یہ مضمون مندرجہ ذیل نکات پر مشتمل ہے:
1) معجزہ کسے کہتے ہیں؟
2) قرآنِ مجید میں مذکور معجزات کا تذکرہ۔
3) مجزات کا باعثِ تعجب ہونا۔
4) معجزات دراصل طاقت و قدرتِ خداوندی کا اظہار ہوتے ہیں۔
5) ہر نبی یا رسول کو عطاء ہونے والا معجزہ اُس زمانے کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے۔
معجزہ اس عمل یا واقعہ کو کہتے ہیں جس میں تین خصوصیات پائی جاتی ہوں:
1) وہ واقعہ خارق العادت ہو یعنی خلافِ معمول ہو۔
2) اس کو سمجھنے سے عقلِ انسانی عاجز آجائے۔
3) اس کی نظیر یا مثل پیش کرنے سے انسان عاجز آجائے۔
معجزہ چونکہ خاص اللہ رب العزت کی طاقت اور قدرت کا اظہار ہوتا ہے لہذا اس کا انکار کرنا اللہ رب العزت کی طاقت اور قدرت کا انکار کرنے کے مترادف ہے۔ ذیل میں ہم قرآنِ مجید میں مذکور چند معجزات کا ذکر کرتے ہیں۔
قرآنِ مجید میں مختلف معجزات کا ذکر:
قرآنِ مجید میں معجزہ کے معنیٰ و مفہوم کو بیان کرنے کے لیے مختلف الفاظ استعمال ہوئے ہیں جیسے کہ “اٰیَۃٌ” (نشانی)، مُبْصِرَۃٌ (ایسی واضح نشانی کہ جس کو دیکھنے سے دیکھنے والے کی آنکھیں کھل جائیں اور اس پر حقیقت آشکار ہو جائے)، بَیِّنَۃٌ (ایسی کھلی دلیل جو فریقِ مخالف کو انکار کی صورت میں حجت و ثبوت کے طور پر پیش کی جائے)، بُرْھَانٌ (ایسی دلیل جو فریقِ مخالف کے تمام دلائل سے زیادہ وزنی اور ان پر حاوی ہو اور تنازعہ کا فیصلہ کر دینے والی ہو)۔
(فلسفۂِ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا چار پرندوں کو ذبح کر کے ان کا ایک ایک ٹکڑا الگ الگ پہاڑ پر رکھنا اور پھر انہیں اپنی طرف بلانے پر پرندوں کا زندہ ہو کر آپ کی طرف آجانا بھی ایک معجزہ تھا جس میں اللہ رب العزت نے زندگی اور موت پر اپنی طاقت اور قدرت کا نمونہ دکھایا جسے دیکھ کر عقلِ انسانی عاجز آجاتی ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 260
وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰهٖمُ رَبِّ اَرِنِىۡ كَيۡفَ تُحۡىِ الۡمَوۡتٰى ؕ قَالَ اَوَلَمۡ تُؤۡمِنۡؕ قَالَ بَلٰى وَلٰـكِنۡ لِّيَطۡمَئِنَّ قَلۡبِىۡؕ قَالَ فَخُذۡ اَرۡبَعَةً مِّنَ الطَّيۡرِ فَصُرۡهُنَّ اِلَيۡكَ ثُمَّ اجۡعَلۡ عَلٰى كُلِّ جَبَلٍ مِّنۡهُنَّ جُزۡءًا ثُمَّ ادۡعُهُنَّ يَاۡتِيۡنَكَ سَعۡيًا ؕ وَاعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰهَ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ ۞
اور (وہ واقعہ بھی یاد کریں) جب ابراہیم ؑ نے عرض کیا: میرے رب! مجھے دکھا دے کہ تُو مُردوں کو کس طرح زندہ فرماتا ہے؟ ارشاد ہوا: کیا تم یقین نہیں رکھتے؟ اس نے عرض کیا: کیوں نہیں (یقین رکھتا ہوں) لیکن (چاہتا ہوں کہ) میرے دل کو بھی خوب سکون نصیب ہو جائے، ارشاد فرمایا: سو تم چار پرندے پکڑ لو پھر انہیں اپنی طرف مانوس کر لو پھر (انہیں ذبح کر کے) ان کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو پھر انہیں بلاؤ وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آجائیں گے، اور جان لو کہ یقینا اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے،
یہ معجزہ دکھا کر اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا وَاعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰهَ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ اور جان لو کہ یقینا اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔ جو معجزات بھی انبیاء و رسل عظام علیہم السلام کو عطا ہوتے ہیں وہ اس غالب اور بڑی حکمت والی ذات کی طاقت و قدرت کا عظیم نمونہ ہوتے ہیں۔
حضرت سارہ علیہا السلام کو جب بڑھاپے میں حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت دی گئی تو وہ حیران رہ گئیں اور فرمایا:
القرآن – سورۃ نمبر 11 هود، آیت نمبر 72
قَالَتۡ يٰوَيۡلَتٰٓى ءَاَلِدُ وَاَنَا عَجُوۡزٌ وَّهٰذَا بَعۡلِىۡ شَيۡخًا ؕ اِنَّ هٰذَا لَشَىۡءٌ عَجِيۡبٌ ۞
وہ کہنے لگیں: وائے حیرانی! کیا میں بچہ جنوں گی حالانکہ میں بوڑھی (ہو چکی) ہوں اور میرے یہ شوہر (بھی) بوڑھے ہیں؟ بیشک یہ تو بڑی عجیب چیز ہے،
اس کے جواب میں بشارت دینے والے ملائکہ نے جواب دیا:
القرآن – سورۃ نمبر 11 هود، آیت نمبر 73
قَالُوۡۤا اَتَعۡجَبِيۡنَ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰهِ رَحۡمَتُ اللّٰهِ وَبَرَكٰتُهٗ عَلَيۡكُمۡ اَهۡلَ الۡبَيۡتِؕ اِنَّهٗ حَمِيۡدٌ مَّجِيۡدٌ ۞
فرشتوں نے کہا: کیا تم اﷲ کے حکم پر تعجب کر رہی ہو؟ اے گھر والو! تم پر اﷲ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں، بیشک وہ قابلِ ستائش (ہے) بزرگی والا ہے،
تو گویا معجزہ ہوتا ہی وہ ہے جو عقل کی سمجھ میں نہیں آتا اور عقل پکار اٹھتی ہے “اِنَّ هٰذَا لَشَىۡءٌ عَجِيۡبٌ (بیشک یہ تو بڑی عجیب چیز ہے)”۔ آگے فرشتوں کا جواب بھی بڑا غور طلب ہے فرماتے ہیں “قَالُوۡۤا اَتَعۡجَبِيۡنَ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰهِ (کیا تم اﷲ کے حکم پر تعجب کر رہی ہو؟)”۔ معجزہ چونکہ عطائے خداوندی ہوتی ہے لہٰذا اس کو رد کرنا گویا اللہ رب العزت کی طاقت اور قدرت کو رد کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ فرمایا اِنَّهٗ حَمِيۡدٌ مَّجِيۡدٌ (بیشک وہ قابلِ ستائش، بزرگی والا ہے) لہٰذا اس کی طاقت و قدرت پر شک نہ کرنا۔
حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی بھی ایک نشانی اور معجزہ تھی۔ حضرت صالح علیہ السلام کا پہاڑ پر چھڑی مارنا اور اس میں سے اونٹنی کا نمودار ہو جانا، عقلِ انسانی کو عاجز کر دینے والا معجزہ تھا جس کو اللہ رب العزت نے اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی کہا۔
القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 73
قَدۡ جَآءَتۡكُمۡ بَيِّنَةٌ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ ؕ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَـكُمۡ اٰيَةً۔
بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل آگئی ہے۔ یہ اﷲ کی اونٹنی تمہارے لئے نشانی ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 59
وَاٰتَيۡنَا ثَمُوۡدَ النَّاقَةَ مُبۡصِرَةً۔
اور ہم نے قومِ ثمود کو (صالح علیہ السلام کی) اونٹنی (کی) کھلی نشانی دی تھی۔
یہاں بھی معجزے کی نسبت اللہ رب العزت نے اپنی طرف کی ہے کہ یہ اونٹنی تمہارے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل اور نشانی ہے۔ تو گویا معجزے کا اظہار بھلے انبیاء و رسل کی ذواتِ مقدسہ سے ہوتا ہے مگر اس کے پیچھے طاقت و قدرتِ خداوندی کار فرما ہوتی ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے اللہ رب العزت نے ہوا کو تابع کر دیا تھا۔ اور حضرتِ سلیمان علیہ السلام کے ایک صحابی حضرت آصف برخیا کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کا علم دیا تھا ان کو عطاء کردہ طاقت اور قدرت کا عالم یہ تھا کہ وہ 900 میل کے فاصلے پر پڑے ہوئے ملکہ بلقیس کے تخت کو پلک جھپکنے سے پہلے دربارِ سلیمان علیہ السلام میں حاضر کر دیتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اگر حضرتِ سلیمان علیہ السلام کے ایک صحابی کو عطاء کردہ طاقت اور قوت کا یہ عالم ہے تو خود حضرتِ سلیمان علیہ السلام کی شان و عظمت کا عالم کیا ہوگا؟ پھر اگر حضرتِ سلیمان علیہ السلام کی طاقت و عظمت کا یہ عالم ہے تو تاجدارِ کائنات حضور نبی مکرم ﷺ کی طاقت و عظمت کا عالم کیا ہوگا؟
القرآن – سورۃ نمبر 38 ص، آیت نمبر 36
فَسَخَّرۡنَا لَهُ الرِّيۡحَ تَجۡرِىۡ بِاَمۡرِهٖ رُخَآءً حَيۡثُ اَصَابَۙ ۞
پھر ہم نے اُن کے لئے ہوا کو تابع کر دیا، وہ اُن کے حکم سے نرم نرم چلتی تھی جہاں کہیں (بھی) وہ پہنچنا چاہتے،
حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک صحابی کا معجزہ:
القرآن – سورۃ نمبر 27 النمل، آیت نمبر 38
قَالَ يٰۤاَيُّهَا الۡمَلَؤُا اَيُّكُمۡ يَاۡتِيۡنِىۡ بِعَرۡشِهَا قَبۡلَ اَنۡ يَّاۡتُوۡنِىۡ مُسۡلِمِيۡنَ ۞
(سلیمان علیہ السلام نے) فرمایا: اے دربار والو! تم میں سے کون اس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے قبل اس کے کہ وہ لوگ فرمانبردار ہو کر میرے پاس آجائیں،
القرآن – سورۃ نمبر 27 النمل، آیت نمبر 39
قَالَ عِفۡرِيۡتٌ مِّنَ الۡجِنِّ اَنَا اٰتِيۡكَ بِهٖ قَبۡلَ اَنۡ تَقُوۡمَ مِنۡ مَّقَامِكَۚ وَاِنِّىۡ عَلَيۡهِ لَـقَوِىٌّ اَمِيۡنٌ ۞
ایک قوی ہیکل جِن نے عرض کیا: میں اسے آپ کے پاس لاسکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ اپنے مقام سے اٹھیں اور بیشک میں اس (کے لانے) پر طاقتور (اور) امانت دار ہوں،
القرآن – سورۃ نمبر 27 النمل، آیت نمبر 40
قَالَ الَّذِىۡ عِنۡدَهٗ عِلۡمٌ مِّنَ الۡـكِتٰبِ اَنَا اٰتِيۡكَ بِهٖ قَبۡلَ اَنۡ يَّرۡتَدَّ اِلَيۡكَ طَرۡفُكَؕ فَلَمَّا رَاٰهُ مُسۡتَقِرًّا عِنۡدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنۡ فَضۡلِ رَبِّىۡۖ۔
(پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا کچھ علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے)، پھر جب (سلیمان علیہ السلام نے) اس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا (تو) کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے۔
“ملکۂ سبا بلقیس کا تخت دربار سلیمان علیہ السلام سے تقریباً 900 میل کے فاصلے پر پڑا ہوا تھا۔” (کتاب فلسفہ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
حضرتِ سلیمان علیہ السلام، اپنے صحابی حضرت آصف برخیا کی اس طاقت اور قوت کو دیکھ کر اور اس خارق العادت واقعہ کو دیکھ کر حیران و متعجب نہیں ہوئے بلکہ فرمایا “هٰذَا مِنۡ فَضۡلِ رَبِّىۡۖ (یہ میرے رب کا فضل ہے)۔
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ اُن کی ہیبت سے رائی
اقبال
حضرت زکریا علیہ السلام کا معجزہ
حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا جب قبول ہوئی اور انہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت دی گئی تو آپ نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
القرآن – سورۃ نمبر 19 مريم، آیت نمبر 8
قَالَ رَبِّ اَنّٰى يَكُوۡنُ لِىۡ غُلٰمٌ وَّكَانَتِ امۡرَاَتِىۡ عَاقِرًا وَّقَدۡ بَلَـغۡتُ مِنَ الۡـكِبَرِ عِتِيًّا ۞
(زکریا علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے ہاں لڑکا کیسے ہو سکتا ہے درآنحالیکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں خود بڑھاپے کے باعث (انتہائی ضعف میں) سوکھ جانے کی حالت کو پہنچ گیا ہوں،
اس پر بارگاہِ خداوندی سے جواب آیا:
القرآن – سورۃ نمبر 19 مريم، آیت نمبر 9
قَالَ كَذٰلِكَۚ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَىَّ هَيِّنٌ وَّقَدۡ خَلَقۡتُكَ مِنۡ قَبۡلُ وَلَمۡ تَكُ شَيۡئًـا ۞
فرمایا: (تعجب نہ کرو) ایسے ہی ہوگا، تمہارے رب نے فرمایا ہے: یہ (لڑکا پیدا کرنا) مجھ پر آسان ہے اور بیشک میں اس سے پہلے تمہیں (بھی) پیدا کرچکا ہوں اس حالت سے کہ تم (سرے سے) کوئی چیز ہی نہ تھے،
اللہ رب العزت تو قادرِ مطلق ہے، وہ ساری کائنات کا خالق و مالک ہے، ساری طاقتوں اور قدرتوں کا مالک ہے، وہ جب کسی چیز کو کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو فقط اتنا کہتا ہے “کُن” ہوجا اور وہ ہو جاتی ہے۔ لہذا اللہ اگر اپنے کسی نبی یا رسول کو کوئی معجزہ عطا فرما دے تو اس پر حیران و متعجب نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے اللہ رب العزت کی بے پناہ طاقت و قوت کا اظہار سمجھ کر قبول کرنا چاہیے۔ جو اللہ کسی چیز کو عدم سے وجود میں لانے کی طاقت رکھتا ہے اور جس کے قبضۂِ قدرت میں مکان و لامکاں کے انتظامات ہیں تو اگر وہ حضور نبی مکرم ﷺ کو شبِ معراج مکان و لامکاں کی سیر کروا دے تو تعجب کیسا؟
حضرت یوسف علیہ السلام کا معجزہ
القرآن – سورۃ نمبر 12 يوسف، آیت نمبر 96
فَلَمَّاۤ اَنۡ جَآءَ الۡبَشِيۡرُ اَلۡقٰٮهُ عَلٰى وَجۡهِهٖ فَارۡتَدَّ بَصِيۡرًا ؕۚ قَالَ اَلَمۡ اَقُل لَّـكُمۡ ۚ ۙ اِنِّىۡۤ اَعۡلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ۞
پھر جب خوشخبری سنانے والا آپہنچا اس نے وہ قمیض یعقوب ؑ کے چہرے پر ڈال دیا تو اسی وقت ان کی بینائی لوٹ آئی، یعقوب ؑ نے فرمایا: کیا میں تم سے نہیں کہتا تھا کہ بیشک میں اﷲ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے،
حضرت داؤد علیہ السلام کا معجزہ
القرآن – سورۃ نمبر 21 الأنبياء، آیت نمبر 79
وَّسَخَّرۡنَا مَعَ دَاوٗدَ الۡجِبَالَ يُسَبِّحۡنَ وَالطَّيۡرَ ؕ وَكُنَّا فٰعِلِيۡنَ ۞
اور ہم نے پہاڑوں اور پرندوں (تک) کو داؤد ؑ کے (حکم کے) ساتھ پابند کر دیا تھا وہ (سب ان کے ساتھ مل کر) تسبیح پڑھتے تھے، اور ہم ہی (یہ سب کچھ) کرنے والے تھے،
یہاں بھی دیکھیں کہ پہاڑوں اور پرندوں کا مسخر ہونا، یہ معجزہ حضرت داؤد علیہ السلام کا ہے یعنی ان کی ذات سے اس کا اظہار ہوا ہے مگر اس کے پیچھے طاقت و قدرت اللہ رب العزت کی تھی۔ فرمایا وَكُنَّا فٰعِلِيۡنَ اور ہم ہی (یہ سب کچھ) کرنے والے تھے۔ تو گویا معجزے کا انکار دوسرے لفظوں میں عظمت و قدرتِ خداوندی کا انکار ہوتا ہے۔
اصحاب کہف اور وقت کا سمٹ جانا:
اصحابِ کہف کم و بیش 309 سال کا عرصہ ایک غار کے اندر سوئے رہے۔ جب اللہ رب العزت کے حکم سے اٹھے تو کہنے لگے:
القرآن – سورۃ نمبر 18 الكهف، آیت نمبر 19
قَالَ قَآئِلٌ مِّنۡهُمۡ كَمۡ لَبِثۡتُمۡ ؕ قَالُوۡا لَبِثۡنَا يَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ يَوۡمٍ ؕ
ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا: تم (یہاں) کتنا عرصہ ٹھہرے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم (یہاں) ایک دن یا اس کا (بھی) کچھ حصہ ٹھہرے ہیں۔
309 سال گزر جانے کے باوجود انہیں یوں محسوس ہوا کہ ایک دن بھی نہیں گزرنے پایا اور ان کے اجسام پہلے کی طرح تروتازہ اور توانا رہے۔ 309 سال تک تک موت کی نیند سوئے رہنا اور پھر زندہ ہو جانے کا یہ خلافِ معمول واقعہ تو اصحابِ کہف پہ بیتا ہے مگر جو ذات اس سارے عرصے میں ان کی حفاظت کر رہی تھی وہ ذاتِ باری تعالیٰ ہی تھی۔ لہٰذا اگر ذاتِ باری تعالیٰ اصحابِ کہف کی خاطر زمان و مکاں کے اندر موجود اصول و ضوابط کو بدل سکتی ہے اور انہیں سالوں پر محیط عرصہ ایک دن یا اس سے بھی کم کا محسوس ہوتا ہے تو کیا وہی ذات حضور نبی مکرم ﷺ کو سالوں پر محیط سفرِ معراج رات کے ایک لمحے میں طے نہیں کروا سکتی؟
حضرتِ عزیر علیہ السلام کو اللہ رب العزت نے سو سال تک موت کی نیند سلائے رکھا اور جب اللہ کے حکم سے اٹھے تو کہنے لگے میں تو ایک دن یا اس سے کم حصہ یہاں ٹھہرا ہوں۔ آپ کے ساتھ جو کھانا موجود تھا وہ بالکل اسی طرح رہا جبکہ گدھے کی ہڈیاں بھی سلامت نہیں رہیں۔ پھر اللہ رب العزت نے ان کے سامنے گدھے کی ہڈیوں کو جوڑا پھر ان پر گوشت چڑھایا اور پھر اسے زندہ کر دیا۔ اللہ رب العزت کی اس طاقت و قدرت کا مشاہدہ کرنے پر حضرتِ عزیر علیہ السلام بے ساختہ بول اٹھے اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ (بیشک اﷲ ہر چیز پر خوب قادر ہے)۔
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 259
اَوۡ كَالَّذِىۡ مَرَّ عَلٰى قَرۡيَةٍ وَّ هِىَ خَاوِيَةٌ عَلٰى عُرُوۡشِهَا ۚ قَالَ اَنّٰى يُحۡىٖ هٰذِهِ اللّٰهُ بَعۡدَ مَوۡتِهَا ۚ فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗ ؕ قَالَ كَمۡ لَبِثۡتَؕ قَالَ لَبِثۡتُ يَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ يَوۡمٍؕ قَالَ بَلۡ لَّبِثۡتَ مِائَةَ عَامٍ فَانۡظُرۡ اِلٰى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمۡ يَتَسَنَّهۡۚ وَانْظُرۡ اِلٰى حِمَارِكَ وَلِنَجۡعَلَكَ اٰيَةً لِّلنَّاسِ وَانْظُرۡ اِلَى الۡعِظَامِ كَيۡفَ نُـنۡشِزُهَا ثُمَّ نَكۡسُوۡهَا لَحۡمًا ؕ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهٗ ۙ قَالَ اَعۡلَمُ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ ۞
یا اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا) جو ایک بستی پر سے گزرا جو اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی تو اس نے کہا کہ اﷲ اس کی موت کے بعد اسے کیسے زندہ فرمائے گا، سو (اپنی قدرت کا مشاہدہ کرانے کے لئے) اﷲ نے اسے سو برس تک مُردہ رکھا پھر اُسے زندہ کیا، (بعد ازاں) پوچھا: تُو یہاں (مرنے کے بعد) کتنی دیر ٹھہرا رہا (ہے)؟ اس نے کہا: میں ایک دن یا ایک دن کا (بھی) کچھ حصہ ٹھہرا ہوں، فرمایا: (نہیں) بلکہ تُو سو برس پڑا رہا (ہے) پس (اب) تُو اپنے کھانے اور پینے (کی چیزوں) کو دیکھ (وہ) متغیّر (باسی) بھی نہیں ہوئیں اور (اب) اپنے گدھے کی طرف نظر کر (جس کی ہڈیاں بھی سلامت نہیں رہیں) اور یہ اس لئے کہ ہم تجھے لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانی بنا دیں اور (اب ان) ہڈیوں کی طرف دیکھ ہم انہیں کیسے جُنبش دیتے (اور اٹھاتے) ہیں پھر انہیں گوشت (کا لباس) پہناتے ہیں، جب یہ (معاملہ) اس پر خوب آشکار ہو گیا تو بول اٹھا: میں (مشاہداتی یقین سے) جان گیا ہوں کہ بیشک اﷲ ہر چیز پر خوب قادر ہے،
یہاں بھی غور طلب بات یہ ہے کہ اگر اللہ رب العزت کی عطا و توفیق سے حضرتِ عزیر علیہ السلام، سو سال پر محیط عرصہ ایک دن یا اس سے بھی کم وقت میں طے کر سکتے ہیں تو اسی ذات کی عطا کردہ طاقت و قوت سے حضور نبی مکرم ﷺ، مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ اور پھر عالمِ مکان و لامکاں تک کا سفر رات کے ایک لمحے میں طے کر لیں تو تعجب کیسا؟
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یدِ بیضا (سفید، روشن ہاتھ)، عصاء جیسے معجزات دیے گئے۔
القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 101
وَلَقَدۡ اٰتَيۡنَا مُوۡسٰى تِسۡعَ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ۔
اور بیشک ہم نے موسٰی ؑ کو نو روشن نشانیاں دیں۔
القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 107
فَاَلۡقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِىَ ثُعۡبَانٌ مُّبِيۡنٌ ۞
پس موسٰی ؑ نے اپنا عصا (نیچے) ڈال دیا تو اسی وقت صریحاً اژدہا بن گیا،
القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 108
وَّنَزَعَ يَدَهٗ فَاِذَا هِىَ بَيۡضَآءُ لِلنّٰظِرِيۡنَ ۞
اور اپنا ہاتھ (گریبان میں ڈال کر) نکالا تو وہ (بھی) اسی وقت دیکھنے والوں کے لئے (چمک دار) سفید ہوگیا۔
القرآن – سورۃ نمبر 28 القصص، آیت نمبر 32
اُسۡلُكۡ يَدَكَ فِىۡ جَيۡبِكَ تَخۡرُجۡ بَيۡضَآءَ مِنۡ غَيۡرِ سُوۡٓءٍ وَّاضۡمُمۡ اِلَيۡكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهۡبِ فَذٰنِكَ بُرۡهَانٰنِ مِنۡ رَّبِّكَ اِلٰى فِرۡعَوۡنَ وَمَلَا۟ئِهٖؕ اِنَّهُمۡ كَانُوۡا قَوۡمًا فٰسِقِيۡنَ ۞
اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو وہ بغیر کسی عیب کے سفید چمک دار ہوکر نکلے گا اور خوف (دور کرنے کی غرض) سے اپنا بازو اپنے (سینے کی) طرف سکیڑ لو، پس تمہارے رب کی جانب سے یہ دو دلیلیں فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف (بھیجنے اور مشاہدہ کرانے کے لئے) ہیں، بیشک وہ نافرمان لوگ ہیں،
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بذاتِ خود معجزہ ہونا
القرآن – سورۃ نمبر 21 الأنبياء، آیت نمبر 91
وَالَّتِىۡۤ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَهَا فَـنَفَخۡنَا فِيۡهَا مِنۡ رُّوۡحِنَا وَ جَعَلۡنٰهَا وَابۡنَهَاۤ اٰيَةً لِّـلۡعٰلَمِيۡنَ ۞
اس (پاکیزہ) خاتون (مریم علیہا السلام) کو بھی (یاد کریں) جس نے اپنی عفت کی حفاظت کی پھر ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور ہم نے اسے اور اس کے بیٹے (عیسٰی علیہ السلام) کو جہان والوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانی بنا دیا،
حضرت مریم علیہا السلام کو جب بن باپ کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت دی گئی تو آپ سراپا حیرت بن کر عرض کرتی ہیں:
القرآن – سورۃ نمبر 19 مريم، آیت نمبر 20
قَالَتۡ اَنّٰى يَكُوۡنُ لِىۡ غُلٰمٌ وَّلَمۡ يَمۡسَسۡنِىۡ بَشَرٌ وَّلَمۡ اَكُ بَغِيًّا ۞
(مریم علیہا السلام نے) کہا: میرے ہاں لڑکا کیسے ہوسکتا ہے جبکہ مجھے کسی انسان نے چھوا تک نہیں اور نہ ہی میں بدکار ہوں،
خوشخبری دینے والے فرشتے نے جواب دیا:
القرآن – سورۃ نمبر 19 مريم، آیت نمبر 21
قَالَ كَذٰلِكِ ۚ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَىَّ هَيِّنٌ ۚ وَلِنَجۡعَلَهٗۤ اٰيَةً لِّلنَّاسِ وَرَحۡمَةً مِّنَّا ۚ وَكَانَ اَمۡرًا مَّقۡضِيًّا ۞
(جبرائیل علیہ السلام نے) کہا: (تعجب نہ کر) ایسے ہی ہوگا، تیرے رب نے فرمایا ہے: یہ (کام) مجھ پر آسان ہے، اور (یہ اس لئے ہوگا) تاکہ ہم اسے لوگوں کے لئے نشانی اور اپنی جانب سے رحمت بنادیں، اور یہ امر (پہلے سے) طے شدہ ہے،
القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 49
وَرَسُوۡلًا اِلٰى بَنِىۡۤ اِسۡرٰٓءِيۡلَ ۙ اَنِّىۡ قَدۡ جِئۡتُكُمۡ بِاٰيَةٍ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ ۙۚ اَنِّىۡۤ اَخۡلُقُ لَـكُمۡ مِّنَ الطِّيۡنِ كَهَیْــئَةِ الطَّيۡرِ فَاَنۡفُخُ فِيۡهِ فَيَكُوۡنُ طَيۡرًاۢ بِاِذۡنِ اللّٰهِۚ وَاُبۡرِئُ الۡاَكۡمَهَ وَالۡاَبۡرَصَ وَاُحۡىِ الۡمَوۡتٰى بِاِذۡنِ اللّٰهِۚ وَ اُنَبِّئُكُمۡ بِمَا تَاۡكُلُوۡنَ وَمَا تَدَّخِرُوۡنَۙ فِىۡ بُيُوۡتِكُمۡؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيَةً لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَۚ ۞
اور وہ بنی اسرائیل کی طرف رسول ہو گا (ان سے کہے گا) کہ بیشک میں تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے ایک نشانی لے کر آیا ہوں میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی شکل جیسا (ایک پُتلا) بناتا ہوں پھر میں اس میں پھونک مارتا ہوں سو وہ اﷲ کے حکم سے فوراً اڑنے والا پرندہ ہو جاتا ہے، اور میں مادرزاد اندھے اور سفید داغ والے کو شفایاب کرتا ہوں اور میں اﷲ کے حکم سے مُردے کو زندہ کر دیتا ہوں، اور جو کچھ تم کھا کر آئے ہو اور جو کچھ تم اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو میں تمہیں (وہ سب کچھ) بتا دیتا ہوں، بیشک اس میں تمہارے لئے نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو،
معجزۂِ معراجِ مصطفیٰ ﷺ
القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 1
سُبۡحٰنَ الَّذِىۡۤ اَسۡرٰى بِعَبۡدِهٖ لَيۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ اِلَى الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِىۡ بٰرَكۡنَا حَوۡلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنۡ اٰيٰتِنَا ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيۡعُ الۡبَصِيۡرُ ۞
وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے،
یہاں بھی اگر غور کریں تو شبِ معراج کے معجزے کا اظہار بھلے حضور نبی مکرم ﷺ کی ذاتِ بابرکات سے ہوا ہے مگر جب اللہ رب العزت نے اسے بیان کیا تو اس کی نسبت اپنی طرف کی اور فرمایا سُبۡحٰنَ الَّذِىۡۤ اَسۡرٰى بِعَبۡدِهٖ لَيۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ اِلَى الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک۔ یعنی یہ دعویٰ تو خود اللہ رب العزت نے کیا ہے جو ساری کائنات اور اس کے اندر کارفرما ساری طاقتوں اور قدرتوں کا مالک ہے۔ جو ہر کمی، نقص اور عیب سے پاک ہے۔ وہ اگر چاہے تو ایک لفظِ “کن” کہہ کر حضور نبی مکرم ﷺ کو ساری کائنات کی سیر کروا دے۔ لہٰذا معجزۂِ معراجِ مصطفیٰ بھی دراصل طاقت و قدرتِ خداوندی کا اظہار ہے۔ اور اس کا انکار کرنا یا اس پر اعتراض کرنا گویا اللہ رب العزت کی طاقت و قدرت کا انکار کرنے کے مترادف ہے۔
ایک اور قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ ہر نبی اور رسول کو اللہ رب العزت نے اپنی طاقت اور قدرت کے ذریعے اُس زمانے کے تقاضوں کے مطابق معجزات عطا فرمائے جن کو دیکھ کر عقلِ انسانی دنگ رہ گئی۔ حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کے لیے ذبح شدہ پرندوں کا زندہ ہو کر آپ کی طرف آجانا، اسی طرح آپ کی خاطر نارِ نمرود کا گل و گلزار بن جانا، حضرتِ صالح علیہ السلام کا پہاڑ پر چھڑی مارنا اور اس میں سے اونٹنی کا نمودار ہو جانا، حضرتِ سلیمان علیہ السلام کی خاطر ہوا کا مسخر ہو جانا، حضرتِ سلیمان علیہ السلام کے صحابی حضرت آصف برخیا کا پلک جھپکنے میں ملکہ بلقیس کا تخت دربار میں حاضر کر دینا، حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کا دربارِ فرعون میں عصاء پھینکنا اور اس عصاء کا اژدھا بن کر جادوگروں کے سانپوں کو نگل جانا، حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کا مادر زاد اندھوں کو بینا کر دینا، مردوں کو اللہ کے حکم سے زندہ کر دینا، اور حضور نبی مکرم ﷺ کا شبِ معراج مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ اور پھر ساتوں آسمانوں سے ہوتے ہوئے سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا پھر مقامِ دنیٰ، فتدلّٰی، قاب قوسین او ادنیٰ کے مقام پر پہنچ کر قربت و وصالِ الٰہیہ سے فیضیاب ہونا، پھر اس لذتِ وصال کو چھوڑ کر امت کی خاطر واپس پلٹ آنا، یہ سب معجزات اللہ رب العزت کی طاقت و قدرت کا عظیم الشان مظہر ہیں جن کو سمجھنے سے عقلِ انسانی آج بھی قاصر ہے۔ کیونکہ معجزہ کہتے ہی اس واقعے کو ہیں جس کو سمجھنے سے عقلِ انسانی عاجز آ جائے۔ لہٰذا معجزاتِ انبیاء و رسل کو عقل کے پیمانوں پر تول کر رد کرنے کے بجائے اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ یہ معجزات اللہ رب العزت کی عطاء سے انبیاء و رسل کی ذواتِ مقدسہ سے ظاہر ہوتے ہیں اور ان کے پیچھے اصل طاقت و قوت پروردگارِ عالم کی ہوتی ہے۔ جب اس انداز سے معجزاتِ انبیاء کو دیکھا جائے تو انکار و اعتراضات کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے، منزل نہیں ہے
اقبال
یہاں یہ نقطہ بھی قابلِ ذکر ہے جس کو مختلف علمائے کرام نے بیان کیا ہے کہ ہر نبی اور رسول کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کے تقاضوں کے مطابق معجزات عطا فرمائے۔ مثلاً حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کے دور میں جادوگری کا فن اپنے عروج پر تھا اس لیے جب دربارِ فرعون میں جادوگروں کی رسیاں سانپ بن گئیں تو ان جادوگروں کے جادو کا توڑ کرنے کے لیے اللہ رب العزت نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اپنا عصاء زمین پر پھینکیں۔ جب آپ نے عصاء زمین پر پھینکا تو وہ ایک بڑا اژدھا بن کر سارے سانپوں کو نگل گیا جس سے جادوگر پکار اٹھے کہ ہم موسیٰ کے رب پر ایمان لاتے ہیں۔ حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں طب کا فن اپنے عروج پر تھا۔ تو حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ رب العزت نے یہ معجزہ عطاء کیا تھا کہ آپ مادر زاد اندھوں کو بینا کر دیتے تھے اور مردوں کو اللہ کے حکم سے زندہ کر دیتے تھے۔ اسی طرح حضور نبی مکرم ﷺ چونکہ قیامت تک کے انسانوں کے لیے رسولِ رحمت بن کر تشریف لائے ہیں تو اللہ رب العزت کو علم تھا کہ یہ دور خلائی تحقیق کا دور ہوگا، لوگ چاند کو مسخر کریں گے، مریخ اور دوسرے سیاروں پر رہائش اختیار کرنے کی تگ و دو کر رہے ہوں گے اور انہیں اپنی ان خلائی تحقیقات پر بڑا ناز ہوگا تو اس لیے اللہ رب العزت نے حضور نبی مکرم ﷺ کو رات کے ایک لمحے میں مکان و لامکاں کی سیر کروا کر یہ ثابت کر دیا کہ اے انسان تیرا علم اور تیری پرواز جتنی مرضی ترقی کرلے میرے حبیب کی پرواز کی گرد تک بھی نہیں پہنچ سکتی۔ تو ابھی کچھ سیاروں تک پہنچا ہے اور اس پر بڑا فخر کرتا ہے مگر مصطفیٰ نے شبِ معراج ساری کائنات اور عالمِ مکان و لامکاں کا سفر ایک لمحے میں طے کر لیا ہے۔
“خلائی سفر پر روانگی کے دوران کرۂ ہوائی (atmosphere) سے باہر نکلنے کے لیے کم از کم 40,000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار درکار ہوتی ہے۔”
“روشنی 1,86,000 میل (تین لاکھ کلومیٹر) فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے اور سائنس کی زبان میں اس قدر رفتار کا حصول کسی بھی مادی شئے کے لیے محال ہے۔”
(کتاب: فلسفہ معراج النبی ﷺ)
حضور نبی مکرم ﷺ کا شبِ معراج اس رفتار کے ساتھ سفر کرنا کہ جس کو سمجھنے سے عقلِ انسانی اور سائنس بھی قاصر ہے بلاشبہ یہ قدرتِ خداوندی اور معجزاتِ نبوی ﷺ کا ایک عظیم الشان مظہر ہے۔
سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفیٰ سے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں
علامہ محمد اقبال