قربانی کی فضیلت اور احکام

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3123
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ وَلَمْ يُضَحِّ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا.
جس شخص کو (قربانی کی) وسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے، تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے ۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3121
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں:
ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عِيدٍ بِكَبْشَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ حِينَ وَجَّهَهُمَا:‏‏‏‏ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ.
رسول اللہ ﷺ نے عید الاضحی کے دن دو مینڈھوں کی قربانی کی، اور جس وقت ان کا منہ قبلے کی طرف کیا تو فرمایا: إني وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض حنيفا وما أنا من المشرکين إن صلاتي ونسکي ومحياي ومماتي لله رب العالمين لا شريك له وبذلک أمرت وأنا أول المسلمين اللهم منک ولک عن محمد وأمته میں اپنا رخ اس ذات کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں، بیشک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور مرنا سب اللہ ہی کے لیے ہے، جو سارے جہان کا رب ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور مجھے اسی کا حکم ہے اور سب سے پہلے میں اس کے تابعداروں میں سے ہوں، اے اللہ! یہ قربانی تیری ہی طرف سے ہے، اور تیرے ہی واسطے ہے، محمد اور اس کی امت کی طرف سے اسے قبول فرما۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5569
حضرت سلمہ بن الاکوع ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ ضَحَّى مِنْكُمْ فَلَا يُصْبِحَنَّ بَعْدَ ثَالِثَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَبَقِيَ فِي بَيْتِهِ مِنْهُ شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَفْعَلُ كَمَا فَعَلْنَا عَامَ الْمَاضِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُلُوا، ‏‏‏‏‏‏وَأَطْعِمُوا، ‏‏‏‏‏‏وَادَّخِرُوا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ ذَلِكَ الْعَامَ كَانَ بِالنَّاسِ جَهْدٌ فَأَرَدْتُ أَنْ تُعِينُوا فِيهَا.
جس نے تم میں سے قربانی کی تو تیسرے دن وہ اس حالت میں صبح کرے کہ اس کے گھر میں قربانی کے گوشت میں سے کچھ بھی باقی نہ ہو۔ دوسرے سال صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم اس سال بھی وہی کریں جو پچھلے سال کیا تھا۔ (کہ تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت بھی نہ رکھیں) ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اب کھاؤ، کھلاؤ اور جمع کرو۔ پچھلے سال تو چونکہ لوگ تنگی میں مبتلا تھے، اس لیے میں نے چاہا کہ تم لوگوں کی مشکلات میں ان کی مدد کرو۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5438
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ روایت کرتی ہیں:
مَا فَعَلَهُ إِلَّا فِي عَامٍ جَاعَ النَّاسُ أَرَادَ أَنْ يُطْعِمَ الْغَنِيُّ الْفَقِيرَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كُنَّا لَنَرْفَعُ الْكُرَاعَ بَعْدَ خَمْسَ عَشْرَةَ وَمَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خُبْزِ بُرٍّ مَأْدُومٍ ثَلَاثًا.
نبی کریم ﷺ نے ایسا کبھی نہیں کیا کہ تین دن سے زیادہ گوشت قربانی والا رکھنے سے منع فرمایا ہو۔ صرف اس سال یہ حکم دیا تھا جس سال قحط کی وجہ سے لوگ فاقے میں مبتلا تھے۔ مقصد یہ تھا کہ جو لوگ غنی ہیں وہ گوشت محتاجوں کو کھلائیں (اور جمع کر کے نہ رکھیں) اور ہم تو بکری کے پائے محفوظ کر کے رکھ لیتے تھے اور پندرہ دن بعد تک (کھاتے تھے) اور آل محمد ﷺ نے کبھی سالن کے ساتھ گیہوں کی روٹی تین دن تک برابر سیر ہو کر نہیں کھائی۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 965
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ فِي يَوْمِنَا هَذَا أَنْ نُصَلِّيَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ نَحَرَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَإِنَّمَا هُوَ لَحْمٌ قَدَّمَهُ لِأَهْلِهِ لَيْسَ مِنَ النُّسْكِ فِي شَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ أَبُو بُرْدَةَ بْنُ نِيَارٍ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَبَحْتُ وَعِنْدِي جَذَعَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُسِنَّةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اجْعَلْهُ مَكَانَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَنْ تُوفِيَ أَوْ تَجْزِيَ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ.
ہم اس دن پہلے نماز پڑھیں گے پھر خطبہ کے بعد واپس ہو کر قربانی کریں گے۔ جس نے اس طرح کیا اس نے ہماری سنت کے مطابق عمل کیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کی تو اس کا ذبیحہ گوشت کا جانور ہے جسے وہ گھر والوں کے لیے لایا ہے، قربانی سے اس کا کوئی بھی تعلق نہیں۔ ایک انصاری ؓ جن کا نام ابوبردہ بن نیار تھا بولے کہ یا رسول اللہ ﷺ میں نے تو (نماز سے پہلے ہی) قربانی کردی لیکن میرے پاس ایک سال کی پٹھیا ہے جو دوندی ہوئی بکری سے بھی اچھی ہے۔ آپ نے ﷺ فرمایا کہ اچھا اسی کو بکری کے بدلہ میں قربانی کرلو اور تمہارے بعد یہ کسی اور کے لیے کافی نہ ہوگی۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1707
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم روایت کرتے ہیں:
أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِجِلَالِ الْبُدْنِ الَّتِي نَحَرْتُ وَبِجُلُودِهَا.
مجھے رسول اللہ ﷺ نے ان قربانی کے جانوروں کے جھول اور ان کے چمڑے کو صدقہ کرنے کا حکم دیا تھا جن کی قربانی میں نے کردی تھی۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 929
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ وَقَفَتِ الْمَلَائِكَةُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ يَكْتُبُونَ الْأَوَّلَ فَالْأَوَّلَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَثَلُ الْمُهَجِّرِ كَمَثَلِ الَّذِي يُهْدِي بَدَنَةً ثُمَّ كَالَّذِي يُهْدِي بَقَرَةً ثُمَّ كَبْشًا ثُمَّ دَجَاجَةً ثُمَّ بَيْضَةً، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ طَوَوْا صُحُفَهُمْ وَيَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ.
جب جمعہ کا دن آتا ہے تو فرشتے جامع مسجد کے دروازے پر آنے والوں کے نام لکھتے ہیں، سب سے پہلے آنے والا اونٹ کی قربانی دینے والے کی طرح لکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد آنے والا گائے کی قربانی دینے والے کی طرح پھر مینڈھے کی قربانی کا ثواب رہتا ہے۔ اس کے بعد مرغی کا، اس کے بعد انڈے کا۔ لیکن جب امام (خطبہ دینے کے لیے) باہر آجاتا ہے تو یہ فرشتے اپنے دفاتر بند کردیتے ہیں اور خطبہ سننے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔

عشر کے احکام و مسائل

عشر زکوٰۃ کی طرح ایک ایسا مقررہ حصہ ہے جو زرعی پیداوار پر دینا واجب ہوتا ہے۔ عشر کا کوئی نصاب مقرر نہیں ہے اور نہ ہی سال گزرنا شرط ہے۔ پیداوار قلیل ہو یا کثیر، سب میں عشر واجب ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 267
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِنۡ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبۡتُمۡ وَمِمَّاۤ اَخۡرَجۡنَا لَـكُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ ۖ
اے ایمان والو! ان پاکیزہ کمائیوں میں سے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا ہے (اﷲ کی راہ میں) خرچ کیا کرو۔

القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام، آیت نمبر 141
كُلُوۡا مِنۡ ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثۡمَرَ وَاٰتُوۡا حَقَّهٗ يَوۡمَ حَصَادِهٖ‌ ‌ۖ وَلَا تُسۡرِفُوۡا‌ ؕ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الۡمُسۡرِفِيۡنَ ۞
جب (یہ درخت) پھل لائیں تو تم ان کے پھل کھایا (بھی) کرو اور اس (کھیتی اور پھل) کے کٹنے کے دن اس کا (اﷲ کی طرف سے مقرر کردہ) حق (بھی) ادا کر دیا کرو اور فضول خرچی نہ کیا کرو، بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

عشر کی مقدار:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1483
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُيُونُ أَوْ كَانَ عَثَرِيًّا الْعُشْرُ وَمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ، ‏‏‏‏
وہ زمین جسے آسمان (بارش کا پانی) یا چشمہ سیراب کرتا ہو۔ یا وہ خودبخود نمی سے سیراب ہوجاتی ہو تو اس کی پیداوار سے دسواں حصہ لیا جائے اور وہ زمین جسے کنویں سے پانی کھینچ کر سیراب کیا جاتا ہو تو اس کی پیداوار سے بیسواں حصہ لیا جائے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

عید الفطر، یکم شوال 1444ھ، بمطابق 22 اپریل 2023 بروز ہفتہ

عید الفطر، یکم شوال 1444ھ، بمطابق 22 اپریل 2023 بروز ہفتہ۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 1134
حضرت انس ؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے (تو دیکھا کہ) ان کے لیے (سال میں) دو دن ہیں جن میں وہ کھیلتے کودتے ہیں تو آپ نے پوچھا: یہ دو دن کیسے ہیں؟ ، تو ان لوگوں نے کہا: جاہلیت میں ہم ان دونوں دنوں میں کھیلتے کودتے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا:‏‏‏‏ يَوْمَ الْأَضْحَى، ‏‏‏‏‏‏وَيَوْمَ الْفِطْرِ.
اللہ نے تمہیں ان دونوں کے عوض ان سے بہتر دو دن عطا فرما دیئے ہیں: ایک عید الاضحیٰ کا دن اور دوسرا عید الفطر کا دن ۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 2096
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
فَإِذَا كَانَ يَوْمُ عِيدِهِمْ يَعْنِي يَوْمَ فِطْرِهِمْ بَاهَى بِهِمْ مَلَائِكَتَهُ فَقَالَ: يَا مَلَائِكَتِي مَا جَزَاءُ أَجِيرٍ وَفَّى عَمَلَهُ؟ قَالُوا: رَبَّنَا جَزَاؤُهُ أَنْ يُوَفَّى أَجْرَهُ. قَالَ: مَلَائِكَتِي عَبِيدِي وَإِمَائِي قَضَوْا فَرِيضَتِي عَلَيْهِمْ ثُمَّ خَرَجُوا يَعُجُّونَ إِلَى الدُّعَاءِ وَعِزَّتِي وَجَلَالِي وَكَرَمِي وَعُلُوِّي وَارْتِفَاعِ مَكَاني لأجيبنهم. فَيَقُول: ارْجعُوا فقد غَفَرْتُ لَكُمْ وَبَدَّلْتُ سَيِّئَاتِكُمْ حَسَنَاتٍ. قَالَ: فَيَرْجِعُونَ مَغْفُورًا لَهُمْ . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الْإِيمَانِ
جب ان کی عید کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی وجہ سے اپنے فرشتوں پر فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے: میرے فرشتو! اس مزدور کی کیا جزا ہونی چاہیے جو اپنا کام پورا کرتا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں، پروردگار! اس کی جزا یہ ہے کہ اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے فرشتو! میرے بندوں اور میری لونڈیوں نے میری طرف سے ان پر عائد فریضے کو پورا کر دیا پھر وہ دعائیں پکارتے ہوئے نکلے ہیں، مجھے میری عزت و جلال، میرے کرم و علو اور اپنے بلند مقام کی قسم! میں ان کی دعائیں قبول کروں گا، وہ فرماتا ہے: واپس چلے جاؤ، میں نے تمہیں بخش دیا اور تمہاری خطاؤں کو نیکیوں میں بدل دیا، آپ ﷺ نے فرمایا:’’ وہ اس حال میں واپس آتے ہیں کہ ان کی مغفرت ہو چکی ہوتی ہے۔‘‘

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1782
ابوامامہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ قَامَ لَيْلَتَيِ الْعِيدَيْنِ مُحْتَسِبًا لِلَّهِ، ‏‏‏‏‏‏لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ .
جو شخص عیدین کی راتوں میں ثواب کی نیت سے اللہ کی عبادت کرے گا، تو اس کا دل نہیں مرے گا جس دن دل مردہ ہوجائیں گے ۔

سنن کبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر: 5607
حضرت عطاء، حضرت جابر سے نقل فرماتے ہیں:
مَضَتِ السُّنَّۃُ أَنَّ فِی کُلِّ ثَلاَثَۃٍ إِمَامًا ، وَفِی کُلِّ أَرْبَعِینَ فَمَا فَوْقَ ذَلِکَ جُمُعَۃٌ وَفِطْرٌ وَأَضْحًی۔
سنت یہ ہے کہ ہر تین میں ایک امام ہو اور جب لوگ چالیس یا اس سے زیادہ ہوں تو جمعہ، عید الفطر، عید الضحیٰ واجب ہے؛ کیونکہ یہ جماعت ہے۔

سنن کبریٰ للبیہقی، حدیث نمبر: 6149
حضرت ابو حویرث فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے عمرو بن حزم ؓ کو خط لکھا، جب وہ نجران میں تھے:
عَجِّلِ الأَضْحَی وَأَخِّرِ الْفِطْرَ وَذَکِّرِ النَّاسَ ۔
عید الاضحی کو جلدی پڑھ اور عید الفطر کو موخر کر کے پڑھ اور لوگوں کو نصیحت کر۔

لیلۃالقدر – 27 رمضان المبارک 1444ھ، بمطابق 17 اپریل، 2023ء

قَدَرَ (ض) کے معنی ہیں تدبیر کرنا، اندازہ کرنا، مقدار کے مطابق کرنا، وقت معین کرنا، غور و فکر کرنا (مصباح اللغات)

َاَلْقَدْر کے معنی ہیں 1) طاقت و قوت 2) عزت و وقار (مصباح اللغات)

ہر حکمت والے کام کا فیصلہ اس رات کر دیا جاتا ہے:

القرآن – سورۃ نمبر 44 الدخان، آیت نمبر 4
فِيۡهَا يُفۡرَقُ كُلُّ اَمۡرٍ حَكِيۡمٍۙ‏ ۞
اس (رات) میں ہر حکمت والے کام کا (جدا جدا) فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔

نزولِ قرآن کی رات:

القرآن – سورۃ نمبر 97 القدر، آیت نمبر 1
اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰهُ فِىۡ لَيۡلَةِ الۡقَدۡرِ ۞
بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے۔

ہزار مہینوں سے افضل رات:

القرآن – سورۃ نمبر 97 القدر، آیت نمبر 1-3
اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰهُ فِىۡ لَيۡلَةِ الۡقَدۡرِ ۞ وَمَاۤ اَدۡرٰٮكَ مَا لَيۡلَةُ الۡقَدۡرِؕ ۞ لَيۡلَةُ الۡقَدۡرِ ۙ خَيۡرٌ مِّنۡ اَلۡفِ شَهۡرٍؕ ۞
اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ) شبِ قدر کیا ہے،شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے،

نزولِ ملائکہ کی رات:

القرآن – سورۃ نمبر 97 القدر، آیت نمبر 4
تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِكَةُ وَالرُّوۡحُ فِيۡهَا بِاِذۡنِ رَبِّهِمۡ‌ۚ مِّنۡ كُلِّ اَمۡرٍ ۞
اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 2096
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا كَانَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ نزل جِبْرِيل عَلَيْهِ السَّلَام فِي كُبْكُبَةٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ يُصَلُّونَ عَلَى كُلِّ عَبْدٍ قَائِمٍ أَوْ قَاعِدٍ يَذْكُرُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ۔ رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي شُعَبِ الْإِيمَانِ
جب شب قدر ہوتی ہے تو جبریل ؑ فرشتوں کی جماعت میں تشریف لاتے ہیں تو وہ اللہ عزوجل کے ذکر میں مصروف ہر کھڑے بیٹھے شخص پر رحمت بھیجتے ہیں۔

طلوعِ فجر تک سلامتی ہی سلامتی:

القرآن – سورۃ نمبر 97 القدر، آیت نمبر 5
سَلٰمٌ هِىَ حَتّٰى مَطۡلَعِ الۡفَجۡرِ۞
یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے۔

حضور نبی مکرم ﷺ کا آخری عشرے میں معمول:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2024
حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں:
كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ، ‏‏‏‏‏‏شَدَّ مِئْزَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْيَا لَيْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ.
جب (رمضان کا) آخری عشرہ آتا تو نبی کریم ﷺ اپنا تہبند مضبوط باندھتے (یعنی اپنی کمر پوری طرح کس لیتے) اور ان راتوں میں آپ خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگایا کرتے تھے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2020
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَاوِرُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقُولُ:‏‏‏‏ تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ.
نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے اور فرماتے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں شب قدر کو تلاش کرو۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1644
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رمضان آیا تو رسول کرام ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ هَذَا الشَّهْرَ قَدْ حَضَرَكُمْ وَفِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، ‏‏‏‏‏‏مَنْ حُرِمَهَا فَقَدْ حُرِمَ الْخَيْرَ كُلَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يُحْرَمُ خَيْرَهَا إِلَّا مَحْرُومٌ.
یہ مہینہ آگیا اور اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس سے محروم رہا وہ ہر طرح کے خیر (بھلائی) سے محروم رہا، اور اس کی خیر (بھلائی) سے محروم وہی رہے گا جو (واقعتاً) محروم ہو ۔

گناہوں سے معافی کی رات:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1901
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، ‏‏‏‏‏‏غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، ‏‏‏‏‏‏غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
جو کوئی شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے عبادت میں کھڑا ہو اس کے تمام اگلے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے اگلے تمام گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔

لیلۃ القدر کونسی رات ہے؟

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 2083
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ من رَمَضَان۔
رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں شب قدر تلاش کرو۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1766
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رمضان کے درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا:
إِنِّي أُرِيتُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ فَأُنْسِيتُهَا، ‏‏‏‏‏‏فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فِي الْوَتْرِ۔
مجھے شب قدر خواب میں دکھائی گئی لیکن پھر مجھ سے بھلا دی گئی، لہٰذا تم اسے رمضان کے آخری عشرہ (دہے) کی طاق راتوں میں ڈھونڈھو۔

مسند احمد, حدیث نمبر: 19486
حضرت ابوبکرہ ؓ سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
الْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ لِتِسْعٍ يَبْقَيْنَ أَوْ لِسَبْعٍ يَبْقَيْنَ أَوْ لِخَمْسٍ أَوْ لِثَلَاثٍ أَوْ آخِرِ لَيْلَةٍ۔
شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں اکیسویں شب، تئیسویں شب، پچیس ویں شب یا ستائیسویں شب یا آخری رات میں تلاش کیا کرو۔

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 2088
زرّ بن حبیش بیان کرتے ہیں، میں نے ابی بن کعب ؓ سے دریافت کیا: آپ کے بھائی ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ جو شخص پورا سال تہجد پڑھے گا وہ شب قدر پا لے گا، تو انہوں نے فرمایا:
أَرَادَ أَنْ لَا يَتَّكِلَ النَّاسُ أَمَا إِنَّهُ قَدْ عَلِمَ أَنَّهَا فِي رَمَضَانَ وَأَنَّهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ وَأَنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ ثُمَّ حَلَفَ لَا يَسْتَثْنِي أَنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ. فَقُلْتُ: بِأَيِّ شَيْءٍ تَقُولُ ذَلِكَ يَا أَبَا الْمُنْذِرِ؟ قَالَ: بِالْعَلَامَةِ أَوْ بِالْآيَةِ الَّتِي أَخْبَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهَا تَطْلُعُ يَوْمَئِذٍ لَا شُعَاعَ لَهَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ
انہوں نے یہ ارادہ کیا کہ لوگ اس پر ہی اعتماد نہ کر لیں، حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ وہ (شب قدر) رمضان میں ہے اور آخری عشرے میں ہے اور وہ ستائیسویں رات ہے، پھر انہوں نے ان شاء اللہ کہے بغیر قسم اٹھا کر کہا وہ ستائیسویں شب ہے، میں نے کہا: ابومنذر! آپ یہ کیسے کہتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: اس کی علامت یا نشانی کی بنا پر جو رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بتائی تھی کہ اس روز سورج طلوع ہو گا تو اس کی شعائیں نہیں ہوں گی۔

لیلۃ القدر میں کونسی دعا مانگیں؟

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3513
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں:
قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَرَأَيْتَ إِنْ عَلِمْتُ أَيُّ لَيْلَةٍ لَيْلَةُ الْقَدْرِ مَا أَقُولُ فِيهَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ قُولِي:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ كَرِيمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي۔
میں نے کہا: اللہ کے رسول! اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کون سی رات لیلۃ القدر ہے تو میں اس میں کیا پڑھوں؟ آپ نے فرمایا: پڑھو «اللهم إنک عفو کريم تحب العفو فاعف عني» اے اللہ! تو عفو و درگزر کرنے والا مہربان ہے، اور عفو و درگزر کرنے کو تو پسند کرتا ہے، اس لیے تو ہمیں معاف و درگزر کر دے ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

فضائل و احکامِ رمضان المبارک – جمعۃ المبارک، 23 رمضان المبارک 1444ھ، بمطابق 14 اپریل 2023ء

بحکمِ خداوندی رمضان المبارک کے روزے ہر مسلمان پر فرض کیے گئے ہیں۔ روزے کی فرضیت کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے اندر تقوٰی کا نور پیدا ہو جائے اور اس کا ظاہر و باطن ہر طرح کی آلائشوں، گناہوں اور برائیوں سے پاک و صاف ہو جائے۔ ذیل میں ہم نے فضائل و احکامِ رمضان المبارک کے حوالے سے مندرجہ ذیل موضوعات کو احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

1) روزے کی فضیلت 2) رمضان المبارک اور تلاوتِ قرآن 3) رمضان المبارک اور سخاوت 4) رمضان المبارک اور سحری 5) رمضان المبارک اور افطاری 6) روزہ نہ رکھنے پر وعید 7) روزے کا فدیہ 8) سفر میں روزہ 9) رمضان المبارک کے آخری عشرے میں حضور نبی مکرم ﷺ کا معمول 10) لیلۃالقدر 11) متفرق احکام

روزے کی فضیلت:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2840
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بَعَّدَ اللَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا.
جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں (جہاد کرتے ہوئے) ایک دن بھی روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے ستر سال (کی مسافت کی دوری تک) دور کر دیتا ہے۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1639
عثمان بن ابی العاص ثقفی ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الصِّيَامُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ كَجُنَّةِ أَحَدِكُمْ مِنَ الْقِتَالِ.
روزہ دوزخ کی آگ سے یوں ڈھال ہے جیسے تم میں سے کسی کے پاس لڑائی کے وقت ڈھال ہوتی ہے ۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے:
کان رسول اللہ ﷺ اذا دَخَلَ رمضانَ لَغَیَّرَ لَونُہُ و کَثُرَتْ صَلَاتُہُ، وابْتَھَلَ فِی الدُّعَاءِ، وَأَشْفَقَ مِنْہُ۔
جب ماہِ رمضان شروع ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کا رنگ متغیر ہو جاتا، آپ کی نمازوں میں اضافہ ہو جاتا، اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کرتے اور اس کا خوف طاری رکھتے۔

رمضان المبارک اور تلاوتِ قرآن:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 6
حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے مروی ہے:
كَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ۔
حضرت جبرائیل (علیہ السلام) رمضان کی ہر رات میں آپ ﷺ سے ملاقات کرتے اور آپ ﷺ کے ساتھ قرآن کا دورہ کرتے۔

مسند احمد، حدیث نمبر: 6337
حضرت عبداللہ ابن عمرو ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
الصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَقُولُ الصِّيَامُ أَيْ رَبِّ مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ وَيَقُولُ الْقُرْآنُ مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ قَالَ فَيُشَفَّعَانِ۔
روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے، روزہ کہے گا کہ پروردگار میں نے دن کے وقت اسے کھانے اور خواہشات کی تکمیل سے روکے رکھا اس لئے اس کے متعلق میری سفارش قبول فرما اور قرآن کہے گا کہ میں نے رات کو اسے سونے سے روکے رکھا اس لئے اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما چناچہ ان دونوں کی سفارش قبول کرلی جائے گی۔

رمضان المبارک اور سخاوت:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1902
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے:
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام يَلْقَاهُ كُلَّ لَيْلَةٍ فِي رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى يَنْسَلِخَ يَعْرِضُ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام، ‏‏‏‏‏‏كَانَ أَجْوَدَ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ.
نبی کریم ﷺ سخاوت اور خیر کے معاملہ میں سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ ﷺ کی سخاوت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی تھی جب جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ سے رمضان میں ملتے، جبرائیل (علیہ السلام) نبی کریم ﷺ سے رمضان شریف کی ہر رات میں ملتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔ نبی کریم ﷺ جبرائیل (علیہ السلام) سے قرآن کا دور کرتے تھے، جب جبرائیل (علیہ السلام) آپ ﷺ سے ملنے لگتے تو آپ ﷺ چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہوجایا کرتے تھے۔

رمضان المبارک اور سحری:

القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 31
كُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا وَلَا تُسۡرِفُوۡا‌ ۚ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الۡمُسۡرِفِيۡنَ ۞
کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2549
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السُّحُورِ بَرَکَةً۔
سحری کھایا کرو کیونکہ سحری کے کھانے میں برکت ہوتی ہے۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2550
حضرت عمر بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
فَصْلُ مَا بَيْنَ صِيَامِنَا وَصِيَامِ أَهْلِ الْکِتَابِ أَکْلَةُ السَّحَرِ۔
ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان سحری کھانے کا فرق ہے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1921
زید بن ثابت ؓ روایت کرتے ہیں:
تَسَحَّرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ كَمْ كَانَ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالسَّحُورِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ قَدْرُ خَمْسِينَ آيَةً.
نبی کریم ﷺ کے ساتھ ہم نے سحری کھائی، پھر آپ ﷺ صبح کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ میں نے پوچھا کہ سحری اور اذان میں کتنا فاصلہ ہوتا تھا تو انہوں نے کہا کہ پچاس آیتیں (پڑھنے) کے موافق فاصلہ ہوتا تھا۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2552
حضرت زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے:
تَسَحَّرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ثُمَّ قُمْنَا إِلَی الصَّلَاةِ قُلْتُ کَمْ کَانَ قَدْرُ مَا بَيْنَهُمَا قَالَ خَمْسِينَ آيَةً۔
ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سحری کھائی پھر نماز کے لئے کھڑے ہوئے میں نے عرض کیا کہ سحری کھانے اور نماز کے درمیان کتنا وقفہ تھا آپ نے فرمایا پچاس آیات کے برابر۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 2350
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا سَمِعَ أَحَدُكُمُ النِّدَاءَ وَالْإِنَاءُ عَلَى يَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَضَعْهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ مِنْهُ.
تم میں سے کوئی جب صبح کی اذان سنے اور (کھانے پینے کا) برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اسے اپنی ضرورت پوری کئے بغیر نہ رکھے۔

رمضان المبارک اور افطاری:

القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 31
كُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا وَلَا تُسۡرِفُوۡا‌ ۚ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الۡمُسۡرِفِيۡنَ ۞
کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2554
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ۔
لوگ ہمیشہ بھلائی کے ساتھ رہیں گے جب تک روزہ جلد افطار کرتے رہیں گے۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 2358
حضرت معاذ بن زہرہ روایت کرتے ہیں:
أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا أَفْطَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ.
انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب روزہ افطار فرماتے تو یہ دعا پڑھتے: “اللهم لک صمت وعلى رزقک أفطرت‏‏” اے اللہ! میں نے تیری ہی خاطر روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق سے افطار کیا ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 696
حضرت انس بن مالک ؓ روایت کرتے ہیں:
كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُفْطِرُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَى رُطَبَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ لَمْ تَكُنْ رُطَبَاتٌ فَتُمَيْرَاتٌ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تُمَيْرَاتٌ حَسَا حَسَوَاتٍ مِنْ مَاءٍ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَرُوِيَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يُفْطِرُ فِي الشِّتَاءِ عَلَى تَمَرَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏وَفِي الصَّيْفِ عَلَى الْمَاءِ۔
نبی اکرم ﷺ (مغرب) پڑھنے سے پہلے چند تر کھجوروں سے افطار کرتے تھے، اور اگر تر کھجوریں نہ ہوتیں تو چند خشک کھجوروں سے اور اگر خشک کھجوریں بھی میسر نہ ہوتیں تو پانی کے چند گھونٹ پی لیتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ بھی مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ سردیوں میں چند کھجوروں سے افطار کرتے اور گرمیوں میں پانی سے۔

روزہ نہ رکھنے پر وعید:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 723
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ أَفْطَرَ يَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ رُخْصَةٍ وَلَا مَرَضٍ، ‏‏‏‏‏‏لَمْ يَقْضِ عَنْهُ صَوْمُ الدَّهْرِ كُلِّهِ وَإِنْ صَامَهُ .
جس نے بغیر کسی شرعی رخصت اور بغیر کسی بیماری کے رمضان کا کوئی روزہ نہیں رکھا تو پورے سال کا روزہ بھی اس (کے اجر) کو پورا نہیں کر پائے گا چاہے وہ پورا سال روزے سے رہے ۔

روزے کا فدیہ:

ایسا مسلمان مرد یا عورت جو بڑھاپے یا کسی ایسی بیماری جس کی وجہ سے روزہ رکھنے سے عاجز ہو اور یہ عجز دائمی ہو ایسی صورت میں ہر روزہ کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلانا فدیہ کہلاتا ہے۔ فدیہ فی روزہ صدقہ فطر کے برابر ہوتا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 184
وَعَلَى الَّذِيۡنَ يُطِيۡقُوۡنَهٗ فِدۡيَةٌ طَعَامُ مِسۡكِيۡنٍؕ فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَيۡرًا فَهُوَ خَيۡرٌ لَّهٗ۔
اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو ان کے ذمے ایک مسکین کے کھانے کا بدلہ ہے، پھر جو کوئی اپنی خوشی سے (زیادہ) نیکی کرے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے۔

سفر میں روزہ:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2609
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے:
لَا تَعِبْ عَلَی مَنْ صَامَ وَلَا عَلَی مَنْ أَفْطَرَ قَدْ صَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي السَّفَرِ وَأَفْطَرَ.
ہم برا بھلا نہیں کہتے تھے کہ جو آدمی سفر میں روزہ رکھے اور نہ ہی برا بھلا کہتے ہیں جو آدمی سفر میں روزہ نہ رکھے تحقیق رسول اللہ ﷺ نے سفر میں روزہ رکھا بھی اور روزہ افطار بھی کیا ہے۔

مسافر کو روزہ رکھنے یا چھوڑنے کا اختیار ہے۔ لیکن اگر سفر میں دشواری نہ ہو تو روزہ رکھنا افضل ہے۔ یاد رہے اگر کوئی سفر یا بیماری کی وجہ سے روزہ چھوڑتا ہے تو بعد میں اس روزے کی قضا لازم ہے۔

رمضان المبارک کے آخری عشرے میں حضور نبی مکرم ﷺ کا معمول:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2024
حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں:
كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ، ‏‏‏‏‏‏شَدَّ مِئْزَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْيَا لَيْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ.
جب (رمضان کا) آخری عشرہ آتا تو نبی کریم ﷺ اپنا تہبند مضبوط باندھتے (یعنی اپنی کمر پوری طرح کس لیتے) اور ان راتوں میں آپ خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگایا کرتے تھے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2020
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَاوِرُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقُولُ:‏‏‏‏ تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ.
نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے اور فرماتے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں شب قدر کو تلاش کرو۔

لیلۃالقدر:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1644
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رمضان آیا تو رسول کرام ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ هَذَا الشَّهْرَ قَدْ حَضَرَكُمْ وَفِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، ‏‏‏‏‏‏مَنْ حُرِمَهَا فَقَدْ حُرِمَ الْخَيْرَ كُلَّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يُحْرَمُ خَيْرَهَا إِلَّا مَحْرُومٌ.
یہ مہینہ آگیا اور اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس سے محروم رہا وہ ہر طرح کے خیر (بھلائی) سے محروم رہا، اور اس کی بھلائی سے محروم وہی رہے گا جو (واقعتاً) محروم ہو ۔

مسند احمد, حدیث نمبر: 19486
حضرت ابوبکرہ ؓ سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
الْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ لِتِسْعٍ يَبْقَيْنَ أَوْ لِسَبْعٍ يَبْقَيْنَ أَوْ لِخَمْسٍ أَوْ لِثَلَاثٍ أَوْ آخِرِ لَيْلَةٍ۔
شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کیا کرو اکیسویں شب، تئیسویں شب، پچیس ویں شب یا ستائیسویں شب یا آخری رات میں۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3513
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں:
قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَرَأَيْتَ إِنْ عَلِمْتُ أَيُّ لَيْلَةٍ لَيْلَةُ الْقَدْرِ مَا أَقُولُ فِيهَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ قُولِي:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ كَرِيمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي۔
میں نے کہا: اللہ کے رسول! اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ کون سی رات لیلۃ القدر ہے تو میں اس میں کیا پڑھوں؟ آپ نے فرمایا: پڑھو «اللهم إنک عفو کريم تحب العفو فاعف عني» اے اللہ! تو عفو و درگزر کرنے والا مہربان ہے، اور عفو و درگزر کرنے کو تو پسند کرتا ہے، اس لیے تو ہمیں معاف و درگزر کر دے ۔

امت کی بخشش و مغفرت:

مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر 1968
ابوہریرہ ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
يُغْفَرُ لِأُمَّتِهِ فِي آخِرِ لَيْلَةٍ فِي رَمَضَانَ۔ قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَهِيَ لَيْلَةُ الْقَدْرِ؟ قَالَ: «لَا وَلَكِنَّ الْعَامِلَ إِنَّمَا يُوَفَّى أجره إِذا قضى عمله» . رَوَاهُ أَحْمد
رمضان کی آخری رات ان کی (یعنی میری) امت کو بخش دیا جاتا ہے۔ عرض کیا گیا، اللہ کے رسول! کیا وہ شب قدر ہے؟ فرمایا:’’ نہیں، لیکن جب کام کرنے والا اپنا کام مکمل کر لیتا ہے تو اسے پورا پورا اجر دیا جاتا ہے۔‘‘

متفرق احکام:

روؤیتِ ہلالِ رمضان المبارک:

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 2341
حضرت عکرمہ روایت کرتے ہیں:
أَنَّهُمْ شَكُّوا فِي هِلَالِ رَمَضَانَ مَرَّةً، ‏‏‏‏‏‏فَأَرَادُوا أَنْ لَا يَقُومُوا وَلَا يَصُومُوا، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ أَعْرَابِيٌّ مِنْ الْحَرَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَشَهِدَ أَنَّهُ رَأَى الْهِلَالَ، ‏‏‏‏‏‏فَأُتِيَ بِهِ النَّبِيَّ ﷺ ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَتَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏وَشَهِدَ أَنَّهُ رَأَى الْهِلَالَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ بِلَالًا، ‏‏‏‏‏‏فَنَادَى فِي النَّاسِ أَنْ يَقُومُوا وَأَنْ يَصُومُوا۔
ایک بار لوگوں کو رمضان کے چاند (کی روئیت) سے متعلق شک ہوا اور انہوں نے یہ ارادہ کرلیا کہ نہ تو قیام کریں (تراویح پڑھیں) گے اور نہ روزے رکھیں گے، اتنے میں مقام حرہ سے ایک اعرابی آگیا اور اس نے چاند دیکھنے کی گواہی دی چناچہ اسے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں لے جایا گیا، آپ نے اس سے سوال کیا: کیا تو اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہیں؟ اس نے کہا: ہاں، اور چاند دیکھنے کی گواہی بھی دی چناچہ آپ ﷺ نے بلال ؓ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں منادی کردیں کہ لوگ قیام کریں (تراویح پڑھیں) اور روزہ رکھیں۔

رمضان المبارک سے دو دن پہلے روزہ نہ رکھنے کا حکم:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2518
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا تَقَدَّمُوا رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ وَلَا يَوْمَيْنِ إِلَّا رَجُلٌ کَانَ يَصُومُ صَوْمًا فَلْيَصُمْهُ۔
تم رمضان المبارک سے نہ ایک دن اور نہ ہی دو دن پہلے روزہ رکھو سوائے اس آدمی کے جو اس دن روزہ رکھتا تھا تو اسے چاہیے کہ وہ رکھ لے۔

کیا قے آنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 720
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ ذَرَعَهُ الْقَيْءُ فَلَيْسَ عَلَيْهِ قَضَاءٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنِ اسْتَقَاءَ عَمْدًا فَلْيَقْضِ .
جسے قے آ جائے اس پر روزے کی قضاء لازم نہیں اور جو جان بوجھ کر قے کرے تو اسے روزے کی قضاء کرنی چاہیئے۔

تلاوتِ قرآن کی فضیلت و احکام

قرآنِ مجید کلامِ الٰہی ہے جو اپنے اندر دنیوی و اخروی فلاح و کامیابی کی ہدایت و رہنمائی کے اسرار سموئے ہوئے ہے۔ انسان اگر اپنی تخلیق کے مقصد کو پہچان کر حقیقی کامیابی و کامرانی چاہتا ہے تو اسے بلاشبہ کلامِ الٰہی کی صورت میں موجود اس کتاب کے ساتھ اپنا عقلی، فکری، شعوری، قلبی اور روحانی تعلق قائم کرنا پڑے گا۔ ذیل میں تلاوتِ کلامِ الٰہی کے حوالے سے چند نکات احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں بیان کیے گئے ہیں۔

سب سے افضل عبادت:

شعب الایمان، حدیث نمبر 2022
حضرت نعمان بن بشیر ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أَفْضَلُ عِبَادَۃِ اُمَّتِی قرَاءۃُ الْقُرآن۔
میری امت کی سب سے افضل عبادت تلاوتِ قرآن ہے۔

نیکیاں ہی نیکیاں:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2910
عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، ‏‏‏‏‏‏لَا أَقُولُ الم حَرْفٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِيمٌ حَرْفٌ۔
جس نے کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھا اسے اس کے بدلے ایک نیکی ملے گی، اور ایک نیکی دس گنا بڑھا دی جائے گی، میں نہیں کہتا «الم» ایک حرف ہے، بلکہ «الف» ایک حرف ہے، «لام» ایک حرف ہے اور «میم» ایک حرف ہے ۔

عالمِ قرآن پر حسد کی ترغیب:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1894
حضرت سالم ؓ اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَقُومُ بِهِ آنَائَ اللَّيْلِ وَآنَائَ النَّهَارِ وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَهُوَ يُنْفِقُهُ آنَائَ اللَّيْلِ وَآنَائَ النَّهَارِ۔
دو آدمیوں کے سوا کسی پر حسد کرنا جائز نہیں ایک وہ آدمی کہ جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید عطا فرمایا ہو اور وہ رات دن اس پر عمل کرنے کے ساتھ اس کی تلاوت کرتا ہو اور وہ آدمی کہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا فرمایا ہو اور وہ رات اور دن اسے اللہ کے راستہ میں خرچ کرتا ہو۔

رمضان المبارک اور تلاوتِ قرآن:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 6
حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے مروی ہے:
كَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ۔
جبرائیل (علیہ السلام) رمضان کی ہر رات میں آپ ﷺ سے ملاقات کرتے اور آپ ﷺ کے ساتھ قرآن کا دورہ کرتے۔

قرآن کا شفاعت کرنا:

مسند احمد، حدیث نمبر: 6337
حضرت عبداللہ ابن عمرو ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
الصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَقُولُ الصِّيَامُ أَيْ رَبِّ مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ وَيَقُولُ الْقُرْآنُ مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ قَالَ فَيُشَفَّعَانِ۔
روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے، روزہ کہے گا کہ پروردگار میں نے دن کے وقت اسے کھانے اور خواہشات کی تکمیل سے روکے رکھا اس لئے اس کے متعلق میری سفارش قبول فرما اور قرآن کہے گا کہ میں نے رات کو اسے سونے سے روکے رکھا اس لئے اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما چناچہ ان دونوں کی سفارش قبول کرلی جائے گی۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1874
حضرت ابوامامہ باہلی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
اقْرَئُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لِأَصْحَابِهِ اقْرَئُوا الزَّهْرَاوَيْنِ الْبَقَرَةَ وَسُورَةَ آلِ عِمْرَانَ فَإِنَّهُمَا تَأْتِيَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ کَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ کَأَنَّهُمَا غَيَايَتَانِ أَوْ کَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ تُحَاجَّانِ عَنْ أَصْحَابِهِمَا اقْرَئُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَکَةٌ وَتَرْکَهَا حَسْرَةٌ وَلَا تَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ۔
قرآن مجید پڑھا کرو کیونکہ یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لئے سفارشی بن کر آئے گا اور دو روشن سورتوں کو پڑھا کرو سورت البقرہ اور سورت آل عمران کیونکہ یہ قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جیسے کہ دو بادل ہوں یا دو سائبان ہوں یا دو اڑتے ہوئے پرندوں کی قطاریں ہوں اور وہ اپنے پڑھنے والوں کے بارے میں جھگڑا کریں گی، سورت البقرہ پڑھا کرو کیونکہ اس کا پڑھنا باعث برکت ہے اور اس کا چھوڑنا باعث حسرت ہے اور جادوگر اس کو حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔

اہلِ قرآن ہی اللہ والے ہیں:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 215
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ لِلَّهِ أَهْلِينَ مِنَ النَّاسِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ هُمْ؟ قَالَ:‏‏‏‏ هُمْ أَهْلُ الْقُرْآنِ أَهْلُ اللَّهِ وَخَاصَّتُهُ۔
لوگوں میں سے کچھ اللہ والے ہیں ، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ کون لوگ ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ قرآن پڑھنے پڑھانے والے ہیں، جو اللہ والے اور اس کے نزدیک خاص لوگ ہیں۔

تلاوتِ قرآن مکمل دلجمعی، رغبت اور شوق کے ساتھ کرنی چاہیے:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6778
حضرت جندب بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اقْرَئُوا الْقُرْآنَ مَا ائْتَلَفَتْ عَلَيْهِ قُلُوبُکُمْ فَإِذَا اخْتَلَفْتُمْ فَقُومُوا۔
جب تک تمہارے دلوں کو قرآن پر اتفاق ہو اس کی تلاوت کرتے رہو اور جب اختلاف ہوجائے تو اٹھ کھڑے ہو۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1843
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
بِئْسَمَا لِلرَّجُلِ أَنْ يَقُولَ نَسِيتُ سُورَةَ کَيْتَ وَکَيْتَ أَوْ نَسِيتُ آيَةَ کَيْتَ وَکَيْتَ بَلْ هُوَ نُسِّيَ.
کسی آدمی کے لئے یہ کہنا برا ہے کہ میں فلاں فلاں سورت بھول گیا یا فلاں فلاں آیت بھول گیا بلکہ وہ یہ کہے کہ مجھے بھلا دیا گیا۔

تلاوتِ قرآن اور سکینہ و برکات کا نزول:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1857
حضرت براء فرماتے ہیں:
قَرَأَ رَجُلٌ الْکَهْفَ وَفِي الدَّارِ دَابَّةٌ فَجَعَلَتْ تَنْفِرُ فَنَظَرَ فَإِذَا ضَبَابَةٌ أَوْ سَحَابَةٌ قَدْ غَشِيَتْهُ قَالَ فَذَکَرَ ذَلِکَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ اقْرَأْ فُلَانُ فَإِنَّهَا السَّکِينَةُ تَنَزَّلَتْ عِنْدَ الْقُرْآنِ أَوْ تَنَزَّلَتْ لِلْقُرْآنِ۔
ایک آدمی سورت الکہف پڑھ رہا تھا اور اس کے گھر میں ایک جانور تھا اچانک وہ جانور بدکنے لگا اس نے دیکھا کہ ایک بادل نے اس ڈھانپا ہوا ہے اس آدمی نے نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا آپ ﷺ نے فرمایا کہ قرآن پڑھو کیونکہ یہ سکینہ ہے جو قرآن کی تلاوت کے وقت نازل ہوتی ہے۔

دوہرا اجر:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1862
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الْمَاهِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَةِ الْکِرَامِ الْبَرَرَةِ وَالَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيَتَتَعْتَعُ فِيهِ وَهُوَ عَلَيْهِ شَاقٌّ لَهُ أَجْرَانِ۔
جو آدمی قرآن مجید میں ماہر ہو وہ ان فرشتوں کے ساتھ ہے جو معزز اور بزرگی والے ہیں اور جو قرآن مجید اٹک اٹک کر پڑھتا ہے اور اسے پڑھنے میں دشواری پیش آتی ہے تو اس کے لئے دوہرا اجر ہے۔

قرآن دوسروں کو سنانا:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1864
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابی بن کعب ؓ سے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْکَ قَالَ آللَّهُ سَمَّانِي لَکَ قَالَ اللَّهُ سَمَّاکَ لِي قَالَ فَجَعَلَ أُبَيٌّ يَبْکِي
اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن مجید پڑھ کر سناؤں انہوں نے عرض کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لے کر فرمایا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تیرا نام لے کر مجھے فرمایا ہے راوی نے کہا کہ حضرت ابی ؓ یہ سن کر رونے لگ پڑے۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1867
حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا:
اقْرَأْ عَلَيَّ الْقُرْآنَ قَالَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَقْرَأُ عَلَيْکَ وَعَلَيْکَ أُنْزِلَ قَالَ إِنِّي أَشْتَهِي أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِي فَقَرَأْتُ النِّسَائَ حَتَّی إِذَا بَلَغْتُ فَکَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی هَؤُلَائِ شَهِيدًا رَفَعْتُ رَأْسِي أَوْ غَمَزَنِي رَجُلٌ إِلَی جَنْبِي فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَرَأَيْتُ دُمُوعَهُ تَسِيلُ۔
مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! میں آپ ﷺ کو قرآن پڑھ کر سناؤں، حالانکہ قرآن تو آپ ﷺ پر نازل کیا گیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ میں اپنے علاوہ کسی اور سے قرآن مجید سنوں، میں نے سورت النسا پڑھنی شروع کردی یہاں تک کہ جب میں اس (فَکَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی هَؤُلَاءِ شَهِيدًا) پر پہنچا تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ کے آنسو جاری ہیں۔

تین حاملہ اونٹنیاں:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1872
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَيُحِبُّ أَحَدُکُمْ إِذَا رَجَعَ إِلَی أَهْلِهِ أَنْ يَجِدَ فِيهِ ثَلَاثَ خَلِفَاتٍ عِظَامٍ سِمَانٍ قُلْنَا نَعَمْ قَالَ فَثَلَاثُ آيَاتٍ يَقْرَأُ بِهِنَّ أَحَدُکُمْ فِي صَلَاتِهِ خَيْرٌ لَهُ مِنْ ثَلَاثِ خَلِفَاتٍ عِظَامٍ سِمَانٍ۔
کیا تم میں سے کوئی اس کو پسند کرتا ہے کہ جب وہ اپنے گھر والوں کی طرف واپس جائے تو وہاں تین حاملہ اونٹنیاں موجود ہوں اور وہ بہت بڑی اور موٹی ہوں ہم نے عرض کیا کہ جی ہاں آپ ﷺ نے فرمایا تم میں سے جو کوئی اپنی نماز میں تین آیات پڑھتا ہے وہ تین بڑی بڑی موٹی اونٹنیوں سے اس کے لئے بہتر ہے۔

ایک تہائی قرآن:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1886
حضرت ابوالدرداء ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
أَيَعْجِزُ أَحَدُکُمْ أَنْ يَقْرَأَ فِي لَيْلَةٍ ثُلُثَ الْقُرْآنِ قَالُوا وَکَيْفَ يَقْرَأْ ثُلُثَ الْقُرْآنِ قَالَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ تَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ۔
کیا تم میں سے کوئی آدمی رات میں تہائی قرآن مجید پڑھ سکتا ہے؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ وہ کیسے پڑھا جاسکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ سورت ( قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ) تہائی قرآن مجید کے برابر ہے۔

تلاوتِ قرآن کی مقدار:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2732
حضور نبی مکرم ﷺ کے ایک صحابی حضرت عبداللہ بن عمر بن العاص ؓ کا معمول تھا کہ وہ روزانہ ایک قرآن ختم کرتے تھے۔ حضور نبی مکرم ﷺ نے انہیں فرمایا:
اقْرَأْ الْقُرْآنَ فِي کُلِّ شَهْرٍ قَالَ قُلْتُ إِنِّي أَجِدُ قُوَّةً قَالَ فَاقْرَأْهُ فِي عِشْرِينَ لَيْلَةً قَالَ قُلْتُ إِنِّي أَجِدُ قُوَّةً قَالَ فَاقْرَأْهُ فِي سَبْعٍ وَلَا تَزِدْ عَلَی ذَلِکَ۔
ہر مہینہ میں ایک قرآن مجید پڑھو میں نے عرض کیا کہ میں تو اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر تو بیس راتوں میں قرآن مجید پڑھ میں نے عرض کیا کہ میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا پھر تو سات دنوں میں قرآن مجید پڑھ اور اس سے زیادہ نہ کر۔

اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

روزے کی اقسام

روزے کی مندرجہ ذیل اقسام ہیں:

1) فرضِ معین روزے (رمضان المبارک کے روزے)
2) فرضِ غیر معین روزے (رمضان المبارک کے روزوں کی قضا کے لیے رکھے جانے والے روزے)
3) واجب معین روزے (کسی خاص تاریخ یا کسی خاص دن میں منت یا نذر کے روزے)
4) واجب غیر معین روزے (کسی خاص تاریخ یا کسی خاص دن کا تعین کیے بغیر منت یا نذر کے روزے)
5) مسنون روزے جیسے (محرم الحرام کی 9،10 کا روزہ، عرفہ یعنی ذوالحجہ کی نویں تاریخ کا روزہ، ایامِ بیض کے روزے یعنی ہر اسلامی مہینے کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کے روزے، پندرہویں شعبان کا روزہ)
6) نفلی روزے جیسے (شوال کے چھ روزے، پیر اور جمعرات کا روزہ)
7) حرام روزے جیسے کہ عید الفطر، عید الاضحیٰ اور ایامِ تشریق (ذوالحجہ کی گیارہوی، بارہویں اور تیرہویں تاریخ) کے روزے
8) مکروہ روزے جیسے (ہفتے کے دن کا روزہ، عاشورہ یعنی محرم کی دسویں تاریخ کا ایک روزہ جس کے ساتھ نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ نہ ملایا جائے، جمعہ کے دن کا اکیلا روزہ رکھنا اس صورت میں منع ہے جب تک اس سے پہلے یا بعد میں کوئی اور روزہ نہ رکھا جائے، نوروز کے دن کا روزہ، عورت کا شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ رکھنا)
9) صومِ داؤدی

فرضِ معین روزے:

رمضان المبارک کے روزے فرضِ معین روزے کہلاتے ہیں۔

فرضِ غیر معین روزے:

رمضان المبارک کے روزوں کی قضا کے طور پر رکھے جانے والے روزے فرضِ غیر معین کہلاتے ہیں۔

واجب معین روزے:

وہ روزے جن کے رکھنے کی کسی خاص تاریخ یا کسی خاص دن میں منت یا نذر مانی جائے، واجب معین روزے کہلاتے ہیں۔

واجب غیر معین روزے:

کفارے کے روزے اور نذرِ غیر معین کے روزے واجب غیر معین کہلاتے ہیں۔

مسنون روزے:

وہ روزے جو حضور نبی مکرم ﷺ نے فرض روزوں کے علاوہ رکھے اور امت کو ان کی ترغیب دی مسنون روزے کہلاتے ہیں۔ جیسے؛

1) محرم الحرام کی نویں اور دسویں کے روزے:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2747
حضرت ابو قتادہ انصاری ؓ روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ سے عاشورہ کے دن کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا آپ ﷺ نے فرمایا:
يُکَفِّرُ السَّنَةَ الْمَاضِيَةَ۔
یہ روزہ رکھنا گزرے ہوئے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔

2) عرفہ یعنی ذوالحجہ کی نویں تاریخ کا روزہ:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2747
حضرت ابو قتادہ انصاری ؓ روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ سے عرفہ کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا آپ ﷺ نے فرمایا:
يُکَفِّرُ السَّنَةَ الْمَاضِيَةَ وَالْبَاقِیَۃَ۔
عرفہ کا روزہ گزشتہ اور آئندہ سال (کے گناہوں) کے لیے کفارہ ہے۔

3) ایامِ بیض کے تین روزے: یعنی ہر اسلامی مہینے کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کو روزے رکھنا مستحب ہے۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2747
حضرت ابو قتادہ انصاری ؓ روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ سے عرفہ کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا آپ ﷺ نے فرمایا:
صَوْمُ ثَلَاثَةٍ مِنْ کُلِّ شَهْرٍ وَرَمَضَانَ إِلَی رَمَضَانَ صَوْمُ الدَّهْرِ۔
ہر مہینے تین روزے اور ایک رمضان کے بعد دوسرے رمضان کے روزے رکھنا ساری عمر کے روزوں کے برابر ہے۔

4) پندرہویں شعبان کا روزہ:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1388 ‏‏‏‏‏‏
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُومُوا لَيْلَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَصُومُوا يَوْمَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ اللَّهَ يَنْزِلُ فِيهَا لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَى سَمَاءِ الدُّنْيَا، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ أَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِي فَأَغْفِرَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا مُبْتَلًى فَأُعَافِيَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا كَذَا أَلَا كَذَا حَتَّى يَطْلُعَ الْفَجْرُ.
حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب نصف شعبان کی رات آئے تو اس رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو۔ اس رات اللہ تعالیٰ سورج کے غروب ہوتے ہی پہلے آسمان پر نزول فرما لیتا ہے اور صبح صادق طلوع ہونے تک کہتا رہتا ہے: کیا کوئی مجھ سے بخشش مانگنے والا ہے کہ میں اسے معاف کر دوں؟ کیا کوئی رزق طلب کرنے والا ہے کہ اسے رزق دوں؟ کیا کوئی (کسی بیماری یا مصیبت میں) مبتلا ہے کہ میں اسے عافیت عطا فرما دوں؟

نفلی روزے:

وہ روزے جو فرض اور واجب کے زمرے میں تو نہیں آتے لیکن ان کا رکھنا باعثِ ثواب ہے اور چھوڑنے پر کوئی عتاب و گناہ نہیں، نفلی روزے کہلاتے ہیں۔ جیسے؛

1) شوال کے چھ روزے:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2758
حضرت ابوایوب انصاری سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ کَانَ کَصِيَامِ الدَّهْرِ۔
جو آدمی رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو گویا اس نے سال بھر کے روزے رکھے۔

2) پیر اور جمعرات کا روزہ:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 747
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
تُعْرَضُ الْأَعْمَالُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ، ‏‏‏‏‏‏فَأُحِبُّ أَنْ يُعْرَضَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ .
پیر اور جمعرات کو اعمال (اللہ کے حضور) پیش کئے جاتے ہیں، میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل روزے کی حالت میں پیش ہو ۔

حرام روزے:

جن دنوں کے روزوں سے حضور نبی مکرم ﷺ نے منع فرمایا ہے وہ حرام روزے کہلاتے ہیں جیسے کہ عید الفطر، عید الاضحیٰ اور ایامِ تشریق (ذوالحجہ کی گیارہوی، بارہویں اور تیرہویں تاریخ) کے روزے۔

1) عیدین کے روزے

سنن ابوداؤد, حدیث نمبر: 2417
ابو سعید خدری ؓ روایت کرتے ہیں:
نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صِيَامِ يَوْمَيْنِ يَوْمِ الْفِطْرِ وَيَوْمِ الْأَضْحَى.
رسول اللہ ﷺ نے دو دنوں کے روزوں سے منع فرمایا: ایک عید الفطر کے دوسرے عید الاضحی کے۔

2) ایامِ تشریق کے روزے (ذوالحجہ کی گیارہوی، بارہویں اور تیرہویں تاریخ)

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2677
حضرت نُبَیشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَيَّامُ التَّشْرِيقِ أَيَّامُ أَکْلٍ وَشُرْبٍ۔
تشریق کے دن کھانے اور پینے کے دن ہیں۔

مکروہ روزے:

جن ایام کے روزے رکھنے کو شریعت میں ناپسندیدگی و کراہت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے، مکروہ روزے کہلاتے ہیں مثلاً؛

1) ہفتے کے دن کا روزہ:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 744
عبداللہ بن بسر کی بہن بہیہ صمّاء ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا تَصُومُوا يَوْمَ السَّبْتِ إِلَّا فِيمَا افْتَرَضَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ لَمْ يَجِدْ أَحَدُكُمْ إِلَّا لِحَاءَ عِنَبَةٍ أَوْ عُودَ شَجَرَةٍ فَلْيَمْضُغْهُ۔
ہفتہ کے دن روزہ مت رکھو سوائے اس کے کہ جو اللہ نے تم پر فرض کیا ہو، اگر تم میں سے کوئی انگور کی چھال اور درخت کی ٹہنی کے علاوہ کچھ نہ پائے تو اسی کو چبا لے (اور روزہ نہ رکھے) ۔
امام ترمذی کہتے ہیں کہ آدمی روزہ کے لیے ہفتے (سنیچر) کا دن مخصوص نہ کرے، اس لیے کہ یہودی ہفتے کے دن کی تعظیم کرتے ہیں۔

2) عاشورہ یعنی محرم کی دسویں تاریخ کا ایک روزہ جس کے ساتھ نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ نہ ملایا جائے۔

3) جمعہ کے دن کا اکیلا روزہ رکھنا اس صورت میں منع ہے جب تک اس سے پہلے یا بعد میں کوئی اور روزہ نہ رکھا جائے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 743
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا يَصُومُ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِلَّا أَنْ يَصُومَ قَبْلَهُ أَوْ يَصُومَ بَعْدَهُ .
تم میں سے کوئی جمعہ کے دن روزہ نہ رکھے، إلا یہ کہ وہ اس سے پہلے یا اس کے بعد بھی روزہ رکھے۔

4) نوروز کے دن کا روزہ مکروہ ہے بشرطیکہ یہ اس روز واقع نہ ہو جس روز کوئی شخص پہلے سے روزہ رکھتا چلا آ رہا ہو۔

5) عورت کا شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ رکھنا مکروہ ہے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 782
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَا تَصُومُ الْمَرْأَةُ وَزَوْجُهَا شَاهِدٌ يَوْمًا مِنْ غَيْرِ شَهْرِ رَمَضَانَ إِلَّا بِإِذْنِهِ .
عورت اپنے شوہر کی موجودگی میں ماہ رمضان کے علاوہ کوئی اور روزہ بغیر اس کی اجازت کے نہ رکھے۔

صومِ وصال کی ممانعت:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1965
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں:
نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنِ الْوِصَالِ فِي الصَّوْمِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ:‏‏‏‏ إِنَّكَ تُوَاصِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَأَيُّكُمْ مِثْلِي، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي أَبِيتُ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِ۔
رسول اللہ ﷺ نے مسلسل (کئی دن تک سحری و افطاری کے بغیر) روزہ رکھنے سے منع فرمایا تھا۔ اس پر ایک آدمی نے مسلمانوں میں سے عرض کی، یا رسول اللہ ﷺ آپ تو وصال کرتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا میری طرح تم میں سے کون ہے؟ مجھے تو رات میں میرا رب کھلاتا ہے، اور وہی مجھے سیراب کرتا ہے۔

صومِ داؤدی:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2739
حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ أَحَبَّ الصِّيَامِ إِلَی اللَّهِ صِيَامُ دَاوُدَ وَکَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا۔
روزوں میں سے سب سے پسندیدہ روزے اللہ کے نزدیک حضرت داؤد (علیہ السلام) کے روزے ہیں، وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے جبکہ ایک دن افطار کرتے تھے۔

مآخذ و مراجع:
روزہ اور رمضان (سلسلہ تعلیمات اسلام)
(اعتکاف اور رمضان (سلسلہ تعلیمات اسلام

فضیلت و احکامِ اعتکاف

حضور نبی مکرم ﷺ کا معمول تھا کہ آپ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں مسجد کے اندر اعتکاف کیا کرتے تھے۔ اعتکاف کرنا سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ ہے یعنی اگر کوئی ایک شخص بھی مسجد میں اعتکاف کر لے تو سنت ادا ہو جائے گی لیکن اگر کوئی ایک شخص بھی اعتکاف نہ کرے تو سارے اہلِ محلہ گنہگار ہوں گے۔

اعتکاف کرنا سنتِ مؤکدہ:

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 2465
عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ. قَالَ نَافِعٌ:‏‏‏‏ وَقَدْ أَرَانِي عَبْدُ اللَّهِ الْمَكَانَ الَّذِي كَانَ يَعْتَكِفُ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنَ الْمَسْجِدِ.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے۔ نافع کا بیان ہے کہ عبداللہ بن عمر نے مجھے مسجد کے اندر وہ جگہ دکھائی جس میں رسول اللہ ﷺ اعتکاف کیا کرتے تھے۔

معتکف کو ان نیکیوں کا اجر بھی ملتا ہے جن کو وہ حالتِ اعتکاف میں سر انجام نہیں دے سکتا:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1781
عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے معتکف کے بارے میں فرمایا:
هُوَ يَعْكِفُ الذُّنُوبَ، ‏‏‏‏‏‏وَيُجْرَى لَهُ مِنَ الْحَسَنَاتِ كَعَامِلِ الْحَسَنَاتِ كُلِّهَا .
اعتکاف کرنے والا تمام گناہوں سے رکا رہتا ہے، اور اس کو ان نیکیوں کا ثواب جن کو وہ نہیں کرسکتا ان تمام نیکیوں کے کرنے والے کی طرح ملے گا۔

رمضان المبارک کے آخری عشرے میں حضور نبی مکرم ﷺ کا معمول:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2024
حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں:
كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ، ‏‏‏‏‏‏شَدَّ مِئْزَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْيَا لَيْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ.
جب (رمضان کا) آخری عشرہ آتا تو نبی کریم ﷺ اپنا تہبند مضبوط باندھتے (یعنی اپنی کمر پوری طرح کس لیتے) اور ان راتوں میں آپ خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگایا کرتے تھے۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 2473
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں:
السُّنَّةُ عَلَى الْمُعْتَكِفِ أَنْ لَا يَعُودَ مَرِيضًا وَلَا يَشْهَدَ جَنَازَةً وَلَا يَمَسَّ امْرَأَةً وَلَا يُبَاشِرَهَا وَلَا يَخْرُجَ لِحَاجَةٍ إِلَّا لِمَا لَا بُدَّ مِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا اعْتِكَافَ إِلَّا بِصَوْمٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا اعْتِكَافَ إِلَّا فِي مَسْجِدٍ جَامِعٍ.
سنت یہ ہے کہ اعتکاف کرنے والا کسی مریض کی عیادت نہ کرے، نہ جنازے میں شریک ہو، نہ عورت کو چھوئے، اور نہ ہی اس سے مباشرت کرے، اور نہ کسی ضرورت سے نکلے سوائے ایسی ضرورت کے جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو، اور بغیر روزے کے اعتکاف نہیں، اور جامع مسجد کے سوا کہیں اور اعتکاف نہیں۔

نوٹ: فقہائے کرام نے جامع مسجد کے علاوہ عام مسجد میں بھی اعتکاف بیٹھنا جائز قرار دیا ہے۔

اعتکاف کے دوران مریض کی عیادت کرنا:

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 2472
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں:
كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَمُرُّ بِالْمَرِيضِ وَهُوَ مُعْتَكِفٌ، ‏‏‏‏‏‏فَيَمُرُّ كَمَا هُوَ وَلَا يُعَرِّجُ يَسْأَلُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ ابْنُ عِيسَى:‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ إِنْ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَعُودُ الْمَرِيضَ وَهُوَ مُعْتَكِفٌ.
نبی اکرم ﷺ حالت اعتکاف میں مریض کے پاس سے عیادت کرتے ہوئے گزر جاتے جس طرح کے ہوتے اور ٹھہرتے نہیں بغیر ٹھہرے اس کا حال پوچھتے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ حضور نبی مکرم ﷺ اعتکاف کی حالت میں مریض کی مزاج پرسی فرما لیا کرتے تھے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقی معنوں میں دینِ اسلام کی تعلیمات کا فہم عطا فرمائے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

صدقۂِ فطر کے احکام و مسائل – جمعۃ المبارک، 16 رمضان المبارک 1444ھ، بمطابق 07 اپریل 2023ء

صدقۂِ فطر کی فرضیت اور احکام:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1503
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ:
فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى الْعَبْدِ،‏‏‏‏ وَالْحُرِّ،‏‏‏‏ وَالذَّكَرِ،‏‏‏‏ وَالْأُنْثَى،‏‏‏‏ وَالصَّغِيرِ،‏‏‏‏ وَالْكَبِيرِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ.
رسول اللہ ﷺ نے فطر کی زکوٰۃ (صدقہ فطر) فرض قرار دی تھی جو ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو کے برابر ہے ۔ غلام ‘ آزاد ‘ مرد ‘ عورت ‘ چھوٹے اور بڑے تمام مسلمانوں پر۔ آپ ﷺ کا حکم یہ تھا کہ نماز (عید) کے لیے جانے سے پہلے یہ صدقہ ادا کردیا جائے۔

1) صدقۂِ فطر کا حکم کیا ہے؟

فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ زَكَاةَ الْفِطْرِ۔
رسول اللہ ﷺ نے فطر کی زکوٰۃ (صدقہ فطر) فرض قرار دی تھی۔

2) صدقۂِ فطر کی مقدار کیا ہے؟

صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ۔
(صدقۂِ فطر کی مقدار) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو کے برابر ہے۔

3) صدقۂِ فطر کن لوگوں پر فرض ہے؟

عَلَى الْعَبْدِ،‏‏‏‏ وَالْحُرِّ،‏‏‏‏ وَالذَّكَرِ،‏‏‏‏ وَالْأُنْثَى،‏‏‏ وَالصَّغِيرِ،‏‏‏‏ وَالْكَبِيرِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ۔
غلام، آزاد، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے تمام مسلمانوں پر۔

4) صدقۂِ فطر کی ادائیگی کا وقت کیا ہے؟

وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ
آپ ﷺ کا حکم یہ تھا کہ نماز (عید الفطر) کے لیے جانے سے پہلے یہ صدقۂِ فطر ادا کردیا جائے۔

زکوٰۃ اور صدقۂِ فطر میں فرق کیا ہے؟

زکوٰۃ کے لیے شرط ہے کہ نصابِ زکوٰۃ پر سال کا عرصہ گزر چکا ہو جبکہ صدقۂِ فطر میں نصابِ زکوٰۃ پر سال کا گزرنا شرط نہیں بلکہ اگر کسی شخص کے پاس عید الفطر کے دن نصابِ زکوٰۃ کے برابر مال اس کی حاجاتِ اصلیہ سے زائد موجود ہے تو اس پر صدقۂِ فطر کی ادائیگی واجب ہے۔

نصابِ زکوٰۃ کی مالیت بمطابق 1444ھ، 2023ء:

1,20,000 روپے۔

یعنی اگر کسی شخص کے پاس آج کے دور (1444ھ، بمطابق 2023ء) 120,000 روپے یا اس سے زیادہ مالیت کی رقم (کرنسی) یا اس مالیت کے برابر قیمتی چیزیں سونا، چاندی وغیرہ موجود ہو تو وہ شخص صاحبِ نصاب ہے۔ اس پر زکوٰۃ ادا کرنا بھی واجب ہے اور صدقۂِ فطر ادا کرنا بھی واجب ہے۔ اگر اس مال پر سال کا عرصہ گزر چکا ہے تو اس مال کا اڑھائی فیصد زکوٰۃ کی مد میں غرباء و مساکین اور دوسرے مصارفِ زکوٰۃ پہ خرچ کرنا واجب ہے۔ جبکہ صدقۂِ فطر کے لیے مال پر سال کا گزرنا شرط نہیں ہے بلکہ اگر کچھ دن پہلے وہ شخص صاحبِ نصاب بنا ہے تو اس پر صدقۂِ فطر ادا کرنا واجب ہے۔

صدقۂِ فطر کی حکمت:

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 1609
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ، ‏‏‏‏‏‏مَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ فَهِيَ زَكَاةٌ مَقْبُولَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ فَهِيَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ.
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر صائم کو لغو اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کے کھانے کے لیے فرض کیا ہے، لہٰذا جو اسے (عید کی) نماز سے پہلے ادا کرے گا تو یہ مقبول صدقہ ہوگا اور جو اسے نماز کے بعد ادا کرے گا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہوگا۔

صدقۂِ فطر کی مقدار:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1506
حضرت ابو سعید خدری ؓ روایت کرتے ہیں کہ:
كُنَّا نُخْرِجُ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ.
ہم فطرہ کی زکوٰۃ ایک صاع اناج یا گیہوں یا ایک صاع جَو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع زبیب (خشک انگور یا انجیر) نکالا کرتے تھے۔

صدقۂِ فطر (و فدیہ فی روزہ) کی قیمت (ایک فرد) کے مختلف درجات بمطابق 1444ھ (2023) – (دارالافتاء):

گندم کا آٹا (دو کلوگرام): 320 روپے
جو (چار کلوگرام): 1000 روپے
کھجور (چار کلوگرام) – درمیانی کوالٹی: 2400 روپے
کھجور (چار کلوگرام) – اعلیٰ کوالٹی: 10800 روپے
کشمکش (چار کلوگرام): 4800 روپے
پنیر (چار کلوگرام): 9250 روپے

گویا صدقۂِ فطر (و فدیہ فی روزہ) کی کم سے کم مقدار ایک فرد کے لیے 320 روپے جبکہ زیادہ سے زیادہ 10,800 روپے ہے بمطابق 1444ھ (2023)۔ اگر کوئی اس بھی زیادہ دینا چاہے تو اس کے لیے باعثِ اجر و ثواب ہے۔ ہر فرد اپنی مالی حیثیت اور طرزِ زندگی کے مطابق طے شدہ صدقۂِ فطر (و فدیہ فی روزہ) ادا کرے۔ تاکہ غرباء و مساکین کو زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقی معنوں میں دینِ اسلام کی تعلیمات کا فہم عطا فرمائے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

زکوٰۃ، صدقۂِ فطر اور عشر کے احکام و مسائل – جمعۃ المبارک، 09 رمضان المبارک 1444ھ، بمطابق 31 مارچ 2023ء

زکوٰۃ کی فرضیت کا بیان:

قرآنِ حکیم میں بیاسی (82) مقامات پر زکوٰۃ کی ادائیگی کا تاکیدی حکم آیا ہے۔ (زکوٰۃ اور صدقات، 33)

القرآن – سورۃ نمبر 73 المزمل، آیت نمبر 20
وَاَقِيۡمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَاَقۡرِضُوا اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا‌ ؕ وَمَا تُقَدِّمُوۡا لِاَنۡفُسِكُمۡ مِّنۡ خَيۡرٍ تَجِدُوۡهُ عِنۡدَ اللّٰهِ هُوَ خَيۡرًا وَّاَعۡظَمَ اَجۡرًا‌ ؕ وَاسۡتَغۡفِرُوا اللّٰهَ ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ ۞
اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور اﷲ کو قرضِ حسن دیا کرو، اور جو بھلائی تم اپنے لئے آگے بھیجو گے اُسے اﷲ کے حضور بہتر اور اَجر میں بزرگ تر پا لوگے، اور اﷲ سے بخشش طلب کرتے رہو، اﷲ بہت بخشنے والا بے حد رحم فرمانے والا ہے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 8
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ، ‏‏‏‏‏‏شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحَجِّ، ‏‏‏‏‏‏وَصَوْمِ رَمَضَانَ.
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ اول گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1397
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ:
أَنَّ أَعْرَابِيًّا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ إِذَا عَمِلْتُهُ دَخَلْتُ الْجَنَّةَ ؟،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ تَعْبُدُ اللَّهَ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَتُؤَدِّي الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَتَصُومُ رَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا أَزِيدُ عَلَى هَذَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا وَلَّى قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَذَا.
ایک دیہاتی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ آپ مجھے کوئی ایسا کام بتلائیے جس پر اگر میں ہمیشگی کروں تو جنت میں داخل ہوجاؤں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی عبادت کر ‘ اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہرا ‘ فرض نماز قائم کر ‘ فرض زکوٰۃ دے اور رمضان کے روزے رکھ۔ دیہاتی نے کہا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ‘ ان عملوں پر میں کوئی زیادتی نہیں کروں گا۔ جب وہ پیٹھ موڑ کر جانے لگا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہے جو جنت والوں میں سے ہو تو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔

زکوٰۃ ادا نہ کرنے پر وعید:

القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 180
وَلَا يَحۡسَبَنَّ الَّذِيۡنَ يَبۡخَلُوۡنَ بِمَاۤ اٰتٰٮهُمُ اللّٰهُ مِنۡ فَضۡلِهٖ هُوَ خَيۡـرًا لَّهُمۡ‌ؕ بَلۡ هُوَ شَرٌّ لَّهُمۡ‌ؕ سَيُطَوَّقُوۡنَ مَا بَخِلُوۡا بِهٖ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ ‌ؕ
اور جو لوگ اس (مال و دولت) میں سے دینے میں بخل کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کیا ہے وہ ہرگز اس بخل کو اپنے حق میں بہتر خیال نہ کریں، بلکہ یہ ان کے حق میں برا ہے، عنقریب روزِ قیامت انہیں (گلے میں) اس مال کا طوق پہنایا جائے گا جس میں وہ بخل کرتے رہے ہوں گے،

القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 34، 35
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ كَثِيۡرًا مِّنَ الۡاَحۡبَارِ وَالرُّهۡبَانِ لَيَاۡكُلُوۡنَ اَمۡوَالَ النَّاسِ بِالۡبَاطِلِ وَيَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ‌ؕ وَالَّذِيۡنَ يَكۡنِزُوۡنَ الذَّهَبَ وَالۡفِضَّةَ وَلَا يُنۡفِقُوۡنَهَا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِۙ فَبَشِّرۡهُمۡ بِعَذَابٍ اَلِيۡمٍۙ ۞ يَّومَ يُحۡمٰى عَلَيۡهَا فِىۡ نَارِ جَهَـنَّمَ فَتُكۡوٰى بِهَا جِبَاهُهُمۡ وَجُنُوۡبُهُمۡ وَظُهُوۡرُهُمۡ‌ؕ هٰذَا مَا كَنَزۡتُمۡ لِاَنۡفُسِكُمۡ فَذُوۡقُوۡا مَا كُنۡتُمۡ تَكۡنِزُوۡنَ ۞
اے ایمان والو! بیشک (اہلِ کتاب کے) اکثر علماء اور درویش، لوگوں کے مال ناحق (طریقے سے) کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں (یعنی لوگوں کے مال سے اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور دینِ حق کی تقویت و اشاعت پر خرچ کئے جانے سے روکتے ہیں)، اور جو لوگ سونا اور چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں دردناک عذاب کی خبر سنا دیں، جس دن اس (سونے، چاندی اور مال) پر دوزخ کی آگ میں تاپ دی جائے گی پھر اس (تپے ہوئے مال) سے ان کی پیشانیاں اور ان کے پہلو اور ان کی پیٹھیں داغی جائیں گی، (اور ان سے کہا جائے گا) کہ یہ وہی (مال) ہے جو تم نے اپنی جانوں (کے مفاد) کے لئے جمع کیا تھا سو تم (اس مال کا) مزہ چکھو جسے تم جمع کرتے رہے تھے،

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1403
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ، ‏‏‏‏‏‏مُثِّلَ لَهُ مَالُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَهُ زَبِيبَتَانِ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَأْخُذُ بِلِهْزِمَتَيْهِ يَعْنِي شِدْقَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَقُولُ أَنَا مَالُكَ أَنَا كَنْزُكَ۔
جسے اللہ نے مال دیا اور اس نے اس کی زکوٰۃ نہیں ادا کی تو قیامت کے دن اس کا مال نہایت زہریلے گنجے سانپ کی شکل اختیار کرلے گا۔ اس کی آنکھوں کے پاس دو سیاہ نقطے ہوں گے۔ جیسے سانپ کے ہوتے ہیں ‘ پھر وہ سانپ اس کے دونوں جبڑوں سے اسے پکڑ لے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال اور خزانہ ہوں۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2290
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَا مِنْ صَاحِبِ ذَهَبٍ وَلَا فِضَّةٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا إِلَّا إِذَا کَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ صُفِّحَتْ لَهُ صَفَائِحُ مِنْ نَارٍ فَأُحْمِيَ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَيُکْوَی بِهَا جَنْبُهُ وَجَبِينُهُ وَظَهْرُهُ کُلَّمَا بَرَدَتْ أُعِيدَتْ لَهُ فِي يَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّی يُقْضَی بَيْنَ الْعِبَادِ فَيَرَی سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَی الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَی النَّارِ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْإِبِلُ قَالَ وَلَا صَاحِبُ إِبِلٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا وَمِنْ حَقِّهَا حَلَبُهَا يَوْمَ وِرْدِهَا إِلَّا إِذَا کَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ بُطِحَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ أَوْفَرَ مَا کَانَتْ لَا يَفْقِدُ مِنْهَا فَصِيلًا وَاحِدًا تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا وَتَعَضُّهُ بِأَفْوَاهِهَا کُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ أُولَاهَا رُدَّ عَلَيْهِ أُخْرَاهَا فِي يَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّی يُقْضَی بَيْنَ الْعِبَادِ فَيَرَی سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَی الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَی النَّارِ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْبَقَرُ وَالْغَنَمُ قَالَ وَلَا صَاحِبُ بَقَرٍ وَلَا غَنَمٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا إِلَّا إِذَا کَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ بُطِحَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ لَا يَفْقِدُ مِنْهَا شَيْئًا لَيْسَ فِيهَا عَقْصَائُ وَلَا جَلْحَائُ وَلَا عَضْبَائُ تَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا کُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ أُولَاهَا رُدَّ عَلَيْهِ أُخْرَاهَا فِي يَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّی يُقْضَی بَيْنَ الْعِبَادِ فَيَرَی سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَی الْجَنَّةِ وَإِمَّا إِلَی النَّارِ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْخَيْلُ قَالَ الْخَيْلُ ثَلَاثَةٌ هِيَ لِرَجُلٍ وِزْرٌ وَهِيَ لِرَجُلٍ سِتْرٌ وَهِيَ لِرَجُلٍ أَجْرٌ فَأَمَّا الَّتِي هِيَ لَهُ وِزْرٌ فَرَجُلٌ رَبَطَهَا رِيَائً وَفَخْرًا وَنِوَائً عَلَی أَهْلِ الْإِسْلَامِ فَهِيَ لَهُ وِزْرٌ وَأَمَّا الَّتِي هِيَ لَهُ سِتْرٌ فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ لَمْ يَنْسَ حَقَّ اللَّهِ فِي ظُهُورِهَا وَلَا رِقَابِهَا فَهِيَ لَهُ سِتْرٌ وَأَمَّا الَّتِي هِيَ لَهُ أَجْرٌ فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ فِي مَرْجٍ وَرَوْضَةٍ فَمَا أَکَلَتْ مِنْ ذَلِکَ الْمَرْجِ أَوْ الرَّوْضَةِ مِنْ شَيْئٍ إِلَّا کُتِبَ لَهُ عَدَدَ مَا أَکَلَتْ حَسَنَاتٌ وَکُتِبَ لَهُ عَدَدَ أَرْوَاثِهَا وَأَبْوَالِهَا حَسَنَاتٌ وَلَا تَقْطَعُ طِوَلَهَا فَاسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ إِلَّا کَتَبَ اللَّهُ لَهُ عَدَدَ آثَارِهَا وَأَرْوَاثِهَا حَسَنَاتٍ وَلَا مَرَّ بِهَا صَاحِبُهَا عَلَی نَهْرٍ فَشَرِبَتْ مِنْهُ وَلَا يُرِيدُ أَنْ يَسْقِيَهَا إِلَّا کَتَبَ اللَّهُ لَهُ عَدَدَ مَا شَرِبَتْ حَسَنَاتٍ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْحُمُرُ قَالَ مَا أُنْزِلَ عَلَيَّ فِي الْحُمُرِ شَيْئٌ إِلَّا هَذِهِ الْآيَةَ الْفَاذَّةُ الْجَامِعَةُ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ۔
جو سونے یا چاندی والا اس میں اس کا حق ادا نہیں کرتا اس کے لئے قیامت کے دن آگ کی چٹانیں بنائی جائیں گی اور ان کو جہنم کی آگ میں خوب گرم کیا جائے گا اور ان سے اس کے پہلو، پیشانی اور پشت کو داغا جائے گا، جب وہ ٹھنڈے ہوجائیں گے تو ان کو دوبارہ گرم کیا جائے گا اس دن برابر یہ عمل اس کے ساتھ ہوتا رہے گا جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہوگی یہاں تک کہ بندوں کا فیصلہ کردیا جائے تو اس کو جنت یا دوزخ کا راستہ دکھا دیا جائے گا، عرض کیا گیا یا رسول اللہ اونٹ والوں کا کیا حکم ہے؟ فرمایا اونٹوں والا بھی جو ان میں سے ان کا حق ادا نہ کرے اور ان کے حق میں سے یہ بھی ہے کہ ان کو پانی پلانے کے دن ان کا دودھ نکال دے تو قیامت کے دن ایک ہموار زمین میں اس کو اوندھا لٹا دیا جائے گا اور وہ اونٹ نہایت فربہ ہو کر آئے گا کہ ان میں سے کوئی بچہ بھی باقی نہ رہے گا جو اس کو اپنے کھروں سے نہ روندے اور منہ سے نہ کاٹے جب اس پر سے سب سے پہلا گزر جائے گا تو دوسرا آجائے گا پچاس ہزار سال کی مقدار والے دن میں یہاں تک کہ بندوں کا فیصلہ ہوجائے پھر اس کو جنت یا دوزخ کا راستہ دکھایا جائے گا۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ ﷺ گائے اور بکری کا کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا گائے اور بکری والوں میں سے کوئی ایسا نہیں جو ان میں سے ان کا حق ادا نہیں کرتا مگر یہ کہ قیامت کے دن اس کو ہموار زمین پر اوندھا لٹایا جائے گا اور ان میں سے کوئی باقی نہ رہے گا جو اس کو اپنے پاؤں سے نہ روندے اور وہ ایسی ہوں گی کہ کوئی ان میں مڑے ہوئے سینگ والی نہ ہوگی اور نہ سینگ کے بغیر نہ سینگ ٹوٹی ہوئی، سب اس کو ماریں گی اپنے سینگوں سے جب پہلی اس پر سے گزر جائے گی تو دوسری آجائے گی یہی عذاب پچاس ہزار سال والے دن میں ہوتا رہے گا یہاں تک کہ لوگوں کا فیصلہ ہوجائے تو اس کو جنت یا دوزخ کی راہ دکھائی جائے گی۔ عرض کیا گیا یا رسول اللہ ﷺ گھوڑے کا کیا حکم ہے؟ فرمایا گھوڑے کی تین اقسام ہیں، ایک مالک پر وبال ہے دوسرا مالک کے لئے پردہ ہے، تیسرا مالک کے لئے ثواب کا ذریعہ ہے، بہر حال جس کو آدمی نے دکھاوے کے لئے باندھ رکھا ہے فخر اور مسلمانوں کی دشمنی کے لئے تو یہ گھوڑا اس کے لئے بوجھ اور وبال ہے اور وہ جو اس کے لئے پردہ پوشی ہے وہ یہ ہے کہ جس کو آدمی نے اللہ کے راستہ میں وقف کر رکھا ہے پھر اس کی پشتوں اور گردنوں سے وابستہ اللہ کے حقوق بھی نہ بھولا ہو تو یہ گھوڑا مالک کے لئے عزت کا ذریعہ ہے اور باعث ثواب وہ گھوڑا ہے جس کو آدمی نے اللہ کے راستہ میں وقف کر رکھا ہو۔ اہل اسلام کے لئے سبزہ زار یا باغ میں تو یہ گھوڑے باغ یا سبزہ زار سے جو کچھ کھائیں گے تو ان کے کھانے کی تعداد کے موافق اس کے لئے نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور اس کی لید اور پیشاب کی مقدار کے لئے برابر نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور وہ اپنی لمبی رسی توڑ کر ایک یا دو ٹیلوں پر چڑھ جائے تو اس کے قدموں کے نشانات اور لید کے برابر نیکیاں اللہ لکھ دیتا ہے اور جب اس کا مالک اس کو کسی نہر سے لے کر گزرتا ہے اور پانی پلانے کا ارادہ نہ ہو تب بھی اللہ اس کے لئے پانی کے قطروں کے تعداد کے برابر نیکیاں لکھ دیتا ہے جو اس نے پیا، عرض کیا گیا یا رسول اللہ ﷺ گدھوں کا کیا حکم ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا گدھوں کے بارے میں سوائے ایک آیت کے کوئی احکام نازل نہیں ہوئے وہ آیت بےمثل اور جمع کرنے والی ہے (فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَه) 99۔ الزلزلۃ: 7) یعنی جس نے ذرہ کے برابر نیکی کی وہ اسے دیکھے گا اور جس نے ذرہ کے برابر بدی کی وہ بھی اسے دیکھے گا یعنی قیامت کے دن۔

جو شخص نصابِ زکوٰۃ یعنی ساڑھے سات تولے سونا یا اس کی قیمت، ساڑھے باون تولے چاندی یا اس کی قیمت کے برابر کرنسی وغیرہ کا مالک ہے اور وہ اس کی حوائج اصلیہ سے زائد ہو، اس پر ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہو، اور وہ شخص مقروض بھی نہ ہو تو اس پر اڑھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے۔

چار قسم کے اموال پر زکوٰۃ کی ادائیگی لازم ہے:
1) سونا، چاندی اور نقدی وغیرہ
2) مویشی مثلاً اونٹ، گائے، اور بکری وغیرہ
3) ہر قسم کے تجارتی اموال
4) زمین سے حاصل شدہ اشیاء مثلاً پھل، سبزیاں اور معدنیات وغیرہ

نصابِ زکوٰۃ:

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 1573
حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
فَإِذَا كَانَتْ لَكَ مِائَتَا دِرْهَمٍ وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ وَلَيْسَ عَلَيْكَ شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏يَعْنِي فِي الذَّهَبِ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى يَكُونَ لَكَ عِشْرُونَ دِينَارًا، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا كَانَ لَكَ عِشْرُونَ دِينَارًا وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ فَفِيهَا نِصْفُ دِينَارٍ فَمَا زَادَ فَبِحِسَابِ ذَلِكَ۔
جب تمہارے پاس دو سو (٢٠٠) درہم ہوں اور ان پر ایک سال گزر جائے تو ان میں پانچ (٥) درہم زکاۃ ہوگی، اور سونا جب تک بیس (٢٠) دینار نہ ہو اس میں تم پر زکاۃ نہیں، جب بیس (٢٠) دینار ہوجائے اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس میں آدھا دینار زکاۃ ہے، پھر جتنا زیادہ ہو اس میں اسی حساب سے زکاۃ ہوگی (یعنی چالیسواں حصہ) ۔

اُس دور میں دینار سونے کا تھا اور بیس دینار کا وزن ساڑھے سات تولے (87.48 گرام) ہوتا تھا۔ اس لیے نصابِ زکوٰۃ ساڑھے سات تولے سونا یا اس کے برابر رقم بنتی ہے۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2271
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ مِنْ الْوَرِقِ صَدَقَةٌ وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ مِنْ الْإِبِلِ صَدَقَةٌ وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ مِنْ التَّمْرِ صَدَقَةٌ.
چاندی کے پانچ اوقیہ سے کم میں زکوٰۃ نہیں اور اونٹوں میں پانچ اونٹوں سے کم پر زکوٰۃ نہیں اور کھجور کے پانچ اوسق سے کم میں زکوٰۃ نہیں۔

چاندی کے پانچ اوقیہ ساڑھے باون تولہ (612.36 گرام) بنتے ہیں لہٰذا نصابِ زکوٰۃ ساڑھے باون تولے چاندی یا اس کے برابر رقم بنتی ہے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 622
عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
فِي ثَلَاثِينَ مِنَ الْبَقَرِ تَبِيعٌ أَوْ تَبِيعَةٌ وَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ مُسِنَّةٌ .
تیس گائے میں ایک سال کا بچھڑا، یا ایک سال کی بچھڑی کی زکاۃ ہے اور چالیس گایوں میں دو سال کی بچھڑی کی زکاۃ ہے (دانتی یعنی دو دانت والی) ۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1807
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
فِي أَرْبَعِينَ شَاةً شَاةٌ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً، ‏‏‏‏‏‏فَفِيهَا شَاتَانِ إِلَى مِائَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَةً، ‏‏‏‏‏‏فَفِيهَا ثَلَاثُ شِيَاهٍ إِلَى ثَلاثِ مِائَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ زَادَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَفِي كُلِّ مِائَةٍ شَاةٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَكُلُّ خَلِيطَيْنِ يَتَرَاجَعَانِ بِالسَّوِيَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ لِلْمُصَدِّقِ هَرِمَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تَيْسٌ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنْ يَشَاءَ الْمُصَّدِّقُ .
چالیس سے لے کر ایک سو بیس بکریوں تک ایک بکری زکاۃ ہے، اگر ایک سو بیس سے ایک بھی زیادہ ہوجائے تو دو سو تک دو بکریاں ہیں، اور اگر دو سو سے ایک بھی زیادہ ہوجائے تو تین سو تک تین بکریاں ہیں، اور اگر تین سو سے زیادہ ہوں تو ہر سو میں ایک بکری ہے، اور جو جانور اکٹھے ہوں انہیں زکاۃ کے ڈر سے الگ الگ نہ کیا جائے، اور نہ ہی جو الگ الگ ہوں انہیں اکٹھا کیا جائے، اور اگر مال میں دو شخص شریک ہوں تو دونوں اپنے اپنے حصہ کے موافق زکاۃ پوری کریں، اور زکاۃ میں عامل زکاۃ کو بوڑھا، عیب دار اور جفتی کا مخصوص بکرا نہ دیا جائے، الا یہ کہ عامل زکاۃ خود ہی لینا چاہے۔

1) ساڑھے سات تولے سونا یا اس کے برابر رقم
2) ساڑھے باون تولے چاندی یا اس کے برابر رقم
3) اسی طرح جانوروں (اونٹ، گائے، بکری) کے لیے بھی نصابِ زکوٰۃ ہے۔ جیسا کہ اوپر احادیثِ مبارکہ میں بیان ہوا۔

مصارفِ زکوٰۃ:
القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 60
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَالۡمَسٰكِيۡنِ وَالۡعٰمِلِيۡنَ عَلَيۡهَا وَالۡمُؤَلَّـفَةِ قُلُوۡبُهُمۡ وَفِى الرِّقَابِ وَالۡغٰرِمِيۡنَ وَفِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِ‌ؕ فَرِيۡضَةً مِّنَ اللّٰهِ‌ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ ۞
بیشک صدقات (زکوٰۃ) محض غریبوں اور محتاجوں اور ان کی وصولی پر مقرر کئے گئے کارکنوں اور ایسے لوگوں کے لئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ) انسانی گردنوں کو (غلامی کی زندگی سے) آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اور اللہ کی راہ میں (جہاد کرنے والوں پر) اور مسافروں پر (زکوٰۃ کا خرچ کیا جانا حق ہے)۔ یہ (سب) اللہ کی طرف سے فرض کیا گیا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے،

1) فقراء 2) مساکین 3) عاملینِ زکوٰۃ 4) مؤلفۃ القلوب 5) الرقاب (غلاموں کی آزادی) 6) الغارمون (مقروض) 7) فی سبیل اللہ 8) ابن السبیل (مسافر)

مسکین کون ہے؟

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1476
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَيْسَ الْمِسْكِينُ الَّذِي تَرُدُّهُ الْأُكْلَةَ وَالْأُكْلَتَانِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ الْمِسْكِينُ الَّذِي لَيْسَ لَهُ غِنًى وَيَسْتَحْيِي أَوْ لَا يَسْأَلُ النَّاسَ إِلْحَافًا.
مسکین وہ نہیں جسے ایک دو لقمے در در پھرائیں۔ مسکین تو وہ ہے جس کے پاس مال نہیں۔ لیکن اسے سوال سے شرم آتی ہے اور وہ لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتا (مسکین وہ جو کمائے مگر بقدر ضرورت نہ پا سکے) ۔

صدقۂِ فطر کی فرضیت:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1503
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ:
فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى الْعَبْدِ،‏‏‏‏ وَالْحُرِّ،‏‏‏‏ وَالذَّكَرِ،‏‏‏‏ وَالْأُنْثَى،‏‏‏‏ وَالصَّغِيرِ،‏‏‏‏ وَالْكَبِيرِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ.
رسول اللہ ﷺ نے فطر کی زکوٰۃ (صدقہ فطر) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو فرض قرار دی تھی۔ غلام ‘ آزاد ‘ مرد ‘ عورت ‘ چھوٹے اور بڑے تمام مسلمانوں پر۔ آپ ﷺ کا حکم یہ تھا کہ نماز (عید) کے لیے جانے سے پہلے یہ صدقہ ادا کردیا جائے۔

صدقۂِ فطر میں نصاب پر سال کا گزرنا شرط نہیں بلکہ اگر کسی شخص کے پاس عید الفطر کے دن نصابِ زکوٰۃ کے برابر مال اس کی حاجاتِ اصلیہ سے زائد موجود ہے تو اس پر صدقۂِ فطر کی ادائیگی واجب ہے۔

صدقۂِ فطر کی مقدار:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1506
حضرت ابو سعید خدری ؓ روایت کرتے ہیں کہ:
كُنَّا نُخْرِجُ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ.
ہم فطرہ کی زکوٰۃ ایک صاع اناج یا گیہوں یا ایک صاع جَو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع زبیب (خشک انگور یا انجیر) نکالا کرتے تھے۔

صدقۂِ فطر (و فدیہ فی روزہ) کی قیمت (ایک فرد) کے مختلف درجات بمطابق 1444ھ (2023) – (دارالافتاء):

جو (چار کلوگرام): 1000 روپے
گندم کا آٹا (دو کلوگرام): 320 روپے
کھجور (چار کلوگرام) – درمیانی کوالٹی: 2400 روپے
کھجور (چار کلوگرام) – اعلیٰ کوالٹی: 10800 روپے
کشمکش (چار کلوگرام): 4800 روپے
پنیر (چار کلوگرام): 9250 روپے

ہر فرد اپنی مالی حیثیت اور طرزِ زندگی کے مطابق طے شدہ صدقۂِ فطر (و فدیہ فی روزہ) ادا کرے۔ تاکہ غرباء و مساکین کو زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو۔

نصابِ زکوٰۃ بمطابق 1444ھ، 2023ء:
1,20,000 روپے

عشر:

عشر زکوٰۃ کی طرح ایک ایسا مقررہ حصہ ہے جو زرعی پیداوار پر دینا واجب ہوتا ہے۔ عشر کا کوئی نصاب مقرر نہیں ہے اور نہ ہی سال گزرنا شرط ہے۔ پیداوار قلیل ہو یا کثیر، سب میں عشر واجب ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 267
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِنۡ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبۡتُمۡ وَمِمَّاۤ اَخۡرَجۡنَا لَـكُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الۡخَبِيۡثَ مِنۡهُ تُنۡفِقُوۡنَ وَلَسۡتُمۡ بِاٰخِذِيۡهِ اِلَّاۤ اَنۡ تُغۡمِضُوۡا فِيۡهِ‌ؕ وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ حَمِيۡدٌ ۞
اے ایمان والو! ان پاکیزہ کمائیوں میں سے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا ہے (اﷲ کی راہ میں) خرچ کیا کرو اور اس میں سے گندے مال کو (اﷲ کی راہ میں) خرچ کرنے کا ارادہ مت کرو کہ (اگر وہی تمہیں دیا جائے تو) تم خود اسے ہرگز نہ لو سوائے اس کے کہ تم اس میں چشم پوشی کر لو، اور جان لو کہ بیشک اﷲ بے نیاز لائقِ ہر حمد ہے،

عشر کی مقدار:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1483
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُيُونُ أَوْ كَانَ عَثَرِيًّا الْعُشْرُ وَمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ، ‏‏‏‏
وہ زمین جسے آسمان (بارش کا پانی) یا چشمہ سیراب کرتا ہو۔ یا وہ خودبخود نمی سے سیراب ہوجاتی ہو تو اس کی پیداوار سے دسواں حصہ لیا جائے اور وہ زمین جسے کنویں سے پانی کھینچ کر سیراب کیا جاتا ہو تو اس کی پیداوار سے بیسواں حصہ لیا جائے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقی معنوں میں دینِ اسلام کی تعلیمات کا فہم عطا فرمائے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین