مضامینِ سورۃ البقرہ کا مختصر خلاصہ اور فضائلِ سورۃ البقرہ

سورۃ البقرہ قرآنِ مجید کی سب سے بڑی سورت ہے اور اس کی کل آیات 286 ہیں۔ یہ مدنی سورتوں میں سے ہے اور ہجرتِ مدینہ کے بعد نازل ہونے والی پہلی سورت ہے (بیان القرآن، منہاج القرآن)۔ اس سورت میں علوم و معارف اور احکام کثرت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ اس سورت کی فضیلت کے بارے میں حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2877
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقَابِرَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ الْبَيْتَ الَّذِي تُقْرَأُ فِيهِ الْبَقَرَةُ لَا يَدْخُلُهُ الشَّيْطَانُ۔ ‏‏‏‏‏‏(قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ)
اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔ وہ گھر جس میں سورة البقرہ پڑھی جاتی ہے اس میں شیطان داخل نہیں ہوتا ۔

اس سورت کے کثیر الجہتی مضامین کا مختصر خلاصہ مندرجہ ذیل نکات میں ملاحظہ فرمائیں:

1) ہدایتِ ربانی کا قرآنی ضابطۂِ اخلاق (آیت 1-2)
2) مختلف انسانی طبقات (متقین، کفار، منافقین، فاسقین، خاشعین، محسنین وغیرہ) کی علامات و خصوصیات کا بیان
3) تخلیقِ آدم علیہ السلام اور منصبِ خلافت کا بیان (آیت 30 ۔۔۔)
4) بنی اسرائیل پر ہونے والی نعمتوں، ان کی نافرمانیوں اور اس کے نتیجے میں ان کے دائمی غضبِ الٰہی کے حقدار ٹھہرنے کا بیان (آیت 40 ۔۔۔)
5) حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ملتِ ابراہیم علیہ السلام کی آزمائشوں اور ان پر ہونے والی نوازشات کا تذکرہ (آیت 124 ۔۔۔)
6) تحویلِ قبلہ (قبلہ کی تبدیلی) کا واقعہ (آیات 142-152)
7) اہلِ ایمان کے لیے خصوصی ہدایات، رہنمائی اور احکام مثلاً:
8) نماز و صبر سے مدد طلب کرنا (آیت 153)
9) تفکر و تدبر کا بیان (آیت 164)
10) عشق و محبت کا بیان (آیت 165)
11) شیطانی امور، برائی، بے حیائ اور نفسانی خواہشات سے بچنا (آیات 168-169)
12) حرام چیزوں کی وضاحت اور ان سے بچنے کا حکم (آیت 173)
13) نیکی کے حقیقی تصور کی وضاحت (آیت 177)
14) قصاص و وصیت کے احکام (آیات 178 ۔۔۔)
15) روزہ اور اس کے احکام (آیات 183 ۔۔۔)
16) رشوت کی ممانعت (آیت 188)
17) جہاد فی سبیل اللہ کے احکام (آیت 190 ۔۔۔)
18) حج و عمرہ کے احکام (آیات 196-203)
19) اسلام میں پورے کا پورا داخل ہونا (آیت 208)
20) شراب و جوئے کی حرمت و ممانعت (آیت 219)
21) نکاح، خلع، طلاق و حیض کے احکام (آیات 221-242)
22) آیت الکرسی (آیات کی سردار)
23) حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت عزیر علیہ السلام کے واقعات کا تذکرہ (آیات 258-260)
24) انفاق فی سبیل اللہ، قرضِ حسنہ، کتابتِ لین دین، گواہی، اور سود کی حرمت کے احکام (آیات 261-282)
25) خواتیمِ سورۃ البقرہ (عقائد و دعائیں) کا بیان

چند واقعاتِ بنی اسرائیل کا تذکرہ:

1) فرعون کے مظالم اور ان سے نجات کا بیان (آیت 49 ۔۔۔)
2) حضرت موسیٰ علیہ السلام کا کوہِ طور پر جانا اور قوم کی بچھڑا پرستی (آیت 51 ۔۔۔)
3) من و سلویٰ جیسی نعمتوں کا اترنا (آیت 57)
4) پارہ چشموں کا پھوٹنا (آیت 60 ۔۔۔)
5) ہفتے کے دن کے احکام کی نافرمانی اور سزا (آیت 65 ۔۔۔)
6) گائے (بقرہ) کے ذبح کا واقعہ (ایک قول کے مطابق یہی اس سورت کی وجہِ تسمیہ ہے) (آیت 67 ۔۔۔)
7) تذکرہ سلیمان علیہ السلام اور ہاروت و ماروت (آیت 102)
8) واقعۂِ طالوت و جالوت (آیت 346 ۔۔۔)

متقین کی علامات و صفات (آیات 3,4):

1) ایمان بالغیب
2) اقامتِ صلوٰۃ
3) انفاق فی سبیل اللہ
4) ایمان بالوحی
5) آخرت پر یقین

منافقین کی علامات و صفات (آیات 20-8):

1) اقرار باللسان کے ساتھ تصدیق بالقلب کی عدم موجودگی
2) تعلقِ نبوت کی ضرورت و حاجت کا انکار
3) دھوکہ و مکر و فریب
4) جھوٹ بولنا
5) فساد انگیزی
6) کردار کا دوغلہ پن
7) صرف خود کو مصلح اور دوسروں کو بے وقوف سمجھنا
8) حق اور اہلِ حق کی مخالفت، استہزاء اور تحقیر (سازشیں کرنا)
9) تنگ نظری، تعصب اور عناد
10) مفاد پرستی (مصائب و تکالیف سے کترانا اور مفادات کے لیے ساتھ دینا)

چند اصولی احکامات:

1) علی الموسع قدرہ و علی المقتر قدرہ۔ صاحبِ وسعت پر اس کی حیثیت کے مطابق دینا واجب ہے جبکہ تنگدست پر اس کی حیثیت کے مطابق۔ (آیت 236)

2) فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ۔ تھوڑی جماعت بڑی جماعت پر غالب آ جاتی ہے اللہ کے اذن سے۔ (آیت 249)

3) لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا۔ اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ (آیت 286)

4) انسان کی عظمت و شرف کا راز علم میں ہے۔ (آیت 31)

ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول اس سورت میں ایک ہزار اوامر، ایک ہزار نواہی، ایک ہزار حکمتیں اور ایک ہزار اخبار و قصص بیان ہوئے ہیں (قرطبی، ابنِ کثیر)

فضائلِ سورۃ البقرہ:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2878
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لِكُلِّ شَيْءٍ سَنَامٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ سَنَامَ الْقُرْآنِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَفِيهَا آيَةٌ هِيَ سَيِّدَةُ آيِ الْقُرْآنِ هِيَ آيَةُ الْكُرْسِيِّ۔
ہر چیز کی ایک چوٹی ہوتی ہے۔ اور قرآن کی چوٹی سورة البقرہ ہے، اس سورة میں ایک آیت ہے یہ قرآن کی ساری آیتوں کی سردار ہے اور یہ آیت آیۃ الکرسی ہے ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2879
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ قَرَأَ حم الْمُؤْمِنَ إِلَى إِلَيْهِ الْمَصِيرُ ، ‏‏‏‏‏‏وَآيَةَ الْكُرْسِيِّ حِينَ يُصْبِحُ، ‏‏‏‏‏‏حُفِظَ بِهِمَا حَتَّى يُمْسِيَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ قَرَأَهُمَا حِينَ يُمْسِي حُفِظَ بِهِمَا حَتَّى يُصْبِحَ۔
جس نے سورة مومن کی (ابتدائی تین آیات) «حم» سے «إليه المصير» تک اور آیت الکرسی صبح ہی صبح (بیدار ہونے کے بعد ہی) پڑھی تو ان دونوں کے ذریعہ شام تک اس کی حفاظت کی جائے گی، اور جس نے ان دونوں کو شام ہوتے ہی پڑھا تو ان کے ذریعہ اس کی صبح ہونے تک حفاظت کی جائے گی ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2881
ابومسعود انصاری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ قَرَأَ الْآيَتَيْنِ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ فِي لَيْلَةٍ كَفَتَاهُ۔ ‏‏‏‏‏‏(قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ)
جس نے رات میں سورة البقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھیں وہ اس کے لیے کافی ہوگئیں۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2882
نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ كِتَابًا قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ بِأَلْفَيْ عَامٍ أَنْزَلَ مِنْهُ آيَتَيْنِ خَتَمَ بِهِمَا سُورَةَ الْبَقَرَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَقُولُ فِي دَارٍ ثَلَاثَ لَيَالٍ فَيَقْرَبُهَا شَيْطَانٌ۔ ‏‏‏‏‏‏(قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ)
اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے دو ہزار سال پہلے ایک کتاب لکھی، اس کتاب کی دو آیتیں نازل کیں اور انہیں دونوں آیتوں پر سورة البقرہ کو ختم کیا، جس گھر میں یہ دونوں آیتیں (مسلسل) تین راتیں پڑھی جائیں گی ممکن نہیں ہے کہ شیطان اس گھر کے قریب آسکے ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2876
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں:
بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَعْثًا وَهُمْ ذُو عَدَدٍ فَاسْتَقْرَأَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَاسْتَقْرَأَ كُلَّ رَجُلٍ مِنْهُمْ مَا مَعَهُ مِنَ الْقُرْآنِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَى عَلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ مِنْ أَحْدَثِهِمْ سِنًّا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا مَعَكَ يَا فُلَانُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ مَعِي كَذَا وَكَذَا وَسُورَةُ الْبَقَرَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَمَعَكَ سورة البقرة ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَاذْهَبْ فَأَنْتَ أَمِيرُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَشْرَافِهِمْ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مَا مَنَعَنِي أَنْ أَتَعَلَّمَ سورة البقرة إِلَّا خَشْيَةَ أَلَّا أَقُومَ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:‏‏‏‏ تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ وَاقْرَءُوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ مَثَلَ الْقُرْآنِ لِمَنْ تَعَلَّمَهُ فَقَرَأَهُ وَقَامَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏كَمَثَلِ جِرَابٍ مَحْشُوٍّ مِسْكًا يَفُوحُ رِيحُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمَثَلُ مَنْ تَعَلَّمَهُ فَيَرْقُدُ وَهُوَ فِي جَوْفِهِ، ‏‏‏‏‏‏كَمَثَلِ جِرَابٍ وُكِئَ عَلَى مِسْكٍ۔ ‏‏(قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ)
رسول اللہ ﷺ نے گنتی کے کچھ لشکری بھیجے (بھیجتے وقت) ان سے (قرآن) پڑھوایا، تو ان میں سے ہر ایک نے جسے جتنا قرآن یاد تھا پڑھ کر سنایا۔ جب ایک نوعمر نوجوان کا نمبر آیا تو آپ نے اس سے کہا: اے فلاں! تمہارے ساتھ کیا ہے یعنی تمہیں کون کون سی سورتیں یاد ہیں؟ اس نے کہا: مجھے فلاں فلاں اور سورة البقرہ یاد ہے۔ آپ نے کہا: کیا تمہیں سورة البقرہ یاد ہے؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: جاؤ تم ان سب کے امیر ہو ۔ ان کے شرفاء میں سے ایک نے کہا: اللہ کے رسول! قسم اللہ کی! میں نے سورة البقرہ صرف اسی ڈر سے یاد نہ کی کہ میں اسے (نماز تہجد میں) برابر پڑھ نہ سکوں گا۔ آپ نے فرمایا: قرآن سیکھو، اسے پڑھو اور پڑھاؤ۔ کیونکہ قرآن کی مثال اس شخص کے لیے جس نے اسے سیکھا اور پڑھا، اور اس پر عمل کیا اس تھیلی کی ہے جس میں مشک بھری ہوئی ہو اور چاروں طرف اس کی خوشبو پھیل رہی ہو، اور اس شخص کی مثال جس نے اسے سیکھا اور سو گیا اس کا علم اس کے سینے میں بند رہا۔ اس تھیلی کی سی ہے جو مشک بھر کر سیل بند کردی گئی ہو ۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1874
حضرت ابوامامہ باہلی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آپ ﷺ فرماتے ہیں:
اقْرَئُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لِأَصْحَابِهِ اقْرَئُوا الزَّهْرَاوَيْنِ الْبَقَرَةَ وَسُورَةَ آلِ عِمْرَانَ فَإِنَّهُمَا تَأْتِيَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ کَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ کَأَنَّهُمَا غَيَايَتَانِ أَوْ کَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ تُحَاجَّانِ عَنْ أَصْحَابِهِمَا اقْرَئُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَکَةٌ وَتَرْکَهَا حَسْرَةٌ وَلَا تَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ قَالَ مُعَاوِيَةُ بَلَغَنِي أَنَّ الْبَطَلَةَ السَّحَرَةُ۔
قرآن مجید پڑھا کرو کیونکہ یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لئے سفارشی بن کر آئے گا اور دو روشن سورتوں کو پڑھا کرو سورت البقرہ اور سورت آل عمران کیونکہ یہ قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جیسے کہ دو بادل ہوں یا دو سائبان ہوں یا دو اڑتے ہوئے پرندوں کی قطاریں ہوں اور وہ اپنے پڑھنے والوں کے بارے میں جھگڑا کریں گی، سورت البقرہ پڑھا کرو کیونکہ اس کا پڑھنا باعث برکت ہے اور اس کا چھوڑنا باعث حسرت ہے اور جادوگر اس کو حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآنِ مجید کو سیکھنے، سمجھنے، عمل کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے اور اعمال کو ہمارے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین

انفاق فی سبیل اللہ قرآنی آیات کی روشنی میں

انفاق فی سبیل اللہ کا حکم:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 254
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقۡنٰكُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ يَّاۡتِىَ يَوۡمٌ لَّا بَيۡعٌ فِيۡهِ وَلَا خُلَّةٌ وَّلَا شَفَاعَةٌ ؕ وَالۡكٰفِرُوۡنَ هُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ۞
اے ایمان والو! جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے (اﷲ کی راہ میں) خرچ کرو قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس میں نہ کوئی خرید و فروخت ہوگی اور (کافروں کے لئے) نہ کوئی دوستی (کار آمد) ہوگی اور نہ (کوئی) سفارش، اور یہ کفار ہی ظالم ہیں۔

انفاق فی سبیل اللہ کی حکمت:

القرآن – سورۃ نمبر 59 الحشر، آیت نمبر 7
كَىۡ لَا يَكُوۡنَ دُوۡلَةًۢ بَيۡنَ الۡاَغۡنِيَآءِ مِنۡكُمۡ‌ ؕ
(یہ نظامِ تقسیم اس لئے ہے) تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مال داروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے)۔

انفاق فی سبیل اللہ محبتِ الہٰیہ کے حصول کا ذریعہ ہے:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 195
وَاَنۡفِقُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَلَا تُلۡقُوۡا بِاَيۡدِيۡكُمۡ اِلَى التَّهۡلُكَةِ ۖ ۛۚ وَاَحۡسِنُوۡا ۛۚ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُحۡسِنِيۡنَ ۞
اور اﷲ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور نیکی اختیار کرو، بیشک اﷲ نیکوکاروں سے محبت فرماتا ہے۔

اہلِ محبت ہمیشہ سخی ہوتے ہیں!!!

سخاوت کرنا یعنی اللہ رب العزت کی عطاء کردہ نعمتوں کو اس کی مخلوق میں سے ضرورت مندوں پر خرچ کرنا اہلِ محبت کی نشانی ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 177
وَاٰتَى الۡمَالَ عَلٰى حُبِّهٖ ذَوِى الۡقُرۡبٰى وَالۡيَتٰمٰى وَالۡمَسٰكِيۡنَ وَابۡنَ السَّبِيۡلِۙ وَالسَّآئِلِيۡنَ وَفِى الرِّقَابِ‌ۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّکٰوةَ ‌ ۚ وَالۡمُوۡفُوۡنَ بِعَهۡدِهِمۡ اِذَا عٰهَدُوۡا ۚ
اور اﷲ کی محبت میں (اپنا) مال قرابت داروں پر اور یتیموں پر اور محتاجوں پر اور مسافروں پر اور مانگنے والوں پر اور (غلاموں کی) گردنوں (کو آزاد کرانے) میں خرچ کرے، اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جب کوئی وعدہ کریں تو اپنا وعدہ پورا کرنے والے ہوں۔

انفاق فی سبیل اللہ اگر خالصتاً حصولِ رضائے الٰہی کے لیے کیا جائے تو اس کا اجر انوار و تجلیات الٰہیہ کی صورت میں بندے کے قلب و باطن پر اترتا ہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل آیتِ مبارکہ میں ارشاد فرمایا:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 265
وَمَثَلُ الَّذِيۡنَ يُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَهُمُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰهِ وَ تَثۡبِيۡتًا مِّنۡ اَنۡفُسِهِمۡ كَمَثَلِ جَنَّةٍۢ بِرَبۡوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ فَاٰتَتۡ اُكُلَهَا ضِعۡفَيۡنِ‌ۚ فَاِنۡ لَّمۡ يُصِبۡهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ‌ؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرٌ ۞
اور جو لوگ اپنے مال اﷲ کی رضا حاصل کرنے اور اپنے آپ کو (ایمان و اطاعت پر) مضبوط کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک ایسے باغ کی سی ہے جو اونچی سطح پر ہو اس پر زوردار بارش ہو تو وہ دوگنا پھل لائے، اور اگر اسے زوردار بارش نہ ملے تو (اسے) شبنم (یا ہلکی سی پھوار) بھی کافی ہو، اور اﷲ تمہارے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے۔

انفاق فی سبیل اللہ باعثِ قرب و رضائے خدا و مصطفیٰ ﷺ ہے:

القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 99
وَمِنَ الۡاَعۡرَابِ مَنۡ يُّؤۡمِنُ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنۡفِقُ قُرُبٰتٍ عِنۡدَ اللّٰهِ وَصَلَوٰتِ الرَّسُوۡلِ‌ؕ اَلَاۤ اِنَّهَا قُرۡبَةٌ لَّهُمۡ‌ؕ سَيُدۡخِلُهُمُ اللّٰهُ فِىۡ رَحۡمَتِهٖ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ ۞
اور بادیہ نشینوں میں (ہی) وہ شخص (بھی) ہے جو اﷲ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور جو کچھ (راہِ خدا میں) خرچ کرتاہے اسے اﷲ کے حضور تقرب اور رسول ﷺ کی (رحمت بھری) دعائیں لینے کا ذریعہ سمجھتا ہے، سن لو! بیشک وہ ان کے لئے باعثِ قربِ الٰہی ہے، جلد ہی اﷲ انہیں اپنی رحمت میں داخل فرما دے گا۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔

نیکی اور تقویٰ کا حصول انفاق فی سبیل اللہ کے بغیر ناممکن ہے:

القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 92
لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰى تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ؕ وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَىۡءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيۡمٌ ۞
تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے جب تک تم (اللہ کی راہ میں) اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو، اور تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو بیشک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔

انفاق فی سبیل اللہ تقویٰ، تزکیۂِ نفس اور رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے:

القرآن – سورۃ نمبر 92 الليل، آیت نمبر 17-21
وَسَيُجَنَّبُهَا الۡاَتۡقَىۙ ۞ الَّذِىۡ يُؤۡتِىۡ مَالَهٗ يَتَزَكّٰى‌ۚ ۞ وَمَا لِاَحَدٍ عِنۡدَهٗ مِنۡ نِّعۡمَةٍ تُجۡزٰٓىۙ ۞ اِلَّا ابۡتِغَآءَ وَجۡهِ رَبِّهِ الۡاَعۡلٰى‌ۚ ۞ وَلَسَوۡفَ يَرۡضٰى ۞
اور اس (آگ) سے اس بڑے پرہیزگار شخص کو بچا لیا جائے گا، جو اپنا مال (اﷲ کی راہ میں) دیتا ہے کہ (اپنے جان و مال کی) پاکیزگی حاصل کرے، اور کسی کا اس پر کوئی احسان نہیں کہ جس کا بدلہ دیا جا رہا ہو، مگر (وہ) صرف اپنے ربِ عظیم کی رضا جوئی کے لئے (مال خرچ کر رہا ہے)، اور عنقریب وہ (اﷲ کی عطا سے اور اﷲ اس کی وفا سے) راضی ہو جائے گا۔

انفاق فی سبیل، تزکیۂِ نفس اور دعاؤں کی قبولیت کا ذریعہ ہے:

القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 103
خُذۡ مِنۡ اَمۡوَالِهِمۡ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمۡ وَتُزَكِّيۡهِمۡ بِهَا وَصَلِّ عَلَيۡهِمۡ‌ؕ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمۡ‌ؕ وَاللّٰهُ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ‏ ۞
آپ ان کے اموال میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کیجئے کہ آپ اس (صدقہ) کے باعث انہیں (گناہوں سے) پاک فرما دیں اور ان کے (نفوس) کا تزکیہ کر دیں اور ان کے حق میں دعا فرمائیں، بیشک آپ کی دعا ان کے لئے (باعثِ) تسکین ہے، اور اﷲ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔

اس آیتِ مبارکہ کے اندر زکوٰۃ، صدقات اور خیرات یعنی اللہ رب العزت کے رستے میں اپنے اموال کے خرچ کرنے (انفاق فی سبیل اللہ) کو تزکیہ نفوس اور دعاؤں کی قبولیت کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ اللہ کے رستے میں اپنی حلال کمائی میں سے خرچ کرنا خود انسان کے اپنے نفس کی پاکیزگی اور طہارت کا باعث بنتا ہے۔ انفاق فی سبیل اللہ سے انسان کے اندر سے بخل و کنجوسی کی خرابی کا خاتمہ ہوتا ہے اور اس کے نفس میں سخاوت کی خوبی پیدا ہوتی ہے جو انسان کے لیے دنیا و آخرت کی کامیابی کا باعث ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 59 الحشر، آیت نمبر 9
وَمَنۡ يُّوۡقَ شُحَّ نَـفۡسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‌ۚ ۞
اور جو شخص اپنے نفس کے بُخل سے بچا لیا گیا پس وہی لوگ ہی بامراد و کامیاب ہیں۔

اسی طرح جب انسان اپنے مال و دولت میں سے دوسرے انسانوں پر خرچ کرتا ہے تو یہ عمل اس کی دعاؤں کی قبولیت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

زمین کی پیداوار پر زکوٰۃ یعنی عشر کا حکم:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 267
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِنۡ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبۡتُمۡ وَمِمَّاۤ اَخۡرَجۡنَا لَـكُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ۔
اے ایمان والو! ان پاکیزہ کمائیوں میں سے اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا ہے (اﷲ کی راہ میں) خرچ کیا کرو۔

یتیموں اور محتاجوں پر اپنا مال خرچ نہ کرنا دین کو جھٹلانے کے مترادف ہے:

القرآن – سورۃ نمبر 107 الماعون، آیت نمبر 1-3
اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يُكَذِّبُ بِالدِّيْنِ ۞ فَذٰلِكَ الَّذِيْ يَدُعُّ الْيَتِيْمَ ۞ وَلَا يَحُضُّ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ ۞
کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے۔ تو یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔ اور محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔

انسان کے مال میں حاجت مندوں کا بھی حق ہے:

القرآن – سورۃ نمبر 51 الذاريات، آیت نمبر 19
وَفِىۡۤ اَمۡوَالِهِمۡ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالۡمَحۡرُوۡمِ ۞
اور اُن کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجت مندوں) کا حق مقرر تھا۔

اللہ کے رستے میں خرچ کرنے کی کوئی حد نہیں:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 219
وَيَسۡــئَلُوۡنَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلِ الۡعَفۡوَ‌ؕ
اور آپ سے یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں؟ فرما دیں: جو ضرورت سے زائد ہے (خرچ کر دو)

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 215
يَسۡــئَلُوۡنَكَ مَاذَا يُنۡفِقُوۡنَ ؕ قُلۡ مَآ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ خَيۡرٍ۔
آپ سے پوچھتے ہیں کہ (اﷲ کی راہ میں) کیا خرچ کریں، فرما دیں: جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے)۔

سخاوت (خرچ کرنا) نیکی و تقویٰ کی علامت ہے جبکہ بخل (کنجوسی) بدی و دین کو جھٹلانے کی علامت ہے۔ سخاوت کرنے والے کو آسانیاں عطا ہوتی ہیں جبکہ بخیل کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 92 الليل، آیت نمبر 5-10
فَاَمَّا مَنۡ اَعۡطٰى وَاتَّقٰىۙ‏ ۞ وَصَدَّقَ بِالۡحُسۡنٰىۙ‏ ۞ فَسَنُيَسِّرُهٗ لِلۡيُسۡرٰىؕ ۞ وَاَمَّا مَنۡۢ بَخِلَ وَاسۡتَغۡنٰىۙ ۞ وَكَذَّبَ بِالۡحُسۡنٰىۙ ۞ فَسَنُيَسِّرُهٗ لِلۡعُسۡرٰىؕ ۞
پس جس نے (اپنا مال اﷲ کی راہ میں) دیا اور پرہیزگاری اختیار کی، اور اس نے (اِنفاق و تقوٰی کے ذریعے) اچھائی (یعنی دینِ حق اور آخرت) کی تصدیق کی،تو ہم عنقریب اسے آسانی (یعنی رضائے الٰہی) کے لئے سہولت فراہم کر دیں گے۔ اور جس نے بخل کیا اور (راہِ حق میں مال خرچ کرنے سے) بے پروا رہا، اور اس نے (یوں) اچھائی (یعنی دینِ حق اور آخرت) کو جھٹلایا۔ تو ہم عنقریب اسے سختی (یعنی عذاب کی طرف بڑھنے) کے لئے سہولت فراہم کر دیں گے (تاکہ وہ تیزی سے مستحقِ عذاب ٹھہرے)۔

مال و دولت کو جمع کرنا باعثِ ہلاکت ہے:

القرآن – سورۃ نمبر 104 الهمزة
آیت نمبر 1۔3
وَيۡلٌ لِّـكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ ۞ اۨلَّذِىۡ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَهٗ ۞ يَحۡسَبُ اَنَّ مَالَهٗۤ اَخۡلَدَهٗ‌ ۞
ہر اس شخص کے لئے ہلاکت ہے جو (روبرو) طعنہ زنی کرنے والا ہے (اور پسِ پشت) عیب جوئی کرنے والا ہے،(خرابی و تباہی ہے اس شخص کے لئے) جس نے مال جمع کیا اور اسے گن گن کر رکھتا ہے۔ وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس کی دولت اسے ہمیشہ زندہ رکھے گی۔

خرچ کرنے کا ضابطۂِ اخلاق:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 273
لِلۡفُقَرَآءِ الَّذِيۡنَ اُحۡصِرُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ لَا يَسۡتَطِيۡعُوۡنَ ضَرۡبًا فِى الۡاَرۡضِ يَحۡسَبُهُمُ الۡجَاهِلُ اَغۡنِيَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ‌ۚ تَعۡرِفُهُمۡ بِسِيۡمٰهُمۡ‌ۚ لَا يَسۡــئَلُوۡنَ النَّاسَ اِلۡحَــافًا ‌ؕ وَمَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ خَيۡرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيۡمٌ ۞
(خیرات) ان فقراءکا حق ہے جو اﷲ کی راہ میں (کسبِ معاش سے) روک دیئے گئے ہیں وہ (امورِ دین میں ہمہ وقت مشغول رہنے کے باعث) زمین میں چل پھر بھی نہیں سکتے ان کے (زُھداً) طمع سے باز رہنے کے باعث نادان (جو ان کے حال سے بے خبر ہے) انہیں مالدار سمجھے ہوئے ہے، تم انہیں ان کی صورت سے پہچان لو گے، وہ لوگوں سے بالکل سوال ہی نہیں کرتے کہ کہیں (مخلوق کے سامنے) گڑگڑانا نہ پڑے، اور تم جو مال بھی خرچ کرو تو بیشک اﷲ اسے خوب جانتا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 215
يَسۡــئَلُوۡنَكَ مَاذَا يُنۡفِقُوۡنَ ؕ قُلۡ مَآ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ خَيۡرٍ فَلِلۡوَالِدَيۡنِ وَالۡاَقۡرَبِيۡنَ وَالۡيَتٰمٰى وَالۡمَسٰكِيۡنِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِ‌ؕ وَمَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَيۡرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيۡمٌ ۞
آپ سے پوچھتے ہیں کہ (اﷲ کی راہ میں) کیا خرچ کریں، فرما دیں: جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے)، مگر اس کے حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتہ دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں، اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو بیشک اﷲ اسے خوب جاننے والا ہے۔

پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کرنا:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 274
اَلَّذِيۡنَ يُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَهُمۡ بِالَّيۡلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً فَلَهُمۡ اَجۡرُهُمۡ عِنۡدَ رَبِّهِمۡ‌ۚ وَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ ۞
جو لوگ (اﷲ کی راہ میں) شب و روز اپنے مال پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں تو ان کے لئے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور (روزِ قیامت) ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 271
اِنۡ تُبۡدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا هِىَ‌ۚ وَاِنۡ تُخۡفُوۡهَا وَ تُؤۡتُوۡهَا الۡفُقَرَآءَ فَهُوَ خَيۡرٌ لَّكُمۡ‌ؕ وَيُكَفِّرُ عَنۡكُمۡ مِّنۡ سَيِّاٰتِكُمۡ‌ؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ ۞
اگر تم خیرات ظاہر کر کے دو تو یہ بھی اچھا ہے (اس سے دوسروں کو ترغیب ہوگی)، اور اگر تم انہیں مخفی رکھو اور وہ محتاجوں کو پہنچا دو تو یہ تمہارے لئے (اور) بہتر ہے، اور اﷲ (اس خیرات کی وجہ سے) تمہارے کچھ گناہوں کو تم سے دور فرما دے گا، اور اﷲ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔

قرضِ حسنہ:

کسی تنگ دست و ضرورت مند کو قرضِ حسنہ دینا بھی انفاق فی سبیل اللہ کی ایک شکل ہے اور باعثِ اجر و ثواب ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 245
مَنۡ ذَا الَّذِىۡ يُقۡرِضُ اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضۡعَافًا کَثِيۡرَةً ‌ؕ وَاللّٰهُ يَقۡبِضُ وَيَبۡصُۜطُ ۖ وَ اِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ ۞
کون ہے جو اﷲ کو قرضِ حسنہ دے پھر وہ اس کے لئے اسے کئی گنا بڑھا دے گا، اور اﷲ ہی (تمہارے رزق میں) تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے،

القرآن – سورۃ نمبر 57 الحديد، آیت نمبر 18
اِنَّ الۡمُصَّدِّقِيۡنَ وَالۡمُصَّدِّقٰتِ وَاَقۡرَضُوا اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا يُّضٰعَفُ لَهُمۡ وَلَهُمۡ اَجۡرٌ كَرِيۡمٌ ۞
بیشک صدقہ و خیرات دینے والے مرد اور صدقہ و خیرات دینے والی عورتیں اور جنہوں نے اللہ کو قرضِ حسنہ کے طور پر قرض دیا ان کے لئے (صدقہ و قرضہ کا اجر) کئی گنا بڑھا دیا جائے گا اور اُن کے لئے بڑی عزت والا ثواب ہوگا،

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 280
وَاِنۡ كَانَ ذُوۡ عُسۡرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيۡسَرَةٍ ‌ؕ وَاَنۡ تَصَدَّقُوۡا خَيۡرٌ لَّـكُمۡ‌ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۞
اور اگر قرض دار تنگدست ہو تو خوشحالی تک مہلت دی جانی چاہئے، اور تمہارا (قرض کو) معاف کر دینا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تمہیں معلوم ہو (کہ غریب کی دل جوئی اﷲ کی نگاہ میں کیا مقام رکھتی ہے)۔

متفرق احکام:

القرآن – سورۃ نمبر 58 المجادلة، آیت نمبر 12
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نَاجَيۡتُمُ الرَّسُوۡلَ فَقَدِّمُوۡا بَيۡنَ يَدَىۡ نَجۡوٰٮكُمۡ صَدَقَةً ‌ؕ ذٰ لِكَ خَيۡرٌ لَّكُمۡ وَاَطۡهَرُ ‌ؕ فَاِنۡ لَّمۡ تَجِدُوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ ۞
اے ایمان والو! جب تم رسول ﷺ سے کوئی راز کی بات تنہائی میں عرض کرنا چاہو تو اپنی رازدارانہ بات کہنے سے پہلے کچھ صدقہ و خیرات کر لیا کرو، یہ (عمل) تمہارے لئے بہتر اور پاکیزہ تر ہے، پھر اگر (خیرات کے لئے) کچھ نہ پاؤ تو بیشک اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔

اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

تلاوتِ قرآن کی فضیلت و احکام

قرآنِ مجید کلامِ الٰہی ہے جو اپنے اندر دنیوی و اخروی فلاح و کامیابی کی ہدایت و رہنمائی کے اسرار سموئے ہوئے ہے۔ انسان اگر اپنی تخلیق کے مقصد کو پہچان کر حقیقی کامیابی و کامرانی چاہتا ہے تو اسے بلاشبہ کلامِ الٰہی کی صورت میں موجود اس کتاب کے ساتھ اپنا عقلی، فکری، شعوری، قلبی اور روحانی تعلق قائم کرنا پڑے گا۔ ذیل میں تلاوتِ کلامِ الٰہی کے حوالے سے چند نکات احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں بیان کیے گئے ہیں۔

سب سے افضل عبادت:

شعب الایمان، حدیث نمبر 2022
حضرت نعمان بن بشیر ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أَفْضَلُ عِبَادَۃِ اُمَّتِی قرَاءۃُ الْقُرآن۔
میری امت کی سب سے افضل عبادت تلاوتِ قرآن ہے۔

نیکیاں ہی نیکیاں:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2910
عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، ‏‏‏‏‏‏لَا أَقُولُ الم حَرْفٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِيمٌ حَرْفٌ۔
جس نے کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھا اسے اس کے بدلے ایک نیکی ملے گی، اور ایک نیکی دس گنا بڑھا دی جائے گی، میں نہیں کہتا «الم» ایک حرف ہے، بلکہ «الف» ایک حرف ہے، «لام» ایک حرف ہے اور «میم» ایک حرف ہے ۔

عالمِ قرآن پر حسد کی ترغیب:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1894
حضرت سالم ؓ اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَقُومُ بِهِ آنَائَ اللَّيْلِ وَآنَائَ النَّهَارِ وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَهُوَ يُنْفِقُهُ آنَائَ اللَّيْلِ وَآنَائَ النَّهَارِ۔
دو آدمیوں کے سوا کسی پر حسد کرنا جائز نہیں ایک وہ آدمی کہ جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید عطا فرمایا ہو اور وہ رات دن اس پر عمل کرنے کے ساتھ اس کی تلاوت کرتا ہو اور وہ آدمی کہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا فرمایا ہو اور وہ رات اور دن اسے اللہ کے راستہ میں خرچ کرتا ہو۔

رمضان المبارک اور تلاوتِ قرآن:

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 6
حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے مروی ہے:
كَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ۔
جبرائیل (علیہ السلام) رمضان کی ہر رات میں آپ ﷺ سے ملاقات کرتے اور آپ ﷺ کے ساتھ قرآن کا دورہ کرتے۔

قرآن کا شفاعت کرنا:

مسند احمد، حدیث نمبر: 6337
حضرت عبداللہ ابن عمرو ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
الصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَقُولُ الصِّيَامُ أَيْ رَبِّ مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ وَيَقُولُ الْقُرْآنُ مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ قَالَ فَيُشَفَّعَانِ۔
روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے، روزہ کہے گا کہ پروردگار میں نے دن کے وقت اسے کھانے اور خواہشات کی تکمیل سے روکے رکھا اس لئے اس کے متعلق میری سفارش قبول فرما اور قرآن کہے گا کہ میں نے رات کو اسے سونے سے روکے رکھا اس لئے اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما چناچہ ان دونوں کی سفارش قبول کرلی جائے گی۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1874
حضرت ابوامامہ باہلی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
اقْرَئُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لِأَصْحَابِهِ اقْرَئُوا الزَّهْرَاوَيْنِ الْبَقَرَةَ وَسُورَةَ آلِ عِمْرَانَ فَإِنَّهُمَا تَأْتِيَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ کَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ کَأَنَّهُمَا غَيَايَتَانِ أَوْ کَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ تُحَاجَّانِ عَنْ أَصْحَابِهِمَا اقْرَئُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَکَةٌ وَتَرْکَهَا حَسْرَةٌ وَلَا تَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ۔
قرآن مجید پڑھا کرو کیونکہ یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لئے سفارشی بن کر آئے گا اور دو روشن سورتوں کو پڑھا کرو سورت البقرہ اور سورت آل عمران کیونکہ یہ قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جیسے کہ دو بادل ہوں یا دو سائبان ہوں یا دو اڑتے ہوئے پرندوں کی قطاریں ہوں اور وہ اپنے پڑھنے والوں کے بارے میں جھگڑا کریں گی، سورت البقرہ پڑھا کرو کیونکہ اس کا پڑھنا باعث برکت ہے اور اس کا چھوڑنا باعث حسرت ہے اور جادوگر اس کو حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔

اہلِ قرآن ہی اللہ والے ہیں:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 215
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ لِلَّهِ أَهْلِينَ مِنَ النَّاسِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ هُمْ؟ قَالَ:‏‏‏‏ هُمْ أَهْلُ الْقُرْآنِ أَهْلُ اللَّهِ وَخَاصَّتُهُ۔
لوگوں میں سے کچھ اللہ والے ہیں ، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ کون لوگ ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ قرآن پڑھنے پڑھانے والے ہیں، جو اللہ والے اور اس کے نزدیک خاص لوگ ہیں۔

تلاوتِ قرآن مکمل دلجمعی، رغبت اور شوق کے ساتھ کرنی چاہیے:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6778
حضرت جندب بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اقْرَئُوا الْقُرْآنَ مَا ائْتَلَفَتْ عَلَيْهِ قُلُوبُکُمْ فَإِذَا اخْتَلَفْتُمْ فَقُومُوا۔
جب تک تمہارے دلوں کو قرآن پر اتفاق ہو اس کی تلاوت کرتے رہو اور جب اختلاف ہوجائے تو اٹھ کھڑے ہو۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1843
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
بِئْسَمَا لِلرَّجُلِ أَنْ يَقُولَ نَسِيتُ سُورَةَ کَيْتَ وَکَيْتَ أَوْ نَسِيتُ آيَةَ کَيْتَ وَکَيْتَ بَلْ هُوَ نُسِّيَ.
کسی آدمی کے لئے یہ کہنا برا ہے کہ میں فلاں فلاں سورت بھول گیا یا فلاں فلاں آیت بھول گیا بلکہ وہ یہ کہے کہ مجھے بھلا دیا گیا۔

تلاوتِ قرآن اور سکینہ و برکات کا نزول:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1857
حضرت براء فرماتے ہیں:
قَرَأَ رَجُلٌ الْکَهْفَ وَفِي الدَّارِ دَابَّةٌ فَجَعَلَتْ تَنْفِرُ فَنَظَرَ فَإِذَا ضَبَابَةٌ أَوْ سَحَابَةٌ قَدْ غَشِيَتْهُ قَالَ فَذَکَرَ ذَلِکَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ اقْرَأْ فُلَانُ فَإِنَّهَا السَّکِينَةُ تَنَزَّلَتْ عِنْدَ الْقُرْآنِ أَوْ تَنَزَّلَتْ لِلْقُرْآنِ۔
ایک آدمی سورت الکہف پڑھ رہا تھا اور اس کے گھر میں ایک جانور تھا اچانک وہ جانور بدکنے لگا اس نے دیکھا کہ ایک بادل نے اس ڈھانپا ہوا ہے اس آدمی نے نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا آپ ﷺ نے فرمایا کہ قرآن پڑھو کیونکہ یہ سکینہ ہے جو قرآن کی تلاوت کے وقت نازل ہوتی ہے۔

دوہرا اجر:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1862
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الْمَاهِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَةِ الْکِرَامِ الْبَرَرَةِ وَالَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيَتَتَعْتَعُ فِيهِ وَهُوَ عَلَيْهِ شَاقٌّ لَهُ أَجْرَانِ۔
جو آدمی قرآن مجید میں ماہر ہو وہ ان فرشتوں کے ساتھ ہے جو معزز اور بزرگی والے ہیں اور جو قرآن مجید اٹک اٹک کر پڑھتا ہے اور اسے پڑھنے میں دشواری پیش آتی ہے تو اس کے لئے دوہرا اجر ہے۔

قرآن دوسروں کو سنانا:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1864
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابی بن کعب ؓ سے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْکَ قَالَ آللَّهُ سَمَّانِي لَکَ قَالَ اللَّهُ سَمَّاکَ لِي قَالَ فَجَعَلَ أُبَيٌّ يَبْکِي
اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قرآن مجید پڑھ کر سناؤں انہوں نے عرض کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لے کر فرمایا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تیرا نام لے کر مجھے فرمایا ہے راوی نے کہا کہ حضرت ابی ؓ یہ سن کر رونے لگ پڑے۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1867
حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا:
اقْرَأْ عَلَيَّ الْقُرْآنَ قَالَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَقْرَأُ عَلَيْکَ وَعَلَيْکَ أُنْزِلَ قَالَ إِنِّي أَشْتَهِي أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِي فَقَرَأْتُ النِّسَائَ حَتَّی إِذَا بَلَغْتُ فَکَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی هَؤُلَائِ شَهِيدًا رَفَعْتُ رَأْسِي أَوْ غَمَزَنِي رَجُلٌ إِلَی جَنْبِي فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَرَأَيْتُ دُمُوعَهُ تَسِيلُ۔
مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ! میں آپ ﷺ کو قرآن پڑھ کر سناؤں، حالانکہ قرآن تو آپ ﷺ پر نازل کیا گیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ میں اپنے علاوہ کسی اور سے قرآن مجید سنوں، میں نے سورت النسا پڑھنی شروع کردی یہاں تک کہ جب میں اس (فَکَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی هَؤُلَاءِ شَهِيدًا) پر پہنچا تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ کے آنسو جاری ہیں۔

تین حاملہ اونٹنیاں:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1872
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَيُحِبُّ أَحَدُکُمْ إِذَا رَجَعَ إِلَی أَهْلِهِ أَنْ يَجِدَ فِيهِ ثَلَاثَ خَلِفَاتٍ عِظَامٍ سِمَانٍ قُلْنَا نَعَمْ قَالَ فَثَلَاثُ آيَاتٍ يَقْرَأُ بِهِنَّ أَحَدُکُمْ فِي صَلَاتِهِ خَيْرٌ لَهُ مِنْ ثَلَاثِ خَلِفَاتٍ عِظَامٍ سِمَانٍ۔
کیا تم میں سے کوئی اس کو پسند کرتا ہے کہ جب وہ اپنے گھر والوں کی طرف واپس جائے تو وہاں تین حاملہ اونٹنیاں موجود ہوں اور وہ بہت بڑی اور موٹی ہوں ہم نے عرض کیا کہ جی ہاں آپ ﷺ نے فرمایا تم میں سے جو کوئی اپنی نماز میں تین آیات پڑھتا ہے وہ تین بڑی بڑی موٹی اونٹنیوں سے اس کے لئے بہتر ہے۔

ایک تہائی قرآن:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1886
حضرت ابوالدرداء ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
أَيَعْجِزُ أَحَدُکُمْ أَنْ يَقْرَأَ فِي لَيْلَةٍ ثُلُثَ الْقُرْآنِ قَالُوا وَکَيْفَ يَقْرَأْ ثُلُثَ الْقُرْآنِ قَالَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ تَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ۔
کیا تم میں سے کوئی آدمی رات میں تہائی قرآن مجید پڑھ سکتا ہے؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ وہ کیسے پڑھا جاسکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ سورت ( قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ) تہائی قرآن مجید کے برابر ہے۔

تلاوتِ قرآن کی مقدار:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2732
حضور نبی مکرم ﷺ کے ایک صحابی حضرت عبداللہ بن عمر بن العاص ؓ کا معمول تھا کہ وہ روزانہ ایک قرآن ختم کرتے تھے۔ حضور نبی مکرم ﷺ نے انہیں فرمایا:
اقْرَأْ الْقُرْآنَ فِي کُلِّ شَهْرٍ قَالَ قُلْتُ إِنِّي أَجِدُ قُوَّةً قَالَ فَاقْرَأْهُ فِي عِشْرِينَ لَيْلَةً قَالَ قُلْتُ إِنِّي أَجِدُ قُوَّةً قَالَ فَاقْرَأْهُ فِي سَبْعٍ وَلَا تَزِدْ عَلَی ذَلِکَ۔
ہر مہینہ میں ایک قرآن مجید پڑھو میں نے عرض کیا کہ میں تو اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر تو بیس راتوں میں قرآن مجید پڑھ میں نے عرض کیا کہ میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا پھر تو سات دنوں میں قرآن مجید پڑھ اور اس سے زیادہ نہ کر۔

اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

معجزاتِ انبیائے کرام اور معجزۂِ معراجِ مصطفیٰﷺ کا تذکرہ – جمعۃ المبارک، 10 شعبان 1444ھ، بمطابق 03 مارچ 2023ء

یہ مضمون مندرجہ ذیل نکات پر مشتمل ہے:
1) معجزہ کسے کہتے ہیں؟
2) قرآنِ مجید میں مذکور معجزات کا تذکرہ۔
3) مجزات کا باعثِ تعجب ہونا۔
4) معجزات دراصل طاقت و قدرتِ خداوندی کا اظہار ہوتے ہیں۔
5) ہر نبی یا رسول کو عطاء ہونے والا معجزہ اُس زمانے کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے۔

معجزہ اس عمل یا واقعہ کو کہتے ہیں جس میں تین خصوصیات پائی جاتی ہوں:
1) وہ واقعہ خارق العادت ہو یعنی خلافِ معمول ہو۔
2) اس کو سمجھنے سے عقلِ انسانی عاجز آجائے۔
3) اس کی نظیر یا مثل پیش کرنے سے انسان عاجز آجائے۔

معجزہ چونکہ خاص اللہ رب العزت کی طاقت اور قدرت کا اظہار ہوتا ہے لہذا اس کا انکار کرنا اللہ رب العزت کی طاقت اور قدرت کا انکار کرنے کے مترادف ہے۔ ذیل میں ہم قرآنِ مجید میں مذکور چند معجزات کا ذکر کرتے ہیں۔

قرآنِ مجید میں مختلف معجزات کا ذکر:

قرآنِ مجید میں معجزہ کے معنیٰ و مفہوم کو بیان کرنے کے لیے مختلف الفاظ استعمال ہوئے ہیں جیسے کہ “اٰیَۃٌ” (نشانی)، مُبْصِرَۃٌ (ایسی واضح نشانی کہ جس کو دیکھنے سے دیکھنے والے کی آنکھیں کھل جائیں اور اس پر حقیقت آشکار ہو جائے)، بَیِّنَۃٌ (ایسی کھلی دلیل جو فریقِ مخالف کو انکار کی صورت میں حجت و ثبوت کے طور پر پیش کی جائے)، بُرْھَانٌ (ایسی دلیل جو فریقِ مخالف کے تمام دلائل سے زیادہ وزنی اور ان پر حاوی ہو اور تنازعہ کا فیصلہ کر دینے والی ہو)۔
(فلسفۂِ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا چار پرندوں کو ذبح کر کے ان کا ایک ایک ٹکڑا الگ الگ پہاڑ پر رکھنا اور پھر انہیں اپنی طرف بلانے پر پرندوں کا زندہ ہو کر آپ کی طرف آجانا بھی ایک معجزہ تھا جس میں اللہ رب العزت نے زندگی اور موت پر اپنی طاقت اور قدرت کا نمونہ دکھایا جسے دیکھ کر عقلِ انسانی عاجز آجاتی ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 260
وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰهٖمُ رَبِّ اَرِنِىۡ كَيۡفَ تُحۡىِ الۡمَوۡتٰى ؕ قَالَ اَوَلَمۡ تُؤۡمِنۡ‌ؕ قَالَ بَلٰى وَلٰـكِنۡ لِّيَطۡمَئِنَّ قَلۡبِىۡ‌ؕ قَالَ فَخُذۡ اَرۡبَعَةً مِّنَ الطَّيۡرِ فَصُرۡهُنَّ اِلَيۡكَ ثُمَّ اجۡعَلۡ عَلٰى كُلِّ جَبَلٍ مِّنۡهُنَّ جُزۡءًا ثُمَّ ادۡعُهُنَّ يَاۡتِيۡنَكَ سَعۡيًا ‌ؕ وَاعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰهَ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ  ۞
اور (وہ واقعہ بھی یاد کریں) جب ابراہیم ؑ نے عرض کیا: میرے رب! مجھے دکھا دے کہ تُو مُردوں کو کس طرح زندہ فرماتا ہے؟ ارشاد ہوا: کیا تم یقین نہیں رکھتے؟ اس نے عرض کیا: کیوں نہیں (یقین رکھتا ہوں) لیکن (چاہتا ہوں کہ) میرے دل کو بھی خوب سکون نصیب ہو جائے، ارشاد فرمایا: سو تم چار پرندے پکڑ لو پھر انہیں اپنی طرف مانوس کر لو پھر (انہیں ذبح کر کے) ان کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو پھر انہیں بلاؤ وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آجائیں گے، اور جان لو کہ یقینا اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے،

یہ معجزہ دکھا کر اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا وَاعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰهَ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ اور جان لو کہ یقینا اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔ جو معجزات بھی انبیاء و رسل عظام علیہم السلام کو عطا ہوتے ہیں وہ اس غالب اور بڑی حکمت والی ذات کی طاقت و قدرت کا عظیم نمونہ ہوتے ہیں۔

حضرت سارہ علیہا السلام کو جب بڑھاپے میں حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت دی گئی تو وہ حیران رہ گئیں اور فرمایا:

القرآن – سورۃ نمبر 11 هود، آیت نمبر 72
قَالَتۡ يٰوَيۡلَتٰٓى ءَاَلِدُ وَاَنَا عَجُوۡزٌ وَّهٰذَا بَعۡلِىۡ شَيۡخًا ‌ؕ اِنَّ هٰذَا لَشَىۡءٌ عَجِيۡبٌ ۞
وہ کہنے لگیں: وائے حیرانی! کیا میں بچہ جنوں گی حالانکہ میں بوڑھی (ہو چکی) ہوں اور میرے یہ شوہر (بھی) بوڑھے ہیں؟ بیشک یہ تو بڑی عجیب چیز ہے،

اس کے جواب میں بشارت دینے والے ملائکہ نے جواب دیا:

القرآن – سورۃ نمبر 11 هود، آیت نمبر 73
قَالُوۡۤا اَتَعۡجَبِيۡنَ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰهِ‌ رَحۡمَتُ اللّٰهِ وَبَرَكٰتُهٗ عَلَيۡكُمۡ اَهۡلَ الۡبَيۡتِ‌ؕ اِنَّهٗ حَمِيۡدٌ مَّجِيۡدٌ‏ ۞
فرشتوں نے کہا: کیا تم اﷲ کے حکم پر تعجب کر رہی ہو؟ اے گھر والو! تم پر اﷲ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں، بیشک وہ قابلِ ستائش (ہے) بزرگی والا ہے،

تو گویا معجزہ ہوتا ہی وہ ہے جو عقل کی سمجھ میں نہیں آتا اور عقل پکار اٹھتی ہے “اِنَّ هٰذَا لَشَىۡءٌ عَجِيۡبٌ (بیشک یہ تو بڑی عجیب چیز ہے)”۔ آگے فرشتوں کا جواب بھی بڑا غور طلب ہے فرماتے ہیں “قَالُوۡۤا اَتَعۡجَبِيۡنَ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰهِ‌ (کیا تم اﷲ کے حکم پر تعجب کر رہی ہو؟)”۔ معجزہ چونکہ عطائے خداوندی ہوتی ہے لہٰذا اس کو رد کرنا گویا اللہ رب العزت کی طاقت اور قدرت کو رد کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ فرمایا اِنَّهٗ حَمِيۡدٌ مَّجِيۡدٌ‏ (بیشک وہ قابلِ ستائش، بزرگی والا ہے) لہٰذا اس کی طاقت و قدرت پر شک نہ کرنا۔

حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی بھی ایک نشانی اور معجزہ تھی۔ حضرت صالح علیہ السلام کا پہاڑ پر چھڑی مارنا اور اس میں سے اونٹنی کا نمودار ہو جانا، عقلِ انسانی کو عاجز کر دینے والا معجزہ تھا جس کو اللہ رب العزت نے اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی کہا۔

القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 73
قَدۡ جَآءَتۡكُمۡ بَيِّنَةٌ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ‌ ؕ هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَـكُمۡ اٰيَةً‌۔
بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل آگئی ہے۔ یہ اﷲ کی اونٹنی تمہارے لئے نشانی ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 59
وَاٰتَيۡنَا ثَمُوۡدَ النَّاقَةَ مُبۡصِرَةً۔
اور ہم نے قومِ ثمود کو (صالح علیہ السلام کی) اونٹنی (کی) کھلی نشانی دی تھی۔

یہاں بھی معجزے کی نسبت اللہ رب العزت نے اپنی طرف کی ہے کہ یہ اونٹنی تمہارے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل اور نشانی ہے۔ تو گویا معجزے کا اظہار بھلے انبیاء و رسل کی ذواتِ مقدسہ سے ہوتا ہے مگر اس کے پیچھے طاقت و قدرتِ خداوندی کار فرما ہوتی ہے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے اللہ رب العزت نے ہوا کو تابع کر دیا تھا۔ اور حضرتِ سلیمان علیہ السلام کے ایک صحابی حضرت آصف برخیا کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کا علم دیا تھا ان کو عطاء کردہ طاقت اور قدرت کا عالم یہ تھا کہ وہ 900 میل کے فاصلے پر پڑے ہوئے ملکہ بلقیس کے تخت کو پلک جھپکنے سے پہلے دربارِ سلیمان علیہ السلام میں حاضر کر دیتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اگر حضرتِ سلیمان علیہ السلام کے ایک صحابی کو عطاء کردہ طاقت اور قوت کا یہ عالم ہے تو خود حضرتِ سلیمان علیہ السلام کی شان و عظمت کا عالم کیا ہوگا؟ پھر اگر حضرتِ سلیمان علیہ السلام کی طاقت و عظمت کا یہ عالم ہے تو تاجدارِ کائنات حضور نبی مکرم ﷺ کی طاقت و عظمت کا عالم کیا ہوگا؟

القرآن – سورۃ نمبر 38 ص، آیت نمبر 36
فَسَخَّرۡنَا لَهُ الرِّيۡحَ تَجۡرِىۡ بِاَمۡرِهٖ رُخَآءً حَيۡثُ اَصَابَۙ ۞
پھر ہم نے اُن کے لئے ہوا کو تابع کر دیا، وہ اُن کے حکم سے نرم نرم چلتی تھی جہاں کہیں (بھی) وہ پہنچنا چاہتے،

حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک صحابی کا معجزہ:

القرآن – سورۃ نمبر 27 النمل، آیت نمبر 38
قَالَ يٰۤاَيُّهَا الۡمَلَؤُا اَيُّكُمۡ يَاۡتِيۡنِىۡ بِعَرۡشِهَا قَبۡلَ اَنۡ يَّاۡتُوۡنِىۡ مُسۡلِمِيۡنَ ۞
(سلیمان علیہ السلام نے) فرمایا: اے دربار والو! تم میں سے کون اس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے قبل اس کے کہ وہ لوگ فرمانبردار ہو کر میرے پاس آجائیں،

القرآن – سورۃ نمبر 27 النمل، آیت نمبر 39
قَالَ عِفۡرِيۡتٌ مِّنَ الۡجِنِّ اَنَا اٰتِيۡكَ بِهٖ قَبۡلَ اَنۡ تَقُوۡمَ مِنۡ مَّقَامِكَ‌ۚ وَاِنِّىۡ عَلَيۡهِ لَـقَوِىٌّ اَمِيۡنٌ‏ ۞
ایک قوی ہیکل جِن نے عرض کیا: میں اسے آپ کے پاس لاسکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ اپنے مقام سے اٹھیں اور بیشک میں اس (کے لانے) پر طاقتور (اور) امانت دار ہوں،

القرآن – سورۃ نمبر 27 النمل، آیت نمبر 40
قَالَ الَّذِىۡ عِنۡدَهٗ عِلۡمٌ مِّنَ الۡـكِتٰبِ اَنَا اٰتِيۡكَ بِهٖ قَبۡلَ اَنۡ يَّرۡتَدَّ اِلَيۡكَ طَرۡفُكَ‌ؕ فَلَمَّا رَاٰهُ مُسۡتَقِرًّا عِنۡدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنۡ فَضۡلِ رَبِّىۡ‌ۖ۔
(پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا کچھ علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے)، پھر جب (سلیمان علیہ السلام نے) اس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا (تو) کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے۔

“ملکۂ سبا بلقیس کا تخت دربار سلیمان علیہ السلام سے تقریباً 900 میل کے فاصلے پر پڑا ہوا تھا۔” (کتاب فلسفہ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

حضرتِ سلیمان علیہ السلام، اپنے صحابی حضرت آصف برخیا کی اس طاقت اور قوت کو دیکھ کر اور اس خارق العادت واقعہ کو دیکھ کر حیران و متعجب نہیں ہوئے بلکہ فرمایا “هٰذَا مِنۡ فَضۡلِ رَبِّىۡ‌ۖ (یہ میرے رب کا فضل ہے)۔

دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ اُن کی ہیبت سے رائی
اقبال

حضرت زکریا علیہ السلام کا معجزہ

حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا جب قبول ہوئی اور انہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت دی گئی تو آپ نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:

القرآن – سورۃ نمبر 19 مريم، آیت نمبر 8
قَالَ رَبِّ اَنّٰى يَكُوۡنُ لِىۡ غُلٰمٌ وَّكَانَتِ امۡرَاَتِىۡ عَاقِرًا وَّقَدۡ بَلَـغۡتُ مِنَ الۡـكِبَرِ عِتِيًّا‏ ۞
(زکریا علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے ہاں لڑکا کیسے ہو سکتا ہے درآنحالیکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں خود بڑھاپے کے باعث (انتہائی ضعف میں) سوکھ جانے کی حالت کو پہنچ گیا ہوں،

اس پر بارگاہِ خداوندی سے جواب آیا:

القرآن – سورۃ نمبر 19 مريم، آیت نمبر 9
قَالَ كَذٰلِكَ‌ۚ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَىَّ هَيِّنٌ وَّقَدۡ خَلَقۡتُكَ مِنۡ قَبۡلُ وَلَمۡ تَكُ شَيۡئًـا‏ ۞
فرمایا: (تعجب نہ کرو) ایسے ہی ہوگا، تمہارے رب نے فرمایا ہے: یہ (لڑکا پیدا کرنا) مجھ پر آسان ہے اور بیشک میں اس سے پہلے تمہیں (بھی) پیدا کرچکا ہوں اس حالت سے کہ تم (سرے سے) کوئی چیز ہی نہ تھے،

اللہ رب العزت تو قادرِ مطلق ہے، وہ ساری کائنات کا خالق و مالک ہے، ساری طاقتوں اور قدرتوں کا مالک ہے، وہ جب کسی چیز کو کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو فقط اتنا کہتا ہے “کُن” ہوجا اور وہ ہو جاتی ہے۔ لہذا اللہ اگر اپنے کسی نبی یا رسول کو کوئی معجزہ عطا فرما دے تو اس پر حیران و متعجب نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے اللہ رب العزت کی بے پناہ طاقت و قوت کا اظہار سمجھ کر قبول کرنا چاہیے۔ جو اللہ کسی چیز کو عدم سے وجود میں لانے کی طاقت رکھتا ہے اور جس کے قبضۂِ قدرت میں مکان و لامکاں کے انتظامات ہیں تو اگر وہ حضور نبی مکرم ﷺ کو شبِ معراج مکان و لامکاں کی سیر کروا دے تو تعجب کیسا؟

حضرت یوسف علیہ السلام کا معجزہ

القرآن – سورۃ نمبر 12 يوسف، آیت نمبر 96
فَلَمَّاۤ اَنۡ جَآءَ الۡبَشِيۡرُ اَلۡقٰٮهُ عَلٰى وَجۡهِهٖ فَارۡتَدَّ بَصِيۡرًا ‌ ؕۚ قَالَ اَلَمۡ اَقُل لَّـكُمۡ‌ ۚ‌ ۙ اِنِّىۡۤ اَعۡلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ‏ ۞
پھر جب خوشخبری سنانے والا آپہنچا اس نے وہ قمیض یعقوب ؑ کے چہرے پر ڈال دیا تو اسی وقت ان کی بینائی لوٹ آئی، یعقوب ؑ نے فرمایا: کیا میں تم سے نہیں کہتا تھا کہ بیشک میں اﷲ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے،

حضرت داؤد علیہ السلام کا معجزہ

القرآن – سورۃ نمبر 21 الأنبياء، آیت نمبر 79
وَّسَخَّرۡنَا مَعَ دَاوٗدَ الۡجِبَالَ يُسَبِّحۡنَ وَالطَّيۡرَ‌ ؕ وَكُنَّا فٰعِلِيۡنَ ۞
اور ہم نے پہاڑوں اور پرندوں (تک) کو داؤد ؑ کے (حکم کے) ساتھ پابند کر دیا تھا وہ (سب ان کے ساتھ مل کر) تسبیح پڑھتے تھے، اور ہم ہی (یہ سب کچھ) کرنے والے تھے،

یہاں بھی دیکھیں کہ پہاڑوں اور پرندوں کا مسخر ہونا، یہ معجزہ حضرت داؤد علیہ السلام کا ہے یعنی ان کی ذات سے اس کا اظہار ہوا ہے مگر اس کے پیچھے طاقت و قدرت اللہ رب العزت کی تھی۔ فرمایا وَكُنَّا فٰعِلِيۡنَ اور ہم ہی (یہ سب کچھ) کرنے والے تھے۔ تو گویا معجزے کا انکار دوسرے لفظوں میں عظمت و قدرتِ خداوندی کا انکار ہوتا ہے۔

اصحاب کہف اور وقت کا سمٹ جانا:

اصحابِ کہف کم و بیش 309 سال کا عرصہ ایک غار کے اندر سوئے رہے۔ جب اللہ رب العزت کے حکم سے اٹھے تو کہنے لگے:

القرآن – سورۃ نمبر 18 الكهف، آیت نمبر 19
قَالَ قَآئِلٌ مِّنۡهُمۡ كَمۡ لَبِثۡتُمۡ ؕ قَالُوۡا لَبِثۡنَا يَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ يَوۡمٍ‌ ؕ
ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا: تم (یہاں) کتنا عرصہ ٹھہرے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم (یہاں) ایک دن یا اس کا (بھی) کچھ حصہ ٹھہرے ہیں۔

309 سال گزر جانے کے باوجود انہیں یوں محسوس ہوا کہ ایک دن بھی نہیں گزرنے پایا اور ان کے اجسام پہلے کی طرح تروتازہ اور توانا رہے۔ 309 سال تک تک موت کی نیند سوئے رہنا اور پھر زندہ ہو جانے کا یہ خلافِ معمول واقعہ تو اصحابِ کہف پہ بیتا ہے مگر جو ذات اس سارے عرصے میں ان کی حفاظت کر رہی تھی وہ ذاتِ باری تعالیٰ ہی تھی۔ لہٰذا اگر ذاتِ باری تعالیٰ اصحابِ کہف کی خاطر زمان و مکاں کے اندر موجود اصول و ضوابط کو بدل سکتی ہے اور انہیں سالوں پر محیط عرصہ ایک دن یا اس سے بھی کم کا محسوس ہوتا ہے تو کیا وہی ذات حضور نبی مکرم ﷺ کو سالوں پر محیط سفرِ معراج رات کے ایک لمحے میں طے نہیں کروا سکتی؟

حضرتِ عزیر علیہ السلام کو اللہ رب العزت نے سو سال تک موت کی نیند سلائے رکھا اور جب اللہ کے حکم سے اٹھے تو کہنے لگے میں تو ایک دن یا اس سے کم حصہ یہاں ٹھہرا ہوں۔ آپ کے ساتھ جو کھانا موجود تھا وہ بالکل اسی طرح رہا جبکہ گدھے کی ہڈیاں بھی سلامت نہیں رہیں۔ پھر اللہ رب العزت نے ان کے سامنے گدھے کی ہڈیوں کو جوڑا پھر ان پر گوشت چڑھایا اور پھر اسے زندہ کر دیا۔ اللہ رب العزت کی اس طاقت و قدرت کا مشاہدہ کرنے پر حضرتِ عزیر علیہ السلام بے ساختہ بول اٹھے اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ (بیشک اﷲ ہر چیز پر خوب قادر ہے)۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 259
اَوۡ كَالَّذِىۡ مَرَّ عَلٰى قَرۡيَةٍ وَّ هِىَ خَاوِيَةٌ عَلٰى عُرُوۡشِهَا ‌ۚ قَالَ اَنّٰى يُحۡىٖ هٰذِهِ اللّٰهُ بَعۡدَ مَوۡتِهَا ‌ۚ فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗ ‌ؕ قَالَ كَمۡ لَبِثۡتَ‌ؕ قَالَ لَبِثۡتُ يَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ يَوۡمٍ‌ؕ قَالَ بَلۡ لَّبِثۡتَ مِائَةَ عَامٍ فَانۡظُرۡ اِلٰى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمۡ يَتَسَنَّهۡ‌ۚ وَانْظُرۡ اِلٰى حِمَارِكَ وَلِنَجۡعَلَكَ اٰيَةً لِّلنَّاسِ‌ وَانْظُرۡ اِلَى الۡعِظَامِ كَيۡفَ نُـنۡشِزُهَا ثُمَّ نَكۡسُوۡهَا لَحۡمًا ‌ؕ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهٗ ۙ قَالَ اَعۡلَمُ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ ۞
یا اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا) جو ایک بستی پر سے گزرا جو اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی تو اس نے کہا کہ اﷲ اس کی موت کے بعد اسے کیسے زندہ فرمائے گا، سو (اپنی قدرت کا مشاہدہ کرانے کے لئے) اﷲ نے اسے سو برس تک مُردہ رکھا پھر اُسے زندہ کیا، (بعد ازاں) پوچھا: تُو یہاں (مرنے کے بعد) کتنی دیر ٹھہرا رہا (ہے)؟ اس نے کہا: میں ایک دن یا ایک دن کا (بھی) کچھ حصہ ٹھہرا ہوں، فرمایا: (نہیں) بلکہ تُو سو برس پڑا رہا (ہے) پس (اب) تُو اپنے کھانے اور پینے (کی چیزوں) کو دیکھ (وہ) متغیّر (باسی) بھی نہیں ہوئیں اور (اب) اپنے گدھے کی طرف نظر کر (جس کی ہڈیاں بھی سلامت نہیں رہیں) اور یہ اس لئے کہ ہم تجھے لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانی بنا دیں اور (اب ان) ہڈیوں کی طرف دیکھ ہم انہیں کیسے جُنبش دیتے (اور اٹھاتے) ہیں پھر انہیں گوشت (کا لباس) پہناتے ہیں، جب یہ (معاملہ) اس پر خوب آشکار ہو گیا تو بول اٹھا: میں (مشاہداتی یقین سے) جان گیا ہوں کہ بیشک اﷲ ہر چیز پر خوب قادر ہے،

یہاں بھی غور طلب بات یہ ہے کہ اگر اللہ رب العزت کی عطا و توفیق سے حضرتِ عزیر علیہ السلام، سو سال پر محیط عرصہ ایک دن یا اس سے بھی کم وقت میں طے کر سکتے ہیں تو اسی ذات کی عطا کردہ طاقت و قوت سے حضور نبی مکرم ﷺ، مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ اور پھر عالمِ مکان و لامکاں تک کا سفر رات کے ایک لمحے میں طے کر لیں تو تعجب کیسا؟

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یدِ بیضا (سفید، روشن ہاتھ)، عصاء جیسے معجزات دیے گئے۔

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 101
وَلَقَدۡ اٰتَيۡنَا مُوۡسٰى تِسۡعَ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ‌۔
اور بیشک ہم نے موسٰی ؑ کو نو روشن نشانیاں دیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 107
فَاَلۡقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِىَ ثُعۡبَانٌ مُّبِيۡنٌ‌ ۞
پس موسٰی ؑ نے اپنا عصا (نیچے) ڈال دیا تو اسی وقت صریحاً اژدہا بن گیا،

القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 108
وَّنَزَعَ يَدَهٗ فَاِذَا هِىَ بَيۡضَآءُ لِلنّٰظِرِيۡنَ  ۞
اور اپنا ہاتھ (گریبان میں ڈال کر) نکالا تو وہ (بھی) اسی وقت دیکھنے والوں کے لئے (چمک دار) سفید ہوگیا۔

القرآن – سورۃ نمبر 28 القصص، آیت نمبر 32
اُسۡلُكۡ يَدَكَ فِىۡ جَيۡبِكَ تَخۡرُجۡ بَيۡضَآءَ مِنۡ غَيۡرِ سُوۡٓءٍ وَّاضۡمُمۡ اِلَيۡكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهۡبِ‌ فَذٰنِكَ بُرۡهَانٰنِ مِنۡ رَّبِّكَ اِلٰى فِرۡعَوۡنَ وَمَلَا۟ئِهٖؕ اِنَّهُمۡ كَانُوۡا قَوۡمًا فٰسِقِيۡنَ ۞
اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو وہ بغیر کسی عیب کے سفید چمک دار ہوکر نکلے گا اور خوف (دور کرنے کی غرض) سے اپنا بازو اپنے (سینے کی) طرف سکیڑ لو، پس تمہارے رب کی جانب سے یہ دو دلیلیں فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف (بھیجنے اور مشاہدہ کرانے کے لئے) ہیں، بیشک وہ نافرمان لوگ ہیں،

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بذاتِ خود معجزہ ہونا

القرآن – سورۃ نمبر 21 الأنبياء، آیت نمبر 91
وَالَّتِىۡۤ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَهَا فَـنَفَخۡنَا فِيۡهَا مِنۡ رُّوۡحِنَا وَ جَعَلۡنٰهَا وَابۡنَهَاۤ اٰيَةً لِّـلۡعٰلَمِيۡنَ‏ ۞
اس (پاکیزہ) خاتون (مریم علیہا السلام) کو بھی (یاد کریں) جس نے اپنی عفت کی حفاظت کی پھر ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور ہم نے اسے اور اس کے بیٹے (عیسٰی علیہ السلام) کو جہان والوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانی بنا دیا،

حضرت مریم علیہا السلام کو جب بن باپ کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت دی گئی تو آپ سراپا حیرت بن کر عرض کرتی ہیں:

القرآن – سورۃ نمبر 19 مريم، آیت نمبر 20
قَالَتۡ اَنّٰى يَكُوۡنُ لِىۡ غُلٰمٌ وَّلَمۡ يَمۡسَسۡنِىۡ بَشَرٌ وَّلَمۡ اَكُ بَغِيًّا ۞
(مریم علیہا السلام نے) کہا: میرے ہاں لڑکا کیسے ہوسکتا ہے جبکہ مجھے کسی انسان نے چھوا تک نہیں اور نہ ہی میں بدکار ہوں،

خوشخبری دینے والے فرشتے نے جواب دیا:

القرآن – سورۃ نمبر 19 مريم، آیت نمبر 21
قَالَ كَذٰلِكِ‌ ۚ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَىَّ هَيِّنٌ‌ ۚ وَلِنَجۡعَلَهٗۤ اٰيَةً لِّلنَّاسِ وَرَحۡمَةً مِّنَّا‌ ۚ وَكَانَ اَمۡرًا مَّقۡضِيًّا ۞
(جبرائیل علیہ السلام نے) کہا: (تعجب نہ کر) ایسے ہی ہوگا، تیرے رب نے فرمایا ہے: یہ (کام) مجھ پر آسان ہے، اور (یہ اس لئے ہوگا) تاکہ ہم اسے لوگوں کے لئے نشانی اور اپنی جانب سے رحمت بنادیں، اور یہ امر (پہلے سے) طے شدہ ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 49
وَرَسُوۡلًا اِلٰى بَنِىۡۤ اِسۡرٰٓءِيۡلَ ۙ اَنِّىۡ قَدۡ جِئۡتُكُمۡ بِاٰيَةٍ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ ۙۚ اَنِّىۡۤ اَخۡلُقُ لَـكُمۡ مِّنَ الطِّيۡنِ كَهَیْــئَةِ الطَّيۡرِ فَاَنۡفُخُ فِيۡهِ فَيَكُوۡنُ طَيۡرًاۢ بِاِذۡنِ اللّٰهِ‌‌ۚ وَاُبۡرِئُ الۡاَكۡمَهَ وَالۡاَبۡرَصَ وَاُحۡىِ الۡمَوۡتٰى بِاِذۡنِ اللّٰهِ‌ۚ وَ اُنَبِّئُكُمۡ بِمَا تَاۡكُلُوۡنَ وَمَا تَدَّخِرُوۡنَۙ فِىۡ بُيُوۡتِكُمۡ‌ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيَةً لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَۚ‏ ۞
اور وہ بنی اسرائیل کی طرف رسول ہو گا (ان سے کہے گا) کہ بیشک میں تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے ایک نشانی لے کر آیا ہوں میں تمہارے لئے مٹی سے پرندے کی شکل جیسا (ایک پُتلا) بناتا ہوں پھر میں اس میں پھونک مارتا ہوں سو وہ اﷲ کے حکم سے فوراً اڑنے والا پرندہ ہو جاتا ہے، اور میں مادرزاد اندھے اور سفید داغ والے کو شفایاب کرتا ہوں اور میں اﷲ کے حکم سے مُردے کو زندہ کر دیتا ہوں، اور جو کچھ تم کھا کر آئے ہو اور جو کچھ تم اپنے گھروں میں جمع کرتے ہو میں تمہیں (وہ سب کچھ) بتا دیتا ہوں، بیشک اس میں تمہارے لئے نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو،

معجزۂِ معراجِ مصطفیٰ ﷺ

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 1
سُبۡحٰنَ الَّذِىۡۤ اَسۡرٰى بِعَبۡدِهٖ لَيۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ اِلَى الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِىۡ بٰرَكۡنَا حَوۡلَهٗ لِنُرِيَهٗ مِنۡ اٰيٰتِنَا‌ ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيۡعُ الۡبَصِيۡرُ ۞
وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے،

یہاں بھی اگر غور کریں تو شبِ معراج کے معجزے کا اظہار بھلے حضور نبی مکرم ﷺ کی ذاتِ بابرکات سے ہوا ہے مگر جب اللہ رب العزت نے اسے بیان کیا تو اس کی نسبت اپنی طرف کی اور فرمایا سُبۡحٰنَ الَّذِىۡۤ اَسۡرٰى بِعَبۡدِهٖ لَيۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ اِلَى الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک۔ یعنی یہ دعویٰ تو خود اللہ رب العزت نے کیا ہے جو ساری کائنات اور اس کے اندر کارفرما ساری طاقتوں اور قدرتوں کا مالک ہے۔ جو ہر کمی، نقص اور عیب سے پاک ہے۔ وہ اگر چاہے تو ایک لفظِ “کن” کہہ کر حضور نبی مکرم ﷺ کو ساری کائنات کی سیر کروا دے۔ لہٰذا معجزۂِ معراجِ مصطفیٰ بھی دراصل طاقت و قدرتِ خداوندی کا اظہار ہے۔ اور اس کا انکار کرنا یا اس پر اعتراض کرنا گویا اللہ رب العزت کی طاقت و قدرت کا انکار کرنے کے مترادف ہے۔

ایک اور قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ ہر نبی اور رسول کو اللہ رب العزت نے اپنی طاقت اور قدرت کے ذریعے اُس زمانے کے تقاضوں کے مطابق معجزات عطا فرمائے جن کو دیکھ کر عقلِ انسانی دنگ رہ گئی۔ حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کے لیے ذبح شدہ پرندوں کا زندہ ہو کر آپ کی طرف آجانا، اسی طرح آپ کی خاطر نارِ نمرود کا گل و گلزار بن جانا، حضرتِ صالح علیہ السلام کا پہاڑ پر چھڑی مارنا اور اس میں سے اونٹنی کا نمودار ہو جانا، حضرتِ سلیمان علیہ السلام کی خاطر ہوا کا مسخر ہو جانا، حضرتِ سلیمان علیہ السلام کے صحابی حضرت آصف برخیا کا پلک جھپکنے میں ملکہ بلقیس کا تخت دربار میں حاضر کر دینا، حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کا دربارِ فرعون میں عصاء پھینکنا اور اس عصاء کا اژدھا بن کر جادوگروں کے سانپوں کو نگل جانا، حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کا مادر زاد اندھوں کو بینا کر دینا، مردوں کو اللہ کے حکم سے زندہ کر دینا، اور حضور نبی مکرم ﷺ کا شبِ معراج مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ اور پھر ساتوں آسمانوں سے ہوتے ہوئے سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا پھر مقامِ دنیٰ، فتدلّٰی، قاب قوسین او ادنیٰ کے مقام پر پہنچ کر قربت و وصالِ الٰہیہ سے فیضیاب ہونا، پھر اس لذتِ وصال کو چھوڑ کر امت کی خاطر واپس پلٹ آنا، یہ سب معجزات اللہ رب العزت کی طاقت و قدرت کا عظیم الشان مظہر ہیں جن کو سمجھنے سے عقلِ انسانی آج بھی قاصر ہے۔ کیونکہ معجزہ کہتے ہی اس واقعے کو ہیں جس کو سمجھنے سے عقلِ انسانی عاجز آ جائے۔ لہٰذا معجزاتِ انبیاء و رسل کو عقل کے پیمانوں پر تول کر رد کرنے کے بجائے اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ یہ معجزات اللہ رب العزت کی عطاء سے انبیاء و رسل کی ذواتِ مقدسہ سے ظاہر ہوتے ہیں اور ان کے پیچھے اصل طاقت و قوت پروردگارِ عالم کی ہوتی ہے۔ جب اس انداز سے معجزاتِ انبیاء کو دیکھا جائے تو انکار و اعتراضات کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔

گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے، منزل نہیں ہے
اقبال

یہاں یہ نقطہ بھی قابلِ ذکر ہے جس کو مختلف علمائے کرام نے بیان کیا ہے کہ ہر نبی اور رسول کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کے تقاضوں کے مطابق معجزات عطا فرمائے۔ مثلاً حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کے دور میں جادوگری کا فن اپنے عروج پر تھا اس لیے جب دربارِ فرعون میں جادوگروں کی رسیاں سانپ بن گئیں تو ان جادوگروں کے جادو کا توڑ کرنے کے لیے اللہ رب العزت نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اپنا عصاء زمین پر پھینکیں۔ جب آپ نے عصاء زمین پر پھینکا تو وہ ایک بڑا اژدھا بن کر سارے سانپوں کو نگل گیا جس سے جادوگر پکار اٹھے کہ ہم موسیٰ کے رب پر ایمان لاتے ہیں۔ حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں طب کا فن اپنے عروج پر تھا۔ تو حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ رب العزت نے یہ معجزہ عطاء کیا تھا کہ آپ مادر زاد اندھوں کو بینا کر دیتے تھے اور مردوں کو اللہ کے حکم سے زندہ کر دیتے تھے۔ اسی طرح حضور نبی مکرم ﷺ چونکہ قیامت تک کے انسانوں کے لیے رسولِ رحمت بن کر تشریف لائے ہیں تو اللہ رب العزت کو علم تھا کہ یہ دور خلائی تحقیق کا دور ہوگا، لوگ چاند کو مسخر کریں گے، مریخ اور دوسرے سیاروں پر رہائش اختیار کرنے کی تگ و دو کر رہے ہوں گے اور انہیں اپنی ان خلائی تحقیقات پر بڑا ناز ہوگا تو اس لیے اللہ رب العزت نے حضور نبی مکرم ﷺ کو رات کے ایک لمحے میں مکان و لامکاں کی سیر کروا کر یہ ثابت کر دیا کہ اے انسان تیرا علم اور تیری پرواز جتنی مرضی ترقی کرلے میرے حبیب کی پرواز کی گرد تک بھی نہیں پہنچ سکتی۔ تو ابھی کچھ سیاروں تک پہنچا ہے اور اس پر بڑا فخر کرتا ہے مگر مصطفیٰ نے شبِ معراج ساری کائنات اور عالمِ مکان و لامکاں کا سفر ایک لمحے میں طے کر لیا ہے۔

“خلائی سفر پر روانگی کے دوران کرۂ ہوائی (atmosphere) سے باہر نکلنے کے لیے کم از کم 40,000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار درکار ہوتی ہے۔”

“روشنی 1,86,000 میل (تین لاکھ کلومیٹر) فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے اور سائنس کی زبان میں اس قدر رفتار کا حصول کسی بھی مادی شئے کے لیے محال ہے۔”
(کتاب: فلسفہ معراج النبی ﷺ)

حضور نبی مکرم ﷺ کا شبِ معراج اس رفتار کے ساتھ سفر کرنا کہ جس کو سمجھنے سے عقلِ انسانی اور سائنس بھی قاصر ہے بلاشبہ یہ قدرتِ خداوندی اور معجزاتِ نبوی ﷺ کا ایک عظیم الشان مظہر ہے۔

سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفیٰ سے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں
علامہ محمد اقبال

معجزہ کسے کہتے ہیں؟ جمعۃ المبارک، 03 شعبان 1444ھ، بمطابق 24 فروری 2023ء

لفظِ معجزہ کا لغوی معنیٰ:

لفظِ معجزہ کا مادۂِ اشتقاق: عَجِزَ، یَعْجَزُ، عَجْزًا ہے۔ جس کے معنیٰ: “کسی چیز پر قادِر نہ ہونا”، “کسی کام کی طاقت نہ رکھنا” یا “کسی امر سے عاجز آجانا” وغیرہ ہیں۔ محاورۂِ عرب میں کہتے ہیں: “عَجِزَ فُلَانٌ عَنِ الْعَمَلِ” یعنی “فلاں آدمی وہ کام کرنے سے عاجز آگیا”۔ أی کبر و صار لا یستطیعہ فھو عاجزٌ (المنجد:488)

امام راغب اصفہانی، المفردات میں فرماتے ہیں:
“والعجز أصلہ التّأخر عن الشئ، و حصولہ عند عجز الأمر، أی: مؤخرہ ۔۔۔۔ و صار فی التعارف اِسماً للقصور عن فعل الشئ، وھو ضد القدرۃ۔”
“عجز” کے اصلی معنی کسی چیز سے پیچھے رہ جانے یا اس کے ایسے وقت میں حاصل ہونے کے ہیں جبکہ اس کا وقت نکل چکا ہو۔۔۔۔ عام طور پر یہ لفظ کسی کام کے کرنے سے قاصر رہ جانے پر بولا جاتا ہے اور یہ “القدرۃ” کی ضد ہے۔

لفظِ معجزہ کا مفہوم:

“امر خارق العادۃ یعجز البشر عن ان یأتو بمثلہ”
معجزہ اس خارق العادت چیز کو کہتے ہیں جس کی مثل لانے سے فردِ بشر عاجز آجائے۔ (المنجد)

الشفاء میں قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“اِعلم ان معنیٰ تسمیتنا ما جاءت بہ الانبیاء معجزۃ ھو ان الخلق عجزوا عن الاتیان بمثلھا”
یہ بات بخوبی جان لینی چاہیے کہ جو کچھ انبیاء علیہم السلام اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں اسے ہم نے معجزے کا نام اس لیے دیا ہے کہ مخلوق اس کی مثل لانے سے عاجز ہوتی ہے۔ (الشفاء، 1: 349)

“المعجزۃ عبارۃٌ عن اظہار قدرہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ و حکمتہ علٰی ید نبی مرسل بین امتہ بحیث یعجز اھل عصرہ عن اِیراد مثلھا”
معجزہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کا اس کے برگزیدہ نبی کے دستِ مبارک پر اظہار ہے تاکہ وہ اپنی امت اور اہلِ زمانہ کو اس کی مثل لانے سے عاجز کر دے۔
(معارج النبوۃ، 4: 377)

ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی اپنی کتاب فلسفہ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں لکھتے ہیں:

“رسولانِ مکرم اور انبیائے محتشم کے دستِ حق پرست پر قدرتِ خداوندی سے رونما ہونے والے ماورائے عقل واقعات کو ‘معجزہ’ کہتے ہیں”۔ خارق العادت افعال کی وضاحت کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں:

وہ افعال جو معمول سے ہٹ کر بلکہ خلافِ معمول ہوتے ہیں اور ان کی کامل توجیہہ کسی طور پر بھی ممکن نہیں ہوتی۔ انہیں خارقِ عادت افعال کہا جاتا ہے۔ یہ خارقِ عادت افعال چار اقسام کے ہوتے ہیں:

1) معجزہ: انبیاء و رسل سے جب (اللہ تعالٰی کی عطا و توفیق سے) کوئی خارقِ عادت واقعہ صادر ہوتا ہے تو اسے معجزہ کہتے ہیں۔ جیسے حضور نبی مکرم ﷺ کو معجزہ معراج اور دیگر کئی معجزات عطاء کیے گئے۔

2) ارھاص: وہ خارقِ عادت واقعہ جو کسی نبی یا رسول کی ولادت کے وقت یا پیدائش مبارکہ سے پہلے ہوتا ہے، اسے ارھاص کہتے ہیں۔ مثلاً جس سال حضور سرورِ کائنات علیہ الصلاۃ والسلام کی ولادت باسعادت ہوئی، اس سال آمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے پورے شہرِ مکہ میں کسی کے ہاں لڑکی پیدا نہ ہوئی بلکہ ربِ کائنات نے سب کو بیٹے عطا فرمائے۔

3) کرامت: وہ خارقِ عادت افعال جو مومنین، صالحین اور اولیائے کرام کے ہاتھوں صادر ہوتے ہیں، انہیں کرامت کہتے ہیں۔ مثلاً سیدنا سلیمان علیہ السلام کے صحابی حضرت آصف برخیا کا پلک جھپکنے سے پہلے ملکۂ سبا کا تخت آپ کی خدمت میں پیش کر دینا۔

4) استدراج: وہ خارقِ عادت افعال جو کسی کافر، مشرک، فاسق، فاجر اور ساحر کے ہاتھ سے صادر ہوں، انہیں استدراج کہتے ہیں۔ مثلاً سامری جادوگر نے سونے کا بچھڑا بنا کر اس کے منہ سے آواز پیدا کرلی جس کے نتیجے میں بنی اسرائیل نے اس کی پرستش شروع کر دی۔

آپ مزید فرماتے ہیں:

“معجزہ کہتے ہی اس امر کو ہیں جو عقل کی جملہ صلاحیتوں کو عاجز کردے۔”

مندرجہ بالا وضاحت سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ معجزہ در حقیقت کہتے ہی اس فعل کو ہیں جس کو سمجھنے سے عقلِ انسانی قاصر ہو۔ اور جس کی مثال یا نظیر لانے سے مخلوق عاجز ہو۔ یہ خاص اللہ رب العزت کی توفیق اور عطا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں اور نبیوں کو معجزات عطاء کرتے ہیں تاکہ ان کی حقانیت ثابت ہوسکے۔

معجزہ اس عمل یا واقعہ کو کہتے ہیں جس میں تین خصوصیات پائی جاتی ہوں:
1) وہ واقعہ خارق العادت ہو یعنی خلافِ معمول ہو۔
2) اس کو سمجھنے سے عقلِ انسانی عاجز آجائے۔
3) اس کی نظیر یا مثل پیش کرنے سے انسان عاجز آجائے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 7274
‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ نَبِيٌّ إِلَّا أُعْطِيَ مِنَ الْآيَاتِ مَا مِثْلُهُ، ‏‏‏‏‏‏أُومِنَ أَوْ آمَنَ عَلَيْهِ الْبَشَرُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا كَانَ الَّذِي أُوتِيتُ وَحْيًا أَوْحَاهُ اللَّهُ إِلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْجُو أَنِّي أَكْثَرُهُمْ تَابِعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا انبیاء میں سے کوئی نبی ایسا نہیں جن کو کچھ نشانیاں (یعنی معجزات) نہ دئیے گئے ہوں جن کے مطابق ان پر ایمان لایا گیا (آپ ﷺ نے فرمایا کہ) انسان ایمان لائے اور مجھے جو بڑا معجزہ دیا گیا وہ قرآن مجید ہے جو اللہ نے میری طرف بھیجا، پس میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن شمار میں تمام انبیاء سے زیادہ پیروی کرنے والے میرے ہوں گے۔

قرآن بذاتِ خود ایک معجزہ ہے:
جس دور میں حضور نبی مکرم ﷺ کا ظہور ہوا ہے اس دور میں فصاحت و بلاغت کے ساتھ کلام کرنے کا فن عروج پر تھا۔ اہلِ عرب کو اپنی زبان اور کلام پر اتنا ناز اور فخر تھا کہ اپنے آپ کو عرب (اہلِ زبان یعنی واضح اور فصیح کلام کرنے والے) کہتے تھے اور دوسری زبانیں بولنے والوں کو عجم (گونگا) کہتے تھے۔ اس دور میں قرآن اپنے اندر فصاحت و بلاغت لیے ہوئے حضور نبی مکرم ﷺ کی زبان پر جاری ہوا۔

اب جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا کہ معجزہ اس چیز کو کہتے ہیں جس کے اندر مزکورہ بالا تین خصوصیات پائی جاتی ہوں۔ تو اگر قرآنِ مجید پر غور کریں تو 1) خلافِ معمول بات یہ تھی کہ یہ کلام اس شخص کی زبان سے جاری ہو رہا ہے جو کسی مدرسے یا مکتب کا پڑھا ہوا نہیں ہے۔ اگر کوئی پڑھا لکھا انسان اس طرح کا کلام کرتا تو کوئی تعجب کی بات نہ ہوتی مگر یہ کلام کرنے والا انسان خود امی لقب سے مشہور ہے۔ 2) اُس دور کے لوگوں کی عقل اس بات کو سمجھنے سے عاجز آگئی کہ یہ کلام کوئی امی لقب شخص کیسے کر سکتا ہے؟ 3) قرآن میں اللہ رب العزت نے خود یہ کھلا چیلنج دے دیا کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ یہ کسی بشر کا کلام ہے تو آؤ اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا کر لے آؤ۔

القرآن – سورۃ نمبر 10 يونس، آیت نمبر 38
اَمۡ يَقُوۡلُوۡنَ افۡتَـرٰٮهُ‌ ؕ قُلۡ فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَةٍ مِّثۡلِهٖ وَادۡعُوۡا مَنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ ۞
کیا وہ کہتے ہیں کہ اسے رسول ﷺ نے خود گھڑ لیا ہے، آپ فرما دیجئے: پھر تم اس کی مثل کوئی (ایک) سورت لے آؤ (اور اپنی مدد کے لئے) اللہ کے سوا جنہیں تم بلاسکتے ہو بلا لو اگر تم سچے ہو،

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 23
وَاِنۡ کُنۡتُمۡ فِىۡ رَيۡبٍ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلٰى عَبۡدِنَا فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَةٍ مِّنۡ مِّثۡلِهٖ وَادۡعُوۡا شُهَدَآءَكُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اِنۡ كُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ‏ ۞
اور اگر تم اس (کلام) کے بارے میں شک میں مبتلا ہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ، اور (اس کام کے لئے بیشک) اللہ کے سوا اپنے (سب) حمائتیوں کو بلا لو اگر تم (اپنے شک اور انکار میں) سچے ہو،

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 88
قُلْ لَّئِنِ اجۡتَمَعَتِ الۡاِنۡسُ وَالۡجِنُّ عَلٰٓى اَنۡ يَّاۡتُوۡا بِمِثۡلِ هٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لَا يَاۡتُوۡنَ بِمِثۡلِهٖ وَلَوۡ كَانَ بَعۡضُهُمۡ لِبَعۡضٍ ظَهِيۡرًا‏ ۞
فرما دیجئے: اگر تمام انسان اور جنّات اس بات پر جمع ہو جائیں کہ وہ اس قرآن کے مثل (کوئی دوسرا کلام بنا) لائیں گے تو (بھی) وہ اس کی مثل نہیں لاسکتے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 24
فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا وَلَنۡ تَفۡعَلُوۡا فَاتَّقُوۡا النَّارَ الَّتِىۡ وَقُوۡدُهَا النَّاسُ وَالۡحِجَارَةُ ۖۚ اُعِدَّتۡ لِلۡكٰفِرِيۡنَ ۞
پھر اگر تم ایسا نہ کر سکو اور ہرگز نہ کر سکو گے تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی (یعنی کافر) اور پتھر (یعنی ان کے بت) ہیں، جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے،

یہاں اللہ رب العزت نے کفار و مشرکین کو کھلا چیلنج دیا ہے کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ یہ قرآن معاذاللہ رسول مکرم ﷺ نے خود گھڑ لیا ہے تو اس کی مثل کوئی ایک سورت ہی لے آؤ۔ چونکہ انسان اپنے تمام تر وسائل اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر بھی قرآن کی مثل ایک سورت، آیت یا جملہ بنانے سے عاجز ہے لہٰذا قرآن، حضور نبی مکرم ﷺ کا ایک دائمی معجزہ ہے جو اللہ رب العزت نے آپ ﷺ کو عطاء کیا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس معجزۂِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعنی قرآنِ مجید کو سیکھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

کامیاب لوگوں کی نشانیاں – قرآنی آیات کی روشنی میںجمعۃ المبارک، 20 جمادی الآخر 1444ھ، بمطابق 13 جنوری 2023

ہر انسان کامیاب ہونا چاہتا ہے۔ ہر انسان نے اپنے ذہن میں کامیابی کا ایک تصور بنا رکھا ہوتا ہے اور اس تصور کے مطابق وہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہر وقت کوشاں رہتا ہے۔ بعض اوقات انسان اپنے قائم کردہ تصور کے مطابق کامیابی حاصل کرنے کے باوجود مطمئن نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جو کامیابی اور ناکامی کا معیار اس نے اپنے لیے قائم کیا ہوتا ہے وہ غلط ہوتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ حقیقی کامیابی کیا ہے؟

القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 185
فَمَنۡ زُحۡزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدۡخِلَ الۡجَـنَّةَ فَقَدۡ فَازَ ‌ؕ وَمَا الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ‏ ۞
پس جو کوئی دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہ واقعۃً کامیاب ہو گیا، اور دنیا کی زندگی دھوکے کے مال کے سوا کچھ بھی نہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام، آیت نمبر 16
مَنۡ يُّصۡرَفۡ عَنۡهُ يَوۡمَئِذٍ فَقَدۡ رَحِمَهٗ‌ؕ وَ ذٰ لِكَ الۡـفَوۡزُ الۡمُبِيۡنُ ۞
اس دن جس شخص سے وہ (عذاب) پھیر دیا گیا تو بیشک (اﷲ نے) اس پر رحم فرمایا، اور یہی (اُخروی بخشش) کھلی کامیابی ہے،

قرآنِ مجید کی نظر میں حقیقی معنوں میں کامیاب شخص وہ ہے جو قیامت کے دن دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا۔ اب ہم قرآنی آیات کی روشنی میں کامیاب لوگوں کی 27 نشانیاں یا خصوصیات بیان کرتے ہیں۔

مختصر خاکہ:

1) ایمان 2) تقویٰ و پرہیزگاری 3) نماز قائم کرنا 4) بیہودہ اور بے مقصد گفتگو سے بچنا 5) زکوٰۃ ادا کرنا 6) شرم گاہوں کی حفاظت کرنا 7) امانت میں خیانت نہ کرنا 8) وعدوں کی پاسداری کرنا 9) امر باالمعروف و نہی عن المنکر 10) صبر کرنا 11) ثابت قدم رہنا 12) شراب سے بچنا 13) جوئے سے بچنا 14) فال اور قسمت کا حال معلوم کرنے کے طریقوں سے بچنا 15) سود اور سودی کاروبار سے بچنا 16) نیکیوں کی کثرت کرنا 17) اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرنا 18) محبت و اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 19) کثرت سے اللہ کا ذکر کرنا 20) جہاد فی سبیل اللہ کرنا 21) توبہ کرنا 22) اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا طلبگار رہنا 23) قرابت داروں کا حق ادا کرنا 24) محتاجوں کا خیال رکھنا 25) مسافروں کی مدد کرنا 26) سچ بولنا 27) بخل و کنجوسی سے بچنا 28) نفس کا تزکیہ کرنا

اب ہم کامیاب لوگوں کی نشانیاں یا خصوصیات ایک ایک کر کے بیان کرتے ہیں:

1) ایمان

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 1
قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَۙ ۞
بیشک ایمان والے مراد پا گئے،

کونسے مومن کامیاب ہیں؟

القرآن – سورۃ نمبر 58 المجادلة, آیت نمبر 22
لَا تَجِدُ قَوۡمًا يُّؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ يُوَآدُّوۡنَ مَنۡ حَآدَّ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَلَوۡ كَانُوۡۤا اٰبَآءَهُمۡ اَوۡ اَبۡنَآءَهُمۡ اَوۡ اِخۡوَانَهُمۡ اَوۡ عَشِيۡرَتَهُمۡ‌ؕ اُولٰٓئِكَ كَتَبَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمُ الۡاِيۡمَانَ وَاَيَّدَهُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡهُ‌ ؕ وَيُدۡخِلُهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا‌ ؕ رَضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ‌ ؕ اُولٰٓئِكَ حِزۡبُ اللّٰهِ‌ ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ اللّٰهِ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ  ۞
آپ اُن لوگوں کو جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کبھی اس شخص سے دوستی کرتے ہوئے نہ پائیں گے جو اللہ اور اُس کے رسول ﷺ سے دشمنی رکھتا ہے خواہ وہ اُن کے باپ (اور دادا) ہوں یا بیٹے (اور پوتے) ہوں یا اُن کے بھائی ہوں یا اُن کے قریبی رشتہ دار ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اُس (اللہ) نے ایمان ثبت فرما دیا ہے اور انہیں اپنی روح (یعنی فیضِ خاص) سے تقویت بخشی ہے، اور انہیں (ایسی) جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ اُن میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اللہ اُن سے راضی ہو گیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے ہیں، یہی اﷲ (والوں) کی جماعت ہے، یاد رکھو! بیشک اﷲ (والوں) کی جماعت ہی مراد پانے والی ہے،

تو گویا جو لوگ ایمان کی اس کیفیت اور حالت کو حاصل کر لیتے ہیں کہ وہ دوستی اور دشمنی کا معیار اللہ تعالیٰ کی ذات کو بنا لیتے ہیں وہی دراصل حقیقی مومن ہیں جن کو قرآن کہتا ہے کہ “بے شک ایمان والے مراد پاگئے یا کامیاب ہو گئے”۔

سنن نسائی, حدیث نمبر: 4875
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُعْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ. ح وَأَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَيَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَاعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ أَحْمَدُ فِي حَدِيثِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَسْرِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ التَّوْبَةُ مَعْرُوضَةٌ بَعْدُ.
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب زنا کرنے والا زنا کرتا ہے تو زنا کے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا، جب چوری کرنے والا چوری کرتا ہے تو چوری کے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا۔ جب شراب پینے والا شراب پیتا ہے تو پیتے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا، اس کے بعد بھی اب تک اس کی توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے ۔

القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 71
وَالۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتُ بَعۡضُهُمۡ اَوۡلِيَآءُ بَعۡضٍ‌ۘ يَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَيَنۡهَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡكَرِ وَيُقِيۡمُوۡنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤۡتُوۡنَ الزَّكٰوةَ وَيُطِيۡعُوۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ‌ؕ اُولٰۤئِكَ سَيَرۡحَمُهُمُ اللّٰهُؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ ۞
اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 45 الجاثية، آیت نمبر 30
فَاَمَّا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَيُدۡخِلُهُمۡ رَبُّهُمۡ فِىۡ رَحۡمَتِهٖ‌ ؕ ذٰلِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡمُبِيۡنُ ۞
پس جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے تو اُن کا رب انہیں اپنی رحمت میں داخل فرما لے گا، یہی تو واضح کامیابی ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 64 التغابن، آیت نمبر 9
وَمَنۡ يُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰهِ وَيَعۡمَلۡ صَالِحًـا يُّكَفِّرۡ عَنۡهُ سَيِّاٰتِهٖ وَيُدۡخِلۡهُ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَاۤ اَبَدًا‌ ؕ ذٰ لِكَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیْمُ ۞
اور جو شخص اللہ پر ایمان لاتا ہے اور نیک عمل کرتا ہے تو (اللہ) اس (کے نامۂ اعمال) سے اس کی خطائیں مٹا دے گا اور اسے جنتوں میں داخل فرما دے گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے، یہ بہت بڑی کامیابی ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 85 البروج، آیت نمبر 11
اِنَّ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمۡ جَنّٰتٌ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ ؕ ذٰلِكَ الۡفَوۡزُ الۡكَبِيۡرُؕ ۞
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کے لئے جنتیں ہیں جن کے نیچے سے نہریں جاری ہیں، یہی بڑی کامیابی ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 72
وَعَدَ اللّٰهُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا وَمَسٰكِنَ طَيِّبَةً فِىۡ جَنّٰتِ عَدۡنٍ‌ ؕ وَرِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكۡبَرُ‌ ؕ ذٰ لِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ  ۞
اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے جنتوں کا وعدہ فرما لیا ہے جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اور ایسے پاکیزہ مکانات کا بھی (وعدہ فرمایا ہے) جوجنت کے خاص مقام پر سدا بہار باغات میں ہیں، اور (پھر) اللہ کی رضا اور خوشنودی (ان سب نعمتوں سے) بڑھ کر ہے (جو بڑے اجر کے طور پر نصیب ہوگی)، یہی زبردست کامیابی ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 48 الفتح، آیت نمبر 5
لِّيُدۡخِلَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا وَيُكَفِّرَ عَنۡهُمۡ سَيِّاٰتِهِمۡ‌ؕ وَكَانَ ذٰ لِكَ عِنۡدَ اللّٰهِ فَوۡزًا عَظِيۡمًا ۞
(یہ سب نعمتیں اس لئے جمع کی ہیں) تاکہ وہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو بہشتوں میں داخل فرمائے جن کے نیچے نہریں رواں ہیں (وہ) ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ اور (مزید یہ کہ) وہ ان کی لغزشوں کو (بھی) ان سے دور کر دے (جیسے اس نے ان کی خطائیں معاف کی ہیں)۔ اور یہ اﷲ کے نزدیک (مومنوں کی) بہت بڑی کامیابی ہے،

2) تقویٰ و پرہیزگاری

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 189
وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ۞
اور اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ،

ہر اس کام کو کرنا، جس کے کرنے کا دین نے حکم دیا ہے اور ہر اس کام سے رک جانا جس سے رکنے کا دین نے حکم دیا ہے اسے تقویٰ کہتے ہیں۔ اور تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنا، یہ کامیاب لوگوں کی نشانی ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 13
تِلۡكَ حُدُوۡدُ اللّٰهِ‌ ؕ وَمَنۡ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ يُدۡخِلۡهُ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا‌ ؕ وَذٰ لِكَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ ۞
یہ اللہ کی (مقرر کردہ) حدیں ہیں، اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی فرمانبرداری کرے اسے وہ بہشتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہیں ان میں ہمیشہ رہیں گے، اور یہ بڑی کامیابی ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 78 النبإ، آیت نمبر 31
اِنَّ لِلۡمُتَّقِيۡنَ مَفَازًا ۞
بیشک پرہیزگاروں کے لئے کامیابی ہے،

3) نماز
خشوع و خضوع یعنی انتہائی سکون اور دل جمعی کے ساتھ نماز ادا کرنا اور نمازوں کی حفاظت کرنا یعنی ہر ممکن کوشش کرنا کہ نماز اول وقت میں باجماعت ادا کی جائے اور کوئی نماز قضا نہ ہونے پائے، یہ کامیاب لوگوں کی نشانی ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 2
الَّذِيۡنَ هُمۡ فِىۡ صَلَاتِهِمۡ خَاشِعُوۡنَ ۞
جو لوگ اپنی نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 9
وَالَّذِيۡنَ هُمۡ عَلٰى صَلَوٰتِهِمۡ يُحَافِظُوۡنَ‌ۘ ۞
اور جو اپنی نمازوں کی (مداومت کے ساتھ) حفاظت کرنے والے ہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 22 الحج، آیت نمبر 77
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا ارۡكَعُوۡا وَاسۡجُدُوۡا وَ اعۡبُدُوۡا رَبَّكُمۡ وَافۡعَلُوۡا الۡخَيۡرَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ۩ ۞
اے ایمان والو! تم رکوع کرتے رہو اور سجود کرتے رہو، اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہو اور (دیگر) نیک کام کئے جاؤ تاکہ تم فلاح پا سکو۔

القرآن – سورۃ نمبر 20 طه, آیت نمبر 132
وَاۡمُرۡ اَهۡلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَاصۡطَبِرۡ عَلَيۡهَا‌ ؕ لَا نَسْأَلُكَ رِزۡقًا‌ ؕ نَحۡنُ نَرۡزُقُكَ‌ ؕ وَالۡعَاقِبَةُ لِلتَّقۡوٰى ۞
اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کرو اور اس پر قائم رہو۔ ہم تم سے روزی کے خواستگار نہیں۔ بلکہ تمہیں ہم روزی دیتے ہیں اور (نیک) انجام (اہل) تقویٰ کا ہے

4) بیہودہ اور بے مقصد گفتگو سے بچنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 3
وَالَّذِيۡنَ هُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَۙ ۞
اور جو بیہودہ باتوں سے (ہر وقت) کنارہ کش رہتے ہیں،

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 173
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ وَمَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُکْرِمْ جَارَهُ وَمَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُکْرِمْ ضَيْفَهُ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص کا ایمان اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ہو پس اسے چاہئے کہ وہ اچھی بات کہے یا پھر اسے خاموش رہنا چاہئے اور جس شخص کا ایمان اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ہو اسے چاہئے کہ اپنے ہمسائے کی عزت کرے اور جس شخص کا ایمان اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ہو اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1477
الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنِ اكْتُبْ إِلَيَّ بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَتَبَ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ كَرِهَ لَكُمْ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ وَقَالَ وَإِضَاعَةَ الْمَالِ وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ.
حضرت مغیرہ ؓ نے لکھا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین باتیں پسند نہیں کرتا۔ 1) بلاوجہ کی گپ شپ، 2) فضول خرچی اور 3) لوگوں سے بہت مانگنا۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 4483
عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَمَنْعًا وَهَاتِ وَکَرِهَ لَکُمْ ثَلَاثًا قِيلَ وَقَالَ وَکَثْرَةَ السُّؤَالِ وَإِضَاعَةَ الْمَالِ۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تین باتوں کو تمہارے لئے ناپسند کیا ہے 1) فضول گفتگو 2) سوال کی کثرت اور 3) مال کو ضائع کرنا۔

حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب تم اپنے دل میں سختی، بدن میں کمزوری اور رزق میں تنگی دیکھو تو جان لو کہ تم نے ضرور کوئی فضول بات منہ سے نکالی ہے۔
منہاج العابدین، صفحہ (64,65)

5) زکوٰۃ ادا کرنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 4
وَالَّذِيۡنَ هُمۡ لِلزَّكٰوةِ فَاعِلُوۡنَۙ ۞
اور جو (ہمیشہ) زکوٰۃ ادا (کر کے اپنی جان و مال کو پاک) کرتے رہتے ہیں،

6) شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 5
وَالَّذِيۡنَ هُمۡ لِفُرُوۡجِهِمۡ حٰفِظُوۡنَۙ ۞
اور جو (دائماً) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 6
اِلَّا عَلٰٓى اَزۡوَاجِهِمۡ اَوۡ مَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُهُمۡ فَاِنَّهُمۡ غَيۡرُ مَلُوۡمِيۡنَ‌ۚ‏ ۞
سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بیشک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 7
فَمَنِ ابۡتَغٰى وَرَآءَ ذٰ لِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡعٰدُوۡنَ‌ ۞
پھر جو شخص ان (حلال عورتوں) کے سوا کسی اور کا خواہش مند ہوا تو ایسے لوگ ہی حد سے تجاوز کرنے والے (سرکش) ہیں،

دینِ اسلام نے جو عورتیں ایک مرد کے لئے حلال کی ہیں ان کے علاوہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنا، اپنے نفس کو بری خواہشات، زنا، اور بدکاری سے بچانا کامیاب لوگوں کی نشانی ہے۔

7) امانت میں خیانت نہ کرنے والے 8) وعدوں کی پاسداری کرنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 8
وَالَّذِيۡنَ هُمۡ لِاَمٰنٰتِهِمۡ وَعَهۡدِهِمۡ رَاعُوۡنَ ۞
اور جو لوگ اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے والے ہیں،

صحیح بخاری, حدیث نمبر: 33
‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ، ‏‏‏‏‏‏إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ.

حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، منافق کی علامتیں تین ہیں۔ 1) جب بات کرے جھوٹ بولے، 2) جب وعدہ کرے اس کے خلاف کرے اور 3) جب اس کو امین بنایا جائے تو خیانت کرے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2397
‏‏‏‏أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَدْعُو فِي الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏وَيَقُولُ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ قَائِلٌ:‏‏‏‏ مَا أَكْثَرَ مَا تَسْتَعِيذُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مِنَ الْمَغْرَمِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا غَرِمَ حَدَّثَ، ‏‏‏‏‏‏فَكَذَبَ، ‏‏‏‏‏‏وَوَعَدَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخْلَفَ.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں دعا کرتے تو یہ بھی کہتے اے اللہ! میں گناہ اور قرض سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ قرض سے اتنی پناہ مانگتے ہیں؟ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ جب آدمی مقروض ہوتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کر کے اس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

9) امر باالمعروف و نہی عن المنکر کرنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 104
وَلۡتَكُنۡ مِّنۡكُمۡ اُمَّةٌ يَّدۡعُوۡنَ اِلَى الۡخَيۡرِ وَيَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَيَنۡهَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡكَرِ‌ؕ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‏ ۞
اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں،

مسند احمد، حدیث نمبر: 8004
حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ حَدَّثَنَا الْمُبَارَكُ بْنُ فُضَالَةَ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ لَا أَعْلَمُهُ إِلَّا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كُلُّ سُلَامَى مِنْ ابْنِ آدَمَ صَدَقَةٌ حِينَ يُصْبِحُ فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ سَلَامَكَ عَلَى عِبَادِ اللَّهِ صَدَقَةٌ وَإِمَاطَتَكَ الْأَذَى عَنْ الطَّرِيقِ صَدَقَةٌ وَإِنَّ أَمْرَكَ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ وَنَهْيَكَ عَنْ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ وَحَدَّثَ أَشْيَاءَ مِنْ نَحْوِ هَذَا لَمْ أَحْفَظْهَا
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا انسان کے ہر جوڑ پر صبح کے وقت صدقہ واجب ہوتا ہے مسلمانوں کو یہ بات بڑی مشکل معلوم ہوئی نبی کریم ﷺ نے فرمایا تمہارا اللہ کے بندوں کو سلام کرنا بھی صدقہ ہے راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا بھی صدقہ ہے امر باالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا بھی صدقہ ہے اس کے علاوہ بھی کچھ چیزیں بیان فرمائیں جو مجھے یاد نہیں رہیں۔

10) سود اور سودی کاروبار سے بچنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 130
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡكُلُوا الرِّبٰٓوا اَضۡعَافًا مُّضٰعَفَةً ‌ ۖ وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ‌ۚ ۞
اے ایمان والو! دوگنا اور چوگنا کر کے سود مت کھایا کرو، اور اللہ سے ڈرا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ،

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 4092
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آکِلَ الرِّبَا وَمُؤْکِلَهُ قَالَ قُلْتُ وَکَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ قَالَ إِنَّمَا نُحَدِّثُ بِمَا سَمِعْنَا
حضرت عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے یا کھلانے والے پر لعنت فرمائی۔ کہتے ہیں، میں نے عرض کیا اس کے لکھنے والا اور اس کے گواہ تو کہا ہم تو وہی بیان کرتے ہیں جو ہم نے سنا۔

11) صبر کرنے والے 12) ثابت قدم رہنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 200
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اصۡبِرُوۡا وَصَابِرُوۡا وَرَابِطُوۡا وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ  ۞
اے ایمان والو! صبر کرو اور ثابت قدمی میں (دشمن سے بھی) زیادہ محنت کرو اور (جہاد کے لئے) خوب مستعد رہو، اور (ہمیشہ) اللہ کا تقوٰی قائم رکھو تاکہ تم کامیاب ہو سکو،

13) شراب نوشی سے بچنے والے 14) جوئے سے بچنے والے 15) فال اور قسمت کا حال معلوم کرنے سے بچنے والے

القرآن – سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 90
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَالۡمَيۡسِرُ وَالۡاَنۡصَابُ وَالۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّيۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡهُ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ۞
اے ایمان والو! بیشک شراب اور جُوا اور (عبادت کے لئے) نصب کئے گئے بُت اور (قسمت معلوم کرنے کے لئے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں۔ سو تم ان سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ،

اور ایک حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے کہ شراب پینے والا پیتے وقت حالتِ ایمان میں نہیں ہوتا جب تک کہ وہ توبہ نہ کر لے۔ چور، چوری کرتے وقت حالتِ ایمان میں نہیں ہوتا جب تک کہ وہ توبہ نہ کر لے۔ اور زانی، زنا کرتے وقت حالتِ ایمان میں نہیں ہوتا جب تک کہ وہ توبہ نہ کر لے۔

16) کثرت سے نیکیاں کرنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 8
وَالۡوَزۡنُ يَوۡمَئِذِ اۨلۡحَـقُّ‌ ۚ فَمَنۡ ثَقُلَتۡ مَوَازِيۡنُهٗ فَاُولٰۤئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‏ ۞
اور اس دن (اعمال کا) تولا جانا حق ہے، سو جن کے (نیکیوں کے) پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ کامیاب ہوں گے،

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 102
فَمَنۡ ثَقُلَتۡ مَوَازِيۡنُهٗ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ۞
پس جن کے پلڑے (زیادہ اعمال کے باعث) بھاری ہوں گے تو وہی لوگ کامیاب و کامران ہوں گے،

17) کثرت سے اللہ کی نعمتوں کو یاد کرنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 69
فَاذۡكُرُوۡۤا اٰ لَۤاءَ اللّٰهِ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ۞
سو تم اﷲ کی نعمتوں کو یاد کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ،

القرآن – سورۃ نمبر 14 ابراهيم، آیت نمبر 34
وَاِنۡ تَعُدُّوۡا نِعۡمَتَ اللّٰهِ لَا تُحۡصُوۡهَا ؕ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَـظَلُوۡمٌ كَفَّارٌ  ۞
اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو (تو) پورا شمار نہ کر سکو گے، بیشک انسان بڑا ہی ظالم بڑا ہی ناشکرگزار ہے،۔

18) محبت و اطاعت رسول میں سرِ تسلیم خم کرنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 157
فَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا بِهٖ وَعَزَّرُوۡهُ وَنَصَرُوۡهُ وَ اتَّبَـعُوا النُّوۡرَ الَّذِىۡۤ اُنۡزِلَ مَعَهٗ ۤ‌ ۙ اُولٰۤئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ  ۞
پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نورِ (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 24 النور، آیت نمبر 51
اِنَّمَا كَانَ قَوۡلَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اِذَا دُعُوۡۤا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ لِيَحۡكُمَ بَيۡنَهُمۡ اَنۡ يَّقُوۡلُوۡا سَمِعۡنَا وَاَطَعۡنَا‌ؕ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ۞
ایمان والوں کی بات تو فقط یہ ہوتی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے تو وہ یہی کچھ کہیں کہ ہم نے سن لیا، اور ہم (سراپا) اطاعت پیرا ہو گئے، اور ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب، آیت نمبر 71
وَمَنۡ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ فَقَدۡ فَازَ فَوۡزًا عَظِيۡمًا ۞
اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتا ہے تو بیشک وہ بڑی کامیابی سے سرفراز ہوا،

19) کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال، آیت نمبر 45
وَاذۡكُرُوا اللّٰهَ كَثِيۡرًا لَّعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ‌ۚ ۞
اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ،

20) جہاد فی سبیل اللہ کرنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 88
لٰـكِنِ الرَّسُوۡلُ وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَهٗ جَاهَدُوۡا بِاَمۡوَالِهِمۡ وَاَنۡفُسِهِمۡ‌ؕ وَاُولٰۤئِكَ لَهُمُ الۡخَيۡـرٰتُ‌ وَاُولٰۤئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‏ ۞
لیکن رسول ﷺ اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کرتے ہیں اور انہی لوگوں کے لئے سب بھلائیاں ہیں اور وہی لوگ مراد پانے والے ہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 111
اِنَّ اللّٰهَ اشۡتَرٰى مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اَنۡفُسَهُمۡ وَاَمۡوَالَهُمۡ بِاَنَّ لَهُمُ الۡجَــنَّةَ‌ ؕ يُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ فَيَقۡتُلُوۡنَ وَ يُقۡتَلُوۡنَ‌وَعۡدًا عَلَيۡهِ حَقًّا فِى التَّوۡرٰٮةِ وَالۡاِنۡجِيۡلِ وَالۡقُرۡاٰنِ‌ ؕ وَمَنۡ اَوۡفٰى بِعَهۡدِهٖ مِنَ اللّٰهِ فَاسۡتَـبۡشِرُوۡا بِبَيۡعِكُمُ الَّذِىۡ بَايَعۡتُمۡ بِهٖ‌ ؕ وَذٰ لِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ ۞
بیشک اﷲ نے اہلِ ایمان سے ان کی جانیں اور ان کے مال، ان کے لئے جنت کے عوض خرید لئے ہیں، (اب) وہ اللہ کی راہ میں قتال کرتے ہیں، سو وہ (حق کی خاطر) قتل کرتے ہیں اور (خود بھی) قتل کئے جاتے ہیں۔ (اﷲ نے) اپنے ذمۂ کرم پر پختہ وعدہ (لیا) ہے، تَورات میں (بھی) انجیل میں (بھی) اور قرآن میں (بھی)، اور کون اپنے وعدہ کو اﷲ سے زیادہ پورا کرنے والا ہے، سو (ایمان والو!) تم اپنے سودے پر خوشیاں مناؤ جس کے عوض تم نے (جان و مال کو) بیچا ہے، اور یہی تو زبردست کامیابی ہے،

21) توبہ کرنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 24 النور، آیت نمبر 31
وَتُوۡبُوۡۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِيۡعًا اَيُّهَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ۞
اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم فلاح پا جاؤ،

القرآن – سورۃ نمبر 28 القصص، آیت نمبر 67
فَاَمَّا مَنۡ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًـا فَعَسٰٓى اَنۡ يَّكُوۡنَ مِنَ الۡمُفۡلِحِيۡنَ ۞
لیکن جس نے توبہ کر لی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیا تو یقیناً وہ فلاح پانے والوں میں سے ہوگا،

22) اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے طالب: 23) قریبی رشتوں، 24) محتاجوں اور 25) مسافروں کا خیال رکھنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 30 الروم، آیت نمبر 38
فَاٰتِ ذَا الۡقُرۡبٰى حَقَّهٗ وَ الۡمِسۡكِيۡنَ وَابۡنَ السَّبِيۡلِ‌ؕ ذٰلِكَ خَيۡرٌ لِّلَّذِيۡنَ يُرِيۡدُوۡنَ وَجۡهَ اللّٰهِ‌ۖ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‏ ۞
پس آپ قرابت دار کو اس کا حق ادا کرتے رہیں اور محتاج اور مسافر کو (ان کا حق)، یہ ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو اﷲ کی رضامندی کے طالب ہیں، اور وہی لوگ مراد پانے والے ہیں،

صحیح بخاری, حدیث نمبر: 5984
النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعٌ.
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قطع رحمی کرنے (رشتوں کو توڑنے) والا جنت میں نہیں جائے گا۔

ایک حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے کہ خونی رشتہ اللہ کے عرش کے ساتھ جڑا ہوا ہوتا ہے۔ جو اس خونی رشتے کو جوڑتا ہے اس کا تعلق اللہ کے عرش کے ساتھ جڑ جاتا ہے اور جو اس خونی رشتے کو توڑتا ہے اس کا تعلق اللہ کے عرش سے ٹوٹ جاتا ہے۔

اسی طرح ایک حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے کہ جو شخص خونی رشتوں کا لحاظ کرتا ہے اور ان کو جوڑے رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عمر میں اور اس کے رزق میں برکت پیدا کر دیتا ہے۔

26) سچ بولنے والے

القرآن – سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 119
قَالَ اللّٰهُ هٰذَا يَوۡمُ يَـنۡفَعُ الصّٰدِقِيۡنَ صِدۡقُهُمۡ‌ؕ لَهُمۡ جَنّٰتٌ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَاۤ اَبَدًا‌ ؕ رَضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ‌ ؕ ذٰ لِكَ الۡـفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ ۞
اللہ فرمائے گا: یہ ایسا دن ہے (جس میں) سچے لوگوں کو ان کا سچ فائدہ دے گا، ان کے لئے جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ اﷲ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے، یہی (رضائے الٰہی) سب سے بڑی کامیابی ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 87
وَمَنۡ اَصۡدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِيۡثًا  ۞
اور اللہ سے بات میں زیادہ سچا کون ہے،۔

27) بخل و کنجوسی سے بچنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 100
قُلْ لَّوۡ اَنۡـتُمۡ تَمۡلِكُوۡنَ خَزَآئِنَ رَحۡمَةِ رَبِّىۡۤ اِذًا لَّاَمۡسَكۡتُمۡ خَشۡيَةَ الۡاِنۡفَاقِ‌ ؕ وَكَانَ الۡاِنۡسَانُ قَتُوۡرًا ۞
فرما دیجئے: اگر تم میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے تو تب بھی (سب) خرچ ہوجانے کے خوف سے تم (اپنے ہاتھ) روکے رکھتے، اور انسان بہت ہی تنگ دل اور بخیل واقع ہوا ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 59 الحشر، آیت نمبر 9
وَمَنۡ يُّوۡقَ شُحَّ نَـفۡسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‌ۚ ۞
اور جو شخص اپنے نفس کے بُخل سے بچا لیا گیا پس وہی لوگ ہی بامراد و کامیاب ہیں،

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1963
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ مُوسَى، عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ، عَنْ مُرَّةَ الطَّيِّبِ، عَنْأَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ خِبٌّ وَلَا مَنَّانٌ وَلَا بَخِيلٌ۔ ‏
ابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: دھوکہ باز، احسان جتانے والا اور بخیل جنت میں نہیں داخل ہوں گے ۔

28) نفس کا تزکیہ کرنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 87 الأعلى، آیت نمبر 14
قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ تَزَكّٰىۙ ۞
بیشک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیا،

القرآن – سورۃ نمبر 91 الشمس، آیت نمبر 9
قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَكّٰٮهَا ۞
بیشک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشو و نما کی)،

کامیاب لوگوں کا اجر کیا ہے؟

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 10
اُولٰٓئِكَ هُمُ الْوٰرِثُوْن ۞
یہی لوگ (جنت کے) وارث ہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 11
الَّذِيۡنَ يَرِثُوۡنَ الۡفِرۡدَوۡسَؕ هُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ ۞
یہ لوگ جنت کے سب سے اعلیٰ باغات (جنت الفردوس) کی وراثت (بھی) پائیں گے، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے،

مختصر خاکہ:
1) ایمان 2) تقویٰ و پرہیزگاری 3) نماز قائم کرنا 4) بیہودہ اور بے مقصد گفتگو سے بچنا 5) زکوٰۃ ادا کرنا 6) شرم گاہوں کی حفاظت کرنا 7) امانت میں خیانت نہ کرنا 8) وعدوں کی پاسداری کرنا 9) امر باالمعروف و نہی عن المنکر 10) صبر کرنا 11) ثابت قدم رہنا 12) شراب سے بچنا 13) جوئے سے بچنا 14) فال اور قسمت کا حال معلوم کرنے کے طریقوں سے بچنا 15) سود اور سودی کاروبار سے بچنا 16) نیکیوں کی کثرت کرنا 17) اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرنا 18) محبت و اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 19) کثرت سے اللہ کا ذکر کرنا 20) جہاد فی سبیل اللہ کرنا 21) توبہ کرنا 22) اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا طلبگار رہنا 23) قرابت داروں کا حق ادا کرنا 24) محتاجوں کا خیال رکھنا 25) مسافروں کی مدد کرنا 26) سچ بولنا 27) بخل و کنجوسی سے بچنا 28) نفس کا تزکیہ کرنا

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقی معنوں میں کامیابی اور ناکامی کے تصور کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ہر عمل اس حقیقی کامیابی کے حصول کے لیے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

کامیاب لوگوں کی 27 نشانیاں – قرآنی آیات کی روشنی میںجمعۃ المبارک، 13 جمادی الآخر 1444ھ، بمطابق 06 جنوری 2023

ہر انسان کامیاب ہونا چاہتا ہے۔ ہر انسان نے اپنے ذہن میں کامیابی کا ایک تصور بنا رکھا ہوتا ہے اور اس تصور کے مطابق وہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہر وقت کوشاں رہتا ہے۔ بعض اوقات انسان اپنے قائم کردہ تصور کے مطابق کامیابی حاصل کرنے کے باوجود مطمئن نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جو کامیابی اور ناکامی کا معیار اس نے اپنے لیے قائم کیا ہوتا ہے وہ غلط ہوتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ حقیقی کامیابی کیا ہے؟ اس سوال کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے مگر اس مضمون میں ہم قرآنی آیات کی روشنی میں کامیاب لوگوں کی 27 نشانیاں بیان کریں گے۔

مختصر خاکہ:

1) ایمان 2) تقویٰ و پرہیزگاری 3) نماز قائم کرنا 4) بیہودہ اور بے مقصد گفتگو سے بچنا 5) زکوٰۃ ادا کرنا 6) شرم گاہوں کی حفاظت کرنا 7) امانت میں خیانت نہ کرنا 8) وعدوں کی پاسداری کرنا 9) امر باالمعروف و نہی عن المنکر 10) صبر کرنا 11) ثابت قدم رہنا 12) شراب سے بچنا 13) جوئے سے بچنا 14) فال اور قسمت کا حال معلوم کرنے کے طریقوں سے بچنا 15) سود اور سودی کاروبار سے بچنا 16) نیکیوں کی کثرت کرنا 17) اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرنا 18) محبت و اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 19) کثرت سے اللہ کا ذکر کرنا 20) جہاد فی سبیل اللہ کرنا 21) توبہ کرنا 22) اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کا طلبگار رہنا 23) قرابت داروں کا حق ادا کرنا 24) محتاجوں کا خیال رکھنا 25) مسافروں کی مدد کرنا 26) بخل و کنجوسی سے بچنا 27) نفس کا تزکیہ کرنا

اب ہم کامیاب لوگوں کی 27 نشانیاں ایک ایک کر کے بیان کرتے ہیں:

1) ایمان

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 1
قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَۙ ۞
بیشک ایمان والے مراد پا گئے،

کونسے مومن کامیاب ہیں؟

القرآن – سورۃ نمبر 58 المجادلة, آیت نمبر 22
لَا تَجِدُ قَوۡمًا يُّؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ يُوَآدُّوۡنَ مَنۡ حَآدَّ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَلَوۡ كَانُوۡۤا اٰبَآءَهُمۡ اَوۡ اَبۡنَآءَهُمۡ اَوۡ اِخۡوَانَهُمۡ اَوۡ عَشِيۡرَتَهُمۡ‌ؕ اُولٰٓئِكَ كَتَبَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمُ الۡاِيۡمَانَ وَاَيَّدَهُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡهُ‌ ؕ وَيُدۡخِلُهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا‌ ؕ رَضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ‌ ؕ اُولٰٓئِكَ حِزۡبُ اللّٰهِ‌ ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ اللّٰهِ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ  ۞
آپ اُن لوگوں کو جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کبھی اس شخص سے دوستی کرتے ہوئے نہ پائیں گے جو اللہ اور اُس کے رسول ﷺ سے دشمنی رکھتا ہے خواہ وہ اُن کے باپ (اور دادا) ہوں یا بیٹے (اور پوتے) ہوں یا اُن کے بھائی ہوں یا اُن کے قریبی رشتہ دار ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اُس (اللہ) نے ایمان ثبت فرما دیا ہے اور انہیں اپنی روح (یعنی فیضِ خاص) سے تقویت بخشی ہے، اور انہیں (ایسی) جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ اُن میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اللہ اُن سے راضی ہو گیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے ہیں، یہی اﷲ (والوں) کی جماعت ہے، یاد رکھو! بیشک اﷲ (والوں) کی جماعت ہی مراد پانے والی ہے،

تو گویا جو لوگ ایمان کی اس کیفیت اور حالت کو حاصل کر لیتے ہیں کہ وہ دوستی اور دشمنی کا معیار اللہ تعالیٰ کی ذات کو بنا لیتے ہیں وہی دراصل حقیقی مومن ہیں جن کو قرآن کہتا ہے کہ “بے شک ایمان والے مراد پاگئے یا کامیاب ہو گئے”۔

سنن نسائی, حدیث نمبر: 4875
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ شُعْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ. ح وَأَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَيَّارٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَاعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي صَالِحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ أَحْمَدُ فِي حَدِيثِهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَسْرِقُ حِينَ يَسْرِقُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ التَّوْبَةُ مَعْرُوضَةٌ بَعْدُ.
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب زنا کرنے والا زنا کرتا ہے تو زنا کے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا، جب چوری کرنے والا چوری کرتا ہے تو چوری کے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا۔ جب شراب پینے والا شراب پیتا ہے تو پیتے وقت اس کا ایمان نہیں رہتا، اس کے بعد بھی اب تک اس کی توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے ۔

2) تقویٰ و پرہیزگاری

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 189
وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ۞
اور اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ،

ہر اس کام کو کرنا، جس کے کرنے کا دین نے حکم دیا ہے اور ہر اس کام سے رک جانا جس سے رکنے کا دین نے حکم دیا ہے اسے تقویٰ کہتے ہیں۔ اور تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرنا، یہ کامیاب لوگوں کی نشانی ہے۔

3) نماز
خشوع و خضوع یعنی انتہائی سکون اور دل جمعی کے ساتھ نماز ادا کرنا اور نمازوں کی حفاظت کرنا یعنی ہر ممکن کوشش کرنا کہ نماز اول وقت میں باجماعت ادا کی جائے اور کوئی نماز قضا نہ ہونے پائے، یہ کامیاب لوگوں کی نشانی ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 2
الَّذِيۡنَ هُمۡ فِىۡ صَلَاتِهِمۡ خَاشِعُوۡنَ ۞
جو لوگ اپنی نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 9
وَالَّذِيۡنَ هُمۡ عَلٰى صَلَوٰتِهِمۡ يُحَافِظُوۡنَ‌ۘ ۞
اور جو اپنی نمازوں کی (مداومت کے ساتھ) حفاظت کرنے والے ہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 22 الحج، آیت نمبر 77
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا ارۡكَعُوۡا وَاسۡجُدُوۡا وَ اعۡبُدُوۡا رَبَّكُمۡ وَافۡعَلُوۡا الۡخَيۡرَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ۩ ۞
اے ایمان والو! تم رکوع کرتے رہو اور سجود کرتے رہو، اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہو اور (دیگر) نیک کام کئے جاؤ تاکہ تم فلاح پا سکو۔

4) بیہودہ اور بے مقصد گفتگو سے بچنا

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 3
وَالَّذِيۡنَ هُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَۙ ۞
اور جو بیہودہ باتوں سے (ہر وقت) کنارہ کش رہتے ہیں،

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 173
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ وَمَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُکْرِمْ جَارَهُ وَمَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُکْرِمْ ضَيْفَهُ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص کا ایمان اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ہو پس اسے چاہئے کہ وہ اچھی بات کہے یا پھر اسے خاموش رہنا چاہئے اور جس شخص کا ایمان اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ہو اسے چاہئے کہ اپنے ہمسائے کی عزت کرے اور جس شخص کا ایمان اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ہو اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1477
الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنِ اكْتُبْ إِلَيَّ بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَتَبَ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ كَرِهَ لَكُمْ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ وَقَالَ وَإِضَاعَةَ الْمَالِ وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ.
حضرت مغیرہ ؓ نے لکھا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین باتیں پسند نہیں کرتا۔ 1) بلاوجہ کی گپ شپ، 2) فضول خرچی اور 3) لوگوں سے بہت مانگنا۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 4483
عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَمَنْعًا وَهَاتِ وَکَرِهَ لَکُمْ ثَلَاثًا قِيلَ وَقَالَ وَکَثْرَةَ السُّؤَالِ وَإِضَاعَةَ الْمَالِ۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تین باتوں کو تمہارے لئے ناپسند کیا ہے 1) فضول گفتگو 2) سوال کی کثرت اور 3) مال کو ضائع کرنا۔

حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب تم اپنے دل میں سختی، بدن میں کمزوری اور رزق میں تنگی دیکھو تو جان لو کہ تم نے ضرور کوئی فضول بات منہ سے نکالی ہے۔
منہاج العابدین، صفحہ (64,65)

5) زکوٰۃ ادا کرنا:

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 4
وَالَّذِيۡنَ هُمۡ لِلزَّكٰوةِ فَاعِلُوۡنَۙ ۞
اور جو (ہمیشہ) زکوٰۃ ادا (کر کے اپنی جان و مال کو پاک) کرتے رہتے ہیں،

6) شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے:

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 5
وَالَّذِيۡنَ هُمۡ لِفُرُوۡجِهِمۡ حٰفِظُوۡنَۙ ۞
اور جو (دائماً) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 6
اِلَّا عَلٰٓى اَزۡوَاجِهِمۡ اَوۡ مَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُهُمۡ فَاِنَّهُمۡ غَيۡرُ مَلُوۡمِيۡنَ‌ۚ‏ ۞
سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بیشک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں،

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 7
فَمَنِ ابۡتَغٰى وَرَآءَ ذٰ لِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡعٰدُوۡنَ‌ ۞
پھر جو شخص ان (حلال عورتوں) کے سوا کسی اور کا خواہش مند ہوا تو ایسے لوگ ہی حد سے تجاوز کرنے والے (سرکش) ہیں،

دینِ اسلام نے جو عورتیں ایک مرد کے لئے حلال کی ہیں ان کے علاوہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنا، اپنے نفس کو بری خواہشات، زنا، اور بدکاری سے بچانا کامیاب لوگوں کی نشانی ہے۔

جاری ہے ۔۔۔۔ (بقیہ انشاء اللہ اگلے جمعۃ المبارک پہ)

اللہ کے نا پسندیدہ لوگوں کی بارہ (12) نشانیاں – قرآنی آیات کی روشنی میں۔ جمعۃ المبارک، 28 جمادی الاول 1444ھ، بمطابق23 دسمبر 2022ء

انسان کی زندگی کا واحد مقصد اللہ رب العزت کو راضی کرنا ہے اور اگر انسان اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب بندوں میں شامل ہو جائے تو اس نے گویا دنیا و آخرت کی ساری بھلائیاں حاصل کر لیں۔ پچھلے مضمون میں ہم نے قرآن حکیم کی آیات کی روشنی میں اللہ کے محبوب بندوں کی 14 نشانیاں بیان کی تھیں جن کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے۔

اللہ کے محبوب بندوں کی چودہ (14) نشانیاں:
1) ایمان 2) احسان 3) انفاق فی سبیل اللہ 4) ضبطِ غیض 5) درگزر 6) توبہ 7) طہارت 8) ایفائے عہد 9) تقویٰ 10) صبر 11) توکل 12) عدل 13) جہاد فی سبیل اللہ 14) اطاعت

آج ہم قرآنی آیات کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ لوگوں کی 12 نشانیاں بیان کریں گے۔ طالبانِ حق کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ ان باتوں سے بچیں کہ کہیں وہ خدانخواستہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ناپسندیدہ لوگوں میں شامل نہ ہو جائیں۔

1) کفر: اللہ کفر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا

القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 32
قُلۡ اَطِيۡعُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوۡلَ‌‌ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الۡكٰفِرِيۡنَ ۞
آپ فرما دیں کہ اﷲ اور رسول ﷺ کی اطاعت کرو پھر اگر وہ روگردانی کریں تو اﷲ کافروں کو پسند نہیں کرتا،

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 29
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أُرِيتُ النَّارَ فَإِذَا أَكْثَرُ أَهْلِهَا النِّسَاءُ يَكْفُرْنَ، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ:‏‏‏‏ أَيَكْفُرْنَ بِاللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ، ‏‏‏‏‏‏وَيَكْفُرْنَ الْإِحْسَانَ لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ.
عبداللہ ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا مجھے دوزخ دکھلائی گئی تو اس میں زیادہ تر عورتیں تھیں جو کفر کرتی ہیں۔ کہا گیا یا رسول اللہ! کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ خاوند کی ناشکری کرتی ہیں۔ اور احسان کی ناشکری کرتی ہیں۔ اگر تم عمر بھر ان میں سے کسی کے ساتھ احسان کرتے رہو۔ پھر تمہاری طرف سے کبھی کوئی ان کے خیال میں ناگواری کی بات ہوجائے تو فوراً کہہ اٹھے گی کہ میں نے کبھی بھی تجھ سے کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 48 ‏‏‏‏
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقِتَالُهُ كُفْرٌ.
عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان کو گالی دینے سے آدمی فاسق ہوجاتا ہے اور مسلمان سے لڑنا کفر ہے۔

2) ظلم: اللہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا

القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 57
وَاَمَّا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَيُوَفِّيۡهِمۡ اُجُوۡرَهُمۡ‌ؕ وَ اللّٰهُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيۡنَ ۞
اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے تو (اﷲ) انہیں ان کا بھرپور اجر دے گا، اور اﷲ ظالموں کو پسند نہیں کرتا،

مسند احمد، حدیث نمبر: 3579
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ لَهِيعَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي جَعْفَرٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الظُّلْمِ أَعْظَمُ قَالَ ذِرَاعٌ مِنْ الْأَرْضِ يَنْتَقِصُهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ فَلَيْسَتْ حَصَاةٌ مِنْ الْأَرْضِ أَخَذَهَا إِلَّا طُوِّقَهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَى قَعْرِ الْأَرْضِ وَلَا يَعْلَمُ قَعْرَهَا إِلَّا الَّذِي خَلَقَهَا
حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! ﷺ سب سے بڑا ظلم کیا ہے؟ نبی ﷺ نے فرمایا زمین کا وہ ایک گز جو کوئی آدمی اپنے بھائی کے حق کو کم کر کے لے لے، زمین کی گہرائی تک اس کی ایک ایک کنکری کو قیامت کے دن اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈالا جائے گا اور زمین کی گہرائی کا علم صرف اسی ذات کو ہے جس نے زمین کو پیدا کیا ہے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2444
‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏هَذَا نَنْصُرُهُ مَظْلُومًا، ‏‏‏‏‏‏فَكَيْفَ نَنْصُرُهُ ظَالِمًا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ تَأْخُذُ فَوْقَ يَدَيْهِ.
حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! ہم مظلوم کی تو مدد کرسکتے ہیں۔ لیکن ظالم کی مدد کس طرح کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑ لو (یہی اس کی مدد ہے) ۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2452
سَعِيدَ بْنَ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ مَنْ ظَلَمَ مِنَ الْأَرْضِ شَيْئًا طُوِّقَهُ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ.
آپ ﷺ نے فرمایا جس نے کسی کی زمین ظلم سے لے لی، اسے قیامت کے دن سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔

3) نافرمانی: اللہ نافرمان لوگوں کو پسند نہیں کرتا

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 276
وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيۡمٍ ۞
اور اﷲ کسی بھی ناسپاس نافرمان کو پسند نہیں کرتا،

مسند احمد، حدیث نمبر: 1584
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ حَدَّثَنِي قَاصُّ أَهْلِ فِلَسْطِينَ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ يَقُولُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ثَلَاثٌ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ إِنْ كُنْتُ لَحَالِفًا عَلَيْهِنَّ لَا يَنْقُصُ مَالٌ مِنْ صَدَقَةٍ فَتَصَدَّقُوا وَلَا يَعْفُو عَبْدٌ عَنْ مَظْلَمَةٍ يَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ بِهَا و قَالَ أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ إِلَّا زَادَهُ اللَّهُ بِهَا عِزًّا يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يَفْتَحُ عَبْدٌ بَابَ مَسْأَلَةٍ إِلَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ بَابَ فَقْرٍ

حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم! جس کے قبضے میں محمد ﷺ کی جان ہے، تین چیزیں ایسی ہیں جن پر میں قسم کھا سکتا ہوں، ایک تو یہ کہ صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا اس لئے صدقہ دیا کرو، دوسری یہ کہ جو شخص کسی ظلم پر ظالم کو صرف رضاء الٰہی کے لئے معاف کر دے، اللہ تعالیٰ اس کی عزت میں اضافہ فرمائے گا اور تیسری یہ کہ جو شخص ایک مرتبہ مانگنے کا دروازہ کھول لیتا ہے، اللہ اس پر تنگدستی کا دروازہ کھول دیتا ہے۔

4) حدود سے تجاوز: اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 190
وَقَاتِلُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ الَّذِيۡنَ يُقَاتِلُوۡنَكُمۡ وَلَا تَعۡتَدُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الۡمُعۡتَدِيۡنَ ۞
اور اﷲ کی راہ میں ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں (ہاں) مگر حد سے نہ بڑھو، بیشک اﷲ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا،

القرآن – سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 87
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُحَرِّمُوۡا طَيِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَـكُمۡ وَلَا تَعۡتَدُوۡا‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الۡمُعۡتَدِيۡنَ ۞
اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں انہیں (اپنے اوپر) حرام مت ٹھہراؤ اور نہ (ہی) حد سے بڑھو، بیشک اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا،

القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 55
اُدۡعُوۡا رَبَّكُمۡ تَضَرُّعًا وَّخُفۡيَةً‌ ؕ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الۡمُعۡتَدِيۡنَ‌ ۞
تم اپنے رب سے گڑگڑا کر اور آہستہ (دونوں طریقوں سے) دعا کیا کرو، بیشک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا،

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 7
فَمَنِ ابۡتَغٰى وَرَآءَ ذٰ لِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡعٰدُوۡنَ‌ ۞
پھر جو شخص ان (حلال عورتوں) کے سوا کسی اور کا خواہش مند ہوا تو ایسے لوگ ہی حد سے تجاوز کرنے والے (سرکش) ہیں،

5) فساد: اللہ فساد پھیلانے والوں کو پسند نہیں کرتا

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 205
وَاِذَا تَوَلّٰى سَعٰى فِى الۡاَرۡضِ لِيُفۡسِدَ فِيۡهَا وَيُهۡلِكَ الۡحَـرۡثَ وَالنَّسۡلَ‌ؕ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الۡفَسَادَ ۞
اور جب وہ (آپ سے) پھر جاتا ہے تو زمین میں (ہر ممکن) بھاگ دوڑ کرتا ہے تاکہ اس میں فساد انگیزی کرے اور کھیتیاں اور جانیں تباہ کر دے، اور اﷲ فساد کو پسند نہیں فرماتا،

القرآن – سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 64
وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الۡمُفۡسِدِيۡنَ ۞
اور اﷲ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا،

القرآن – سورۃ نمبر 28 القصص، آیت نمبر 77
وَلَا تَبۡغِ الۡـفَسَادَ فِى الۡاَرۡضِ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الۡمُفۡسِدِيۡنَ ۞
اور زمین میں فساد انگیزی (کی راہیں) تلاش نہ کر، بیشک اللہ فساد بپا کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا،

6) بددیانتی اور 7) بدکاری: اللہ بددیانت اور بدکردار لوگوں کو پسند نہیں کرتا

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 107
اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنۡ كَانَ خَوَّانًا اَثِيۡمًا ۞
بیشک اللہ کسی (ایسے شخص) کو پسند نہیں فرماتا جو بڑا بددیانت اور بدکار ہے،

8) برائی کا اعلانیہ اظہار کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 148
لَا يُحِبُّ اللّٰهُ الۡجَــهۡرَ بِالسُّوۡٓءِ مِنَ الۡقَوۡلِ اِلَّا مَنۡ ظُلِمَ‌ؕ وَكَانَ اللّٰهُ سَمِيۡعًا عَلِيۡمًا‏ ۞
اﷲ کسی (کی) بری بات کا بآوازِ بلند (ظاہراً و علانیۃً) کہنا پسند نہیں فرماتا سوائے اس کے جس پر ظلم ہوا ہو (اسے ظالم کا ظلم آشکار کرنے کی اجازت ہے)، اور اﷲ خوب سننے والا جاننے والا ہے،

9) فضول خرچی: اللہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا

القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام، آیت نمبر 141
وَلَا تُسۡرِفُوۡا‌ ؕ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الۡمُسۡرِفِيۡنَ ۞
اور فضول خرچی نہ کیا کرو، بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا،

القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 31
يٰبَنِىۡۤ اٰدَمَ خُذُوۡا زِيۡنَتَكُمۡ عِنۡدَ كُلِّ مَسۡجِدٍ وَّكُلُوۡا وَاشۡرَبُوۡا وَلَا تُسۡرِفُوۡا‌ ۚ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الۡمُسۡرِفِيۡنَ  ۞
اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا،

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 26
وَاٰتِ ذَا الۡقُرۡبٰى حَقَّهٗ وَالۡمِسۡكِيۡنَ وَابۡنَ السَّبِيۡلِ وَلَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِيۡرًا ۞
اور قرابت داروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو) اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤ.

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 27
اِنَّ الۡمُبَذِّرِيۡنَ كَانُوۡۤا اِخۡوَانَ الشَّيٰطِيۡنِ‌ ؕ وَكَانَ الشَّيۡطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوۡرًا ۞
بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1477
الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنِ اكْتُبْ إِلَيَّ بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَتَبَ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ كَرِهَ لَكُمْ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ وَقَالَ وَإِضَاعَةَ الْمَالِ وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ.
مغیرہ ؓ نے لکھا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین باتیں پسند نہیں کرتا۔ بلاوجہ کی گپ شپ، فضول خرچی اور لوگوں سے بہت مانگنا۔

سنن نسائی، حدیث نمبر: 2561
‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْجَدِّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ كُلُوا وَتَصَدَّقُوا، ‏‏‏‏‏‏وَالْبَسُوا فِي غَيْرِ إِسْرَافٍ وَلَا مَخِيلَةٍ.
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کھاؤ، صدقہ کرو، اور پہنو، لیکن اسراف (فضول خرچی) اور غرور (گھمنڈ و تکبر) سے بچو ۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 424
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَضْلِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَالِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَتَوَضَّأُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا تُسْرِفْ، ‏‏‏‏‏‏لَا تُسْرِفْ.
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو وضو کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اسراف (فضول خرچی) نہ کرو، اسراف (فضول خرچی) نہ کرو ۔

10) خیانت یعنی دھوکہ دینے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا

القرآن – سورۃ نمبر 8 الأنفال، آیت نمبر 58
وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنۡ قَوۡمٍ خِيَانَةً فَانْۢبِذۡ اِلَيۡهِمۡ عَلٰى سَوَآءٍ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الۡخَآئِنِيۡنَ  ۞
اور اگر آپ کو کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو ان کا عہد ان کی طرف برابری کی بنیاد پر پھینک دیں۔ بیشک اللہ دغابازوں کو پسند نہیں کرتا.

11) غرور و تکبر اور 12) فخر کرنے والوں کو اللہ پسند نہیں کرتا

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 36
اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنۡ كَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا ۞
بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہو،

القرآن – سورۃ نمبر 28 القصص، آیت نمبر 76
اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الۡفَرِحِيۡنَ ۞
بیشک اللہ اِترانے والوں کو پسند نہیں فرماتا،

القرآن – سورۃ نمبر 31 لقمان، آیت نمبر 18
وَلَا تُصَعِّرۡ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمۡشِ فِى الۡاَرۡضِ مَرَحًا ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرٍۚ ۞
اور لوگوں سے (غرور کے ساتھ) اپنا رخ نہ پھیر، اور زمین پر اکڑ کر مت چل، بیشک اﷲ ہر متکبّر، اِترا کر چلنے والے کو ناپسند فرماتا ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 57 الحديد، آیت نمبر 23
لِّـكَيۡلَا تَاۡسَوۡا عَلٰى مَا فَاتَكُمۡ وَلَا تَفۡرَحُوۡا بِمَاۤ اٰتٰٮكُمۡ‌ؕ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرِۙ‏ ۞
تاکہ تم اس چیز پر غم نہ کرو جو تمہارے ہاتھ سے جاتی رہی اور اس چیز پر نہ اِتراؤ جو اس نے تمہیں عطا کی، اور اللہ کسی تکبّر کرنے والے، فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا،

اللہ کے نا پسندیدہ لوگوں کی بارہ (12) نشانیاں:

1) کفر، 2) ظلم، 3) نافرمانی، 4) فساد، 5) حد سے تجاوز، 6) بددیانتی، 7) بدکاری، 8) برائی کا اعلانیہ اظہار، 9) فضول خرچی، 10) خیانت، 11) غرور و تکبر، 12) فخر

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان باتوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے جو اس کی ناپسندیدگی کا باعث بنتی ہیں اور ہمیں ان خصوصیات کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے جو اس کی محبت اور رضا و خوشنودی کا باعث بنتی ہیں۔ آمین

معارف سورہ اعراف

اللہ تعالٰی نے قرآن مجید کو انسانیت کے لیے نصیحت بنا کر بھیجا ہے۔ اس کی اتباع سے ہی انسان آخرت کی ابدی کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ اور اس کی آیتوں کا انکار کئی قوموں کے لیے عذاب کا باعث بنا۔

حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش اور ابلیس کا سجدہ کرنے سے انکار۔ ابلیس کو قیامت تک زندگی کی مہلت۔ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کی جنت میں سکونت اور ابلیس کا ان دونوں کو بہکا کر جنت سے نکلوا دینا

جنتیوں اور دوزخیوں کا اہل اعراف کے ذریعے ایک دوسرے سے مکالمہ

حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کا تذکرہ۔ عذاب کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ نصیحت کو جھٹلانا

حضرت ہود علیہ السلام اور ان کی قوم (قوم عاد) کا تذکرہ۔ عذاب کی وجہ بت پرستی اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو جھٹلانا

حضرت صالح علیہ السلام اور ان کی قوم (قوم ثمود) کا تذکرہ۔ عذاب کی وجہ، اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کی بے حرمتی اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی نافرمانی۔

حضرت لوط علیہ السلام اور ان کی قوم کا تذکرہ۔ عذاب کی وجہ، نفسانی خواہشات کے لیے عورتوں کے بجائے مردوں کے پاس جانا۔

حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کی قوم کا تذکرہ۔ عذاب کی وجہ، ماپ تول میں کمی اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی نافرمانی۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت ہارون علیہ السلام، ان کی قوم اور فرعون کا تذکرہ۔ عذاب کی وجہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کی تکذیب، بت پرستی، اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کی نافرمانی۔

اس شخص کا تذکرہ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی نشانیاں اور علم عطا کیا، پھر وہ شیطان کی پیروی کر کے گمراہ ہو گیا۔

اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء اور ان کی قوموں کا تذکرہ کیا ہے اور ان وجوہات کو بیان کیا ہے جن کی وجہ سے ان پر عذاب نازل کیا گیا۔ اس سورہ سے حاصل ہونے والے معارف کا نچوڑ یہ ہے کہ اگر انسان دنیا اور آخرت کی حقیقی کامیابی چاہتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب قرآن مجید کی آیات کو سمجھے اور ان کے مطابق اپنی زندگی گزارے۔

دل کی اقسام، علامات، اور علاج

ثُمَّ قَسَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالۡحِجَارَۃِ اَوۡ اَشَدُّ قَسۡوَۃً ؕ وَ اِنَّ مِنَ الۡحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنۡہُ الۡاَنۡہٰرُ ؕ وَ اِنَّ مِنۡہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخۡرُجُ مِنۡہُ الۡمَآءُ ؕ وَ اِنَّ مِنۡہَا لَمَا یَہۡبِطُ مِنۡ خَشۡیَۃِ اللّٰہِ ؕوَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ۔ پھر اس کے بعد تمہارے دل پتھر جیسے بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہوگئے بعض پتھروں سے تو نہریں بہہ نکلتی ہیں ، اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے ، اور بعض اللہ تعالیٰ کے ڈر سے گر گر پڑتے ہیں اور تم اللہ تعالٰی کو اپنے اعمال سے غافل نہ جانو ۔ (القرآن، سورۃ البقرہ 2، آیت 74)

انسان کے اندر جو دل اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے یہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے بارے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (جس کا مفہوم ہے) کہ جو شخص اس دل کی اصلاح کر لے اس کے باقی سارے معاملات درست ہو جاتے ہیں۔ اور جس کے دل میں فساد پیدا ہو جائے اس کے سارے معاملات بگڑ جاتے ہیں۔

“سن لو بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے، جب وہ درست ہوگا سارا بدن درست ہوگا اور جہاں بگڑ گیا سارا بدن بگڑ گیا۔ سن لو وہ ٹکڑا آدمی کا دل ہے.”
صحیح البخاری، 52

إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ۔ بیشک اس میں یقیناً انتباہ اور تذکّر ہے اس شخص کے لئے جو صاحبِ دل ہے (یعنی غفلت سے دوری اور قلبی بیداری رکھتا ہے)۔ (القرآن، سورۃ ق 50، آیت 37)

دل انسان کے باطن کا مرکز ہے۔ باطن کی طہارت اور اصلاح کا دارومدار دل کی اصلاح و درستگی سے مشروط ہے۔ قلب (دل) کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے کچھ قرآنی آیات ملاحظہ کریں؛

وَ لٰکِنۡ یُّؤَاخِذُکُمۡ بِمَا کَسَبَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ۔ ہاں اس کی پکڑ اس چیز پر ہے جو تمہارے دلوں کا فعل ہو۔ (القرآن، سورۃ البقرہ 2، آیت 255)

فَوَیۡلٌ لِّلۡقٰسِیَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ مِّنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ۔
اور ہلاکی ہے ان پر جن کے دل یاد الٰہی سے ( اثر نہیں لیتے بلکہ ) سخت ہوگئے ہیں ۔ یہ لوگ صریح گمراہی میں ( مبتلا ) ہیں۔ ( القرآن، سورۃ الزمر، آیت 22)

دلوں کی اقسام

أَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِنْهَا۔
بھلا وہ شخص جو مُردہ (یعنی ایمان سے محروم) تھا پھر ہم نے اسے (ہدایت کی بدولت) زندہ کیا اور ہم نے اس کے لئے (ایمان و معرفت کا) نور پیدا فرما دیا (اب) وہ اس کے ذریعے (بقیہ) لوگوں میں (بھی روشنی پھیلانے کے لئے) چلتا ہے اس شخص کی مانند ہو سکتا ہے جس کا حال یہ ہو کہ (وہ جہالت اور گمراہی کے) اندھیروں میں (اس طرح گھِرا) پڑا ہے کہ اس سے نکل ہی نہیں سکتا۔
(القرآن، سورۃ الانعام 6، آیت 122)

خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ۔
اللہ نے (ان کے اپنے اِنتخاب کے نتیجے میں) ان کے دلوں اور کانوں پر مُہر لگا دی ہے۔
(القرآن، سورۃ البقرہ 2، آیت 7)

اَلَمۡ یَاۡنِ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ تَخۡشَعَ قُلُوۡبُہُمۡ لِذِکۡرِ اللّٰہِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الۡحَقِّ ۙ وَ لَا یَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلُ فَطَالَ عَلَیۡہِمُ الۡاَمَدُ فَقَسَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ ؕ وَ کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ فٰسِقُوۡنَ۔
کیا اب تک ایمان والوں کے لئے وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر الٰہی سے اور جو حق اتر چکا ہے اس سے نرم ہوجائیں اور ان کی طرح نہ ہوجائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی پھر جب ان پر ایک زمانہ دراز گزر گیا تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں بہت سے فاسق ہیں۔
(القرآن، سورۃ الحدید، آیت 16)

درج بالا آیات پر غور و فکر کرنے سے پتا چلتا ہے کہ دل (نیک اعمال کے باعث) زندہ بھی ہوتے اور نیک دل دوسرے لوگوں کی اصلاح کا باعث بنتے ہیں۔ جبکہ برے اعمال کے نتیجے میں کچھ دل مردہ ہو جاتے ہیں اور ان پر مہر لگا دی جاتی ہے۔

انسانی دل کی تین اقسام ہیں

  • قلبِ میت (مردہ دل)
  • قلبِ مریض (بیمار دل)
  • قلبِ حیّ (زندہ یا سلامتی والا دل)

قلبِ میت (مردہ دل)

ثُمَّ قَسَتۡ قُلُوۡبُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالۡحِجَارَۃِ اَوۡ اَشَدُّ قَسۡوَۃً۔
پھر اس کے بعد تمہارے دل پتھر جیسے بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہوگئے۔
(القرآن، سورۃ البقرہ 2، آیت 74)

فَبِمَا نَقۡضِہِمۡ مِّیۡثَاقَہُمۡ لَعَنّٰہُمۡ وَ جَعَلۡنَا قُلُوۡبَہُمۡ قٰسِیَۃً۔
پھر ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر اپنی لعنت نازل فرما دی اور ان کے دل سخت کر دیئے۔
(القرآن، سورۃ المائدہ 5، آیت 13)

وَ جَعَلۡنَا عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ اَکِنَّۃً۔
اور ہم نے ان کے دلوں پر پردہ ڈال رکھا ہے۔
(القرآن، سورۃ الانعام 6، آیت 25)

وَ لٰکِنۡ قَسَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ وَ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیۡطٰنُ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ
لیکن ان کے دل سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے خیال میں آراستہ کر دیا۔
(القرآن، سورۃ الانعام، آیت 43)

جو دل فقط دنیوی خواہشات، لذات، اور شہوات کا طلبگار ہو اور ہر وقت انہیں کے حصول کے لیے کوشاں رہے۔ اسے قلبِ میت (مردہ دل) کہتے ہیں۔

قلبِ حیّ (زندہ و سلامتی والا دل):

يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ۔ إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ۔
جس دن نہ کوئی مال نفع دے گا اور نہ اولاد۔ مگر وہی شخص (نفع مند ہوگا) جو اللہ کی بارگاہ میں سلامتی والے بے عیب دل کے ساتھ حاضر ہوا۔ (القرآن، سورۃ الشعراء 26، آیات 88, 89)

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ۔
بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالٰی کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں۔
(القرآن، سورۃ الانفال، آیت 2)

جب دل ہر غیر کی خواہش، طلب، اور چاہت سے خالی ہو جاتا ہے، تب وہ اللہ کی ذات سے جڑ جاتا ہے۔ جو دل اللہ کی ذات سے جڑ جائے اسے قلبِ حیّ (زندہ یا سلامتی والا دل) کہتے ہیں۔ دل کے زندہ ہو جانے کو ہی معرفت کہتے ہیں۔

خواجہ عزیز الحسن مجذوب صاحب کا شعر ہے، وہ لکھتے ہیں؛

ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہو گئی
لاکھ جھڑکو اب نہیں پھرتا ہے دل
ہوگئی اب تو محبت ہو گئی

قلبِ مریض ( بیمار دل)

فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ ۙ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا۔
ان کے دلوں میں بیماری تھی اللہ تعالٰی نے انہیں بیماری میں مزید بڑھا دیا۔
(القرآن، سورۃ البقرہ 2، آیت 10)

فَتَرَی الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ۔
آپ دیکھیں گے کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے۔
(القرآن، سورۃ المائدہ 5، آیت 52)

کَلَّا بَلۡ ٜ رَانَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ مَّا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ۔
یوں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ ( چڑھ گیا ) ہے۔
(القرآن، سورۃ المطففین، آیت 14)

جو دل قلبِ میت اور قلبِ حیّ کے درمیان ہو یعنی اس میں کچھ خصوصیات قلبِ میت کی ہوں اور کچھ قلبِ حیّ کی تو اس قلبِ مریض (بیمار دل) کہتے ہیں۔

نیکی سے دل میں نور پیدا ہوتا ہے اور اس نور سے دل زندہ ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس برائی یا گناہ سے سیاہی پیدا ہوتی ہے جو دل کی موت کا باعث بنتی ہے۔

مردہ یا مریض دل کو زندہ کرنے کی تدابیر

اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ تَطۡمَئِنُّ قُلُوۡبُہُمۡ بِذِکۡرِ اللّٰہِ ؕ اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ۔
جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں ۔ یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے۔
(القرآن، سورۃ الرعد، آیت 28)

تفکر و تدبر کے ساتھ تلاوتِ قرآن۔

اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ کِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ ٭ۖ تَقۡشَعِرُّ مِنۡہُ جُلُوۡدُ الَّذِیۡنَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ ۚ ثُمَّ تَلِیۡنُ جُلُوۡدُہُمۡ وَ قُلُوۡبُہُمۡ اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ۔
اللہ تعالٰی نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی ہوئی آیتوں کی ہے جس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں آخر میں ان کے جسم اور دل اللہ تعالٰی کے ذکر کی طرف نرم ہو جاتے ہیں۔ (القرآن، سورۃ الزمر، آیت 23)

تلاوت و ذکر اذکار کے وقت ادب کے ساتھ بیٹھنا اور اس تصور کے ساتھ بیٹھنا کہ گویا آپ واقعتاً اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بیٹھے ہیں
ہمہ وقت باوضو رہنا۔ اور قیام لیل کے کم از کم دو نوافل مکمل انہماک، خشوع و خضوع اور حضوری قلب کے ساتھ ادا کرنا۔
قلتِ طعام؛ کہ پیٹ کا بھرا ہونا دلوں کو مردہ کرتا ہے۔
غافل اور دنیا پرست لوگوں کی صحبت سے بچنا (ضروری معاملات و لین دین کے علاوہ)۔ لغو اور بے مقصد گفتگو بھی دلوں کو مردہ کرتی ہے۔

وَ لَا تُطِعۡ مَنۡ اَغۡفَلۡنَا قَلۡبَہٗ عَنۡ ذِکۡرِنَا وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَ کَانَ اَمۡرُہٗ فُرُطًا۔
دیکھ اس کا کہنا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سےغافل کر دیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا کام حد سے گزر چکا ہے۔
(القرآن، سورۃ الکہف، آیت 28)

بے مقصد، دنیا پرستی اور حرص و ہوس کے کاموں سے بچنا (کسبِ معاش و دیگر ضروری معاملات کے علاوہ)

مردہ دل کی علامات

نیک اعمال کے چھوٹ جانے پر بے چینی، غم یا دکھ نہ ہونا

وَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَحۡدَہُ اشۡمَاَزَّتۡ قُلُوۡبُ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ ۚ وَ اِذَا ذُکِرَ الَّذِیۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اِذَا ہُمۡ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ۔
جب اللہ اکیلے کا ذکر کیا جائے تو ان لوگوں کے دل نفرت کرنے لگتے ہیں جو آخرت کا یقین نہیں رکھتے اور جب اس کے سوا ( اور کا ) ذکرکیا جائے تو ان کے دل کھل کر خوش ہو جاتے ہیں۔ (القرآن، سورۃ الزمر، آیت 45)

گناہ یا برے اعمال کرنے پر ندامت یا شرمندگی نہ ہونا

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ اتَّبَعُوۡۤا اَہۡوَآءَہُمۡ۔
یہی لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ نے مہر کر دی ہے اور وہ اپنی خواہشوں کی پیروی کرتے ہیں۔ (القرآن، سورۃ محمد، آیت 16)

غافلین (دنیا پرست لوگوں) کے ساتھ دوستی و صحبت کی رغبت ہونا

وَ لَا تُطِعۡ مَنۡ اَغۡفَلۡنَا قَلۡبَہٗ عَنۡ ذِکۡرِنَا وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَ کَانَ اَمۡرُہٗ فُرُطًا۔
دیکھ اس کا کہنا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سےغافل کر دیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا کام حد سے گزر چکا ہے۔
(القرآن، سورۃ الکہف، آیت 28)

زندہ دل کی علامات

وَ مَنۡ یُّعَظِّمۡ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنۡ تَقۡوَی الۡقُلُوۡبِ۔
اللہ کی نشانیوں کی جو عزت و حرمت کرے اس کے دل کی پرہیزگاری کی وجہ سے یہ ہے۔
(القرآن، سورۃ الحج، آیت 32)

دنیوی خواہشات و شہوات سے دل کا بے رغبت و بے نیاز ہونا

وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیۡکُمُ الۡاِیۡمَانَ وَ زَیَّنَہٗ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ وَ کَرَّہَ اِلَیۡکُمُ الۡکُفۡرَ وَ الۡفُسُوۡقَ وَ الۡعِصۡیَانَ۔
لیکن اللہ تعالٰی نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنادیا ہے اور تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے اور کفر کو اور گناہ کو اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنا دیا ہے۔ (القرآن، سورۃ الحجرات، آیت 7)

اللہ کے ذکر، تلاوت، اور طاعات میں دل کو فرحت و رغبت محسوس ہونا۔

الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ وَ الصّٰبِرِیۡنَ عَلٰی مَاۤ اَصَابَہُمۡ وَ الۡمُقِیۡمِی الصَّلٰوۃِ ۙ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ۔
وہ لوگ کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے ان کے دل تھرا جاتے ہیں ، انہیں جو برائی پہنچے اس پر صبر کرتے ہیں ، نماز قائم کرنے والے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے وہ اس میں سے بھی دیتے رہتے ہیں۔
(القرآن، سورۃ الحج، آیت 35)

اولیا و صالحین کی سنگت و صحبت کی چاہت و رغبت ہونا۔ (خطاب اور کتاب بھی صحبت کی ایک شکل ہے)

وَ اصۡبِرۡ نَفۡسَکَ مَعَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَدٰوۃِ وَ الۡعَشِیِّ یُرِیۡدُوۡنَ وَجۡہَہٗ وَ لَا تَعۡدُ عَیۡنٰکَ عَنۡہُمۡ ۚ تُرِیۡدُ زِیۡنَۃَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ
اور اپنے آپ کو انہیں کے ساتھ رکھا کر جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اسی کے چہرے کے ارادے رکھتے ہیں ( رضا مندی چاہتے ہیں ) ، خبردار! تیری نگاہیں ان سے نہ ہٹنے پائیں کہ دنیاوی زندگی کے ٹھاٹھ کے ارادے میں لگ جا۔
(القرآن، سورۃ الکہف، آیت 28)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے حال پہ رحم فرمائے اور ہمارے دلوں کی بیماریوں کو دور کر کے طیب و طاہر کر دے۔ ہمارے دل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے قابل ہو جائیں۔ آمین

رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدَیۡتَنَا وَ ہَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُ۔
اے ہمارے رب! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر دے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما ، یقیناً تو ہی بہت بڑی عطا دینے والا ہے۔
(القرآن، سورۃ آلِ عمران، آیت 8)

رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَنَا وَ لِاِخۡوَانِنَا الَّذِیۡنَ سَبَقُوۡنَا بِالۡاِیۡمَانِ وَ لَا تَجۡعَلۡ فِیۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا رَبَّنَاۤ اِنَّکَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ۔
اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ایمانداروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ ( اور دشمنی ) نہ ڈال اے ہمارے رب بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے۔ ( القرآن، سورۃ الحشر، آیت 10)