سخاوتِ مصطفیٰ ﷺ احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں

حضور نبی مکرم ﷺ کی ذاتِ مقدسہ بلاشبہ ہر بندۂِ مومن کے لیے اسوۂِ حسنہ اور بہترین نمونہ ہے۔ محبت و اطاعتِ مصطفیٰ ﷺ ہی سے انسان اللہ رب العزت کی محبت اور رضا و خوشنودی کو حاصل کر سکتا ہے۔ اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کی رضا و خوشنودی کو حاصل کر لینا ہی در حقیقت ہر بندۂِ مومن کا حقیقی مقصدِ حیات ہے اور یہی دنیا و آخرت کی حقیقی کامیابی ہے۔

اب ہم حضور نبی مکرم ﷺ کی سخاوت کے حوالے سے چند نکات بیان کرتے ہیں۔

حضور نبی مکرم ﷺ سب سے زیادہ سخی!!!

یوں تو سارا سال ہی حضور نبی مکرم ﷺ اللہ تعالیٰ کی عطاء کردہ نعمتوں کو اس کی مخلوق میں بانٹتے رہتے مگر جب رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہوتا تو حضور نبی مکرم ﷺ کی سخاوت میں مزید اضافہ ہو جاتا۔ حدیثِ مبارکہ میں ہے:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6009
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ:
کَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَيْرِ وَکَانَ أَجْوَدَ مَا يَکُونُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام کَانَ يَلْقَاهُ فِي کُلِّ سَنَةٍ فِي رَمَضَانَ حَتَّی يَنْسَلِخَ فَيَعْرِضُ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْقُرْآنَ فَإِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَجْوَدَ بِالْخَيْرِ مِنْ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ۔
رسول اللہ ﷺ تمام لوگوں میں سے مال کے عطا کرنے میں سخی تھے اور تمام اوقات سے زیادہ رمضان کے مہینے میں آپ ﷺ کی سخاوت ہوتی تھی اور حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہر سال رمضان کے اختتام تک آپ سے ملاقات کرتے تھے رسول اللہ ﷺ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کو قرآن مجید سناتے تھے اور جب حضرت جبرائیل (علیہ السلام) رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کرتے تھے تو آپ ﷺ چلتی ہوئی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوجاتے تھے۔

حضور نبی مکرم ﷺ کبھی کسی مانگنے والے کو “نہ” نہیں کہتے!!!

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6018
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ روایت کرتے ہیں:
مَا سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ شَيْئًا قَطُّ فَقَالَ لَا۔
کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہ ﷺ سے کوئی چیز مانگی گئی ہو اور آپ ﷺ نے (جواب میں) “نہ” فرمایا ہو۔

سخاوتِ مصطفیٰﷺ کا نمونہ:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6021
حضرت انس بن مالک ؓ روایت کرتے ہیں:
أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَنَمًا بَيْنَ جَبَلَيْنِ فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ فَأَتَی قَوْمَهُ فَقَالَ أَيْ قَوْمِ أَسْلِمُوا فَوَاللَّهِ إِنَّ مُحَمَّدًا لَيُعْطِي عَطَائً مَا يَخَافُ الْفَقْرَ۔
ایک آدمی نے نبی ﷺ سے دو پہاڑوں کے درمیان کی بکریاں مانگیں تو آپ نے اسے اتنی ہی بکریاں عطا فرما دیں وہ آدمی اپنی قوم کے پاس آیا اور کہنے لگا اے قوم اسلام قبول کرلو اللہ کی قسم! محمد ﷺ خوب عطا فرماتے ہیں اور فقر سے نہیں ڈرتے۔

حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی صرف دنیا کی وجہ سے مسلمان ہوتا تھا، پھر اسلام لانے کے بعد اس کو اسلام، دنیا اور ما فیہا سے زیادہ محبوب ہو جاتا تھا۔

فقر کے باوجود سخاوت:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2471
ام المؤمنین عائشہ ؓ فرماتی ہیں:
إِنْ كُنَّا آَلَ مُحَمَّدٍ نَمْكُثُ شَهْرًا مَا نَسْتَوْقِدُ بِنَارٍ إِنْ هُوَ إِلَّا الْمَاءُ وَالتَّمْرُ۔
ہم آل محمد ﷺ کا یہ حال تھا کہ ایک ایک مہینہ چولہا نہیں جلاتے تھے، ہمارا گزر بسر صرف کھجور اور پانی پر ہوتا تھا۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2069
حضرت انس ؓ سے روایت ہے:
أَنَّهُ مَشَى إِلَى النَّبِيِّ ﷺ بِخُبْزِ شَعِيرٍ وَإِهَالَةٍ سَنِخَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَقَدْ رَهَنَ النَّبِيُّ ﷺ، ‏‏‏‏‏‏دِرْعًا لَهُ بِالْمَدِينَةِ عِنْدَ يَهُودِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَخَذَ مِنْهُ شَعِيرًا لِأَهْلِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَقَدْ سَمِعْتُهُ يَقُولُ:‏‏‏‏ مَا أَمْسَى عِنْدَ آلِ مُحَمَّدٍ ﷺ صَاعُ، ‏‏‏‏‏‏بُرٍّ وَلَا صَاعُ حَبٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ عِنْدَهُ لَتِسْعَ نِسْوَةٍ.
وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں جَو کی روٹی اور پرانی چیزیں لے گئے۔ نبی کریم ﷺ نے اس وقت اپنی زرہ مدینہ میں ایک یہودی کے یہاں گروی رکھی تھی اور اس سے اپنے گھر والوں کے لیے قرض لیا تھا۔ میں نے خود آپ کو یہ فرماتے سنا کہ محمد ﷺ کے گھرانے میں کوئی شام ایسی نہیں آئی جس میں ان کے پاس ایک صاع گیہوں یا ایک صاع کوئی غلہ موجود رہا ہو، حالانکہ آپ ﷺ کی گھر والیوں کی تعداد نو تھی۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5416
حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے:
مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ ﷺ مُنْذُ قَدِمَ الْمَدِينَةَ مِنْ طَعَامِ الْبُرِّ ثَلَاثَ لَيَالٍ تِبَاعًا حَتَّى قُبِضَ.
مدینہ ہجرت کرنے کے بعد آل محمد ﷺ نے کبھی برابر تین دن تک گیہوں کی روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی یہاں تک کہ آپ دنیا سے تشریف لے گئے۔

ایک طرف یہ عالم ہے کہ تین دن مسلسل گیہوں کی روٹی پیٹ بھر کر میسر نہیں ہے مگر دوسری طرف سخاوت کا یہ عالم ہے کہ فرماتے ہیں اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو تو میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ اس کو خرچ کیے بغیر تین دن سے زیادہ کا عرصہ گزر جائے؛

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 6444
حضرت ابوذر غفاری روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَا يَسُرُّنِي أَنَّ عِنْدِي مِثْلَ أُحُدٍ هَذَا ذَهَبًا تَمْضِي عَلَيَّ ثَالِثَةٌ وَعِنْدِي مِنْهُ دِينَارٌ إِلَّا شَيْئًا أَرْصُدُهُ لِدَيْنٍ إِلَّا أَنْ أَقُولَ بِهِ فِي عِبَادِ اللَّهِ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا عَنْ يَمِينِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ شِمَالِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمِنْ خَلْفِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ مَشَى، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ الْأَكْثَرِينَ هُمُ الْأَقَلُّونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا مَنْ قَالَ:‏‏‏‏ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا عَنْ يَمِينِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ شِمَالِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمِنْ خَلْفِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَلِيلٌ مَا هُمْ، ‏‏‏‏‏‏
مجھے اس سے بالکل خوشی نہیں ہوگی کہ میرے پاس اس احد کے برابر سونا ہو اور اس پر تین دن اس طرح گذر جائیں کہ اس میں سے ایک دینار بھی باقی رہ جائے سوا اس تھوڑی سی رقم کے جو میں قرض کی ادائیگی کے لیے چھوڑ دوں بلکہ میں اسے اللہ کے بندوں میں اس طرح خرچ کروں اپنی دائیں طرف سے، بائیں طرف سے اور پیچھے سے۔ پھر نبی کریم ﷺ چلتے رہے، اس کے بعد فرمایا، زیادہ مال جمع رکھنے والے ہی قیامت کے دن مفلس ہوں گے سوا اس شخص کے جو اس مال کو اس اس طرح دائیں طرف سے، بائیں طرف سے اور پیچھے سے خرچ کرے اور ایسے لوگ کم ہیں۔

ایک طرف اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی حالت یہ ہے کہ کئی کئی دن پیٹ بھر کھانا میسر نہیں ہے مگر جب حاجت مندوں کی باری آتی ہے تو سخاوتِ مصطفیٰ جیسی کوئی مثال نہیں ملتی۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی حضور نبی مکرم ﷺ کے اسوۂِ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ مال خرچ کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین

انفاق فی سبیل اللہ احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں

سخاوت (خرچ کرنا) سنتِ الٰہیہ ہے:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 4684
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:‏‏‏‏ أَنْفِقْ، ‏‏‏‏‏‏أُنْفِقْ عَلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ يَدُ اللَّهِ مَلْأَى لَا تَغِيضُهَا نَفَقَةٌ سَحَّاءُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ لَمْ يَغِضْ مَا فِي يَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندو! (میری راہ میں) خرچ کرو تو میں بھی تم پر خرچ کروں گا اور فرمایا، اللہ کے ہاتھ بھرے ہوئے ہیں۔ رات اور دن مسلسل خرچ کرنے سے بھی خالی نہیں ہوتے اور فرمایا تم نے دیکھا نہیں جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے، مسلسل خرچ کئے جا رہا ہے لیکن اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔

سخاوت کرنے والے سے حسد کرنا جائز ہے۔ یہاں حسد مثبت معنوں میں ہے یعنی انسان کوشش کرے کہ وہ بھی سخاوت کرنے والے شخص کی طرح اللہ رب العزت کے دیے ہوئے مال میں سے معاشرے کے محتاج اور ضرورت مند لوگوں پر خرچ کرے۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1895
حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا حَسَدَ إِلَّا عَلَی اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ هَذَا الْکِتَابَ فَقَامَ بِهِ آنَائَ اللَّيْلِ وَآنَائَ النَّهَارِ وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَتَصَدَّقَ بِهِ آنَائَ اللَّيْلِ وَآنَائَ النَّهَارِ۔
دو آدمیوں کے سوا کسی پر حسد کرنا جائز نہیں ایک وہ کہ جسے اللہ تعالیٰ نے کتاب عطا فرمائی ہو اور وہ رات دن اس کی تلاوت کے ساتھ اس پر عمل بھی کرتا ہو اور دوسرا وہ آدمی کہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا فرمایا اور وہ اس مال سے رات دن صدقہ کرتا رہتا ہو۔

اہل و عیال اور رشتہ داروں پر خرچ کرنے کی فضیلت:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2311
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
دِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَدِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ فِي رَقَبَةٍ وَدِينَارٌ تَصَدَّقْتَ بِهِ عَلَی مِسْکِينٍ وَدِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ عَلَی أَهْلِکَ أَعْظَمُهَا أَجْرًا الَّذِي أَنْفَقْتَهُ عَلَی أَهْلِکَ۔
وہ دینار جس کو تو اللہ کے راستہ میں خرچ کرتا ہے اور وہ دینار جس کو تو غلام پر خرچ کرتا ہے اور وہ دینار جو تو نے مسکین پر خیرات کردیا اور وہ دینار جو تو نے اپنے اہل و عیال پر خرچ کیا ہے ان میں سب سے زیادہ ثواب اس دینار کا ہے جو تو اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 1691
ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں:
أَمَرَ النَّبِيُّ ﷺ بِالصَّدَقَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏عِنْدِي دِينَارٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى نَفْسِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عِنْدِي آخَرُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى وَلَدِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عِنْدِي آخَرُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى زَوْجَتِكَ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ زَوْجِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عِنْدِي آخَرُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى خَادِمِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ عِنْدِي آخَرُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْتَ أَبْصَرُ.
نبی اکرم ﷺ نے صدقہ کا حکم دیا تو ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس ایک دینار ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اسے اپنے کام میں لے آؤ ، تو اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اسے اپنے بیٹے کو دے دو ، اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اسے اپنی بیوی کو دے دو ، اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اسے اپنے خادم کو دے دو ، اس نے کہا میرے پاس ایک اور ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اب تم زیادہ بہتر جانتے ہو (کہ کسے دیا جائے) ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 658
سلمان بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
الصَّدَقَةُ عَلَى الْمِسْكِينِ صَدَقَةٌ وَهِيَ عَلَى ذِي الرَّحِمِ ثِنْتَانِ صَدَقَةٌ وَصِلَةٌ۔
مسکین پر صدقہ، صرف صدقہ ہے اور رشتے دار پر صدقہ میں دو بھلائیاں ہیں، یہ صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی ۔

سنن نسائی، حدیث نمبر: 2534
حضرت طارق محاربی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب وہ مدینہ آئے تو رسول اللہ ﷺ خطبہ میں ارشاد فرما رہے تھے:
يَدُ الْمُعْطِي الْعُلْيَا، ‏‏‏‏‏‏وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ أُمَّكَ وَأَبَاكَ وَأُخْتَكَ وَأَخَاكَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَدْنَاكَ أَدْنَاكَ۔
دینے والے کا ہاتھ اوپر والا ہے، اور پہلے انہیں دو جن کی کفالت و نگہداشت کی ذمہ داری تم پر ہو: پہلے اپنی ماں کو، پھر اپنے باپ کو، پھر اپنی بہن کو، پھر اپنے بھائی کو، پھر اپنے قریبی کو، پھر اس کے بعد کے قریبی کو۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 3530
عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا:
يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ لِي مَالًا وَوَلَدًا وَإِنَّ وَالِدِي يَحْتَاجُ مَالِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْتَ وَمَالُكَ لِوَالِدِكَ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ أَوْلَادَكُمْ مِنْ أَطْيَبِ كَسْبِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَكُلُوا مِنْ كَسْبِ أَوْلَادِكُمْ.
اللہ کے رسول! میرے پاس مال ہے اور والد بھی ہیں اور میرے والد کو میرے مال کی ضرورت ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تم اور تمہارا مال تمہارے والد ہی کا ہے (یعنی ان کی خبرگیری تجھ پر لازم ہے) تمہاری اولاد تمہاری پاکیزہ کمائی ہے تو تم اپنی اولاد کی کمائی میں سے کھاؤ ۔

صدقۂ و خیرات کی فضیلت:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 660
فاطمہ بنت قیس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ فِي الْمَالِ حَقًّا سِوَى الزَّكَاةِ .
مال میں زکاۃ کے علاوہ بھی حقوق ہیں ۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6592
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ وَمَا زَادَ اللَّهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ۔
صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا اور بندے کے معاف کردینے سے اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھا دیتا ہے اور جو آدمی بھی اللہ کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ اس کا درجہ بلند فرما دیتا ہے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 664
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ وَتَدْفَعُ عَنْ مِيتَةِ السُّوءِ۔
بے شک صدقہ اللہ تعالیٰ کے غصے کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 661
ابوہریرہ ؓ کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَا تَصَدَّقَ أَحَدٌ بِصَدَقَةٍ مِنْ طَيِّبٍ وَلَا يَقْبَلُ اللَّهُ إِلَّا الطَّيِّبَ إِلَّا أَخَذَهَا الرَّحْمَنُ بِيَمِينِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كَانَتْ تَمْرَةً تَرْبُو فِي كَفِّ الرَّحْمَنِ حَتَّى تَكُونَ أَعْظَمَ مِنَ الْجَبَلِ، ‏‏‏‏‏‏كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فُلُوَّهُ أَوْ فَصِيلَهُ۔
جس نے بھی کسی پاکیزہ چیز کا صدقہ کیا اور اللہ پاکیزہ چیز ہی قبول کرتا ہے تو رحمن اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لیتا ہے اگرچہ وہ ایک کھجور ہی ہو، یہ مالِ صدقہ رحمن کی ہتھیلی میں بڑھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ پہاڑ سے بڑا ہوجاتا ہے، جیسے کہ تم میں سے ایک اپنے گھوڑے کے بچے یا گائے کے بچے کو پالتا ہے ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3369
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ الْأَرْضَ جَعَلَتْ تَمِيدُ، ‏‏‏‏‏‏فَخَلَقَ الْجِبَالَ، ‏‏‏‏‏‏فَعَادَ بِهَا عَلَيْهَا فَاسْتَقَرَّتْ، ‏‏‏‏‏‏فَعَجِبَتِ الْمَلَائِكَةُ مِنْ شِدَّةِ الْجِبَالِ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَبِّ هَلْ مِنْ خَلْقِكَ شَيْءٌ أَشَدُّ مِنَ الْجِبَالِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمِ، ‏‏‏‏‏‏الْحَدِيدُ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَبِّ فَهَلْ مِنْ خَلْقِكَ شَيْءٌ أَشَدُّ مِنَ الْحَدِيدِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمِ، ‏‏‏‏‏‏النَّارُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَبِّ فَهَلْ مِنْ خَلْقِكَ شَيْءٌ أَشَدُّ مِنَ النَّارِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمِ، ‏‏‏‏‏‏الْمَاءُ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَبِّ فَهَلْ مِنْ خَلْقِكَ شَيْءٌ أَشَدُّ مِنَ الْمَاءِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمِ، ‏‏‏‏‏‏الرِّيحُ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَبِّ فَهَلْ مِنْ خَلْقِكَ شَيْءٌ أَشَدُّ مِنَ الرِّيحِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمِ، ‏‏‏‏‏‏ابْنُ آدَمَ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ بِيَمِينِهِ يُخْفِيهَا مِنْ شِمَالِهِ .
جب اللہ نے زمین بنائی تو وہ ہلنے لگی چناچہ اللہ نے پہاڑ بنائے اور ان سے کہا: اسے تھامے رہو، تو زمین ٹھہر گئی، (اس کا ہلنا و جھکنا بند ہوگیا) فرشتوں کو پہاڑوں کی سختی و مضبوطی دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی، انہوں نے کہا: اے میرے رب! کیا آپ کی مخلوق میں پہاڑ سے بھی زیادہ ٹھوس کوئی چیز ہے؟ اللہ نے فرمایا: ہاں، لوہا ہے ، انہوں نے کہا: اے ہمارے رب! کیا آپ کی مخلوق میں لوہے سے بھی طاقتور کوئی چیز ہے؟ اللہ نے فرمایا: ہاں، آگ ہے ، انہوں نے کہا: اے میرے رب! کیا آپ کی مخلوق میں آگ سے بھی زیادہ طاقتور کوئی چیز ہے؟ اللہ نے فرمایا: ہاں، پانی ہے ، انہوں نے کہا: اے ہمارے رب! کیا آپ کی مخلوق میں پانی سے بھی زیادہ طاقتور کوئی چیز ہے؟ اللہ نے فرمایا: ہاں، ہوا ہے ، انہوں نے عرض کیا: اے ہمارے رب! کیا آپ کی مخلوق میں ہوا سے بھی زیادہ طاقتور کوئی مخلوق ہے۔ اللہ نے فرمایا: ہاں، ابن آدم ہے جو اپنے داہنے سے اس طرح صدقہ دیتا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو خبر نہیں ہونے پاتی ہے ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2391
ابوہریرہ یا ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ، ‏‏‏‏‏‏إِمَامٌ عَادِلٌ، ‏‏‏‏‏‏وَشَابٌّ نَشَأَ بِعِبَادَةِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٌ كَانَ قَلْبُهُ مُعَلَّقًا بِالْمَسْجِدِ إِذَا خَرَجَ مِنْهُ حَتَّى يَعُودَ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اللَّهِ فَاجْتَمَعَا عَلَى ذَلِكَ وَتَفَرَّقَا، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٌ دَعَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ حَسَبٍ وَجَمَالٍ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا حَتَّى لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُه۔

سات قسم کے لوگ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اس دن کہ جب اس کے (عرش کے) سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا: ان میں سے ایک انصاف کرنے والا حکمراں ہے، دوسرا وہ نوجوان ہے جو اللہ کی عبادت میں پلا بڑھا، تیسرا وہ شخص ہے جس کا دل مسجد میں لگا ہوا ہو چوتھا وہ دو آدمی جنہوں نے صرف اللہ کی رضا کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ محبت کی، اسی کے واسطے جمع ہوتے ہیں اور اسی کے واسطے الگ ہوتے ہیں، پانچواں وہ آدمی جو تنہائی میں اللہ کا ذکر کرے اور عذاب الٰہی کے خوف میں آنسو بہائے، چھٹا وہ آدمی جسے خوبصورت عورت گناہ کی دعوت دے، لیکن وہ کہے کہ مجھے اللہ کا خوف ہے، ساتواں وہ آدمی جس نے کوئی صدقہ کیا تو اسے چھپایا یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی نہ پتہ چلے کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔

سخی کے لیے بہترین بدلہ ہے جبکہ بخیل کے لیے ہلاکت ہے:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2336
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَا مِنْ يَوْمٍ يُصْبِحُ الْعِبَادُ فِيهِ إِلَّا مَلَکَانِ يَنْزِلَانِ فَيَقُولُ أَحَدُهُمَا اللَّهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا وَيَقُولُ الْآخَرُ اللَّهُمَّ أَعْطِ مُمْسِکًا تَلَفًا۔
ہر دن جس میں بندے صبح کرتے ہیں دو فرشتے اترتے ہیں ان میں سے ایک کہتا ہے اے اللہ خرچ کرنے والوں کو اچھا بدلہ عطا فرما اور دوسرا کہتا ہے اے اللہ بخیل کو ہلاک کرنے والا مال عطا کر۔

ضرورت سے زائد مال خرچ کر دینا بہتر ہے:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2388
حضرت ابوامامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
يَا ابْنَ آدَمَ إِنَّکَ أَنْ تَبْذُلَ الْفَضْلَ خَيْرٌ لَکَ وَأَنْ تُمْسِکَهُ شَرٌّ لَکَ وَلَا تُلَامُ عَلَی کَفَافٍ وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنْ الْيَدِ السُّفْلَی۔
اے ابن آدم اپنی ضرورت سے زائد مال خرچ کردینا تیرے لئے بہتر ہے اگر تو اس کو روک لے گا تو تیرے لئے برا ہوگا اور دینے کی ابتداء اپنے اہل و عیال سے کر اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2312
حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
کَفَی بِالْمَرْئِ إِثْمًا أَنْ يَحْبِسَ عَمَّنْ يَمْلِکُ قُوتَهُ۔
کسی آدمی کے گناہ کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ جس کے خرچ کا وہ ذمہ دار ہے اس کا خرچ روک لے۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 215
يَسۡــئَلُوۡنَكَ مَاذَا يُنۡفِقُوۡنَ ؕ قُلۡ مَآ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ خَيۡرٍ فَلِلۡوَالِدَيۡنِ وَالۡاَقۡرَبِيۡنَ وَالۡيَتٰمٰى وَالۡمَسٰكِيۡنِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِ‌ؕ وَمَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَيۡرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيۡمٌ ۞
آپ سے پوچھتے ہیں کہ (اﷲ کی راہ میں) کیا خرچ کریں، فرما دیں: جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے)، مگر اس کے حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتہ دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں، اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو بیشک اﷲ اسے خوب جاننے والا ہے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3675
عمر بن خطاب ؓ کہتے ہیں:
أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَتَصَدَّقَ فَوَافَقَ ذَلِكَ عِنْدِي مَالًا، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ الْيَوْمَ أَسْبِقُ أَبَا بَكْرٍ إِنْ سَبَقْتُهُ يَوْمًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَجِئْتُ بِنِصْفِ مَالِي،‏‏‏‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ ؟ ،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ مِثْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَتَى أَبُو بَكْرٍ بِكُلِّ مَا عِنْدَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا أَبَا بَكْرٍ مَا أَبْقَيْتَ لِأَهْلِكَ ؟ ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَبْقَيْتُ لَهُمُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَا أَسْبِقُهُ إِلَى شَيْءٍ أَبَدًا.
رسول اللہ ﷺ نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا اور اتفاق سے ان دنوں میرے پاس مال بھی تھا، میں نے (دل میں) کہا: اگر میں ابوبکر ؓ سے کسی دن آگے بڑھ سکوں گا تو آج کے دن آگے بڑھ جاؤں گا، پھر میں اپنا آدھا مال آپ کے پاس لے آیا، تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ میں نے عرض کیا: اتنا ہی (ان کے لیے بھی چھوڑا ہوں) اور ابوبکر ؓ وہ سب مال لے آئے جو ان کے پاس تھا، تو آپ نے پوچھا: ابوبکر! اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ تو انہوں نے عرض کیا: ان کے لیے تو اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ کر آیا ہوں، میں نے (اپنے جی میں) کہا: اللہ کی قسم! میں ان سے کبھی بھی آگے نہیں بڑھ سکوں گا۔

ہر نیک کام صدقہ ہے:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 6021
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
كُلُّ مَعْرُوفٍ صَدَقَةٌ.
ہر نیک کام صدقہ ہے۔

صدقہ کرنے کی ترغیب:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 6022
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ قَالُوا:‏‏‏‏ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ فَيَعْمَلُ بِيَدَيْهِ فَيَنْفَعُ نَفْسَهُ وَيَتَصَدَّقُقَالُوا:‏‏‏‏ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ أَوْ لَمْ يَفْعَلْ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ فَيُعِينُ ذَا الْحَاجَةِ الْمَلْهُوفَقَالُوا:‏‏‏‏ فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ فَيَأْمُرُ بِالْخَيْرِ أَوْ قَالَ بِالْمَعْرُوفِقَالَ:‏‏‏‏ فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ فَيُمْسِكُ عَنِ الشَّرِّ فَإِنَّهُ لَهُ صَدَقَةٌ.
ہر مسلمان پر صدقہ کرنا ضروری ہے۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا اگر کوئی چیز کسی کو (صدقہ کے لیے) میسر نہ ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر اپنے ہاتھ سے کام کرے اور اس سے خود کو بھی فائدہ پہنچائے اور صدقہ بھی کرے۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کی اگر اس میں اس کی طاقت نہ ہو یا کہا کہ نہ کرسکے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر کسی حاجت مند پریشان حال کی مدد کرے۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا اگر وہ یہ بھی نہ کرسکے۔ فرمایا کہ پھر بھلائی کی طرف لوگوں کو رغبت دلائے یا امر بالمعروف کا کرنا عرض کیا اور اگر یہ بھی نہ کرسکے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر برائی سے رکا رہے کہ یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔

صدقہ کا وسیع مفہوم:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2329
حضرت ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ اصحاب النبی ﷺ میں سے کچھ لوگوں نے نبی ﷺ سے عرض کیا:
يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَهَبَ أَهْلُ الدُّثُورِ بِالْأُجُورِ يُصَلُّونَ کَمَا نُصَلِّي وَيَصُومُونَ کَمَا نَصُومُ وَيَتَصَدَّقُونَ بِفُضُولِ أَمْوَالِهِمْ۔
اے اللہ کے رسول! مالدار سب ثواب لے گئے وہ نماز پڑھتے ہیں جیسا کہ ہم نماز پڑھتے ہیں وہ ہماری طرح روزہ رکھتے ہیں اور وہ اپنے زائد اموال سے صدقہ کرتے ہیں۔
اس پر حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا:
أَوَ لَيْسَ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لَکُمْ مَا تَصَّدَّقُونَ إِنَّ بِکُلِّ تَسْبِيحَةٍ صَدَقَةً وَکُلِّ تَکْبِيرَةٍ صَدَقَةً وَکُلِّ تَحْمِيدَةٍ صَدَقَةً وَکُلِّ تَهْلِيلَةٍ صَدَقَةً وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ وَنَهْيٌ عَنْ مُنْکَرٍ صَدَقَةٌ وَفِي بُضْعِ أَحَدِکُمْ صَدَقَةٌ
کیا اللہ نے تمہارے لئے وہ چیز نہیں بنائی جس سے تم کو بھی صدقہ کا ثواب ہو ہر تسبیح ہر تکبیر صدقہ ہے ہر تعریفی کلمہ صدقہ ہے اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کہنا صدقہ ہے اور نیکی کا حکم کرنا صدقہ ہے اور برائی سے منع کرنا صدقہ ہے تمہارے ہر ایک کی شرمگاہ میں صدقہ ہے،
صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا اللہ کے رسول کیا ہم میں کوئی اپنی شہوت پوری کرے تو اس میں بھی اس کے لئے ثواب ہے؟ آپ نے فرمایا:
أَرَأَيْتُمْ لَوْ وَضَعَهَا فِي حَرَامٍ أَکَانَ عَلَيْهِ فِيهَا وِزْرٌ فَکَذَلِکَ إِذَا وَضَعَهَا فِي الْحَلَالِ کَانَ لَهُ أَجْرًا
کیا تم دیکھتے نہیں اگر وہ اسے حرام جگہ استعمال کرتا تو وہ اس کے لئے گناہ کا باعث ہوتا اسی طرح اگر وہ اسے حلال جگہ صرف کرے گا تو اس پر اس کو ثواب حاصل ہوگا۔

صدقۂ جاریہ:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 242
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ مِمَّا يَلْحَقُ الْمُؤْمِنَ مِنْ عَمَلِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَحَسَنَاتِهِ بَعْدَ مَوْتِهِ، ‏‏‏‏‏‏عِلْمًا عَلَّمَهُ وَنَشَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَوَلَدًا صَالِحًا تَرَكَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمُصْحَفًا وَرَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ مَسْجِدًا بَنَاهُ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ بَيْتًا لِابْنِ السَّبِيلِ بَنَاهُ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ نَهْرًا أَجْرَاهُ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ صَدَقَةً أَخْرَجَهَا مِنْ مَالِهِ فِي صِحَّتِهِ وَحَيَاتِهِ يَلْحَقُهُ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهِ.
مومن کو اس کے اعمال اور نیکیوں میں سے اس کے مرنے کے بعد جن چیزوں کا ثواب پہنچتا رہتا ہے وہ یہ ہیں: علم جو اس نے سکھایا اور پھیلایا، نیک اور صالح اولاد جو چھوڑ گیا، وراثت میں قرآن مجید چھوڑ گیا، کوئی مسجد بنا گیا، یا مسافروں کے لیے کوئی مسافر خانہ بنوا دیا ہو، یا کوئی نہر جاری کر گیا، یا زندگی اور صحت و تندرستی کی حالت میں اپنے مال سے کوئی صدقہ نکالا ہو، تو اس کا ثواب اس کے مرنے کے بعد بھی اسے ملتا رہے گا ۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 2880
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةِ أَشْيَاءَ مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ.
جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے سوائے تین چیزوں کے (جن کا فیض اسے برابر پہنچتا رہتا ہے) : ایک صدقہ جاریہ، دوسرا علم جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے، تیسرا صالح اولاد جو اس کے لیے دعائیں کرتی رہے ۔

صدقہ دے کر واپس لینا:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1490
حضرت عمر ؓ بیان کرتے ہیں:
حَمَلْتُ عَلَى فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَأَضَاعَهُ الَّذِي كَانَ عِنْدَهُ فَأَرَدْتُ أَنْ أَشْتَرِيَهُ وَظَنَنْتُ أَنَّهُ يَبِيعُهُ بِرُخْصٍ، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا تَشْتَرِي وَلَا تَعُدْ فِي صَدَقَتِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ أَعْطَاكَهُ بِدِرْهَمٍ فَإِنَّ الْعَائِدَ فِي صَدَقَتهِ كَالْعَائِدِ فِي قَيْئِهِ.
میں نے ایک گھوڑا اللہ تعالیٰ کے راستہ میں ایک شخص کو سواری کے لیے دے دیا۔ لیکن اس شخص نے گھوڑے کو خراب کردیا۔ اس لیے میں نے چاہا کہ اسے خرید لوں۔ میرا یہ بھی خیال تھا کہ وہ اسے سستے داموں بیچ ڈالے گا۔ چناچہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنا صدقہ واپس نہ لو۔ خواہ وہ تمہیں ایک درہم ہی میں کیوں نہ دے کیونکہ دیا ہوا صدقہ واپس لینے والے کی مثال قے کر کے چاٹنے والے کی سی ہے۔

مسکینوں سے محبت کرنے اور ان پر خرچ کرنے کی ترغیب:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2352
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دعا کی:
اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مِسْكِينًا وَأَمِتْنِي مِسْكِينًا وَاحْشُرْنِي فِي زُمْرَةِ الْمَسَاكِينِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ،‏‏‏‏ فَقَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ لِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّهُمْ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ بِأَرْبَعِينَ خَرِيفًا، ‏‏‏‏‏‏يَا عَائِشَةُ لَا تَرُدِّي الْمِسْكِينَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، ‏‏‏‏‏‏يَا عَائِشَةُ أَحِبِّي الْمَسَاكِينَ وَقَرِّبِيهِمْ فَإِنَّ اللَّهَ يُقَرِّبُكِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
یا اللہ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ اور مسکینی کی حالت میں وفات دے اور قیامت کے روز مسکینوں کے زمرے میں اٹھا ، ام المؤمنین عائشہ ؓ نے دریافت کیا اللہ کے رسول! ایسا کیوں؟ آپ نے فرمایا: اس لیے کہ مساکین جنت میں اغنیاء سے چالیس سال پہلے داخل ہوں گے، لہٰذا اے عائشہ کسی بھی مسکین کو دروازے سے واپس نہ کرو اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی سہی، عائشہ! مسکینوں سے محبت کرو اور ان سے قربت اختیار کرو، بیشک اللہ تعالیٰ تم کو روز قیامت اپنے سے قریب کرے گا۔

لباس پہنانے والے اور کھانا کھلانے والے کا اجر:

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 1682
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أَيُّمَا مُسْلِمٍ كَسَا مُسْلِمًا ثَوْبًا عَلَى عُرْيٍ كَسَاهُ اللَّهُ مِنْ خُضْرِ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَيُّمَا مُسْلِمٍ أَطْعَمَ مُسْلِمًا عَلَى جُوعٍ أَطْعَمَهُ اللَّهُ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَيُّمَا مُسْلِمٍ سَقَى مُسْلِمًا عَلَى ظَمَإٍ سَقَاهُ اللَّهُ مِنَ الرَّحِيقِ الْمَخْتُومِ.
جس مسلمان نے کسی مسلمان کو کپڑا پہنایا جب کہ وہ ننگا تھا تو اللہ اسے جنت کے سبز کپڑے پہنائے گا، اور جس مسلمان نے کسی مسلمان کو کھلایا جب کہ وہ بھوکا تھا تو اللہ اسے جنت کے پھل کھلائے گا اور جس مسلمان نے کسی مسلمان کو پانی پلایا جب کہ وہ پیاسا تھا تو اللہ اسے (جنت کی) مہربند شراب پلائے گا ۔

تنگ دست کی مدد کرنے کی فضیلت:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6853
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ کُرْبَةً مِنْ کُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللَّهُ عَنْهُ کُرْبَةً مِنْ کُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمَنْ يَسَّرَ عَلَی مُعْسِرٍ يَسَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا کَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ۔
جس آدمی نے کسی مومن سے دنیا میں مصیبتوں کو دور کیا اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے دن کی مصیبتوں کو دور کرے گا اور جس نے تنگ دست پر آسانی کی اللہ اس پر دنیا میں اور آخرت میں آسانی کرے گا اور اللہ اس بندے کی مدد میں ہوتے ہیں جو اپنے بھائی کی مدد میں لگا ہوتا ہے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2078
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
كَانَ تَاجِرٌ يُدَايِنُ النَّاسَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا رَأَى مُعْسِرًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لِفِتْيَانِهِ:‏‏‏‏ تَجَاوَزُوا عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَتَجَاوَزَ عَنَّا فَتَجَاوَزَ اللَّهُ عَنْهُ.
ایک تاجر لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا جب کسی تنگ دست کو دیکھتا تو اپنے نوکروں سے کہہ دیتا کہ اس سے درگزر کر جاؤ۔ شاید کہ اللہ تعالیٰ بھی ہم سے (آخرت میں) درگزر فرمائے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے (اس کے مرنے کے بعد) اس کو بخش دیا۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 4000
حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُنْجِيَهُ اللَّهُ مِنْ کُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلْيُنَفِّسْ عَنْ مُعْسِرٍ أَوْ يَضَعْ عَنْهُ۔
جس کو یہ پسند ہو کہ اللہ اسے قیامت کے دن کی سختیوں سے نجات دے تو چاہئے کہ وہ مفلس کو مہلت دے یا اس کا قرض معاف کر دے۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2418
بریدہ اسلمی ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا كَانَ لَهُ بِكُلِّ يَوْمٍ صَدَقَةٌ وَمَنْ أَنْظَرَهُ بَعْدَ حِلِّهِ كَانَ لَهُ مِثْلُهُ فِي كُلِّ يَوْمٍ صَدَقَةٌ.
جو کسی تنگ دست کو مہلت دے گا تو اس کو ہر دن کے حساب سے ایک صدقہ کا ثواب ملے گا، اور جو کسی تنگ دست کو میعاد گزر جانے کے بعد مہلت دے گا تو اس کو ہر دن کے حساب سے اس کے قرض کے صدقہ کا ثواب ملے گا ۔

حرام مال سے صدقہ کرنا:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1
وَلَا صَدَقَۃٌ مِنْ غُلُولٍ
حرام کمائی (دھوکے یا خیانت والے مال) سے صدقہ (قبول) نہیں ہوتا۔

بخل کی ممانعت:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1962
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
خَصْلَتَانِ لَا تَجْتَمِعَانِ فِي مُؤْمِنٍ:‏‏‏‏ الْبُخْلُ، ‏‏‏‏‏‏وَسُوءُ الْخُلُقِ۔
مومن کے اندر دو خصلتیں جمع نہیں ہوسکتیں 1) بخل اور 2) بداخلاقی ۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2591
حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَنْفِقِي، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُحْصِي فَيُحْصِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُوعِي فَيُوعِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ.
خرچ کیا کر، گن (گن) کر نہ دو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن کر دے گا اور اور ہاتھ نہ روکو ورنہ اللہ بھی تم سے اپنا ہاتھ روک لے گا۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1963
ابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ خِبٌّ وَلَا مَنَّانٌ وَلَا بَخِيلٌ۔
دھوکہ باز، احسان جتانے والا اور بخیل جنت میں نہیں داخل ہوں گے ۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2153
عمر بن الخطاب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْجَالِبُ مَرْزُوقٌ وَالْمُحْتَكِرُ مَلْعُونٌ.
باہر سے (تجارت کی غرض سے) مال لانے والے کو رزق دیا جاتا ہے اور مال کو مہنگا بیچنے کی غرض سے روک لینے (ذخیرہ اندوزی کرنے) والا ملعون ہے۔

اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

کامیاب لوگوں کی خصوصیات، احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں ۔ جمعۃ المبارک، 27 جمادی الآخر 1444ھ، بمطابق 20 جنوری 2023

پچھلے جمعۃ المبارک پہ ہم نے قرآنی آیات کی روشنی میں کامیاب لوگوں کی 27 خصوصیات بیان کی تھیں جن کا مختصر تذکرہ مندرجہ ذیل ہے:

1) ایمان 2) تقویٰ و پرہیزگاری 3) نماز قائم کرنا 4) بیہودہ اور بے مقصد گفتگو سے بچنا 5) زکوٰۃ ادا کرنا 6) شرم گاہوں کی حفاظت کرنا 7) امانت میں خیانت نہ کرنا 8) وعدوں کی پاسداری کرنا 9) امر باالمعروف و نہی عن المنکر 10) صبر کرنا 11) ثابت قدم رہنا 12) شراب سے بچنا 13) جوئے سے بچنا 14) فال اور قسمت کا حال معلوم کرنے کے طریقوں سے بچنا 15) سود اور سودی کاروبار سے بچنا 16) نیکیوں کی کثرت کرنا 17) اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرنا 18) محبت و اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 19) کثرت سے اللہ کا ذکر کرنا 20) جہاد فی سبیل اللہ کرنا 21) توبہ کرنا 22) اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا طلبگار رہنا 23) قرابت داروں کا حق ادا کرنا 24) محتاجوں کا خیال رکھنا 25) مسافروں کی مدد کرنا 26) بخل و کنجوسی سے بچنا 27) نفس کا تزکیہ کرنا

آج ہم احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں یہ جاننے کی کوشش کریں گے کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کن خصوصیات کے حامل افراد کو کامیاب کہا ہے۔

مشکوٰۃ المصابیح, حدیث نمبر: 5358
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَرَنِي رَبِّي بِتِسْعٍ: خَشْيَةِ اللَّهِ فِي السِّرِّ وَالْعَلَانِيَةِ وَكَلِمَةِ الْعَدْلِ فِي الْغَضَبِ وَالرِّضَى وَالْقَصْدِ فِي الْفَقْرِ وَالْغِنَى وَأَنْ أَصِلَ مَنْ قَطَعَنِي وَأُعْطِي مَنْ حَرَمَنِي وَأَعْفُو عَمَّنْ ظَلَمَنِي وَأَنْ يَكُونَ صَمْتِي فِكْرًا وَنُطْقِي ذِكْرًا وَنَظَرِي عِبْرَةً وَآمُرُ بِالْعُرْفِ «وَقِيلَ» بِالْمَعْرُوفِ رَوَاهُ رزين.
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ میرے رب نے مجھے نو چیزوں کا حکم فرمایا:
1) پوشیدہ و اعلانیہ ہر حالت میں اللہ کا ڈر رکھنا،
2) غضب و رضا میں حق بات کرنا،
3) فقر و مال داری میں میانہ روی اختیار کرنا،
4) جو شخص مجھ سے قطع تعلق کرے میں اس کے ساتھ تعلق قائم کروں،
5) جو شخص مجھے محروم رکھے میں اسے عطا کروں،
6) جس شخص نے مجھ پر ظلم کیا میں اسے معاف کروں،
7) میرا خاموش رہنا غور و فکر کا پیش خیمہ ہو،
8) میرا بولنا ذکر ہو
9) اور میرا دیکھنا عبرت ہو،
اور یہ کہ میں نیکی کا حکم دوں۔‘‘

فرائض کو ادا کرنے والے:
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2678
طَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا هُوَ يَسْأَلُهُ عَنِ الْإِسْلَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ خَمْسُ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ وَصِيَامُ شَهْرِ رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَذَكَرَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّكَاةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنْ تَطَّوَّعَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَدْبَرَ الرَّجُلُ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ يَقُولُ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَا أَزِيدُ عَلَى هَذَا وَلَا أَنْقُصُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَفْلَحَ إِنْ صَدَقَ.
حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک صاحب (ضمام بن ثعلبہ) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئے اور اسلام کے متعلق پوچھنے لگے۔ آپ ﷺ نے فرمایا دن اور رات میں پانچ نمازیں ادا کرنا۔ اس نے پوچھا کیا اس کے علاوہ بھی مجھ پر کچھ نماز اور ضروری ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں یہ دوسری بات ہے کہ تم نفل پڑھو۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور رمضان کے روزے ہیں۔ اس نے پوچھا کیا اس کے علاوہ بھی مجھ پر کچھ (روزے) واجب ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں سوا اس کے جو تم اپنے طور پر نفل رکھو۔ طلحہ ؓ نے بیان کیا کہ ان کے سامنے رسول اللہ ﷺ نے زکوٰۃ کا بھی ذکر کیا تو انہوں نے پوچھا، کیا (جو فرض زکوٰۃ آپ نے بتائی ہے) اس کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی خیرات واجب ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں، سوا اس کے جو تم خود اپنی طرف سے نفل دو۔ اس کے بعد وہ صاحب یہ کہتے ہوئے جانے لگے کہ اللہ گواہ ہے نہ میں ان میں کوئی زیادتی کروں گا اور نہ کوئی کمی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر اس نے سچ کہا ہے تو کامیاب ہوا۔

اس حدیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرائض کی ادائیگی کو کامیابی کی ضمانت قرار دیا ہے۔

بقدرِ ضرورت رزق پر کفایت و قناعت کرنے والے:
صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2426
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ حَدَّثَنِي شُرَحْبِيلُ وَهُوَ ابْنُ شَرِيکٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ وَرُزِقَ کَفَافًا وَقَنَّعَهُ اللَّهُ بِمَا آتَاهُ۔
حضرت عبداللہ ابن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے اسلام قبول کیا اور اسے بقدر کفایت رزق عطا کیا گیا اور اللہ نے اسے اپنے عطا کردہ مال پر قناعت عطا کردی تو وہ شحض کامیاب ہوا۔

اس حدیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کامیاب شخص کی تین نشانیاں بیان کی ہیں 1) حقیقی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ بندہ مسلمان ہو، اس نے اپنے رب کو پہچانا ہو، اور اپنے رب کو پہچاننے اور اس پر ایمان لانے کے بعد اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ملنے والی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارتا ہو 2) اسے ضرورت کے مطابق رزق دیا گیا ہے جس سے وہ اپنی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہو 3) اس میں زیادہ سے زیادہ کی چاہت نہ ہو یعنی جو مال اسے بقدرِ ضرورت دیا گیا ہے، وہ اس پر قناعت کرنے والا ہو۔ ایسا شخص دنیا اور اس کے متعلقات کو فقط ضرورت کے تحت استعمال کرتا ہے اور اس کی نظر ہمیشہ آخرت کی تیاری پر رہتی ہے اور وہ اپنی زندگی اپنے رب کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق گزارتا ہے جس سے اسے اپنے رب کی رضا و خوشنودی حاصل ہو جاتی ہے اور یہی حقیقی کامیابی ہے۔ ایسے شخص کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ایسا شخص یقیناً کامیاب ہے۔

انسان کو زندگی گزارنے کے لیے دو وقت کی مناسب خوراک، لباس، مکان، اور سواری کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اگر انسان ان ضروریات کو خواہشات بنا لے تو ایسے انسان کا سفر کامیابی کے بجائے ناکامی کی طرف شروع ہو جاتا ہے۔ مثلاً زندہ رہنے کے لیے کھانا انسان کی ضرورت ہے لیکن اگر وہ یہ چاہے کہ اسے اس کی مرضی کے مطابق کھانا ملے، اس کی مرضی کے ہوٹل اور ریسٹورنٹ کا کھانا ملے تو یہ اب ضرورت نہیں رہی بلکہ خواہش بن گئی ہے۔ جب ضرورت، خواہش بن جاتی ہے تو وہاں انسان کی آزمائش ہوجاتی ہے۔ اب آزمائش میں انسان بعض اوقات اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے حلال اور حرام کے فرق کو بھلا بیٹھتا ہے اور اپنے رب کے بتائے ہوئے راستے سے بھٹک جاتا ہے۔ اور اپنے رب کو ناراض کر بیٹھتا ہے۔ اب جو شخص اپنے رب کو ناراض کر بیٹھے پھر وہ چاہے ساری دنیا جمع کر لے وہ ناکام ہی ہے۔

نکاح کے لیے دیندار عورت کو ترجیح دینے والے:
صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5090
‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ:‏‏‏‏ لِمَالِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلِحَسَبِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَجَمَالِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلِدِينِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے اور تو دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر، اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی (یعنی اخیر میں تجھ کو ندامت ہوگی) ۔

مسلمان بھائی کی ملاقات و عیادت کرنے والے:
مسند احمد، حدیث نمبر: 7975
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا زَارَ الْمُسْلِمُ أَخَاهُ فِي اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ أَوْ عَادَهُ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ طِبْتَ وَتَبَوَّأْتَ مِنْ الْجَنَّةِ مَنْزِلًا
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی سے ملاقات یا بیمار پرسی کے لئے جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تو کامیاب ہوگیا اور تو نے جنت میں اپنا ٹھکانہ بنا لیا۔

دنیا سے بے رغبتی اور عبادت کا شوق رکھنے والے:
مسند احمد، حدیث نمبر: 19471
عَنْ أَبِي السَّلِيلِ قَالَ وَقَفَ عَلَيْنَا رَجُلٌ فِي مَجْلِسِنَا بِالْبَقِيعِ فَقَالَ حَدَّثَنِي أَبِي أَوْ عَمِّي أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَقِيعِ وَهُوَ يَقُولُ مَنْ يَتَصَدَّقُ بِصَدَقَةٍ أَشْهَدُ لَهُ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ فَحَلَلْتُ مِنْ عِمَامَتِي لَوْثًا أَوْ لَوْثَيْنِ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِهِمَا فَأَدْرَكَنِي مَا يُدْرِكُ بَنِي آدَمَ فَعَقَدْتُ عَلَيَّ عِمَامَتِي فَجَاءَ رَجُلٌ وَلَمْ أَرَ بِالْبَقِيعِ رَجُلًا أَشَدَّ سَوَادًا أَصْفَرَ مِنْهُ وَلَا آدَمَ يَعْبُرُ بِنَاقَةٍ لَمْ أَرَ بِالْبَقِيعِ نَاقَةً أَحْسَنَ مِنْهَا فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَصَدَقَةٌ قَالَ نَعَمْ قَالَ دُونَكَ هَذِهِ النَّاقَةَ قَالَ فَلَزِمَهُ رَجُلٌ فَقَالَ هَذَا يَتَصَدَّقُ بِهَذِهِ فَوَاللَّهِ لَهِيَ خَيْرٌ مِنْهُ قَالَ فَسَمِعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ كَذَبْتَ بَلْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ وَمِنْهَا ثَلَاثَ مِرَارٍ ثُمَّ قَالَ وَيْلٌ لِأَصْحَابِ الْمِئِينَ مِنْ الْإِبِلِ ثَلَاثًا قَالُوا إِلَّا مَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ إِلَّا مَنْ قَالَ بِالْمَالِ هَكَذَا وَهَكَذَا وَجَمَعَ بَيْنَ كَفَّيْهِ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ ثُمَّ قَالَ قَدْ أَفْلَحَ الْمُزْهِدُ الْمُجْهِدُ ثَلَاثًا الْمُزْهِدُ فِي الْعَيْشِ الْمُجْهِدُ فِي الْعِبَادَةِ
ابوسلیل کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ بقیع میں ہماری مجلس پر ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ میرے والد یا چچا نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ نبی ﷺ کو جنت البقیع میں دیکھا تو نبی ﷺ فرما رہے تھے جو شخص کوئی چیز صدقہ کرتا ہے میں قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دوں گا یہ سن کر میں اپنے عمامے کا ایک دو پرت کھولنے لگا کہ انہیں صدقہ کروں گا پھر مجھے بھی وہی وسوسہ آگیا جو عام طور پر ابن آدم کو پیش آتا ہے اس لئے میں نے اپناعمامہ واپس باندھ لیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک آدمی جس کی مانند سیاہ اور گندمی رنک کا کوئی آدمی میں نے جنت البقیع میں نہیں دیکھا تھا وہ ایک اونٹنی کو لئے چلاآرہا تھا جس سے زیادہ حسین کوئی اونٹنی میں نے پورے جنت البقیع میں نہیں دیکھی اس نے آکرعرض کی یا رسول اللہ کیا میں صدقہ پیش کرسکتا ہوں؟ نبی ﷺ نے فرمایا ہاں اس نے کہا پھر یہ اونٹنی قبول فرما لیجیے پھر وہ آدمی چلا گیا میں نے کہا ایسا آدمی یہ صدقہ کررہا ہے واللہ یہ اونٹنی اس سے بہتر ہے۔ نبی ﷺ نے یہ بات سن لی اور فرمایا تم غلط کہہ رہے ہو بلکہ وہ تم سے اور اس اونٹنی سے بہتر ہے تین مرتبہ فرمایا پھر فرمایا سینکڑوں اونٹ رکھنے والوں کے لئے ہلاکت ہے سوائے۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ سوائے کس کے؟ فرمایا سوائے اس شخص کے جو مال کو اس اس طرح خرچ کرے نبی ﷺ نے ہتھیلی بند کرکے دائیں بائیں اشارہ فرمایا پھر فرمایا وہ شخص کامیاب ہوگیا جو زندگی میں بےرغبت اور عبادت میں خوب محنت کرنے والا ہو۔

سلامتی والا دل، سچ بولنے والی زبان، اطمینان والا نفس، اور پاکیزہ اخلاق والے:
مسند احمد، حدیث نمبر: 20352
قَالَ أَبُو ذَرٍّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَخْلَصَ قَلْبَهُ لِلْإِيمَانِ وَجَعَلَ قَلْبَهُ سَلِيمًا وَلِسَانَهُ صَادِقًا وَنَفْسَهُ مُطْمَئِنَّةً وَخَلِيقَتَهُ مُسْتَقِيمَةً وَجَعَلَ أُذُنَهُ مُسْتَمِعَةً وَعَيْنَهُ نَاظِرَةً فَأَمَّا الْأُذُنُ فَقَمِعٌ وَالْعَيْنُ بِمُقِرَّةٍ لِمَا يُوعَى الْقَلْبُ وَقَدْ أَفْلَحَ مَنْ جَعَلَ قَلْبَهُ وَاعِيًا
حضرت ابوذر ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ شخص کامیاب ہوگیا جس نے اپنے دل کو ایمان کے لئے خالص کرلیا اور اسے قلب سلیم، لسان صادق، نفس مطمئنہ اور اخلاق حسنہ عطاء کئے گئے ہوں اس کے کانوں کو شنوائی اور آنکھوں کو بینائی دی گئی ہو اور کانوں کی مثال پیندے کی سی ہے جبکہ آنکھ دل میں محفوظ ہونے والی چیزوں کو ٹھکانہ فراہم کرتی ہے اور وہ شخص کامیاب ہوگیا جس کا دل محفوظ کرنے والا ہو۔

استقامت اور ثابت قدم رہنے والے:
مسند احمد، حدیث نمبر: 21384
عَنْ ثَوْبَانَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اسْتَقِيمُوا تُفْلِحُوا وَخَيْرُ أَعْمَالِكُمْ الصَّلَاةُ وَلَنْ يُحَافِظَ عَلَى الْوُضُوءِ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَقَالَ عِصَامٌ وَلَا يُحَافِظُ۔
حضرت ثوبان ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ثابت قدم رہو کامیاب ہوجاؤ گے تمہارا سب سے بہترین عمل نماز ہے اور وضو کی پابندی وہی کرتا ہے جو مؤمن ہو۔

قرآن کی تلاوت اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے والے:
سنن دارمی، حدیث نمبر: 3322
عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ مَنْ قَرَأَ فِي لَيْلَةٍ عَشْرَ آيَاتٍ لَمْ يُكْتَبْ مِنْ الْغَافِلِينَ وَمَنْ قَرَأَ فِي لَيْلَةٍ بِمِائَةِ آيَةٍ كُتِبَ مِنْ الْقَانِتِينَ وَمَنْ قَرَأَ بِمِائَتَيْ آيَةٍ كُتِبَ مِنْ الْفَائِزِينَ۔
حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں جو شخص رات کے وقت دس آیات پڑھتا ہے اسے غافلوں میں نہیں لکھا جاتا اور جو شخص رات کے وقت سو آیات پڑھ لیتا ہے اسے عبادت گزاروں میں لکھا جاتا ہے اور جو دو سو آیات پڑھ لیتا ہے اسے کامیاب لوگوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقی معنوں میں کامیابی اور ناکامی کے تصور کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور کامیاب لوگوں کی خصوصیات کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب بندوں میں شامل ہو سکیں۔ آمین