معجزاتِ انبیائے کرام اور معجزۂِ معراجِ مصطفیٰﷺ کا تذکرہ – جمعۃ المبارک، 10 شعبان 1444ھ، بمطابق 03 مارچ 2023ء

یہ مضمون مندرجہ ذیل نکات پر مشتمل ہے:
1) معجزہ کسے کہتے ہیں؟
2) قرآنِ مجید میں مذکور معجزات کا تذکرہ۔
3) مجزات کا باعثِ تعجب ہونا۔
4) معجزات دراصل طاقت و قدرتِ خداوندی کا اظہار ہوتے ہیں۔
5) ہر نبی یا رسول کو عطاء ہونے والا معجزہ اُس زمانے کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے۔

معجزہ اس عمل یا واقعہ کو کہتے ہیں جس میں تین خصوصیات پائی جاتی ہوں:
1) وہ واقعہ خارق العادت ہو یعنی خلافِ معمول ہو۔
2) اس کو سمجھنے سے عقلِ انسانی عاجز آجائے۔
3) اس کی نظیر یا مثل پیش کرنے سے انسان عاجز آجائے۔

معجزہ چونکہ خاص اللہ رب العزت کی طاقت اور قدرت کا اظہار ہوتا ہے لہذا اس کا انکار کرنا اللہ رب العزت کی طاقت اور قدرت کا انکار کرنے کے مترادف ہے۔ ذیل میں ہم قرآنِ مجید میں مذکور چند معجزات کا ذکر کرتے ہیں۔

قرآنِ مجید میں مختلف معجزات کا ذکر:

قرآنِ مجید میں معجزہ کے معنیٰ و مفہوم کو بیان کرنے کے لیے مختلف الفاظ استعمال ہوئے ہیں جیسے کہ “اٰیَۃٌ” (نشانی)، مُبْصِرَۃٌ (ایسی واضح نشانی کہ جس کو دیکھنے سے دیکھنے والے کی آنکھیں کھل جائیں اور اس پر حقیقت آشکار ہو جائے)، بَیِّنَۃٌ (ایسی کھلی دلیل جو فریقِ مخالف کو انکار کی صورت میں حجت و ثبوت کے طور پر پیش کی جائے)، بُرْھَانٌ (ایسی دلیل جو فریقِ مخالف کے تمام دلائل سے زیادہ وزنی اور ان پر حاوی ہو اور تنازعہ کا فیصلہ کر دینے والی ہو)۔
(فلسفۂِ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا چار پرندوں کو ذبح کر کے ان کا ایک ایک ٹکڑا الگ الگ پہاڑ پر رکھنا اور پھر انہیں اپنی طرف بلانے پر پرندوں کا زندہ ہو کر آپ کی طرف آجانا بھی ایک معجزہ تھا جس میں اللہ رب العزت نے زندگی اور موت پر اپنی طاقت اور قدرت کا نمونہ دکھایا جسے دیکھ کر عقلِ انسانی عاجز آجاتی ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 260
وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰهٖمُ رَبِّ اَرِنِىۡ كَيۡفَ تُحۡىِ الۡمَوۡتٰى ؕ قَالَ اَوَلَمۡ تُؤۡمِنۡ‌ؕ قَالَ بَلٰى وَلٰـكِنۡ لِّيَطۡمَئِنَّ قَلۡبِىۡ‌ؕ قَالَ فَخُذۡ اَرۡبَعَةً مِّنَ الطَّيۡرِ فَصُرۡهُنَّ اِلَيۡكَ ثُمَّ اجۡعَلۡ عَلٰى كُلِّ جَبَلٍ مِّنۡهُنَّ جُزۡءًا ثُمَّ ادۡعُهُنَّ يَاۡتِيۡنَكَ سَعۡيًا ‌ؕ وَاعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰهَ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ  ۞
اور (وہ واقعہ بھی یاد کریں) جب ابراہیم ؑ نے عرض کیا: میرے رب! مجھے دکھا دے کہ تُو مُردوں کو کس طرح زندہ فرماتا ہے؟ ارشاد ہوا: کیا تم یقین نہیں رکھتے؟ اس نے عرض کیا: کیوں نہیں (یقین رکھتا ہوں) لیکن (چاہتا ہوں کہ) میرے دل کو بھی خوب سکون نصیب ہو جائے، ارشاد فرمایا: سو تم چار پرندے پکڑ لو پھر انہیں اپنی طرف مانوس کر لو پھر (انہیں ذبح کر کے) ان کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو پھر انہیں بلاؤ وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آجائیں گے، اور جان لو کہ یقینا اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے،

یہ معجزہ دکھا کر اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا وَاعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰهَ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ اور جان لو کہ یقینا اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔ جو معجزات بھی انبیاء و رسل عظام علیہم السلام کو عطا ہوتے ہیں وہ اس غالب اور بڑی حکمت والی ذات کی طاقت و قدرت کا عظیم نمونہ ہوتے ہیں۔

حضرت سارہ علیہا السلام کو جب بڑھاپے میں حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت دی گئی تو وہ حیران رہ گئیں اور فرمایا:

القرآن – سورۃ نمبر 11 هود، آیت نمبر 72
قَالَتۡ يٰوَيۡلَتٰٓى ءَاَلِدُ وَاَنَا عَجُوۡزٌ وَّهٰذَا بَعۡلِىۡ شَيۡخًا ‌ؕ اِنَّ هٰذَا لَشَىۡءٌ عَجِيۡبٌ ۞
وہ کہنے لگیں: وائے حیرانی! کیا میں بچہ جنوں گی حالانکہ میں بوڑھی (ہو چکی) ہوں اور میرے یہ شوہر (بھی) بوڑھے ہیں؟ بیشک یہ تو بڑی عجیب چیز ہے،

اس کے جواب میں بشارت دینے والے ملائکہ نے جواب دیا:

القرآن – سورۃ نمبر 11 هود، آیت نمبر 73
قَالُوۡۤا اَتَعۡجَبِيۡنَ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰهِ‌ رَحۡمَتُ اللّٰهِ وَبَرَكٰتُهٗ عَلَيۡكُمۡ اَهۡلَ الۡبَيۡتِ‌ؕ اِنَّهٗ حَمِيۡدٌ مَّجِيۡدٌ‏ ۞
فرشتوں نے کہا: کیا تم اﷲ کے حکم پر تعجب کر رہی ہو؟ اے گھر والو! تم پر اﷲ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں، بیشک وہ قابلِ ستائش (ہے) بزرگی والا ہے،

تو گویا معجزہ ہوتا ہی وہ ہے جو عقل کی سمجھ میں نہیں آتا اور عقل پکار اٹھتی ہے “اِنَّ هٰذَا لَشَىۡءٌ عَجِيۡبٌ (بیشک یہ تو بڑی عجیب چیز ہے)”۔ آگے فرشتوں کا جواب بھی بڑا غور طلب ہے فرماتے ہیں “قَالُوۡۤا اَتَعۡجَبِيۡنَ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰهِ‌ (کیا تم اﷲ کے حکم پر تعجب کر رہی ہو؟)”۔ معجزہ چونکہ عطائے خداوندی ہوتی ہے لہٰذا اس کو رد کرنا گویا اللہ رب العزت کی طاقت اور قدرت کو رد کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ فرمایا اِنَّهٗ حَمِيۡدٌ مَّجِيۡدٌ‏ (بیشک وہ قابلِ ستائش، بزرگی والا ہے) لہٰذا اس کی طاقت و قدرت پر شک نہ کرنا۔

حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی بھی ایک نشانی اور معجزہ تھی۔ حضرت صالح علیہ السلام کا پہاڑ پر چھڑی مارنا اور اس میں سے اونٹنی کا نمودار ہو جانا، عقلِ انسانی کو عاجز کر دینے والا معجزہ تھا جس کو اللہ رب العزت نے اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی کہا۔

القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 73
قَدۡ جَآءَتۡكُمۡ بَيِّنَةٌ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ‌ ؕ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَـكُمۡ اٰيَةً‌۔
بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل آگئی ہے۔ یہ اﷲ کی اونٹنی تمہارے لئے نشانی ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 59
وَاٰتَيۡنَا ثَمُوۡدَ النَّاقَةَ مُبۡصِرَةً۔
اور ہم نے قومِ ثمود کو (صالح علیہ السلام کی) اونٹنی (کی) کھلی نشانی دی تھی۔

یہاں بھی معجزے کی نسبت اللہ رب العزت نے اپنی طرف کی ہے کہ یہ اونٹنی تمہارے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل اور نشانی ہے۔ تو گویا معجزے کا اظہار بھلے انبیاء و رسل کی ذواتِ مقدسہ سے ہوتا ہے مگر اس کے پیچھے طاقت و قدرتِ خداوندی کار فرما ہوتی ہے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے اللہ رب العزت نے ہوا کو تابع کر دیا تھا۔ اور حضرتِ سلیمان علیہ السلام کے ایک صحابی حضرت آصف برخیا کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کا علم دیا تھا ان کو عطاء کردہ طاقت اور قدرت کا عالم یہ تھا کہ وہ 900 میل کے فاصلے پر پڑے ہوئے ملکہ بلقیس کے تخت کو پلک جھپکنے سے پہلے دربارِ سلیمان علیہ السلام میں حاضر کر دیتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اگر حضرتِ سلیمان علیہ السلام کے ایک صحابی کو عطاء کردہ طاقت اور قوت کا یہ عالم ہے تو خود حضرتِ سلیمان علیہ السلام کی شان و عظمت کا عالم کیا ہوگا؟ پھر اگر حضرتِ سلیمان علیہ السلام کی طاقت و عظمت کا یہ عالم ہے تو تاجدارِ کائنات حضور نبی مکرم ﷺ کی طاقت و عظمت کا عالم کیا ہوگا؟

القرآن – سورۃ نمبر 38 ص، آیت نمبر 36
فَسَخَّرۡنَا لَهُ الرِّيۡحَ تَجۡرِىۡ بِاَمۡرِهٖ رُخَآءً حَيۡثُ اَصَابَۙ ۞
پھر ہم نے اُن کے لئے ہوا کو تابع کر دیا، وہ اُن کے حکم سے نرم نرم چلتی تھی جہاں کہیں (بھی) وہ پہنچنا چاہتے،

حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک صحابی کا معجزہ:

القرآن – سورۃ نمبر 27 النمل، آیت نمبر 38
قَالَ يٰۤاَيُّهَا الۡمَلَؤُا اَيُّكُمۡ يَاۡتِيۡنِىۡ بِعَرۡشِهَا قَبۡلَ اَنۡ يَّاۡتُوۡنِىۡ مُسۡلِمِيۡنَ ۞
(سلیمان علیہ السلام نے) فرمایا: اے دربار والو! تم میں سے کون اس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے قبل اس کے کہ وہ لوگ فرمانبردار ہو کر میرے پاس آجائیں،

القرآن – سورۃ نمبر 27 النمل، آیت نمبر 39
قَالَ عِفۡرِيۡتٌ مِّنَ الۡجِنِّ اَنَا اٰتِيۡكَ بِهٖ قَبۡلَ اَنۡ تَقُوۡمَ مِنۡ مَّقَامِكَ‌ۚ وَاِنِّىۡ عَلَيۡهِ لَـقَوِىٌّ اَمِيۡنٌ‏ ۞
ایک قوی ہیکل جِن نے عرض کیا: میں اسے آپ کے پاس لاسکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ اپنے مقام سے اٹھیں اور بیشک میں اس (کے لانے) پر طاقتور (اور) امانت دار ہوں،

القرآن – سورۃ نمبر 27 النمل، آیت نمبر 40
قَالَ الَّذِىۡ عِنۡدَهٗ عِلۡمٌ مِّنَ الۡـكِتٰبِ اَنَا اٰتِيۡكَ بِهٖ قَبۡلَ اَنۡ يَّرۡتَدَّ اِلَيۡكَ طَرۡفُكَ‌ؕ فَلَمَّا رَاٰهُ مُسۡتَقِرًّا عِنۡدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنۡ فَضۡلِ رَبِّىۡ‌ۖ۔
(پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا کچھ علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے)، پھر جب (سلیمان علیہ السلام نے) اس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا (تو) کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے۔

“ملکۂ سبا بلقیس کا تخت دربار سلیمان علیہ السلام سے تقریباً 900 میل کے فاصلے پر پڑا ہوا تھا۔” (کتاب فلسفہ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

حضرتِ سلیمان علیہ السلام، اپنے صحابی حضرت آصف برخیا کی اس طاقت اور قوت کو دیکھ کر اور اس خارق العادت واقعہ کو دیکھ کر حیران و متعجب نہیں ہوئے بلکہ فرمایا “هٰذَا مِنۡ فَضۡلِ رَبِّىۡ‌ۖ (یہ میرے رب کا فضل ہے)۔

دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ اُن کی ہیبت سے رائی
اقبال

حضرت زکریا علیہ السلام کا معجزہ

حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا جب قبول ہوئی اور انہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت دی گئی تو آپ نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:

القرآن – سورۃ نمبر 19 مريم، آیت نمبر 8
قَالَ رَبِّ اَنّٰى يَكُوۡنُ لِىۡ غُلٰمٌ وَّكَانَتِ امۡرَاَتِىۡ عَاقِرًا وَّقَدۡ بَلَـغۡتُ مِنَ الۡـكِبَرِ عِتِيًّا‏ ۞
(زکریا علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے ہاں لڑکا کیسے ہو سکتا ہے درآنحالیکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں خود بڑھاپے کے باعث (انتہائی ضعف میں) سوکھ جانے کی حالت کو پہنچ گیا ہوں،

اس پر بارگاہِ خداوندی سے جواب آیا:

القرآن – سورۃ نمبر 19 مريم، آیت نمبر 9
قَالَ كَذٰلِكَ‌ۚ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَىَّ هَيِّنٌ وَّقَدۡ خَلَقۡتُكَ مِنۡ قَبۡلُ وَلَمۡ تَكُ شَيۡئًـا‏ ۞
فرمایا: (تعجب نہ کرو) ایسے ہی ہوگا، تمہارے رب نے فرمایا ہے: یہ (لڑکا پیدا کرنا) مجھ پر آسان ہے اور بیشک میں اس سے پہلے تمہیں (بھی) پیدا کرچکا ہوں اس حالت سے کہ تم (سرے سے) کوئی چیز ہی نہ تھے،

اللہ رب العزت تو قادرِ مطلق ہے، وہ ساری کائنات کا خالق و مالک ہے، ساری طاقتوں اور قدرتوں کا مالک ہے، وہ جب کسی چیز کو کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو فقط اتنا کہتا ہے “کُن” ہوجا اور وہ ہو جاتی ہے۔ لہذا اللہ اگر اپنے کسی نبی یا رسول کو کوئی معجزہ عطا فرما دے تو اس پر حیران و متعجب نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے اللہ رب العزت کی بے پناہ طاقت و قوت کا اظہار سمجھ کر قبول کرنا چاہیے۔ جو اللہ کسی چیز کو عدم سے وجود میں لانے کی طاقت رکھتا ہے اور جس کے قبضۂِ قدرت میں مکان و لامکاں کے انتظامات ہیں تو اگر وہ حضور نبی مکرم ﷺ کو شبِ معراج مکان و لامکاں کی سیر کروا دے تو تعجب کیسا؟

حضرت یوسف علیہ السلام کا معجزہ

القرآن – سورۃ نمبر 12 يوسف، آیت نمبر 96
فَلَمَّاۤ اَنۡ جَآءَ الۡبَشِيۡرُ اَلۡقٰٮهُ عَلٰى وَجۡهِهٖ فَارۡتَدَّ بَصِيۡرًا ‌ ؕۚ قَالَ اَلَمۡ اَقُل لَّـكُمۡ‌ ۚ‌ ۙ اِنِّىۡۤ اَعۡلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ‏ ۞
پھر جب خوشخبری سنانے والا آپہنچا اس نے وہ قمیض یعقوب ؑ کے چہرے پر ڈال دیا تو اسی وقت ان کی بینائی لوٹ آئی، یعقوب ؑ نے فرمایا: کیا میں تم سے نہیں کہتا تھا کہ بیشک میں اﷲ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے،

حضرت داؤد علیہ السلام کا معجزہ

القرآن – سورۃ نمبر 21 الأنبياء، آیت نمبر 79
وَّسَخَّرۡنَا مَعَ دَاوٗدَ الۡجِبَالَ يُسَبِّحۡنَ وَالطَّيۡرَ‌ ؕ وَكُنَّا فٰعِلِيۡنَ ۞
اور ہم نے پہاڑوں اور پرندوں (تک) کو داؤد ؑ کے (حکم کے) ساتھ پابند کر دیا تھا وہ (سب ان کے ساتھ مل کر) تسبیح پڑھتے تھے، اور ہم ہی (یہ سب کچھ) کرنے والے تھے،

یہاں بھی دیکھیں کہ پہاڑوں اور پرندوں کا مسخر ہونا، یہ معجزہ حضرت داؤد علیہ السلام کا ہے یعنی ان کی ذات سے اس کا اظہار ہوا ہے مگر اس کے پیچھے طاقت و قدرت اللہ رب العزت کی تھی۔ فرمایا وَكُنَّا فٰعِلِيۡنَ اور ہم ہی (یہ سب کچھ) کرنے والے تھے۔ تو گویا معجزے کا انکار دوسرے لفظوں میں عظمت و قدرتِ خداوندی کا انکار ہوتا ہے۔

اصحاب کہف اور وقت کا سمٹ جانا:

اصحابِ کہف کم و بیش 309 سال کا عرصہ ایک غار کے اندر سوئے رہے۔ جب اللہ رب العزت کے حکم سے اٹھے تو کہنے لگے:

القرآن – سورۃ نمبر 18 الكهف، آیت نمبر 19
قَالَ قَآئِلٌ مِّنۡهُمۡ كَمۡ لَبِثۡتُمۡ ؕ قَالُوۡا لَبِثۡنَا يَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ يَوۡمٍ‌ ؕ
ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا: تم (یہاں) کتنا عرصہ ٹھہرے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم (یہاں) ایک دن یا اس کا (بھی) کچھ حصہ ٹھہرے ہیں۔

309 سال گزر جانے کے باوجود انہیں یوں محسوس ہوا کہ ایک دن بھی نہیں گزرنے پایا اور ان کے اجسام پہلے کی طرح تروتازہ اور توانا رہے۔ 309 سال تک تک موت کی نیند سوئے رہنا اور پھر زندہ ہو جانے کا یہ خلافِ معمول واقعہ تو اصحابِ کہف پہ بیتا ہے مگر جو ذات اس سارے عرصے میں ان کی حفاظت کر رہی تھی وہ ذاتِ باری تعالیٰ ہی تھی۔ لہٰذا اگر ذاتِ باری تعالیٰ اصحابِ کہف کی خاطر زمان و مکاں کے اندر موجود اصول و ضوابط کو بدل سکتی ہے اور انہیں سالوں پر محیط عرصہ ایک دن یا اس سے بھی کم کا محسوس ہوتا ہے تو کیا وہی ذات حضور نبی مکرم ﷺ کو سالوں پر محیط سفرِ معراج رات کے ایک لمحے میں طے نہیں کروا سکتی؟

حضرتِ عزیر علیہ السلام کو اللہ رب العزت نے سو سال تک موت کی نیند سلائے رکھا اور جب اللہ کے حکم سے اٹھے تو کہنے لگے میں تو ایک دن یا اس سے کم حصہ یہاں ٹھہرا ہوں۔ آپ کے ساتھ جو کھانا موجود تھا وہ بالکل اسی طرح رہا جبکہ گدھے کی ہڈیاں بھی سلامت نہیں رہیں۔ پھر اللہ رب العزت نے ان کے سامنے گدھے کی ہڈیوں کو جوڑا پھر ان پر گوشت چڑھایا اور پھر اسے زندہ کر دیا۔ اللہ رب العزت کی اس طاقت و قدرت کا مشاہدہ کرنے پر حضرتِ عزیر علیہ السلام بے ساختہ بول اٹھے اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ (بیشک اﷲ ہر چیز پر خوب قادر ہے)۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 259
اَوۡ كَالَّذِىۡ مَرَّ عَلٰى قَرۡيَةٍ وَّ هِىَ خَاوِيَةٌ عَلٰى عُرُوۡشِهَا ‌ۚ قَالَ اَنّٰى يُحۡىٖ هٰذِهِ اللّٰهُ بَعۡدَ مَوۡتِهَا ‌ۚ فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗ ‌ؕ قَالَ كَمۡ لَبِثۡتَ‌ؕ قَالَ لَبِثۡتُ يَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ يَوۡمٍ‌ؕ قَالَ بَلۡ لَّبِثۡتَ مِائَةَ عَامٍ فَانۡظُرۡ اِلٰى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمۡ يَتَسَنَّهۡ‌ۚ وَانْظُرۡ اِلٰى حِمَارِكَ وَلِنَجۡعَلَكَ اٰيَةً لِّلنَّاسِ‌ وَانْظُرۡ اِلَى الۡعِظَامِ كَيۡفَ نُـنۡشِزُهَا ثُمَّ نَكۡسُوۡهَا لَحۡمًا ‌ؕ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهٗ ۙ قَالَ اَعۡلَمُ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ ۞
یا اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا) جو ایک بستی پر سے گزرا جو اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی تو اس نے کہا کہ اﷲ اس کی موت کے بعد اسے کیسے زندہ فرمائے گا، سو (اپنی قدرت کا مشاہدہ کرانے کے لئے) اﷲ نے اسے سو برس تک مُردہ رکھا پھر اُسے زندہ کیا، (بعد ازاں) پوچھا: تُو یہاں (مرنے کے بعد) کتنی دیر ٹھہرا رہا (ہے)؟ اس نے کہا: میں ایک دن یا ایک دن کا (بھی) کچھ حصہ ٹھہرا ہوں، فرمایا: (نہیں) بلکہ تُو سو برس پڑا رہا (ہے) پس (اب) تُو اپنے کھانے اور پینے (کی چیزوں) کو دیکھ (وہ) متغیّر (باسی) بھی نہیں ہوئیں اور (اب) اپنے گدھے کی طرف نظر کر (جس کی ہڈیاں بھی سلامت نہیں رہیں) اور یہ اس لئے کہ ہم تجھے لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانی بنا دیں اور (اب ان) ہڈیوں کی طرف دیکھ ہم انہیں کیسے جُنبش دیتے (اور اٹھاتے) ہیں پھر انہیں گوشت (کا لباس) پہناتے ہیں، جب یہ (معاملہ) اس پر خوب آشکار ہو گیا تو بول اٹھا: میں (مشاہداتی یقین سے) جان گیا ہوں کہ بیشک اﷲ ہر چیز پر خوب قادر ہے،

یہاں بھی غور طلب بات یہ ہے کہ اگر اللہ رب العزت کی عطا و توفیق سے حضرتِ عزیر علیہ السلام، سو سال پر محیط عرصہ ایک دن یا اس سے بھی کم وقت میں طے کر سکتے ہیں تو اسی ذات کی عطا کردہ طاقت و قوت سے حضور نبی مکرم ﷺ، مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ اور پھر عالمِ مکان و لامکاں تک کا سفر رات کے ایک لمحے میں طے کر لیں تو تعجب کیسا؟

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یدِ بیضا (سفید، روشن ہاتھ)، عصاء جیسے معجزات دیے گئے۔

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 101
وَلَقَدۡ اٰتَيۡنَا مُوۡسٰى تِسۡعَ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ‌۔
اور بیشک ہم نے موسٰی ؑ کو نو روشن نشانیاں دیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 107
فَاَلۡقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِىَ ثُعۡبَانٌ مُّبِيۡنٌ‌ ۞
پس موسٰی ؑ نے اپنا عصا (نیچے) ڈال دیا تو اسی وقت صریحاً اژدہا بن گیا،

القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 108
وَّنَزَعَ يَدَهٗ فَاِذَا هِىَ بَيۡضَآءُ لِلنّٰظِرِيۡنَ  ۞
اور اپنا ہاتھ (گریبان میں ڈال کر) نکالا تو وہ (بھی) اسی وقت دیکھنے والوں کے لئے (چمک دار) سفید ہوگیا۔

القرآن – سورۃ نمبر 28 القصص، آیت نمبر 32
اُسۡلُكۡ يَدَكَ فِىۡ جَيۡبِكَ تَخۡرُجۡ بَيۡضَآءَ مِنۡ غَيۡرِ سُوۡٓءٍ وَّاضۡمُمۡ اِلَيۡكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهۡبِ‌ فَذٰنِكَ بُرۡهَانٰنِ مِنۡ رَّبِّكَ اِلٰى فِرۡعَوۡنَ وَمَلَا۟ئِهٖؕ اِنَّهُمۡ كَانُوۡا قَوۡمًا فٰسِقِيۡنَ ۞
اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو وہ بغیر کسی عیب کے سفید چمک دار ہوکر نکلے گا اور خوف (دور کرنے کی غرض) سے اپنا بازو اپنے (سینے کی) طرف سکیڑ لو، پس تمہارے رب کی جانب سے یہ دو دلیلیں فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف (بھیجنے اور مشاہدہ کرانے کے لئے) ہیں، بیشک وہ نافرمان لوگ ہیں،

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بذاتِ خود معجزہ ہونا

القرآن – سورۃ نمبر 21 الأنبياء، آیت نمبر 91
وَالَّتِىۡۤ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَهَا فَـنَفَخۡنَا فِيۡهَا مِنۡ رُّوۡحِنَا وَ جَعَلۡنٰهَا وَابۡنَهَاۤ اٰيَةً لِّـلۡعٰلَمِيۡنَ‏ ۞
اس (پاکیزہ) خاتون (مریم علیہا السلام) کو بھی (یاد کریں) جس نے اپنی عفت کی حفاظت کی پھر ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور ہم نے اسے اور اس کے بیٹے (عیسٰی علیہ السلام) کو جہان والوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانی بنا دیا،

حضرت مریم علیہا السلام کو جب بن باپ کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت دی گئی تو آپ سراپا حیرت بن کر عرض کرتی ہیں:

القرآن – سورۃ نمبر 19 مريم، آیت نمبر 20
قَالَتۡ اَنّٰى يَكُوۡنُ لِىۡ غُلٰمٌ وَّلَمۡ يَمۡسَسۡنِىۡ بَشَرٌ وَّلَمۡ اَكُ بَغِيًّا ۞
(مریم علیہا السلام نے) کہا: میرے ہاں لڑکا کیسے ہوسکتا ہے جبکہ مجھے کسی انسان نے چھوا تک نہیں اور نہ ہی میں بدکار ہوں،

خوشخبری دینے والے فرشتے نے جواب دیا:

القرآن – سورۃ نمبر 19 مريم، آیت نمبر 21
قَالَ كَذٰلِكِ‌ ۚ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَىَّ هَيِّنٌ‌ ۚ وَلِنَجۡعَلَهٗۤ اٰيَةً لِّلنَّاسِ وَرَحۡمَةً مِّنَّا‌ ۚ وَكَانَ اَمۡرًا مَّقۡضِيًّا ۞
(جبرائیل علیہ السلام نے) کہا: (تعجب نہ کر) ایسے ہی ہوگا، تیرے رب نے فرمایا ہے: یہ (کام) مجھ پر آسان ہے، اور (یہ اس لئے ہوگا) تاکہ ہم اسے لوگوں کے لئے نشانی اور اپنی جانب سے رحمت بنادیں، اور یہ امر (پہلے سے) طے شدہ ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 49
وَرَسُوۡلًا اِلٰى بَنِىۡۤ اِسۡرٰٓءِيۡلَ ۙ اَنِّىۡ قَدۡ جِئۡتُكُمۡ بِاٰيَةٍ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ ۙۚ اَنِّىۡۤ اَخۡلُقُ لَـكُمۡ مِّنَ الطِّيۡنِ كَهَیْــئَةِ الطَّيۡرِ فَاَنۡفُخُ فِيۡهِ فَيَكُوۡنُ طَيۡرًاۢ بِاِذۡنِ اللّٰهِ‌‌ۚ وَاُبۡرِئُ الۡاَكۡمَهَ وَالۡاَبۡرَصَ وَاُحۡىِ الۡمَوۡتٰى بِاِذۡنِ اللّٰهِ‌ۚ وَ اُنَبِّئُكُمۡ بِمَا تَاۡكُلُوۡنَ وَمَا تَدَّخِرُوۡنَۙ فِىۡ بُيُوۡتِكُمۡ‌ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيَةً لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَۚ‏ ۞
اور وہ بنی اسرائیل کی طرف رسول ہو گا (ان سے کہے گا) کہ بیشک میں تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے ایک نشانی لے کر آیا ہوں میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی شکل جیسا (ایک پُتلا) بناتا ہوں پھر میں اس میں پھونک مارتا ہوں سو وہ اﷲ کے حکم سے فوراً اڑنے والا پرندہ ہو جاتا ہے، اور میں مادرزاد اندھے اور سفید داغ والے کو شفایاب کرتا ہوں اور میں اﷲ کے حکم سے مُردے کو زندہ کر دیتا ہوں، اور جو کچھ تم کھا کر آئے ہو اور جو کچھ تم اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو میں تمہیں (وہ سب کچھ) بتا دیتا ہوں، بیشک اس میں تمہارے لئے نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو،

معجزۂِ معراجِ مصطفیٰ ﷺ

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 1
سُبۡحٰنَ الَّذِىۡۤ اَسۡرٰى بِعَبۡدِهٖ لَيۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ اِلَى الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِىۡ بٰرَكۡنَا حَوۡلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنۡ اٰيٰتِنَا‌ ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيۡعُ الۡبَصِيۡرُ ۞
وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے،

یہاں بھی اگر غور کریں تو شبِ معراج کے معجزے کا اظہار بھلے حضور نبی مکرم ﷺ کی ذاتِ بابرکات سے ہوا ہے مگر جب اللہ رب العزت نے اسے بیان کیا تو اس کی نسبت اپنی طرف کی اور فرمایا سُبۡحٰنَ الَّذِىۡۤ اَسۡرٰى بِعَبۡدِهٖ لَيۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ اِلَى الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک۔ یعنی یہ دعویٰ تو خود اللہ رب العزت نے کیا ہے جو ساری کائنات اور اس کے اندر کارفرما ساری طاقتوں اور قدرتوں کا مالک ہے۔ جو ہر کمی، نقص اور عیب سے پاک ہے۔ وہ اگر چاہے تو ایک لفظِ “کن” کہہ کر حضور نبی مکرم ﷺ کو ساری کائنات کی سیر کروا دے۔ لہٰذا معجزۂِ معراجِ مصطفیٰ بھی دراصل طاقت و قدرتِ خداوندی کا اظہار ہے۔ اور اس کا انکار کرنا یا اس پر اعتراض کرنا گویا اللہ رب العزت کی طاقت و قدرت کا انکار کرنے کے مترادف ہے۔

ایک اور قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ ہر نبی اور رسول کو اللہ رب العزت نے اپنی طاقت اور قدرت کے ذریعے اُس زمانے کے تقاضوں کے مطابق معجزات عطا فرمائے جن کو دیکھ کر عقلِ انسانی دنگ رہ گئی۔ حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کے لیے ذبح شدہ پرندوں کا زندہ ہو کر آپ کی طرف آجانا، اسی طرح آپ کی خاطر نارِ نمرود کا گل و گلزار بن جانا، حضرتِ صالح علیہ السلام کا پہاڑ پر چھڑی مارنا اور اس میں سے اونٹنی کا نمودار ہو جانا، حضرتِ سلیمان علیہ السلام کی خاطر ہوا کا مسخر ہو جانا، حضرتِ سلیمان علیہ السلام کے صحابی حضرت آصف برخیا کا پلک جھپکنے میں ملکہ بلقیس کا تخت دربار میں حاضر کر دینا، حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کا دربارِ فرعون میں عصاء پھینکنا اور اس عصاء کا اژدھا بن کر جادوگروں کے سانپوں کو نگل جانا، حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کا مادر زاد اندھوں کو بینا کر دینا، مردوں کو اللہ کے حکم سے زندہ کر دینا، اور حضور نبی مکرم ﷺ کا شبِ معراج مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ اور پھر ساتوں آسمانوں سے ہوتے ہوئے سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا پھر مقامِ دنیٰ، فتدلّٰی، قاب قوسین او ادنیٰ کے مقام پر پہنچ کر قربت و وصالِ الٰہیہ سے فیضیاب ہونا، پھر اس لذتِ وصال کو چھوڑ کر امت کی خاطر واپس پلٹ آنا، یہ سب معجزات اللہ رب العزت کی طاقت و قدرت کا عظیم الشان مظہر ہیں جن کو سمجھنے سے عقلِ انسانی آج بھی قاصر ہے۔ کیونکہ معجزہ کہتے ہی اس واقعے کو ہیں جس کو سمجھنے سے عقلِ انسانی عاجز آ جائے۔ لہٰذا معجزاتِ انبیاء و رسل کو عقل کے پیمانوں پر تول کر رد کرنے کے بجائے اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ یہ معجزات اللہ رب العزت کی عطاء سے انبیاء و رسل کی ذواتِ مقدسہ سے ظاہر ہوتے ہیں اور ان کے پیچھے اصل طاقت و قوت پروردگارِ عالم کی ہوتی ہے۔ جب اس انداز سے معجزاتِ انبیاء کو دیکھا جائے تو انکار و اعتراضات کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔

گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے، منزل نہیں ہے
اقبال

یہاں یہ نقطہ بھی قابلِ ذکر ہے جس کو مختلف علمائے کرام نے بیان کیا ہے کہ ہر نبی اور رسول کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کے تقاضوں کے مطابق معجزات عطا فرمائے۔ مثلاً حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کے دور میں جادوگری کا فن اپنے عروج پر تھا اس لیے جب دربارِ فرعون میں جادوگروں کی رسیاں سانپ بن گئیں تو ان جادوگروں کے جادو کا توڑ کرنے کے لیے اللہ رب العزت نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اپنا عصاء زمین پر پھینکیں۔ جب آپ نے عصاء زمین پر پھینکا تو وہ ایک بڑا اژدھا بن کر سارے سانپوں کو نگل گیا جس سے جادوگر پکار اٹھے کہ ہم موسیٰ کے رب پر ایمان لاتے ہیں۔ حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں طب کا فن اپنے عروج پر تھا۔ تو حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ رب العزت نے یہ معجزہ عطاء کیا تھا کہ آپ مادر زاد اندھوں کو بینا کر دیتے تھے اور مردوں کو اللہ کے حکم سے زندہ کر دیتے تھے۔ اسی طرح حضور نبی مکرم ﷺ چونکہ قیامت تک کے انسانوں کے لیے رسولِ رحمت بن کر تشریف لائے ہیں تو اللہ رب العزت کو علم تھا کہ یہ دور خلائی تحقیق کا دور ہوگا، لوگ چاند کو مسخر کریں گے، مریخ اور دوسرے سیاروں پر رہائش اختیار کرنے کی تگ و دو کر رہے ہوں گے اور انہیں اپنی ان خلائی تحقیقات پر بڑا ناز ہوگا تو اس لیے اللہ رب العزت نے حضور نبی مکرم ﷺ کو رات کے ایک لمحے میں مکان و لامکاں کی سیر کروا کر یہ ثابت کر دیا کہ اے انسان تیرا علم اور تیری پرواز جتنی مرضی ترقی کرلے میرے حبیب کی پرواز کی گرد تک بھی نہیں پہنچ سکتی۔ تو ابھی کچھ سیاروں تک پہنچا ہے اور اس پر بڑا فخر کرتا ہے مگر مصطفیٰ نے شبِ معراج ساری کائنات اور عالمِ مکان و لامکاں کا سفر ایک لمحے میں طے کر لیا ہے۔

“خلائی سفر پر روانگی کے دوران کرۂ ہوائی (atmosphere) سے باہر نکلنے کے لیے کم از کم 40,000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار درکار ہوتی ہے۔”

“روشنی 1,86,000 میل (تین لاکھ کلومیٹر) فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے اور سائنس کی زبان میں اس قدر رفتار کا حصول کسی بھی مادی شئے کے لیے محال ہے۔”
(کتاب: فلسفہ معراج النبی ﷺ)

حضور نبی مکرم ﷺ کا شبِ معراج اس رفتار کے ساتھ سفر کرنا کہ جس کو سمجھنے سے عقلِ انسانی اور سائنس بھی قاصر ہے بلاشبہ یہ قدرتِ خداوندی اور معجزاتِ نبوی ﷺ کا ایک عظیم الشان مظہر ہے۔

سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفیٰ سے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں
علامہ محمد اقبال

معجزہ کسے کہتے ہیں؟ جمعۃ المبارک، 03 شعبان 1444ھ، بمطابق 24 فروری 2023ء

لفظِ معجزہ کا لغوی معنیٰ:

لفظِ معجزہ کا مادۂِ اشتقاق: عَجِزَ، یَعْجَزُ، عَجْزًا ہے۔ جس کے معنیٰ: “کسی چیز پر قادِر نہ ہونا”، “کسی کام کی طاقت نہ رکھنا” یا “کسی امر سے عاجز آجانا” وغیرہ ہیں۔ محاورۂِ عرب میں کہتے ہیں: “عَجِزَ فُلَانٌ عَنِ الْعَمَلِ” یعنی “فلاں آدمی وہ کام کرنے سے عاجز آگیا”۔ أی کبر و صار لا یستطیعہ فھو عاجزٌ (المنجد:488)

امام راغب اصفہانی، المفردات میں فرماتے ہیں:
“والعجز أصلہ التّأخر عن الشئ، و حصولہ عند عجز الأمر، أی: مؤخرہ ۔۔۔۔ و صار فی التعارف اِسماً للقصور عن فعل الشئ، وھو ضد القدرۃ۔”
“عجز” کے اصلی معنی کسی چیز سے پیچھے رہ جانے یا اس کے ایسے وقت میں حاصل ہونے کے ہیں جبکہ اس کا وقت نکل چکا ہو۔۔۔۔ عام طور پر یہ لفظ کسی کام کے کرنے سے قاصر رہ جانے پر بولا جاتا ہے اور یہ “القدرۃ” کی ضد ہے۔

لفظِ معجزہ کا مفہوم:

“امر خارق العادۃ یعجز البشر عن ان یأتو بمثلہ”
معجزہ اس خارق العادت چیز کو کہتے ہیں جس کی مثل لانے سے فردِ بشر عاجز آجائے۔ (المنجد)

الشفاء میں قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“اِعلم ان معنیٰ تسمیتنا ما جاءت بہ الانبیاء معجزۃ ھو ان الخلق عجزوا عن الاتیان بمثلھا”
یہ بات بخوبی جان لینی چاہیے کہ جو کچھ انبیاء علیہم السلام اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں اسے ہم نے معجزے کا نام اس لیے دیا ہے کہ مخلوق اس کی مثل لانے سے عاجز ہوتی ہے۔ (الشفاء، 1: 349)

“المعجزۃ عبارۃٌ عن اظہار قدرہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ و حکمتہ علٰی ید نبی مرسل بین امتہ بحیث یعجز اھل عصرہ عن اِیراد مثلھا”
معجزہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کا اس کے برگزیدہ نبی کے دستِ مبارک پر اظہار ہے تاکہ وہ اپنی امت اور اہلِ زمانہ کو اس کی مثل لانے سے عاجز کر دے۔
(معارج النبوۃ، 4: 377)

ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی اپنی کتاب فلسفہ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں لکھتے ہیں:

“رسولانِ مکرم اور انبیائے محتشم کے دستِ حق پرست پر قدرتِ خداوندی سے رونما ہونے والے ماورائے عقل واقعات کو ‘معجزہ’ کہتے ہیں”۔ خارق العادت افعال کی وضاحت کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں:

وہ افعال جو معمول سے ہٹ کر بلکہ خلافِ معمول ہوتے ہیں اور ان کی کامل توجیہہ کسی طور پر بھی ممکن نہیں ہوتی۔ انہیں خارقِ عادت افعال کہا جاتا ہے۔ یہ خارقِ عادت افعال چار اقسام کے ہوتے ہیں:

1) معجزہ: انبیاء و رسل سے جب (اللہ تعالٰی کی عطا و توفیق سے) کوئی خارقِ عادت واقعہ صادر ہوتا ہے تو اسے معجزہ کہتے ہیں۔ جیسے حضور نبی مکرم ﷺ کو معجزہ معراج اور دیگر کئی معجزات عطاء کیے گئے۔

2) ارھاص: وہ خارقِ عادت واقعہ جو کسی نبی یا رسول کی ولادت کے وقت یا پیدائش مبارکہ سے پہلے ہوتا ہے، اسے ارھاص کہتے ہیں۔ مثلاً جس سال حضور سرورِ کائنات علیہ الصلاۃ والسلام کی ولادت باسعادت ہوئی، اس سال آمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے پورے شہرِ مکہ میں کسی کے ہاں لڑکی پیدا نہ ہوئی بلکہ ربِ کائنات نے سب کو بیٹے عطا فرمائے۔

3) کرامت: وہ خارقِ عادت افعال جو مومنین، صالحین اور اولیائے کرام کے ہاتھوں صادر ہوتے ہیں، انہیں کرامت کہتے ہیں۔ مثلاً سیدنا سلیمان علیہ السلام کے صحابی حضرت آصف برخیا کا پلک جھپکنے سے پہلے ملکۂ سبا کا تخت آپ کی خدمت میں پیش کر دینا۔

4) استدراج: وہ خارقِ عادت افعال جو کسی کافر، مشرک، فاسق، فاجر اور ساحر کے ہاتھ سے صادر ہوں، انہیں استدراج کہتے ہیں۔ مثلاً سامری جادوگر نے سونے کا بچھڑا بنا کر اس کے منہ سے آواز پیدا کرلی جس کے نتیجے میں بنی اسرائیل نے اس کی پرستش شروع کر دی۔

آپ مزید فرماتے ہیں:

“معجزہ کہتے ہی اس امر کو ہیں جو عقل کی جملہ صلاحیتوں کو عاجز کردے۔”

مندرجہ بالا وضاحت سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ معجزہ در حقیقت کہتے ہی اس فعل کو ہیں جس کو سمجھنے سے عقلِ انسانی قاصر ہو۔ اور جس کی مثال یا نظیر لانے سے مخلوق عاجز ہو۔ یہ خاص اللہ رب العزت کی توفیق اور عطا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں اور نبیوں کو معجزات عطاء کرتے ہیں تاکہ ان کی حقانیت ثابت ہوسکے۔

معجزہ اس عمل یا واقعہ کو کہتے ہیں جس میں تین خصوصیات پائی جاتی ہوں:
1) وہ واقعہ خارق العادت ہو یعنی خلافِ معمول ہو۔
2) اس کو سمجھنے سے عقلِ انسانی عاجز آجائے۔
3) اس کی نظیر یا مثل پیش کرنے سے انسان عاجز آجائے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 7274
‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ نَبِيٌّ إِلَّا أُعْطِيَ مِنَ الْآيَاتِ مَا مِثْلُهُ، ‏‏‏‏‏‏أُومِنَ أَوْ آمَنَ عَلَيْهِ الْبَشَرُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا كَانَ الَّذِي أُوتِيتُ وَحْيًا أَوْحَاهُ اللَّهُ إِلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْجُو أَنِّي أَكْثَرُهُمْ تَابِعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا انبیاء میں سے کوئی نبی ایسا نہیں جن کو کچھ نشانیاں (یعنی معجزات) نہ دئیے گئے ہوں جن کے مطابق ان پر ایمان لایا گیا (آپ ﷺ نے فرمایا کہ) انسان ایمان لائے اور مجھے جو بڑا معجزہ دیا گیا وہ قرآن مجید ہے جو اللہ نے میری طرف بھیجا، پس میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن شمار میں تمام انبیاء سے زیادہ پیروی کرنے والے میرے ہوں گے۔

قرآن بذاتِ خود ایک معجزہ ہے:
جس دور میں حضور نبی مکرم ﷺ کا ظہور ہوا ہے اس دور میں فصاحت و بلاغت کے ساتھ کلام کرنے کا فن عروج پر تھا۔ اہلِ عرب کو اپنی زبان اور کلام پر اتنا ناز اور فخر تھا کہ اپنے آپ کو عرب (اہلِ زبان یعنی واضح اور فصیح کلام کرنے والے) کہتے تھے اور دوسری زبانیں بولنے والوں کو عجم (گونگا) کہتے تھے۔ اس دور میں قرآن اپنے اندر فصاحت و بلاغت لیے ہوئے حضور نبی مکرم ﷺ کی زبان پر جاری ہوا۔

اب جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا کہ معجزہ اس چیز کو کہتے ہیں جس کے اندر مزکورہ بالا تین خصوصیات پائی جاتی ہوں۔ تو اگر قرآنِ مجید پر غور کریں تو 1) خلافِ معمول بات یہ تھی کہ یہ کلام اس شخص کی زبان سے جاری ہو رہا ہے جو کسی مدرسے یا مکتب کا پڑھا ہوا نہیں ہے۔ اگر کوئی پڑھا لکھا انسان اس طرح کا کلام کرتا تو کوئی تعجب کی بات نہ ہوتی مگر یہ کلام کرنے والا انسان خود امی لقب سے مشہور ہے۔ 2) اُس دور کے لوگوں کی عقل اس بات کو سمجھنے سے عاجز آگئی کہ یہ کلام کوئی امی لقب شخص کیسے کر سکتا ہے؟ 3) قرآن میں اللہ رب العزت نے خود یہ کھلا چیلنج دے دیا کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ یہ کسی بشر کا کلام ہے تو آؤ اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا کر لے آؤ۔

القرآن – سورۃ نمبر 10 يونس، آیت نمبر 38
اَمۡ يَقُوۡلُوۡنَ افۡتَـرٰٮهُ‌ ؕ قُلۡ فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَةٍ مِّثۡلِهٖ وَادۡعُوۡا مَنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ ۞
کیا وہ کہتے ہیں کہ اسے رسول ﷺ نے خود گھڑ لیا ہے، آپ فرما دیجئے: پھر تم اس کی مثل کوئی (ایک) سورت لے آؤ (اور اپنی مدد کے لئے) اللہ کے سوا جنہیں تم بلاسکتے ہو بلا لو اگر تم سچے ہو،

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 23
وَاِنۡ کُنۡتُمۡ فِىۡ رَيۡبٍ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلٰى عَبۡدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَةٍ مِّنۡ مِّثۡلِهٖ وَادۡعُوۡا شُهَدَآءَكُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ‏ ۞
اور اگر تم اس (کلام) کے بارے میں شک میں مبتلا ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ، اور (اس کام کے لئے بیشک) اللہ کے سوا اپنے (سب) حمائتیوں کو بلا لو اگر تم (اپنے شک اور انکار میں) سچے ہو،

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 88
قُلْ لَّئِنِ اجۡتَمَعَتِ الۡاِنۡسُ وَالۡجِنُّ عَلٰٓى اَنۡ يَّاۡتُوۡا بِمِثۡلِ هٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لَا يَاۡتُوۡنَ بِمِثۡلِهٖ وَلَوۡ كَانَ بَعۡضُهُمۡ لِبَعۡضٍ ظَهِيۡرًا‏ ۞
فرما دیجئے: اگر تمام انسان اور جنّات اس بات پر جمع ہو جائیں کہ وہ اس قرآن کے مثل (کوئی دوسرا کلام بنا) لائیں گے تو (بھی) وہ اس کی مثل نہیں لاسکتے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 24
فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا وَلَنۡ تَفۡعَلُوۡا فَاتَّقُوۡا النَّارَ الَّتِىۡ وَقُوۡدُهَا النَّاسُ وَالۡحِجَارَةُ ۖۚ اُعِدَّتۡ لِلۡكٰفِرِيۡنَ ۞
پھر اگر تم ایسا نہ کر سکو اور ہرگز نہ کر سکو گے تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی (یعنی کافر) اور پتھر (یعنی ان کے بت) ہیں، جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے،

یہاں اللہ رب العزت نے کفار و مشرکین کو کھلا چیلنج دیا ہے کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ یہ قرآن معاذاللہ رسول مکرم ﷺ نے خود گھڑ لیا ہے تو اس کی مثل کوئی ایک سورت ہی لے آؤ۔ چونکہ انسان اپنے تمام تر وسائل اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر بھی قرآن کی مثل ایک سورت، آیت یا جملہ بنانے سے عاجز ہے لہٰذا قرآن، حضور نبی مکرم ﷺ کا ایک دائمی معجزہ ہے جو اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کو عطاء کیا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس معجزۂِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعنی قرآنِ مجید کو سیکھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

فضیلت و اہمیتِ علم – جمعۃ المبارک، 25 رجب 1444ھ، بمطابق 17 فروری 2023ء

ابتدا ہے رب کریم کے نام سے جو آنکھوں کی خیانت کو بھی جاننے والا ہے اور جو سینوں میں چھپی ہوئی باتوں کو بھی جاننے والا ہے۔

علم کے معنی ہیں جاننا۔ جاننے والے کو عالم (جمع علماء) کہتے ہیں اور جس طریقۂِ کار کے ذریعے انسان کو علم حاصل کرنے کے قابل بنایا جاتا ہے اسے تعلیم کہتے ہیں۔ علم کی اہمیت اور فضیلت کے حوالے سے آج ہم مندرجہ ذیل دو پہلوؤں پر گفتگو کریں گے۔

علم سیکھنا، پہلا حکمِ قرآن ہے

القرآن – سورۃ نمبر 96 العلق، آیت نمبر 5-1
اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّكَ الَّذِىۡ خَلَقَ‌ۚ ۞ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ عَلَقٍ‌ۚ‏ ۞ اِقۡرَاۡ وَرَبُّكَ الۡاَكۡرَمُۙ ۞ الَّذِىۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِۙ ۞ عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ يَعۡلَمۡؕ ۞
(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا، اس نے انسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلّق وجود سے پیدا کیا، پڑھیئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا، جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔

اللہ رب العزت نے اپنے کلام، قرآنِ مجید کی ابتدا علم کے موضوع سے کی۔ علم حاصل کرنے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کے اندر پہلا حکم جو اپنے حبیبِ مکرم ﷺ کو دیا اور ان کے ذریعے ہم انسانوں کو دیا ہے وہ علم سیکھنے کے متعلق ہے، فرمایا اِقْرَأ (پڑھ)۔ یعنی اے انسان اگر تو اپنی پیدائش کے مقصد کو پہچاننا چاہتا ہے، اپنے خالقِ حقیقی کی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہے اور اگر تو اس دنیا اور آخرت کی زندگی میں کامیاب ہونا چاہتا ہے تو پڑھ، تاکہ تجھے علم حاصل ہو سکے کہ تیری تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ تجھے اس دنیا میں کیوں بھیجا گیا ہے؟ تیرا پیدا کرنے والا کون ہے؟ اور کونسے کام ہیں جن کے کرنے سے تجھے حقیقی کامیابی ملے گی۔

لکھنا نہیں آتا تو مری جان پڑھا کر
ہو جائے گی مشکل تری آسان پڑھا کر
لا ریب تری روح کو تسکین ملے گی
تو کرب کے لمحات میں قرآن پڑھا کر
پڑھنے کے لیے تجھ کو اگر کچھ نہ ملے تو
چہروں پہ لکھے درد کے عنوان پڑھا کر
اللہ نے کیا کیا تجھے نعمت نہیں بخشی
فرصت جو ملے سورۂِ رحمان پڑھا کر
بے علم کوئی قوم ترقی نہیں کرتی
اس قوم میں ہے علم کا فقدان، پڑھا کر
آجائے گا آصف تجھے جینے کا قرینہ
تو سرورِ کونین کے فرمان پڑھا کر
(ڈاکٹر آصف راز پراچہ)

علم کی وجہ سے ہی انسان کو خلافتِ الٰہیہ کا منصب ملا ہے۔

اللہ رب العزت نے جب انسان کو زمین میں اپنا نائب (خلیفہ) مقرر کرنے کا ارادہ فرمایا تو اپنے اس ارادے کو ملائکہ کے سامنے پیش کیا۔ ملائکہ نے عرض کی یا باری تعالیٰ یہ انسان تو زمین میں فساد انگیزی اور خونریزی کرے گا۔ فرشتوں کے اس اعتراض کے جواب میں اللہ رب العزت نے انسان کی جس خوبی یا صفت کا تذکرہ کیا ہے وہ “علم” ہے۔ فرمایا:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 31
وَعَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمۡ عَلَى الۡمَلٰٓئِكَةِ فَقَالَ اَنۡۢبِـئُوۡنِىۡ بِاَسۡمَآءِ هٰٓؤُلَآءِ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ‏ ۞
اور اللہ نے آدم ؑ کو تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیئے پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا، اور فرمایا: مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو اگر تم (اپنے خیال میں) سچے ہو،

تو گویا اللہ رب العزت نے اپنے نامزد کردہ خلیفہ یعنی انسان کا تعارف کروانے کے لیے اس کو عطا کردہ صفتِ علم کا تذکرہ کیا۔ اللہ کی ذات تو بڑی بے نیاز ہے، وہ چاہتا تو انسان کی کسی اور صفت کو بھی انسان کے تعارف کے طور پر بیان کر سکتا تھا مگر اس نے خلافت کا اہل ہونے کے لیے جس صفت کا انتخاب کیا ہے وہ “علم” ہے۔ اشارہ اس طرف تھا کہ اس زمین میں جو میرا نائب اور خلیفہ ہوگا وہ اہلِ علم ہوگا اور علم ہی وہ صفت ہے جس سے اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کا نظامِ خلافت نافذ ہو سکتا ہے۔ تو اگر تم حقیقتاً اللہ کے نائب اور خلیفہ بننا چاہتے ہو تو پھر علم اور صاحبانِ علم کے ساتھ جڑ جاؤ۔ علم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لو۔ علم حاصل کرو اور اسے دوسروں تک پہنچاؤ کیونکہ یہی وہ راز ہے جس کے ذریعے انسان دنیا اور آخرت کی کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔

قرآن کے نزدیک، علم والے ہی حکومت و سرداری کے اہل ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 247
وَقَالَ لَهُمۡ نَبِيُّهُمۡ اِنَّ اللّٰهَ قَدۡ بَعَثَ لَـکُمۡ طَالُوۡتَ مَلِكًا ‌ؕ قَالُوۡٓا اَنّٰى يَكُوۡنُ لَهُ الۡمُلۡكُ عَلَيۡنَا وَنَحۡنُ اَحَقُّ بِالۡمُلۡكِ مِنۡهُ وَلَمۡ يُؤۡتَ سَعَةً مِّنَ الۡمَالِ‌ؕ قَالَ اِنَّ اللّٰهَ اصۡطَفٰٮهُ عَلَيۡکُمۡ وَزَادَهٗ بَسۡطَةً فِى الۡعِلۡمِ وَ الۡجِسۡمِ‌ؕ وَاللّٰهُ يُؤۡتِىۡ مُلۡکَهٗ مَنۡ يَّشَآءُ ‌ؕ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيۡمٌ ۞
اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا: بیشک اﷲ نے تمہارے لئے طالوت کو بادشاہ مقرّر فرمایا ہے، تو کہنے لگے کہ اسے ہم پر حکمرانی کیسے مل گئی حالانکہ ہم اس سے حکومت (کرنے) کے زیادہ حق دار ہیں اسے تو دولت کی فراوانی بھی نہیں دی گئی، (نبی نے) فرمایا: بیشک اﷲ نے اسے تم پر منتخب کر لیا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ کشادگی عطا فرما دی ہے، اور اﷲ اپنی سلطنت (کی امانت) جسے چاہتا ہے عطا فرما دیتا ہے، اور اﷲ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہے،

علم باعثِ بلندئِ درجات ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 58 المجادلة, آیت نمبر 11
وَالَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ ‌ؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ ۞
اللہ اُن لوگوں کے درجات بلند فرما دے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم سے نوازا گیا، اور اللہ اُن کاموں سے جو تم کرتے ہو خوب آگاہ ہے،

صحیح علم کے بغیر عمل کرنے پر بازپرس ہوگی:

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 36
وَلَا تَقۡفُ مَا لَـيۡسَ لَـكَ بِهٖ عِلۡمٌ‌ ؕ اِنَّ السَّمۡعَ وَالۡبَصَرَ وَالۡفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۤئِكَ كَانَ عَنۡهُ مَسۡئُوۡلًا ۞
اور (اے انسان!) تو اس بات کی پیروی نہ کر جس کا تجھے (صحیح) علم نہیں، بیشک کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے باز پرس ہوگی،

القرآن – سورۃ نمبر 10 يونس، آیت نمبر 89
وَلَا تَتَّبِعٰٓنِّ سَبِيۡلَ الَّذِيۡنَ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ۞
اور ایسے لوگوں کے راستہ کی پیروی نہ کرنا جو علم نہیں رکھتے،

ہدایت اور خشیت علم ہی سے ملتی ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 107
قُلۡ اٰمِنُوۡا بِهٖۤ اَوۡ لَا تُؤۡمِنُوۡٓا‌ ؕ اِنَّ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ مِنۡ قَبۡلِهٖۤ اِذَا يُتۡلٰى عَلَيۡهِمۡ يَخِرُّوۡنَ لِلۡاَذۡقَانِ سُجَّدًا ۙ ۞
فرما دیجئے: تم اس پر ایمان لاؤ یا ایمان نہ لاؤ، بیشک جن لوگوں کو اس سے قبل علمِ (کتاب) عطا کیا گیا تھا جب یہ (قرآن) انہیں پڑھ کر سنایا جاتا ہے وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں،

اِنَّمَا یَخۡشَی اللّٰہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمٰٓؤُا۔
بس اللہ کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔
(القرآن، 35، 28)

علم سیکھنے اور سکھانے کی فضیلت۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 243
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ أَفْضَلُ الصَّدَقَةِ أَنْ يَتَعَلَّمَ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ عِلْمًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُعَلِّمَهُ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ.
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سب سے بہتر اور افضل صدقہ یہ ہے کہ کوئی مسلمان علم سیکھے، پھر اسے اپنے مسلمان بھائی کو سکھائے ۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 203
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةِ أَشْيَاءَ: صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أوعلم ينْتَفع بِهِ أوولد صَالح يَدْعُو لَهُ۔
جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو تین کاموں کے سوا اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے۔ 1) صدقہ جاریہ، 2) وہ علم جس سے استفادہ کیا جائے اور 3) نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 279
ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا:
تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ وَعَلِّمُوهُ النَّاسَ تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ وَعَلِّمُوهَا النَّاسَ تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ وَعَلِّمُوهُ النَّاسَ فَإِنِّي امْرُؤٌ مَقْبُوضٌ وَالْعِلْمُ سَيُقْبَضُ وَتَظْهَرُ الْفِتَنُ حَتَّى يَخْتَلِفَ اثْنَانِ فِي فَرِيضَةٍ لَا يَجِدَانِ أَحَدًا يَفْصِلُ بَيْنَهُمَا»
’علم سیکھو اور اسے دوسروں کو سکھاؤ، فرائض (علم میراث) سیکھو اور اسے لوگوں کو سکھاؤ، قرآن سیکھو اور اسے لوگوں کو سکھاو، کیونکہ میری روح قبض کر لی جائے گی، اور (میرے بعد) علم بھی اٹھا لیا جائے گا، فتنے ظاہر ہو جائیں گے، حتیٰ کہ دو آدمی کسی فریضہ میں اختلاف کریں گے لیکن وہ اپنے درمیان فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں پائیں گے۔‘‘

علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے:

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 218
انس ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ وَوَاضِعُ الْعِلْمِ عِنْدَ غير أَهله كمقلد الْخَنَازِير الْجَوْهَر واللؤلؤ وَالذَّهَبَ» .
طلب علم ہر مسلمان پر فرض ہے، کسی ایسے شخص کو پڑھانے والا جو اس کی اہلیت نہ رکھتا ہو، خنزیروں کے گلے میں ہیرے جواہرات اور سونے کے ہار ڈالنے والے کی طرح ہے۔

علم کی بات چھپانے پر وعید:

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 223
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
من سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَهُ ثُمَّ كَتَمَهُ أُلْجِمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ۔
’جس شخص سے علم کی کوئی بات پوچھی جائے، جسے وہ جانتا ہو، پھر وہ اسے چھپائے تو روز قیامت اسے آگ کی لگام ڈالی جائے گی۔

علمِ قرآن کا حامل شخص قیامت کے دن شفاعت کرے گا۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2905
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَاسْتَظْهَرَهُ فَأَحَلَّ حَلَالَهُ وَحَرَّمَ حَرَامَهُ أَدْخَلَهُ اللَّهُ بِهِ الْجَنَّةَ، ‏‏‏‏‏‏وَشَفَّعَهُ فِي عَشْرَةٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ كُلُّهُمْ قَدْ وَجَبَتْ لَهُ النَّارُ۔
علی بن ابی طالب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے قرآن پڑھا اور اسے پوری طرح حفظ کرلیا، جس چیز کو قرآن نے حلال ٹھہرایا اسے حلال جانا اور جس چیز کو قرآن نے حرام ٹھہرایا اسے حرام سمجھا تو اللہ اسے اس قرآن کے ذریعہ جنت میں داخل فرمائے گا۔ اور اس کے خاندان کے دس ایسے لوگوں کے بارے میں اس (قرآن) کی سفارش قبول کرے گا جن پر جہنم واجب ہوچکی ہو گی۔

قرآن سیکھنے اور سکھانے والوں کو اللہ کی رحمت ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ ان کا ذکر ملائکہ کی مجلس میں فرماتا ہے۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6853
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ سَلَکَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَی الْجَنَّةِ وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ يَتْلُونَ کِتَابَ اللَّهِ وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمْ السَّکِينَةُ وَغَشِيَتْهُمْ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمْ الْمَلَائِکَةُ وَذَکَرَهُمْ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص ایسے راستے پر چلا جس میں علم کی تلاش کرتا ہو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان فرما دیتے ہیں اور جو لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتے اور اس کی تعلیم میں مصروف ہوتے ہیں ان پر سکینہ نازل ہوتی ہے اور رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ ان کا ذکر اپنے پاس موجود فرشتوں میں کرتے ہیں۔

علم کی اقسام:

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 271
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: «حَفِظْتُ مِنْ رسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وِعَاءَيْنِ فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهُ فِيكُمْ وَأَمَّا الْآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهُ قُطِعَ هَذَا الْبُلْعُومُ يَعْنِي مجْرى الطَّعَام»
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺ سے (علم کے) دو ظروف یاد کیے، ان میں سے ایک میں نے تمہارے درمیان نشر کر دیا، رہی دوسری قسم تو اگر میں اسے نشر کردوں تو میرا گلا کاٹ دیا جائے۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 238
ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أُنْزِلَ الْقُرْآنُ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ لِكُلِّ آيَةٍ مِنْهَا ظَهْرٌ وَبَطْنٌ وَلِكُلِّ حَدٍّ مَطْلَعٌ۔
قرآن سات قراءتوں میں نازل کیا گیا، اس میں سے ہر آیت کا ظاہر اور باطن ہے، اور ہر سطح کا مفہوم سمجھنے کے لیے مناسب استعداد کی ضرورت ہے۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 239
الْعِلْمُ ثَلَاثَةٌ: آيَةٌ مُحْكَمَةٌ أَوْ سُنَّةٌ قَائِمَةٌ أَوْ فَرِيضَةٌ عَادِلَةٌ وَمَا كَانَ سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ فضل۔
علم تین ہیں: آیت محکمہ یا سنت ثابتہ یا فریضہ عادلہ (ہر وہ فرض جس کی فرضیت پر مسلمانوں کا اجماع ہے) اور جو اس کے سوا ہو وہ افضل ہے۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 270
وَعَن الْحسن قَالَ: «الْعِلْمُ عِلْمَانِ فَعِلْمٌ فِي الْقَلْبِ فَذَاكَ الْعلم النافع وَعلم على اللِّسَان فَذَاك حُجَّةُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى ابْنِ آدَمَ»
حسن بصری ؒ بیان کرتے ہیں: علم کی دو اقسام ہیں، ایک علم دل میں ہے، وہ علم نفع مند ہے، اور ایک علم زبان پر ہے، وہ اللہ عزوجل کی ابن آدم کے خلاف حجت ہو گی۔

علمِ دین کی تجدید و احیاء:

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 247
وَعَنْهُ فِيمَا أَعْلَمُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةٍ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا» .
راوی حدیث ابوعلقمہ بیان کرتے ہیں کہ میری معلومات کے مطابق ابوہریرہ ؓ اسے رسول اللہ ﷺ سے مرفوع روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ اللہ عزوجل اس امت کے لیے ہر سو سال کے آخر پر کسی ایسے شخص کو بھیجے گا جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا۔‘‘

علم والا سب سے بڑا سخی ہے:

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 259
هَلْ تَدْرُونَ مَنْ أَجْوَدُ جُودًا؟» قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: «اللَّهُ تَعَالَى أَجْوَدُ جُودًا ثُمَّ أَنَا أَجْوَدُ بَنِي آدَمَ وَأَجْوَدُهُمْ مِنْ بَعْدِي رَجُلٌ عَلِمَ عِلْمًا فَنَشَرَهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَمِيرًا وَحده أَو قَالَ أمة وَحده۔
کیا تم جانتے ہو سب سے بڑا سخی کون ہے؟‘‘ صحابہ نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ سب سے بڑا سخی ہے، پھر اولاد آدم میں سب سے بڑا سخی میں ہوں، اور میرے بعد وہ شخص سخی ہے جس نے علم حاصل کیا اور اسے نشر کیا، روز قیامت وہ اس حیثیت سے آئے گا کہ وہ اکیلا ہی امیر ہو گا۔‘‘ یا فرمایا:’’ اکیلا ہی ایک امت ہو گا۔‘‘

اہلِ علم کون ہیں:

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 266
سفیان الثوری ؒ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب ؓ نے کعب ؓ سے پوچھا:
مَنْ أَرْبَابُ الْعِلْمِ؟ قَالَ: الَّذِي يَعْمَلُونَ بِمَا يَعْلَمُونَ. قَالَ: فَمَا أَخْرَجَ الْعِلْمَ مِنْ قُلُوبِ الْعُلَمَاءِ؟ قَالَ الطَّمَعُ.
اہل علم کون ہیں؟ انہوں نے کہا: جو اپنے علم کے مطابق عمل کرتے ہیں، پھر پوچھا: کون سی چیز علما کے دلوں سے علم نکال دیتی ہے؟ انہوں نے کہا: (دنیا کا) طمع۔

متفرق فضائلِ علم:

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 3641
حضرت ابوالدرداء نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے:
مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا مِنْ طُرُقِ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ الْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ وَالْحِيتَانُ فِي جَوْفِ الْمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ فَضْلَ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ الْأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا وَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ.
جو شخص طلب علم کے لیے راستہ طے کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اسے جنت کی راہ چلاتا ہے اور فرشتے طالب علم کی بخشش کی دعا کرتے ہیں یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں دعائیں کرتی ہیں، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہی ہے جیسے چودھویں رات کی تمام ستاروں پر، اور علماء انبیاء کے وارث ہیں، اور نبیوں نے اپنا وارث درہم و دینار کا نہیں بنایا بلکہ علم کا وارث بنایا تو جس نے علم حاصل کیا اس نے ایک وافر حصہ لیا ۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 213
وَعَن أبي أُمَامَة الْبَاهِلِيّ قَالَ: ذُكِرَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلَانِ أَحَدُهُمَا عَابِدٌ وَالْآخَرُ عَالِمٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ» ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ وَأَهْلَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ حَتَّى النَّمْلَةَ فِي جُحْرِهَا وَحَتَّى الْحُوتَ لَيُصَلُّونَ عَلَى معلم النَّاس الْخَيْر» .
ابوامامہ ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ سے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا، ان میں سے ایک عابد اور دوسرا عالم ہے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ عالم کی عابد پر اس طرح فضیلت ہے جس طرح میری فضیلت تمہارے ادنی آدمی پر ہے۔‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ بے شک اللہ، اس کے فرشتے، زمین و آسمان کی مخلوق حتیٰ کہ چیونٹی اپنے بل میں اور مچھلیاں، لوگوں کو خیر و بھلائی کی تعلیم دینے والے کے لیے دعائے خیر کرتی ہیں۔‘‘

علم سکھانے کی فضیلت:

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 3660
حضرت زید بن ثابت ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
‏‏نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِيثًا فَحَفِظَهُ حَتَّى يُبَلِّغَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَيْسَ بِفَقِيهٍ.
اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور اسے یاد رکھا یہاں تک کہ اسے دوسروں تک پہنچا دیا کیونکہ بہت سے حاملین فقہ ایسے ہیں جو فقہ کو اپنے سے زیادہ فقہ و بصیرت والے کو پہنچا دیتے ہیں، اور بہت سے فقہ کے حاملین خود فقیہ نہیں ہوتے ہیں ۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 198
عبداللہ عمرو ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً وَحَدِّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ۔
میری طرف سے پہنچا دو خواہ ایک آیت ہی ہو، بنی اسرائیل کے واقعات بیان کرو اس میں کوئی حرج نہیں، اور جو شخص عمداً مجھ پر جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 252
عکرمہ سے روایت ہے کہ ابن عباس ؓ نے فرمایا:
حَدِّثِ النَّاسَ كُلَّ جُمُعَةٍ مَرَّةً فَإِنْ أَبَيْتَ فَمَرَّتَيْنِ فَإِنْ أَكْثَرْتَ فَثَلَاثَ مَرَّاتٍ وَلَا تُمِلَّ النَّاسَ هَذَا الْقُرْآنَ وَلَا أُلْفِيَنَّكَ تَأْتِي الْقَوْمَ وَهُمْ فِي حَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِهِمْ فَتَقُصُّ عَلَيْهِمْ فَتَقْطَعُ عَلَيْهِمْ حَدِيثَهُمْ فَتُمِلَّهُمْ وَلَكِنْ أَنْصِتْ فَإِذَا أَمَرُوكَ فَحَدِّثْهُمْ وَهُمْ يَشْتَهُونَهُ وَانْظُرِ السَّجْعَ مِنَ الدُّعَاءِ فَاجْتَنِبْهُ فَإِنِّي عَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ لَا يَفْعَلُونَ ذَلِك۔
ہر جمعہ (سات دن) میں لوگوں سے ایک مرتبہ وعظ کرو، اگر تم (اس سے) انکار کرتے ہو تو پھر (ہفتہ میں) دو مرتبہ، اگر زیادہ کرتے ہو تو پھر تین مرتبہ، لوگوں کو اس قرآن سے اکتا نہ دو، میں تمہیں نہ پاؤں کہ تم لوگوں کے پاس آؤ اور وہ اپنی گفتگو میں مصروف ہوں اور تم ان کی بات کاٹ کر کے انہیں وعظ کرنا شروع کر دو، اس طرح تم انہیں اکتا دو گے، بلکہ تم (وہاں جا) کر خاموشی اختیار کرو، جب وہ تمہیں کہیں تو انہیں وعظ کرو، درآنحالیکہ وہ اس کی خواہش رکھتے ہوں اور مسجع و مقفع کلام میں دعا کرنے سے اجتناب کرو، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کو دیکھا کہ وہ ایسے نہیں کیا کرتے تھے۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 3661
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
‏‏‏‏‏وَاللَّهِ لَأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ بِهُدَاكَ رَجُلًا وَاحِدًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ.
قسم اللہ کی، اگر تیری رہنمائی سے اللہ تعالیٰ ایک آدمی کو بھی ہدایت دیدے تو یہ تیرے لیے سرخ اونٹ سے (جو بہت قیمتی اور عزیز ہوتے ہیں) بہتر ہے ۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 3664
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
‏‏‏‏مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا يُبْتَغَى بِهِ وَجْهُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَتَعَلَّمُهُ إِلَّا لِيُصِيبَ بِهِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْيَا لَمْ يَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏يَعْنِي رِيحَهَا.
جس شخص نے ایسا علم صرف دنیاوی مقصد کے لیے سیکھا جس سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی جاتی ہے تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا ۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 257
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِمَجْلِسَيْنِ فِي مَسْجِدِهِ فَقَالَ: «كِلَاهُمَا عَلَى خَيْرٍ وَأَحَدُهُمَا أَفْضَلُ مِنْ صَاحِبِهِ أَمَّا هَؤُلَاءِ فَيَدْعُونَ اللَّهَ وَيَرْغَبُونَ إِلَيْهِ فَإِنْ شَاءَ أَعْطَاهُمْ وَإِنْ شَاءَ مَنَعَهُمْ. وَأَمَّا هَؤُلَاءِ فَيَتَعَلَّمُونَ الْفِقْهَ أَوِ الْعِلْمَ وَيُعَلِّمُونَ الْجَاهِلَ فَهُمْ أَفْضَلُ وَإِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا» ثمَّ جلس فيهم.
عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد نبوی میں دو حلقوں کے پاس سے گزرے تو فرمایا:’’ دونوں خیرو بھلائی پر ہیں، لیکن ان میں ایک دوسرے سے افضل ہے، رہے وہ لوگ جو اللہ سے دعا کر رہے ہیں اور اس کے مشتاق ہیں، پس اگر وہ چاہے تو انہیں عطا فرمائے اور اگر چاہے تو عطا نہ فرمائے، اور رہے وہ لوگ جو فقہ یا علم سیکھ رہے ہیں اور جاہلوں کو تعلیم دے رہے ہیں، تو وہ بہتر ہیں، اور مجھے تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘ پھر آپ اس حلقے میں بیٹھ گئے۔

حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
نبوت کے بعد میرے نزدیک سب سے افضل درجہ دوسروں کو علم سکھانا ہے۔
(تہذیب الکمال)

غیر نافع علم سے پناہ:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3837
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْأَرْبَعِ:‏‏‏‏ مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ،‏‏‏‏ وَمِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ،‏‏‏‏ وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ،‏‏‏‏ وَمِنْ دُعَاءٍ لَا يُسْمَعُ.
اے اللہ! میں چار باتوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں: اس علم سے جو فائدہ نہ دے، اس دل سے جو اللہ کے سامنے نرم نہ ہو، اس نفس سے جو آسودہ نہ ہو اور اس دعا سے جو قبول نہ ہو ۔

فرمانِ سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم ہے:
“اپنے بچوں کو وہ تعلیم نہ دو جو تمہارے والدین نے تمہیں دی تھی، کیونکہ ان کا زمانہ تمہارے زمانے سے مختلف ہے”
(کتاب: فلسفہ معراج النبی – ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی)

علم کی اہمیت و فضیلت – مختصر خلاصہ

1) علم سیکھنا، پہلا حکمِ قرآن ہے
2) علم کی وجہ سے ہی انسان کو خلافتِ الٰہیہ کا منصب ملا ہے
3) قرآن کے نزدیک، علم والے ہی حکومت و سرداری کے اہل ہیں
4) علم باعثِ بلندئِ درجات ہے
5) صحیح علم کے بغیر عمل کرنے پر بازپرس ہوگی
6) علم سیکھنا اور سکھانا افضل ترین صدقہ ہے
7) علمِ قرآن کا حامل شخص قیامت کے دن شفاعت کرے گا
8) قرآن کا علم سیکھنے اور سکھانے والوں کو اللہ کی رحمت ڈھانپ لیتی ہے
9) اللہ رب العزت اہلِ علم کا ذکر ملائکہ کی مجلس میں فرماتے ہیں
10) طالبِ علم جنت کے راستے پر چلتا ہے
11) فرشتے اور مچھلیاں طالبِ علم کی بخشش کی دعا کرتی ہیں
12) علم عبادت سے افضل ہے
13) علماء انبیاء کے وارث ہیں

الغرض علم صفتِ عالم الغیب والموجودات ہے۔ علم باعثِ رفعِ حجابات ہے۔ علم آدمی کے لیے وجہِ شرف و فضیلت و عنایات ہے۔ علم باعثِ بلندیِٔ درجات ہے۔ علم تارکِ جہل و ظلمات ہے۔ علم، معرفتِ مقصدِ حیات ہے۔ علم مقصدِ بعثتِ انبیاء اور معرفتِ نظامِ کائنات ہے۔ علم معرفتِ خالق المخلوقات ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں علم سیکھنے اور سکھانے والوں میں شامل فرما لے اور اپنی اس نعمتِ علم سے ہمیں بھی کچھ خیرات عطاء فرمائے۔ آمین

نصابِ نکاح و طلاق – جمعۃ المبارک، 18 رجب 1444ھ، بمطابق 10 فروری 2023ء

قرآنِ مجید کے اندر اللہ رب العزت نے نکاح کے لیے جو لفظ استعمال کیا ہے وہ ہے “اِحْصَان” جس کے معنی ہیں قلعہ بندی کرنا یا قلعہ تعمیر کرنا۔ اسی طرح قلعہ تعمیر کرنے والے کو “مُحْصِنْ” کہتے ہیں اور قلعہ تعمیر کرنے والی عورت کو “مُحْصِنَہ” کہتے ہیں۔ تو گویا جب مرد اور عورت نکاح کے رشتے میں جڑتے ہیں تو وہ اپنے اردگرد ایک محفوظ قلعہ تعمیر کر لیتے ہیں جس سے وہ شیطانی اور نفسانی حملوں سے بچنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 24
وَّالۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُكُمۡ‌ۚ كِتٰبَ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡ‌ۚ وَاُحِلَّ لَـكُمۡ مَّا وَرَآءَ ذٰ لِكُمۡ اَنۡ تَبۡتَـغُوۡا بِاَمۡوَالِكُمۡ مُّحۡصِنِيۡنَ غَيۡرَ مُسَافِحِيۡنَ‌ ؕ
اور شوہر والی عورتیں (بھی تم پرحرام ہیں) سوائے ان (کافروں کی قیدی عورتوں) کے جو تمہاری مِلک میں آجائیں، (ان احکامِ حرمت کو) اللہ نے تم پر فرض کر دیا ہے، اور ان کے سوا (سب عورتیں) تمہارے لئے حلال کر دی گئی ہیں تاکہ تم اپنے اموال کے ذریعے طلبِ نکاح کرو پاک دامن رہتے ہوئے نہ کہ شہوت رانی کرتے ہوئے،

اگر نکاح کی استطاعت نہ ہو تو نوجوان کیا کریں؟

القرآن – سورۃ نمبر 24 النور، آیت نمبر 33
وَلۡيَسۡتَعۡفِفِ الَّذِيۡنَ لَا يَجِدُوۡنَ نِكَاحًا حَتّٰى يُغۡنِيَهُمُ اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖ‌ؕ
اور ایسے لوگوں کو پاک دامنی اختیار کرنا چاہئے جو نکاح (کی استطاعت) نہیں پاتے یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی فرما دے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5066
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبِي، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي عُمَارَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ دَخَلْتُ مَعَ عَلْقَمَةَ والْأَسْوَدِ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ:‏‏‏‏ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَبَابًا لَا نَجِدُ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، ‏‏‏‏‏‏مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں نوجوان تھے اور ہمیں کوئی چیز میسر نہیں تھی۔ نبی کریم ﷺ نے ہم سے فرمایا کہ نوجوانوں کی جماعت! تم میں جسے بھی نکاح کرنے کے لیے مالی طاقت ہو اسے نکاح کرلینا چاہیے کیونکہ یہ نظر کو نیچی رکھنے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا عمل ہے اور جو کوئی نکاح کی بوجہ غربت طاقت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ اس کی خواہشات نفسانی کو توڑ دے گا۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5076 ‏
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي رَجُلٌ شَابٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا أَخَافُ عَلَى نَفْسِي الْعَنَتَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا أَجِدُ مَا أَتَزَوَّجُ بِهِ النِّسَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَسَكَتَ عَنِّي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قُلْتُ:‏‏‏‏ مِثْلَ ذَلِكَ فَسَكَتَ عَنِّي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قُلْتُ:‏‏‏‏ مِثْلَ ذَلِكَ فَسَكَتَ عَنِّي، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قُلْتُ:‏‏‏‏ مِثْلَ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا أَنْتَ لَاقٍ فَاخْتَصِ عَلَى ذَلِكَ أَوْ ذَرْ.
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نوجوان ہوں اور مجھے اپنے پر زنا کا خوف رہتا ہے۔ میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جس پر میں کسی عورت سے شادی کرلوں۔ آپ میری یہ بات سن کر خاموش رہے۔ دوبارہ میں نے اپنی یہی بات دہرائی لیکن آپ اس مرتبہ بھی خاموش رہے۔ سہ بارہ میں نے عرض کیا آپ پھر بھی خاموش رہے۔ میں نے چوتھی مرتبہ عرض کیا آپ ﷺ نے فرمایا اے ابوہریرہ! جو کچھ تم کرو گے اسے (لوح محفوظ میں) لکھ کر قلم خشک ہوچکا ہے۔ خواہ اب تم خصی ہوجاؤ یا باز رہو۔ یعنی خصی ہونا بیکار محض ہے۔

لہٰذا اگر کسی بھی وجہ سے نکاح نہ ہو سکے تو پھر بھی یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ جو کچھ آپ کے مقدر میں لکھا ہوا ہے وہ مقررہ وقت پر آپ کو ضرور ملے گا۔ اسی طرح نکاح کی حاجت کے باوجود اگر نکاح نہ ہو پائے تو اس بات کو وجہ بنا کر انسان کو زنا یا بدکاری کی طرف نہیں جانا چاہیے بلکہ اس کو ایک آزمائش سمجھ کر صبر کے ذریعے اپنے نفس کی تربیت کرنی چاہیے۔ اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پانے کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت کردہ تجویز کے مطابق روزے رکھنے چاہیئں کیونکہ بھوک، شہوت کو مٹا دیتی ہے۔

نکاح کے لیے عورت کا انتخاب کس بنیاد پر کریں؟

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5082 ‏
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خَيْرُ نِسَاءٍ رَكِبْنَ الْإِبِلَ صَالِحُ نِسَاءِ قُرَيْشٍ، ‏‏‏‏‏‏أَحْنَاهُ عَلَى وَلَدٍ فِي صِغَرِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَرْعَاهُ عَلَى زَوْجٍ فِي ذَاتِ يَدِهِ.
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اونٹ پر سوار ہونے والی (عرب) عورتوں میں بہترین عورت قریش کی صالح عورت ہوتی ہے جو اپنے بچے سے بہت زیادہ محبت کرنے والی اور اپنے شوہر کے مال اسباب میں اس کی بہت عمدہ نگہبان و نگراں ثابت ہوتی ہے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5090 ‏‏
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ:‏‏‏‏ لِمَالِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلِحَسَبِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَجَمَالِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلِدِينِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ.
حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے اور تو دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر، اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی (یعنی اخیر میں تجھ کو ندامت ہوگی) ۔

نکاح کے مہر کے بدلے قرآن کا علم سکھانا:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5087
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏جِئْتُ أَهَبُ لَكَ نَفْسِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَنَظَرَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَعَّدَ النَّظَرَ فِيهَا وَصَوَّبَهُ ثُمَّ طَأْطَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا رَأَتِ الْمَرْأَةُ أَنَّهُ لَمْ يَقْضِ فِيهَا شَيْئًا جَلَسَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكَ بِهَا حَاجَةٌ فَزَوِّجْنِيهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ وَهَلْ عِنْدَكَ مِنْ شَيْءٍ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اذْهَبْ إِلَى أَهْلِكَ فَانْظُرْ هَلْ تَجِدُ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَذَهَبَ ثُمَّ رَجَعَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا وَاللَّهِ مَا وَجَدْتُ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ انْظُرْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏فَذَهَبَ ثُمَّ رَجَعَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ هَذَا إِزَارِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ سَهْلٌ:‏‏‏‏ مَا لَهُ رِدَاءٌ فَلَهَا نِصْفُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَا تَصْنَعُ بِإِزَارِكَ إِنْ لَبِسْتَهُ لَمْ يَكُنْ عَلَيْهَا مِنْهُ شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ لَبِسَتْهُ لَمْ يَكُنْ عَلَيْكَ مِنْهُ شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏فَجَلَسَ الرَّجُلُ حَتَّى إِذَا طَالَ مَجْلِسُهُ قَامَ، ‏‏‏‏‏‏فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُوَلِّيًا، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ بِهِ فَدُعِيَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا جَاءَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَاذَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ مَعِي سُورَةُ كَذَا وَسُورَةُ كَذَا عَدَّدَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ تَقْرَؤُهُنَّ عَنْ ظَهْرِ قَلْبِكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ اذْهَبْ فَقَدْ مَلَّكْتُكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ.
حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں آپ کی خدمت میں اپنے آپ کو آپ کے لیے وقف کرنے حاضر ہوئی ہوں۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر آپ ﷺ نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔ پھر آپ نے نظر کو نیچی کرلیا اور پھر اپنا سر جھکا لیا۔ جب اس عورت نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ نے ان کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں فرمایا تو وہ بیٹھ گئی۔ اس کے بعد آپ ﷺ کے ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر آپ کو ان سے نکاح کی ضرورت نہیں ہے تو ان سے میرا نکاح کر دیجئیے۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس (مہر کے لیے) کوئی چیز ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں، اللہ کی قسم، یا رسول اللہ! نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اپنے گھر جاؤ اور دیکھو ممکن ہے تمہیں کوئی چیز مل جائے۔ وہ گئے اور واپس آگئے اور عرض کیا: اللہ کی قسم! میں نے کچھ نہیں پایا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر لوہے کی ایک انگوٹھی بھی مل جائے تو لے آؤ۔ وہ گئے اور واپس آگئے اور عرض کیا: اللہ کی قسم، یا رسول اللہ! میرے پاس لوہے کی ایک انگوٹھی بھی نہیں البتہ میرے پاس ایک تہمد ہے۔ انہیں (خاتون کو) اس میں سے آدھا دے دیجئیے۔ سہل بن سعد ؓ نے بیان کیا کہ ان کے پاس چادر بھی نہیں تھی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ تمہارے اس تہمد کا کیا کرے گی۔ اگر تم اسے پہنو گے تو ان کے لیے اس میں سے کچھ نہیں بچے گا اور اگر وہ پہن لے تو تمہارے لیے کچھ نہیں رہے گا۔ اس کے بعد وہ صحابی بیٹھ گئے۔ کافی دیر تک بیٹھے رہنے کے بعد جب وہ کھڑے ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے انہیں دیکھا کہ وہ واپس جا رہے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں بلوایا جب وہ آئے تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تمہیں قرآن مجید کتنا یاد ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں۔ انہوں نے گن کر بتائیں۔ نبی کریم ﷺ نے پوچھا کیا تم انہیں بغیر دیکھے پڑھ سکتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر جاؤ۔ میں نے انہیں تمہارے نکاح میں دیا۔ ان سورتوں کے بدلے جو تمہیں یاد ہیں۔

جاری ہے ۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقی معنوں میں دین کے احکامات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

نکاح و طلاق کا قرآنی ضابطۂِ اخلاق – جمعۃ المبارک، 11 رجب 1444ھ، بمطابق 03 فروری 2023

معاشرہ افراد سے مل کر بنتا ہے اور معاشرے کا بنیادی جزو ایک خاندان ہے۔ لہٰذا معاشرے کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ پہلے خاندان کی اصلاح کی جائے۔ اور خاندان کی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ خاندان کا ہر فرد اپنے حقوق و فرائض کو پہچانے اور ان کے مطابق اپنی زندگی بسر کرے۔

خاندانی نظام کے انتہائی اہم رشتے یعنی رشتۂِ ازدواج کے حوالے سے قرآنِ مجید کے اندر خالقِ انسان نے بڑی وضاحت کے ساتھ کچھ اصول و ضوابط بیان کیے ہیں۔ اگر شوہر اور بیوی ان اصول و ضوابط کو اچھی طرح سمجھ لیں اور ان کے مطابق زندگی گزاریں تو یقیناً ان کی زندگی انتہائی راحت و سکون میں گزرے گی۔ جس کے نتیجے میں پورے خاندان کی اصلاح ہوگی جو بعد میں پورے معاشرے کی اصلاح کا باعث بنے گی۔ لہٰذا نکاح کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے قرآنِ مجید میں واضح طور پر ارشاد فرمایا کہ تم بغیر نکاح کے رہنے والے مردوں اور عورتوں کے نکاح کر دیا کرو۔

القرآن – سورۃ نمبر 24 النور، آیت نمبر 32
وَاَنۡكِحُوا الۡاَيَامٰى مِنۡكُمۡ وَالصّٰلِحِيۡنَ مِنۡ عِبَادِكُمۡ وَاِمَآئِكُمۡ‌ ؕ اِنۡ يَّكُوۡنُوۡا فُقَرَآءَ يُغۡنِهِمُ اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖ‌ ؕ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيۡمٌ ۞
اور تم اپنے مردوں اور عورتوں میں سے ان کا نکاح کر دیا کرو جو (عمرِ نکاح کے باوجود) بغیر ازدواجی زندگی کے (رہ رہے) ہوں اور اپنے باصلاحیت غلاموں اور باندیوں کا بھی (نکاح کر دیا کرو)، اگر وہ محتاج ہوں گے (تو) اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا، اور اللہ بڑی وسعت والا بڑے علم والا ہے،

اس موضوع پر علمائے کرام نے کئی کتب بھی تالیف کی ہیں۔ مندرجہ ذیل گفتگو کا بیش تر حصہ سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ کی کتاب “حقوق الزوجین” کا خلاصہ ہے۔ درجِ ذیل سطور میں ہم نے ان قرآنی اصول و ضوابط کو لکھا ہے جو خالقِ کائنات نے میاں اور بیوی کے اس رشتۂِ نکاح کے لیے متعین کیے ہیں۔

1) نکاح کے مقاصد:

1.1) عفت و عصمت کی حفاظت:
نکاح کا پہلا مقصد یہ ہے مرد اور عورت فحاشی، بے حیائ، اور زنا سے بچیں اور اپنی فطری خواہش کو پورا کرنے کے لیے نکاح کریں۔

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 24
وَاُحِلَّ لَـكُمۡ مَّا وَرَآءَ ذٰ لِكُمۡ اَنۡ تَبۡتَـغُوۡا بِاَمۡوَالِكُمۡ مُّحۡصِنِيۡنَ غَيۡرَ مُسَافِحِيۡنَ‌ ؕ
(یہ عورتیں جو تم پر حرام کی گئی ہیں) ان کے سوا (سب عورتیں) تمہارے لئے حلال کر دی گئی ہیں تاکہ تم اپنے اموال کے ذریعے طلبِ نکاح کرو پاک دامن رہتے ہوئے نہ کہ شہوت رانی کرتے ہوئے،

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 25
فَانْكِحُوۡهُنَّ بِاِذۡنِ اَهۡلِهِنَّ وَاٰ تُوۡهُنَّ اُجُوۡرَهُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ مُحۡصَنٰتٍ غَيۡرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّلَا مُتَّخِذٰتِ اَخۡدَانٍ‌ ؕ
پس ان (کنیزوں) سے ان کے مالکوں کی اجازت کے ساتھ نکاح کرو اور انہیں ان کے مَہر حسبِ دستور ادا کرو درآنحالیکہ وہ (عفت قائم رکھتے ہوئے) قیدِ نکاح میں آنے والی ہوں نہ بدکاری کرنے والی ہوں اور نہ درپردہ آشنائی کرنے والی ہوں،

القرآن – سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 5
وَالۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡـكِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ اِذَاۤ اٰتَيۡتُمُوۡهُنَّ اُجُوۡرَهُنَّ مُحۡصِنِيۡنَ غَيۡرَ مُسَافِحِيۡنَ وَلَا مُتَّخِذِىۡۤ اَخۡدَانٍ‌ؕ
اور ان لوگوں میں سے پاک دامن عورتیں جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی (تمہارے لئے حلال ہیں) جب کہ تم انہیں ان کے مَہر ادا کر دو، (مگر شرط) یہ کہ تم (انہیں) قیدِ نکاح میں لانے والے (عفت شعار) بنو نہ کہ (محض ہوس رانی کی خاطر) اِعلانیہ بدکاری کرنے والے اور نہ خفیہ آشنائی کرنے والے۔

1.2) مودت و رحمت اور تسکین و راحت کا حصول

القرآن – سورۃ نمبر 30 الروم، آیت نمبر 21
وَمِنۡ اٰيٰتِهٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَكُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِكُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡكُنُوۡۤا اِلَيۡهَا وَجَعَلَ بَيۡنَكُمۡ مَّوَدَّةً وَّرَحۡمَةً۔
اور یہ (بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی۔

القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 189
هُوَ الَّذِىۡ خَلَقَكُمۡ مِّنۡ نَّـفۡسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنۡهَا زَوۡجَهَا لِيَسۡكُنَ اِلَيۡهَا‌۔
اور وہی (اللہ) ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا فرمایا اور اسی میں سے اس کا جوڑ بنایا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 187
هُنَّ لِبَاسٌ لَّـكُمۡ وَاَنۡـتُمۡ لِبَاسٌ لَّهُنَّ۔
وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو،

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 19
وَعَاشِرُوۡهُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ‌۔
اپنی بیویوں کے ساتھ اچھے طریقے سے برتاؤ کرو۔

2) نکاح کے لیے شرط ہے کہ مرد اور عورت مشرک نہ ہوں:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 221
وَلَا تَنۡكِحُوا الۡمُشۡرِكٰتِ حَتّٰى يُؤۡمِنَّ‌ؕ وَلَاَمَةٌ مُّؤۡمِنَةٌ خَيۡرٌ مِّنۡ مُّشۡرِكَةٍ وَّلَوۡ اَعۡجَبَتۡكُمۡ‌ۚ وَلَا تُنۡكِحُوا الۡمُشۡرِكِيۡنَ حَتّٰى يُؤۡمِنُوۡا ‌ؕ وَلَعَبۡدٌ مُّؤۡمِنٌ خَيۡرٌ مِّنۡ مُّشۡرِكٍ وَّلَوۡ اَعۡجَبَكُمۡؕ
مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ کیونکہ مشرک عورت خواہ تم کو کیسی ہی بھلی لگے اس سے مومن لونڈی بہتر ہے۔ مشرک مردوں سے اپنی عورتوں کے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں کیونکہ مشرک (مرد) سے خواہ وہ تم کو کیسا ہی بھلا لگے مومن غلام بہتر ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 72
اِنَّهٗ مَنۡ يُّشۡرِكۡ بِاللّٰهِ فَقَدۡ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيۡهِ الۡجَـنَّةَ وَمَاۡوٰٮهُ النَّارُ‌ ؕ وَمَا لِلظّٰلِمِيۡنَ مِنۡ اَنۡصَارٍ ۞
جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا اُس پر اللہ نے جنت حرام کر دی اور اُس کا ٹھکانا جہنم ہے اور ایسے ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں۔

3) مومن مرد اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کر سکتا ہے:

القرآن – سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 5
وَالۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡـكِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ۔
اور حلال کی گئیں تمھارے لیے اہلِ کتاب میں سے وہ عورتیں جو محفوظ ہوں۔

4) عورت کو کسی کے نکاح میں دینا اس کے ولی کا اختیار ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 221
وَلَا تَنۡكِحُوا الۡمُشۡرِكٰتِ حَتّٰى يُؤۡمِنَّ‌ؕ
مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔
وَلَا تُنۡكِحُوا الۡمُشۡرِكِيۡنَ حَتّٰى يُؤۡمِنُوۡا ‌ؕ
مشرک مردوں سے اپنی عورتوں کے نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔

یہاں آیت کے الفاظ پر غور کریں۔ جب مرد کو حکم دیا تو فرمایا “(اے مردو تم) مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرو”۔ لیکن جب عورت کو حکم دیا تو ان کے ولیوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ “مشرک مردوں سے اپنی عورتوں کے نکاح نہ کرو”۔ تو اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ عورت کے نکاح کا اختیار اس کے ولی (ماں، باپ، یا سرپرست) کو دیا گیا ہے ہاں البتہ ولی کے لیے لازم ہے کہ عورت کا نکاح اس کی مرضی کے مطابق کرے۔

البتہ حدیثِ مبارکہ کی رو سے نکاح کے لیے عورت کی رضا مندی ضروری ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں:

أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا تُنْكَحُ الْأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَيْفَ إِذْنُهَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَنْ تَسْكُتَ.
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لی جائے اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کنواری عورت اذن کیونکر دے گی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس کی صورت یہ ہے کہ وہ خاموش رہ جائے۔ یہ خاموشی اس کا اذن سمجھی جائے گی۔
(صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5136)

5) مہر

مہر دراصل ازدواجی تعلق قائم ہونے کے اجر کے بدلے میں دیا جاتا ہے:
القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 24
فَمَا اسۡتَمۡتَعۡتُمۡ بِهٖ مِنۡهُنَّ فَاٰ تُوۡهُنَّ اُجُوۡرَهُنَّ فَرِيۡضَةً‌ ؕ وَلَا جُنَاحَ عَلَيۡكُمۡ فِيۡمَا تَرٰضَيۡـتُمۡ بِهٖ مِنۡۢ بَعۡدِ الۡـفَرِيۡضَةِ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيۡمًا حَكِيۡمًا ۞
پھر جو ازدواجی زندگی کا لطف تم ان سے اٹھاؤ اس کے بدلے اُن کے مہر بطور فرض ادا کرو، البتہ مہر کی قرارداد ہو جانے کے بعد آپس کی رضامندی سے تمہارے درمیان اگر کوئی سمجھوتہ ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، اللہ علیم اور دانا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 21
وَ كَيۡفَ تَاۡخُذُوۡنَهٗ وَقَدۡ اَفۡضٰى بَعۡضُكُمۡ اِلٰى بَعۡضٍ۔
اور تم اپنا دیا ہو مہر ان سے کیسے چھین لو گے جب کہ تم ایک دوسرے سے لطف اندو ز ہو چکے ہو۔

اگر میاں بیوی میں ازدواجی تعلق قائم ہونے سے پہلے طلاق ہو جائے تو اس صورت میں شوہر کو نصف مہر دینا ہوگا:
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 237
وَاِنۡ طَلَّقۡتُمُوۡهُنَّ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَمَسُّوۡهُنَّ وَقَدۡ فَرَضۡتُمۡ لَهُنَّ فَرِيۡضَةً فَنِصۡفُ مَا فَرَضۡتُمۡ اِلَّاۤ اَنۡ يَّعۡفُوۡنَ اَوۡ يَعۡفُوَا الَّذِىۡ بِيَدِهٖ عُقۡدَةُ النِّكَاحِ ‌ؕ وَاَنۡ تَعۡفُوۡٓا اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰى‌ؕ وَ لَا تَنۡسَوُا الۡفَضۡلَ بَيۡنَكُمۡ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرٌ ۞
اور اگر تم نے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی ہے، لیکن مہر مقرر کیا جا چکا ہو، تو اس صورت میں نصف مہر دینا ہوگا یہ اور بات ہے کہ عورت نرمی برتے (اور مہر نہ لے) یا وہ مرد، جس کے اختیار میں عقد نکاح ہے، نرمی سے کام لے (اور پورا مہر دیدے)، اور تم (یعنی مرد) نرمی سے کام لو، تو یہ تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے آپس کے معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو تمہارے اعمال کو اللہ دیکھ رہا ہے۔

عورت کو اختیار ہے کہ وہ اپنی مرضی سے مہر کی رقم کو کم کر سکتی یا کلیتاً معاف کر سکتی ہے۔ اسی طرح مرد اگر فیاضی سے کام لینا چاہے تو وہ آدھے مہر کے بجائے پورا مہر بھی ادا کر سکتا ہے اور یہ عمل تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔

مہر کے لیے کوئی حد مقرر نہیں کی گئی:
القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 20
وَاِنۡ اَرَدتُّمُ اسۡتِبۡدَالَ زَوۡجٍ مَّكَانَ زَوۡجٍ ۙ وَّاٰتَيۡتُمۡ اِحۡدٰٮهُنَّ قِنۡطَارًا فَلَا تَاۡخُذُوۡا مِنۡهُ شَيۡــئًا‌ ؕ اَ تَاۡخُذُوۡنَهٗ بُهۡتَانًا وَّاِثۡمًا مُّبِيۡنًا ۞
اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ ہی کر لو تو خواہ تم نے اُسے مہر میں ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو، اس میں سے کچھ واپس نہ لینا کیا تم اُسے بہتان لگا کر اور صریح ظلم کر کے واپس لو گے؟

6) مرد کی عورت پر فضیلت 7) نفقہ عورت کا واجبی حق ہے 8) عورت کو حکم ہے کہ وہ شوہر کی اطاعت کرے

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 34
اَلرِّجَالُ قَوَّامُوۡنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعۡضَهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ وَّبِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِهِمۡ‌ ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلۡغَيۡبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ‌ ؕ
مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے اُن میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت و نگرانی میں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں.

عورت کا حق ہے کہ مرد اس پر اپنا مال (اسی مال کو نفقہ کہتے ہیں) خرچ کرے، اسی وجہ سے مرد کو عورت پر فضیلت دی گئی ہے اور اسی وجہ سے عورت کو مرد کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ عورت کی روزمرہ ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مردوں کو چاہیئے کہ وہ ان پر خرچ کریں۔ یہ مردوں پر فرض ہے اور یہ عورت کا واجبی حق ہے۔ ہاں اگر عورت خود اپنے اس حق سے دستبردار ہوجائے تو وہ ایک الگ بات ہے۔

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا:

وَلَھُنَّ عَلَیْکُمْ رِزْقُھُنَّ وَکِسْوَتُھُنَّ بِالْمَعْرُوفِ۔
تم پر ان عورتوں کا یہ حق ہے کہ تم اپنی حیثیت کے مطابق ان کو اچھی خوراک اور اچھا لباس فراہم کیا کرو۔
(سنن ابوداؤد، حدیث نمبر 1905)

اسی طرح عورت پر فرض ہے کہ وہ مرد کی اطاعت کرے، شوہر کی غیر موجودگی میں اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کرے۔

نفقہ استطاعت کے مطابق ہے:

القرآن – سورۃ نمبر 65 الطلاق، آیت نمبر 7
لِيُنۡفِقۡ ذُوۡ سَعَةٍ مِّنۡ سَعَتِهٖ‌ؕ وَمَنۡ قُدِرَ عَلَيۡهِ رِزۡقُهٗ فَلۡيُنۡفِقۡ مِمَّاۤ اٰتٰٮهُ اللّٰهُ۔
خوشحال آدمی اپنی خوشحالی کے مطابق نفقہ دے، اور جس کو رزق کم دیا گیا ہو وہ اُسی مال میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے۔

9) اگر عورت سرکشی پر اتر آئے تو اس صورت میں مرد کے لیے کیا حکم ہے؟

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 34
وَالّٰتِىۡ تَخَافُوۡنَ نُشُوۡزَهُنَّ فَعِظُوۡهُنَّ وَاهۡجُرُوۡهُنَّ فِى الۡمَضَاجِعِ وَاضۡرِبُوۡهُنَّ‌ ۚ فَاِنۡ اَطَعۡنَكُمۡ فَلَا تَبۡغُوۡا عَلَيۡهِنَّ سَبِيۡلًا‌ ؕاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيۡرًا‏ ۞
اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو انہیں سمجھاؤ، خواب گاہوں میں اُن سے علیحدہ رہو اور مارو، پھر اگر وہ تمہاری مطیع ہو جائیں تو خواہ مخواہ ان پر دست درازی کے لیے بہانے تلاش نہ کرو، یقین رکھو کہ اوپر اللہ موجود ہے جو بڑا اور بالا تر ہے۔

اگر عورت سرکشی پر اتر آئے تو مرد کو چاہیے کہ سب سے پہلے ہر ممکن طریقے سے عورت کو سمجھائے، اگر نہ سمجھے تو اس سے بستر الگ کر لے (ہجر فی المضاجع)، اور انتہائی سرکشی اور بغاوت کی صورت میں اصلاح کی غرض سے ہلکی مار (ضربِ غیر مبرح) کا اختیار بھی مرد کو دیا گیا ہے۔

10) میاں بیوی میں جھگڑا ہو جائے تو؟

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 35
وَاِنۡ خِفۡتُمۡ شِقَاقَ بَيۡنِهِمَا فَابۡعَثُوۡا حَكَمًا مِّنۡ اَهۡلِهٖ وَحَكَمًا مِّنۡ اَهۡلِهَا‌ ۚ اِنۡ يُّرِيۡدَاۤ اِصۡلَاحًا يُّوَفِّـقِ اللّٰهُ بَيۡنَهُمَا‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيۡمًا خَبِيۡرًا ۞
اور اگر تمہیں ان دونوں کے درمیان مخالفت کا اندیشہ ہو تو تم ایک مُنصِف مرد کے خاندان سے اور ایک مُنصِف عورت کے خاندان سے مقرر کر لو، اگر وہ دونوں (مُنصِف) صلح کرانے کا اِرادہ رکھیں تو اللہ ان دونوں کے درمیان موافقت پیدا فرما دے گا، بیشک اللہ خوب جاننے والا خبردار ہے،

11) ضرار یا ایذارسانی – کوئی عورت مرد کے بندِ نکاح میں اس طرح نہ روکی جائے کہ اس کے لیے موجبِ ضرر اور وجہِ حق تلفی ہو۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 231
وَلَا تُمۡسِكُوۡهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعۡتَدُوۡا‌ ۚ
اور انہیں ضرار یعنی محض تکلیف دینے کے لئے نہ روکے رکھو کہ (ان پر) زیادتی کرتے رہو،

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 129
فَلَا تَمِيۡلُوۡا كُلَّ الۡمَيۡلِ فَتَذَرُوۡهَا كَالۡمُعَلَّقَةِ‌ ؕ
پس (ایک کی طرف) پورے میلان طبع کے ساتھ (یوں) نہ جھک جاؤ کہ دوسری کو (درمیان میں) لٹکتی ہوئی چیز کی طرح چھوڑ دو۔

12) صحبت سے اجتناب – عورت کی اوسط قوتِ برداشت چار مہینے ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 226
لِّـلَّذِيۡنَ يُؤۡلُوۡنَ مِنۡ نِّسَآئِهِمۡ تَرَبُّصُ اَرۡبَعَةِ اَشۡهُرٍ‌‌ۚ فَاِنۡ فَآءُوۡ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ ۞
اور ان لوگوں کے لئے جو اپنی بیویوں کے قریب نہ جانے کی قسم کھالیں چار ماہ کی مہلت ہے پس اگر وہ (اس مدت میں) رجوع کر لیں تو بیشک اﷲ بڑا بخشنے والا مہربان ہے،

یعنی عورت زیادہ سے زیادہ چار مہینے تک ازدواجی تعلق قائم کیے بغیر رہ سکتی ہے۔ لہٰذا مرد کو چاہیے کہ وہ عورت سے چار مہینے سے زیادہ دوری اختیار نہ کرے کیونکہ عورت کی اوسط قوتِ برداشت چار مہینے بیان کی گئی ہے۔

13) لعان – اگر شوہر اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگا دے تو کیا حکم ہے؟

القرآن – سورۃ نمبر 24 النور، آیت نمبر 6
وَالَّذِيۡنَ يَرۡمُوۡنَ اَزۡوَاجَهُمۡ وَلَمۡ يَكُنۡ لَّهُمۡ شُهَدَآءُ اِلَّاۤ اَنۡفُسُهُمۡ فَشَهَادَةُ اَحَدِهِمۡ اَرۡبَعُ شَهٰدٰتٍۭ بِاللّٰهِ‌ۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيۡنَ ۞
اور جو لوگ اپنی بیویوں پر (بدکاری کی) تہمت لگائیں اور ان کے پاس سوائے اپنی ذات کے کوئی گواہ نہ ہوں تو ایسے کسی بھی ایک شخص کی گواہی یہ ہے کہ (وہ خود) چار مرتبہ اللہ کی قَسم کھا کر گواہی دے کہ وہ (الزام لگانے میں) سچا ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 24 النور، آیت نمبر 7
وَالۡخَـامِسَةُ اَنَّ لَـعۡنَتَ اللّٰهِ عَلَيۡهِ اِنۡ كَانَ مِنَ الۡكٰذِبِيۡنَ ۞
اور پانچویں مرتبہ یہ (کہے) کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹا ہو،

القرآن – سورۃ نمبر 24 النور، آیت نمبر 8
وَيَدۡرَؤُا عَنۡهَا الۡعَذَابَ اَنۡ تَشۡهَدَ اَرۡبَعَ شَهٰدٰتٍۢ بِاللّٰهِ‌ۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الۡكٰذِبِيۡنَۙ ۞
اور (اسی طرح) یہ بات اس (عورت) سے (بھی) سزا کو ٹال سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر (خود) گواہی دے کہ وہ (مرد اس تہمت کے لگانے میں) جھوٹا ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 24 النور، آیت نمبر 9
وَالۡخَـامِسَةَ اَنَّ غَضَبَ اللّٰهِ عَلَيۡهَاۤ اِنۡ كَانَ مِنَ الصّٰدِقِيۡنَ ۞
اور پانچویں مرتبہ یہ (کہے) کہ اس پر (یعنی مجھ پر) اللہ کا غضب ہو اگر یہ (مرد اس الزام لگانے میں) سچا ہو،

جب مرد اور عورت دونوں اللہ کی قسم کھا لیں تو پھر دونوں کو علیحدہ کر دیا جائے۔

14) عقدۂِ نکاح یعنی نکاح کی گرہ مرد کے ہاتھ میں ہے

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 237
اِلَّاۤ اَنۡ يَّعۡفُوۡنَ اَوۡ يَعۡفُوَا الَّذِىۡ بِيَدِهٖ عُقۡدَةُ النِّكَاحِ ‌ؕ
الا یہ کہ بیویاں مہر معاف کر دیں یا عفو سے کام لے وہ شخص جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔

مرد بحیثیت شوہر کے طلاق دینے یا نہ دینے کا کلی اختیار رکھتا ہے۔ جس طرح مرد کو طلاق کا حق دیا گیا ہے اسی طرح عورت کو علیحدگی یا خلع کا اختیار بھی دیا گیا ہے۔

15) علیحدگی یا خلع

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 229
فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَ لَّا يُقِيۡمَا حُدُوۡدَ اللّٰهِۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَا فِيۡمَا افۡتَدَتۡ بِهٖؕ‌
پھر اگر تم کو اندیشہ ہو کہ وہ دونوں میاں بیوی حدود اللہ کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو ان دونوں پر کچھ گناہ نہیں کہ عورت فدیہ دے کر علیحدگی حاصل کر لے۔

16) طلاق اور حلالہ

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 229
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ‌ ۖ فَاِمۡسَاكٌ ۢ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ تَسۡرِيۡحٌ ۢ بِاِحۡسَانٍ‌ ؕ
طلاق (صرف) دو بار (تک) ہے، پھر یا تو (بیوی کو) اچھے طریقے سے (زوجیت میں) روک لینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 230
فَاِنۡ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنۡۢ بَعۡدُ حَتّٰى تَنۡكِحَ زَوۡجًا غَيۡرَهٗ ‌ؕ فَاِنۡ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَآ اَنۡ يَّتَرَاجَعَآ اِنۡ ظَنَّآ اَنۡ يُّقِيۡمَا حُدُوۡدَ اللّٰهِ‌ؕ وَتِلۡكَ حُدُوۡدُ اللّٰهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوۡمٍ يَّعۡلَمُوۡنَ ۞
پھر اگر اس نے (تیسری مرتبہ) طلاق دے دی تو اس کے بعد وہ اس کے لئے حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور شوہر کے ساتھ نکاح کر لے، پھر اگر وہ (دوسرا شوہر) بھی طلاق دے دے تو اب ان دونوں (یعنی پہلے شوہر اور اس عورت) پر کوئی گناہ نہ ہوگا اگر وہ (دوبارہ رشتۂ زوجیت میں) پلٹ جائیں بشرطیکہ دونوں یہ خیال کریں کہ (اب) وہ حدودِ الٰہی قائم رکھ سکیں گے، یہ اﷲ کی (مقرر کردہ) حدود ہیں جنہیں وہ علم والوں کے لئے بیان فرماتا ہے،

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اَبْغَضُ الْحَلَالِ اِلَی اللّٰہ تعالیٰ الطَّلَاقُ
اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔

تَزَوَّجُوْا وَلَا تُطَلِّقُوْا فَاِنَّ اللّٰہ لَا یُحِبُّ الذَّوَّاقِیْنَ وَالذّوَّاقَات
شادیاں کرو اور طلاق نہ دو۔ کیونکہ اللہ مزے چکھنے والوں اور مزے چکھنے والیوں کو پسند نہیں کرتا۔

لَعَنَ اللّٰہُ کُلَّ ذَوَّاقٍ مِطْلَاقٍ
ہر طالبِ لذت بکثرت طلاق دینے والے پر اللہ نے لعنت کی ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 19
وَعَاشِرُوۡهُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ‌ ۚ فَاِنۡ كَرِهۡتُمُوۡهُنَّ فَعَسٰۤى اَنۡ تَكۡرَهُوۡا شَيۡـئًـا وَّيَجۡعَلَ اللّٰهُ فِيۡهِ خَيۡرًا كَثِيۡرًا ۞
اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے برتاؤ کرو، پھر اگر تم انہیں نا پسند کرتے ہو تو ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی رکھ دے،

لہٰذا مرد کو چاہیے کہ وہ اپنے اس حقِ طلاق کو نہایت مجبوری اور محض ایک آخری چارۂِ کار کے طور پر ہی استعمال کرے۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 228
وَالۡمُطَلَّقٰتُ يَتَرَ بَّصۡنَ بِاَنۡفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوۡٓءٍ ‌ؕ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ اَنۡ يَّكۡتُمۡنَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ فِىۡٓ اَرۡحَامِهِنَّ اِنۡ كُنَّ يُؤۡمِنَّ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ‌ؕ وَبُعُوۡلَتُهُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ اِنۡ اَرَادُوۡٓا اِصۡلَاحًا ‌ؕ وَلَهُنَّ مِثۡلُ الَّذِىۡ عَلَيۡهِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ‌ ۖ وَلِلرِّجَالِ عَلَيۡهِنَّ دَرَجَةٌ ‌ ؕ وَاللّٰهُ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ  ۞
اور طلاق یافتہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں، اور ان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اسے چھپائیں جو اﷲ نے ان کے رحموں میں پیدا فرما دیا ہو، اگر وہ اﷲ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہیں، اور اس مدت کے اندر ان کے شوہروں کو انہیں (پھر) اپنی زوجیت میں لوٹا لینے کا حق زیادہ ہے اگر وہ اصلاح کا ارادہ کر لیں، اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر، البتہ مردوں کو ان پر فضیلت ہے، اور اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 65 الطلاق، آیت نمبر 1
يٰۤاَيُّهَا النَّبِىُّ اِذَا طَلَّقۡتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوۡهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَاَحۡصُوا الۡعِدَّةَ ‌ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ رَبَّكُمۡ‌ ۚ لَا تُخۡرِجُوۡهُنَّ مِنۡۢ بُيُوۡتِهِنَّ وَلَا يَخۡرُجۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ يَّاۡتِيۡنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ‌ ؕ وَتِلۡكَ حُدُوۡدُ اللّٰهِ‌ ؕ وَمَنۡ يَّتَعَدَّ حُدُوۡدَ اللّٰهِ فَقَدۡ ظَلَمَ نَفۡسَهٗ‌ ؕ لَا تَدۡرِىۡ لَعَلَّ اللّٰهَ يُحۡدِثُ بَعۡدَ ذٰ لِكَ اَمۡرًا ۞
اے نبی! (مسلمانوں سے فرما دیں:) جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کر بیٹھیں، اور یہ اللہ کی (مقررّہ) حدیں ہیں، اور جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو بیشک اُس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، (اے شخص!) تو نہیں جانتا شاید اللہ اِس کے (طلاق دینے کے) بعد (رجوع کی) کوئی نئی صورت پیدا فرما دے،

القرآن – سورۃ نمبر 65 الطلاق، آیت نمبر 2
فَاِذَا بَلَغۡنَ اَجَلَهُنَّ فَاَمۡسِكُوۡهُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ فَارِقُوۡهُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ وَّاَشۡهِدُوۡا ذَوَىۡ عَدۡلٍ مِّنۡكُمۡ وَاَقِيۡمُوا الشَّهَادَةَ لِلّٰهِ‌ ؕ ذٰ لِكُمۡ يُوۡعَظُ بِهٖ مَنۡ كَانَ يُؤۡمِنُ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ‌ ۙ وَمَنۡ يَّـتَّـقِ اللّٰهَ يَجۡعَلْ لَّهٗ مَخۡرَجًا ۞
پھر جب وہ اپنی مقررہ میعاد (کے ختم ہونے) کے قریب پہنچ جائیں تو انہیں بھلائی کے ساتھ (اپنی زوجیت میں) روک لو یا انہیں بھلائی کے ساتھ جدا کردو۔ اور اپنوں میں سے دو عادل مَردوں کو گواہ بنا لو اور گواہی اللہ کے لئے قائم کیا کرو، اِن (باتوں) سے اسی شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اور جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لئے (دنیا و آخرت کے رنج و غم سے) نکلنے کی راہ پیدا فرما دیتا ہے،

حالتِ حیض میں طلاق دینے سے منع کیا گیا ہے۔ طلاق دینے کا درست طریقہ یہ ہے کہ پہلے ایک طلاق دی جائے پھر عورت کے حیض کے بعد طہارت حاصل کرنے تک انتظار کرے، پھر دوسری طلاق دی جائے اور اسی طرح حیض کے بعد طہارت تک انتظار کرے، پھر تیسری طلاق دے۔ بیک وقت تین طلاقیں دینا گناہ ہے ہاں البتہ اس سے طلاق ہو جائے گی۔

مختصر خلاصہ:
1) نکاح کے دو بنیادی مقاصد ہیں 1.1) عصمت و عفت کی حفاظت 1.2) راحت و سکون کا حصول
2) ایمان، شرطِ نکاح ہے۔
3) اہلِ کتاب سے نکاح کی اجازت۔
4) عورت کے نکاح کا اختیار اس کے ولی کے پاس ہے۔
5) مہر عورت کا واجبی حق ہے۔ مہر کے لیے کوئی حد مقرر نہیں کی گئی۔
6) عورت کو نفقہ دینا مرد کی ذمہ داری ہے۔ نفقہ استطاعت کے مطابق ہے۔
7) عورت پر فرض ہے کہ وہ مرد کی اطاعت کرے۔
8) اگر عورت سرکشی پر اتر آئے تو اس صورت میں مرد کے لیے کیا حکم ہے؟ سمجھانا، بستر الگ، مار
9) میاں بیوی میں جھگڑا ہو جائے تو؟ مصالحت
10) عورت کا علیحدگی یا خلع کا اختیار۔
11) ضرار یا ایذارسانی – کوئی عورت مرد کے بندِ نکاح میں اس طرح نہ روکی جائے کہ اس کے لیے موجبِ ضرر اور وجہِ حق تلفی ہو۔
12) عورت کو رشتہِ نکاح میں معلق نہ رکھا جائے۔
13) صحبت سے اجتناب – عورت کی اوسط قوتِ برداشت چار مہینے ہے۔
14) لعان – اگر شوہر اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگا دے تو کیا حکم ہے؟
15) عقدۂِ نکاح یعنی نکاح کی گرہ مرد کے ہاتھ میں ہے۔
16) طلاق و حلالہ

فضیلت و اہمیت جمعۃ المبارک، جمعۃ المبارک، 04 رجب 1444ھ، بمطابق 27 جنوری 2023

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 496
عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنِ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَغَسَّلَ وَبَكَّرَ وَابْتَكَرَ وَدَنَا وَاسْتَمَعَ وَأَنْصَتَ كَانَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ يَخْطُوهَا أَجْرُ سَنَةٍ صِيَامُهَا وَقِيَامُهَا.
حضرت اوس بن اوس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور غسل کرایا، اور سویرے پہنچا، شروع سے خطبہ میں شریک رہا، امام کے قریب بیٹھا اور غور سے خطبہ سنا اور خاموش رہا تو اسے اس کے ہر قدم کے بدلے ایک سال کے روزے اور رات کے قیام کا ثواب ملے گا۔

صحیح بخاری
حدیث نمبر: 3211
‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ كَانَ عَلَى كُلِّ بَابٍ مِنْ أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ الْمَلَائِكَةُ يَكْتُبُونَ الْأَوَّلَ فَالْأَوَّلَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا جَلَسَ الْإِمَامُ طَوَوْا الصُّحُفَ وَجَاءُوا يَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ.
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ اور اغر نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب جمعہ کا دن آتا ہے تو مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے کھڑے ہوجاتے ہیں اور سب سے پہلے آنے والے اور پھر اس کے بعد آنے والوں کو نمبر وار لکھتے جاتے ہیں۔ پھر جب امام (خطبے کے لیے منبر پر) بیٹھ جاتا ہے تو یہ فرشتے اپنے رجسٹر بند کرلیتے ہیں اور ذکر سننے لگ جاتے ہیں۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 500
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ تَرَكَ الْجُمُعَةَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ تَهَاوُنًا بِهَا طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قَلْبِهِ.
ابوالجَعد ضَمری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص سستی سے، حقیر جان کر تین جمعہ ترک کر دے تو اللہ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔

کامیاب لوگوں کی خصوصیات، احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں ۔ جمعۃ المبارک، 27 جمادی الآخر 1444ھ، بمطابق 20 جنوری 2023

پچھلے جمعۃ المبارک پہ ہم نے قرآنی آیات کی روشنی میں کامیاب لوگوں کی 27 خصوصیات بیان کی تھیں جن کا مختصر تذکرہ مندرجہ ذیل ہے:

1) ایمان 2) تقویٰ و پرہیزگاری 3) نماز قائم کرنا 4) بیہودہ اور بے مقصد گفتگو سے بچنا 5) زکوٰۃ ادا کرنا 6) شرم گاہوں کی حفاظت کرنا 7) امانت میں خیانت نہ کرنا 8) وعدوں کی پاسداری کرنا 9) امر باالمعروف و نہی عن المنکر 10) صبر کرنا 11) ثابت قدم رہنا 12) شراب سے بچنا 13) جوئے سے بچنا 14) فال اور قسمت کا حال معلوم کرنے کے طریقوں سے بچنا 15) سود اور سودی کاروبار سے بچنا 16) نیکیوں کی کثرت کرنا 17) اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرنا 18) محبت و اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 19) کثرت سے اللہ کا ذکر کرنا 20) جہاد فی سبیل اللہ کرنا 21) توبہ کرنا 22) اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا طلبگار رہنا 23) قرابت داروں کا حق ادا کرنا 24) محتاجوں کا خیال رکھنا 25) مسافروں کی مدد کرنا 26) بخل و کنجوسی سے بچنا 27) نفس کا تزکیہ کرنا

آج ہم احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں یہ جاننے کی کوشش کریں گے کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کن خصوصیات کے حامل افراد کو کامیاب کہا ہے۔

مشکوٰۃ المصابیح, حدیث نمبر: 5358
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَرَنِي رَبِّي بِتِسْعٍ: خَشْيَةِ اللَّهِ فِي السِّرِّ وَالْعَلَانِيَةِ وَكَلِمَةِ الْعَدْلِ فِي الْغَضَبِ وَالرِّضَى وَالْقَصْدِ فِي الْفَقْرِ وَالْغِنَى وَأَنْ أَصِلَ مَنْ قَطَعَنِي وَأُعْطِي مَنْ حَرَمَنِي وَأَعْفُو عَمَّنْ ظَلَمَنِي وَأَنْ يَكُونَ صَمْتِي فِكْرًا وَنُطْقِي ذِكْرًا وَنَظَرِي عِبْرَةً وَآمُرُ بِالْعُرْفِ «وَقِيلَ» بِالْمَعْرُوفِ رَوَاهُ رزين.
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ میرے رب نے مجھے نو چیزوں کا حکم فرمایا:
1) پوشیدہ و اعلانیہ ہر حالت میں اللہ کا ڈر رکھنا،
2) غضب و رضا میں حق بات کرنا،
3) فقر و مال داری میں میانہ روی اختیار کرنا،
4) جو شخص مجھ سے قطع تعلق کرے میں اس کے ساتھ تعلق قائم کروں،
5) جو شخص مجھے محروم رکھے میں اسے عطا کروں،
6) جس شخص نے مجھ پر ظلم کیا میں اسے معاف کروں،
7) میرا خاموش رہنا غور و فکر کا پیش خیمہ ہو،
8) میرا بولنا ذکر ہو
9) اور میرا دیکھنا عبرت ہو،
اور یہ کہ میں نیکی کا حکم دوں۔‘‘

فرائض کو ادا کرنے والے:
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2678
طَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا هُوَ يَسْأَلُهُ عَنِ الْإِسْلَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ وَصِيَامُ شَهْرِ رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَذَكَرَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّكَاةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَدْبَرَ الرَّجُلُ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ يَقُولُ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَا أَزِيدُ عَلَى هَذَا وَلَا أَنْقُصُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَفْلَحَ إِنْ صَدَقَ.
حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک صاحب (ضمام بن ثعلبہ) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئے اور اسلام کے متعلق پوچھنے لگے۔ آپ ﷺ نے فرمایا دن اور رات میں پانچ نمازیں ادا کرنا۔ اس نے پوچھا کیا اس کے علاوہ بھی مجھ پر کچھ نماز اور ضروری ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں یہ دوسری بات ہے کہ تم نفل پڑھو۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور رمضان کے روزے ہیں۔ اس نے پوچھا کیا اس کے علاوہ بھی مجھ پر کچھ (روزے) واجب ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں سوا اس کے جو تم اپنے طور پر نفل رکھو۔ طلحہ ؓ نے بیان کیا کہ ان کے سامنے رسول اللہ ﷺ نے زکوٰۃ کا بھی ذکر کیا تو انہوں نے پوچھا، کیا (جو فرض زکوٰۃ آپ نے بتائی ہے) اس کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی خیرات واجب ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں، سوا اس کے جو تم خود اپنی طرف سے نفل دو۔ اس کے بعد وہ صاحب یہ کہتے ہوئے جانے لگے کہ اللہ گواہ ہے نہ میں ان میں کوئی زیادتی کروں گا اور نہ کوئی کمی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر اس نے سچ کہا ہے تو کامیاب ہوا۔

اس حدیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرائض کی ادائیگی کو کامیابی کی ضمانت قرار دیا ہے۔

بقدرِ ضرورت رزق پر کفایت و قناعت کرنے والے:
صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2426
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ حَدَّثَنِي شُرَحْبِيلُ وَهُوَ ابْنُ شَرِيکٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ وَرُزِقَ کَفَافًا وَقَنَّعَهُ اللَّهُ بِمَا آتَاهُ۔
حضرت عبداللہ ابن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے اسلام قبول کیا اور اسے بقدر کفایت رزق عطا کیا گیا اور اللہ نے اسے اپنے عطا کردہ مال پر قناعت عطا کردی تو وہ شحض کامیاب ہوا۔

اس حدیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کامیاب شخص کی تین نشانیاں بیان کی ہیں 1) حقیقی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ بندہ مسلمان ہو، اس نے اپنے رب کو پہچانا ہو، اور اپنے رب کو پہچاننے اور اس پر ایمان لانے کے بعد اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ملنے والی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارتا ہو 2) اسے ضرورت کے مطابق رزق دیا گیا ہے جس سے وہ اپنی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہو 3) اس میں زیادہ سے زیادہ کی چاہت نہ ہو یعنی جو مال اسے بقدرِ ضرورت دیا گیا ہے، وہ اس پر قناعت کرنے والا ہو۔ ایسا شخص دنیا اور اس کے متعلقات کو فقط ضرورت کے تحت استعمال کرتا ہے اور اس کی نظر ہمیشہ آخرت کی تیاری پر رہتی ہے اور وہ اپنی زندگی اپنے رب کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گزارتا ہے جس سے اسے اپنے رب کی رضا و خوشنودی حاصل ہو جاتی ہے اور یہی حقیقی کامیابی ہے۔ ایسے شخص کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ایسا شخص یقیناً کامیاب ہے۔

انسان کو زندگی گزارنے کے لیے دو وقت کی مناسب خوراک، لباس، مکان، اور سواری کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اگر انسان ان ضروریات کو خواہشات بنا لے تو ایسے انسان کا سفر کامیابی کے بجائے ناکامی کی طرف شروع ہو جاتا ہے۔ مثلاً زندہ رہنے کے لیے کھانا انسان کی ضرورت ہے لیکن اگر وہ یہ چاہے کہ اسے اس کی مرضی کے مطابق کھانا ملے، اس کی مرضی کے ہوٹل اور ریسٹورنٹ کا کھانا ملے تو یہ اب ضرورت نہیں رہی بلکہ خواہش بن گئی ہے۔ جب ضرورت، خواہش بن جاتی ہے تو وہاں انسان کی آزمائش ہوجاتی ہے۔ اب آزمائش میں انسان بعض اوقات اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے حلال اور حرام کے فرق کو بھلا بیٹھتا ہے اور اپنے رب کے بتائے ہوئے راستے سے بھٹک جاتا ہے۔ اور اپنے رب کو ناراض کر بیٹھتا ہے۔ اب جو شخص اپنے رب کو ناراض کر بیٹھے پھر وہ چاہے ساری دنیا جمع کر لے وہ ناکام ہی ہے۔

نکاح کے لیے دیندار عورت کو ترجیح دینے والے:
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5090
‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ:‏‏‏‏ لِمَالِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلِحَسَبِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَجَمَالِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلِدِينِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے اور تو دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر، اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی (یعنی اخیر میں تجھ کو ندامت ہوگی) ۔

مسلمان بھائی کی ملاقات و عیادت کرنے والے:
مسند احمد، حدیث نمبر: 7975
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا زَارَ الْمُسْلِمُ أَخَاهُ فِي اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَوْ عَادَهُ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ طِبْتَ وَتَبَوَّأْتَ مِنْ الْجَنَّةِ مَنْزِلًا
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی سے ملاقات یا بیمار پرسی کے لئے جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تو کامیاب ہوگیا اور تو نے جنت میں اپنا ٹھکانہ بنا لیا۔

دنیا سے بے رغبتی اور عبادت کا شوق رکھنے والے:
مسند احمد، حدیث نمبر: 19471
عَنْ أَبِي السَّلِيلِ قَالَ وَقَفَ عَلَيْنَا رَجُلٌ فِي مَجْلِسِنَا بِالْبَقِيعِ فَقَالَ حَدَّثَنِي أَبِي أَوْ عَمِّي أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَقِيعِ وَهُوَ يَقُولُ مَنْ يَتَصَدَّقُ بِصَدَقَةٍ أَشْهَدُ لَهُ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ فَحَلَلْتُ مِنْ عِمَامَتِي لَوْثًا أَوْ لَوْثَيْنِ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِهِمَا فَأَدْرَكَنِي مَا يُدْرِكُ بَنِي آدَمَ فَعَقَدْتُ عَلَيَّ عِمَامَتِي فَجَاءَ رَجُلٌ وَلَمْ أَرَ بِالْبَقِيعِ رَجُلًا أَشَدَّ سَوَادًا أَصْفَرَ مِنْهُ وَلَا آدَمَ يَعْبُرُ بِنَاقَةٍ لَمْ أَرَ بِالْبَقِيعِ نَاقَةً أَحْسَنَ مِنْهَا فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَصَدَقَةٌ قَالَ نَعَمْ قَالَ دُونَكَ هَذِهِ النَّاقَةَ قَالَ فَلَزِمَهُ رَجُلٌ فَقَالَ هَذَا يَتَصَدَّقُ بِهَذِهِ فَوَاللَّهِ لَهِيَ خَيْرٌ مِنْهُ قَالَ فَسَمِعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ كَذَبْتَ بَلْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ وَمِنْهَا ثَلَاثَ مِرَارٍ ثُمَّ قَالَ وَيْلٌ لِأَصْحَابِ الْمِئِينَ مِنْ الْإِبِلِ ثَلَاثًا قَالُوا إِلَّا مَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ إِلَّا مَنْ قَالَ بِالْمَالِ هَكَذَا وَهَكَذَا وَجَمَعَ بَيْنَ كَفَّيْهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ ثُمَّ قَالَ قَدْ أَفْلَحَ الْمُزْهِدُ الْمُجْهِدُ ثَلَاثًا الْمُزْهِدُ فِي الْعَيْشِ الْمُجْهِدُ فِي الْعِبَادَةِ
ابوسلیل کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ بقیع میں ہماری مجلس پر ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ میرے والد یا چچا نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ نبی ﷺ کو جنت البقیع میں دیکھا تو نبی ﷺ فرما رہے تھے جو شخص کوئی چیز صدقہ کرتا ہے میں قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دوں گا یہ سن کر میں اپنے عمامے کا ایک دو پرت کھولنے لگا کہ انہیں صدقہ کروں گا پھر مجھے بھی وہی وسوسہ آگیا جو عام طور پر ابن آدم کو پیش آتا ہے اس لئے میں نے اپناعمامہ واپس باندھ لیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک آدمی جس کی مانند سیاہ اور گندمی رنک کا کوئی آدمی میں نے جنت البقیع میں نہیں دیکھا تھا وہ ایک اونٹنی کو لئے چلاآرہا تھا جس سے زیادہ حسین کوئی اونٹنی میں نے پورے جنت البقیع میں نہیں دیکھی اس نے آکرعرض کی یا رسول اللہ کیا میں صدقہ پیش کرسکتا ہوں؟ نبی ﷺ نے فرمایا ہاں اس نے کہا پھر یہ اونٹنی قبول فرما لیجیے پھر وہ آدمی چلا گیا میں نے کہا ایسا آدمی یہ صدقہ کررہا ہے واللہ یہ اونٹنی اس سے بہتر ہے۔ نبی ﷺ نے یہ بات سن لی اور فرمایا تم غلط کہہ رہے ہو بلکہ وہ تم سے اور اس اونٹنی سے بہتر ہے تین مرتبہ فرمایا پھر فرمایا سینکڑوں اونٹ رکھنے والوں کے لئے ہلاکت ہے سوائے۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ سوائے کس کے؟ فرمایا سوائے اس شخص کے جو مال کو اس اس طرح خرچ کرے نبی ﷺ نے ہتھیلی بند کرکے دائیں بائیں اشارہ فرمایا پھر فرمایا وہ شخص کامیاب ہوگیا جو زندگی میں بےرغبت اور عبادت میں خوب محنت کرنے والا ہو۔

سلامتی والا دل، سچ بولنے والی زبان، اطمینان والا نفس، اور پاکیزہ اخلاق والے:
مسند احمد، حدیث نمبر: 20352
قَالَ أَبُو ذَرٍّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَخْلَصَ قَلْبَهُ لِلْإِيمَانِ وَجَعَلَ قَلْبَهُ سَلِيمًا وَلِسَانَهُ صَادِقًا وَنَفْسَهُ مُطْمَئِنَّةً وَخَلِيقَتَهُ مُسْتَقِيمَةً وَجَعَلَ أُذُنَهُ مُسْتَمِعَةً وَعَيْنَهُ نَاظِرَةً فَأَمَّا الْأُذُنُ فَقَمِعٌ وَالْعَيْنُ بِمُقِرَّةٍ لِمَا يُوعَى الْقَلْبُ وَقَدْ أَفْلَحَ مَنْ جَعَلَ قَلْبَهُ وَاعِيًا
حضرت ابوذر ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ شخص کامیاب ہوگیا جس نے اپنے دل کو ایمان کے لئے خالص کرلیا اور اسے قلب سلیم، لسان صادق، نفس مطمئنہ اور اخلاق حسنہ عطاء کئے گئے ہوں اس کے کانوں کو شنوائی اور آنکھوں کو بینائی دی گئی ہو اور کانوں کی مثال پیندے کی سی ہے جبکہ آنکھ دل میں محفوظ ہونے والی چیزوں کو ٹھکانہ فراہم کرتی ہے اور وہ شخص کامیاب ہوگیا جس کا دل محفوظ کرنے والا ہو۔

استقامت اور ثابت قدم رہنے والے:
مسند احمد، حدیث نمبر: 21384
عَنْ ثَوْبَانَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اسْتَقِيمُوا تُفْلِحُوا وَخَيْرُ أَعْمَالِكُمْ الصَّلَاةُ وَلَنْ يُحَافِظَ عَلَى الْوُضُوءِ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَقَالَ عِصَامٌ وَلَا يُحَافِظُ۔
حضرت ثوبان ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ثابت قدم رہو کامیاب ہوجاؤ گے تمہارا سب سے بہترین عمل نماز ہے اور وضو کی پابندی وہی کرتا ہے جو مؤمن ہو۔

قرآن کی تلاوت اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے والے:
سنن دارمی، حدیث نمبر: 3322
عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ مَنْ قَرَأَ فِي لَيْلَةٍ عَشْرَ آيَاتٍ لَمْ يُكْتَبْ مِنْ الْغَافِلِينَ وَمَنْ قَرَأَ فِي لَيْلَةٍ بِمِائَةِ آيَةٍ كُتِبَ مِنْ الْقَانِتِينَ وَمَنْ قَرَأَ بِمِائَتَيْ آيَةٍ كُتِبَ مِنْ الْفَائِزِينَ۔
حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں جو شخص رات کے وقت دس آیات پڑھتا ہے اسے غافلوں میں نہیں لکھا جاتا اور جو شخص رات کے وقت سو آیات پڑھ لیتا ہے اسے عبادت گزاروں میں لکھا جاتا ہے اور جو دو سو آیات پڑھ لیتا ہے اسے کامیاب لوگوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقی معنوں میں کامیابی اور ناکامی کے تصور کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور کامیاب لوگوں کی خصوصیات کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب بندوں میں شامل ہو سکیں۔ آمین

کامیاب لوگوں کی نشانیاں – قرآنی آیات کی روشنی میںجمعۃ المبارک، 20 جمادی الآخر 1444ھ، بمطابق 13 جنوری 2023

ہر انسان کامیاب ہونا چاہتا ہے۔ ہر انسان نے اپنے ذہن میں کامیابی کا ایک تصور بنا رکھا ہوتا ہے اور اس تصور کے مطابق وہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہر وقت کوشاں رہتا ہے۔ بعض اوقات انسان اپنے قائم کردہ تصور کے مطابق کامیابی حاصل کرنے کے باوجود مطمئن نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جو کامیابی اور ناکامی کا معیار اس نے اپنے لیے قائم کیا ہوتا ہے وہ غلط ہوتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ حقیقی کامیابی کیا ہے؟

القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 185
فَمَنۡ زُحۡزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدۡخِلَ الۡجَـنَّةَ فَقَدۡ فَازَ ‌ؕ وَمَا الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ‏ ۞
پس جو کوئی دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہ واقعۃً کامیاب ہو گیا، اور دنیا کی زندگی دھوکے کے مال کے سوا کچھ بھی نہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام، آیت نمبر 16
مَنۡ يُّصۡرَفۡ عَنۡهُ يَوۡمَئِذٍ فَقَدۡ رَحِمَهٗ‌ؕ وَ ذٰ لِكَ الۡـفَوۡزُ الۡمُبِيۡنُ ۞
اس دن جس شخص سے وہ (عذاب) پھیر دیا گیا تو بیشک (اﷲ نے) اس پر رحم فرمایا، اور یہی (اُخروی بخشش) کھلی کامیابی ہے،

قرآنِ مجید کی نظر میں حقیقی معنوں میں کامیاب شخص وہ ہے جو قیامت کے دن دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا۔ اب ہم قرآنی آیات کی روشنی میں کامیاب لوگوں کی 27 نشانیاں یا خصوصیات بیان کرتے ہیں۔

مختصر خاکہ:

1) ایمان 2) تقویٰ و پرہیزگاری 3) نماز قائم کرنا 4) بیہودہ اور بے مقصد گفتگو سے بچنا 5) زکوٰۃ ادا کرنا 6) شرم گاہوں کی حفاظت کرنا 7) امانت میں خیانت نہ کرنا 8) وعدوں کی پاسداری کرنا 9) امر باالمعروف و نہی عن المنکر 10) صبر کرنا 11) ثابت قدم رہنا 12) شراب سے بچنا 13) جوئے سے بچنا 14) فال اور قسمت کا حال معلوم کرنے کے طریقوں سے بچنا 15) سود اور سودی کاروبار سے بچنا 16) نیکیوں کی کثرت کرنا 17) اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرنا 18) محبت و اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 19) کثرت سے اللہ کا ذکر کرنا 20) جہاد فی سبیل اللہ کرنا 21) توبہ کرنا 22) اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا طلبگار رہنا 23) قرابت داروں کا حق ادا کرنا 24) محتاجوں کا خیال رکھنا 25) مسافروں کی مدد کرنا 26) سچ بولنا 27) بخل و کنجوسی سے بچنا 28) نفس کا تزکیہ کرنا

اب ہم کامیاب لوگوں کی نشانیاں یا خصوصیات ایک ایک کر کے بیان کرتے ہیں:

1) ایمان

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 1
قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَۙ ۞
بیشک ایمان والے مراد پا گئے،

کونسے مومن کامیاب ہیں؟

القرآن – سورۃ نمبر 58 المجادلة, آیت نمبر 22
لَا تَجِدُ قَوۡمًا يُّؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ يُوَآدُّوۡنَ مَنۡ حَآدَّ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَلَوۡ كَانُوۡۤا اٰبَآءَهُمۡ اَوۡ اَبۡنَآءَهُمۡ اَوۡ اِخۡوَانَهُمۡ اَوۡ عَشِيۡرَتَهُمۡ‌ؕ اُولٰٓئِكَ كَتَبَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمُ الۡاِيۡمَانَ وَاَيَّدَهُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡهُ‌ ؕ وَيُدۡخِلُهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا‌ ؕ رَضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ‌ ؕ اُولٰٓئِكَ حِزۡبُ اللّٰهِ‌ ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ اللّٰهِ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ  ۞
آپ اُن لوگوں کو جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کبھی اس شخص سے دوستی کرتے ہوئے نہ پائیں گے جو اللہ اور اُس کے رسول ﷺ سے دشمنی رکھتا ہے خواہ وہ اُن کے باپ (اور دادا) ہوں یا بیٹے (اور پوتے) ہوں یا اُن کے بھائی ہوں یا اُن کے قریبی رشتہ دار ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اُس (اللہ) نے ایمان ثبت فرما دیا ہے اور انہیں اپنی روح (یعنی فیضِ خاص) سے تقویت بخشی ہے، اور انہیں (ایسی) جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ اُن میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اللہ اُن سے راضی ہو گیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے ہیں، یہی اﷲ (والوں) کی جماعت ہے، یاد رکھو! بیشک اﷲ (والوں) کی جماعت ہی مراد پانے والی ہے،

تو گویا جو لوگ ایمان کی اس کیفیت اور حالت کو حاصل کر لیتے ہیں کہ وہ دوستی اور دشمنی کا معیار اللہ تعالیٰ کی ذات کو بنا لیتے ہیں وہی دراصل حقیقی مومن ہیں جن کو قرآن کہتا ہے کہ “بے شک ایمان والے مراد پاگئے یا کامیاب ہو گئے”۔

سنن نسائی, حدیث نمبر: 4875
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُعْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ. ح وَأَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَيَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَاعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ أَحْمَدُ فِي حَدِيثِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَسْرِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ التَّوْبَةُ مَعْرُوضَةٌ بَعْدُ.
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب زنا کرنے والا زنا کرتا ہے تو زنا کے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا، جب چوری کرنے والا چوری کرتا ہے تو چوری کے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا۔ جب شراب پینے والا شراب پیتا ہے تو پیتے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا، اس کے بعد بھی اب تک اس کی توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے ۔

القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 71
وَالۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتُ بَعۡضُهُمۡ اَوۡلِيَآءُ بَعۡضٍ‌ۘ يَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَيَنۡهَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡكَرِ وَيُقِيۡمُوۡنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤۡتُوۡنَ الزَّكٰوةَ وَيُطِيۡعُوۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ‌ؕ اُولٰۤئِكَ سَيَرۡحَمُهُمُ اللّٰهُؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ ۞
اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 45 الجاثية، آیت نمبر 30
فَاَمَّا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَيُدۡخِلُهُمۡ رَبُّهُمۡ فِىۡ رَحۡمَتِهٖ‌ ؕ ذٰلِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡمُبِيۡنُ ۞
پس جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے تو اُن کا رب انہیں اپنی رحمت میں داخل فرما لے گا، یہی تو واضح کامیابی ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 64 التغابن، آیت نمبر 9
وَمَنۡ يُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰهِ وَيَعۡمَلۡ صَالِحًـا يُّكَفِّرۡ عَنۡهُ سَيِّاٰتِهٖ وَيُدۡخِلۡهُ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَاۤ اَبَدًا‌ ؕ ذٰ لِكَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیْمُ ۞
اور جو شخص اللہ پر ایمان لاتا ہے اور نیک عمل کرتا ہے تو (اللہ) اس (کے نامۂ اعمال) سے اس کی خطائیں مٹا دے گا اور اسے جنتوں میں داخل فرما دے گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے، یہ بہت بڑی کامیابی ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 85 البروج، آیت نمبر 11
اِنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمۡ جَنّٰتٌ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ ؕ ذٰلِكَ الۡفَوۡزُ الۡكَبِيۡرُؕ ۞
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کے لئے جنتیں ہیں جن کے نیچے سے نہریں جاری ہیں، یہی بڑی کامیابی ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 72
وَعَدَ اللّٰهُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا وَمَسٰكِنَ طَيِّبَةً فِىۡ جَنّٰتِ عَدۡنٍ‌ ؕ وَرِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكۡبَرُ‌ ؕ ذٰ لِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ  ۞
اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے جنتوں کا وعدہ فرما لیا ہے جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور ایسے پاکیزہ مکانات کا بھی (وعدہ فرمایا ہے) جوجنت کے خاص مقام پر سدا بہار باغات میں ہیں، اور (پھر) اللہ کی رضا اور خوشنودی (ان سب نعمتوں سے) بڑھ کر ہے (جو بڑے اجر کے طور پر نصیب ہوگی)، یہی زبردست کامیابی ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 48 الفتح، آیت نمبر 5
لِّيُدۡخِلَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا وَيُكَفِّرَ عَنۡهُمۡ سَيِّاٰتِهِمۡ‌ؕ وَكَانَ ذٰ لِكَ عِنۡدَ اللّٰهِ فَوۡزًا عَظِيۡمًا ۞
(یہ سب نعمتیں اس لئے جمع کی ہیں) تاکہ وہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو بہشتوں میں داخل فرمائے جن کے نیچے نہریں رواں ہیں (وہ) ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ اور (مزید یہ کہ) وہ ان کی لغزشوں کو (بھی) ان سے دور کر دے (جیسے اس نے ان کی خطائیں معاف کی ہیں)۔ اور یہ اﷲ کے نزدیک (مومنوں کی) بہت بڑی کامیابی ہے،

2) تقویٰ و پرہیزگاری

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 189
وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ۞
اور اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ،

ہر اس کام کو کرنا، جس کے کرنے کا دین نے حکم دیا ہے اور ہر اس کام سے رک جانا جس سے رکنے کا دین نے حکم دیا ہے اسے تقویٰ کہتے ہیں۔ اور تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنا، یہ کامیاب لوگوں کی نشانی ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 13
تِلۡكَ حُدُوۡدُ اللّٰهِ‌ ؕ وَمَنۡ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ يُدۡخِلۡهُ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا‌ ؕ وَذٰ لِكَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ ۞
یہ اللہ کی (مقرر کردہ) حدیں ہیں، اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی فرمانبرداری کرے اسے وہ بہشتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہیں ان میں ہمیشہ رہیں گے، اور یہ بڑی کامیابی ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 78 النبإ، آیت نمبر 31
اِنَّ لِلۡمُتَّقِيۡنَ مَفَازًا ۞
بیشک پرہیزگاروں کے لئے کامیابی ہے،

3) نماز
خشوع و خضوع یعنی انتہائی سکون اور دل جمعی کے ساتھ نماز ادا کرنا اور نمازوں کی حفاظت کرنا یعنی ہر ممکن کوشش کرنا کہ نماز اول وقت میں باجماعت ادا کی جائے اور کوئی نماز قضا نہ ہونے پائے، یہ کامیاب لوگوں کی نشانی ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 2
الَّذِيۡنَ هُمۡ فِىۡ صَلَاتِهِمۡ خَاشِعُوۡنَ ۞
جو لوگ اپنی نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 9
وَالَّذِيۡنَ هُمۡ عَلٰى صَلَوٰتِهِمۡ يُحَافِظُوۡنَ‌ۘ ۞
اور جو اپنی نمازوں کی (مداومت کے ساتھ) حفاظت کرنے والے ہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 22 الحج، آیت نمبر 77
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا ارۡكَعُوۡا وَاسۡجُدُوۡا وَ اعۡبُدُوۡا رَبَّكُمۡ وَافۡعَلُوۡا الۡخَيۡرَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ۩ ۞
اے ایمان والو! تم رکوع کرتے رہو اور سجود کرتے رہو، اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہو اور (دیگر) نیک کام کئے جاؤ تاکہ تم فلاح پا سکو۔

القرآن – سورۃ نمبر 20 طه, آیت نمبر 132
وَاۡمُرۡ اَهۡلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَاصۡطَبِرۡ عَلَيۡهَا‌ ؕ لَا نَسْأَلُكَ رِزۡقًا‌ ؕ نَحۡنُ نَرۡزُقُكَ‌ ؕ وَالۡعَاقِبَةُ لِلتَّقۡوٰى ۞
اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کرو اور اس پر قائم رہو۔ ہم تم سے روزی کے خواستگار نہیں۔ بلکہ تمہیں ہم روزی دیتے ہیں اور (نیک) انجام (اہل) تقویٰ کا ہے

4) بیہودہ اور بے مقصد گفتگو سے بچنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 3
وَالَّذِيۡنَ هُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَۙ ۞
اور جو بیہودہ باتوں سے (ہر وقت) کنارہ کش رہتے ہیں،

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 173
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ وَمَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُکْرِمْ جَارَهُ وَمَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُکْرِمْ ضَيْفَهُ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص کا ایمان اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ہو پس اسے چاہئے کہ وہ اچھی بات کہے یا پھر اسے خاموش رہنا چاہئے اور جس شخص کا ایمان اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ہو اسے چاہئے کہ اپنے ہمسائے کی عزت کرے اور جس شخص کا ایمان اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ہو اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1477
الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنِ اكْتُبْ إِلَيَّ بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَتَبَ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ كَرِهَ لَكُمْ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ وَقَالَ وَإِضَاعَةَ الْمَالِ وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ.
حضرت مغیرہ ؓ نے لکھا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین باتیں پسند نہیں کرتا۔ 1) بلاوجہ کی گپ شپ، 2) فضول خرچی اور 3) لوگوں سے بہت مانگنا۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 4483
عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَمَنْعًا وَهَاتِ وَکَرِهَ لَکُمْ ثَلَاثًا قِيلَ وَقَالَ وَکَثْرَةَ السُّؤَالِ وَإِضَاعَةَ الْمَالِ۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تین باتوں کو تمہارے لئے ناپسند کیا ہے 1) فضول گفتگو 2) سوال کی کثرت اور 3) مال کو ضائع کرنا۔

حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب تم اپنے دل میں سختی، بدن میں کمزوری اور رزق میں تنگی دیکھو تو جان لو کہ تم نے ضرور کوئی فضول بات منہ سے نکالی ہے۔
منہاج العابدین، صفحہ (64,65)

5) زکوٰۃ ادا کرنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 4
وَالَّذِيۡنَ هُمۡ لِلزَّكٰوةِ فَاعِلُوۡنَۙ ۞
اور جو (ہمیشہ) زکوٰۃ ادا (کر کے اپنی جان و مال کو پاک) کرتے رہتے ہیں،

6) شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 5
وَالَّذِيۡنَ هُمۡ لِفُرُوۡجِهِمۡ حٰفِظُوۡنَۙ ۞
اور جو (دائماً) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 6
اِلَّا عَلٰٓى اَزۡوَاجِهِمۡ اَوۡ مَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُهُمۡ فَاِنَّهُمۡ غَيۡرُ مَلُوۡمِيۡنَ‌ۚ‏ ۞
سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بیشک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 7
فَمَنِ ابۡتَغٰى وَرَآءَ ذٰ لِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡعٰدُوۡنَ‌ ۞
پھر جو شخص ان (حلال عورتوں) کے سوا کسی اور کا خواہش مند ہوا تو ایسے لوگ ہی حد سے تجاوز کرنے والے (سرکش) ہیں،

دینِ اسلام نے جو عورتیں ایک مرد کے لئے حلال کی ہیں ان کے علاوہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنا، اپنے نفس کو بری خواہشات، زنا، اور بدکاری سے بچانا کامیاب لوگوں کی نشانی ہے۔

7) امانت میں خیانت نہ کرنے والے 8) وعدوں کی پاسداری کرنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 8
وَالَّذِيۡنَ هُمۡ لِاَمٰنٰتِهِمۡ وَعَهۡدِهِمۡ رَاعُوۡنَ ۞
اور جو لوگ اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے والے ہیں،

صحیح بخاری, حدیث نمبر: 33
‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ، ‏‏‏‏‏‏إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ.

حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، منافق کی علامتیں تین ہیں۔ 1) جب بات کرے جھوٹ بولے، 2) جب وعدہ کرے اس کے خلاف کرے اور 3) جب اس کو امین بنایا جائے تو خیانت کرے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2397
‏‏‏‏أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَدْعُو فِي الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقُولُ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ قَائِلٌ:‏‏‏‏ مَا أَكْثَرَ مَا تَسْتَعِيذُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مِنَ الْمَغْرَمِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا غَرِمَ حَدَّثَ، ‏‏‏‏‏‏فَكَذَبَ، ‏‏‏‏‏‏وَوَعَدَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخْلَفَ.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں دعا کرتے تو یہ بھی کہتے اے اللہ! میں گناہ اور قرض سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ قرض سے اتنی پناہ مانگتے ہیں؟ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ جب آدمی مقروض ہوتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کر کے اس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

9) امر باالمعروف و نہی عن المنکر کرنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 104
وَلۡتَكُنۡ مِّنۡكُمۡ اُمَّةٌ يَّدۡعُوۡنَ اِلَى الۡخَيۡرِ وَيَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَيَنۡهَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡكَرِ‌ؕ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‏ ۞
اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں،

مسند احمد، حدیث نمبر: 8004
حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنَا الْمُبَارَكُ بْنُ فُضَالَةَ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ لَا أَعْلَمُهُ إِلَّا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كُلُّ سُلَامَى مِنْ ابْنِ آدَمَ صَدَقَةٌ حِينَ يُصْبِحُ فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ سَلَامَكَ عَلَى عِبَادِ اللَّهِ صَدَقَةٌ وَإِمَاطَتَكَ الْأَذَى عَنْ الطَّرِيقِ صَدَقَةٌ وَإِنَّ أَمْرَكَ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ وَنَهْيَكَ عَنْ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ وَحَدَّثَ أَشْيَاءَ مِنْ نَحْوِ هَذَا لَمْ أَحْفَظْهَا
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا انسان کے ہر جوڑ پر صبح کے وقت صدقہ واجب ہوتا ہے مسلمانوں کو یہ بات بڑی مشکل معلوم ہوئی نبی کریم ﷺ نے فرمایا تمہارا اللہ کے بندوں کو سلام کرنا بھی صدقہ ہے راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا بھی صدقہ ہے امر باالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا بھی صدقہ ہے اس کے علاوہ بھی کچھ چیزیں بیان فرمائیں جو مجھے یاد نہیں رہیں۔

10) سود اور سودی کاروبار سے بچنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 130
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡكُلُوا الرِّبٰٓوا اَضۡعَافًا مُّضٰعَفَةً ‌ ۖ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ‌ۚ ۞
اے ایمان والو! دوگنا اور چوگنا کر کے سود مت کھایا کرو، اور اللہ سے ڈرا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ،

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 4092
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آکِلَ الرِّبَا وَمُؤْکِلَهُ قَالَ قُلْتُ وَکَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ قَالَ إِنَّمَا نُحَدِّثُ بِمَا سَمِعْنَا
حضرت عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے یا کھلانے والے پر لعنت فرمائی۔ کہتے ہیں، میں نے عرض کیا اس کے لکھنے والا اور اس کے گواہ تو کہا ہم تو وہی بیان کرتے ہیں جو ہم نے سنا۔

11) صبر کرنے والے 12) ثابت قدم رہنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 200
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اصۡبِرُوۡا وَصَابِرُوۡا وَرَابِطُوۡا وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ  ۞
اے ایمان والو! صبر کرو اور ثابت قدمی میں (دشمن سے بھی) زیادہ محنت کرو اور (جہاد کے لئے) خوب مستعد رہو، اور (ہمیشہ) اللہ کا تقوٰی قائم رکھو تاکہ تم کامیاب ہو سکو،

13) شراب نوشی سے بچنے والے 14) جوئے سے بچنے والے 15) فال اور قسمت کا حال معلوم کرنے سے بچنے والے

القرآن – سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 90
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَالۡمَيۡسِرُ وَالۡاَنۡصَابُ وَالۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّيۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡهُ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ۞
اے ایمان والو! بیشک شراب اور جُوا اور (عبادت کے لئے) نصب کئے گئے بُت اور (قسمت معلوم کرنے کے لئے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں۔ سو تم ان سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ،

اور ایک حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے کہ شراب پینے والا پیتے وقت حالتِ ایمان میں نہیں ہوتا جب تک کہ وہ توبہ نہ کر لے۔ چور، چوری کرتے وقت حالتِ ایمان میں نہیں ہوتا جب تک کہ وہ توبہ نہ کر لے۔ اور زانی، زنا کرتے وقت حالتِ ایمان میں نہیں ہوتا جب تک کہ وہ توبہ نہ کر لے۔

16) کثرت سے نیکیاں کرنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 8
وَالۡوَزۡنُ يَوۡمَئِذِ اۨلۡحَـقُّ‌ ۚ فَمَنۡ ثَقُلَتۡ مَوَازِيۡنُهٗ فَاُولٰۤئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‏ ۞
اور اس دن (اعمال کا) تولا جانا حق ہے، سو جن کے (نیکیوں کے) پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ کامیاب ہوں گے،

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 102
فَمَنۡ ثَقُلَتۡ مَوَازِيۡنُهٗ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ۞
پس جن کے پلڑے (زیادہ اعمال کے باعث) بھاری ہوں گے تو وہی لوگ کامیاب و کامران ہوں گے،

17) کثرت سے اللہ کی نعمتوں کو یاد کرنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 69
فَاذۡكُرُوۡۤا اٰ لَۤاءَ اللّٰهِ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ۞
سو تم اﷲ کی نعمتوں کو یاد کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ،

القرآن – سورۃ نمبر 14 ابراهيم، آیت نمبر 34
وَاِنۡ تَعُدُّوۡا نِعۡمَتَ اللّٰهِ لَا تُحۡصُوۡهَا ؕ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَـظَلُوۡمٌ كَفَّارٌ  ۞
اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو (تو) پورا شمار نہ کر سکو گے، بیشک انسان بڑا ہی ظالم بڑا ہی ناشکرگزار ہے،۔

18) محبت و اطاعت رسول میں سرِ تسلیم خم کرنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 157
فَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا بِهٖ وَعَزَّرُوۡهُ وَنَصَرُوۡهُ وَ اتَّبَـعُوا النُّوۡرَ الَّذِىۡۤ اُنۡزِلَ مَعَهٗ ۤ‌ ۙ اُولٰۤئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ  ۞
پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نورِ (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 24 النور، آیت نمبر 51
اِنَّمَا كَانَ قَوۡلَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اِذَا دُعُوۡۤا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ لِيَحۡكُمَ بَيۡنَهُمۡ اَنۡ يَّقُوۡلُوۡا سَمِعۡنَا وَاَطَعۡنَا‌ؕ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ۞
ایمان والوں کی بات تو فقط یہ ہوتی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے تو وہ یہی کچھ کہیں کہ ہم نے سن لیا، اور ہم (سراپا) اطاعت پیرا ہو گئے، اور ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب، آیت نمبر 71
وَمَنۡ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِيۡمًا ۞
اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتا ہے تو بیشک وہ بڑی کامیابی سے سرفراز ہوا،

19) کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال، آیت نمبر 45
وَاذۡكُرُوا اللّٰهَ كَثِيۡرًا لَّعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ‌ۚ ۞
اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ،

20) جہاد فی سبیل اللہ کرنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 88
لٰـكِنِ الرَّسُوۡلُ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَهٗ جَاهَدُوۡا بِاَمۡوَالِهِمۡ وَاَنۡفُسِهِمۡ‌ؕ وَاُولٰۤئِكَ لَهُمُ الۡخَيۡـرٰتُ‌ وَاُولٰۤئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‏ ۞
لیکن رسول ﷺ اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرتے ہیں اور انہی لوگوں کے لئے سب بھلائیاں ہیں اور وہی لوگ مراد پانے والے ہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 111
اِنَّ اللّٰهَ اشۡتَرٰى مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اَنۡفُسَهُمۡ وَاَمۡوَالَهُمۡ بِاَنَّ لَهُمُ الۡجَــنَّةَ‌ ؕ يُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ فَيَقۡتُلُوۡنَ وَ يُقۡتَلُوۡنَ‌وَعۡدًا عَلَيۡهِ حَقًّا فِى التَّوۡرٰٮةِ وَالۡاِنۡجِيۡلِ وَالۡقُرۡاٰنِ‌ ؕ وَمَنۡ اَوۡفٰى بِعَهۡدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسۡتَـبۡشِرُوۡا بِبَيۡعِكُمُ الَّذِىۡ بَايَعۡتُمۡ بِهٖ‌ ؕ وَذٰ لِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ ۞
بیشک اﷲ نے اہلِ ایمان سے ان کی جانیں اور ان کے مال، ان کے لئے جنت کے عوض خرید لئے ہیں، (اب) وہ اللہ کی راہ میں قتال کرتے ہیں، سو وہ (حق کی خاطر) قتل کرتے ہیں اور (خود بھی) قتل کئے جاتے ہیں۔ (اﷲ نے) اپنے ذمۂ کرم پر پختہ وعدہ (لیا) ہے، تَورات میں (بھی) انجیل میں (بھی) اور قرآن میں (بھی)، اور کون اپنے وعدہ کو اﷲ سے زیادہ پورا کرنے والا ہے، سو (ایمان والو!) تم اپنے سودے پر خوشیاں مناؤ جس کے عوض تم نے (جان و مال کو) بیچا ہے، اور یہی تو زبردست کامیابی ہے،

21) توبہ کرنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 24 النور، آیت نمبر 31
وَتُوۡبُوۡۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِيۡعًا اَيُّهَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ۞
اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم فلاح پا جاؤ،

القرآن – سورۃ نمبر 28 القصص، آیت نمبر 67
فَاَمَّا مَنۡ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًـا فَعَسٰٓى اَنۡ يَّكُوۡنَ مِنَ الۡمُفۡلِحِيۡنَ ۞
لیکن جس نے توبہ کر لی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیا تو یقیناً وہ فلاح پانے والوں میں سے ہوگا،

22) اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے طالب: 23) قریبی رشتوں، 24) محتاجوں اور 25) مسافروں کا خیال رکھنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 30 الروم، آیت نمبر 38
فَاٰتِ ذَا الۡقُرۡبٰى حَقَّهٗ وَ الۡمِسۡكِيۡنَ وَابۡنَ السَّبِيۡلِ‌ؕ ذٰلِكَ خَيۡرٌ لِّلَّذِيۡنَ يُرِيۡدُوۡنَ وَجۡهَ اللّٰهِ‌ۖ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‏ ۞
پس آپ قرابت دار کو اس کا حق ادا کرتے رہیں اور محتاج اور مسافر کو (ان کا حق)، یہ ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو اﷲ کی رضامندی کے طالب ہیں، اور وہی لوگ مراد پانے والے ہیں،

صحیح بخاری, حدیث نمبر: 5984
النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعٌ.
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قطع رحمی کرنے (رشتوں کو توڑنے) والا جنت میں نہیں جائے گا۔

ایک حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے کہ خونی رشتہ اللہ کے عرش کے ساتھ جڑا ہوا ہوتا ہے۔ جو اس خونی رشتے کو جوڑتا ہے اس کا تعلق اللہ کے عرش کے ساتھ جڑ جاتا ہے اور جو اس خونی رشتے کو توڑتا ہے اس کا تعلق اللہ کے عرش سے ٹوٹ جاتا ہے۔

اسی طرح ایک حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے کہ جو شخص خونی رشتوں کا لحاظ کرتا ہے اور ان کو جوڑے رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عمر میں اور اس کے رزق میں برکت پیدا کر دیتا ہے۔

26) سچ بولنے والے

القرآن – سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 119
قَالَ اللّٰهُ هٰذَا يَوۡمُ يَـنۡفَعُ الصّٰدِقِيۡنَ صِدۡقُهُمۡ‌ؕ لَهُمۡ جَنّٰتٌ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَاۤ اَبَدًا‌ ؕ رَضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ‌ ؕ ذٰ لِكَ الۡـفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ ۞
اللہ فرمائے گا: یہ ایسا دن ہے (جس میں) سچے لوگوں کو ان کا سچ فائدہ دے گا، ان کے لئے جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ اﷲ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے، یہی (رضائے الٰہی) سب سے بڑی کامیابی ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 87
وَمَنۡ اَصۡدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِيۡثًا  ۞
اور اللہ سے بات میں زیادہ سچا کون ہے،۔

27) بخل و کنجوسی سے بچنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 100
قُلْ لَّوۡ اَنۡـتُمۡ تَمۡلِكُوۡنَ خَزَآئِنَ رَحۡمَةِ رَبِّىۡۤ اِذًا لَّاَمۡسَكۡتُمۡ خَشۡيَةَ الۡاِنۡفَاقِ‌ ؕ وَكَانَ الۡاِنۡسَانُ قَتُوۡرًا ۞
فرما دیجئے: اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے تو تب بھی (سب) خرچ ہوجانے کے خوف سے تم (اپنے ہاتھ) روکے رکھتے، اور انسان بہت ہی تنگ دل اور بخیل واقع ہوا ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 59 الحشر، آیت نمبر 9
وَمَنۡ يُّوۡقَ شُحَّ نَـفۡسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‌ۚ ۞
اور جو شخص اپنے نفس کے بُخل سے بچا لیا گیا پس وہی لوگ ہی بامراد و کامیاب ہیں،

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1963
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ مُوسَى، عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ، عَنْ مُرَّةَ الطَّيِّبِ، عَنْأَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ خِبٌّ وَلَا مَنَّانٌ وَلَا بَخِيلٌ۔ ‏
ابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: دھوکہ باز، احسان جتانے والا اور بخیل جنت میں نہیں داخل ہوں گے ۔

28) نفس کا تزکیہ کرنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 87 الأعلى، آیت نمبر 14
قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ تَزَكّٰىۙ ۞
بیشک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیا،

القرآن – سورۃ نمبر 91 الشمس، آیت نمبر 9
قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَكّٰٮهَا ۞
بیشک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشو و نما کی)،

کامیاب لوگوں کا اجر کیا ہے؟

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 10
اُولٰٓئِكَ هُمُ الْوٰرِثُوْن ۞
یہی لوگ (جنت کے) وارث ہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 11
الَّذِيۡنَ يَرِثُوۡنَ الۡفِرۡدَوۡسَؕ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ ۞
یہ لوگ جنت کے سب سے اعلیٰ باغات (جنت الفردوس) کی وراثت (بھی) پائیں گے، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے،

مختصر خاکہ:
1) ایمان 2) تقویٰ و پرہیزگاری 3) نماز قائم کرنا 4) بیہودہ اور بے مقصد گفتگو سے بچنا 5) زکوٰۃ ادا کرنا 6) شرم گاہوں کی حفاظت کرنا 7) امانت میں خیانت نہ کرنا 8) وعدوں کی پاسداری کرنا 9) امر باالمعروف و نہی عن المنکر 10) صبر کرنا 11) ثابت قدم رہنا 12) شراب سے بچنا 13) جوئے سے بچنا 14) فال اور قسمت کا حال معلوم کرنے کے طریقوں سے بچنا 15) سود اور سودی کاروبار سے بچنا 16) نیکیوں کی کثرت کرنا 17) اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرنا 18) محبت و اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 19) کثرت سے اللہ کا ذکر کرنا 20) جہاد فی سبیل اللہ کرنا 21) توبہ کرنا 22) اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا طلبگار رہنا 23) قرابت داروں کا حق ادا کرنا 24) محتاجوں کا خیال رکھنا 25) مسافروں کی مدد کرنا 26) سچ بولنا 27) بخل و کنجوسی سے بچنا 28) نفس کا تزکیہ کرنا

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقی معنوں میں کامیابی اور ناکامی کے تصور کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ہر عمل اس حقیقی کامیابی کے حصول کے لیے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

کامیاب لوگوں کی 27 نشانیاں – قرآنی آیات کی روشنی میںجمعۃ المبارک، 13 جمادی الآخر 1444ھ، بمطابق 06 جنوری 2023

ہر انسان کامیاب ہونا چاہتا ہے۔ ہر انسان نے اپنے ذہن میں کامیابی کا ایک تصور بنا رکھا ہوتا ہے اور اس تصور کے مطابق وہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہر وقت کوشاں رہتا ہے۔ بعض اوقات انسان اپنے قائم کردہ تصور کے مطابق کامیابی حاصل کرنے کے باوجود مطمئن نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جو کامیابی اور ناکامی کا معیار اس نے اپنے لیے قائم کیا ہوتا ہے وہ غلط ہوتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ حقیقی کامیابی کیا ہے؟ اس سوال کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے مگر اس مضمون میں ہم قرآنی آیات کی روشنی میں کامیاب لوگوں کی 27 نشانیاں بیان کریں گے۔

مختصر خاکہ:

1) ایمان 2) تقویٰ و پرہیزگاری 3) نماز قائم کرنا 4) بیہودہ اور بے مقصد گفتگو سے بچنا 5) زکوٰۃ ادا کرنا 6) شرم گاہوں کی حفاظت کرنا 7) امانت میں خیانت نہ کرنا 8) وعدوں کی پاسداری کرنا 9) امر باالمعروف و نہی عن المنکر 10) صبر کرنا 11) ثابت قدم رہنا 12) شراب سے بچنا 13) جوئے سے بچنا 14) فال اور قسمت کا حال معلوم کرنے کے طریقوں سے بچنا 15) سود اور سودی کاروبار سے بچنا 16) نیکیوں کی کثرت کرنا 17) اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرنا 18) محبت و اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 19) کثرت سے اللہ کا ذکر کرنا 20) جہاد فی سبیل اللہ کرنا 21) توبہ کرنا 22) اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا طلبگار رہنا 23) قرابت داروں کا حق ادا کرنا 24) محتاجوں کا خیال رکھنا 25) مسافروں کی مدد کرنا 26) بخل و کنجوسی سے بچنا 27) نفس کا تزکیہ کرنا

اب ہم کامیاب لوگوں کی 27 نشانیاں ایک ایک کر کے بیان کرتے ہیں:

1) ایمان

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 1
قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَۙ ۞
بیشک ایمان والے مراد پا گئے،

کونسے مومن کامیاب ہیں؟

القرآن – سورۃ نمبر 58 المجادلة, آیت نمبر 22
لَا تَجِدُ قَوۡمًا يُّؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ يُوَآدُّوۡنَ مَنۡ حَآدَّ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَلَوۡ كَانُوۡۤا اٰبَآءَهُمۡ اَوۡ اَبۡنَآءَهُمۡ اَوۡ اِخۡوَانَهُمۡ اَوۡ عَشِيۡرَتَهُمۡ‌ؕ اُولٰٓئِكَ كَتَبَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمُ الۡاِيۡمَانَ وَاَيَّدَهُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡهُ‌ ؕ وَيُدۡخِلُهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا‌ ؕ رَضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ‌ ؕ اُولٰٓئِكَ حِزۡبُ اللّٰهِ‌ ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ اللّٰهِ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ  ۞
آپ اُن لوگوں کو جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کبھی اس شخص سے دوستی کرتے ہوئے نہ پائیں گے جو اللہ اور اُس کے رسول ﷺ سے دشمنی رکھتا ہے خواہ وہ اُن کے باپ (اور دادا) ہوں یا بیٹے (اور پوتے) ہوں یا اُن کے بھائی ہوں یا اُن کے قریبی رشتہ دار ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اُس (اللہ) نے ایمان ثبت فرما دیا ہے اور انہیں اپنی روح (یعنی فیضِ خاص) سے تقویت بخشی ہے، اور انہیں (ایسی) جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ اُن میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اللہ اُن سے راضی ہو گیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے ہیں، یہی اﷲ (والوں) کی جماعت ہے، یاد رکھو! بیشک اﷲ (والوں) کی جماعت ہی مراد پانے والی ہے،

تو گویا جو لوگ ایمان کی اس کیفیت اور حالت کو حاصل کر لیتے ہیں کہ وہ دوستی اور دشمنی کا معیار اللہ تعالیٰ کی ذات کو بنا لیتے ہیں وہی دراصل حقیقی مومن ہیں جن کو قرآن کہتا ہے کہ “بے شک ایمان والے مراد پاگئے یا کامیاب ہو گئے”۔

سنن نسائی, حدیث نمبر: 4875
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُعْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ. ح وَأَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَيَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَاعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ أَحْمَدُ فِي حَدِيثِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَسْرِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ التَّوْبَةُ مَعْرُوضَةٌ بَعْدُ.
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب زنا کرنے والا زنا کرتا ہے تو زنا کے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا، جب چوری کرنے والا چوری کرتا ہے تو چوری کے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا۔ جب شراب پینے والا شراب پیتا ہے تو پیتے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا، اس کے بعد بھی اب تک اس کی توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے ۔

2) تقویٰ و پرہیزگاری

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 189
وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ۞
اور اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ،

ہر اس کام کو کرنا، جس کے کرنے کا دین نے حکم دیا ہے اور ہر اس کام سے رک جانا جس سے رکنے کا دین نے حکم دیا ہے اسے تقویٰ کہتے ہیں۔ اور تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنا، یہ کامیاب لوگوں کی نشانی ہے۔

3) نماز
خشوع و خضوع یعنی انتہائی سکون اور دل جمعی کے ساتھ نماز ادا کرنا اور نمازوں کی حفاظت کرنا یعنی ہر ممکن کوشش کرنا کہ نماز اول وقت میں باجماعت ادا کی جائے اور کوئی نماز قضا نہ ہونے پائے، یہ کامیاب لوگوں کی نشانی ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 2
الَّذِيۡنَ هُمۡ فِىۡ صَلَاتِهِمۡ خَاشِعُوۡنَ ۞
جو لوگ اپنی نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 9
وَالَّذِيۡنَ هُمۡ عَلٰى صَلَوٰتِهِمۡ يُحَافِظُوۡنَ‌ۘ ۞
اور جو اپنی نمازوں کی (مداومت کے ساتھ) حفاظت کرنے والے ہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 22 الحج، آیت نمبر 77
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا ارۡكَعُوۡا وَاسۡجُدُوۡا وَ اعۡبُدُوۡا رَبَّكُمۡ وَافۡعَلُوۡا الۡخَيۡرَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ۩ ۞
اے ایمان والو! تم رکوع کرتے رہو اور سجود کرتے رہو، اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہو اور (دیگر) نیک کام کئے جاؤ تاکہ تم فلاح پا سکو۔

4) بیہودہ اور بے مقصد گفتگو سے بچنا

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 3
وَالَّذِيۡنَ هُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَۙ ۞
اور جو بیہودہ باتوں سے (ہر وقت) کنارہ کش رہتے ہیں،

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 173
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ وَمَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُکْرِمْ جَارَهُ وَمَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُکْرِمْ ضَيْفَهُ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص کا ایمان اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ہو پس اسے چاہئے کہ وہ اچھی بات کہے یا پھر اسے خاموش رہنا چاہئے اور جس شخص کا ایمان اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ہو اسے چاہئے کہ اپنے ہمسائے کی عزت کرے اور جس شخص کا ایمان اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ہو اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1477
الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنِ اكْتُبْ إِلَيَّ بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَتَبَ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ كَرِهَ لَكُمْ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ وَقَالَ وَإِضَاعَةَ الْمَالِ وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ.
حضرت مغیرہ ؓ نے لکھا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین باتیں پسند نہیں کرتا۔ 1) بلاوجہ کی گپ شپ، 2) فضول خرچی اور 3) لوگوں سے بہت مانگنا۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 4483
عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَمَنْعًا وَهَاتِ وَکَرِهَ لَکُمْ ثَلَاثًا قِيلَ وَقَالَ وَکَثْرَةَ السُّؤَالِ وَإِضَاعَةَ الْمَالِ۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تین باتوں کو تمہارے لئے ناپسند کیا ہے 1) فضول گفتگو 2) سوال کی کثرت اور 3) مال کو ضائع کرنا۔

حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب تم اپنے دل میں سختی، بدن میں کمزوری اور رزق میں تنگی دیکھو تو جان لو کہ تم نے ضرور کوئی فضول بات منہ سے نکالی ہے۔
منہاج العابدین، صفحہ (64,65)

5) زکوٰۃ ادا کرنا:

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 4
وَالَّذِيۡنَ هُمۡ لِلزَّكٰوةِ فَاعِلُوۡنَۙ ۞
اور جو (ہمیشہ) زکوٰۃ ادا (کر کے اپنی جان و مال کو پاک) کرتے رہتے ہیں،

6) شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 5
وَالَّذِيۡنَ هُمۡ لِفُرُوۡجِهِمۡ حٰفِظُوۡنَۙ ۞
اور جو (دائماً) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 6
اِلَّا عَلٰٓى اَزۡوَاجِهِمۡ اَوۡ مَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُهُمۡ فَاِنَّهُمۡ غَيۡرُ مَلُوۡمِيۡنَ‌ۚ‏ ۞
سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بیشک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 7
فَمَنِ ابۡتَغٰى وَرَآءَ ذٰ لِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡعٰدُوۡنَ‌ ۞
پھر جو شخص ان (حلال عورتوں) کے سوا کسی اور کا خواہش مند ہوا تو ایسے لوگ ہی حد سے تجاوز کرنے والے (سرکش) ہیں،

دینِ اسلام نے جو عورتیں ایک مرد کے لئے حلال کی ہیں ان کے علاوہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنا، اپنے نفس کو بری خواہشات، زنا، اور بدکاری سے بچانا کامیاب لوگوں کی نشانی ہے۔

جاری ہے ۔۔۔۔ (بقیہ انشاء اللہ اگلے جمعۃ المبارک پہ)

حقیقتِ ایمان کیا ہے؟ جمعۃ المبارک، 06 جمادی الآخر 1444ھ، بمطابق 30 دسمبر 2022ء

اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو پہچان لینا اور اسے اپنی زندگی کا حقیقی مقصدِ حیات سمجھتے ہوئے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے لوگ ہی حقیقتِ ایمان کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

حقیقتِ ایمان – محبتِ خدا و مصطفیٰﷺ
حقیقتِ مقصد حیات – حقیقتِ ایمان کو پا لینا
حقیقتِ فلاح و کامیابی – حقیقتِ مقصد حیات کو پا لینا

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق حقیقتِ ایمان کیا ہے؟

الطبرانی فی المعجم الکبیر، 3367
حضرت حارث بن مالک انصاری سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے گزرے تو آپ نے انہیں فرمایا: اے حارث! تو نے کیسے صبح کی ؟ انہوں نے عرض کیا: میں نے سچے مومن کی طرح صبح کی (یعنی حقیقت ایمان کے ساتھ صبح کی)، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یقیناً ہر ایک شے کی کوئی نہ کوئی حقیقت ہوتی ہے، سو تمہارے ایمان کی حقیقت کیا ہے؟ عرض کیا: (یا رسول اللہ!) میرا نفس دنیا سے بے رغبت ہو گیا ہے اور اسی وجہ سے میں اپنی راتوں میں بیدار رہتا ہوں اور دن میں پیاسا رہتا ہوں (یعنی دیدار الٰہی کی طلب میں) اور حالت یہ ہو گئی ہے گویا میں اپنے رب کے عرش کو سامنے ظاہر دیکھ رہا ہوں اور اہلِ جنت کو ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور اہلِ دوزخ کو تکلیف سے چلاتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے حارث! تو نے (حقیقت ایمان کو) پہچان لیا، اب (اس سے) چمٹ جا! یہ کلمہ آپ نے تین مرتبہ فرمایا۔
اور دوسری روایت جو حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے اس میں فرمایا: تو نے حقیقتِ ایمان کو پا لیا، پس اس حالت کو قائم رکھنا، تو وہ مومن ہے جس کے دل کو اللہ تعالیٰ نے نور سے بھر دیا ہے۔

تو حقیقتِ ایمان گویا یہ ہے کہ بندۂِ مومن کا دل اللہ کے نور سے بھر جائے اور پھر اس نور سے بندۂِ مومن اپنی دل کی آنکھوں سے آفاقی اور ابدی حُسن کو دیکھنے کے قابل ہو جائے۔

مشکوٰۃ المصابیح, حدیث نمبر: 5358
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَرَنِي رَبِّي بِتِسْعٍ: خَشْيَةِ اللَّهِ فِي السِّرِّ وَالْعَلَانِيَةِ وَكَلِمَةِ الْعَدْلِ فِي الْغَضَبِ وَالرِّضَى وَالْقَصْدِ فِي الْفَقْرِ وَالْغِنَى وَأَنْ أَصِلَ مَنْ قَطَعَنِي وَأُعْطِي مَنْ حَرَمَنِي وَأَعْفُو عَمَّنْ ظَلَمَنِي وَأَنْ يَكُونَ صَمْتِي فِكْرًا وَنُطْقِي ذِكْرًا وَنَظَرِي عِبْرَةً وَآمُرُ بِالْعُرْفِ «وَقِيلَ» بِالْمَعْرُوفِ رَوَاهُ رزين.
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ میرے رب نے مجھے نو چیزوں کا حکم فرمایا:
1) پوشیدہ و اعلانیہ ہر حالت میں اللہ کا ڈر رکھنا،
2) غضب و رضا میں حق بات کرنا،
3) فقر و مال داری میں میانہ روی اختیار کرنا،
4) جو شخص مجھ سے قطع تعلق کرے میں اس کے ساتھ تعلق قائم کروں،
5) جو شخص مجھے محروم رکھے میں اسے عطا کروں،
6) جس شخص نے مجھ پر ظلم کیا میں اسے معاف کروں،
7) میرا خاموش رہنا غور و فکر کا پیش خیمہ ہو،
8) میرا بولنا ذکر ہو
9) اور میرا دیکھنا عبرت ہو،
اور یہ کہ میں نیکی کا حکم دوں۔‘‘

سنن نسائی, حدیث نمبر: 4875
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُعْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ. ح وَأَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَيَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَاعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ أَحْمَدُ فِي حَدِيثِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَسْرِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ التَّوْبَةُ مَعْرُوضَةٌ بَعْدُ.
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب زنا کرنے والا زنا کرتا ہے تو زنا کے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا، جب چوری کرنے والا چوری کرتا ہے تو چوری کے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا۔ جب شراب پینے والا شراب پیتا ہے تو پیتے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا، اس کے بعد بھی اب تک اس کی توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے ۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 173
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ وَمَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُکْرِمْ جَارَهُ وَمَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُکْرِمْ ضَيْفَهُ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص کا ایمان اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ہو پس اسے چاہئے کہ وہ اچھی بات کہے یا پھر اسے خاموش رہنا چاہئے اور جس شخص کا ایمان اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ہو اسے چاہئے کہ اپنے ہمسائے کی عزت کرے اور جس شخص کا ایمان اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ہو اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقتِ ایمان کو پہچاننے اور اس کیفیت اور حالت کو پانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین