تجارت یا کاروبار میں کامیابی کا اکیس (21) نکاتی فارمولا

اسلام ایک مکمل ضابطۂِ حیات ہے جو ہر شعبے سے وابستہ افراد کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ اس مضمون میں قرآن و حدیث کی تعلیمات سے اخذ ہونے والے کچھ نکات بیان کیے گئے ہیں جو کاروبار یا تجارت کے شعبے سے وابستہ افراد کے لیے عملی ہدایات فراہم کرتے ہیں۔ یہ نکات مندرجہ ذیل ہیں:

1) تجارت یا کاروبار کے دوران اللہ کی یاد سے غافل نہ ہونا۔

القرآن – سورۃ نمبر 62 الجمعة، آیت نمبر 9
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِىَ لِلصَّلٰوةِ مِنۡ يَّوۡمِ الۡجُمُعَةِ فَاسۡعَوۡا اِلٰى ذِكۡرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الۡبَيۡعَ‌ ؕ ذٰ لِكُمۡ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۞
اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لئے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

القرآن – سورۃ نمبر 20 طه، آیت نمبر 124
وَمَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِكۡرِىۡ فَاِنَّ لَـهٗ مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا۔
اور جس نے میرے ذکر (یعنی میری یاد اور نصیحت) سے روگردانی کی تو اس کے لئے دنیاوی معاش (بھی) تنگ کردیا جائے گا۔

2) تقویٰ و پرہیزگاری (گناہوں کے ارتکاب سے بچنا + اطاعتِ الٰہی) اختیار کرنا

القرآن – سورۃ نمبر 65 الطلاق، آیت نمبر 2،3
وَمَنۡ يَّـتَّـقِ اللّٰهَ يَجۡعَلْ لَّهٗ مَخۡرَجًا ۞ وَّيَرۡزُقۡهُ مِنۡ حَيۡثُ لَا يَحۡتَسِبُ‌۔
اور جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لئے (دنیا و آخرت کے رنج و غم سے) نکلنے کی راہ پیدا فرما دیتا ہے، اور اسے ایسی جگہ سے رِزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔

3) ہمیشہ سچ بولنا اور ایمانداری سے کام کرنا

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1209
ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ، ‏‏‏‏‏‏وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ۔
سچا اور امانت دار تاجر (قیامت کے دن) انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا ۔

4) رزقِ حلال کمانے کو عبادت سمجھنا

طلب الحلال فریضۃ بعد الفریضۃ
رزقِ حلال کی تلاش فرض عبادت کے بعد (سب سے بڑا) فریضہ ہے۔
طبرانی، المعجم الکبیر، رقم: 9993

5) ملازمت کے بجائے کاروبار کو ترجیح دینا

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2153
عمر بن الخطاب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْجَالِبُ مَرْزُوقٌ۔
جالب (مال درآمد) کرنے والا روزی پاتا ہے۔

6) ذخیرہ اندوزی نہ کرنا اور نہ ہی مصنوعی طور پر قیمتیں بڑھانا

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2153
عمر بن الخطاب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَالْمُحْتَكِرُ مَلْعُونٌ.
اور محتکر (ذخیرہ اندوزی کرنے والا) ملعون ہے۔

7) ناپ تول میں عدل و انصاف کرنا اور احسان والا معاملہ کرنا

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2222
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا وَزَنْتُمْ فَأَرْجِحُوا.
جب تولو تو جھکا کر تولو ۔

8) دھوکے اور خیانت سے بچنا

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2224
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَيْسَ مِنَّا مَنْ غَشَّ.
جو دھوکہ دے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

9) مال بیچنے کے لیے قسمیں نہ کھانا

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2209
ابوقتادہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِيَّاكُمْ وَالْحَلِفَ فِي الْبَيْعِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ يُنَفِّقُ ثُمَّ يَمْحَقُ.
بیع (خریدو فروخت) میں قسمیں کھانے سے بچو، کیونکہ اس سے گرم بازاری تو ہوجاتی ہے اور برکت جاتی رہتی ہے ۔

10) معاملات میں نرم دلی کا مظاہرہ کرنا

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1319
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ سَمْحَ الْبَيْعِ، ‏‏‏‏‏‏سَمْحَ الشِّرَاءِ، ‏‏‏‏‏‏سَمْحَ الْقَضَاءِ۔
اللہ تعالیٰ بیچنے، خریدنے اور قرض کے مطالبہ میں نرمی و آسانی کو پسند کرتا ہے ۔

11) غرور و تکبر اور ناشکری سے بچنا

القرآن – سورۃ نمبر 28 القصص، آیت نمبر 58
وَكَمۡ اَهۡلَـكۡنَا مِنۡ قَرۡيَةٍۢ بَطِرَتۡ مَعِيۡشَتَهَا۔
اور ہم نے کتنی ہی (ایسی) بستیوں کو برباد کر ڈالا جو اپنی خوشحال معیشت پر غرور و ناشکری کر رہی تھیں۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 265
عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ کَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ کِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَکُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً قَالَ إِنَّ اللَّهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ
جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا اس پر ایک آدمی نے عرض کیا کہ ایک آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کی جوتی بھی اچھی ہو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ جمیل ہے اور جمال ہی کو پسند کرتا ہے تکبر تو حق کی طرف سے منہ موڑنے اور دوسرے لوگوں کو کمتر سمجھنے کو کہتے ہیں۔

12) حرام ذرائع تجارت سے بچنا

مسند احمد، حدیث نمبر: 2111
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا حَرَّمَ عَلَى قَوْمٍ أَكْلَ شَيْءٍ حَرَّمَ عَلَيْهِمْ ثَمَنَهُ.
حالانکہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پر کسی چیز کو کھانا حرام قرار دیتا ہے تو ان پر اس کی قیمت بھی حرام کردیتا ہے۔

13) قبضے سے پہلے چیز کو نہ بیچنا

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1232
حکیم بن حزام ؓ کہتے ہیں
لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ۔
جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے اس کی بیع نہ کرو ۔

14) بیع پر بیع نہ کرنا ( کسی دوسرے مسلمان تاجر کا طے کیا ہوا سودا خراب نہ کرنا)

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 3436
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تَلَقَّوْا السِّلَعَ حَتَّى يُهْبَطَ بِهَا الْأَسْوَاقَ.
کوئی کسی کی بیع پر بیع نہ کرے اور تاجر سے پہلے ہی مل کر سودا نہ کرے جب تک کہ وہ اپنا سامان بازار میں نہ اتار لے۔

15) بیچی ہوئی چیز قیمت کے بدلے واپس لے لینا

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2199
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ أَقَالَ مُسْلِمًا، ‏‏‏‏‏‏أَقَالَهُ اللَّهُ عَثْرَتَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
جو شخص کسی مسلمان کے اقالے کو مان لے (یعنی اس کے ساتھ بیع کے فسخ پر راضی ہوجائے) تو اللہ تعالیٰ (اس احسان کے بدلہ میں) قیامت کے دن اس کے گناہوں کو مٹا دے گا ۔

16) تجارتی معاہدات کو لکھنا اور ان کی مکمل پاسداری کرنا (بھلے اس میں نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے)

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 34
وَاَوۡفُوۡا بِالۡعَهۡدِ‌ۚ اِنَّ الۡعَهۡدَ كَانَ مَسۡــئُوۡلًا ۞
اور وعدہ پورا کیا کرو، بیشک وعدہ کی ضرور پوچھ گچھ ہوگی۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1352
عمرو بن عوف مزنی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ،‏‏‏‏ إِلَّا صُلْحًا حَرَّمَ حَلَالًا،‏‏‏‏ أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا،‏‏‏‏ وَالْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا،‏‏‏‏ أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا۔
صلح مسلمان کے درمیان نافذ ہوگی سوائے ایسی صلح کے جو کسی حلال کو حرام کر دے یا کسی حرام کو حلال۔ اور مسلمان اپنی شرطوں کے پابند ہیں۔ سوائے ایسی شرط کے جو کسی حلال کو حرام کر دے یا کسی حرام کو حلال ۔

17) قیمتوں کے تعین کے اسلامی اصول کی پاسداری کرنا

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2185
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّمَا الْبَيْعُ عَنْ تَرَاضٍ.
بیع بیچنے والے اور خریدنے والے کی باہمی رضا مندی سے منعقد ہوتی ہے ۔

18) مزدور (و ملازمین) کو وقت پر اجرت دینا

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2443
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَعْطُوا الْأَجِيرَ أَجْرَهُ قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُهُ.
مزدور کو اس کا پسینہ سوکھنے سے پہلے اس کی مزدوری دے دو۔

19) لگی ہوئی روزی (ملازمت یا کاروبار) کو نہ چھوڑنا

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2148
ام المؤمنین عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں:
فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ:‏‏‏‏ إِذَا سَبَّبَ اللَّهُ لِأَحَدِكُمْ رِزْقًا مِنْ وَجْهٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَدَعْهُ حَتَّى يَتَغَيَّرَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ يَتَنَكَّرَ لَهُ.
میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: اللہ تعالیٰ جب تم میں سے کسی کے لیے روزی کا کوئی ذریعہ پیدا کر دے، تو وہ اسے نہ چھوڑے یہاں تک کہ وہ بدل جائے، یا بگڑ جائے ۔

20) معاملات میں میانہ روی اختیار کرنا

مسند احمد، حدیث نمبر: 4048
حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَا عَالَ مَنْ اقْتَصَدَ۔
میانہ روی سے چلنے والا کبھی محتاج اور تنگدست نہیں ہوتا۔

21) سخاوت کرنا اور بخل و کنجوسی سے بچنا:

القرآن – سورۃ نمبر 34 سبإ، آیت نمبر 39
قُلۡ اِنَّ رَبِّىۡ يَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖ وَيَقۡدِرُ لَهٗ ؕ وَمَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ فَهُوَ يُخۡلِفُهٗ ۚ وَهُوَ خَيۡرُ الرّٰزِقِيۡنَ ۞
فرما دیجئے: بیشک میرا رب اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رِزق کشادہ فرما دیتا ہے اور جس کے لئے (چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے، اور تم (اﷲ کی راہ میں) جو کچھ بھی خرچ کرو گے تو وہ اس کے بدلہ میں اور دے گا اور وہ سب سے بہتر رِزق دینے والا ہے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1433
حضرت اسماء ؓ روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے انہیں فرمایا:
لَا تُوكِي فَيُوكَى عَلَيْكِ.
خیرات کو مت روک ورنہ تیرا رزق بھی روک دیا جائے گا۔

یہ ایک عظیم پیغمبر اور عظیم معیشت دان حضور نبی مکرم ﷺ کے دیے ہوئے اصول و ضوابط ہیں جن پر عمل کرنے سے انسان اپنے معاشی معاملات کو بہترین انداز میں چلا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان اصول و ضوابط کے مطابق اپنے معاشی معاملات کو سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

قربانی کی فضیلت اور احکام

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3123
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ وَلَمْ يُضَحِّ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا.
جس شخص کو (قربانی کی) وسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے، تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے ۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3121
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں:
ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عِيدٍ بِكَبْشَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ حِينَ وَجَّهَهُمَا:‏‏‏‏ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ.
رسول اللہ ﷺ نے عید الاضحی کے دن دو مینڈھوں کی قربانی کی، اور جس وقت ان کا منہ قبلے کی طرف کیا تو فرمایا: إني وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض حنيفا وما أنا من المشرکين إن صلاتي ونسکي ومحياي ومماتي لله رب العالمين لا شريك له وبذلک أمرت وأنا أول المسلمين اللهم منک ولک عن محمد وأمته میں اپنا رخ اس ذات کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں، بیشک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور مرنا سب اللہ ہی کے لیے ہے، جو سارے جہان کا رب ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور مجھے اسی کا حکم ہے اور سب سے پہلے میں اس کے تابعداروں میں سے ہوں، اے اللہ! یہ قربانی تیری ہی طرف سے ہے، اور تیرے ہی واسطے ہے، محمد اور اس کی امت کی طرف سے اسے قبول فرما۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5569
حضرت سلمہ بن الاکوع ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ ضَحَّى مِنْكُمْ فَلَا يُصْبِحَنَّ بَعْدَ ثَالِثَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَبَقِيَ فِي بَيْتِهِ مِنْهُ شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَفْعَلُ كَمَا فَعَلْنَا عَامَ الْمَاضِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُلُوا، ‏‏‏‏‏‏وَأَطْعِمُوا، ‏‏‏‏‏‏وَادَّخِرُوا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ ذَلِكَ الْعَامَ كَانَ بِالنَّاسِ جَهْدٌ فَأَرَدْتُ أَنْ تُعِينُوا فِيهَا.
جس نے تم میں سے قربانی کی تو تیسرے دن وہ اس حالت میں صبح کرے کہ اس کے گھر میں قربانی کے گوشت میں سے کچھ بھی باقی نہ ہو۔ دوسرے سال صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم اس سال بھی وہی کریں جو پچھلے سال کیا تھا۔ (کہ تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت بھی نہ رکھیں) ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اب کھاؤ، کھلاؤ اور جمع کرو۔ پچھلے سال تو چونکہ لوگ تنگی میں مبتلا تھے، اس لیے میں نے چاہا کہ تم لوگوں کی مشکلات میں ان کی مدد کرو۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5438
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ روایت کرتی ہیں:
مَا فَعَلَهُ إِلَّا فِي عَامٍ جَاعَ النَّاسُ أَرَادَ أَنْ يُطْعِمَ الْغَنِيُّ الْفَقِيرَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كُنَّا لَنَرْفَعُ الْكُرَاعَ بَعْدَ خَمْسَ عَشْرَةَ وَمَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خُبْزِ بُرٍّ مَأْدُومٍ ثَلَاثًا.
نبی کریم ﷺ نے ایسا کبھی نہیں کیا کہ تین دن سے زیادہ گوشت قربانی والا رکھنے سے منع فرمایا ہو۔ صرف اس سال یہ حکم دیا تھا جس سال قحط کی وجہ سے لوگ فاقے میں مبتلا تھے۔ مقصد یہ تھا کہ جو لوگ غنی ہیں وہ گوشت محتاجوں کو کھلائیں (اور جمع کر کے نہ رکھیں) اور ہم تو بکری کے پائے محفوظ کر کے رکھ لیتے تھے اور پندرہ دن بعد تک (کھاتے تھے) اور آل محمد ﷺ نے کبھی سالن کے ساتھ گیہوں کی روٹی تین دن تک برابر سیر ہو کر نہیں کھائی۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 965
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ فِي يَوْمِنَا هَذَا أَنْ نُصَلِّيَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ نَحَرَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَإِنَّمَا هُوَ لَحْمٌ قَدَّمَهُ لِأَهْلِهِ لَيْسَ مِنَ النُّسْكِ فِي شَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ أَبُو بُرْدَةَ بْنُ نِيَارٍ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَبَحْتُ وَعِنْدِي جَذَعَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُسِنَّةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اجْعَلْهُ مَكَانَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَنْ تُوفِيَ أَوْ تَجْزِيَ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ.
ہم اس دن پہلے نماز پڑھیں گے پھر خطبہ کے بعد واپس ہو کر قربانی کریں گے۔ جس نے اس طرح کیا اس نے ہماری سنت کے مطابق عمل کیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کی تو اس کا ذبیحہ گوشت کا جانور ہے جسے وہ گھر والوں کے لیے لایا ہے، قربانی سے اس کا کوئی بھی تعلق نہیں۔ ایک انصاری ؓ جن کا نام ابوبردہ بن نیار تھا بولے کہ یا رسول اللہ ﷺ میں نے تو (نماز سے پہلے ہی) قربانی کردی لیکن میرے پاس ایک سال کی پٹھیا ہے جو دوندی ہوئی بکری سے بھی اچھی ہے۔ آپ نے ﷺ فرمایا کہ اچھا اسی کو بکری کے بدلہ میں قربانی کرلو اور تمہارے بعد یہ کسی اور کے لیے کافی نہ ہوگی۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1707
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم روایت کرتے ہیں:
أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِجِلَالِ الْبُدْنِ الَّتِي نَحَرْتُ وَبِجُلُودِهَا.
مجھے رسول اللہ ﷺ نے ان قربانی کے جانوروں کے جھول اور ان کے چمڑے کو صدقہ کرنے کا حکم دیا تھا جن کی قربانی میں نے کردی تھی۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 929
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ وَقَفَتِ الْمَلَائِكَةُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ يَكْتُبُونَ الْأَوَّلَ فَالْأَوَّلَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَثَلُ الْمُهَجِّرِ كَمَثَلِ الَّذِي يُهْدِي بَدَنَةً ثُمَّ كَالَّذِي يُهْدِي بَقَرَةً ثُمَّ كَبْشًا ثُمَّ دَجَاجَةً ثُمَّ بَيْضَةً، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ طَوَوْا صُحُفَهُمْ وَيَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ.
جب جمعہ کا دن آتا ہے تو فرشتے جامع مسجد کے دروازے پر آنے والوں کے نام لکھتے ہیں، سب سے پہلے آنے والا اونٹ کی قربانی دینے والے کی طرح لکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد آنے والا گائے کی قربانی دینے والے کی طرح پھر مینڈھے کی قربانی کا ثواب رہتا ہے۔ اس کے بعد مرغی کا، اس کے بعد انڈے کا۔ لیکن جب امام (خطبہ دینے کے لیے) باہر آجاتا ہے تو یہ فرشتے اپنے دفاتر بند کردیتے ہیں اور خطبہ سننے میں مشغول ہوجاتے ہیں۔

اسلامی اصولِ تجارت قرآن و حدیث کی روشنی میں

اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔ جو زندگی کے ہر شعبے سے وابستہ افراد کو ایک مکمل ضابطۂِ اخلاق (اصول و ضوابط) دیتا ہے۔ جس پر عمل پیرا ہونے والا انسان حقیقی معنوں میں دنیوی و اخروی فلاح حاصل کر سکتا ہے۔

اس مضمون میں رزق کمانے والوں اور کاروبار و تجارت سے وابستہ افراد کے لیے انتہائی مفید اصولی ہدایات قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کی گئی ہیں۔

سچائی اور امانتداری:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1209
ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ، ‏‏‏‏‏‏وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ۔ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ۔
سچا اور امانت دار تاجر (قیامت کے دن) انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1210
رفاعہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ التُّجَّارَ يُبْعَثُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فُجَّارًا إِلَّا مَنِ اتَّقَى اللَّهَ وَبَرَّ، ‏‏‏‏‏‏وَصَدَقَ۔
تاجر لوگ قیامت کے دن گنہگار اٹھائے جائیں گے سوائے اس کے جو اللہ سے ڈرے نیک کام کرے اور سچ بولے ۔

رزقِ حلال کمانا عبادت ہے:

القرآن – سورۃ نمبر 28 القصص، آیت نمبر 77
وَابۡتَغِ فِيۡمَاۤ اٰتٰٮكَ اللّٰهُ الدَّارَ الۡاٰخِرَةَ‌ وَلَا تَنۡسَ نَصِيۡبَكَ مِنَ الدُّنۡيَا‌۔
اور تو اس (دولت) میں سے جو اللہ نے تجھے دے رکھی ہے آخرت کا گھر طلب کر، اور دنیا سے (بھی) اپنا حصہ نہ بھول۔

طلب الحلال فریضۃ بعد الفریضۃ
رزقِ حلال کی تلاش فرض عبادت کے بعد (سب سے بڑا) فریضہ ہے۔
طبرانی، المعجم الکبیر، رقم: 9993

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2138
مقدام بن معدیکرب زبیدی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَا كَسَبَ الرَّجُلُ كَسْبًا أَطْيَبَ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ وَمَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَى نَفْسِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَهْلِهِ وَوَلَدِهِ وَخَادِمِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَهُوَ صَدَقَةٌ.
آدمی کی کوئی کمائی اس کمائی سے بہتر نہیں جسے اس نے اپنی محنت سے کمایا ہو، اور آدمی اپنی ذات، اپنی بیوی، اپنے بچوں اور اپنے خادم پر جو خرچ کرے وہ صدقہ ہے ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1358
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ أَطْيَبَ مَا أَكَلْتُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ،‏‏‏‏ وَإِنَّ أَوْلَادَكُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ .
سب سے پاکیزہ چیز جس کو تم کھاتے ہو تمہاری اپنی کمائی ہے اور تمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی میں سے ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 32
لِلرِّجَالِ نَصِيۡبٌ مِّمَّا اكۡتَسَبُوۡا ؕ‌ وَلِلنِّسَآءِ نَصِيۡبٌ مِّمَّا اكۡتَسَبۡنَ‌ ؕ وَسۡئَـلُوا اللّٰهَ مِنۡ فَضۡلِهٖ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمًا ۞
مردوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور عورتوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور اللہ سے اس کا فضل مانگا کرو، بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔

کاروبار کرنے والے کو رزق دیا جاتا ہے:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2153
عمر بن الخطاب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْجَالِبُ مَرْزُوقٌ۔
جالب (مال درآمد) کرنے والا روزی پاتا ہے۔

ذخیرہ اندوزی کرنے کی ممانعت:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2153
عمر بن الخطاب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَالْمُحْتَكِرُ مَلْعُونٌ.
اور (ذخیرہ اندوزی) کرنے والا ملعون ہے۔

مسند احمد، حدیث نمبر: 4648
حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ احْتَكَرَ طَعَامًا أَرْبَعِينَ لَيْلَةً فَقَدْ بَرِئَ مِنْ اللَّهِ تَعَالَى وَبَرِئَ اللَّهُ تَعَالَى مِنْهُ وَأَيُّمَا أَهْلُ عَرْصَةٍ أَصْبَحَ فِيهِمْ امْرُؤٌ جَائِعٌ فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُمْ ذِمَّةُ اللَّهِ تَعَالَى۔
جو شخص چالیس دن تک غذائی ضروریات کی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے وہ اللہ سے بری ہے اور اللہ اس سے بری ہے اور جس خاندان میں ایک آدمی بھی بھوکارہا ان سب سے اللہ کا ذمہ بری ہے۔

تجارت (خرید و فروخت) کرتے وقت اللہ کے ذکر اور یاد سے غافل نہ ہونا:

القرآن – سورۃ نمبر 24 النور، آیت نمبر 37،38
رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡهِيۡهِمۡ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيۡعٌ عَنۡ ذِكۡرِ اللّٰهِ وَاِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِيۡتَآءِ الزَّكٰوةِ‌ۖ يَخَافُوۡنَ يَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِيۡهِ الۡقُلُوۡبُ وَالۡاَبۡصَارُ ۞ لِيَجۡزِيَهُمُ اللّٰهُ اَحۡسَنَ مَا عَمِلُوۡا وَيَزِيۡدَهُمۡ مِّنۡ فَضۡلِهٖ‌ؕ وَاللّٰهُ يَرۡزُقُ مَنۡ يَّشَآءُ بِغَيۡرِ حِسَابٍ ۞
(اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے اور نہ نماز قائم کرنے سے اور نہ زکوٰۃ ادا کرنے سے (بلکہ دنیوی فرائض کی ادائیگی کے دوران بھی) وہ (ہمہ وقت) اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں (خوف کے باعث) دل اور آنکھیں (سب) الٹ پلٹ ہو جائیں گی۔ تاکہ اللہ انہیں ان (نیک) اعمال کا بہتر بدلہ دے جو انہوں نے کئے ہیں اور اپنے فضل سے انہیں اور (بھی) زیادہ (عطا) فرما دے، اور اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق (و عطا) سے نوازتا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 62 الجمعة، آیت نمبر 9
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِىَ لِلصَّلٰوةِ مِنۡ يَّوۡمِ الۡجُمُعَةِ فَاسۡعَوۡا اِلٰى ذِكۡرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الۡبَيۡعَ‌ ؕ ذٰ لِكُمۡ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۞
اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لئے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

تاجر کے لیے دس لاکھ نیکیاں، دس لاکھ برائیوں کا مٹنا، اور دس لاکھ درجات کی بلندی:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3428
عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ دَخَلَ السُّوقَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ بِيَدِهِ الْخَيْرُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏كَتَبَ اللَّهُ لَهُ أَلْفَ أَلْفِ حَسَنَةٍ وَمَحَا عَنْهُ أَلْفَ أَلْفِ سَيِّئَةٍ وَرَفَعَ لَهُ أَلْفَ أَلْفِ دَرَجَةٍ۔
جس نے بازار میں داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھی: «لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد يحيي ويميت وهو حي لا يموت بيده الخير وهو علی كل شيء قدير» نہیں کوئی معبود برحق ہے مگر اللہ اکیلا، اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اسی کے لیے ملک (بادشاہت) ہے اور اسی کے لیے حمد و ثناء ہے وہی زندہ کرتا اور وہی مارتا ہے، وہ زندہ ہے کبھی مرے گا نہیں، اسی کے ہاتھ میں ساری بھلائیاں ہیں، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے دس لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اور اس کی دس لاکھ برائیاں مٹا دیتا ہے اور اس کے دس لاکھ درجے بلند فرماتا ہے ۔

ناپ تول میں انصاف کرنا:

القرآن – سورۃ نمبر 11 هود، آیت نمبر 85
وَيٰقَوۡمِ اَوۡفُوا الۡمِكۡيَالَ وَالۡمِيۡزَانَ بِالۡقِسۡطِ‌ وَلَا تَبۡخَسُوا النَّاسَ اَشۡيَآءَهُمۡ وَلَا تَعۡثَوۡا فِى الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِيۡنَ‏ ۞
اور اے میری قوم! تم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پورے کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو اور فساد کرنے والے بن کر ملک میں تباہی مت مچاتے پھرو۔

القرآن – سورۃ نمبر 55 الرحمن، آیت نمبر 9
وَاَقِيۡمُوا الۡوَزۡنَ بِالۡقِسۡطِ وَلَا تُخۡسِرُوا الۡمِيۡزَانَ ۞
اور انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول کو کم نہ کرو۔

کنزالعمال، حدیث نمبر: 9338
يا وزان زن وأرجح۔
اے وزن کرنے والے! وزن کر اور زیادہ دے۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2222
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا وَزَنْتُمْ فَأَرْجِحُوا.
جب تولو تو جھکا کر تولو ۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 4019
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَلَمْ يَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ،‏‏‏‏ إِلَّا أُخِذُوا بِالسِّنِينَ،‏‏‏‏ وَشِدَّةِ الْمَئُونَةِ،‏‏‏‏ وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَيْهِمْ،‏‏‏‏
جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قحط، معاشی تنگی اور اپنے حکمرانوں کی زیادتی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

دھوکے اور خیانت سے بچنا:

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 29
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡكُلُوۡۤا اَمۡوَالَـكُمۡ بَيۡنَكُمۡ بِالۡبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنۡ تَكُوۡنَ تِجَارَةً عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡكُمۡ‌ ۚ وَلَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡـفُسَكُمۡ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمۡ رَحِيۡمًا ۞ اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے کوئی تجارت ہو، اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہے،

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2224
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں:
مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِرَجُلٍ يَبِيعُ طَعَامًا، ‏‏‏‏‏‏فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهِ فَإِذَا هُوَ مَغْشُوشٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:‏‏‏‏ لَيْسَ مِنَّا مَنْ غَشَّ.
رسول اللہ ﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو گیہوں (غلہ) بیچ رہا تھا، آپ نے اپنا ہاتھ اس کے اندر ڈالا تو وہ مغشوش (غیر خالص اور دھوکے والا گڑبڑ) تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: جو دھوکہ دے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2247
عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ مَنْ بَاعَ عَيْبًا لَمْ يُبَيِّنْهُ لَمْ يَزَلْ فِي مَقْتِ مِنَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ تَزَلِ الْمَلَائِكَةُ تَلْعَنُهُ.
واثلہ بن اسقع ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: جو کوئی عیب دار چیز بیچے اور اس کے عیب کو بیان نہ کرے، تو وہ برابر اللہ تعالیٰ کے غضب میں رہے گا، اور فرشتے اس پر برابر لعنت کرتے رہیں گے ۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2246
عقبہ بن عامر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:
الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ بَاعَ مِنْ أَخِيهِ بَيْعًا فِيهِ عَيْبٌ إِلَّا بَيَّنَهُ لَهُ.
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ہاتھ کوئی ایسی چیز بیچے جس میں عیب ہو، مگر یہ کہ وہ اس کو اس سے بیان کر دے۔

خرید و فروخت کرتے وقت قسمیں کھانے سے بچنا:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2209
ابوقتادہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِيَّاكُمْ وَالْحَلِفَ فِي الْبَيْعِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ يُنَفِّقُ ثُمَّ يَمْحَقُ.
بیع (خریدو فروخت) میں قسمیں کھانے سے بچو، کیونکہ اس سے گرم بازاری تو ہوجاتی ہے اور برکت جاتی رہتی ہے ۔

وہ اوصاف جن سے کمائی میں پاکیزگی اور برکت پیدا ہوتی ہے:

کنزالعمال، حدیث نمبر: 9340
إن أطيب الكسب كسب التجار الذين إذا حدثوا لم يكذبوا، وإذا ائتمنوا لم يخونوا، وإذا وعدوا لم يخلفوا، وإذا اشتروا لم يذموا، وإذا باعوا لم يطروا، وإذا كان عليهم لم يمطلوا، وإذا كان لهم لم يعسروا.

سب سے پاک کمائی ان تاجروں کی ہے جو:

1) بات کرتے ہوئے جھوٹ نہیں بولتے،
2) ان کے پاس امانت رکھوائی جائے تو خیانت نہیں کرتے،
3) وعدہ کرلیں تو وعدہ خلافی نہیں کرتے،
4) خریدتے ہیں تو برائی نہیں کرتے،
5) بیچتے ہیں تو دھتکارتے نہیں،
6) اگر کسی کا قرض دینا ہو تو ٹال مٹول نہیں کرتے،
7) اگر کسی سے قرض وصول کرنا ہو تو سختی نہیں کرتے۔

قرضِ حسنہ دینا:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 245
مَنۡ ذَا الَّذِىۡ يُقۡرِضُ اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضۡعَافًا کَثِيۡرَةً ‌ؕ وَاللّٰهُ يَقۡبِضُ وَيَبۡصُۜطُ ۖ وَ اِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ ۞
کون ہے جو اﷲ کو قرضِ حسنہ دے پھر وہ اس کے لئے اسے کئی گنا بڑھا دے گا، اور اﷲ ہی (تمہارے رزق میں) تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے،

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 280
وَاِنۡ كَانَ ذُوۡ عُسۡرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيۡسَرَةٍ ‌ؕ وَاَنۡ تَصَدَّقُوۡا خَيۡرٌ لَّـكُمۡ‌ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۞
اور اگر قرض دار تنگدست ہو تو خوشحالی تک مہلت دی جانی چاہئے، اور تمہارا (قرض کو) معاف کر دینا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تمہیں معلوم ہو۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2431
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
رَأَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عَلَى بَاب:‏‏‏‏ الْجَنَّةِ مَكْتُوبًا الصَّدَقَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَالْقَرْضُ بِثَمَانِيَةَ عَشَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا جِبْرِيلُ مَا بَالُ الْقَرْضِ أَفْضَلُ مِنَ الصَّدَقَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لِأَنَّ السَّائِلَ يَسْأَلُ وَعِنْدَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُسْتَقْرِضُ لَا يَسْتَقْرِضُ إِلَّا مِنْ حَاجَةٍ.
معراج کی رات میں نے جنت کے دروازے پر لکھا دیکھا کہ صدقہ کا ثواب دس گنا ہے، اور قرض کا اٹھارہ گنا، میں نے کہا: جبرائیل! کیا بات ہے؟ قرض صدقہ سے افضل کیسے ہے؟ تو کہا: اس لیے کہ سائل سوال کرتا ہے حالانکہ اس کے پاس کھانے کو ہوتا ہے، اور قرض لینے والا قرض اس وقت تک نہیں مانگتا جب تک اس کو واقعی ضرورت نہ ہو ۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 4000
حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُنْجِيَهُ اللَّهُ مِنْ کُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلْيُنَفِّسْ عَنْ مُعْسِرٍ أَوْ يَضَعْ عَنْهُ۔
جس کو یہ پسند ہو کہ اللہ اسے قیامت کے دن کی سختیوں سے نجات دے تو چاہئے کہ وہ مفلس (مقروض) کو مہلت دے یا اس کا قرض معاف کر دے۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2418
بریدہ اسلمی ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا كَانَ لَهُ بِكُلِّ يَوْمٍ صَدَقَةٌ وَمَنْ أَنْظَرَهُ بَعْدَ حِلِّهِ كَانَ لَهُ مِثْلُهُ فِي كُلِّ يَوْمٍ صَدَقَةٌ.
جو کسی تنگ دست کو مہلت دے گا تو اس کو ہر دن کے حساب سے ایک صدقہ کا ثواب ملے گا، اور جو کسی تنگ دست کو میعاد گزر جانے کے بعد مہلت دے گا تو اس کو ہر دن کے حساب سے اس کے قرض کے (برابر) صدقہ کا ثواب ملے گا ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1317
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں:
أَنَّ رَجُلًا تَقَاضَى رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَأَغْلَظَ لَهُ فَهَمَّ بِهِ أَصْحَابُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:‏‏‏‏ دَعُوهُ فَإِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ اشْتَرُوا لَهُ بَعِيرًا، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْطُوهُ إِيَّاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَطَلَبُوهُ فَلَمْ يَجِدُوا إِلَّا سِنَّا أَفْضَلَ مِنْ سِنِّهِ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اشْتَرُوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْطُوهُ إِيَّاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ خَيْرَكُمْ أَحْسَنُكُمْ قَضَاءً .
ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے (قرض کا) تقاضہ کیا اور سختی کی، صحابہ نے اسے دفع کرنے کا قصد کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو، کیونکہ حقدار کو کہنے کا حق ہے ، پھر آپ نے فرمایا: اسے ایک اونٹ خرید کر دے دو ، لوگوں نے تلاش کیا تو انہیں ایسا ہی اونٹ ملا جو اس کے اونٹ سے بہتر تھا، آپ نے فرمایا: اسی کو خرید کر دے دو، کیونکہ تم میں بہتر وہ لوگ ہیں جو قرض کی ادائیگی میں بہتر ہوں ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1640
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُكَفِّرُ كُلَّ خَطِيئَةٍ، إِلَّا الدَّيْنَ۔
اللہ کی راہ میں شہادت (شہید کے لیے) ہر گناہ کا کفارہ بن جاتی ہے، سوائے قرض کے۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2414
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ دِينَارٌ أَوْ دِرْهَمٌ قُضِيَ مِنْ حَسَنَاتِهِ لَيْسَ ثَمَّ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ.
جو مرجائے اور اس کے ذمہ کسی کا کوئی دینار یا درہم ہو تو (قیامت میں) جہاں دینار اور درہم نہیں ہوگا، اس کی نیکیوں سے ادا کیا جائے گا ۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2412
ثوبان ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ فَارَقَ الرُّوحُ الْجَسَدَ وَهُوَ بَرِيءٌ مِنْ ثَلَاثٍ دَخَلَ الْجَنَّةَ مِنَ الْكِبْرِ وَالْغُلُولِ وَالدَّيْنِ.
جس کی روح بدن سے جدا ہوئی اور وہ تین چیزوں غرور (گھمنڈ) خیانت اور قرض سے پاک ہو، تو وہ جنت میں داخل ہوگا ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1079
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِهِ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ۔
مومن کی جان اس کے قرض کی وجہ سے اٹکی رہتی ہے جب تک کہ اس کی ادائیگی نہ ہوجائے۔

حرام ذرائع تجارت سے بچنا:

جو چیز اسلام نے حرام قرار دی ہے اس کی تجارت (خرید و فروخت) بھی حرام ہے۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 3685
عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے:
أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏نَهَى عَنِ الْخَمْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَيْسِرِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْكُوبَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْغُبَيْرَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ قَالَ ابْنُ سَلَامٍ أَبُو عُبَيْدٍ:‏‏‏‏ الْغُبَيْرَاءُ:‏‏‏‏ السُّكْرُكَةُ تُعْمَلُ مِنَ الذُّرَةِ، ‏‏‏‏‏‏شَرَابٌ يَعْمَلُهُ الْحَبَشَةُ.
نبی اکرم ﷺ نے شراب، جوا، کوبہ (چوسر یا ڈھولک) اور غبیراء سے منع کیا، اور فرمایا: ہر نشہ آور چیز حرام ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن سلام ابو عبید نے کہا ہے: غبیراء ایسی شراب ہے جو مکئی سے بنائی جاتی ہے حبشہ کے لوگ اسے بناتے ہیں۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1297
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے فتح مکہ کے سال مکہ کے اندر رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:
إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَيْعَ الْخَمْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَيْتَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْخِنْزِيرِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْأَصْنَامِ ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَرَأَيْتَ شُحُومَ الْمَيْتَةِ ؟ فَإِنَّهُ يُطْلَى بِهَا السُّفُنُ، ‏‏‏‏‏‏وَيُدْهَنُ بِهَا الْجُلُودُ، ‏‏‏‏‏‏وَيَسْتَصْبِحُ بِهَا النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏هُوَ حَرَامٌ ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ:‏‏‏‏ قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَيْهِمُ الشُّحُومَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَجْمَلُوهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ بَاعُوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَكَلُوا ثَمَنَهُ۔
اللہ اور اس کے رسول نے شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کی بیع کو حرام قرار دیا ہے، عرض کیا گیا، اللہ کے رسول! مجھے مردار کی چربی کے بارے میں بتائیے، اسے کشتیوں پہ ملا جاتا ہے، چمڑوں پہ لگایا جاتا ہے، اور لوگ اس سے چراغ جلاتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، یہ جائز نہیں، یہ حرام ہے ، پھر آپ نے اسی وقت فرمایا: یہود پر اللہ کی مار ہو، اللہ نے ان کے لیے چربی حرام قرار دے دی، تو انہوں نے اس کو پگھلایا پھر اسے بیچا اور اس کی قیمت کھائی ۔

مسند احمد، حدیث نمبر: 1937
عبدالرحمن بن وعلہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے شراب کی تجارت کے متعلق مسئلہ دریافت کیا؟ انہوں نے فرمایا:
كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ صَدِيقٌ مِنْ ثَقِيفٍ أَوْ مِنْ دَوْسٍ فَلَقِيَهُ بِمَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ بِرَاوِيَةِ خَمْرٍ يُهْدِيهَا إِلَيْهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَا أَبَا فُلَانٍ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ اللَّهَ حَرَّمَهَا فَأَقْبَلَ الرَّجُلُ عَلَى غُلَامِهِ فَقَالَ اذْهَبْ فَبِعْهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَبَا فُلَانٍ بِمَاذَا أَمَرْتَهُ قَالَ أَمَرْتُهُ أَنْ يَبِيعَهَا قَالَ إِنَّ الَّذِي حَرَّمَ شُرْبَهَا حَرَّمَ بَيْعَهَا فَأَمَرَ بِهَا فَأُفْرِغَتْ فِي الْبَطْحَاءِ۔
قبیلہ ثقیف یا دوس میں نبی ﷺ کا ایک دوست رہتا تھا، وہ فتح مکہ کے سال مکہ مکرمہ میں نبی ﷺ سے ملاقات کے لئے شراب کا ایک مشکیزہ بطور ہدیہ کے لے کر آیا، نبی ﷺ نے اس سے فرمایا اے فلاں! کیا تمہارے علم میں یہ بات نہیں کہ اللہ نے شراب کو حرام قرار دے دیا ہے؟ یہ سن کر وہ شخص اپنے غلام کی طرف متوجہ ہو کر سرگوشی میں اسے کہنے لگا کہ اسے لے جا کر بیچ دو، نبی ﷺ نے اس سے پوچھا کہ اے ابو فلاں! تم نے اسے کیا کہا ہے؟ اس نے کہا کہ میں نے اسے یہ حکم دیا ہے کہ اسے بیچ آئے، نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس ذات نے اس کا پینا حرام قرار دیا ہے، اسی نے اس کی خریدو فروخت بھی حرام کردی ہے چناچہ اس کے حکم پر اس شراب کو وادی بطحاء میں بہا دیا گیا۔

مسند احمد، حدیث نمبر: 2111
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ حُرِّمَتْ عَلَيْهِمْ الشُّحُومُ فَبَاعُوهَا وَأَكَلُوا أَثْمَانَهَا وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا حَرَّمَ عَلَى قَوْمٍ أَكْلَ شَيْءٍ حَرَّمَ عَلَيْهِمْ ثَمَنَهُ.
اللہ تعالیٰ یہودیوں پر لعنت فرمائے کہ ان پر چربی کو حرام قرار دیا گیا لیکن انہوں نے اسے پگھلا کر اس کا تیل بنا لیا اور اسے فروخت کرنا شروع کردیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پر کسی چیز کو کھانا حرام قرار دیتا ہے تو ان پر اس کی قیمت بھی حرام کردیتا ہے۔

مسند احمد،حدیث نمبر: 21253
حضرت ابو امامہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا تَبِيعُوا الْمُغَنِّيَاتِ وَلَا تَشْتَرُوهُنَّ وَلَا تُعَلِّمُوهُنَّ وَلَا خَيْرَ فِي تِجَارَةٍ فِيهِنَّ وَثَمَنُهُنَّ حَرَامٌ۔
گانا گانے والی باندیوں کی خریدوفروخت نہ کرو اور انہیں گانے بجانے کی تعلیم نہ دلواؤ اور ان کی تجارت میں کوئی خیر نہیں اور ان کی قیمت میں (کمائی) کھانا حرام ہے۔

قبضے سے پہلے چیز کو بیچنے کی ممانعت:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1232
حکیم بن حزام ؓ کہتے ہیں
أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَأْتِينِي الرَّجُلُ، ‏‏‏‏‏‏يَسْأَلُنِي مِنَ الْبَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدِي أَبْتَاعُ لَهُ مِنَ السُّوقِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَبِيعُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ۔
میرے پاس کچھ لوگ آتے ہیں اور اس چیز کو بیچنے کے لیے کہتے ہیں جو میرے پاس نہیں ہوتی، تو کیا میں اس چیز کو ان کے لیے بازار سے خرید کر لاؤں پھر فروخت کروں؟ آپ نے فرمایا: جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے اس کی بیع نہ کرو ۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 3503
حکیم بن حزام ؓ کہتے ہیں میں نے عرض کیا:
يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏يَأْتِينِي الرَّجُلُ فَيُرِيدُ مِنِّي الْبَيْعَ لَيْسَ عِنْدِي أَفَأَبْتَاعُهُ لَهُ مِنَ السُّوقِ. فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ.
اللہ کے رسول! آدمی آتا ہے اور مجھ سے اس چیز کی بیع کرنا چاہتا ہے جو میرے پاس موجود نہیں ہوتی، تو کیا میں اس سے سودا کرلوں، اور بازار سے لا کر اسے وہ چیز دے دوں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: جو چیز تمہارے پاس موجود نہ ہو اسے نہ بیچو ۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 3499
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں:
ابْتَعْتُ زَيْتًا فِي السُّوقِ فَلَمَّا اسْتَوْجَبْتُهُ لِنَفْسِي، ‏‏‏‏‏‏لَقِيَنِي رَجُلٌ فَأَعْطَانِي بِهِ رِبْحًا حَسَنًا، ‏‏‏‏‏‏فَأَرَدْتُ أَنْ أَضْرِبَ عَلَى يَدِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَ رَجُلٌ مِنْ خَلْفِي بِذِرَاعِي فَالْتَفَتُّ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا تَبِعْهُ حَيْثُ ابْتَعْتَهُ حَتَّى تَحُوزَهُ إِلَى رَحْلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَنَهَى أَنْ تُبَاعَ السِّلَعُ حَيْثُ تُبْتَاعُ حَتَّى يَحُوزَهَا التُّجَّارُ إِلَى رِحَالِهِمْ.
میں نے بازار میں تیل خریدا، تو جب اس بیع کو میں نے مکمل کرلیا، تو مجھے ایک شخص ملا، وہ مجھے اس کا اچھا نفع دینے لگا، تو میں نے ارادہ کیا کہ اس سے سودا پکا کرلوں اتنے میں ایک شخص نے پیچھے سے میرا ہاتھ پکڑ لیا، میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ زید بن ثابت ؓ تھے، انہوں نے کہا: جب تک کہ تم اسے جہاں سے خریدے ہو وہاں سے اٹھا کر اپنے ٹھکانے پر نہ لے آؤ نہ بیچنا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے سامان کو اسی جگہ بیچنے سے روکا ہے، جس جگہ خریدا گیا ہے یہاں تک کہ تجار سامان تجارت کو اپنے ٹھکانوں پر لے آئیں۔

بیع پر بیع کرنے کی ممانعت:

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 3436
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تَلَقَّوْا السِّلَعَ حَتَّى يُهْبَطَ بِهَا الْأَسْوَاقَ.
کوئی کسی کی بیع پر بیع نہ کرے اور تاجر سے پہلے ہی مل کر سودا نہ کرے جب تک کہ وہ اپنا سامان بازار میں نہ اتار لے۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 2088
سمرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أَيُّمَا امْرَأَةٍ زَوَّجَهَا وَلِيَّانِ فَهِيَ لِلْأَوَّلِ مِنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَيُّمَا رَجُلٍ بَاعَ بَيْعًا مِنْ رَجُلَيْنِ فَهُوَ لِلْأَوَّلِ مِنْهُمَا.
جس عورت کا نکاح دو ولی کردیں تو وہ اس کی ہوگی جس سے پہلے نکاح ہوا ہے اور جس شخص نے ایک ہی چیز کو دو آدمیوں سے فروخت کردیا تو وہ اس کی ہے جس سے پہلے بیچی گئی ۔

مندرجہ بالا احادیث میں بیع پر بیع سے تب ممانعت ہے جب سودا طے ہو چکا ہو جبکہ نیلامی کے ذریعے بولی لگانا اور زیادہ قیمت لگانا جائز ہے:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1218
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ بَاعَ حِلْسًا وَقَدَحًا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ مَنْ يَشْتَرِي هَذَا الْحِلْسَ وَالْقَدَحَ ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ أَخَذْتُهُمَا بِدِرْهَمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ:‏‏‏‏ مَنْ يَزِيدُ عَلَى دِرْهَمٍ مَنْ يَزِيدُ عَلَى دِرْهَمٍ ، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْطَاهُ رَجُلٌ دِرْهَمَيْنِ فَبَاعَهُمَا مِنْهُ.
رسول اللہ ﷺ نے ایک ٹاٹ جو کجاوہ کے نیچے بچھایا جاتا ہے اور ایک پیالہ بیچا، آپ نے فرمایا: یہ ٹاٹ اور پیالہ کون خریدے گا؟ ایک آدمی نے عرض کیا: میں انہیں ایک درہم میں لے سکتا ہوں ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ایک درہم سے زیادہ کون دے گا؟ تو ایک آدمی نے آپ کو دو درہم دیا، تو آپ نے اسی کے ہاتھ سے یہ دونوں چیزیں بیچ دیں۔

لگی ہوئی روزی کو چھوڑنے کی ممانعت:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2148
ام المؤمنین عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں:
فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ:‏‏‏‏ إِذَا سَبَّبَ اللَّهُ لِأَحَدِكُمْ رِزْقًا مِنْ وَجْهٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَدَعْهُ حَتَّى يَتَغَيَّرَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ يَتَنَكَّرَ لَهُ.
میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: اللہ تعالیٰ جب تم میں سے کسی کے لیے روزی کا کوئی ذریعہ پیدا کر دے، تو وہ اسے نہ چھوڑے یہاں تک کہ وہ بدل جائے، یا بگڑ جائے ۔

بیچی ہوئی چیز واپس لے لینا:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2199
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ أَقَالَ مُسْلِمًا، ‏‏‏‏‏‏أَقَالَهُ اللَّهُ عَثْرَتَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
جو شخص کسی مسلمان کے اقالے کو مان لے (یعنی اس کے ساتھ بیع کے فسخ پر راضی ہوجائے) تو اللہ تعالیٰ (اس احسان کے بدلہ میں) قیامت کے دن اس کے گناہوں کو مٹا دے گا ۔

تجارتی معاہدہ یا سودہ:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 282
وَلَا تَسۡــئَمُوۡۤا اَنۡ تَكۡتُبُوۡهُ صَغِيۡرًا اَوۡ كَبِيۡرًا اِلٰٓى اَجَلِهٖ‌ؕ ذٰ لِكُمۡ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰهِ وَاَقۡوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَاَدۡنٰۤى اَلَّا تَرۡتَابُوۡٓا اِلَّاۤ اَنۡ تَكُوۡنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيۡرُوۡنَهَا بَيۡنَكُمۡ فَلَيۡسَ عَلَيۡكُمۡ جُنَاحٌ اَلَّا تَكۡتُبُوۡهَا ‌ؕ وَاَشۡهِدُوۡۤا اِذَا تَبَايَعۡتُمۡ۔
اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے اپنی میعاد تک لکھ رکھنے میں اکتایا نہ کرو، یہ تمہارا دستاویز تیار کر لینا اﷲ کے نزدیک زیادہ قرینِ انصاف ہے اور گواہی کے لئے مضبوط تر اور یہ اس کے بھی قریب تر ہے کہ تم شک میں مبتلا نہ ہو سوائے اس کے کہ دست بدست ایسی تجارت ہو جس کا لین دین تم آپس میں کرتے رہتے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے کا کوئی گناہ نہیں، اور جب بھی آپس میں خرید و فروخت کرو تو گواہ بنا لیا کرو۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1352
عمرو بن عوف مزنی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ،‏‏‏‏ إِلَّا صُلْحًا حَرَّمَ حَلَالًا،‏‏‏‏ أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا،‏‏‏‏ وَالْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا،‏‏‏‏ أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا۔
صلح مسلمان کے درمیان نافذ ہوگی سوائے ایسی صلح کے جو کسی حلال کو حرام کر دے یا کسی حرام کو حلال۔ اور مسلمان اپنی شرطوں کے پابند ہیں۔ سوائے ایسی شرط کے جو کسی حلال کو حرام کر دے یا کسی حرام کو حلال ۔

تجارتی معاہدات کی پاسداری:

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 34
وَاَوۡفُوۡا بِالۡعَهۡدِ‌ۚ اِنَّ الۡعَهۡدَ كَانَ مَسۡــئُوۡلًا ۞
اور وعدہ پورا کیا کرو، بیشک وعدہ کی ضرور پوچھ گچھ ہوگی۔

قیمتوں کا تعین:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2185
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّمَا الْبَيْعُ عَنْ تَرَاضٍ.
بیع بیچنے والے اور خریدنے والے کی باہمی رضا مندی سے منعقد ہوتی ہے ۔

سنن ابن ماجہ, حدیث نمبر: 2200
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں:
غَلَا السِّعْرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَدْ غَلَا السِّعْرُ فَسَعِّرْ لَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّازِقُ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي لَأَرْجُو، ‏‏‏‏‏‏أَنْ أَلْقَى رَبِّي وَلَيْسَ أَحَدٌ يَطْلُبُنِي بِمَظْلَمَةٍ فِي دَمٍ وَلَا مَالٍ.
رسول اللہ ﷺ کے عہد میں ایک دفعہ قیمتیں چڑھ گئیں، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے لیے ایک نرخ (بھاؤ) مقرر کر دیجئیے! آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ ہی نرخ مقرر کرنے والا ہے، کبھی کم کردیتا ہے اور کبھی زیادہ کردیتا ہے، وہی روزی دینے والا ہے، اور مجھے امید ہے کہ میں اپنے رب سے اس حال میں ملوں کہ کوئی مجھ سے جان یا مال میں کسی ظلم کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو۔

مزدور کی مزدوری وقت پر دینا:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2443
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَعْطُوا الْأَجِيرَ أَجْرَهُ قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُهُ.
مزدور کو اس کا پسینہ سوکھنے سے پہلے اس کی مزدوری دے دو۔

تکبر اور دوسرے کو کمتر سمجھنے کی ممانعت:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 265
عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ کَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ کِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَکُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً قَالَ إِنَّ اللَّهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ
جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا اس پر ایک آدمی نے عرض کیا کہ ایک آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کی جوتی بھی اچھی ہو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ جمیل ہے اور جمال ہی کو پسند کرتا ہے تکبر تو حق کی طرف سے منہ موڑنے اور دوسرے لوگوں کو کمتر سمجھنے کو کہتے ہیں۔

میانہ روی اختیار کرنا:

مسند احمد، حدیث نمبر: 20710
حضرت ابودرداء ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا
مِنْ فِقْهِ الرَّجُلِ رِفْقُهُ فِي مَعِيشَتِهِ
انسان کی سمجھداری کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنے معاشی معاملات میں میانہ روی اختیار کرتا ہے۔

مسند احمد، حدیث نمبر: 2565
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
إِنَّ الْهَدْيَ الصَّالِحَ وَالسَّمْتَ الصَّالِحَ وَ الِاقْتِصَادَ جُزْءٌ مِنْ خَمْسَةٍ وَعِشْرِينَ جُزْءًا مِنْ النُّبُوَّةِ۔
اچھا راستہ، نیک سیرت اور میانہ روی اجزاء نبوت میں سے ٢٥ واں جزء ہے۔

مسند احمد، حدیث نمبر: 4048
حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَا عَالَ مَنْ اقْتَصَدَ۔
میانہ روی سے چلنے والا کبھی محتاج اور تنگدست نہیں ہوتا۔

معاملات میں نرم دلی کا مظاہرہ کرنا:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1319
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ سَمْحَ الْبَيْعِ، ‏‏‏‏‏‏سَمْحَ الشِّرَاءِ، ‏‏‏‏‏‏سَمْحَ الْقَضَاءِ۔
اللہ تعالیٰ بیچنے، خریدنے اور قرض کے مطالبہ میں نرمی و آسانی کو پسند کرتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان زریں اصولوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

صلہ رحمی اور رزق میں برکت

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5986
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ وَيُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ.

جو چاہتا ہو کہ اس کے رزق میں فراخی ہو اور اس کی عمردراز ہو تو وہ صلہ رحمی کیا کرے۔

حضرت حسن بن عمرو اور فطر بن خلیفہ نبی مکرم ﷺ سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنِ الْوَاصِلُ الَّذِي إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا. (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5991)

کسی کام کا بدلہ دینا صلہ رحمی نہیں ہے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ نہ کیا جا رہا ہو تب بھی وہ صلہ رحمی کرے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5989
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
الرَّحِمُ شِجْنَةٌ فَمَنْ وَصَلَهَا وَصَلْتُهُ وَمَنْ قَطَعَهَا قَطَعْتُهُ.

رحم (رشتہ داری رحمن سے ملی ہوئی) شاخ ہے جو شخص اس سے ملے میں اس سے ملتا ہوں اور جو اس سے قطع تعلق کرے میں اس سے قطع تعلق کرتا ہوں۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5988
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الرَّحِمَ شَجْنَةٌ مِنَ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ اللَّهُ:‏‏‏‏ مَنْ وَصَلَكِ وَصَلْتُهُ وَمَنْ قَطَعَكِ قَطَعْتُهُ.
رحم کا تعلق رحمن سے جڑا ہوا ہے پس جو کوئی اس سے اپنے آپ کو جوڑتا ہے اللہ پاک نے فرمایا کہ میں بھی اس کو اپنے سے جوڑ لیتا ہوں اور جو کوئی اسے توڑتا ہے میں بھی اپنے آپ کو اس سے توڑ لیتا ہوں۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5984
حضرت جبیر بن مطعم ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعٌ.
قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔

رزق میں وسعت، برکت اور فراخی کے اصول – قرآن و حدیث کی روشنی میں

1۔ اللہ کے ذکر اور یاد سے غفلت نہ برتنا

القرآن – سورۃ نمبر 20 طه، آیت نمبر 124
وَمَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِكۡرِىۡ فَاِنَّ لَـهٗ مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا۔
اور جس نے میرے ذکر (یعنی میری یاد اور نصیحت) سے روگردانی کی تو اس کے لئے دنیاوی معاش (بھی) تنگ کردیا جائے گا۔

القرآن – سورۃ نمبر 24 النور، آیت نمبر 37،38
رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡهِيۡهِمۡ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيۡعٌ عَنۡ ذِكۡرِ اللّٰهِ وَاِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِيۡتَآءِ الزَّكٰوةِ‌ۖ يَخَافُوۡنَ يَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِيۡهِ الۡقُلُوۡبُ وَالۡاَبۡصَارُ ۞ لِيَجۡزِيَهُمُ اللّٰهُ اَحۡسَنَ مَا عَمِلُوۡا وَيَزِيۡدَهُمۡ مِّنۡ فَضۡلِهٖ‌ؕ وَاللّٰهُ يَرۡزُقُ مَنۡ يَّشَآءُ بِغَيۡرِ حِسَابٍ ۞
(اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے اور نہ نماز قائم کرنے سے اور نہ زکوٰۃ ادا کرنے سے (بلکہ دنیوی فرائض کی ادائیگی کے دوران بھی) وہ (ہمہ وقت) اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں (خوف کے باعث) دل اور آنکھیں (سب) الٹ پلٹ ہو جائیں گی۔ تاکہ اللہ انہیں ان (نیک) اعمال کا بہتر بدلہ دے جو انہوں نے کئے ہیں اور اپنے فضل سے انہیں اور (بھی) زیادہ (عطا) فرما دے، اور اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق (و عطا) سے نوازتا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 63 المنافقون، آیت نمبر 9
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُلۡهِكُمۡ اَمۡوَالُكُمۡ وَلَاۤ اَوۡلَادُكُمۡ عَنۡ ذِكۡرِ اللّٰهِ‌ۚ وَمَنۡ يَّفۡعَلۡ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ ۞
اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد (کہیں) تمہیں اللہ کی یاد سے ہی غافل نہ کر دیں، اور جو شخص ایسا کرے گا تو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 62 الجمعة، آیت نمبر 9
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِىَ لِلصَّلٰوةِ مِنۡ يَّوۡمِ الۡجُمُعَةِ فَاسۡعَوۡا اِلٰى ذِكۡرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الۡبَيۡعَ‌ ؕ ذٰ لِكُمۡ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۞
اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لئے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

2۔ تقویٰ و پرہیز گاری (گناہوں کے ارتکاب سے بچنا + اطاعتِ الٰہی)

القرآن – سورۃ نمبر 65 الطلاق، آیت نمبر 2،3
وَمَنۡ يَّـتَّـقِ اللّٰهَ يَجۡعَلْ لَّهٗ مَخۡرَجًا ۞ وَّيَرۡزُقۡهُ مِنۡ حَيۡثُ لَا يَحۡتَسِبُ‌۔
اور جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لئے (دنیا و آخرت کے رنج و غم سے) نکلنے کی راہ پیدا فرما دیتا ہے، اور اسے ایسی جگہ سے رِزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 90
ثوبان ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا يَزِيدُ فِي الْعُمْرِ إِلَّا الْبِرُّ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَرُدُّ الْقَدَرَ إِلَّا الدُّعَاءُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيُحْرَمُ الرِّزْقَ بِخَطِيئَةٍ يَعْمَلُهَا.
عمر کو نیکی کے سوا کوئی چیز نہیں بڑھاتی، اور تقدیر کو دعا کے سوا کوئی چیز نہیں بدلتی ہے، اور آدمی گناہوں کے ارتکاب کے سبب رزق سے محروم کردیا جاتا ہے ۔

القرآن – سورۃ نمبر 24 النور، آیت نمبر 38
لِيَجۡزِيَهُمُ اللّٰهُ اَحۡسَنَ مَا عَمِلُوۡا وَيَزِيۡدَهُمۡ مِّنۡ فَضۡلِهٖ‌ؕ وَاللّٰهُ يَرۡزُقُ مَنۡ يَّشَآءُ بِغَيۡرِ حِسَابٍ ۞
تاکہ اللہ انہیں ان (نیک) اعمال کا بہتر بدلہ دے جو انہوں نے کئے ہیں اور اپنے فضل سے انہیں اور (بھی) زیادہ (عطا) فرما دے، اور اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق (و عطا) سے نوازتا ہے۔

3۔ غرور و تکبر اور ناشکری سے بچنا

القرآن – سورۃ نمبر 28 القصص، آیت نمبر 58
وَكَمۡ اَهۡلَـكۡنَا مِنۡ قَرۡيَةٍۢ بَطِرَتۡ مَعِيۡشَتَهَا۔
اور ہم نے کتنی ہی (ایسی) بستیوں کو برباد کر ڈالا جو اپنی خوشحال معیشت پر غرور و ناشکری کر رہی تھیں۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 265
عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ کَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ کِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَکُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً قَالَ إِنَّ اللَّهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ۔
جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا اس پر ایک آدمی نے عرض کیا کہ ایک آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کی جوتی بھی اچھی ہو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ جمیل ہے اور جمال ہی کو پسند کرتا ہے تکبر تو حق کی طرف سے منہ موڑنے اور دوسرے لوگوں کو کمتر سمجھنے کو کہتے ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 14 ابراهيم، آیت نمبر 7
وَاِذۡ تَاَذَّنَ رَبُّكُمۡ لَئِنۡ شَكَرۡتُمۡ لَاَزِيۡدَنَّـكُمۡ‌ وَلَئِنۡ كَفَرۡتُمۡ اِنَّ عَذَابِىۡ لَشَدِيۡدٌ‏ ۞
اور (یاد کرو) جب تمہارے رب نے آگاہ فرمایا کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقیناً سخت ہے،

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 1522
معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:
يَا مُعَاذُ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أُوصِيكَ يَا مُعَاذُ لَا تَدَعَنَّ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ تَقُولُ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ۔
اے معاذ! قسم اللہ کی، میں تم سے محبت کرتا ہوں، قسم اللہ کی میں تم سے محبت کرتا ہوں ، پھر فرمایا: اے معاذ! میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں: ہر نماز کے بعد یہ دعا پڑھنا کبھی نہ چھوڑنا: اللهم أعني على ذکرک وشکرک وحسن عبادتک اے اللہ! اپنے ذکر، شکر اور اپنی بہترین عبادت کے سلسلہ میں میری مدد فرما ۔

4۔ سخاوت کرنا اور بخل و کنجوسی سے بچنا:

القرآن – سورۃ نمبر 34 سبإ، آیت نمبر 39
قُلۡ اِنَّ رَبِّىۡ يَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖ وَيَقۡدِرُ لَهٗ ؕ وَمَاۤ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ فَهُوَ يُخۡلِفُهٗ ۚ وَهُوَ خَيۡرُ الرّٰزِقِيۡنَ ۞
فرما دیجئے: بیشک میرا رب اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رِزق کشادہ فرما دیتا ہے اور جس کے لئے (چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے، اور تم (اﷲ کی راہ میں) جو کچھ بھی خرچ کرو گے تو وہ اس کے بدلہ میں اور دے گا اور وہ سب سے بہتر رِزق دینے والا ہے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1433
حضرت اسماء ؓ روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے انہیں فرمایا:
لَا تُوكِي فَيُوكَى عَلَيْكِ.
خیرات کو مت روک ورنہ تیرا رزق بھی روک دیا جائے گا۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1961
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
السَّخِيُّ قَرِيبٌ مِنَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَرِيبٌ مِنَ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏قَرِيبٌ مِنَ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏بَعِيدٌ مِنَ النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْبَخِيلُ بَعِيدٌ مِنَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏بَعِيدٌ مِنَ الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏بَعِيدٌ مِنَ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏قَرِيبٌ مِنَ النَّارِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَجَاهِلٌ سَخِيٌّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ عَالِمٍ بَخِيلٍ۔
سخی آدمی اللہ سے قریب ہے، جنت سے قریب ہے، لوگوں سے قریب ہے اور جہنم سے دور ہے، بخیل آدمی اللہ سے دور ہے، جنت سے دور ہے، لوگوں سے دور ہے، اور جہنم سے قریب ہے، جاہل سخی اللہ کے نزدیک بخیل عابد سے کہیں زیادہ محبوب ہے ۔

5۔ کمزوروں اور محتاجوں پر خرچ کرنا

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 2896
مصعب ابن سعد روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
هَلْ تُنْصَرُونَ وَتُرْزَقُونَ إِلَّا بِضُعَفَائِكُمْ.
تم لوگ صرف اپنے کمزور معذور لوگوں کی وجہ سے مدد پہنچائے جاتے ہو اور رزق دئیے جاتے ہیں۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 2594
ابوالدرداء ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
ابْغُونِي الضُّعَفَاءَ فَإِنَّمَا تُرْزَقُونَ وَتُنْصَرُونَ بِضُعَفَائِكُمْ۔
میرے لیے ضعیف اور کمزور لوگوں کو ڈھونڈو، کیونکہ تم اپنے کمزوروں کی وجہ سے رزق دیئے جاتے اور مدد کئے جاتے ہو ۔

6۔ صلہ رحمی کرنا (رشتوں کو جوڑنا)

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6523
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُبْسَطَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ أَوْ يُنْسَأَ فِي أَثَرِهِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ۔
جس آدمی کو یہ بات پسند ہو کہ اس پر اس کا رزق کشادہ کیا جائے یا اس کے مرنے کے بعد اس کو یاد رکھا جائے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنی رشتہ داری کو جوڑے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5991
حضرت حسن بن عمرو اور فطر بن خلیفہ نبی مکرم ﷺ سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنِ الْوَاصِلُ الَّذِي إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا.
کسی کام کا بدلہ دینا صلہ رحمی نہیں ہے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ نہ کیا جا رہا ہو تب بھی وہ صلہ رحمی کرے۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5989
ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
الرَّحِمُ شِجْنَةٌ فَمَنْ وَصَلَهَا وَصَلْتُهُ وَمَنْ قَطَعَهَا قَطَعْتُهُ.
رحم (رشتہ داری رحمن سے ملی ہوئی) شاخ ہے جو شخص اس سے ملے میں اس سے ملتا ہوں اور جو اس سے قطع تعلق کرے میں اس سے قطع تعلق کرتا ہوں۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5988
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الرَّحِمَ شَجْنَةٌ مِنَ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ اللَّهُ:‏‏‏‏ مَنْ وَصَلَكِ وَصَلْتُهُ وَمَنْ قَطَعَكِ قَطَعْتُهُ.
رحم کا تعلق رحمن سے جڑا ہوا ہے پس جو کوئی اس سے اپنے آپ کو جوڑتا ہے اللہ پاک نے فرمایا کہ میں بھی اس کو اپنے سے جوڑ لیتا ہوں اور جو کوئی اسے توڑتا ہے میں بھی اپنے آپ کو اس سے توڑ لیتا ہوں۔

صحیح بخاری، حدیث نمبر: 5984
حضرت جبیر بن مطعم ؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعٌ.
قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔

7۔ توبہ و استغفار کرنا

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 1518
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ لَزِمَ الِاسْتِغْفَارَ، ‏‏‏‏‏‏جَعَلَ اللَّهُ لَهُ مِنْ كُلِّ ضِيقٍ مَخْرَجًا، ‏‏‏‏‏‏وَمِنْ كُلِّ هَمٍّ فَرَجًا، ‏‏‏‏‏‏وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ.
جو کوئی استغفار کا التزام کرلے تو اللہ اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے اور ہر رنج سے نجات پانے کی راہ ہموار کر دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا، جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا ۔

8۔ صبر کرنا (شکوہ و شکایت سے بچنا)

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2326
عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ نَزَلَتْ بِهِ فَاقَةٌ فَأَنْزَلَهَا بِالنَّاسِ لَمْ تُسَدَّ فَاقَتُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ نَزَلَتْ بِهِ فَاقَةٌ فَأَنْزَلَهَا بِاللَّهِ فَيُوشِكُ اللَّهُ لَهُ بِرِزْقٍ عَاجِلٍ أَوْ آجِلٍ۔
جو شخص فاقہ کا شکار ہو اور اس پر صبر نہ کر کے لوگوں سے بیان کرتا پھرے تو اس کا فاقہ ختم نہیں ہوگا، اور جو فاقہ کا شکار ہو اور اسے اللہ کے حوالے کر کے اس پر صبر سے کام لے تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیر یا سویر روزی دے۔

9۔ حلال کمانا اور مالِ حرام سے بچنا:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 276
يَمۡحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَيُرۡبِى الصَّدَقٰتِ‌ؕ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيۡمٍ ۞
اور اﷲ سود کو مٹاتا ہے (یعنی سودی مال سے برکت کو ختم کرتا ہے) اور صدقات کو بڑھاتا ہے (یعنی صدقہ کے ذریعے مال کی برکت کو زیادہ کرتا ہے)، اور اﷲ کسی بھی ناسپاس نافرمان کو پسند نہیں کرتا۔

کنزالعمال، حدیث نمبر: 9308
إنه لن يموت أحد من الناس حتى تستكمل رزقه، ولا تستبطئوا الرزق، واتقوا الله أيها الناس، وأجملوا في الطلب، وخذوا ما حل ودعوا ما حرم۔
بیشک کوئی انسان اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک اپنا رزق مکمل نہ کرلے اور یہ نہ سمجھو کہ رزق ملنے میں تاخیر ہورہی ہے اور اے لوگو! اللہ سے ڈرو، اور تلاش رزق میں میانہ روی اختیار کرو اور جو حلال ہے وہ لو اور حرام کو چھوڑ دو۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2138
مقدام بن معدیکرب زبیدی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَا كَسَبَ الرَّجُلُ كَسْبًا أَطْيَبَ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ وَمَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَى نَفْسِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَهْلِهِ وَوَلَدِهِ وَخَادِمِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَهُوَ صَدَقَةٌ.
آدمی کی کوئی کمائی اس کمائی سے بہتر نہیں جسے اس نے اپنی محنت سے کمایا ہو، اور آدمی اپنی ذات، اپنی بیوی، اپنے بچوں اور اپنے خادم پر جو خرچ کرے وہ صدقہ ہے ۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2224
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں:
مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِرَجُلٍ يَبِيعُ طَعَامًا، ‏‏‏‏‏‏فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهِ فَإِذَا هُوَ مَغْشُوشٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:‏‏‏‏ لَيْسَ مِنَّا مَنْ غَشَّ.
رسول اللہ ﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو گیہوں (غلہ) بیچ رہا تھا، آپ نے اپنا ہاتھ اس کے اندر ڈالا تو وہ مغشوش (غیر خالص اور دھوکے والا گڑبڑ) تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: جو دھوکہ دے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2247
عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ مَنْ بَاعَ عَيْبًا لَمْ يُبَيِّنْهُ لَمْ يَزَلْ فِي مَقْتِ مِنَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ تَزَلِ الْمَلَائِكَةُ تَلْعَنُهُ.
واثلہ بن اسقع ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: جو کوئی عیب دار چیز بیچے اور اس کے عیب کو بیان نہ کرے، تو وہ برابر اللہ تعالیٰ کے غضب میں رہے گا، اور فرشتے اس پر برابر لعنت کرتے رہیں گے ۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2246
عقبہ بن عامر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:
الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ بَاعَ مِنْ أَخِيهِ بَيْعًا فِيهِ عَيْبٌ إِلَّا بَيَّنَهُ لَهُ.
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ہاتھ کوئی ایسی چیز بیچے جس میں عیب ہو، مگر یہ کہ وہ اس کو اس سے بیان کر دے۔

کنزالعمال، حدیث نمبر: 9861
حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں:
سئل رسول الله ﷺ عن أطيب الكسب؟ قال: عمل الرجل بيده، وكل بيع مبرور”.
جناب نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ سب سے پاک کمائی کون سی ہے؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کسی شخص کا اپنے ہاتھ سے کمانا اور ہر وہ بیع جس میں جھوٹ اور خیانت نہ ہو۔ (ابن عساکر)

کنزالعمال، حدیث نمبر: 9336
يا معشر التجار إن الله باعثكم يوم القيامة فجارا إلا من صدق وبر وأدى الأمانة۔
اے تاجروں کے گروں! اللہ تعالیٰ تمہیں قیامت کے دن گناہ گار اٹھانے والے ہیں علاوہ ان (تاجروں) کے جنہوں نے سچ بولا، نیکی کی اور امانت داری کی۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 3685
عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے:
أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏نَهَى عَنِ الْخَمْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَيْسِرِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْكُوبَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْغُبَيْرَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ قَالَ ابْنُ سَلَامٍ أَبُو عُبَيْدٍ:‏‏‏‏ الْغُبَيْرَاءُ:‏‏‏‏ السُّكْرُكَةُ تُعْمَلُ مِنَ الذُّرَةِ، ‏‏‏‏‏‏شَرَابٌ يَعْمَلُهُ الْحَبَشَةُ.
نبی اکرم ﷺ نے شراب، جوا، کوبہ (چوسر یا ڈھولک) اور غبیراء سے منع کیا، اور فرمایا: ہر نشہ آور چیز حرام ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن سلام ابو عبید نے کہا ہے: غبیراء ایسی شراب ہے جو مکئی سے بنائی جاتی ہے حبشہ کے لوگ اسے بناتے ہیں۔

10) ناپ تول میں انصاف:

القرآن – سورۃ نمبر 11 هود، آیت نمبر 85
وَيٰقَوۡمِ اَوۡفُوا الۡمِكۡيَالَ وَالۡمِيۡزَانَ بِالۡقِسۡطِ‌ وَلَا تَبۡخَسُوا النَّاسَ اَشۡيَآءَهُمۡ وَلَا تَعۡثَوۡا فِى الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِيۡنَ‏ ۞
اور اے میری قوم! تم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پورے کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو اور فساد کرنے والے بن کر ملک میں تباہی مت مچاتے پھرو۔

القرآن – سورۃ نمبر 55 الرحمن، آیت نمبر 9
وَاَقِيۡمُوا الۡوَزۡنَ بِالۡقِسۡطِ وَلَا تُخۡسِرُوا الۡمِيۡزَانَ ۞
اور انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول کو کم نہ کرو۔

کنزالعمال، حدیث نمبر: 9338
يا وزان زن وأرجح۔
اے وزن کرنے والے! وزن کر اور زیادہ دے۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2222
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا وَزَنْتُمْ فَأَرْجِحُوا.
جب تولو تو جھکا کر تولو ۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 4019
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَلَمْ يَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ،‏‏‏‏ إِلَّا أُخِذُوا بِالسِّنِينَ،‏‏‏‏ وَشِدَّةِ الْمَئُونَةِ،‏‏‏‏ وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَيْهِمْ،‏‏‏‏
جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قحط، معاشی تنگی اور اپنے حکمرانوں کی زیادتی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2227
عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلَا يَبِعْهُ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عَوَانَةَ فِي حَدِيثِهِ:‏‏‏‏ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ وَأَحْسِبُ كُلَّ شَيْءٍ مِثْلَ الطَّعَامِ.
جو گیہوں خریدے تو اس پر قبضہ کے پہلے اس کو نہ بیچے ۔ ابوعوانہ اپنی حدیث میں کہتے ہیں: ابن عباس ؓ نے کہا: میں ہر چیز کو گیہوں ہی کی طرح سمجھتا ہوں۔

11) خرید و فروخت کرتے وقت قسمیں کھانے سے بچنا:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2209
ابوقتادہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِيَّاكُمْ وَالْحَلِفَ فِي الْبَيْعِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ يُنَفِّقُ ثُمَّ يَمْحَقُ.
بیع (خریدو فروخت) میں قسمیں کھانے سے بچو، کیونکہ اس سے گرم بازاری تو ہوجاتی ہے اور برکت جاتی رہتی ہے ۔

12) وہ اوصاف جن سے کمائی میں پاکیزگی اور برکت پیدا ہوتی ہے:

کنزالعمال، حدیث نمبر: 9340
إن أطيب الكسب كسب التجار الذين إذا حدثوا لم يكذبوا، وإذا ائتمنوا لم يخونوا، وإذا وعدوا لم يخلفوا، وإذا اشتروا لم يذموا، وإذا باعوا لم يطروا، وإذا كان عليهم لم يمطلوا، وإذا كان لهم لم يعسروا.

سب سے پاک کمائی ان تاجروں کی ہے جو:
1) بات کرتے ہوئے جھوٹ نہیں بولتے،
2) ان کے پاس امانت رکھوائی جائے تو خیانت نہیں کرتے،
3) وعدہ کرلیں تو وعدہ خلافی نہیں کرتے،
4) خریدتے ہیں تو برائی نہیں کرتے،
5) بیچتے ہیں تو دھتکارتے نہیں،
6) اگر کسی کا قرض دینا ہو تو ٹال مٹول نہیں کرتے،
7) اگر کسی سے قرض وصول کرنا ہو تو سختی نہیں کرتے۔

13) صبح کے وقت میں برکت:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2236
صخر غامدی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَكَانَ إِذَا بَعَثَ سَرِيَّةً، ‏‏‏‏‏‏أَوْ جَيْشًا بَعَثَهُمْ فِي أَوَّلِ النَّهَارِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَكَانَ صَخْرٌ رَجُلًا تَاجِرًا، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ يَبْعَثُ تِجَارَتَهُ فِي أَوَّلِ النَّهَارِ فَأَثْرَى وَكَثُرَ مَالُهُ.
اے اللہ! میری امت کے لیے صبح کے وقت میں برکت عطا فرما اور جب آپ ﷺ کو کوئی سریہ یا لشکر روانہ کرنا ہوتا تو اسے دن کے ابتدائی حصہ ہی میں روانہ فرماتے۔ راوی کہتے ہیں: غامدی صخر تاجر تھے، وہ اپنا مال تجارت صبح سویرے ہی بھیجتے تھے بالآخر وہ مالدار ہوگئے، اور ان کی دولت بڑھ گئی۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2238
عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا.
اے اللہ! میری امت کے لیے صبح کے وقت میں برکت عطا فرما ۔

کنزالعمال، حدیث نمبر: 9299
إذا صليتم الفجر فلا تناموا عن طلب أرزاقكم۔
جب تم فجر کی نماز پڑھ لو تو رزق تلاش کرنے کے بجائے سو مت جایا کرو۔

14) قرضِ حسنہ دینا:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 245
مَنۡ ذَا الَّذِىۡ يُقۡرِضُ اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضۡعَافًا کَثِيۡرَةً ‌ؕ وَاللّٰهُ يَقۡبِضُ وَيَبۡصُۜطُ ۖ وَ اِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ ۞
کون ہے جو اﷲ کو قرضِ حسنہ دے پھر وہ اس کے لئے اسے کئی گنا بڑھا دے گا، اور اﷲ ہی (تمہارے رزق میں) تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے،

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 280
وَاِنۡ كَانَ ذُوۡ عُسۡرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيۡسَرَةٍ ‌ؕ وَاَنۡ تَصَدَّقُوۡا خَيۡرٌ لَّـكُمۡ‌ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۞
اور اگر قرض دار تنگدست ہو تو خوشحالی تک مہلت دی جانی چاہئے، اور تمہارا (قرض کو) معاف کر دینا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تمہیں معلوم ہو۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 4000
حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُنْجِيَهُ اللَّهُ مِنْ کُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلْيُنَفِّسْ عَنْ مُعْسِرٍ أَوْ يَضَعْ عَنْهُ۔
جس کو یہ پسند ہو کہ اللہ اسے قیامت کے دن کی سختیوں سے نجات دے تو چاہئے کہ وہ مفلس (مقروض) کو مہلت دے یا اس کا قرض معاف کر دے۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2418
بریدہ اسلمی ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا كَانَ لَهُ بِكُلِّ يَوْمٍ صَدَقَةٌ وَمَنْ أَنْظَرَهُ بَعْدَ حِلِّهِ كَانَ لَهُ مِثْلُهُ فِي كُلِّ يَوْمٍ صَدَقَةٌ.
جو کسی تنگ دست کو مہلت دے گا تو اس کو ہر دن کے حساب سے ایک صدقہ کا ثواب ملے گا، اور جو کسی تنگ دست کو میعاد گزر جانے کے بعد مہلت دے گا تو اس کو ہر دن کے حساب سے اس کے قرض کے (برابر) صدقہ کا ثواب ملے گا ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1640
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُكَفِّرُ كُلَّ خَطِيئَةٍ، إِلَّا الدَّيْنَ۔
اللہ کی راہ میں شہادت (شہید کے لیے) ہر گناہ کا کفارہ بن جاتی ہے، سوائے قرض کے۔

15) کھانے سے پہلے اور بعد میں وضو کرنا:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3260
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُكْثِرَ اللَّهُ خَيْرَ بَيْتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَتَوَضَّأْ إِذَا حَضَرَ غَدَاؤُهُ وَإِذَا رُفِعَ.
جو یہ پسند کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کے گھر میں خیر و برکت زیادہ کرے، اسے چاہیئے کہ جب اسے کھانا پیش کیا جائے تو پہلے وضو کرلے، اور جب کھانا ختم کرلے تو تب بھی۔

16) اللہ پر توکل:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 4164
عمر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
لَوْ أَنَّكُمْ تَوَكَّلْتُمْ عَلَى اللَّهِ حَقَّ تَوَكُّلِهِ،‏‏‏‏ لَرَزَقَكُمْ كَمَا يَرْزُقُ الطَّيْرَ،‏‏‏‏ تَغْدُو خِمَاصًا وَتَرُوحُ بِطَانًا.
اگر تم اللہ تعالیٰ پر ایسے ہی توکل (بھروسہ) کرو جیسا کہ اس پر توکل (بھروسہ) کرنے کا حق ہے، تو وہ تم کو ایسے رزق دے گا جیسے پرندوں کو دیتا ہے، وہ صبح میں خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر لوٹتے ہیں ۔

17) دنیا کے بجائے آخرت کو ترجیح دینا:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2143
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَعْظَمُ النَّاسِ هَمًّا الْمُؤْمِنُ الَّذِي يَهُمُّ بِأَمْرِ دُنْيَاهُ وَأَمْرِ آخِرَتِهِ۔
سب سے زیادہ فکرمندی اس مومن کو ہوتی ہے جسے دنیا کی بھی فکر ہو اور آخرت کی بھی۔

سنن ابن ماجہ, حدیث نمبر: 4105
حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ كَانَتِ الدُّنْيَا هَمَّهُ،‏‏‏‏ فَرَّقَ اللَّهُ عَلَيْهِ أَمْرَهُ،‏‏‏‏ وَجَعَلَ فَقْرَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ،‏‏‏‏ وَلَمْ يَأْتِهِ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا مَا كُتِبَ لَهُ،‏‏‏‏ وَمَنْ كَانَتِ الْآخِرَةُ نِيَّتَهُ،‏‏‏‏ جَمَعَ اللَّهُ لَهُ أَمْرَهُ،‏‏‏‏ وَجَعَلَ غِنَاهُ فِي قَلْبِهِ،‏‏‏‏ وَأَتَتْهُ الدُّنْيَا وَهِيَ رَاغِمَةٌ.
جس کو دنیا کی فکر لگی ہو تو اللہ تعالیٰ اس پر اس کے معاملات کو پراگندہ کر دے گا، اور محتاجی کو اس کی نگاہوں کے سامنے کر دے گا، جب اس کو دنیا سے صرف وہی ملے گا جو اس کے حصے میں لکھ دیا گیا ہے، اور جس کا مقصود آخرت ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے معاملات کو ٹھیک کر دے گا، اس کے دل کو بےنیازی عطا کرے گا، اور دنیا اس کے پاس ناک رگڑتی ہوئی آئے گی ۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 4106
مَنْ جَعَلَ الْهُمُومَ هَمًّا وَاحِدًا هَمَّ الْمَعَادِ،‏‏‏‏ كَفَاهُ اللَّهُ هَمَّ دُنْيَاهُ،‏‏‏‏ وَمَنْ تَشَعَّبَتْ بِهِ الْهُمُومُ فِي أَحْوَالِ الدُّنْيَا،‏‏‏‏ لَمْ يُبَالِ اللَّهُ فِي أَيِّ أَوْدِيَتِهِ هَلَكَ.
جس نے اپنے سارے غموں کو آخرت کا غم بنا لیا تو اللہ تعالیٰ اس کی دنیا کے غم کے لیے کافی ہے، اور جو دنیاوی معاملات کے غموں اور پریشانیوں میں الجھا رہا، تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پروا نہیں کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہوا ۔

18) رزق (نعمت) کی بے حرمتی سے بچنا:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 3353
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں
دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْتَ،‏‏‏‏ فَرَأَى كِسْرَةً مُلْقَاةً فَأَخَذَهَا فَمَسَحَهَا،‏‏‏‏ ثُمَّ أَكَلَهَا،‏‏‏‏ وَقَالَ:‏‏‏‏ يَا عَائِشَةُ أَكْرِمِي كَرِيمكِ،‏‏‏‏ فَإِنَّهَا مَا نَفَرَتْ عَنْ قَوْمٍ قَطُّ فَعَادَتْ إِلَيْهِمْ.
نبی اکرم ﷺ گھر میں داخل ہوئے تو روٹی کا ایک ٹکڑا پڑا ہوا دیکھا، آپ نے اسے اٹھایا، صاف کیا پھر اسے کھالیا، اور فرمایا: عائشہ! احترام کے قابل چیز (یعنی اللہ کے رزق کی) عزت کرو، اس لیے کہ جب کبھی کسی قوم سے اللہ کا رزق پھر گیا، تو ان کی طرف واپس نہیں آیا ۔

مسنون دعائیں:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3563
حضرت علی ؓ سے روایت ہے:
أَنَّ مُكَاتَبًا جَاءَهُ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي قَدْ عَجَزْتُ عَنْ كِتَابَتِي فَأَعِنِّي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَلَا أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ عَلَّمَنِيهِنَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لَوْ كَانَ عَلَيْكَ مِثْلُ جَبَلِ صِيرٍ دَيْنًا أَدَّاهُ اللَّهُ عَنْكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ قُلْ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ اكْفِنِي بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ۔
ایک مکاتب غلام نے ان کے پاس آ کر کہا کہ میں اپنی مکاتبت کی رقم ادا نہیں کر پا رہا ہوں، آپ ہماری کچھ مدد فرما دیجئیے تو انہوں نے کہا: کیا میں تم کو کچھ ایسے کلمے نہ سکھا دوں جنہیں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سکھائے تھے؟ اگر تیرے پاس «صیر» پہاڑ کے برابر بھی قرض ہو تو تیری جانب سے اللہ اسے ادا فرما دے گا، انہوں نے کہا: کہو: «اللهم اکفني بحلالک عن حرامک وأغنني بفضلک عمن سواک» اے اللہ! تو ہمیں حلال دے کر حرام سے کفایت کر دے، اور اپنے فضل (رزق، مال و دولت) سے نواز کر اپنے سوا کسی اور سے مانگنے سے بےنیاز کر دے ۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 925
حضرت ام المؤمنین ام سلمہ ؓ کہتی ہیں:
أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَقُولُ إِذَا صَلَّى الصُّبْحَ حِينَ يُسَلِّمُ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ عِلْمًا نَافِعًا، ‏‏‏‏‏‏وَرِزْقًا طَيِّبًا، ‏‏‏‏‏‏وَعَمَلًا مُتَقَبَّلًا.
نبی اکرم ﷺ جب نماز فجر میں سلام پھیرتے تو یہ دعا پڑھتے: اللهم إني أسألک علما نافعا ورزقا طيبا وعملا متقبلا اے اللہ! میں تجھ سے نفع بخش علم، پاکیزہ روزی اور مقبول عمل کا سوال کرتا ہوں۔

اسلامی معیشت کے بنیادی اصول – قرآن و حدیث کی روشنی میں

اس کائنات کا انتظام اللہ رب العزت ایک خاص اندازے اور تدبیر کے ساتھ چلا رہے ہیں اور اس نظام میں موجود ہر شے کچھ مقررہ اصول و ضوابط کے تحت کام کر رہی ہے۔ انسان کی دنیوی و اخروی کامیابی یہ ہے کہ وہ ان اصول و ضوابط کو سمجھ کر ان پر عمل پیرا ہو۔

اس دنیا میں ہر انسان کے لیے اللہ رب العزت نے رہائش اور رزق کا بندوبست بھی مناسب انداز میں کر دیا ہے۔ اس معیشت (رزق) کی تقسیم، رزق کی تقسیم کے لحاظ چند بنیادی اصول و ضوابط اللہ رب العزت نے قرآنِ مجید کے اندر اور حضور نبی مکرم ﷺ نے احادیثِ مبارکہ میں بیان کیے ہیں جو اس مضمون میں بیان کیے گئے ہیں۔

1۔ حقیقی ملکیت صرف اللہ کی ہے۔ انسان کی حیثیت محض نائب اور امین کی ہے:

یعنی ہر طرح کے اموال، ذرائع پیداوار، اور ذرائع معیشت کا حقیقی مالک اللہ رب العزت ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 284
لِلّٰهِ مَا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ‌ؕ۔
جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے سب اﷲ کے لئے ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 29
هُوَ الَّذِىۡ خَلَقَ لَـكُمۡ مَّا فِى الۡاَرۡضِ جَمِيۡعًا۔
وہی ہے جس نے سب کچھ جو زمین میں ہے تمہارے لئے پیدا کیا۔

القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 26
قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الۡمُلۡكِ تُؤۡتِى الۡمُلۡكَ مَنۡ تَشَآءُ وَتَنۡزِعُ الۡمُلۡكَ مِمَّنۡ تَشَآءُ وَتُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُ‌ ؕ بِيَدِكَ الۡخَيۡرُ‌ؕ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ ۞
(اے حبیب! یوں) عرض کیجئے: اے اﷲ، سلطنت کے مالک! تُو جسے چاہے سلطنت عطا فرما دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تُو جسے چاہے عزت عطا فرما دے اور جسے چاہے ذلّت دے، ساری بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے، بیشک تُو ہر چیز پر بڑی قدرت والا ہے۔

انسان کی حیثیت فقط نائب (خلیفہ) اور امین کی ہے۔ بحیثیت نائب (خلیفہ) اور امین کے انسان کی یہی آزمائش ہے کہ وہ اس امانتاً ملنے والی ملکیت کو مالکِ حقیقی (اللہ رب العزت) کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق استعمال کرے۔ اسی کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق اس ملکیت سے نفع حاصل کرے اور اسی کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق اس نفع کو اپنے اور دوسروں کے اوپر خرچ کرے۔

القرآن – سورۃ نمبر 57 الحديد، آیت نمبر 7
اٰمِنُوۡا بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ وَاَنۡفِقُوۡا مِمَّا جَعَلَـكُمۡ مُّسۡتَخۡلَفِيۡنَ فِيۡهِ‌ؕ فَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡكُمۡ وَاَنۡفَقُوۡا لَهُمۡ اَجۡرٌ كَبِيۡرٌ ۞
اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لاؤ اور اس (مال و دولت) میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں اپنا نائب (و امین) بنایا ہے، پس تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے خرچ کیا اُن کے لئے بہت بڑا اَجر ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 24 النور، آیت نمبر 55
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡكُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَـيَسۡتَخۡلِفَـنَّهُمۡ فِى الۡاَرۡضِ كَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡۖ۔
اللہ نے ایسے لوگوں سے وعدہ فرمایا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ ضرور انہی کو زمین میں خلافت (یعنی امانتِ اقتدار کا حق) عطا فرمائے گا جیسا کہ اس نے ان لوگوں کو (حقِ) حکومت بخشا تھا جو ان سے پہلے تھے۔

القرآن – سورۃ نمبر 57 الحديد، آیت نمبر 10
وَ مَا لَـكُمۡ اَلَّا تُنۡفِقُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَلِلّٰهِ مِيۡـرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ‌ؕ۔
اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ آسمانوں اور زمین کی ساری ملکیت اللہ ہی کی ہے (تم تو فقط اس مالک کے نائب ہو)،

2۔ جملہ اموال میں حاجت مندوں کا شرعی حق ہے:

معاشرے کے محروم افراد کا حق ہے کہ ان پر خرچ کیا جائے اور ان کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔

القرآن – سورۃ نمبر 51 الذاريات، آیت نمبر 19
وَفِىۡۤ اَمۡوَالِهِمۡ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالۡمَحۡرُوۡمِ ۞
اور اُن کے اموال میں سائل اور محروم (سب حاجت مندوں) کا حق مقرر تھا۔

القرآن – سورۃ نمبر 70 المعارج، آیت نمبر 24،25
وَالَّذِيۡنَ فِىۡۤ اَمۡوَالِهِمۡ حَقٌّ مَّعۡلُوۡمٌ ۞ لِّلسَّآئِلِ وَالۡمَحۡرُوۡمِ ۞
اور وہ (ایثار کیش) لوگ جن کے اَموال میں حصہ مقرر ہے۔ مانگنے والے اور نہ مانگنے والے محتاج کا۔

القرآن – سورۃ نمبر 41 فصلت، آیت نمبر 10
وَجَعَلَ فِيۡهَا رَوَاسِىَ مِنۡ فَوۡقِهَا وَبٰرَكَ فِيۡهَا وَقَدَّرَ فِيۡهَاۤ اَقۡوَاتَهَا فِىۡۤ اَرۡبَعَةِ اَيَّامٍؕ سَوَآءً لِّلسَّآئِلِيۡنَ ۞
اور اُس کے اندر (سے) بھاری پہاڑ (نکال کر) اس کے اوپر رکھ دیئے اور اس کے اندر (معدنیات، آبی ذخائر، قدرتی وسائل اور دیگر قوتوں کی) برکت رکھی، اور اس میں (جملہ مخلوق کے لئے) غذائیں (اور سامانِ معیشت) مقرر فرمائے (یہ سب کچھ اس نے) چار دنوں (یعنی چار ارتقائی زمانوں) میں مکمل کیا، (یہ سارا رِزق اصلًا) تمام طلب گاروں (اور حاجت مندوں) کے لئے برابر ہے۔

سوال: ہم کسی شخص پر کیوں خرچ کریں اگر اللہ چاہتا تو خود ہی اسے رزق عطاء فرما دیتا؟

جواب:
القرآن – سورۃ نمبر 36 يس، آیت نمبر 47
وَاِذَا قِيۡلَ لَهُمۡ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ ۙ قَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنُطۡعِمُ مَنۡ لَّوۡ يَشَآءُ اللّٰهُ اَطۡعَمَهٗٓ ۖ اِنۡ اَنۡـتُمۡ اِلَّا فِىۡ ضَلٰلٍ مُّبِيۡنٍ‏ ۞
اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ تم اس میں سے (راہِ خدا میں) خرچ کرو جو تمہیں اللہ نے عطا کیا ہے تو کافر لوگ ایمان والوں سے کہتے ہیں: کیا ہم اس (غریب) شخص کو کھلائیں جسے اگر اللہ چاہتا تو (خود ہی) کھلا دیتا۔ تم تو کھلی گمراہی میں ہی (مبتلا) ہوگئے ہو۔

تو گویا قرآن کے مطابق اس طرح کی سوچ، کافرانہ سوچ ہے اور کھلی گمراہی ہے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 660
فاطمہ بنت قیس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ فِي الْمَالِ حَقًّا سِوَى الزَّكَاةِ .
مال میں زکاۃ کے علاوہ بھی حقوق ہیں ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 659
فاطمہ بنت قیس ؓ کہتی ہیں کہ میں نے زکاۃ کے بارے میں پوچھا، یا نبی اکرم ﷺ سے زکاۃ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
إِنَّ فِي الْمَالِ لَحَقًّا سِوَى الزَّكَاةِ ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ الَّتِي فِي الْبَقَرَةِ لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ سورة البقرة آية 177 الْآيَةَ.
مال میں زکاۃ کے علاوہ بھی کچھ حق ہے۔ پھر آپ نے سورة البقرہ کی یہ آیت تلاوت فرمائی: «ليس البر أن تولوا وجوهكم» نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے پھیر لو۔ الآیۃ۔

3۔ بنیادی حق المعاش اور ضروریات کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے:

القرآن – سورۃ نمبر 11 هود، آیت نمبر 6
وَمَا مِنۡ دَآ بَّةٍ فِى الۡاَرۡضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزۡقُهَا وَ يَعۡلَمُ مُسۡتَقَرَّهَا وَمُسۡتَوۡدَعَهَا‌ؕ كُلٌّ فِىۡ كِتٰبٍ مُّبِيۡنٍ ۞
اور زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا (جاندار) نہیں ہے مگر (یہ کہ) اس کا رزق اﷲ (کے ذمۂ کرم) پر ہے اور وہ اس کے ٹھہرنے کی جگہ کو اور اس کے امانت رکھے جانے کی جگہ کو (بھی) جانتا ہے، ہر بات کتابِ روشن (لوحِ محفوظ) میں (درج) ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 29 العنكبوت، آیت نمبر 60
وَكَاَيِّنۡ مِّنۡ دَآبَّةٍ لَّا تَحۡمِلُ رِزۡقَهَا ۖ اللّٰهُ يَرۡزُقُهَا وَاِيَّاكُمۡ‌‌ۖ وَهُوَ السَّمِيۡعُ الۡعَلِيۡمُ ۞
اور کتنے ہی جانور ہیں جو اپنی روزی (اپنے ساتھ) نہیں اٹھائے پھرتے، اﷲ انہیں بھی رزق عطا کرتا ہے اور تمہیں بھی، اور وہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 6 الأنعام، آیت نمبر 151
وَلَا تَقۡتُلُوۡۤا اَوۡلَادَكُمۡ مِّنۡ اِمۡلَاقٍ‌ؕ نَحۡنُ نَرۡزُقُكُمۡ وَاِيَّاهُمۡ‌۔
اور مفلسی کے باعث اپنی اولاد کو قتل مت کرو۔ ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی (دیں گے)۔

رزق کی فراہمی اللہ رب العزت نے اپنے ذمے لی ہے۔ اللہ کے ذمے سے مراد اسلامی فلاحی ریاست کے حکمران کے ذمے ہے کیونکہ وہ اللہ رب العزت کا نائب اور خلیفہ ہے۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 1663
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ كَانَ عِنْدَهُ فَضْلُ ظَهْرٍ فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لَا ظَهْرَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ كَانَ عِنْدَهُ فَضْلُ زَادٍ فَلْيَعُدْ بِهِ عَلَى مَنْ لَا زَادَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ لَا حَقَّ لِأَحَدٍ مِنَّا فِي الْفَضْلِ.
جس کے پاس کوئی فاضل (ضرورت سے زائد) سواری ہو تو چاہیئے کہ اسے وہ ایسے شخص کو دیدے جس کے پاس سواری نہ ہو، جس کے پاس فاضل توشہ ہو تو چاہیئے کہ اسے وہ ایسے شخص کو دیدے جس کے پاس توشہ نہ ہو، یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ ہم میں سے فاضل چیز کا کسی کو کوئی حق نہیں ۔

اسلامی فلاحی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام شہریوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرے اور ان کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنائے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2341
عثمان بن عفان ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَيْسَ لِابْنِ آدَمَ حَقٌّ فِي سِوَى هَذِهِ الْخِصَالِ بَيْتٌ يَسْكُنُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَثَوْبٌ يُوَارِي عَوْرَتَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَجِلْفُ الْخُبْزِ وَالْمَاءِ۔
دنیا کی چیزوں میں سے ابن آدم کا حق سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اس کے لیے ایک گھر ہو جس میں وہ زندگی بسر کرسکے اور اتنا کپڑا ہو جس سے وہ اپنا ستر ڈھانپ سکے، اور روٹی اور پانی کے لیے برتن ہوں جن سے وہ کھانے پینے کا جتن کرسکے ۔

4) اسبابِ معیشت کی تقسیم اللہ رب العزت کی طرف سے ہے:

القرآن – سورۃ نمبر 51 الذاريات، آیت نمبر 58
اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الۡقُوَّةِ الۡمَتِيۡنُ ۞
بیشک اﷲ ہی ہر ایک کا روزی رساں ہے، بڑی قوت والا ہے، زبردست مضبوط ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 10
وَلَقَدۡ مَكَّـنّٰكُمۡ فِى الۡاَرۡضِ وَجَعَلۡنَا لَـكُمۡ فِيۡهَا مَعَايِشَ۔
اور بیشک ہم نے تم کو زمین میں تمکّن و تصرّف عطا کیا اور ہم نے اس میں تمہارے لئے اسبابِ معیشت پیدا کئے۔

القرآن – سورۃ نمبر 15 الحجر، آیت نمبر 20
وَجَعَلۡنَا لَـكُمۡ فِيۡهَا مَعَايِشَ وَمَنۡ لَّسۡتُمۡ لَهٗ بِرٰزِقِيۡنَ ۞
اور ہم نے اس میں تمہارے لئے اسبابِ معیشت پیدا کئے اور ان (انسانوں، جانوروں اور پرندوں) کے لئے بھی جنہیں تم رزق مہیا نہیں کرتے۔

القرآن – سورۃ نمبر 11 هود، آیت نمبر 6
وَمَا مِنۡ دَآبَّةٍ فِى الۡاَرۡضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزۡقُهَا وَ يَعۡلَمُ مُسۡتَقَرَّهَا وَمُسۡتَوۡدَعَهَا‌ؕ كُلٌّ فِىۡ كِتٰبٍ مُّبِيۡنٍ ۞
اور زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا (جاندار) نہیں ہے مگر (یہ کہ) اس کا رزق اﷲ (کے ذمۂ کرم) پر ہے اور وہ اس کے ٹھہرنے کی جگہ کو اور اس کے امانت رکھے جانے کی جگہ کو (بھی) جانتا ہے، ہر بات کتابِ روشن (لوحِ محفوظ) میں (درج) ہے،

القرآن – سورۃ نمبر 28 القصص، آیت نمبر 82
وَيۡكَاَنَّ اللّٰهَ يَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖ وَيَقۡدِرُ‌ۚ۔
کتنا عجیب ہے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رزق کشادہ فرماتا اور (جس کے لئے چاہتا ہے) تنگ فرماتا ہے۔

5) رزق میں وسعت اور تنگی کی حکمت:

القرآن – سورۃ نمبر 43 الزخرف، آیت نمبر 32
نَحۡنُ قَسَمۡنَا بَيۡنَهُمۡ مَّعِيۡشَتَهُمۡ فِى الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا وَرَفَعۡنَا بَعۡضَهُمۡ فَوۡقَ بَعۡضٍ دَرَجٰتٍ لِّيَـتَّخِذَ بَعۡضُهُمۡ بَعۡضًا سُخۡرِيًّا‌۔
ہم اِن کے درمیان دنیوی زندگی میں ان کے (اسبابِ) معیشت کو تقسیم کرتے ہیں اور ہم ہی ان میں سے بعض کو بعض پر (وسائل و دولت میں) درجات کی فوقیت دیتے ہیں، (کیا ہم یہ اس لئے کرتے ہیں) کہ ان میں سے بعض (جو امیر ہیں) بعض (غریبوں) کا مذاق اڑائیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى، آیت نمبر 27
وَلَوۡ بَسَطَ اللّٰهُ الرِّزۡقَ لِعِبَادِهٖ لَبَغَوۡا فِى الۡاَرۡضِ وَلٰكِنۡ يُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَآءُ ‌ؕ اِنَّهٗ بِعِبَادِهٖ خَبِيۡرٌۢ بَصِيۡرٌ ۞
اور اگر اللہ اپنے تمام بندوں کے لئے روزی کشادہ فرما دے تو وہ ضرور زمین میں سرکشی کرنے لگیں لیکن وہ (ضروریات کے) اندازے کے ساتھ جتنی چاہتا ہے اتارتا ہے، بیشک وہ اپنے بندوں (کی ضرورتوں) سے خبردار ہے خوب دیکھنے والا ہے۔

6) طلبِ رزق کی ترغیب:

القرآن – سورۃ نمبر 29 العنكبوت، آیت نمبر 17
اِنَّ الَّذِيۡنَ تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ لَا يَمۡلِكُوۡنَ لَـكُمۡ رِزۡقًا فَابۡتَغُوۡا عِنۡدَ اللّٰهِ الرِّزۡقَ وَاعۡبُدُوۡهُ وَاشۡكُرُوۡا لَهٗ ؕ اِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ ۞
بیشک تم اللہ کے سوا جن کی پوجا کرتے ہو وہ تمہارے لئے رزق کے مالک نہیں ہیں پس تم اللہ کی بارگاہ سے رزق طلب کیا کرو اور اسی کی عبادت کیا کرو اور اسی کا شکر بجا لایا کرو، تم اسی کی طرف پلٹائے جاؤ گے۔

القرآن – سورۃ نمبر 62 الجمعة، آیت نمبر 11
وَاِذَا رَاَوۡا تِجَارَةً اَوۡ لَهۡوَا۟ اۨنْفَضُّوۡۤا اِلَيۡهَا وَتَرَكُوۡكَ قَآئِمًا‌ ؕ قُلۡ مَا عِنۡدَ اللّٰهِ خَيۡرٌ مِّنَ اللَّهۡوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ‌ ؕ وَاللّٰهُ خَيۡرُ الرّٰزِقِيۡنَ ۞
اور جب انہوں نے کوئی تجارت یا کھیل تماشا دیکھا تو (اپنی حاجت مندی اور معاشی تنگی کے باعث) اس کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے اور آپ کو (خطبہ میں) کھڑے چھوڑ گئے، فرما دیجئے: جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل سے اور تجارت سے بہتر ہے، اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 73 المزمل، آیت نمبر 20
وَاٰخَرُوۡنَ يَضۡرِبُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ يَبۡتَغُوۡنَ مِنۡ فَضۡلِ اللّٰهِ‌ۙ۔
اور (بعض) دوسرے لوگ زمین میں سفر کریں گے تاکہ اﷲ کا فضل تلاش کریں۔

القرآن – سورۃ نمبر 16 النحل، آیت نمبر 14
وَهُوَ الَّذِىۡ سَخَّرَ الۡبَحۡرَ لِتَاۡكُلُوۡا مِنۡهُ لَحۡمًا طَرِيًّا وَّتَسۡتَخۡرِجُوۡا مِنۡهُ حِلۡيَةً تَلۡبَسُوۡنَهَا‌ۚ وَتَرَى الۡـفُلۡكَ مَوَاخِرَ فِيۡهِ وَلِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِهٖ وَلَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ‏ ۞
اور وہی ہے جس نے (فضا و بر کے علاوہ) بحر (یعنی دریاؤں اور سمندروں) کو بھی مسخر فرما دیا تاکہ تم اس میں سے تازہ (و پسندیدہ) گوشت کھاؤ اور تم اس میں سے موتی (وغیرہ) نکالو جنہیں تم زیبائش کے لئے پہنتے ہو، اور (اے انسان!) تُو کشتیوں (اور جہازوں) کو دیکھتا ہے جو (دریاؤں اور سمندروں کا) پانی چیرتے ہوئے اس میں چلے جاتے ہیں، اور (یہ سب کچھ اس لئے کیا) تاکہ تم (دور دور تک) اس کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرو اور یہ کہ تم شکر گزار بن جاؤ۔

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 66
رَبُّكُمُ الَّذِىۡ يُزۡجِىۡ لَـكُمُ الۡفُلۡكَ فِى الۡبَحۡرِ لِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِهٖؕ اِنَّهٗ كَانَ بِكُمۡ رَحِيۡمًا ۞
تمہارا رب وہ ہے جو سمندر (اور دریا) میں تمہارے لئے (جہاز اور) کشتیاں رواں فرماتا ہے تاکہ تم (اندرونی و بیرونی تجارت کے ذریعہ) اس کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرو، بیشک وہ تم پر بڑا مہربان ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 12
وَجَعَلۡنَا الَّيۡلَ وَالنَّهَارَ اٰيَتَيۡنِ‌ فَمَحَوۡنَاۤ اٰيَةَ الَّيۡلِ وَجَعَلۡنَاۤ اٰيَةَ النَّهَارِ مُبۡصِرَةً لِّتَبۡتَغُوۡا فَضۡلًا مِّنۡ رَّبِّكُمۡ۔
اور ہم نے رات اور دن کو (اپنی قدرت کی) دو نشانیاں بنایا پھر ہم نے رات کی نشانی کو تاریک بنایا اور ہم نے دن کی نشانی کو روشن بنایا تاکہ تم اپنے رب کا فضل (رزق) تلاش کر سکو۔

القرآن – سورۃ نمبر 62 الجمعة، آیت نمبر 10
فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوۡا فِى الۡاَرۡضِ وَابۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِ اللّٰهِ وَاذۡكُرُوا اللّٰهَ كَثِيۡرًا لَّعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ۞
پھر جب نماز ادا ہوچکے تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور (پھر) اللہ کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرنے لگو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ،

القرآن – سورۃ نمبر 28 القصص، آیت نمبر 77
وَابۡتَغِ فِيۡمَاۤ اٰتٰٮكَ اللّٰهُ الدَّارَ الۡاٰخِرَةَ‌ وَلَا تَنۡسَ نَصِيۡبَكَ مِنَ الدُّنۡيَا‌۔
اور تو اس (دولت) میں سے جو اللہ نے تجھے دے رکھی ہے آخرت کا گھر طلب کر، اور دنیا سے (بھی) اپنا حصہ نہ بھول۔

القرآن – سورۃ نمبر 53 النجم، آیت نمبر 39
وَاَنۡ لَّيۡسَ لِلۡاِنۡسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىۙ ۞
اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہوگی۔

القرآن – سورۃ نمبر 29 العنكبوت، آیت نمبر 17
فَابۡتَغُوۡا عِنۡدَ اللّٰهِ الرِّزۡقَ وَاعۡبُدُوۡهُ وَاشۡكُرُوۡا لَهٗ ؕ اِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ ۞
پس تم اللہ کی بارگاہ سے رزق طلب کیا کرو اور اسی کی عبادت کیا کرو اور اسی کا شکر بجا لایا کرو، تم اسی کی طرف پلٹائے جاؤ گے۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1358
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ أَطْيَبَ مَا أَكَلْتُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ،‏‏‏‏ وَإِنَّ أَوْلَادَكُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ .
سب سے پاکیزہ چیز جس کو تم کھاتے ہو تمہاری اپنی کمائی ہے اور تمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی میں سے ہے۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2141
عبداللہ بن خبیب کے چچا سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا بَأْسَ بِالْغِنَى لِمَنِ اتَّقَى وَالصِّحَّةُ لِمَنِ اتَّقَى خَيْرٌ مِنَ الْغِنَى وَطِيبُ النَّفْسِ مِنَ النَّعِيمِ.
اہل تقویٰ کے لیے مالداری کوئی حرج کی بات نہیں، اور تندرستی متقی کے لیے مالداری سے بہتر ہے، اور خوش دلی بھی ایک نعمت ہے۔

مرد و عورت کی کمائی:

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 32
لِلرِّجَالِ نَصِيۡبٌ مِّمَّا اكۡتَسَبُوۡا ؕ‌ وَلِلنِّسَآءِ نَصِيۡبٌ مِّمَّا اكۡتَسَبۡنَ‌ ؕ وَسۡئَـلُوا اللّٰهَ مِنۡ فَضۡلِهٖ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمًا ۞
مردوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور عورتوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور اللہ سے اس کا فضل مانگا کرو، بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے،

متفرقات:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1820
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
طَعَامُ الِاثْنَيْنِ كَافِي الثَّلَاثَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَطَعَامُ الثَّلَاثَةِ كَافِي الْأَرْبَعَةَ۔
دو آدمیوں کا کھانا تین آدمیوں کے لیے اور تین آدمیوں کا کھانا چار آدمیوں کے لیے کافی ہے ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اسلامی نظامِ معیشت کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

مضامینِ سورۃ البقرہ کا مختصر خلاصہ اور فضائلِ سورۃ البقرہ

سورۃ البقرہ قرآنِ مجید کی سب سے بڑی سورت ہے اور اس کی کل آیات 286 ہیں۔ یہ مدنی سورتوں میں سے ہے اور ہجرتِ مدینہ کے بعد نازل ہونے والی پہلی سورت ہے (بیان القرآن، منہاج القرآن)۔ اس سورت میں علوم و معارف اور احکام کثرت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ اس سورت کی فضیلت کے بارے میں حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2877
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقَابِرَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ الْبَيْتَ الَّذِي تُقْرَأُ فِيهِ الْبَقَرَةُ لَا يَدْخُلُهُ الشَّيْطَانُ۔ ‏‏‏‏‏‏(قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ)
اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔ وہ گھر جس میں سورة البقرہ پڑھی جاتی ہے اس میں شیطان داخل نہیں ہوتا ۔

اس سورت کے کثیر الجہتی مضامین کا مختصر خلاصہ مندرجہ ذیل نکات میں ملاحظہ فرمائیں:

1) ہدایتِ ربانی کا قرآنی ضابطۂِ اخلاق (آیت 1-2)
2) مختلف انسانی طبقات (متقین، کفار، منافقین، فاسقین، خاشعین، محسنین وغیرہ) کی علامات و خصوصیات کا بیان
3) تخلیقِ آدم علیہ السلام اور منصبِ خلافت کا بیان (آیت 30 ۔۔۔)
4) بنی اسرائیل پر ہونے والی نعمتوں، ان کی نافرمانیوں اور اس کے نتیجے میں ان کے دائمی غضبِ الٰہی کے حقدار ٹھہرنے کا بیان (آیت 40 ۔۔۔)
5) حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ملتِ ابراہیم علیہ السلام کی آزمائشوں اور ان پر ہونے والی نوازشات کا تذکرہ (آیت 124 ۔۔۔)
6) تحویلِ قبلہ (قبلہ کی تبدیلی) کا واقعہ (آیات 142-152)
7) اہلِ ایمان کے لیے خصوصی ہدایات، رہنمائی اور احکام مثلاً:
8) نماز و صبر سے مدد طلب کرنا (آیت 153)
9) تفکر و تدبر کا بیان (آیت 164)
10) عشق و محبت کا بیان (آیت 165)
11) شیطانی امور، برائی، بے حیائ اور نفسانی خواہشات سے بچنا (آیات 168-169)
12) حرام چیزوں کی وضاحت اور ان سے بچنے کا حکم (آیت 173)
13) نیکی کے حقیقی تصور کی وضاحت (آیت 177)
14) قصاص و وصیت کے احکام (آیات 178 ۔۔۔)
15) روزہ اور اس کے احکام (آیات 183 ۔۔۔)
16) رشوت کی ممانعت (آیت 188)
17) جہاد فی سبیل اللہ کے احکام (آیت 190 ۔۔۔)
18) حج و عمرہ کے احکام (آیات 196-203)
19) اسلام میں پورے کا پورا داخل ہونا (آیت 208)
20) شراب و جوئے کی حرمت و ممانعت (آیت 219)
21) نکاح، خلع، طلاق و حیض کے احکام (آیات 221-242)
22) آیت الکرسی (آیات کی سردار)
23) حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت عزیر علیہ السلام کے واقعات کا تذکرہ (آیات 258-260)
24) انفاق فی سبیل اللہ، قرضِ حسنہ، کتابتِ لین دین، گواہی، اور سود کی حرمت کے احکام (آیات 261-282)
25) خواتیمِ سورۃ البقرہ (عقائد و دعائیں) کا بیان

چند واقعاتِ بنی اسرائیل کا تذکرہ:

1) فرعون کے مظالم اور ان سے نجات کا بیان (آیت 49 ۔۔۔)
2) حضرت موسیٰ علیہ السلام کا کوہِ طور پر جانا اور قوم کی بچھڑا پرستی (آیت 51 ۔۔۔)
3) من و سلویٰ جیسی نعمتوں کا اترنا (آیت 57)
4) پارہ چشموں کا پھوٹنا (آیت 60 ۔۔۔)
5) ہفتے کے دن کے احکام کی نافرمانی اور سزا (آیت 65 ۔۔۔)
6) گائے (بقرہ) کے ذبح کا واقعہ (ایک قول کے مطابق یہی اس سورت کی وجہِ تسمیہ ہے) (آیت 67 ۔۔۔)
7) تذکرہ سلیمان علیہ السلام اور ہاروت و ماروت (آیت 102)
8) واقعۂِ طالوت و جالوت (آیت 346 ۔۔۔)

متقین کی علامات و صفات (آیات 3,4):

1) ایمان بالغیب
2) اقامتِ صلوٰۃ
3) انفاق فی سبیل اللہ
4) ایمان بالوحی
5) آخرت پر یقین

منافقین کی علامات و صفات (آیات 20-8):

1) اقرار باللسان کے ساتھ تصدیق بالقلب کی عدم موجودگی
2) تعلقِ نبوت کی ضرورت و حاجت کا انکار
3) دھوکہ و مکر و فریب
4) جھوٹ بولنا
5) فساد انگیزی
6) کردار کا دوغلہ پن
7) صرف خود کو مصلح اور دوسروں کو بے وقوف سمجھنا
8) حق اور اہلِ حق کی مخالفت، استہزاء اور تحقیر (سازشیں کرنا)
9) تنگ نظری، تعصب اور عناد
10) مفاد پرستی (مصائب و تکالیف سے کترانا اور مفادات کے لیے ساتھ دینا)

چند اصولی احکامات:

1) علی الموسع قدرہ و علی المقتر قدرہ۔ صاحبِ وسعت پر اس کی حیثیت کے مطابق دینا واجب ہے جبکہ تنگدست پر اس کی حیثیت کے مطابق۔ (آیت 236)

2) فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ۔ تھوڑی جماعت بڑی جماعت پر غالب آ جاتی ہے اللہ کے اذن سے۔ (آیت 249)

3) لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا۔ اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ (آیت 286)

4) انسان کی عظمت و شرف کا راز علم میں ہے۔ (آیت 31)

ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول اس سورت میں ایک ہزار اوامر، ایک ہزار نواہی، ایک ہزار حکمتیں اور ایک ہزار اخبار و قصص بیان ہوئے ہیں (قرطبی، ابنِ کثیر)

فضائلِ سورۃ البقرہ:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2878
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لِكُلِّ شَيْءٍ سَنَامٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ سَنَامَ الْقُرْآنِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَفِيهَا آيَةٌ هِيَ سَيِّدَةُ آيِ الْقُرْآنِ هِيَ آيَةُ الْكُرْسِيِّ۔
ہر چیز کی ایک چوٹی ہوتی ہے۔ اور قرآن کی چوٹی سورة البقرہ ہے، اس سورة میں ایک آیت ہے یہ قرآن کی ساری آیتوں کی سردار ہے اور یہ آیت آیۃ الکرسی ہے ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2879
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ قَرَأَ حم الْمُؤْمِنَ إِلَى إِلَيْهِ الْمَصِيرُ ، ‏‏‏‏‏‏وَآيَةَ الْكُرْسِيِّ حِينَ يُصْبِحُ، ‏‏‏‏‏‏حُفِظَ بِهِمَا حَتَّى يُمْسِيَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ قَرَأَهُمَا حِينَ يُمْسِي حُفِظَ بِهِمَا حَتَّى يُصْبِحَ۔
جس نے سورة مومن کی (ابتدائی تین آیات) «حم» سے «إليه المصير» تک اور آیت الکرسی صبح ہی صبح (بیدار ہونے کے بعد ہی) پڑھی تو ان دونوں کے ذریعہ شام تک اس کی حفاظت کی جائے گی، اور جس نے ان دونوں کو شام ہوتے ہی پڑھا تو ان کے ذریعہ اس کی صبح ہونے تک حفاظت کی جائے گی ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2881
ابومسعود انصاری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ قَرَأَ الْآيَتَيْنِ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ فِي لَيْلَةٍ كَفَتَاهُ۔ ‏‏‏‏‏‏(قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ)
جس نے رات میں سورة البقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھیں وہ اس کے لیے کافی ہوگئیں۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2882
نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ كِتَابًا قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ بِأَلْفَيْ عَامٍ أَنْزَلَ مِنْهُ آيَتَيْنِ خَتَمَ بِهِمَا سُورَةَ الْبَقَرَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَقُولُ فِي دَارٍ ثَلَاثَ لَيَالٍ فَيَقْرَبُهَا شَيْطَانٌ۔ ‏‏‏‏‏‏(قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ)
اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے دو ہزار سال پہلے ایک کتاب لکھی، اس کتاب کی دو آیتیں نازل کیں اور انہیں دونوں آیتوں پر سورة البقرہ کو ختم کیا، جس گھر میں یہ دونوں آیتیں (مسلسل) تین راتیں پڑھی جائیں گی ممکن نہیں ہے کہ شیطان اس گھر کے قریب آسکے ۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2876
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں:
بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَعْثًا وَهُمْ ذُو عَدَدٍ فَاسْتَقْرَأَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَاسْتَقْرَأَ كُلَّ رَجُلٍ مِنْهُمْ مَا مَعَهُ مِنَ الْقُرْآنِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَى عَلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ مِنْ أَحْدَثِهِمْ سِنًّا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا مَعَكَ يَا فُلَانُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ مَعِي كَذَا وَكَذَا وَسُورَةُ الْبَقَرَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَمَعَكَ سورة البقرة ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَاذْهَبْ فَأَنْتَ أَمِيرُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَشْرَافِهِمْ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مَا مَنَعَنِي أَنْ أَتَعَلَّمَ سورة البقرة إِلَّا خَشْيَةَ أَلَّا أَقُومَ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:‏‏‏‏ تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ وَاقْرَءُوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ مَثَلَ الْقُرْآنِ لِمَنْ تَعَلَّمَهُ فَقَرَأَهُ وَقَامَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏كَمَثَلِ جِرَابٍ مَحْشُوٍّ مِسْكًا يَفُوحُ رِيحُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمَثَلُ مَنْ تَعَلَّمَهُ فَيَرْقُدُ وَهُوَ فِي جَوْفِهِ، ‏‏‏‏‏‏كَمَثَلِ جِرَابٍ وُكِئَ عَلَى مِسْكٍ۔ ‏‏(قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ)
رسول اللہ ﷺ نے گنتی کے کچھ لشکری بھیجے (بھیجتے وقت) ان سے (قرآن) پڑھوایا، تو ان میں سے ہر ایک نے جسے جتنا قرآن یاد تھا پڑھ کر سنایا۔ جب ایک نوعمر نوجوان کا نمبر آیا تو آپ نے اس سے کہا: اے فلاں! تمہارے ساتھ کیا ہے یعنی تمہیں کون کون سی سورتیں یاد ہیں؟ اس نے کہا: مجھے فلاں فلاں اور سورة البقرہ یاد ہے۔ آپ نے کہا: کیا تمہیں سورة البقرہ یاد ہے؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: جاؤ تم ان سب کے امیر ہو ۔ ان کے شرفاء میں سے ایک نے کہا: اللہ کے رسول! قسم اللہ کی! میں نے سورة البقرہ صرف اسی ڈر سے یاد نہ کی کہ میں اسے (نماز تہجد میں) برابر پڑھ نہ سکوں گا۔ آپ نے فرمایا: قرآن سیکھو، اسے پڑھو اور پڑھاؤ۔ کیونکہ قرآن کی مثال اس شخص کے لیے جس نے اسے سیکھا اور پڑھا، اور اس پر عمل کیا اس تھیلی کی ہے جس میں مشک بھری ہوئی ہو اور چاروں طرف اس کی خوشبو پھیل رہی ہو، اور اس شخص کی مثال جس نے اسے سیکھا اور سو گیا اس کا علم اس کے سینے میں بند رہا۔ اس تھیلی کی سی ہے جو مشک بھر کر سیل بند کردی گئی ہو ۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1874
حضرت ابوامامہ باہلی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آپ ﷺ فرماتے ہیں:
اقْرَئُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لِأَصْحَابِهِ اقْرَئُوا الزَّهْرَاوَيْنِ الْبَقَرَةَ وَسُورَةَ آلِ عِمْرَانَ فَإِنَّهُمَا تَأْتِيَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ کَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ کَأَنَّهُمَا غَيَايَتَانِ أَوْ کَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ تُحَاجَّانِ عَنْ أَصْحَابِهِمَا اقْرَئُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَکَةٌ وَتَرْکَهَا حَسْرَةٌ وَلَا تَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ قَالَ مُعَاوِيَةُ بَلَغَنِي أَنَّ الْبَطَلَةَ السَّحَرَةُ۔
قرآن مجید پڑھا کرو کیونکہ یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لئے سفارشی بن کر آئے گا اور دو روشن سورتوں کو پڑھا کرو سورت البقرہ اور سورت آل عمران کیونکہ یہ قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جیسے کہ دو بادل ہوں یا دو سائبان ہوں یا دو اڑتے ہوئے پرندوں کی قطاریں ہوں اور وہ اپنے پڑھنے والوں کے بارے میں جھگڑا کریں گی، سورت البقرہ پڑھا کرو کیونکہ اس کا پڑھنا باعث برکت ہے اور اس کا چھوڑنا باعث حسرت ہے اور جادوگر اس کو حاصل کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآنِ مجید کو سیکھنے، سمجھنے، عمل کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے اور اعمال کو ہمارے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین

قرآنِ مجید یا دیگر علمی متون کے حفظ کا آسان ترین طریقۂِ کار

سب سے پہلے جو بھی سبق آپ نے یاد کرنا ہے اس کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر لیں۔ مثال کے طور پر اگر چار قرآنی آیات حفظ کرنی ہیں تو مندرجہ ذیل طریقہ کار کو اپنائیں:

1) پہلی آیت کو بیس مرتبہ زبانی یاد کریں۔
2) دوسری آیت کو بیس مرتبہ زبانی یاد کریں۔
3) پھر پہلی اور دوسری آیات کو ملا کر دس مرتبہ زبانی یاد کریں تاکہ دونوں آیات کا ربط و تعلق اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے۔
4) پھر تیسری آیت کو بیس مرتبہ زبانی یاد کریں۔
5) پھر دوسری اور تیسری آیات کو ملا کر دس مرتبہ زبانی یاد کریں تاکہ دونوں آیات کا ربط و تعلق اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے۔
6) پھر چوتھی آیت کو بیس مرتبہ زبانی یاد کریں۔
7) پھر تیسری اور چوتھی آیات کو ملا کر دس مرتبہ زبانی یاد کریں تاکہ دونوں آیات کا ربط و تعلق اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے۔
8) پھر آخر میں چاروں آیات کو ملا کر دس مرتبہ زبانی یاد کریں تاکہ چاروں آیات کا ربط و تعلق اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے۔

اسی طرح دیگر علمی متون کو بھی حصوں میں تقسیم کر کے اوپر دیے گئے طریقہ کار کے مطابق حفظ کریں۔

دوہرائی کا طریقہ کار:

نیا سبق حفظ کرنے سے پہلے پچھلے پانچ اسباق کو اچھی طرح دوہرا لیں۔ پھر نیا سبق حفظ کریں۔ اسی طرح ان اسباق کے علاوہ جو پچھلے اسباق ہیں ان کو بھی ساتھ ساتھ دوہراتے رہیں۔ مثلاً آج کے سبق (چار آیات) کو حفظ کرنے سے پہلے پچھلے پانچ اسباق (بیس آیات) کو بھی دوہرائیں اور اب تک جتنا یاد کرچکے ہیں ان میں سے آدھا پارہ روزانہ دوہرائیں تاکہ پچھلے اسباق بھی ساتھ ساتھ پختہ ہوتے جائیں۔

مآخذ و مراجع:
اسھل طریقۃ لحفظ القرآن الکریم و طلب العلم الشرعی از عبد المحسن بن محمد القاسم (امام و خطیب المسجد النبوی الشریف)

تحفہ یا ہدیہ وصول کرنا

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2406
حضرت سالم بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عمر بن خطاب ؓ کو کچھ مال عطا کیا کرتے تھے۔ تو عمر نے آپ ﷺ سے عرض کیا اے اللہ کے رسول جو مجھ سے زیادہ فقیر ہو اس کو عطا کیا کریں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا:
خُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ أَوْ تَصَدَّقْ بِهِ وَمَا جَائَکَ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ فَخُذْهُ وَمَا لَا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَکَ قَالَ سَالِمٌ فَمِنْ أَجْلِ ذَلِکَ کَانَ ابْنُ عُمَرَ لَا يَسْأَلُ أَحَدًا شَيْئًا وَلَا يَرُدُّ شَيْئًا أُعْطِيَهُ۔
اسے لے لو اپنے پاس رکھو یا صدقہ کرو اور تیرے پاس جو مال اس طرح آئے کہ تو نہ خواہش کرنے والا ہو اور نہ مانگنے والا تو اسے لے لیا کرو اور جو اس طرح نہ آئے تو اپنے دل کو اس کی طرف ہی نہ لگاؤ۔ حضرت سالم کہتے ہیں اسی وجہ سے حضرت ابن عمر ؓ کسی سے کچھ نہ مانگتے تھے اور اگر کوئی آپ کو کچھ دے دیتا تو اسے لوٹاتے بھی نہ تھے۔

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2408
حضرت ابن ساعدی مالکی ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے مجھے صدقہ پر عامل مقرر فرمایا۔ جب میں اس سے فارغ ہوا اور رقم زکوٰۃ لا کر جمع کرا دی تو آپ ؓ نے میرے لئے کچھ اجرت کا حکم فرمایا۔ تو میں نے عرض کیا میں نے اللہ کی رضا کے لئے کام کیا اور میرا ثواب اللہ پر ہے تو آپ نے فرمایا:
خُذْ مَا أُعْطِيتَ فَإِنِّي عَمِلْتُ عَلَی عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَعَمَّلَنِي فَقُلْتُ مِثْلَ قَوْلِکَ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا أُعْطِيتَ شَيْئًا مِنْ غَيْرِ أَنْ تَسْأَلَ فَکُلْ وَتَصَدَّقْ۔
جو تجھے دیا جائے وصول کرلے کیونکہ میں بھی رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں عامل مقرر ہوا تھا آپ ﷺ نے مجھے اجرت دی تھی۔ تو میں نے تیرے کہنے کی طرح عرض کیا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا جو تجھے تیرے بغیر مانگے مل جائے تم اس کو کھاؤ اور صدقہ بھی کرو۔

حقوق الزوجین (میاں بیوی کے حقوق و فرائض)

حقوق الزوجین (میاں بیوی کے حقوق و فرائض):

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1846
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
النِّكَاحُ مِنْ سُنَّتِي، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ لَمْ يَعْمَلْ بِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي، ‏‏‏‏‏‏وَتَزَوَّجُوا فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ كَانَ ذَا طَوْلٍ فَلْيَنْكِحْ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَعَلَيْهِ بِالصِّيَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ الصَّوْمَ لَهُ وِجَاءٌ.
نکاح میری سنت اور میرا طریقہ ہے، تو جو میری سنت پہ عمل نہ کرے وہ مجھ سے نہیں ہے، تم لوگ شادی کرو، اس لیے کہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر (قیامت کے دن) فخر کروں گا، اور جو صاحب استطاعت ہوں شادی کریں، اور جس کو شادی کی استطاعت نہ ہو وہ روزے رکھے، اس لیے کہ روزہ اس کی شہوت کو کچلنے کا ذریعہ ہے۔

خوشگوار ازدواجی زندگی کے لیے ضروری ہے کہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے حقوق و فرائض سے آگاہ ہوں۔ درجِ ذیل سطور میں ہم قرآن و حدیث کی تعلیمات کی روشنی میں شوہر اور بیوی کے حقوق و فرائض کا بیان کرتے ہیں۔

شوہر کے فرائض (بیوی کے حقوق):

1) اہل و عیال کی کفالت:

بیوی اور بچوں کی بنیادی ضروریات (خوراک، لباس، رہائش وغیرہ) کو پورا کرنا مرد کی ذمہ داری ہے۔ اسی وجہ سے مرد کو عورت پر ایک درجہ فضیلت دی گئی ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 34
اَلرِّجَالُ قَوَّامُوۡنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعۡضَهُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ وَّبِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِهِمۡ‌۔
مرد عورتوں پر محافظ و منتظِم ہیں اس لئے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے (بھی) کہ مرد (ان پر) اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 2142
حضرت معاویہ بن حیدہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے اوپر ہماری بیوی کا کیا حق ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
أَنْ تُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَتَكْسُوَهَا إِذَا اكْتَسَيْتَ أَوِ اكْتَسَبْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تَضْرِبْ الْوَجْهَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُقَبِّحْ وَلَا تَهْجُرْ إِلَّا فِي الْبَيْتِ.
جب تم کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ، جب پہنو یا کماؤ تو اسے بھی پہناؤ، چہرے پر نہ مارو، برا بھلا نہ کہو، اور گھر کے علاوہ اس سے جدائی اختیار نہ کرو ۔

2) حسنِ سلوک سے پیش آنا:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3895
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي۔
تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں۔

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1162
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا، ‏‏‏‏‏‏وَخِيَارُكُمْ خِيَارُكُمْ لِنِسَائِهِمْ خُلُقًا۔
ایمان میں سب سے کامل مومن وہ ہے جو سب سے بہتر اخلاق والا ہو، اور تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اخلاق میں اپنی عورتوں کے حق میں سب سے بہتر ہو ۔

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1984
ام المؤمنین عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں:
مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَادِمًا لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا امْرَأَةً، ‏‏‏‏‏‏وَلَا ضَرَبَ بِيَدِهِ شَيْئًا.
رسول اللہ ﷺ نے نہ کسی خادم کو اپنے ہاتھ سے مارا، نہ کسی عورت کو، اور نہ کسی بھی چیز کو۔

3) حقوق کی پاسداری:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 3272
حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ وَلَا تُسَافِرْ الْمَرْأَةُ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ امْرَأَتِي خَرَجَتْ حَاجَّةً وَإِنِّي اکْتُتِبْتُ فِي غَزْوَةِ کَذَا وَکَذَا قَالَ انْطَلِقْ فَحُجَّ مَعَ امْرَأَتِکَ۔
کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ رہے سوائے اس کے کہ اس کا محرم اس کے ساتھ ہو اور نہ کوئی عورت سفر کرے سوائے اس کے کہ اس کا محرم اس کے ساتھ ہو۔ ایک آدمی کھڑا ہوا اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میری بیوی حج کے لئے نکلی ہے اور میرا نام فلاں فلاں غزوہ میں لکھ دیا گیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو جا اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کر (کہ اس کا بھی حق تم پر واجب ہے)۔

سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 2133
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ كَانَتْ لَهُ امْرَأَتَانِ فَمَالَ إِلَى إِحْدَاهُمَا، ‏‏‏‏‏‏جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَشِقُّهُ مَائِلٌ.
جس کے پاس دو بیویاں ہوں اور اس کا میلان ایک کی جانب ہو تو وہ بروز قیامت اس حال میں آئے گا، کہ اس کا ایک دھڑا جھکا ہوا ہوگا (آدھا جسم فالج زدہ ہوگا) ۔

4) گھریلو امور میں معاونت:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 2489
حضرت اسود ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ ؓ سے پوچھا کیا: رسول اللہ ﷺ جب اپنے گھر میں داخل ہوتے تھے تو کیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا:
كَانَ يَكُونَ فِي مَهْنَةِ أَهْلِهِ فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ قَامَ فَصَلَّى۔
آپ ﷺ اپنے گھر والوں کے کام کاج میں مشغول ہوجاتے تھے، پھر جب نماز کا وقت ہوجاتا تو کھڑے ہوتے اور نماز پڑھنے لگتے تھے۔

5) پردہ پوشی:

القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 187
هُنَّ لِبَاسٌ لَّـكُمۡ وَاَنۡـتُمۡ لِبَاسٌ لَّهُنَّ۔
وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو۔

بیوی کے فرائض (شوہر کے حقوق):

1) عزت و آبرو کی حفاظت:

القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 34
فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلۡغَيۡبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ‌ ؕ
پس نیک بیویاں اطاعت شعار ہوتی ہیں شوہروں کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت کے ساتھ (اپنی عزت کی) حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں۔

مسند احمد، حدیث نمبر: 1573
حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِذَا صَلَّتْ الْمَرْأَةُ خَمْسَهَا وَصَامَتْ شَهْرَهَا وَحَفِظَتْ فَرْجَهَا وَأَطَاعَتْ زَوْجَهَا قِيلَ لَهَا ادْخُلِي الْجَنَّةَ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ شِئْتِ۔
جو عورت پانچ وقت کی نماز پڑھتی ہو، ماہ رمضان کے روزے رکھتی ہو، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتی ہو اور اپنے شوہر کی اطاعت کرتی ہو، اس سے کہا جائے گا کہ جنت کے جس دروازے سے چاہو، داخل ہوجاؤ۔

2) شوہر کی خوشنودی:

جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1161
ام المؤمنین ام سلمہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَيُّمَا امْرَأَةٍ مَاتَتْ وَزَوْجُهَا عَنْهَا رَاضٍ، ‏‏‏‏‏‏دَخَلَتِ الْجَنَّةَ۔
جو عورت مرجائے اور اس کا شوہر اس سے خوش ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگی ۔

3) حسنِ اخلاق:

سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1857
ابوامامہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے:
مَا اسْتَفَادَ الْمُؤْمِنُ بَعْدَ تَقْوَى اللَّهِ خَيْرًا لَهُ مِنْ زَوْجَةٍ صَالِحَةٍ، ‏‏‏‏‏‏إِنْ أَمَرَهَا أَطَاعَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ نَظَرَ إِلَيْهَا سَرَّتْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ أَقْسَمَ عَلَيْهَا أَبَرَّتْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ غَابَ عَنْهَا نَصَحَتْهُ فِي نَفْسِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَمَالِهِ.
تقویٰ کے بعد مومن کو نیک بیوی سے زیادہ کسی بھی چیز سے فائدہ نہیں ہوا، وہ ایسی نیک بیوی ہے کہ اگر شوہر اسے حکم دے تو اسے مانے، اور اگر اس کی جانب دیکھے تو وہ اسے خوش کر دے، اور اگر وہ اس (کے بھروسے) پر قسم کھالے تو اسے سچا کر دکھائے، اور اگر وہ موجود نہ ہو تو عورت اپنی ذات اور اس کے مال میں اس کی خیر خواہی کرے ۔

4) تقویٰ و پرہیزگاری:

مسند احمد، حدیث نمبر: 6279
حضرت ابن عمرو ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ الدُّنْيَا كُلَّهَا مَتَاعٌ وَخَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ۔
ساری دنیا متاع ہے اور دنیا کی بہترین متاع نیک عورت ہے۔

مسند احمد، حدیث نمبر: 1368
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مِنْ سَعَادَةِ ابْنِ آدَمَ ثَلَاثَةٌ وَمِنْ شِقْوَةِ ابْنِ آدَمَ ثَلَاثَةٌ مِنْ سَعَادَةِ ابْنِ آدَمَ الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ وَالْمَسْكَنُ الصَّالِحُ وَالْمَرْكَبُ الصَّالِحُ وَمِنْ شِقْوَةِ ابْنِ آدَمَ الْمَرْأَةُ السُّوءُ وَالْمَسْكَنُ السُّوءُ وَالْمَرْكَبُ السُّوءُ۔
تین چیزیں ابن آدم کی سعات مندی کی علامت ہیں اور تین چیزیں اس کی بدنصیبی کی علامت ہیں، ابن آدم کی خوش نصیبی تو یہ ہے کہ اسے نیک بیوی ملے، اچھی رہائش ملے اور عمدہ سواری ملے جبکہ اس کی بدنصیبی یہ ہے کہ اسے بری بیوی ملے، بری رہائش ملے اور بری سواری ملے۔

5) حقوق کی پاسداری:

صحیح مسلم، حدیث نمبر: 3540
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا مِنْ رَجُلٍ يَدْعُو امْرَأَتَهُ إِلَی فِرَاشِهَا فَتَأْبَی عَلَيْهِ إِلَّا کَانَ الَّذِي فِي السَّمَائِ سَاخِطًا عَلَيْهَا حَتَّی يَرْضَی عَنْهَا۔
کوئی آدمی جب اپنی بیوی کو اپنے بستر کی طرف بلائے اور وہ اس کے بلانے پر انکار کر دے تو آسمان والا یعنی اللہ اس عورت پر ناراض رہتا ہے جب تک اس کا شوہر اس سے راضی نہ ہو جائے۔

مآخذ و مراجع:
بچوں کی پرورش اور والدین کا کردار (سلسلہ تعلیمات اسلام)