوں کو کمتر سمجھنے کو کہتے ہیں۔

میانہ روی اختیار کرنا:

مسند احمد، حدیث نمبر: 20710
حضرت ابودرداء ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا
مِنْ فِقْهِ الرَّجُلِ رِفْقُهُ فِي مَعِيشَتِهِ
انسان کی سمجھداری کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنے معاشی معاملات میں میانہ روی اختیار کرتا ہے۔

مسند احمد، حدیث نمبر: 2565
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
إِنَّ الْهَدْيَ الصَّالِحَ وَالسَّمْتَ الصَّالِحَ وَ الِاقْتِصَادَ جُزْءٌ مِنْ خَمْسَةٍ وَعِشْرِينَ جُزْءًا مِنْ النُّبُوَّةِ۔
اچھا راستہ، نیک سیرت اور میانہ روی اجزاء نبوت میں سے ٢٥ واں جزء ہے۔

مسند احمد، حدیث نمبر: 4048
حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَا عَالَ مَنْ اقْتَصَدَ۔
میانہ روی سے چلنے والا کبھی محتاج اور تنگدست نہیں ہوتا۔

معاملات میں نرم دلی کا مظاہرہ کرنا:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1319
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ سَمْحَ الْبَيْعِ، ‏‏‏‏‏‏سَمْحَ الشِّرَاءِ، ‏‏‏‏‏‏سَمْحَ الْقَضَاءِ۔
اللہ تعالیٰ بیچنے، خریدنے اور قرض کے مطالبہ میں نرمی و آسانی کو پسند کرتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان زریں اصولوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

رزق میں وسعت، برکت اور فراخی کے اصول – قرآن و حدیث کی روشنی میں

1۔ اللہ کے ذکر اور یاد سے غفلت نہ برتنا

القرآن – سورۃ نمبر 20 طه، آیت نمبر 124
وَمَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِكۡرِىۡ فَاِنَّ لَـهٗ مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا۔
اور جس نے میرے ذکر (یعنی میری یاد اور نصیحت) سے روگردانی کی تو اس کے لئے دنیاوی معاش (بھی) تنگ کردیا جائے گا۔

القرآن – سورۃ نمبر 24 النور، آیت نمبر 37،38
رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡهِيۡهِمۡ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيۡعٌ عَنۡ ذِكۡرِ اللّٰهِ وَاِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِيۡتَآءِ الزَّكٰوةِ‌ۖ يَخَافُوۡنَ يَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِيۡهِ الۡقُلُوۡبُ وَالۡاَبۡصَارُ ۞ لِيَجۡزِيَهُمُ اللّٰهُ اَحۡسَنَ مَا عَمِلُوۡا وَيَزِيۡدَهُمۡ مِّنۡ فَضۡلِهٖ‌ؕ وَاللّٰهُ يَرۡزُقُ مَنۡ يَّشَآءُ بِغَيۡرِ حِسَابٍ ۞
(اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے اور نہ نماز قائم کرنے سے اور نہ زکوٰۃ ادا کرنے سے (بلکہ دنیوی فرائض کی ادائیگی کے دوران بھی) وہ (ہمہ وقت) اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں (خوف کے باعث) دل اور آنکھیں (سب) الٹ پلٹ ہو جائیں گی۔ تاکہ اللہ انہیں ان (نیک) اعمال کا بہتر بدلہ دے جو انہوں نے کئے ہیں اور اپنے فضل سے انہیں اور (بھی) زیادہ (عطا) فرما دے، اور اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق (و عطا) سے نوازتا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 63 المنافقون، آیت نمبر 9
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُلۡهِكُمۡ اَمۡوَالُكُمۡ وَلَاۤ اَوۡلَادُكُمۡ عَنۡ ذِكۡرِ اللّٰهِ‌ۚ وَمَنۡ يَّفۡعَلۡ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ ۞
اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد (کہیں) تمہیں اللہ کی یاد سے ہی غافل نہ کر دیں، اور جو شخص ایسا کرے گا تو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 62 الجمعة، آیت نمبر 9
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِىَ لِلصَّلٰوةِ مِنۡ يَّوۡمِ الۡجُمُعَةِ فَاسۡعَوۡا اِلٰى ذِكۡرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الۡبَيۡعَ‌ ؕ ذٰ لِكُمۡ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۞
اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لئے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

2۔ تقویٰ و پرہیز گاری (گناہوں کے ارتکاب سے بچنا + اطاعتِ الٰہی)

القرآن – سورۃ نمبر 65 الطلاق، آیت نمبر 2،3
وَمَنۡ يَّـتَّـقِ اللّٰهَ يَجۡعَلْ لَّهٗ مَخۡرَجًا ۞ وَّيَرۡزُقۡهُ مِنۡ حَيۡثُ لَا يَحۡتَسِبُ‌۔
اور جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لئے (دنیا و آخرت کے رنج و غم سے) نکلنے کی راہ پیدا فرما دیتا ہے، اور اسے ایسی جگہ سے رِزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 90
ثوبان ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا يَزِيدُ فِي الْعُمْرِ إِلَّا الْبِرُّ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَرُدُّ الْقَدَرَ إِلَّا الدُّعَاءُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيُحْرَمُ الرِّزْقَ بِخَطِيئَةٍ يَعْمَلُهَا.
عمر کو نیکی کے سوا کوئی چیز نہیں بڑھاتی، اور تقدیر کو دعا کے سوا کوئی چیز نہیں بدلتی ہے، اور آدمی گناہوں کے ارتکاب کے سبب رزق سے محروم کردیا جاتا ہے ۔

القرآن – سورۃ نمبر 24 النور، آیت نمبر 38
لِيَجۡزِيَهُمُ اللّٰهُ اَحۡسَنَ مَا عَمِلُوۡا وَيَزِيۡدَهُمۡ مِّنۡ فَضۡلِهٖ‌ؕ وَاللّٰهُ يَرۡزُقُ مَنۡ يَّشَآءُ بِغَيۡرِ حِسَابٍ ۞
تاکہ اللہ انہیں ان (نیک) اعمال کا بہتر بدلہ دے جو انہوں نے کئے ہیں اور اپنے فضل سے انہیں اور (بھی) زیادہ (عطا) فرما دے، اور اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق (و عطا) سے نوازتا ہے۔

3۔ غرور و تکبر اور ناشکری سے بچنا

القرآن – سورۃ نمبر 28 القصص، آیت نمبر 58
وَكَمۡ اَهۡلَـكۡنَا مِنۡ قَرۡيَةٍۢ بَطِرَتۡ مَعِيۡشَتَهَا۔
اور ہم نے کتنی ہی (ایسی) بستیوں کو برباد کر ڈالا جو اپنی خوشحال معیشت پر غرور و ناشکری کر رہی تھیں۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 265
عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ کَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ کِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَکُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً قَالَ إِنَّ اللَّهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ۔
جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا اس پر ایک آدمی نے عرض کیا کہ ایک آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کی جوتی بھی اچھی ہو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ جمیل ہے اور جمال ہی کو پسند کرتا ہے تکبر تو حق کی طرف سے منہ موڑنے اور دوسرے لوگوں کو کمتر سمجھنے کو کہتے ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 14 ابراهيم، آیت نمبر 7
وَاِذۡ تَاَذَّنَ رَبُّكُمۡ لَئِنۡ شَكَرۡتُمۡ لَاَزِيۡدَنَّـكُمۡ‌ وَلَئِنۡ كَفَرۡتُمۡ اِنَّ عَذَابِىۡ لَشَدِيۡدٌ‏ ۞
اور (یاد کرو) جب تمہارے رب نے آگاہ فرمایا کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقیناً سخت ہے،

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 1522
معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:
يَا مُعَاذُ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أُوصِيكَ يَا مُعَاذُ لَا تَدَعَنَّ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ تَقُولُ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ۔
اے معاذ! قسم اللہ کی، میں تم سے محبت کرتا ہوں، قسم اللہ کی میں تم سے محبت کرتا ہوں ، پھر فرمایا: اے معاذ! میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں: ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھنا کبھی نہ چھوڑنا: اللهم أعني على ذکرک وشکرک وحسن عبادتک اے اللہ! اپنے ذکر، شکر اور اپنی بہترین عبادت کے سلسلہ میں میری مدد فرما ۔

4۔ سخاوت کرنا اور بخل و کنجوسی سے بچنا:

القرآن – سورۃ نمبر 34 سبإ، آیت نمبر 39
قُلۡ اِنَّ رَبِّىۡ يَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖ وَيَقۡدِرُ لَهٗ ؕ وَمَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ فَهُوَ يُخۡلِفُهٗ ۚ وَهُوَ خَيۡرُ الرّٰزِقِيۡنَ ۞
فرما دیجئے: بیشک میرا رب اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رِزق کشادہ فرما دیتا ہے اور جس کے لئے (چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے، اور تم (اﷲ کی راہ میں) جو کچھ بھی خرچ کرو گے تو وہ اس کے بدلہ میں اور دے گا اور وہ سب سے بہتر رِزق دینے والا ہے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1433
حضرت اسماء ؓ روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے انہیں فرمایا:
لَا تُوكِي فَيُوكَى عَلَيْكِ.
خیرات کو مت روک ورنہ تیرا رزق بھی روک دیا جائے گا۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1961
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
السَّخِيُّ قَرِيبٌ مِنَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَرِيبٌ مِنَ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏قَرِيبٌ مِنَ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏بَعِيدٌ مِنَ النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْبَخِيلُ بَعِيدٌ مِنَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏بَعِيدٌ مِنَ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏بَعِيدٌ مِنَ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏قَرِيبٌ مِنَ النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَجَاهِلٌ سَخِيٌّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ عَالِمٍ بَخِيلٍ۔
سخی آدمی اللہ سے قریب ہے، جنت سے قریب ہے، لوگوں سے قریب ہے اور جہنم سے دور ہے، بخیل آدمی اللہ سے دور ہے، جنت سے دور ہے، لوگوں سے دور ہے، اور جہنم سے قریب ہے، جاہل سخی اللہ کے نزدیک بخیل عابد سے کہیں زیادہ محبوب ہے ۔

5۔ کمزوروں اور محتاجوں پر خرچ کرنا

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2896
مصعب ابن سعد روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
هَلْ تُنْصَرُونَ وَتُرْزَقُونَ إِلَّا بِضُعَفَائِكُمْ.
تم لوگ صرف اپنے کمزور معذور لوگوں کی وجہ سے مدد پہنچائے جاتے ہو اور رزق دئیے جاتے ہیں۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 2594
ابوالدرداء ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
ابْغُونِي الضُّعَفَاءَ فَإِنَّمَا تُرْزَقُونَ وَتُنْصَرُونَ بِضُعَفَائِكُمْ۔
میرے لیے ضعیف اور کمزور لوگوں کو ڈھونڈو، کیونکہ تم اپنے کمزوروں کی وجہ سے رزق دیئے جاتے اور مدد کئے جاتے ہو ۔

6۔ صلہ رحمی کرنا (رشتوں کو جوڑنا)

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6523
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُبْسَطَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ أَوْ يُنْسَأَ فِي أَثَرِهِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ۔
جس آدمی کو یہ بات پسند ہو کہ اس پر اس کا رزق کشادہ کیا جائے یا اس کے مرنے کے بعد اس کو یاد رکھا جائے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنی رشتہ داری کو جوڑے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5991
حضرت حسن بن عمرو اور فطر بن خلیفہ نبی مکرم ﷺ سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنِ الْوَاصِلُ الَّذِي إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا.
کسی کام کا بدلہ دینا صلہ رحمی نہیں ہے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ نہ کیا جا رہا ہو تب بھی وہ صلہ رحمی کرے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5989
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
الرَّحِمُ شِجْنَةٌ فَمَنْ وَصَلَهَا وَصَلْتُهُ وَمَنْ قَطَعَهَا قَطَعْتُهُ.
رحم (رشتہ داری رحمن سے ملی ہوئی) شاخ ہے جو شخص اس سے ملے میں اس سے ملتا ہوں اور جو اس سے قطع تعلق کرے میں اس سے قطع تعلق کرتا ہوں۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5988
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الرَّحِمَ شَجْنَةٌ مِنَ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ اللَّهُ:‏‏‏‏ مَنْ وَصَلَكِ وَصَلْتُهُ وَمَنْ قَطَعَكِ قَطَعْتُهُ.
رحم کا تعلق رحمن سے جڑا ہوا ہے پس جو کوئی اس سے اپنے آپ کو جوڑتا ہے اللہ پاک نے فرمایا کہ میں بھی اس کو اپنے سے جوڑ لیتا ہوں اور جو کوئی اسے توڑتا ہے میں بھی اپنے آپ کو اس سے توڑ لیتا ہوں۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5984
حضرت جبیر بن مطعم ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعٌ.
قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔

7۔ توبہ و استغفار کرنا

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 1518
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ لَزِمَ الِاسْتِغْفَارَ، ‏‏‏‏‏‏جَعَلَ اللَّهُ لَهُ مِنْ كُلِّ ضِيقٍ مَخْرَجًا، ‏‏‏‏‏‏وَمِنْ كُلِّ هَمٍّ فَرَجًا، ‏‏‏‏‏‏وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ.
جو کوئی استغفار کا التزام کرلے تو اللہ اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے اور ہر رنج سے نجات پانے کی راہ ہموار کر دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا، جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا ۔

8۔ صبر کرنا (شکوہ و شکایت سے بچنا)

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2326
عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ نَزَلَتْ بِهِ فَاقَةٌ فَأَنْزَلَهَا بِالنَّاسِ لَمْ تُسَدَّ فَاقَتُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ نَزَلَتْ بِهِ فَاقَةٌ فَأَنْزَلَهَا بِاللَّهِ فَيُوشِكُ اللَّهُ لَهُ بِرِزْقٍ عَاجِلٍ أَوْ آجِلٍ۔
جو شخص فاقہ کا شکار ہو اور اس پر صبر نہ کر کے لوگوں سے بیان کرتا پھرے تو اس کا فاقہ ختم نہیں ہوگا، اور جو فاقہ کا شکار ہو اور اسے اللہ کے حوالے کر کے اس پر صبر سے کام لے تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیر یا سویر روزی دے۔

9۔ حلال کمانا اور مالِ حرام سے بچنا:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 276
يَمۡحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَيُرۡبِى الصَّدَقٰتِ‌ؕ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيۡمٍ ۞
اور اﷲ سود کو مٹاتا ہے (یعنی سودی مال سے برکت کو ختم کرتا ہے) اور صدقات کو بڑھاتا ہے (یعنی صدقہ کے ذریعے مال کی برکت کو زیادہ کرتا ہے)، اور اﷲ کسی بھی ناسپاس نافرمان کو پسند نہیں کرتا۔

کنزالعمال، حدیث نمبر: 9308
إنه لن يموت أحد من الناس حتى تستكمل رزقه، ولا تستبطئوا الرزق، واتقوا الله أيها الناس، وأجملوا في الطلب، وخذوا ما حل ودعوا ما حرم۔
بیشک کوئی انسان اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک اپنا رزق مکمل نہ کرلے اور یہ نہ سمجھو کہ رزق ملنے میں تاخیر ہورہی ہے اور اے لوگو! اللہ سے ڈرو، اور تلاش رزق میں میانہ روی اختیار کرو اور جو حلال ہے وہ لو اور حرام کو چھوڑ دو۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2138
مقدام بن معدیکرب زبیدی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَا كَسَبَ الرَّجُلُ كَسْبًا أَطْيَبَ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ وَمَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَى نَفْسِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَهْلِهِ وَوَلَدِهِ وَخَادِمِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَهُوَ صَدَقَةٌ.
آدمی کی کوئی کمائی اس کمائی سے بہتر نہیں جسے اس نے اپنی محنت سے کمایا ہو، اور آدمی اپنی ذات، اپنی بیوی، اپنے بچوں اور اپنے خادم پر جو خرچ کرے وہ صدقہ ہے ۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2224
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں:
مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِرَجُلٍ يَبِيعُ طَعَامًا، ‏‏‏‏‏‏فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهِ فَإِذَا هُوَ مَغْشُوشٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:‏‏‏‏ لَيْسَ مِنَّا مَنْ غَشَّ.
رسول اللہ ﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو گیہوں (غلہ) بیچ رہا تھا، آپ نے اپنا ہاتھ اس کے اندر ڈالا تو وہ مغشوش (غیر خالص اور دھوکے والا گڑبڑ) تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: جو دھوکہ دے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2247
عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ مَنْ بَاعَ عَيْبًا لَمْ يُبَيِّنْهُ لَمْ يَزَلْ فِي مَقْتِ مِنَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ تَزَلِ الْمَلَائِكَةُ تَلْعَنُهُ.
واثلہ بن اسقع ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: جو کوئی عیب دار چیز بیچے اور اس کے عیب کو بیان نہ کرے، تو وہ برابر اللہ تعالیٰ کے غضب میں رہے گا، اور فرشتے اس پر برابر لعنت کرتے رہیں گے ۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2246
عقبہ بن عامر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:
الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ بَاعَ مِنْ أَخِيهِ بَيْعًا فِيهِ عَيْبٌ إِلَّا بَيَّنَهُ لَهُ.
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ہاتھ کوئی ایسی چیز بیچے جس میں عیب ہو، مگر یہ کہ وہ اس کو اس سے بیان کر دے۔

کنزالعمال، حدیث نمبر: 9861
حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں:
سئل رسول الله ﷺ عن أطيب الكسب؟ قال: عمل الرجل بيده، وكل بيع مبرور”.
جناب نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ سب سے پاک کمائی کون سی ہے؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کسی شخص کا اپنے ہاتھ سے کمانا اور ہر وہ بیع جس میں جھوٹ اور خیانت نہ ہو۔ (ابن عساکر)

کنزالعمال، حدیث نمبر: 9336
يا معشر التجار إن الله باعثكم يوم القيامة فجارا إلا من صدق وبر وأدى الأمانة۔
اے تاجروں کے گروں! اللہ تعالیٰ تمہیں قیامت کے دن گناہ گار اٹھانے والے ہیں علاوہ ان (تاجروں) کے جنہوں نے سچ بولا، نیکی کی اور امانت داری کی۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 3685
عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے:
أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏نَهَى عَنِ الْخَمْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَيْسِرِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْكُوبَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْغُبَيْرَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ قَالَ ابْنُ سَلَامٍ أَبُو عُبَيْدٍ:‏‏‏‏ الْغُبَيْرَاءُ:‏‏‏‏ السُّكْرُكَةُ تُعْمَلُ مِنَ الذُّرَةِ، ‏‏‏‏‏‏شَرَابٌ يَعْمَلُهُ الْحَبَشَةُ.
نبی اکرم ﷺ نے شراب، جوا، کوبہ (چوسر یا ڈھولک) اور غبیراء سے منع کیا، اور فرمایا: ہر نشہ آور چیز حرام ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن سلام ابو عبید نے کہا ہے: غبیراء ایسی شراب ہے جو مکئی سے بنائی جاتی ہے حبشہ کے لوگ اسے بناتے ہیں۔

10) ناپ تول میں انصاف:

القرآن – سورۃ نمبر 11 هود، آیت نمبر 85
وَيٰقَوۡمِ اَوۡفُوا الۡمِكۡيَالَ وَالۡمِيۡزَانَ بِالۡقِسۡطِ‌ وَلَا تَبۡخَسُوا النَّاسَ اَشۡيَآءَهُمۡ وَلَا تَعۡثَوۡا فِى الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِيۡنَ‏ ۞
اور اے میری قوم! تم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پورے کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو اور فساد کرنے والے بن کر ملک میں تباہی مت مچاتے پھرو۔

القرآن – سورۃ نمبر 55 الرحمن، آیت نمبر 9
وَاَقِيۡمُوا الۡوَزۡنَ بِالۡقِسۡطِ وَلَا تُخۡسِرُوا الۡمِيۡزَانَ ۞
اور انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول کو کم نہ کرو۔

کنزالعمال، حدیث نمبر: 9338
يا وزان زن وأرجح۔
اے وزن کرنے والے! وزن کر اور زیادہ دے۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2222
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا وَزَنْتُمْ فَأَرْجِحُوا.
جب تولو تو جھکا کر تولو ۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 4019
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَلَمْ يَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ،‏‏‏‏ إِلَّا أُخِذُوا بِالسِّنِينَ،‏‏‏‏ وَشِدَّةِ الْمَئُونَةِ،‏‏‏‏ وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَيْهِمْ،‏‏‏‏
جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قحط، معاشی تنگی اور اپنے حکمرانوں کی زیادتی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2227
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلَا يَبِعْهُ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عَوَانَةَ فِي حَدِيثِهِ:‏‏‏‏ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ وَأَحْسِبُ كُلَّ شَيْءٍ مِثْلَ الطَّعَامِ.
جو گیہوں خریدے تو اس پر قبضہ کے پہلے اس کو نہ بیچے ۔ ابوعوانہ اپنی حدیث میں کہتے ہیں: ابن عباس ؓ نے کہا: میں ہر چیز کو گیہوں ہی کی طرح سمجھتا ہوں۔

11) خرید و فروخت کرتے وقت قسمیں کھانے سے بچنا:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2209
ابوقتادہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِيَّاكُمْ وَالْحَلِفَ فِي الْبَيْعِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ يُنَفِّقُ ثُمَّ يَمْحَقُ.
بیع (خریدو فروخت) میں قسمیں کھانے سے بچو، کیونکہ اس سے گرم بازاری تو ہوجاتی ہے اور برکت جاتی رہتی ہے ۔

12) وہ اوصاف جن سے کمائی میں پاکیزگی اور برکت پیدا ہوتی ہے:

کنزالعمال، حدیث نمبر: 9340
إن أطيب الكسب كسب التجار الذين إذا حدثوا لم يكذبوا، وإذا ائتمنوا لم يخونوا، وإذا وعدوا لم يخلفوا، وإذا اشتروا لم يذموا، وإذا باعوا لم يطروا، وإذا كان عليهم لم يمطلوا، وإذا كان لهم لم يعسروا.

سب سے پاک کمائی ان تاجروں کی ہے جو:
1) بات کرتے ہوئے جھوٹ نہیں بولتے،
2) ان کے پاس امانت رکھوائی جائے تو خیانت نہیں کرتے،
3) وعدہ کرلیں تو وعدہ خلافی نہیں کرتے،
4) خریدتے ہیں تو برائی نہیں کرتے،
5) بیچتے ہیں تو دھتکارتے نہیں،
6) اگر کسی کا قرض دینا ہو تو ٹال مٹول نہیں کرتے،
7) اگر کسی سے قرض وصول کرنا ہو تو سختی نہیں کرتے۔

13) صبح کے وقت میں برکت:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2236
صخر غامدی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَكَانَ إِذَا بَعَثَ سَرِيَّةً، ‏‏‏‏‏‏أَوْ جَيْشًا بَعَثَهُمْ فِي أَوَّلِ النَّهَارِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَكَانَ صَخْرٌ رَجُلًا تَاجِرًا، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ يَبْعَثُ تِجَارَتَهُ فِي أَوَّلِ النَّهَارِ فَأَثْرَى وَكَثُرَ مَالُهُ.
اے اللہ! میری امت کے لیے صبح کے وقت میں برکت عطا فرما اور جب آپ ﷺ کو کوئی سریہ یا لشکر روانہ کرنا ہوتا تو اسے دن کے ابتدائی حصہ ہی میں روانہ فرماتے۔ راوی کہتے ہیں: غامدی صخر تاجر تھے، وہ اپنا مال تجارت صبح سویرے ہی بھیجتے تھے بالآخر وہ مالدار ہوگئے، اور ان کی دولت بڑھ گئی۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2238
عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا.
اے اللہ! میری امت کے لیے صبح کے وقت میں برکت عطا فرما ۔

کنزالعمال، حدیث نمبر: 9299
إذا صليتم الفجر فلا تناموا عن طلب أرزاقكم۔
جب تم فجر کی نماز پڑھ لو تو رزق تلاش کرنے کے بجائے سو مت جایا کرو۔

14) قرضِ حسنہ دینا:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 245
مَنۡ ذَا الَّذِىۡ يُقۡرِضُ اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضۡعَافًا کَثِيۡرَةً ‌ؕ وَاللّٰهُ يَقۡبِضُ وَيَبۡصُۜطُ ۖ وَ اِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ ۞
کون ہے جو اﷲ کو قرضِ حسنہ دے پھر وہ اس کے لئے اسے کئی گنا بڑھا دے گا، اور اﷲ ہی (تمہارے رزق میں) تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے،

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 280
وَاِنۡ كَانَ ذُوۡ عُسۡرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيۡسَرَةٍ ‌ؕ وَاَنۡ تَصَدَّقُوۡا خَيۡرٌ لَّـكُمۡ‌ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۞
اور اگر قرض دار تنگدست ہو تو خوشحالی تک مہلت دی جانی چاہئے، اور تمہارا (قرض کو) معاف کر دینا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تمہیں معلوم ہو۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 4000
حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُنْجِيَهُ اللَّهُ مِنْ کُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلْيُنَفِّسْ عَنْ مُعْسِرٍ أَوْ يَضَعْ عَنْهُ۔
جس کو یہ پسند ہو کہ اللہ اسے قیامت کے دن کی سختیوں سے نجات دے تو چاہئے کہ وہ مفلس (مقروض) کو مہلت دے یا اس کا قرض معاف کر دے۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2418
بریدہ اسلمی ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا كَانَ لَهُ بِكُلِّ يَوْمٍ صَدَقَةٌ وَمَنْ أَنْظَرَهُ بَعْدَ حِلِّهِ كَانَ لَهُ مِثْلُهُ فِي كُلِّ يَوْمٍ صَدَقَةٌ.
جو کسی تنگ دست کو مہلت دے گا تو اس کو ہر دن کے حساب سے ایک صدقہ کا ثواب ملے گا، اور جو کسی تنگ دست کو میعاد گزر جانے کے بعد مہلت دے گا تو اس کو ہر دن کے حساب سے اس کے قرض کے (برابر) صدقہ کا ثواب ملے گا ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1640
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُكَفِّرُ كُلَّ خَطِيئَةٍ، إِلَّا الدَّيْنَ۔
اللہ کی راہ میں شہادت (شہید کے لیے) ہر گناہ کا کفارہ بن جاتی ہے، سوائے قرض کے۔

15) کھانے سے پہلے اور بعد میں وضو کرنا:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3260
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُكْثِرَ اللَّهُ خَيْرَ بَيْتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَتَوَضَّأْ إِذَا حَضَرَ غَدَاؤُهُ وَإِذَا رُفِعَ.
جو یہ پسند کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کے گھر میں خیر و برکت زیادہ کرے، اسے چاہیئے کہ جب اسے کھانا پیش کیا جائے تو پہلے وضو کرلے، اور جب کھانا ختم کرلے تو تب بھی۔

16) اللہ پر توکل:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 4164
عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
لَوْ أَنَّكُمْ تَوَكَّلْتُمْ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ،‏‏‏‏ لَرَزَقَكُمْ كَمَا يَرْزُقُ الطَّيْرَ،‏‏‏‏ تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا.
اگر تم اللہ تعالیٰ پر ایسے ہی توکل (بھروسہ) کرو جیسا کہ اس پر توکل (بھروسہ) کرنے کا حق ہے، تو وہ تم کو ایسے رزق دے گا جیسے پرندوں کو دیتا ہے، وہ صبح میں خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر لوٹتے ہیں ۔

17) دنیا کے بجائے آخرت کو ترجیح دینا:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2143
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَعْظَمُ النَّاسِ هَمًّا الْمُؤْمِنُ الَّذِي يَهُمُّ بِأَمْرِ دُنْيَاهُ وَأَمْرِ آخِرَتِهِ۔
سب سے زیادہ فکرمندی اس مومن کو ہوتی ہے جسے دنیا کی بھی فکر ہو اور آخرت کی بھی۔

سنن ابن ماجہ, حدیث نمبر: 4105
حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ كَانَتِ الدُّنْيَا هَمَّهُ،‏‏‏‏ فَرَّقَ اللَّهُ عَلَيْهِ أَمْرَهُ،‏‏‏‏ وَجَعَلَ فَقْرَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ،‏‏‏‏ وَلَمْ يَأْتِهِ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا مَا كُتِبَ لَهُ،‏‏‏‏ وَمَنْ كَانَتِ الْآخِرَةُ نِيَّتَهُ،‏‏‏‏ جَمَعَ اللَّهُ لَهُ أَمْرَهُ،‏‏‏‏ وَجَعَلَ غِنَاهُ فِي قَلْبِهِ،‏‏‏‏ وَأَتَتْهُ الدُّنْيَا وَهِيَ رَاغِمَةٌ.
جس کو دنیا کی فکر لگی ہو تو اللہ تعالیٰ اس پر اس کے معاملات کو پراگندہ کر دے گا، اور محتاجی کو اس کی نگاہوں کے سامنے کر دے گا، جب اس کو دنیا سے صرف وہی ملے گا جو اس کے حصے میں لکھ دیا گیا ہے، اور جس کا مقصود آخرت ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے معاملات کو ٹھیک کر دے گا، اس کے دل کو بےنیازی عطا کرے گا، اور دنیا اس کے پاس ناک رگڑتی ہوئی آئے گی ۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 4106
مَنْ جَعَلَ الْهُمُومَ هَمًّا وَاحِدًا هَمَّ الْمَعَادِ،‏‏‏‏ كَفَاهُ اللَّهُ هَمَّ دُنْيَاهُ،‏‏‏‏ وَمَنْ تَشَعَّبَتْ بِهِ الْهُمُومُ فِي أَحْوَالِ الدُّنْيَا،‏‏‏‏ لَمْ يُبَالِ اللَّهُ فِي أَيِّ أَوْدِيَتِهِ هَلَكَ.
جس نے اپنے سارے غموں کو آخرت کا غم بنا لیا تو اللہ تعالیٰ اس کی دنیا کے غم کے لیے کافی ہے، اور جو دنیاوی معاملات کے غموں اور پریشانیوں میں الجھا رہا، تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پروا نہیں کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہوا ۔

18) رزق (نعمت) کی بے حرمتی سے بچنا:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3353
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں
دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْتَ،‏‏‏‏ فَرَأَى كِسْرَةً مُلْقَاةً فَأَخَذَهَا فَمَسَحَهَا،‏‏‏‏ ثُمَّ أَكَلَهَا،‏‏‏‏ وَقَالَ:‏‏‏‏ يَا عَائِشَةُ أَكْرِمِي كَرِيمكِ،‏‏‏‏ فَإِنَّهَا مَا نَفَرَتْ عَنْ قَوْمٍ قَطُّ فَعَادَتْ إِلَيْهِمْ.
نبی اکرم ﷺ گھر میں داخل ہوئے تو روٹی کا ایک ٹکڑا پڑا ہوا دیکھا، آپ نے اسے اٹھایا، صاف کیا پھر اسے کھالیا، اور فرمایا: عائشہ! احترام کے قابل چیز (یعنی اللہ کے رزق کی) عزت کرو، اس لیے کہ جب کبھی کسی قوم سے اللہ کا رزق پھر گیا، تو ان کی طرف واپس نہیں آیا ۔

مسنون دعائیں:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3563
حضرت علی ؓ سے روایت ہے:
أَنَّ مُكَاتَبًا جَاءَهُ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي قَدْ عَجَزْتُ عَنْ كِتَابَتِي فَأَعِنِّي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَلَا أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ عَلَّمَنِيهِنَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لَوْ كَانَ عَلَيْكَ مِثْلُ جَبَلِ صِيرٍ دَيْنًا أَدَّاهُ اللَّهُ عَنْكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ اكْفِنِي بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ۔
ایک مکاتب غلام نے ان کے پاس آ کر کہا کہ میں اپنی مکاتبت کی رقم ادا نہیں کر پا رہا ہوں، آپ ہماری کچھ مدد فرما دیجئیے تو انہوں نے کہا: کیا میں تم کو کچھ ایسے کلمے نہ سکھا دوں جنہیں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سکھائے تھے؟ اگر تیرے پاس «صیر» پہاڑ کے برابر بھی قرض ہو تو تیری جانب سے اللہ اسے ادا فرما دے گا، انہوں نے کہا: کہو: «اللهم اکفني بحلالک عن حرامک وأغنني بفضلک عمن سواک» اے اللہ! تو ہمیں حلال دے کر حرام سے کفایت کر دے، اور اپنے فضل (رزق، مال و دولت) سے نواز کر اپنے سوا کسی اور سے مانگنے سے بےنیاز کر دے ۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 925
حضرت ام المؤمنین ام سلمہ ؓ کہتی ہیں:
أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَقُولُ إِذَا صَلَّى الصُّبْحَ حِينَ يُسَلِّمُ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، ‏‏‏‏‏‏وَرِزْقًا طَيِّبًا، ‏‏‏‏‏‏وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا.
نبی اکرم ﷺ جب نماز فجر میں سلام پھیرتے تو یہ دعا پڑھتے: اللهم إني أسألک علما نافعا ورزقا طيبا وعملا متقبلا اے اللہ! میں تجھ سے نفع بخش علم، پاکیزہ روزی اور مقبول عمل کا سوال کرتا ہوں۔

اسلامی معیشت کے بنیادی اصول – قرآن و حدیث کی روشنی میں

اس کائنات کا انتظام اللہ رب العزت ایک خاص اندازے اور تدبیر کے ساتھ چلا رہے ہیں اور اس نظام میں موجود ہر شے کچھ مقررہ اصول و ضوابط کے تحت کام کر رہی ہے۔ انسان کی دنیوی و اخروی کامیابی یہ ہے کہ وہ ان اصول و ضوابط کو سمجھ کر ان پر عمل پیرا ہو۔

اس دنیا میں ہر انسان کے لیے اللہ رب العزت نے رہائش اور رزق کا بندوبست بھی مناسب انداز میں کر دیا ہے۔ اس معیشت (رزق) کی تقسیم، رزق کی تقسیم کے لحاظ چند بنیادی اصول و ضوابط اللہ رب العزت نے قرآنِ مجید کے اندر اور حضور نبی مکرم ﷺ نے احادیثِ مبارکہ میں بیان کیے ہیں جو اس مضمون میں بیان کیے گئے ہیں۔

1۔ حقیقی ملکیت صرف اللہ کی ہے۔ انسان کی حیثیت محض نائب اور امین کی ہے:

یعنی ہر طرح کے اموال، ذرائع پیداوار، اور ذرائع معیشت کا حقیقی مالک اللہ رب العزت ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 284
لِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ‌ؕ۔
جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے سب اﷲ کے لئے ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 29
هُوَ الَّذِىۡ خَلَقَ لَـكُمۡ مَّا فِى الۡاَرۡضِ جَمِيۡعًا۔
وہی ہے جس نے سب کچھ جو زمین میں ہے تمہارے لئے پیدا کیا۔

القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 26
قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الۡمُلۡكِ تُؤۡتِى الۡمُلۡكَ مَنۡ تَشَآءُ وَتَنۡزِعُ الۡمُلۡكَ مِمَّنۡ تَشَآءُ وَتُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُ‌ ؕ بِيَدِكَ الۡخَيۡرُ‌ؕ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ ۞
(اے حبیب! یوں) عرض کیجئے: اے اﷲ، سلطنت کے مالک! تُو جسے چاہے سلطنت عطا فرما دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تُو جسے چاہے عزت عطا فرما دے اور جسے چاہے ذلّت دے، ساری بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے، بیشک تُو ہر چیز پر بڑی قدرت والا ہے۔

انسان کی حیثیت فقط نائب (خلیفہ) اور امین کی ہے۔ بحیثیت نائب (خلیفہ) اور امین کے انسان کی یہی آزمائش ہے کہ وہ اس امانتاً ملنے والی ملکیت کو مالکِ حقیقی (اللہ رب العزت) کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق استعمال کرے۔ اسی کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق اس ملکیت سے نفع حاصل کرے اور اسی کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق اس نفع کو اپنے اور دوسروں کے اوپر خرچ کرے۔

القرآن – سورۃ نمبر 57 الحديد، آیت نمبر 7
اٰمِنُوۡا بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ وَاَنۡفِقُوۡا مِمَّا جَعَلَـكُمۡ مُّسۡتَخۡلَفِيۡنَ فِيۡهِ‌ؕ فَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡكُمۡ وَاَنۡفَقُوۡا لَهُمۡ اَجۡرٌ كَبِيۡرٌ ۞
اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لاؤ اور اس (مال و دولت) میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں اپنا نائب (و امین) بنایا ہے، پس تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے خرچ کیا اُن کے لئے بہت بڑا اَجر ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 24 النور، آیت نمبر 55
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡكُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَـيَسۡتَخۡلِفَـنَّهُمۡ فِى الۡاَرۡضِ كَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡۖ۔
اللہ نے ایسے لوگوں سے وعدہ فرمایا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ ضرور انہی کو زمین میں خلافت (یعنی امانتِ اقتدار کا حق) عطا فرمائے گا جیسا کہ اس نے ان لوگوں کو (حقِ) حکومت بخشا تھا جو ان سے پہلے تھے۔

القرآن – سورۃ نمبر 57 الحديد، آیت نمبر 10
وَ مَا لَـكُمۡ اَلَّا تُنۡفِقُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَلِلّٰهِ مِيۡـرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ‌ؕ۔
اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ آسمانوں اور زمین کی ساری ملکیت اللہ ہی کی ہے (تم تو فقط اس مالک کے نائب ہو)،

2۔ جملہ اموال میں حاجت مندوں کا شرعی حق ہے:

معاشرے کے محروم افراد کا حق ہے کہ ان پر خرچ کیا جائے اور ان کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔

القرآن – سورۃ نمبر 51 الذاريات، آیت نمبر 19
وَفِىۡۤ اَمۡوَالِهِمۡ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالۡمَحۡرُوۡمِ ۞
اور اُن کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجت مندوں) کا حق مقرر تھا۔

القرآن – سورۃ نمبر 70 المعارج، آیت نمبر 24،25
وَالَّذِيۡنَ فِىۡۤ اَمۡوَالِهِمۡ حَقٌّ مَّعۡلُوۡمٌ ۞ لِّلسَّآئِلِ وَالۡمَحۡرُوۡمِ ۞
اور وہ (ایثار کیش) لوگ جن کے اَموال میں حصہ مقرر ہے۔ مانگنے والے اور نہ مانگنے والے محتاج کا۔

القرآن – سورۃ نمبر 41 فصلت، آیت نمبر 10
وَجَعَلَ فِيۡهَا رَوَاسِىَ مِنۡ فَوۡقِهَا وَبٰرَكَ فِيۡهَا وَقَدَّرَ فِيۡهَاۤ اَقۡوَاتَهَا فِىۡۤ اَرۡبَعَةِ اَيَّامٍؕ سَوَآءً لِّلسَّآئِلِيۡنَ ۞
اور اُس کے اندر (سے) بھاری پہاڑ (نکال کر) اس کے اوپر رکھ دیئے اور اس کے اندر (معدنیات، آبی ذخائر، قدرتی وسائل اور دیگر قوتوں کی) برکت رکھی، اور اس میں (جملہ مخلوق کے لئے) غذائیں (اور سامانِ معیشت) مقرر فرمائے (یہ سب کچھ اس نے) چار دنوں (یعنی چار ارتقائی زمانوں) میں مکمل کیا، (یہ سارا رِزق اصلًا) تمام طلب گاروں (اور حاجت مندوں) کے لئے برابر ہے۔

سوال: ہم کسی شخص پر کیوں خرچ کریں اگر اللہ چاہتا تو خود ہی اسے رزق عطاء فرما دیتا؟

جواب:
القرآن – سورۃ نمبر 36 يس، آیت نمبر 47
وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ ۙ قَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنُطۡعِمُ مَنۡ لَّوۡ يَشَآءُ اللّٰهُ اَطۡعَمَهٗٓ ۖ اِنۡ اَنۡـتُمۡ اِلَّا فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ‏ ۞
اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ تم اس میں سے (راہِ خدا میں) خرچ کرو جو تمہیں اللہ نے عطا کیا ہے تو کافر لوگ ایمان والوں سے کہتے ہیں: کیا ہم اس (غریب) شخص کو کھلائیں جسے اگر اللہ چاہتا تو (خود ہی) کھلا دیتا۔ تم تو کھلی گمراہی میں ہی (مبتلا) ہوگئے ہو۔

تو گویا قرآن کے مطابق اس طرح کی سوچ، کافرانہ سوچ ہے اور کھلی گمراہی ہے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 660
فاطمہ بنت قیس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ فِي الْمَالِ حَقًّا سِوَى الزَّكَاةِ .
مال میں زکاۃ کے علاوہ بھی حقوق ہیں ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 659
فاطمہ بنت قیس ؓ کہتی ہیں کہ میں نے زکاۃ کے بارے میں پوچھا، یا نبی اکرم ﷺ سے زکاۃ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
إِنَّ فِي الْمَالِ لَحَقًّا سِوَى الزَّكَاةِ ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ الَّتِي فِي الْبَقَرَةِ لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ سورة البقرة آية 177 الْآيَةَ.
مال میں زکاۃ کے علاوہ بھی کچھ حق ہے۔ پھر آپ نے سورة البقرہ کی یہ آیت تلاوت فرمائی: «ليس البر أن تولوا وجوهكم» نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے پھیر لو۔ الآیۃ۔

3۔ بنیادی حق المعاش اور ضروریات کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے:

القرآن – سورۃ نمبر 11 هود، آیت نمبر 6
وَمَا مِنۡ دَآ بَّةٍ فِى الۡاَرۡضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزۡقُهَا وَ يَعۡلَمُ مُسۡتَقَرَّهَا وَمُسۡتَوۡدَعَهَا‌ؕ كُلٌّ فِىۡ كِتٰبٍ مُّبِيۡنٍ ۞
اور زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا (جاندار) نہیں ہے مگر (یہ کہ) اس کا رزق اﷲ (کے ذمۂ کرم) پر ہے اور وہ اس کے ٹھہرنے کی جگہ کو اور اس کے امانت رکھے جانے کی جگہ کو (بھی) جانتا ہے، ہر بات کتابِ روشن (لوحِ محفوظ) میں (درج) ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 29 العنكبوت، آیت نمبر 60
وَكَاَيِّنۡ مِّنۡ دَآبَّةٍ لَّا تَحۡمِلُ رِزۡقَهَا ۖ اللّٰهُ يَرۡزُقُهَا وَاِيَّاكُمۡ‌‌ۖ وَهُوَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُ ۞
اور کتنے ہی جانور ہیں جو اپنی روزی (اپنے ساتھ) نہیں اٹھائے پھرتے، اﷲ انہیں بھی رزق عطا کرتا ہے اور تمہیں بھی، اور وہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام، آیت نمبر 151
وَلَا تَقۡتُلُوۡۤا اَوۡلَادَكُمۡ مِّنۡ اِمۡلَاقٍ‌ؕ نَحۡنُ نَرۡزُقُكُمۡ وَاِيَّاهُمۡ‌۔
اور مفلسی کے باعث اپنی اولاد کو قتل مت کرو۔ ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی (دیں گے)۔

رزق کی فراہمی اللہ رب العزت نے اپنے ذمے لی ہے۔ اللہ کے ذمے سے مراد اسلامی فلاحی ریاست کے حکمران کے ذمے ہے کیونکہ وہ اللہ رب العزت کا نائب اور خلیفہ ہے۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 1663
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ كَانَ عِنْدَهُ فَضْلُ ظَهْرٍ فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لَا ظَهْرَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ فَضْلُ زَادٍ فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لَا زَادَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ لَا حَقَّ لِأَحَدٍ مِنَّا فِي الْفَضْلِ.
جس کے پاس کوئی فاضل (ضرورت سے زائد) سواری ہو تو چاہیئے کہ اسے وہ ایسے شخص کو دیدے جس کے پاس سواری نہ ہو، جس کے پاس فاضل توشہ ہو تو چاہیئے کہ اسے وہ ایسے شخص کو دیدے جس کے پاس توشہ نہ ہو، یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ ہم میں سے فاضل چیز کا کسی کو کوئی حق نہیں ۔

اسلامی فلاحی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام شہریوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرے اور ان کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنائے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2341
عثمان بن عفان ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَيْسَ لِابْنِ آدَمَ حَقٌّ فِي سِوَى هَذِهِ الْخِصَالِ بَيْتٌ يَسْكُنُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَثَوْبٌ يُوَارِي عَوْرَتَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَجِلْفُ الْخُبْزِ وَالْمَاءِ۔
دنیا کی چیزوں میں سے ابن آدم کا حق سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اس کے لیے ایک گھر ہو جس میں وہ زندگی بسر کرسکے اور اتنا کپڑا ہو جس سے وہ اپنا ستر ڈھانپ سکے، اور روٹی اور پانی کے لیے برتن ہوں جن سے وہ کھانے پینے کا جتن کرسکے ۔

4) اسبابِ معیشت کی تقسیم اللہ رب العزت کی طرف سے ہے:

القرآن – سورۃ نمبر 51 الذاريات، آیت نمبر 58
اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الۡقُوَّةِ الۡمَتِيۡنُ ۞
بیشک اﷲ ہی ہر ایک کا روزی رساں ہے، بڑی قوت والا ہے، زبردست مضبوط ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 10
وَلَقَدۡ مَكَّـنّٰكُمۡ فِى الۡاَرۡضِ وَجَعَلۡنَا لَـكُمۡ فِيۡهَا مَعَايِشَ۔
اور بیشک ہم نے تم کو زمین میں تمکّن و تصرّف عطا کیا اور ہم نے اس میں تمہارے لئے اسبابِ معیشت پیدا کئے۔

القرآن – سورۃ نمبر 15 الحجر، آیت نمبر 20
وَجَعَلۡنَا لَـكُمۡ فِيۡهَا مَعَايِشَ وَمَنۡ لَّسۡتُمۡ لَهٗ بِرٰزِقِيۡنَ ۞
اور ہم نے اس میں تمہارے لئے اسبابِ معیشت پیدا کئے اور ان (انسانوں، جانوروں اور پرندوں) کے لئے بھی جنہیں تم رزق مہیا نہیں کرتے۔

القرآن – سورۃ نمبر 11 هود، آیت نمبر 6
وَمَا مِنۡ دَآبَّةٍ فِى الۡاَرۡضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزۡقُهَا وَ يَعۡلَمُ مُسۡتَقَرَّهَا وَمُسۡتَوۡدَعَهَا‌ؕ كُلٌّ فِىۡ كِتٰبٍ مُّبِيۡنٍ ۞
اور زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا (جاندار) نہیں ہے مگر (یہ کہ) اس کا رزق اﷲ (کے ذمۂ کرم) پر ہے اور وہ اس کے ٹھہرنے کی جگہ کو اور اس کے امانت رکھے جانے کی جگہ کو (بھی) جانتا ہے، ہر بات کتابِ روشن (لوحِ محفوظ) میں (درج) ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 28 القصص، آیت نمبر 82
وَيۡكَاَنَّ اللّٰهَ يَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖ وَيَقۡدِرُ‌ۚ۔
کتنا عجیب ہے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رزق کشادہ فرماتا اور (جس کے لئے چاہتا ہے) تنگ فرماتا ہے۔

5) رزق میں وسعت اور تنگی کی حکمت:

القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف، آیت نمبر 32
نَحۡنُ قَسَمۡنَا بَيۡنَهُمۡ مَّعِيۡشَتَهُمۡ فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَرَفَعۡنَا بَعۡضَهُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَـتَّخِذَ بَعۡضُهُمۡ بَعۡضًا سُخۡرِيًّا‌۔
ہم اِن کے درمیان دنیوی زندگی میں ان کے (اسبابِ) معیشت کو تقسیم کرتے ہیں اور ہم ہی ان میں سے بعض کو بعض پر (وسائل و دولت میں) درجات کی فوقیت دیتے ہیں، (کیا ہم یہ اس لئے کرتے ہیں) کہ ان میں سے بعض (جو امیر ہیں) بعض (غریبوں) کا مذاق اڑائیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى، آیت نمبر 27
وَلَوۡ بَسَطَ اللّٰهُ الرِّزۡقَ لِعِبَادِهٖ لَبَغَوۡا فِى الۡاَرۡضِ وَلٰكِنۡ يُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَآءُ ‌ؕ اِنَّهٗ بِعِبَادِهٖ خَبِيۡرٌۢ بَصِيۡرٌ ۞
اور اگر اللہ اپنے تمام بندوں کے لئے روزی کشادہ فرما دے تو وہ ضرور زمین میں سرکشی کرنے لگیں لیکن وہ (ضروریات کے) اندازے کے ساتھ جتنی چاہتا ہے اتارتا ہے، بیشک وہ اپنے بندوں (کی ضرورتوں) سے خبردار ہے خوب دیکھنے والا ہے۔

6) طلبِ رزق کی ترغیب:

القرآن – سورۃ نمبر 29 العنكبوت، آیت نمبر 17
اِنَّ الَّذِيۡنَ تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ لَا يَمۡلِكُوۡنَ لَـكُمۡ رِزۡقًا فَابۡتَغُوۡا عِنۡدَ اللّٰهِ الرِّزۡقَ وَاعۡبُدُوۡهُ وَاشۡكُرُوۡا لَهٗ ؕ اِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ ۞
بیشک تم اللہ کے سوا جن کی پوجا کرتے ہو وہ تمہارے لئے رزق کے مالک نہیں ہیں پس تم اللہ کی بارگاہ سے رزق طلب کیا کرو اور اسی کی عبادت کیا کرو اور اسی کا شکر بجا لایا کرو، تم اسی کی طرف پلٹائے جاؤ گے۔

القرآن – سورۃ نمبر 62 الجمعة، آیت نمبر 11
وَاِذَا رَاَوۡا تِجَارَةً اَوۡ لَهۡوَا۟ اۨنْفَضُّوۡۤا اِلَيۡهَا وَتَرَكُوۡكَ قَآئِمًا‌ ؕ قُلۡ مَا عِنۡدَ اللّٰهِ خَيۡرٌ مِّنَ اللَّهۡوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ‌ ؕ وَاللّٰهُ خَيۡرُ الرّٰزِقِيۡنَ ۞
اور جب انہوں نے کوئی تجارت یا کھیل تماشا دیکھا تو (اپنی حاجت مندی اور معاشی تنگی کے باعث) اس کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے اور آپ کو (خطبہ میں) کھڑے چھوڑ گئے، فرما دیجئے: جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل سے اور تجارت سے بہتر ہے، اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 73 المزمل، آیت نمبر 20
وَاٰخَرُوۡنَ يَضۡرِبُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ يَبۡتَغُوۡنَ مِنۡ فَضۡلِ اللّٰهِ‌ۙ۔
اور (بعض) دوسرے لوگ زمین میں سفر کریں گے تاکہ اﷲ کا فضل تلاش کریں۔

القرآن – سورۃ نمبر 16 النحل، آیت نمبر 14
وَهُوَ الَّذِىۡ سَخَّرَ الۡبَحۡرَ لِتَاۡكُلُوۡا مِنۡهُ لَحۡمًا طَرِيًّا وَّتَسۡتَخۡرِجُوۡا مِنۡهُ حِلۡيَةً تَلۡبَسُوۡنَهَا‌ۚ وَتَرَى الۡـفُلۡكَ مَوَاخِرَ فِيۡهِ وَلِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِهٖ وَلَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ‏ ۞
اور وہی ہے جس نے (فضا و بر کے علاوہ) بحر (یعنی دریاؤں اور سمندروں) کو بھی مسخر فرما دیا تاکہ تم اس میں سے تازہ (و پسندیدہ) گوشت کھاؤ اور تم اس میں سے موتی (وغیرہ) نکالو جنہیں تم زیبائش کے لئے پہنتے ہو، اور (اے انسان!) تُو کشتیوں (اور جہازوں) کو دیکھتا ہے جو (دریاؤں اور سمندروں کا) پانی چیرتے ہوئے اس میں چلے جاتے ہیں، اور (یہ سب کچھ اس لئے کیا) تاکہ تم (دور دور تک) اس کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرو اور یہ کہ تم شکر گزار بن جاؤ۔

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 66
رَبُّكُمُ الَّذِىۡ يُزۡجِىۡ لَـكُمُ الۡفُلۡكَ فِى الۡبَحۡرِ لِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِهٖؕ اِنَّهٗ كَانَ بِكُمۡ رَحِيۡمًا ۞
تمہارا رب وہ ہے جو سمندر (اور دریا) میں تمہارے لئے (جہاز اور) کشتیاں رواں فرماتا ہے تاکہ تم (اندرونی و بیرونی تجارت کے ذریعہ) اس کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرو، بیشک وہ تم پر بڑا مہربان ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 12
وَجَعَلۡنَا الَّيۡلَ وَالنَّهَارَ اٰيَتَيۡنِ‌ فَمَحَوۡنَاۤ اٰيَةَ الَّيۡلِ وَجَعَلۡنَاۤ اٰيَةَ النَّهَارِ مُبۡصِرَةً لِّتَبۡتَغُوۡا فَضۡلًا مِّنۡ رَّبِّكُمۡ۔
اور ہم نے رات اور دن کو (اپنی قدرت کی) دو نشانیاں بنایا پھر ہم نے رات کی نشانی کو تاریک بنایا اور ہم نے دن کی نشانی کو روشن بنایا تاکہ تم اپنے رب کا فضل (رزق) تلاش کر سکو۔

القرآن – سورۃ نمبر 62 الجمعة، آیت نمبر 10
فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوۡا فِى الۡاَرۡضِ وَابۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِ اللّٰهِ وَاذۡكُرُوا اللّٰهَ كَثِيۡرًا لَّعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ۞
پھر جب نماز ادا ہوچکے تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور (پھر) اللہ کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرنے لگو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ،

القرآن – سورۃ نمبر 28 القصص، آیت نمبر 77
وَابۡتَغِ فِيۡمَاۤ اٰتٰٮكَ اللّٰهُ الدَّارَ الۡاٰخِرَةَ‌ وَلَا تَنۡسَ نَصِيۡبَكَ مِنَ الدُّنۡيَا‌۔
اور تو اس (دولت) میں سے جو اللہ نے تجھے دے رکھی ہے آخرت کا گھر طلب کر، اور دنیا سے (بھی) اپنا حصہ نہ بھول۔

القرآن – سورۃ نمبر 53 النجم، آیت نمبر 39
وَاَنۡ لَّيۡسَ لِلۡاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىۙ ۞
اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہوگی۔

القرآن – سورۃ نمبر 29 العنكبوت، آیت نمبر 17
فَابۡتَغُوۡا عِنۡدَ اللّٰهِ الرِّزۡقَ وَاعۡبُدُوۡهُ وَاشۡكُرُوۡا لَهٗ ؕ اِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ ۞
پس تم اللہ کی بارگاہ سے رزق طلب کیا کرو اور اسی کی عبادت کیا کرو اور اسی کا شکر بجا لایا کرو، تم اسی کی طرف پلٹائے جاؤ گے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1358
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ أَطْيَبَ مَا أَكَلْتُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ،‏‏‏‏ وَإِنَّ أَوْلَادَكُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ .
سب سے پاکیزہ چیز جس کو تم کھاتے ہو تمہاری اپنی کمائی ہے اور تمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی میں سے ہے۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2141
عبداللہ بن خبیب کے چچا سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا بَأْسَ بِالْغِنَى لِمَنِ اتَّقَى وَالصِّحَّةُ لِمَنِ اتَّقَى خَيْرٌ مِنَ الْغِنَى وَطِيبُ النَّفْسِ مِنَ النَّعِيمِ.
اہل تقویٰ کے لیے مالداری کوئی حرج کی بات نہیں، اور تندرستی متقی کے لیے مالداری سے بہتر ہے، اور خوش دلی بھی ایک نعمت ہے۔

مرد و عورت کی کمائی:

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 32
لِلرِّجَالِ نَصِيۡبٌ مِّمَّا اكۡتَسَبُوۡا ؕ‌ وَلِلنِّسَآءِ نَصِيۡبٌ مِّمَّا اكۡتَسَبۡنَ‌ ؕ وَسۡئَـلُوا اللّٰهَ مِنۡ فَضۡلِهٖ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمًا ۞
مردوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور عورتوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور اللہ سے اس کا فضل مانگا کرو، بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے،

متفرقات:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1820
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
طَعَامُ الِاثْنَيْنِ كَافِي الثَّلَاثَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَطَعَامُ الثَّلَاثَةِ كَافِي الْأَرْبَعَةَ۔
دو آدمیوں کا کھانا تین آدمیوں کے لیے اور تین آدمیوں کا کھانا چار آدمیوں کے لیے کافی ہے ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اسلامی نظامِ معیشت کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

فضائل و احکامِ رمضان المبارک – جمعۃ المبارک، 23 رمضان المبارک 1444ھ، بمطابق 14 اپریل 2023ء

بحکمِ خداوندی رمضان المبارک کے روزے ہر مسلمان پر فرض کیے گئے ہیں۔ روزے کی فرضیت کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے اندر تقوٰی کا نور پیدا ہو جائے اور اس کا ظاہر و باطن ہر طرح کی آلائشوں، گناہوں اور برائیوں سے پاک و صاف ہو جائے۔ ذیل میں ہم نے فضائل و احکامِ رمضان المبارک کے حوالے سے مندرجہ ذیل موضوعات کو احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

1) روزے کی فضیلت 2) رمضان المبارک اور تلاوتِ قرآن 3) رمضان المبارک اور سخاوت 4) رمضان المبارک اور سحری 5) رمضان المبارک اور افطاری 6) روزہ نہ رکھنے پر وعید 7) روزے کا فدیہ 8) سفر میں روزہ 9) رمضان المبارک کے آخری عشرے میں حضور نبی مکرم ﷺ کا معمول 10) لیلۃالقدر 11) متفرق احکام

روزے کی فضیلت:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2840
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بَعَّدَ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا.
جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں (جہاد کرتے ہوئے) ایک دن بھی روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے ستر سال (کی مسافت کی دوری تک) دور کر دیتا ہے۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1639
عثمان بن ابی العاص ثقفی ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الصِّيَامُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ كَجُنَّةِ أَحَدِكُمْ مِنَ الْقِتَالِ.
روزہ دوزخ کی آگ سے یوں ڈھال ہے جیسے تم میں سے کسی کے پاس لڑائی کے وقت ڈھال ہوتی ہے ۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے:
کان رسول اللہ ﷺ اذا دَخَلَ رمضانَ لَغَیَّرَ لَونُہُ و کَثُرَتْ صَلَاتُہُ، وابْتَھَلَ فِی الدُّعَاءِ، وَأَشْفَقَ مِنْہُ۔
جب ماہِ رمضان شروع ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کا رنگ متغیر ہو جاتا، آپ کی نمازوں میں اضافہ ہو جاتا، اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کرتے اور اس کا خوف طاری رکھتے۔

رمضان المبارک اور تلاوتِ قرآن:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 6
حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے مروی ہے:
كَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ۔
حضرت جبرائیل (علیہ السلام) رمضان کی ہر رات میں آپ ﷺ سے ملاقات کرتے اور آپ ﷺ کے ساتھ قرآن کا دورہ کرتے۔

مسند احمد، حدیث نمبر: 6337
حضرت عبداللہ ابن عمرو ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
الصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَقُولُ الصِّيَامُ أَيْ رَبِّ مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ وَيَقُولُ الْقُرْآنُ مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ قَالَ فَيُشَفَّعَانِ۔
روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے، روزہ کہے گا کہ پروردگار میں نے دن کے وقت اسے کھانے اور خواہشات کی تکمیل سے روکے رکھا اس لئے اس کے متعلق میری سفارش قبول فرما اور قرآن کہے گا کہ میں نے رات کو اسے سونے سے روکے رکھا اس لئے اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما چناچہ ان دونوں کی سفارش قبول کرلی جائے گی۔

رمضان المبارک اور سخاوت:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1902
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے:
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام يَلْقَاهُ كُلَّ لَيْلَةٍ فِي رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى يَنْسَلِخَ يَعْرِضُ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام، ‏‏‏‏‏‏كَانَ أَجْوَدَ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ.
نبی کریم ﷺ سخاوت اور خیر کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ ﷺ کی سخاوت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی تھی جب جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ سے رمضان میں ملتے، جبرائیل (علیہ السلام) نبی کریم ﷺ سے رمضان شریف کی ہر رات میں ملتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔ نبی کریم ﷺ جبرائیل (علیہ السلام) سے قرآن کا دور کرتے تھے، جب جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ سے ملنے لگتے تو آپ ﷺ چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہوجایا کرتے تھے۔

رمضان المبارک اور سحری:

القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 31
كُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا وَلَا تُسۡرِفُوۡا‌ ۚ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الۡمُسۡرِفِيۡنَ ۞
کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2549
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السُّحُورِ بَرَکَةً۔
سحری کھایا کرو کیونکہ سحری کے کھانے میں برکت ہوتی ہے۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2550
حضرت عمر بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
فَصْلُ مَا بَيْنَ صِيَامِنَا وَصِيَامِ أَهْلِ الْکِتَابِ أَکْلَةُ السَّحَرِ۔
ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان سحری کھانے کا فرق ہے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1921
زید بن ثابت ؓ روایت کرتے ہیں:
تَسَحَّرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ كَمْ كَانَ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالسَّحُورِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ قَدْرُ خَمْسِينَ آيَةً.
نبی کریم ﷺ کے ساتھ ہم نے سحری کھائی، پھر آپ ﷺ صبح کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ میں نے پوچھا کہ سحری اور اذان میں کتنا فاصلہ ہوتا تھا تو انہوں نے کہا کہ پچاس آیتیں (پڑھنے) کے موافق فاصلہ ہوتا تھا۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2552
حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے:
تَسَحَّرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ثُمَّ قُمْنَا إِلَی الصَّلَاةِ قُلْتُ کَمْ کَانَ قَدْرُ مَا بَيْنَهُمَا قَالَ خَمْسِينَ آيَةً۔
ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سحری کھائی پھر نماز کے لئے کھڑے ہوئے میں نے عرض کیا کہ سحری کھانے اور نماز کے درمیان کتنا وقفہ تھا آپ نے فرمایا پچاس آیات کے برابر۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 2350
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا سَمِعَ أَحَدُكُمُ النِّدَاءَ وَالْإِنَاءُ عَلَى يَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَضَعْهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ مِنْهُ.
تم میں سے کوئی جب صبح کی اذان سنے اور (کھانے پینے کا) برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اسے اپنی ضرورت پوری کئے بغیر نہ رکھے۔

رمضان المبارک اور افطاری:

القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 31
كُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا وَلَا تُسۡرِفُوۡا‌ ۚ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الۡمُسۡرِفِيۡنَ ۞
کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2554
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ۔
لوگ ہمیشہ بھلائی کے ساتھ رہیں گے جب تک روزہ جلد افطار کرتے رہیں گے۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 2358
حضرت معاذ بن زہرہ روایت کرتے ہیں:
أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا أَفْطَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ.
انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب روزہ افطار فرماتے تو یہ دعا پڑھتے: “اللهم لک صمت وعلى رزقک أفطرت‏‏” اے اللہ! میں نے تیری ہی خاطر روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کیا ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 696
حضرت انس بن مالک ؓ روایت کرتے ہیں:
كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُفْطِرُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَى رُطَبَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ لَمْ تَكُنْ رُطَبَاتٌ فَتُمَيْرَاتٌ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تُمَيْرَاتٌ حَسَا حَسَوَاتٍ مِنْ مَاءٍ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَرُوِيَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يُفْطِرُ فِي الشِّتَاءِ عَلَى تَمَرَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الصَّيْفِ عَلَى الْمَاءِ۔
نبی اکرم ﷺ (مغرب) پڑھنے سے پہلے چند تر کھجوروں سے افطار کرتے تھے، اور اگر تر کھجوریں نہ ہوتیں تو چند خشک کھجوروں سے اور اگر خشک کھجوریں بھی میسر نہ ہوتیں تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سردیوں میں چند کھجوروں سے افطار کرتے اور گرمیوں میں پانی سے۔

روزہ نہ رکھنے پر وعید:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 723
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ أَفْطَرَ يَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ رُخْصَةٍ وَلَا مَرَضٍ، ‏‏‏‏‏‏لَمْ يَقْضِ عَنْهُ صَوْمُ الدَّهْرِ كُلِّهِ وَإِنْ صَامَهُ .
جس نے بغیر کسی شرعی رخصت اور بغیر کسی بیماری کے رمضان کا کوئی روزہ نہیں رکھا تو پورے سال کا روزہ بھی اس (کے اجر) کو پورا نہیں کر پائے گا چاہے وہ پورا سال روزے سے رہے ۔

روزے کا فدیہ:

ایسا مسلمان مرد یا عورت جو بڑھاپے یا کسی ایسی بیماری جس کی وجہ سے روزہ رکھنے سے عاجز ہو اور یہ عجز دائمی ہو ایسی صورت میں ہر روزہ کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلانا فدیہ کہلاتا ہے۔ فدیہ فی روزہ صدقہ فطر کے برابر ہوتا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 184
وَعَلَى الَّذِيۡنَ يُطِيۡقُوۡنَهٗ فِدۡيَةٌ طَعَامُ مِسۡكِيۡنٍؕ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَيۡرًا فَهُوَ خَيۡرٌ لَّهٗ۔
اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو ان کے ذمے ایک مسکین کے کھانے کا بدلہ ہے، پھر جو کوئی اپنی خوشی سے (زیادہ) نیکی کرے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے۔

سفر میں روزہ:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2609
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے:
لَا تَعِبْ عَلَی مَنْ صَامَ وَلَا عَلَی مَنْ أَفْطَرَ قَدْ صَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي السَّفَرِ وَأَفْطَرَ.
ہم برا بھلا نہیں کہتے تھے کہ جو آدمی سفر میں روزہ رکھے اور نہ ہی برا بھلا کہتے ہیں جو آدمی سفر میں روزہ نہ رکھے تحقیق رسول اللہ ﷺ نے سفر میں روزہ رکھا بھی اور روزہ افطار بھی کیا ہے۔

مسافر کو روزہ رکھنے یا چھوڑنے کا اختیار ہے۔ لیکن اگر سفر میں دشواری نہ ہو تو روزہ رکھنا افضل ہے۔ یاد رہے اگر کوئی سفر یا بیماری کی وجہ سے روزہ چھوڑتا ہے تو بعد میں اس روزے کی قضا لازم ہے۔

رمضان المبارک کے آخری عشرے میں حضور نبی مکرم ﷺ کا معمول:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2024
حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں:
كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ، ‏‏‏‏‏‏شَدَّ مِئْزَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْيَا لَيْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ.
جب (رمضان کا) آخری عشرہ آتا تو نبی کریم ﷺ اپنا تہبند مضبوط باندھتے (یعنی اپنی کمر پوری طرح کس لیتے) اور ان راتوں میں آپ خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگایا کرتے تھے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2020
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَاوِرُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقُولُ:‏‏‏‏ تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ.
نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے اور فرماتے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں شب قدر کو تلاش کرو۔

لیلۃالقدر:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1644
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رمضان آیا تو رسول کرام ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ هَذَا الشَّهْرَ قَدْ حَضَرَكُمْ وَفِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، ‏‏‏‏‏‏مَنْ حُرِمَهَا فَقَدْ حُرِمَ الْخَيْرَ كُلَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يُحْرَمُ خَيْرَهَا إِلَّا مَحْرُومٌ.
یہ مہینہ آگیا اور اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس سے محروم رہا وہ ہر طرح کے خیر (بھلائی) سے محروم رہا، اور اس کی بھلائی سے محروم وہی رہے گا جو (واقعتاً) محروم ہو ۔

مسند احمد, حدیث نمبر: 19486
حضرت ابوبکرہ ؓ سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
الْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ لِتِسْعٍ يَبْقَيْنَ أَوْ لِسَبْعٍ يَبْقَيْنَ أَوْ لِخَمْسٍ أَوْ لِثَلَاثٍ أَوْ آخِرِ لَيْلَةٍ۔
شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کیا کرو اکیسویں شب، تئیسویں شب، پچیس ویں شب یا ستائیسویں شب یا آخری رات میں۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3513
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں:
قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَرَأَيْتَ إِنْ عَلِمْتُ أَيُّ لَيْلَةٍ لَيْلَةُ الْقَدْرِ مَا أَقُولُ فِيهَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ قُولِي:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ كَرِيمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي۔
میں نے کہا: اللہ کے رسول! اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کون سی رات لیلۃ القدر ہے تو میں اس میں کیا پڑھوں؟ آپ نے فرمایا: پڑھو «اللهم إنک عفو کريم تحب العفو فاعف عني» اے اللہ! تو عفو و درگزر کرنے والا مہربان ہے، اور عفو و درگزر کرنے کو تو پسند کرتا ہے، اس لیے تو ہمیں معاف و درگزر کر دے ۔

امت کی بخشش و مغفرت:

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر 1968
ابوہریرہ ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
يُغْفَرُ لِأُمَّتِهِ فِي آخِرِ لَيْلَةٍ فِي رَمَضَانَ۔ قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَهِيَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ؟ قَالَ: «لَا وَلَكِنَّ الْعَامِلَ إِنَّمَا يُوَفَّى أجره إِذا قضى عمله» . رَوَاهُ أَحْمد
رمضان کی آخری رات ان کی (یعنی میری) امت کو بخش دیا جاتا ہے۔ عرض کیا گیا، اللہ کے رسول! کیا وہ شب قدر ہے؟ فرمایا:’’ نہیں، لیکن جب کام کرنے والا اپنا کام مکمل کر لیتا ہے تو اسے پورا پورا اجر دیا جاتا ہے۔‘‘

متفرق احکام:

روؤیتِ ہلالِ رمضان المبارک:

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 2341
حضرت عکرمہ روایت کرتے ہیں:
أَنَّهُمْ شَكُّوا فِي هِلَالِ رَمَضَانَ مَرَّةً، ‏‏‏‏‏‏فَأَرَادُوا أَنْ لَا يَقُومُوا وَلَا يَصُومُوا، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ مِنْ الْحَرَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَشَهِدَ أَنَّهُ رَأَى الْهِلَالَ، ‏‏‏‏‏‏فَأُتِيَ بِهِ النَّبِيَّ ﷺ ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَتَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏وَشَهِدَ أَنَّهُ رَأَى الْهِلَالَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ بِلَالًا، ‏‏‏‏‏‏فَنَادَى فِي النَّاسِ أَنْ يَقُومُوا وَأَنْ يَصُومُوا۔
ایک بار لوگوں کو رمضان کے چاند (کی روئیت) سے متعلق شک ہوا اور انہوں نے یہ ارادہ کرلیا کہ نہ تو قیام کریں (تراویح پڑھیں) گے اور نہ روزے رکھیں گے، اتنے میں مقام حرہ سے ایک اعرابی آگیا اور اس نے چاند دیکھنے کی گواہی دی چناچہ اسے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں لے جایا گیا، آپ نے اس سے سوال کیا: کیا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہیں؟ اس نے کہا: ہاں، اور چاند دیکھنے کی گواہی بھی دی چناچہ آپ ﷺ نے بلال ؓ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں منادی کردیں کہ لوگ قیام کریں (تراویح پڑھیں) اور روزہ رکھیں۔

رمضان المبارک سے دو دن پہلے روزہ نہ رکھنے کا حکم:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2518
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا تَقَدَّمُوا رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ وَلَا يَوْمَيْنِ إِلَّا رَجُلٌ کَانَ يَصُومُ صَوْمًا فَلْيَصُمْهُ۔
تم رمضان المبارک سے نہ ایک دن اور نہ ہی دو دن پہلے روزہ رکھو سوائے اس آدمی کے جو اس دن روزہ رکھتا تھا تو اسے چاہیے کہ وہ رکھ لے۔

کیا قے آنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 720
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ ذَرَعَهُ الْقَيْءُ فَلَيْسَ عَلَيْهِ قَضَاءٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنِ اسْتَقَاءَ عَمْدًا فَلْيَقْضِ .
جسے قے آ جائے اس پر روزے کی قضاء لازم نہیں اور جو جان بوجھ کر قے کرے تو اسے روزے کی قضاء کرنی چاہیئے۔

صدقۂِ فطر کے احکام و مسائل – جمعۃ المبارک، 16 رمضان المبارک 1444ھ، بمطابق 07 اپریل 2023ء

صدقۂِ فطر کی فرضیت اور احکام:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1503
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ:
فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى الْعَبْدِ،‏‏‏‏ وَالْحُرِّ،‏‏‏‏ وَالذَّكَرِ،‏‏‏‏ وَالْأُنْثَى،‏‏‏‏ وَالصَّغِيرِ،‏‏‏‏ وَالْكَبِيرِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ.
رسول اللہ ﷺ نے فطر کی زکوٰۃ (صدقہ فطر) فرض قرار دی تھی جو ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو کے برابر ہے ۔ غلام ‘ آزاد ‘ مرد ‘ عورت ‘ چھوٹے اور بڑے تمام مسلمانوں پر۔ آپ ﷺ کا حکم یہ تھا کہ نماز (عید) کے لیے جانے سے پہلے یہ صدقہ ادا کردیا جائے۔

1) صدقۂِ فطر کا حکم کیا ہے؟

فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ زَكَاةَ الْفِطْرِ۔
رسول اللہ ﷺ نے فطر کی زکوٰۃ (صدقہ فطر) فرض قرار دی تھی۔

2) صدقۂِ فطر کی مقدار کیا ہے؟

صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ۔
(صدقۂِ فطر کی مقدار) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو کے برابر ہے۔

3) صدقۂِ فطر کن لوگوں پر فرض ہے؟

عَلَى الْعَبْدِ،‏‏‏‏ وَالْحُرِّ،‏‏‏‏ وَالذَّكَرِ،‏‏‏‏ وَالْأُنْثَى،‏‏‏ وَالصَّغِيرِ،‏‏‏‏ وَالْكَبِيرِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ۔
غلام، آزاد، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے تمام مسلمانوں پر۔

4) صدقۂِ فطر کی ادائیگی کا وقت کیا ہے؟

وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ
آپ ﷺ کا حکم یہ تھا کہ نماز (عید الفطر) کے لیے جانے سے پہلے یہ صدقۂِ فطر ادا کردیا جائے۔

زکوٰۃ اور صدقۂِ فطر میں فرق کیا ہے؟

زکوٰۃ کے لیے شرط ہے کہ نصابِ زکوٰۃ پر سال کا عرصہ گزر چکا ہو جبکہ صدقۂِ فطر میں نصابِ زکوٰۃ پر سال کا گزرنا شرط نہیں بلکہ اگر کسی شخص کے پاس عید الفطر کے دن نصابِ زکوٰۃ کے برابر مال اس کی حاجاتِ اصلیہ سے زائد موجود ہے تو اس پر صدقۂِ فطر کی ادائیگی واجب ہے۔

نصابِ زکوٰۃ کی مالیت بمطابق 1444ھ، 2023ء:

1,20,000 روپے۔

یعنی اگر کسی شخص کے پاس آج کے دور (1444ھ، بمطابق 2023ء) 120,000 روپے یا اس سے زیادہ مالیت کی رقم (کرنسی) یا اس مالیت کے برابر قیمتی چیزیں سونا، چاندی وغیرہ موجود ہو تو وہ شخص صاحبِ نصاب ہے۔ اس پر زکوٰۃ ادا کرنا بھی واجب ہے اور صدقۂِ فطر ادا کرنا بھی واجب ہے۔ اگر اس مال پر سال کا عرصہ گزر چکا ہے تو اس مال کا اڑھائی فیصد زکوٰۃ کی مد میں غرباء و مساکین اور دوسرے مصارفِ زکوٰۃ پہ خرچ کرنا واجب ہے۔ جبکہ صدقۂِ فطر کے لیے مال پر سال کا گزرنا شرط نہیں ہے بلکہ اگر کچھ دن پہلے وہ شخص صاحبِ نصاب بنا ہے تو اس پر صدقۂِ فطر ادا کرنا واجب ہے۔

صدقۂِ فطر کی حکمت:

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 1609
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ، ‏‏‏‏‏‏مَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ فَهِيَ زَكَاةٌ مَقْبُولَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ فَهِيَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ.
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر صائم کو لغو اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کے کھانے کے لیے فرض کیا ہے، لہٰذا جو اسے (عید کی) نماز سے پہلے ادا کرے گا تو یہ مقبول صدقہ ہوگا اور جو اسے نماز کے بعد ادا کرے گا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہوگا۔

صدقۂِ فطر کی مقدار:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1506
حضرت ابو سعید خدری ؓ روایت کرتے ہیں کہ:
كُنَّا نُخْرِجُ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ.
ہم فطرہ کی زکوٰۃ ایک صاع اناج یا گیہوں یا ایک صاع جَو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع زبیب (خشک انگور یا انجیر) نکالا کرتے تھے۔

صدقۂِ فطر (و فدیہ فی روزہ) کی قیمت (ایک فرد) کے مختلف درجات بمطابق 1444ھ (2023) – (دارالافتاء):

گندم کا آٹا (دو کلوگرام): 320 روپے
جو (چار کلوگرام): 1000 روپے
کھجور (چار کلوگرام) – درمیانی کوالٹی: 2400 روپے
کھجور (چار کلوگرام) – اعلیٰ کوالٹی: 10800 روپے
کشمکش (چار کلوگرام): 4800 روپے
پنیر (چار کلوگرام): 9250 روپے

گویا صدقۂِ فطر (و فدیہ فی روزہ) کی کم سے کم مقدار ایک فرد کے لیے 320 روپے جبکہ زیادہ سے زیادہ 10,800 روپے ہے بمطابق 1444ھ (2023)۔ اگر کوئی اس بھی زیادہ دینا چاہے تو اس کے لیے باعثِ اجر و ثواب ہے۔ ہر فرد اپنی مالی حیثیت اور طرزِ زندگی کے مطابق طے شدہ صدقۂِ فطر (و فدیہ فی روزہ) ادا کرے۔ تاکہ غرباء و مساکین کو زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقی معنوں میں دینِ اسلام کی تعلیمات کا فہم عطا فرمائے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

فضیلت و احکامِ رمضان المبارک – جمعۃ المبارک، 02 رمضان المبارک 1444ھ، بمطابق 24 مارچ 2023ء

1) روزے کی فرضیت، 2) روزوں کا مقصد کیا ہے؟ 3) افطار کی مسنون دعا 4) افطار کروانے کا ثواب 5) روزوں کی فضیلت 6) قیام اللیل (تراویح) کی فضیلت 7) متفرق احکام

روزے کی فرضیت و دیگر احکام قرآنی آیات کی روشنی میں:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 183
يٰٓـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا كُتِبَ عَلَيۡکُمُ الصِّيَامُ کَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُوۡنَۙ ۞
اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ،

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 184
اَيَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍؕ فَمَنۡ كَانَ مِنۡكُمۡ مَّرِيۡضًا اَوۡ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنۡ اَيَّامٍ اُخَرَ‌ؕ وَعَلَى الَّذِيۡنَ يُطِيۡقُوۡنَهٗ فِدۡيَةٌ طَعَامُ مِسۡكِيۡنٍؕ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَيۡرًا فَهُوَ خَيۡرٌ لَّهٗ ؕ وَاَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَيۡرٌ لَّـکُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۞
(یہ) گنتی کے چند دن (ہیں)، پس اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کر لے، اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو ان کے ذمے ایک مسکین کے کھانے کا بدلہ ہے، پھر جو کوئی اپنی خوشی سے (زیادہ) نیکی کرے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے، اور تمہارا روزہ رکھ لینا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تمہیں سمجھ ہو،

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 185
شَهۡرُ رَمَضَانَ الَّذِىۡٓ اُنۡزِلَ فِيۡهِ الۡقُرۡاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الۡهُدٰى وَالۡفُرۡقَانِۚ فَمَنۡ شَهِدَ مِنۡكُمُ الشَّهۡرَ فَلۡيَـصُمۡهُ ؕ وَمَنۡ کَانَ مَرِيۡضًا اَوۡ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنۡ اَيَّامٍ اُخَرَؕ يُرِيۡدُ اللّٰهُ بِکُمُ الۡيُسۡرَ وَلَا يُرِيۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ وَلِتُکۡمِلُوا الۡعِدَّةَ وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰٮكُمۡ وَلَعَلَّکُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ ۞
رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں، پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پا لے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے، اﷲ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے دشواری نہیں چاہتا، اور اس لئے کہ تم گنتی پوری کر سکو اور اس لئے کہ اس نے تمہیں جو ہدایت فرمائی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو اور اس لئے کہ تم شکر گزار بن جاؤ،

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 187
اُحِلَّ لَـکُمۡ لَيۡلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآئِكُمۡ‌ؕ هُنَّ لِبَاسٌ لَّـكُمۡ وَاَنۡـتُمۡ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ؕ عَلِمَ اللّٰهُ اَنَّکُمۡ كُنۡتُمۡ تَخۡتَانُوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ فَتَابَ عَلَيۡكُمۡ وَعَفَا عَنۡكُمۡۚ فَالۡــئٰنَ بَاشِرُوۡهُنَّ وَابۡتَغُوۡا مَا کَتَبَ اللّٰهُ لَـكُمۡ وَكُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَـكُمُ الۡخَـيۡطُ الۡاَبۡيَضُ مِنَ الۡخَـيۡطِ الۡاَسۡوَدِ مِنَ الۡفَجۡرِ‌ؕ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى الَّيۡلِ‌ۚ وَلَا تُبَاشِرُوۡهُنَّ وَاَنۡـتُمۡ عٰكِفُوۡنَ فِى الۡمَسٰجِدِؕ تِلۡكَ حُدُوۡدُ اللّٰهِ فَلَا تَقۡرَبُوۡهَا ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ اٰيٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمۡ يَتَّقُوۡنَ ۞
تمہارے لئے روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے، وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو، اﷲ کو معلوم ہے کہ تم اپنے حق میں خیانت کرتے تھے سو اس نے تمہارے حال پر رحم کیا اور تمہیں معاف فرما دیا، پس اب (روزوں کی راتوں میں بیشک) ان سے مباشرت کیا کرو اور جو اﷲ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے چاہا کرو اور کھاتے پیتے رہا کرو یہاں تک کہ تم پر صبح کا سفید ڈورا (رات کے) سیاہ ڈورے سے (الگ ہو کر) نمایاں ہو جائے، پھر روزہ رات (کی آمد) تک پورا کرو، اور عورتوں سے اس دوران شب باشی نہ کیا کرو جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو، یہ اﷲ کی (قائم کردہ) حدیں ہیں پس ان (کے توڑنے) کے نزدیک نہ جاؤ، اسی طرح اﷲ لوگوں کے لئے اپنی آیتیں (کھول کر) بیان فرماتا ہے تاکہ وہ پرہیزگاری اختیار کریں،

روزے داروں کی فضیلت کے بارے میں دیگر آیاتِ قرآنی:
القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 112
القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب، آیت نمبر 35
القرآن – سورۃ نمبر 66 التحريم، آیت نمبر 5

رمضان المبارک کا مقصد گناہوں سے بچنا ہے:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1903
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ.
اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا (روزے رکھ کر بھی) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔

سنن نسائی، حدیث نمبر: 2108
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أَتَاكُمْ رَمَضَانُ شَهْرٌ مُبَارَكٌ، ‏‏‏‏‏‏فَرَضَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ، ‏‏‏‏‏‏تُفْتَحُ فِيهِ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَتُغْلَقُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَحِيمِ، ‏‏‏‏‏‏وَتُغَلُّ فِيهِ مَرَدَةُ الشَّيَاطِينِ لِلَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، ‏‏‏‏‏‏مَنْ حُرِمَ خَيْرَهَا فَقَدْ حُرِمَ.
رمضان کا مبارک مہینہ تمہارے پاس آچکا ہے، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض کردیئے ہیں، اس میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور سرکش شیاطین کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں، اور اس میں اللہ تعالیٰ کے لیے ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس کے خیر سے محروم رہا تو وہ بس محروم ہی رہا ۔

کھجور یا پانی کے ساتھ افطار:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 658
سلمان بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا أَفْطَرَ أَحَدُكُمْ فَلْيُفْطِرْ عَلَى تَمْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ بَرَكَةٌ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ تَمْرًا فَالْمَاءُ فَإِنَّهُ طَهُور۔
جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو کھجور سے افطار کرے، کیونکہ اس میں برکت ہے، اگر کھجور میسر نہ ہو تو پانی سے افطار کرے وہ نہایت پاکیزہ چیز ہے۔

روزہ افطار کے وقت کی مسنون دعا:

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 2358
حضرت معاذ بن زہرہ روایت کرتے ہیں:
أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا أَفْطَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ.
انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب روزہ افطار فرماتے تو یہ دعا پڑھتے: “اللهم لک صمت وعلى رزقک أفطرت‏‏” اے اللہ! میں نے تیری ہی خاطر روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کیا ۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 2357
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے:
ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ.
پیاس ختم ہوگئی، رگیں تر ہوگئیں، اور اگر اللہ نے چاہا تو ثواب مل گیا ۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1753
عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ لِلصَّائِمِ عِنْدَ فِطْرِهِ لَدَعْوَةً مَا تُرَدُّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ إِذَا أَفْطَرَ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِرَحْمَتِكَ الَّتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ تَغْفِرَ لِي.
روزہ دار کی دعا افطار کے وقت رد نہیں کی جاتی ۔ ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کو سنا کہ جب وہ افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے: “اے اللہ! میں تیری رحمت کے ذریعہ سوال کرتا ہوں جو ہر چیز کو وسیع ہے کہ مجھے بخش دے”.

روزہ افطار کروانے کا ثواب:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1746
حضرت زید بن خالد جُہَنِی ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِمْ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا۔
جو کوئی کسی روزہ دار کو افطار کرا دے تو اس کو روزہ دار کے برابر ثواب ملے گا، اور روزہ دار کے ثواب میں سے کوئی کمی نہیں ہوگی۔

فضیلتِ رمضان المبارک:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 38
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
جس نے رمضان کے روزے ایمان اور خالص نیت کے ساتھ رکھے اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے گئے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1899
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏فُتِحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وفی روایۃ: فُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّۃِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ.
جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، (اور ایک روایت میں ہے کہ) جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیطان (زنجیروں میں) جکڑ دیے جاتے ہیں۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1904
حضرت ابوصالح ؓ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
قَالَ اللَّهُ:‏‏‏‏ كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا الصِّيَامَ فَإِنَّهُ لِي، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَالصِّيَامُ جُنَّةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ فَلَا يَرْفُثْ وَلَا يَصْخَبْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَقُلْ:‏‏‏‏ إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ، ‏‏‏‏‏‏لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا:‏‏‏‏ إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ.
اللہ پاک فرماتا ہے کہ انسان کا ہر نیک عمل خود اسی کے لیے ہے مگر روزہ کہ وہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور روزہ گناہوں کی ایک ڈھال ہے، اگر کوئی روزے سے ہو تو اسے فحش گوئی نہ کرنی چاہیے اور نہ شور مچائے، اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا لڑنا چاہیے تو اس کا جواب صرف یہ ہو کہ میں ایک روزہ دار آدمی ہوں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے! روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ بہتر ہے، روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوں گی (ایک تو جب) وہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور (دوسرے) جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزے کا ثواب پا کر خوش ہوگا۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1894
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الصِّيَامُ جُنَّةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَرْفُثْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَجْهَلْ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِ امْرُؤٌ قَاتَلَهُ أَوْ شَاتَمَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَقُلْ:‏‏‏‏ إِنِّي صَائِمٌ مَرَّتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ تَعَالَى مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ، ‏‏‏‏‏‏يَتْرُكُ طَعَامَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَشَرَابَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَشَهْوَتَهُ مِنْ أَجْلِي الصِّيَامُ لِي، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا أَجْزِي بِهِ وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا.
روزہ دوزخ سے بچنے کے لیے ایک ڈھال ہے اس لیے (روزہ دار) نہ فحش باتیں کرے اور نہ جہالت کی باتیں اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گالی دے تو اس کا جواب صرف یہ ہونا چاہیے کہ میں روزہ دار ہوں، (یہ الفاظ) دو مرتبہ (کہہ دے) اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ اور پاکیزہ ہے، (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) بندہ اپنا کھانا پینا اور اپنی شہوت میرے لیے چھوڑ دیتا ہے، روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور (دوسری) نیکیوں کا ثواب بھی اصل نیکی کے دس گنا ہوتا ہے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2790
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَقَامَ الصَّلَاةَ، ‏‏‏‏‏‏وَصَامَ رَمَضَانَ كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ۔
جو شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور نماز قائم کرے اور رمضان کے روزے رکھے تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ وہ جنت میں داخل کرے گا۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1896
حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا، ‏‏‏‏‏‏يُقَالُ لَهُ:‏‏‏‏ الرَّيَّانُ، ‏‏‏‏‏‏يَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏يُقَالُ:‏‏‏‏ أَيْنَ الصَّائِمُونَ ؟ فَيَقُومُونَ، ‏‏‏‏‏‏لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا دَخَلُوا أُغْلِقَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ.
جنت کا ایک دروازہ ہے جسے ریان کہتے ہیں قیامت کے دن اس دروازہ سے صرف روزہ دار ہی جنت میں داخل ہوں گے، ان کے سوا اور کوئی اس میں سے نہیں داخل ہوگا، پکارا جائے گا کہ روزہ دار کہاں ہے؟ وہ کھڑے ہوجائیں گے ان کے سوا اس سے اور کوئی نہیں اندر جانے پائے گا اور جب یہ لوگ اندر چلے جائیں گے تو یہ دروازہ بند کردیا جائے گا پھر اس سے کوئی اندر نہ جاسکے گا۔

سنن نسائی، حدیث نمبر: 2225
حضرت ابوامامہ باہلی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:
يَا رَسُولَ اللَّهِ ! مُرْنِي بِعَمَلٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ عَلَيْكَ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَا عَدْلَ لَهُ،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! مُرْنِي بِعَمَلٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ عَلَيْكَ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَا عِدْلَ لَهُ.
اللہ کے رسول! مجھے کسی کام کا حکم فرمایئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: روزے کو لازم پکڑو کیونکہ اس جیسا کوئی (عمل) نہیں ہے ۔ میں نے (پھر) عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے کسی کام کا حکم دیجئیے! آپ ﷺ نے فرمایا: روزے کو لازم پکڑو کیونکہ اس کے برابر کوئی عمل نہیں ہے ۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1745
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لِكُلِّ شَيْءٍ زَكَاةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَزَكَاةُ الْجَسَدِ الصَّوْمُ ، ‏‏‏‏‏‏زَادَ مُحْرِزٌ فِي حَدِيثِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ الصِّيَامُ نِصْفُ الصَّبْرِ .
ہر چیز کی زکاۃ ہے، اور بدن کی زکاۃ روزہ ہے، محرز کی روایت میں اتنا اضافہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: روزہ آدھا صبر ہے ۔

رمضان المبارک میں قیام (نماز تراویح) کی فضیلت:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 37
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
جس نے رمضان میں بحالت ایمان ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیئے گئے۔

سنن نسائی، حدیث نمبر: 2210
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أَنَّهُ ذَكَرَ شَهْرَ رَمَضَانَ فَفَضَّلَهُ عَلَى الشُّهُورِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، ‏‏‏‏‏‏خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ،‏‏‏‏
آپ نے ماہ رمضان کا ذکر کیا تو اسے تمام مہینوں میں افضل قرار دیا اور فرمایا: جس نے رمضان میں ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے قیام اللیل کیا (یعنی نماز تراویح پڑھی) تو وہ اپنے گناہوں سے ایسے ہی نکل جائے گا جیسے اس کی ماں نے اسے آج ہی جنا ہو ۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1783
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّی فِي الْمَسْجِدِ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَصَلَّی بِصَلَاتِهِ نَاسٌ ثُمَّ صَلَّی مِنْ الْقَابِلَةِ فَکَثُرَ النَّاسُ ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنْ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ أَوْ الرَّابِعَةِ فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ قَدْ رَأَيْتُ الَّذِي صَنَعْتُمْ فَلَمْ يَمْنَعْنِي مِنْ الْخُرُوجِ إِلَيْکُمْ إِلَّا أَنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْکُمْ قَالَ وَذَلِکَ فِي رَمَضَانَ۔
رسول اللہ ﷺ نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی، آپ ﷺ کے ساتھ کچھ لوگوں نے بھی نماز پڑھی پھر آپ ﷺ نے اگلی رات نماز پڑھی تو لوگ زیادہ ہوگئے پھر لوگ تیسری یا چوتھی رات بھی مسجد میں جمع ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ باہر تشریف نہ لائے پھر جب صبح ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا میں نے تمہیں دیکھا تھا تو مجھے تمہاری طرف نکلنے کے لئے کسی نے نہیں روکا سوائے اس کے کہ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کردی جائے۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ واقعہ رمضان المبارک ہی کے بارے میں تھا۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 1377
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا أُنَاسٌ فِي رَمَضَانَ يُصَلُّونَ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا هَؤُلَاءِ ؟فَقِيلَ:‏‏‏‏ هَؤُلَاءِ نَاسٌ لَيْسَ مَعَهُمْ قُرْآنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ يُصَلِّي وَهُمْ يُصَلُّونَ بِصَلَاتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَصَابُوا، ‏‏‏‏‏‏وَنِعْمَ مَا صَنَعُوا. قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ لَيْسَ هَذَا الْحَدِيثُ بِالْقَوِيِّ، ‏‏‏‏‏‏مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ ضَعِيفٌ.
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ (ایک بار) رسول اللہ ﷺ نکلے تو دیکھا کہ کچھ لوگ رمضان میں مسجد کے ایک گوشے میں نماز پڑھ رہے ہیں، آپ نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ ، لوگوں نے عرض کیا: یہ وہ لوگ ہیں جن کو قرآن یاد نہیں ہے، لہٰذا ابی بن کعب ؓ کے پیچھے یہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں، نبی اکرم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا: انہوں نے ٹھیک کیا اور ایک بہتر کام کیا ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث قوی نہیں ہے اس لیے کہ مسلم بن خالد ضعیف ہیں۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2010
حضرت عبدالرحمٰن بن عبدالقاری ؓ روایت کرتے ہیں کہ:
خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَيْلَةً فِي رَمَضَانَ إِلَى الْمَسْجِدِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ، ‏‏‏‏‏‏يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ إِنِّي أَرَى لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ عَزَمَ فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَى وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ قَارِئِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَالَّتِي يَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنَ الَّتِي يَقُومُونَ يُرِيدُ آخِرَ اللَّيْلِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ أَوَّلَهُ.
میں عمر بن خطاب ؓ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس پر عمر ؓ نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہوگا، چناچہ آپ نے یہی ٹھان کر ابی بن کعب ؓ کو ان کا امام بنادیا۔ پھر ایک رات جو میں ان کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز (تراویح) پڑھ رہے ہیں۔ عمر ؓ نے فرمایا، یہ نیا طریقہ بہتر اور مناسب ہے اور (رات کا) وہ حصہ جس میں یہ لوگ سو جاتے ہیں اس حصہ سے بہتر اور افضل ہے جس میں یہ نماز پڑھتے ہیں۔ آپ کی مراد رات کے آخری حصہ (کی فضیلت) سے تھی کیونکہ لوگ یہ نماز رات کے شروع ہی میں پڑھ لیتے تھے۔

موطا امام مالک، حدیث نمبر: 231
عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ أَنَّهُ قَالَ کَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَکْعَةً۔
یزید بن رومان سے روایت ہے کہ حضرت عمر کے زمانے میں لوگ (بشمول وتر) تیئس رکعتیں پڑھتے تھے۔

ابن ابی شیبہ، حدیث نمبر: 7770
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَیْرٍ، عَنْ عَبْدِالْمَلِکِ، عَنْ عَطَائٍ، قَالَ: أَدْرَکْت النَّاسَ وَہُمْ یُصَلُّونَ ثَلاَثًا وَعِشْرِینَ رَکْعَۃً بِالْوِتْرِ۔
حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ میں نے ایسے لوگوں کو دیکھا جو رمضان میں وتر کے ساتھ تیئس رکعات پڑھا کرتے تھے۔

موطا امام مالک، حدیث نمبر: 232
عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ أَنَّهُ سَمِعَ الْأَعْرَجَ يَقُولُ مَا أَدْرَکْتُ النَّاسَ إِلَّا وَهُمْ يَلْعَنُونَ الْکَفَرَةَ فِي رَمَضَانَ قَالَ وَکَانَ الْقَارِئُ يَقْرَأُ سُورَةَ الْبَقَرَةِ فِي ثَمَانِ رَکَعَاتٍ فَإِذَا قَامَ بِهَا فِي اثْنَتَيْ عَشْرَةَ رَکْعَةً رَأَی النَّاسُ أَنَّهُ قَدْ خَفَّفَ۔
داؤد بن حصین سے روایت ہے، انہوں نے حضرت اعرج کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے لوگوں کو اس حال میں پایا کہ وہ رمضان میں کافروں پر لعنت کیا کرتے تھے انہوں نے فرمایا (نمازِ تراویح میں) قاری سورۃ البقرہ کو آٹھ رکعتوں میں پڑھتا اور جب باقی بارہ رکعتیں پڑھی جاتیں تو لوگ دیکھتے کہ امام انہیں ہلکی (مختصر) کر دیتا۔

سنن کبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر: 4605
ہشام بن عروہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ:
أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ جَمَعَ النَّاسَ عَلَی قِیَامِ شَہْرِ رَمَضَانَ ، الرِّجَالَ عَلَی أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ، وَالنِّسَائَ عَلَی سُلَیْمَانَ بْنِ أَبِی حَثْمَۃَ۔
حضرت عمر ؓ نے لوگوں کو قیامِ رمضان کے لیے ابی بن کعب پر جمع کردیا اور عورتوں کو سلیمان بن ابی حثمہ پر جمع کردیا۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 806
قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَأَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلِيٍّ وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِشْرِينَ رَكْعَةً، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ الشَّافِعِيُّ:‏‏‏‏ وَهَكَذَا أَدْرَكْتُ بِبَلَدِنَا بِمَكَّةَ يُصَلُّونَ عِشْرِينَ رَكْعَةً۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اور اکثر اہل علم ان احادیث کی بنا پر جو عمر، علی اور دوسرے صحابہ کرام ؓ سے مروی ہے بیس رکعت تراویح کے قائل ہیں۔ اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے۔ اور شافعی کہتے ہیں: اسی طرح سے میں نے اپنے شہر مکہ میں بیس رکعت تراویح پڑھتے پایا،

نوٹ: نماز تراویح کا پڑھنا مرد و عورت سب کے لیے سنتِ مؤکدہ ہے اور اس کا چھوڑنا جائز نہیں۔ (روزہ اور اعتکاف از افادات شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری)

رمضان المبارک میں سخاوت:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 663
انس ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا: کون سا صدقہ افضل ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا:
صَدَقَةٌ فِي رَمَضَانَ۔
رمضان میں صدقہ کرنا ۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1902
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ:
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام يَلْقَاهُ كُلَّ لَيْلَةٍ فِي رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى يَنْسَلِخَ يَعْرِضُ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام، ‏‏‏‏‏‏كَانَ أَجْوَدَ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ.
نبی کریم ﷺ سخاوت اور خیر کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ ﷺ کی سخاوت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی تھی جب جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ سے رمضان میں ملتے، جبرائیل (علیہ السلام) نبی کریم ﷺ سے رمضان شریف کی ہر رات میں ملتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔ نبی کریم ﷺ جبرائیل (علیہ السلام) سے قرآن کا دور کرتے تھے، جب جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ سے ملنے لگتے تو آپ ﷺ چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہوجایا کرتے تھے۔

روزے میں بھول کر کھاپی لینا:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1933
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِذَا نَسِيَ فَأَكَلَ وَشَرِبَ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّمَا أَطْعَمَهُ اللَّهُ وَسَقَاهُ.
جب کوئی بھول گیا اور کچھ کھا پی لیا تو اسے چاہیے کہ اپنا روزہ پورا کرے۔ کیونکہ اس کو اللہ نے کھلایا اور پلایا۔

سفر میں روزے کا حکم:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1943
حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ:
أَنَّ حَمْزَةَ بْنَ عَمْرٍو الْأَسْلَمِيَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَأَصُومُ فِي السَّفَرِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ كَثِيرَ الصِّيَامِ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنْ شِئْتَ فَصُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ شِئْتَ فَأَفْطِرْ.
حمزہ بن عمرو اسلمی ؓ نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی میں سفر میں روزہ رکھوں؟ وہ روزے بکثرت رکھا کرتے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر جی چاہے تو روزہ رکھ اور جی چاہے افطار کر۔

رمضان المبارک کی ابتدا اور انتہا چاند کی روویت سے مشروط ہے:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1906
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ:
أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْا الْهِلَالَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ.
رسول اللہ ﷺ نے رمضان کا ذکر کیا تو فرمایا کہ جب تک چاند نہ دیکھو روزہ شروع نہ کرو، اسی طرح جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ موقوف نہ کرو اور اگر بادل چھا جائے تو تیس دن پورے کرلو۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1907
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَيْلَةً، ‏‏‏‏‏‏فَلَا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا الْعِدَّةَ ثَلَاثِينَ.
مہینہ کبھی انتیس راتوں کا بھی ہوتا ہے اس لیے (انتیس پورے ہوجانے پر) جب تک چاند نہ دیکھ لو روزہ نہ شروع کرو اور اگر بادل ہوجائے تو تیس دن کا شمار پورا کرلو۔

روزے کا کفارہ:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1936
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ:
بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏هَلَكْتُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا لَكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ وَقَعْتُ عَلَى امْرَأَتِي وَأَنَا صَائِمٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ هَلْ تَجِدُ رَقَبَةً تُعْتِقُهَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَصُومَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ فَهَلْ تَجِدُ إِطْعَامَ سِتِّينَ مِسْكِينًا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَمَكَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَيْنَا نَحْنُ عَلَى ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِيهَا تَمْرٌ وَالْعَرَقُ الْمِكْتَلُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَيْنَ السَّائِلُ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ أَنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خُذْهَا فَتَصَدَّقْ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الرَّجُلُ:‏‏‏‏ أَعَلَى أَفْقَرَ مِنِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَوَاللَّهِ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا يُرِيدُ الْحَرَّتَيْنِ أَهْلُ بَيْتٍ أَفْقَرُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي، ‏‏‏‏‏‏فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ أَنْيَابُهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أَطْعِمْهُ أَهْلَكَ.
ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں تھے کہ ایک شخص نے حاضر ہو کر کہا کہ یا رسول اللہ! میں تو تباہ ہوگیا، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کیا بات ہوئی؟ اس نے کہا کہ میں نے روزہ کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کرلیا ہے، اس پر رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا کیا تمہارے پاس کوئی غلام ہے جسے تم آزاد کرسکو؟ اس نے کہا نہیں، پھر آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کیا پے در پے دو مہینے کے روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے عرض کی نہیں، پھر آپ ﷺ نے پوچھا کیا تم کو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی طاقت ہے؟ اس نے اس کا جواب بھی انکار میں دیا، راوی نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم ﷺ تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر گئے، ہم بھی اپنی اسی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ﷺ کی خدمت میں ایک بڑا تھیلا (عرق نامی) پیش کیا گیا جس میں کھجوریں تھیں۔ عرق تھیلے کو کہتے ہیں (جسے کھجور کی چھال سے بناتے ہیں) نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ سائل کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ میں حاضر ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا کے اسے لے لو اور صدقہ کر دو، اس شخص نے کہا یا رسول اللہ! کیا میں اپنے سے زیادہ محتاج پر صدقہ کر دوں، بخدا ان دونوں پتھریلے میدانوں کے درمیان کوئی بھی گھرانہ میرے گھر سے زیادہ محتاج نہیں ہے، اس پر نبی کریم ﷺ اس طرح ہنس پڑے کہ آپ کے آگے کے دانت دیکھے جاسکے۔ پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اچھا جا اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دے۔

روزہ غلطیوں اور گناہوں کا کفارہ ہے:
البقرہ 2، 196
سورۃ النساء 4، 92
سورۃ المائدہ 5، 89
سورۃ نمبر 58, 4

اعتکاف:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 125
وَاِذۡ جَعَلۡنَا الۡبَيۡتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَاَمۡنًا ؕ وَاتَّخِذُوۡا مِنۡ مَّقَامِ اِبۡرٰهٖمَ مُصَلًّى‌ ؕ وَعَهِدۡنَآ اِلٰٓى اِبۡرٰهٖمَ وَاِسۡمٰعِيۡلَ اَنۡ طَهِّرَا بَيۡتِىَ لِلطَّآئِفِيۡنَ وَالۡعٰكِفِيۡنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوۡدِ ۞
اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کے لئے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم ؑ کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو، اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیھما السلام) کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک (صاف) کر دو،

لیلۃ القدر:

القرآن – سورۃ نمبر 44 الدخان، آیت نمبر 3، 4
اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰهُ فِىۡ لَيۡلَةٍ مُّبٰـرَكَةٍ‌ اِنَّا كُنَّا مُنۡذِرِيۡنَ ۞ فِيۡهَا يُفۡرَقُ كُلُّ اَمۡرٍ حَكِيۡمٍۙ‏ ۞
بیشک ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں اتارا ہے بیشک ہم ڈر سنانے والے ہیں،اس (رات) میں ہر حکمت والے کام کا (جدا جدا) فیصلہ کر دیا جاتا ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 97 القدر، آیت نمبر 1
اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰهُ فِىۡ لَيۡلَةِ الۡقَدۡرِ ۞ وَمَاۤ اَدۡرٰٮكَ مَا لَيۡلَةُ الۡقَدۡرِؕ ۞ لَيۡلَةُ الۡقَدۡرِ ۙ خَيۡرٌ مِّنۡ اَلۡفِ شَهۡرٍؕ ۞ تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِكَةُ وَالرُّوۡحُ فِيۡهَا بِاِذۡنِ رَبِّهِمۡ‌ۚ مِّنۡ كُلِّ اَمۡرٍ ۞ سَلٰمٌ هِىَ حَتّٰى مَطۡلَعِ الۡفَجۡرِ  ۞
بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے،اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ) شبِ قدر کیا ہے،شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے،اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں،یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے،

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1901
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، ‏‏‏‏‏‏غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، ‏‏‏‏‏‏غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
جو کوئی شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے عبادت میں کھڑا ہو اس کے تمام اگلے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے اگلے تمام گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔

سنن نسائی، حدیث نمبر: 2108
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، ‏‏‏‏‏‏مَنْ حُرِمَ خَيْرَهَا فَقَدْ حُرِمَ.
اس ( رمضان المبارک کے مہینے) میں اللہ تعالیٰ کی ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس کے خیر سے محروم رہا تو وہ بس محروم ہی رہا ۔

وفات کے بعد روزوں کی قضا:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1952
حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ، ‏‏‏‏‏‏صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ۔
اگر کوئی شخص مرجائے اور اس کے ذمہ روزے واجب ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھ دے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1953
حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ:
جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَفَأَقْضِيهِ عَنْهَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَدَيْنُ اللَّهِ أَحَقُّ أَنْ يُقْضَى۔
ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ! میری ماں کا انتقال ہوگیا اور ان کے ذمے ایک مہینے کے روزے باقی رہ گئے ہیں۔ کیا میں ان کی طرف سے قضاء رکھ سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ضرور، اللہ تعالیٰ کا قرض اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اسے ادا کردیا جائے۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1757
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامُ شَهْرٍ فَلْيُطْعَمْ عَنْهُ مَكَانَ كُلِّ يَوْمٍ مِسْكِينٌ .
جو شخص مرجائے، اور اس پہ رمضان کے روزے ہوں تو اس کی جانب سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3545
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ دَخَلَ عَلَيْهِ رَمَضَانُ ثُمَّ انْسَلَخَ قَبْلَ أَنْ يُغْفَرَ لَهُ۔
اس شخص کی بھی ناک خاک آلود ہو جس کی زندگی میں رمضان کا مہینہ آیا اور اس کی مغفرت ہوئے بغیر وہ مہینہ گزر گیا۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 1968
ابوہریرہ ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
يُغْفَرُ لِأُمَّتِهِ فِي آخِرِ لَيْلَةٍ فِي رَمَضَانَ۔ قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَهِيَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ؟ قَالَ: «لَا وَلَكِنَّ الْعَامِلَ إِنَّمَا يُوَفَّى أجره إِذا قضى عمله» . رَوَاهُ أَحْمد
رمضان کی آخری رات ان کو (یعنی میری) امت کو بخش دیا جاتا ہے۔ عرض کیا گیا، اللہ کے رسول! کیا وہ شب قدر ہے؟ فرمایا:’’ نہیں، لیکن جب کام کرنے والا اپنا کام مکمل کر لیتا ہے تو اسے پورا پورا اجر دیا جاتا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقی معنوں میں رمضان المبارک کی برکتیں اور رحمتیں سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

تزکیۂِ نفس کی کیا اہمیت ہے؟ جمعۃ المبارک 25 شعبان المعظم، 1444ھ بمطابق 17 مارچ، 2023ء

تزکیہ ‘پاک صاف کرنے’ اور ‘نشوونما دینے’ کو کہتے ہیں۔

امام راغب اصفہانی نے تزکیہ نفس کی تعریف یوں کی ہے:
خیرات و برکات کا نفسِ انسانی میں نشوونما پانا تزکیۂِ نفس کہلاتا ہے۔
(راغب اصفہانی، المفردات: 214)

القرآن – سورۃ نمبر 35 فاطر، آیت نمبر 18
اِنَّمَا تُنۡذِرُ الَّذِيۡنَ يَخۡشَوۡنَ رَبَّهُمۡ بِالۡغَيۡبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ ؕ وَمَنۡ تَزَكّٰى فَاِنَّمَا يَتَزَكّٰى لِنَفۡسِهٖ ؕ وَاِلَى اللّٰهِ الۡمَصِيۡرُ ۞
(اے حبیب!) آپ ان ہی لوگوں کو ڈر سناتے ہیں جو اپنے رب سے بن دیکھے ڈرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کوئی پاکیزگی حاصل کرتا ہے وہ اپنے ہی فائدہ کے لئے پاک ہوتا ہے، اور اﷲ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

انسانی نفس کو ہر طرح کی برائیوں اور آلائشوں سے پاک کرنے کو تزکیۂِ نفس کہتے ہیں۔

قرآنِ مجید میں تزکیۂِ نفس کی اہمیت و فضیلت کے بارے میں اللہ رب العزت نے مختلف مقامات پر بیان کیا ہے۔

تزکیۂِ نفس کی اہمیت و فضیلت بیان کرنے سے پہلے اللہ رب العزت نے گیارہ قسمیں اٹھائی ہیں:

القرآن – سورۃ نمبر 91 الشمس، آیت نمبر 1-8
وَالشَّمۡسِ وَضُحٰٮهَا ۞ وَالۡقَمَرِ اِذَا تَلٰٮهَا ۞ وَالنَّهَارِ اِذَا جَلّٰٮهَا ۞ وَالَّيۡلِ اِذَا يَغۡشٰٮهَا ۞ وَالسَّمَآءِ وَمَا بَنٰٮهَا ۞ وَالۡاَرۡضِ وَمَا طَحٰٮهَا ۞ وَنَفۡسٍ وَّمَا سَوّٰٮهَا ۞ فَاَلۡهَمَهَا فُجُوۡرَهَا وَتَقۡوٰٮهَا ۞
1) سورج کی قَسم اور 2) اس کی روشنی کی قَسم، اور 3) چاند کی قَسم جب وہ سورج کی پیروی کرے (یعنی اس کی روشنی سے چمکے)، اور 4) دن کی قَسم جب وہ سورج کو ظاہر کرے (یعنی اسے روشن دکھائے)، اور 5) رات کی قَسم جب وہ سورج کو (زمین کی ایک سمت سے) ڈھانپ لے، اور 6) آسمان کی قَسم اور 7) اس (قوت) کی قَسم جس نے اسے (اذنِ الٰہی سے ایک وسیع کائنات کی شکل میں) تعمیر کیا، اور 8) زمین کی قَسم اور 9) اس (قوت) کی قَسم جو اسے (امرِ الٰہی سے سورج سے کھینچ دور) لے گئی، اور 10) نفس (یعنی انسانی جان) کی قَسم اور 11) اس کی قسم جس نے اس کو ( یعنی نفس کو) درست بنایا۔ پھر اس نے اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری (کی تمیز) سمجھا دی،

یہ گیارہ قسمیں کھانے کے بعد اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

القرآن – سورۃ نمبر 91 الشمس، آیت نمبر 9, 10
قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَكّٰٮهَا ۞ وَقَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰٮهَا ۞
بیشک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کا تزکیہ کر لیا اور بیشک وہ شخص نامراد ہوگیا جس نے اسے (گناہوں میں) ملوث کر لیا۔

جس شخص نے اپنے نفس کا تزکیہ کر لیا یعنی اسے پاک و صاف کر لیا، اسے ہر طرح کی برائیوں، آلائشوں اور گناہوں سے بچا لیا وہ فلاح پاگیا یعنی وہ کامیاب و کامران ہو گیا۔ اور جس نے اپنے نفس کا تزکیہ نہ کیا، اسے برائیوں اور گناہوں سے نہ پچایا بلکہ اسے گناہوں اور نا فرمانیوں میں مبتلا کر لیا، وہ ناکام و نامراد ہوگیا۔

تزکیۂِ نفس ہی سے انسان کو حقیقی کامیابی حاصل ہوتی ہے:

القرآن – سورۃ نمبر 87 الأعلى، آیت نمبر 14، 15
قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ تَزَكّٰىۙ ۞ وَذَكَرَ اسۡمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰى‌ ۞
بیشک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیا، اور وہ اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہا اور (کثرت و پابندی سے) نماز پڑھتا رہا،

تزکیۂِ نفس، جنت کی ضمانت ہے:

القرآن – سورۃ نمبر 79 النازعات، آیت نمبر 40، 41
وَاَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفۡسَ عَنِ الۡهَوٰىۙ ۞ فَاِنَّ الۡجَـنَّةَ هِىَ الۡمَاۡوٰىؕ ۞
اور جو شخص اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا اور اُس نے (اپنے) نفس کو (بری) خواہشات و شہوات سے باز رکھا، تو بیشک جنت ہی (اُس کا) ٹھکانا ہوگا،

تزکیۂِ نفس، چار عظیم مقاصدِ نبوتِ محمدی ﷺ میں سے ہے:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 151
كَمَآ اَرۡسَلۡنَا فِيۡکُمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡکُمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡكُمۡ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيۡکُمۡ وَيُعَلِّمُکُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِکۡمَةَ وَيُعَلِّمُكُمۡ مَّا لَمۡ تَكُوۡنُوۡا تَعۡلَمُوۡنَ ۞
اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اَسرارِ معرفت و حقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔

یہی مضمون مندرجہ ذیل آیاتِ مبارکہ میں بھی بیان ہوا ہے:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 129
رَبَّنَا وَابۡعَثۡ فِيۡهِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡهُمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَ يُزَكِّيۡهِمۡ‌ؕ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ۞
اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول ﷺ مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے، بیشک تو ہی غالب حکمت والا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 164
لَقَدۡ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِيۡهِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِهِمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيۡهِمۡ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ ۚ وَاِنۡ كَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ ۞
بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول ﷺ بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔

القرآن – سورۃ نمبر 62 الجمعة، آیت نمبر 2
هُوَ الَّذِىۡ بَعَثَ فِى الۡاُمِّيّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡهُمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِهٖ وَيُزَكِّيۡهِمۡ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَاِنۡ كَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍۙ ۞
وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول ﷺ کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، بیشک وہ لوگ اِن (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے،

مندرجہ بالا آیاتِ مبارکہ کی روشنی میں چار عظیم مقاصدِ نبوتِ محمدی ﷺ مندرجہ ذیل ہیں:

1) تلاوتِ قرآنِ مجید
2) تزکیۂِ نفس یعنی انسانی نفوس و قلوب کو پاک و صاف کرنا
3) کتاب کی تعلیم دینا
4) حکمت و دانائی کی تعلیم دینا

تزکیۂِ نفس کو حضور نبی مکرم ﷺ نے جہادِ اکبر کہا ہے:

ایک غزوے سے واپسی پر حضور نبی مکرم ﷺ نے صحابہ کرام سے مخاطب ہو کر فرمایا:

مرحبا بکم قدمتم من الجہاد الاصغر الی الجہاد الاکبر۔ قیل و ما الجہاد الاکبر قال جہاد النفس۔
تمہیں مرحبا ہو کہ تم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف لوٹ رہے ہو۔ پوچھا گیا وہ بڑا جہاد کون سا ہے؟ فرمایا وہ نفس سے جہاد ہے۔
(احیاء علوم الدین، 3، 57)

المجاھد من جاھد نفسہ فی طاعۃ اللہ
مجاہد وہ ہے جس نے اللہ کی اطاعت کے بارے میں اپنے نفس سے جہاد کیا۔
(احیاء علوم الدین، 3، 57)

تزکیۂِ نفس، ذکرِ الٰہی اور نماز سے بھی مقدم ہے:

القرآن – سورۃ نمبر 87 الأعلى، آیت نمبر 14، 15
قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ تَزَكّٰىۙ ۞ وَذَكَرَ اسۡمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰى‌ ۞
بیشک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیا، اور وہ اپنے رب کے نام کا ذکر کرتا رہا اور (کثرت و پابندی سے) نماز پڑھتا رہا،

یعنی ذکرِ الٰہی اور نماز سے حقیقی لطف و سرور تبھی حاصل ہوتا ہے جب انسان اپنے نفس کو ہر طرح کی برائیوں سے پاک و صاف کر لیتا ہے۔

نفس، انسان کے تین دشمنوں میں سے ایک ہے:

انسان کے تین بنیادی دشمن ہیں 1) شیطان 2) دنیا 3) نفس

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 53
اِنَّ الشَّيۡطٰنَ يَنۡزَغُ بَيۡنَهُمۡ‌ؕ اِنَّ الشَّيۡطٰنَ كَانَ لِلۡاِنۡسَانِ عَدُوًّا مُّبِيۡنًا ۞
بیشک شیطان لوگوں کے درمیان فساد بپا کرتا ہے، یقینا شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 18 الكهف، آیت نمبر 103
قُلۡ هَلۡ نُـنَبِّئُكُمۡ بِالۡاَخۡسَرِيۡنَ اَعۡمَالًا ۞ اَ لَّذِيۡنَ ضَلَّ سَعۡيُهُمۡ فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَهُمۡ يَحۡسَبُوۡنَ اَنَّهُمۡ يُحۡسِنُوۡنَ صُنۡعًا‏ ۞
فرما دیجئے: کیا ہم تمہیں ایسے لوگوں سے خبردار کر دیں جو اعمال کے حساب سے سخت خسارہ پانے والے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کی ساری جد و جہد دنیا کی زندگی میں ہی برباد ہوگئی اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم بڑے اچھے کام انجام دے رہے ہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 12 يوسف، آیت نمبر 53
وَمَاۤ اُبَرِّئُ نَفۡسِىۡ‌ۚ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوۡٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّىۡ ؕ
اور میں اپنے نفس کی برات (کا دعوٰی) نہیں کرتا، بیشک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے سوائے اس کے جس پر میرا رب رحم فرما دے۔

حضور نبی مکرم ﷺ نے تزکیۂِ نفس کی دعا ان الفاظ سے مانگی:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6906

حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے حضور نبی مکرم ﷺ اس طرح دعا مانگا کرتے تھے:

اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنْ الْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَالْهَرَمِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ اللَّهُمَّ آتِ نَفْسِي تَقْوَاهَا وَزَکِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَکَّاهَا أَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلَاهَا اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ وَمِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ وَمِنْ دَعْوَةٍ لَا يُسْتَجَابُ لَهَا۔
اے اللہ میں تجھ سے عاجز ہونے اور سستی اور بزدلی اور بخل اور بڑھاپے اور عذاب قبر سے پناہ مانگتا ہوں اے اللہ میرے نفس کو تقوی عطا کر اور اسے پاکیزہ بنا آپ ہی پاکیزہ بنانے والوں میں سے بہتر ہیں اور تو ہی کار ساز اور مولیٰ ہے اے اللہ میں تجھ سے ایسے علم سے پناہ مانگتا ہوں جو نفع دینے والا نہ ہو اور ایسے دل سے جو ڈرنے والا نہ ہو اور ایسے نفس سے جو سیر ہونے والا نہ ہو اور ایسی دعا سے جو قبول ہونے والی نہ ہو۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3837
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْأَرْبَعِ:‏‏‏‏ مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ،‏‏‏‏ وَمِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ،‏‏‏‏ وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ،‏‏‏‏ وَمِنْ دُعَاءٍ لَا يُسْمَعُ.
اے اللہ! میں چار باتوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں: اس علم سے جو فائدہ نہ دے، اس دل سے جو اللہ کے سامنے نرم نہ ہو، اس نفس سے جو آسودہ نہ ہو اور اس دعا سے جو قبول نہ ہو ۔

تزکیۂِ نفس یعنی انسانی نفوس و قلوب کو باطنی بیماریوں اور برائیوں سے پاک و صاف کرنا چار عظیم مقاصدِ نبوتِ محمدی ﷺ میں سے ہے۔ اسی تزکیۂِ نفس کو اللہ رب العزت نے حقیقی کامیابی سے تعبیر کیا ہے اور اسی کو جنت کی ضمانت قرار دیا ہے۔ بقول بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ:

مَن عَرَفَ نَفْسَهٗ فَقَد عَرَفَ رَبَّهٗ
جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے نفس کو پہچاننے اور اس کا تزکیہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اصلاحِ احوال کے چار بنیادی درجات – جمعۃ المبارک، 17 شعبان 1444ھ، بمطابق 10 مارچ 2023ء

1) ایمان – سب سے بڑی دولت ہے
2) اطاعت – سب سے حسین قید ہے
3) رضا – سب بڑی کامیابی ہے
4) محبت – سب سے بڑی خوش نصیبی ہے

1) ایمان: اس شخص سے بڑھ کر امیر کوئی نہیں، جسے ایمان کی دولت مل جائے۔ بھلے اس کے شب و روز فاقوں میں ہی کیوں نہ گزرتے ہوں۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 65
حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الْإِيمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَوْلٌ بِاللِّسَانِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَمَلٌ بِالْأَرْكَانِ.
ایمان دل کی معرفت، زبان سے اقرار اور اعضائے بدن سے عمل کا نام ہے۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 153
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ أَوْ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْأَذَی عَنْ الطَّرِيقِ وَالْحَيَائُ شُعْبَةٌ مِنْ الْإِيمَانِ۔
ایمان کی ستر سے کچھ اوپر یا ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں جن میں سب سے بڑھ کر لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کا قول ہے اور سب سے ادنیٰ تکلیف دہ چیز کو راستہ سے دور کردینا ہے اور حیاء بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 128 (متفق علیہ)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک موقعہ پر جبکہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور نبی مکرم ﷺ کی سواری پر آپ کے پیچھے سوار تھے تو حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا مُعَاذُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا مِنْ أَحَدٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ صِدْقًا مِنْ قَلْبِهِ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا أُخْبِرُ بِهِ النَّاسَ فَيَسْتَبْشِرُوا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ إِذًا يَتَّكِلُوا، ‏‏‏‏‏‏وَأَخْبَرَ بِهَا مُعَاذٌ عِنْدَ مَوْتِهِ تَأَثُّمًا.
اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں یا رسول اللہ! آپ ﷺ نے (دوبارہ) فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں اے اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے (سہ بارہ) فرمایا، اے معاذ! میں نے عرض کیا، حاضر ہوں، اے اللہ کے رسول، تین بار ایسا ہوا۔ (اس کے بعد) آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ اس پر (دوزخ کی) آگ حرام کردیتا ہے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ! کیا اس بات سے لوگوں کو باخبر نہ کر دوں تاکہ وہ خوش ہوجائیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا (اگر تم یہ خبر سناؤ گے) تو لوگ اس پر بھروسہ کر بیٹھیں گے (اور عمل چھوڑ دیں گے) معاذ ؓ نے انتقال کے وقت یہ حدیث اس خیال سے بیان فرما دی کہ کہیں حدیث رسول چھپانے کے گناہ پر ان سے آخرت میں مواخذہ نہ ہو۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 257
اَللّٰهُ وَلِىُّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا يُخۡرِجُهُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوۡرِ‌ؕ
اﷲ ایمان والوں کا دوست ہے وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے۔

گویا جو بندۂِ مومن حقیقتِ ایمان کو پا لیتا ہے اسے اللہ اپنا دوست بنا لیتا ہے۔ اور اسے بدی کے اندھیروں سے نکال کر نیکی اور ہدایت کے راستے دکھا دیتا ہے۔

2) اطاعت (عمل/اسلام): اس شخص سے بڑھ کر آزاد اور پر سکون کوئی نہیں، جو اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کی قید میں ڈال دے۔ اس قیدی سے بڑھ کر آزاد کوئی نہیں ہے جس نے اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کی قید میں ڈال دیا ہے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2324
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ۔
دنیا مومن کے لیے قید خانہ (جیل) ہے اور کافر کے لیے جنت (باغ و بہار) ہے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 8
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ، ‏‏‏‏‏‏شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحَجِّ، ‏‏‏‏‏‏وَصَوْمِ رَمَضَانَ.
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ اول گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔

3) رضائے الٰہی: اس شخص سے بڑھ کر کامیاب کوئی نہیں، جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا و خوشنودی مل جائے۔

القرآن – سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 119
رَضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ‌ ؕ ذٰ لِكَ الۡـفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ ۞
ﷲ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے، یہی (رضائے الٰہی) سب سے بڑی کامیابی ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 72
وَعَدَ اللّٰهُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا وَمَسٰكِنَ طَيِّبَةً فِىۡ جَنّٰتِ عَدۡنٍ‌ ؕ وَرِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكۡبَرُ‌ ؕ ذٰ لِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ ۞
اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے جنتوں کا وعدہ فرما لیا ہے جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور ایسے پاکیزہ مکانات کا بھی (وعدہ فرمایا ہے) جوجنت کے خاص مقام پر سدا بہار باغات میں ہیں، اور (پھر) اللہ کی رضا اور خوشنودی (ان سب نعمتوں سے) بڑھ کر ہے (جو بڑے اجر کے طور پر نصیب ہوگی)، یہی زبردست کامیابی ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 45 الجاثية، آیت نمبر 30
فَاَمَّا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَيُدۡخِلُهُمۡ رَبُّهُمۡ فِىۡ رَحۡمَتِهٖ‌ ؕ ذٰلِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡمُبِيۡنُ ۞
پس جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے تو اُن کا رب انہیں اپنی رحمت میں داخل فرما لے گا، یہی تو واضح کامیابی ہے،

4) محبت: اس شخص سے بڑھ کر خوش نصیب کوئی نہیں، جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت مل جائے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 6040
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِذَا أَحَبَّ اللَّهُ عَبْدًا نَادَى جِبْرِيلَ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبَّهُ، ‏‏‏‏‏‏فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ، ‏‏‏‏‏‏فَيُنَادِي جِبْرِيلُ فِي أَهْلِ السَّمَاءِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبُّوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي أَهْلِ الْأَرْضِ.
جب اللہ کسی بندہ سے محبت کرتا ہے تو جبرائیل (علیہ السلام) کو آواز دیتا ہے کہ اللہ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو۔ جبرائیل (علیہ السلام) بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر وہ تمام آسمان والوں میں آواز دیتے ہیں کہ اللہ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے۔ تم بھی اس سے محبت کرو۔ پھر تمام آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد وہ زمین میں بھی (اللہ کے بندوں کا) مقبول اور محبوب بن جاتا ہے۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 5011
حضرت معاذ بن جبل ؓ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَجَبَتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَحَابِّينَ فِيَّ وَالْمُتَجَالِسِينَ فِيَّ وَالْمُتَزَاوِرِينَ فِيَّ وَالْمُتَبَاذِلِينَ فِيَّ. رَوَاهُ مَالِكٌ. وَفِي رِوَايَةِ التِّرْمِذِيَّ قَالَ: يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: الْمُتَحَابُّونَ فِي جَلَالِي لَهُمْ مَنَابِرُ مِنْ نُورٍ يَغْبِطُهُمُ النَّبِيُّونَ وَالشُّهَدَاء
’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میری محبت واجب ہو گئی ہے ان لوگوں کے لیے 1) جو میری خاطر باہم محبت کرتے ہیں، 2) میری خاطر باہم ملاقاتیں کرتے ہیں، 3) اور میری خاطر ہی ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں، ‘‘ مالک۔ اور ترمذی کی روایت میں ہے، فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میری جلالت و عظمت کی خاطر باہم محبت کرنے والوں کے لیے نور کے منبر ہیں، ان پر انبیا ؑ اور شہداء بھی رشک کریں گے۔‘‘

المختصر، دولتِ ایمان سے بڑی کوئی دولت اس دنیا میں نہیں ہے لہٰذا اس کی حفاظت کی انسان کو ہر وقت فکر کرنی چاہیے۔ ایمان کی تکمیل دین کے احکامات کی اطاعت سے ہوتی ہے۔ جب انسان اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت میں قید کر لیتا ہے تو وہ حقیقی معنوں میں آزاد ہو جاتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کی قید سے بڑھ کر حسین اور کوئی قید نہیں ہے۔ پھر اس اطاعت کے نتیجے میں جس انسان کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا و خوشنودی حاصل ہو جائے، اس سے بڑی کامیابی اور کوئی نہیں ہے کیونکہ یہی انسان کا حقیقی مقصدِ حیات ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا و خوشنودی کے حصول سے ہی انسان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کا اہل بنتا ہے۔ اور جس انسان کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کی ایک چنگاری بھی نصیب ہو جائے اس سے بڑھ کر خوش نصیب اور خوش بخت انسان اور کوئی نہیں ہے۔