اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔ جو زندگی کے ہر شعبے سے وابستہ افراد کو ایک مکمل ضابطۂِ اخلاق (اصول و ضوابط) دیتا ہے۔ جس پر عمل پیرا ہونے والا انسان حقیقی معنوں میں دنیوی و اخروی فلاح حاصل کر سکتا ہے۔
اس مضمون میں رزق کمانے والوں اور کاروبار و تجارت سے وابستہ افراد کے لیے انتہائی مفید اصولی ہدایات قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کی گئی ہیں۔
سچائی اور امانتداری:
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1209
ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ، وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ۔ قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ۔
سچا اور امانت دار تاجر (قیامت کے دن) انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا ۔
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1210
رفاعہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ التُّجَّارَ يُبْعَثُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فُجَّارًا إِلَّا مَنِ اتَّقَى اللَّهَ وَبَرَّ، وَصَدَقَ۔
تاجر لوگ قیامت کے دن گنہگار اٹھائے جائیں گے سوائے اس کے جو اللہ سے ڈرے نیک کام کرے اور سچ بولے ۔
رزقِ حلال کمانا عبادت ہے:
القرآن – سورۃ نمبر 28 القصص، آیت نمبر 77
وَابۡتَغِ فِيۡمَاۤ اٰتٰٮكَ اللّٰهُ الدَّارَ الۡاٰخِرَةَ وَلَا تَنۡسَ نَصِيۡبَكَ مِنَ الدُّنۡيَا۔
اور تو اس (دولت) میں سے جو اللہ نے تجھے دے رکھی ہے آخرت کا گھر طلب کر، اور دنیا سے (بھی) اپنا حصہ نہ بھول۔
طلب الحلال فریضۃ بعد الفریضۃ
رزقِ حلال کی تلاش فرض عبادت کے بعد (سب سے بڑا) فریضہ ہے۔
طبرانی، المعجم الکبیر، رقم: 9993
سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2138
مقدام بن معدیکرب زبیدی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَا كَسَبَ الرَّجُلُ كَسْبًا أَطْيَبَ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ وَمَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَى نَفْسِهِ، وَأَهْلِهِ وَوَلَدِهِ وَخَادِمِهِ، فَهُوَ صَدَقَةٌ.
آدمی کی کوئی کمائی اس کمائی سے بہتر نہیں جسے اس نے اپنی محنت سے کمایا ہو، اور آدمی اپنی ذات، اپنی بیوی، اپنے بچوں اور اپنے خادم پر جو خرچ کرے وہ صدقہ ہے ۔
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1358
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ أَطْيَبَ مَا أَكَلْتُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ، وَإِنَّ أَوْلَادَكُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ .
سب سے پاکیزہ چیز جس کو تم کھاتے ہو تمہاری اپنی کمائی ہے اور تمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی میں سے ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 32
لِلرِّجَالِ نَصِيۡبٌ مِّمَّا اكۡتَسَبُوۡا ؕ وَلِلنِّسَآءِ نَصِيۡبٌ مِّمَّا اكۡتَسَبۡنَ ؕ وَسۡئَـلُوا اللّٰهَ مِنۡ فَضۡلِهٖ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمًا ۞
مردوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور عورتوں کے لئے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور اللہ سے اس کا فضل مانگا کرو، بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
کاروبار کرنے والے کو رزق دیا جاتا ہے:
سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2153
عمر بن الخطاب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْجَالِبُ مَرْزُوقٌ۔
جالب (مال درآمد) کرنے والا روزی پاتا ہے۔
ذخیرہ اندوزی کرنے کی ممانعت:
سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2153
عمر بن الخطاب ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَالْمُحْتَكِرُ مَلْعُونٌ.
اور (ذخیرہ اندوزی) کرنے والا ملعون ہے۔
مسند احمد، حدیث نمبر: 4648
حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ احْتَكَرَ طَعَامًا أَرْبَعِينَ لَيْلَةً فَقَدْ بَرِئَ مِنْ اللَّهِ تَعَالَى وَبَرِئَ اللَّهُ تَعَالَى مِنْهُ وَأَيُّمَا أَهْلُ عَرْصَةٍ أَصْبَحَ فِيهِمْ امْرُؤٌ جَائِعٌ فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُمْ ذِمَّةُ اللَّهِ تَعَالَى۔
جو شخص چالیس دن تک غذائی ضروریات کی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے وہ اللہ سے بری ہے اور اللہ اس سے بری ہے اور جس خاندان میں ایک آدمی بھی بھوکارہا ان سب سے اللہ کا ذمہ بری ہے۔
تجارت (خرید و فروخت) کرتے وقت اللہ کے ذکر اور یاد سے غافل نہ ہونا:
القرآن – سورۃ نمبر 24 النور، آیت نمبر 37،38
رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡهِيۡهِمۡ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيۡعٌ عَنۡ ذِكۡرِ اللّٰهِ وَاِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِيۡتَآءِ الزَّكٰوةِۖ يَخَافُوۡنَ يَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِيۡهِ الۡقُلُوۡبُ وَالۡاَبۡصَارُ ۞ لِيَجۡزِيَهُمُ اللّٰهُ اَحۡسَنَ مَا عَمِلُوۡا وَيَزِيۡدَهُمۡ مِّنۡ فَضۡلِهٖؕ وَاللّٰهُ يَرۡزُقُ مَنۡ يَّشَآءُ بِغَيۡرِ حِسَابٍ ۞
(اللہ کے اس نور کے حامل) وہی مردانِ (خدا) ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے اور نہ نماز قائم کرنے سے اور نہ زکوٰۃ ادا کرنے سے (بلکہ دنیوی فرائض کی ادائیگی کے دوران بھی) وہ (ہمہ وقت) اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں (خوف کے باعث) دل اور آنکھیں (سب) الٹ پلٹ ہو جائیں گی۔ تاکہ اللہ انہیں ان (نیک) اعمال کا بہتر بدلہ دے جو انہوں نے کئے ہیں اور اپنے فضل سے انہیں اور (بھی) زیادہ (عطا) فرما دے، اور اللہ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق (و عطا) سے نوازتا ہے۔
القرآن – سورۃ نمبر 62 الجمعة، آیت نمبر 9
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِىَ لِلصَّلٰوةِ مِنۡ يَّوۡمِ الۡجُمُعَةِ فَاسۡعَوۡا اِلٰى ذِكۡرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الۡبَيۡعَ ؕ ذٰ لِكُمۡ خَيۡرٌ لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۞
اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لئے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔
تاجر کے لیے دس لاکھ نیکیاں، دس لاکھ برائیوں کا مٹنا، اور دس لاکھ درجات کی بلندی:
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 3428
عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ دَخَلَ السُّوقَ، فَقَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ بِيَدِهِ الْخَيْرُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، كَتَبَ اللَّهُ لَهُ أَلْفَ أَلْفِ حَسَنَةٍ وَمَحَا عَنْهُ أَلْفَ أَلْفِ سَيِّئَةٍ وَرَفَعَ لَهُ أَلْفَ أَلْفِ دَرَجَةٍ۔
جس نے بازار میں داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھی: «لا إله إلا اللہ وحده لا شريك له له الملک وله الحمد يحيي ويميت وهو حي لا يموت بيده الخير وهو علی كل شيء قدير» نہیں کوئی معبود برحق ہے مگر اللہ اکیلا، اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اسی کے لیے ملک (بادشاہت) ہے اور اسی کے لیے حمد و ثناء ہے وہی زندہ کرتا اور وہی مارتا ہے، وہ زندہ ہے کبھی مرے گا نہیں، اسی کے ہاتھ میں ساری بھلائیاں ہیں، اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے دس لاکھ نیکیاں لکھتا ہے اور اس کی دس لاکھ برائیاں مٹا دیتا ہے اور اس کے دس لاکھ درجے بلند فرماتا ہے ۔
ناپ تول میں انصاف کرنا:
القرآن – سورۃ نمبر 11 هود، آیت نمبر 85
وَيٰقَوۡمِ اَوۡفُوا الۡمِكۡيَالَ وَالۡمِيۡزَانَ بِالۡقِسۡطِ وَلَا تَبۡخَسُوا النَّاسَ اَشۡيَآءَهُمۡ وَلَا تَعۡثَوۡا فِى الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِيۡنَ ۞
اور اے میری قوم! تم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پورے کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو اور فساد کرنے والے بن کر ملک میں تباہی مت مچاتے پھرو۔
القرآن – سورۃ نمبر 55 الرحمن، آیت نمبر 9
وَاَقِيۡمُوا الۡوَزۡنَ بِالۡقِسۡطِ وَلَا تُخۡسِرُوا الۡمِيۡزَانَ ۞
اور انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو اور تول کو کم نہ کرو۔
کنزالعمال، حدیث نمبر: 9338
يا وزان زن وأرجح۔
اے وزن کرنے والے! وزن کر اور زیادہ دے۔
سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2222
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِذَا وَزَنْتُمْ فَأَرْجِحُوا.
جب تولو تو جھکا کر تولو ۔
سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 4019
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَلَمْ يَنْقُصُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ، إِلَّا أُخِذُوا بِالسِّنِينَ، وَشِدَّةِ الْمَئُونَةِ، وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَيْهِمْ،
جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قحط، معاشی تنگی اور اپنے حکمرانوں کی زیادتی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
دھوکے اور خیانت سے بچنا:
القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 29
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡكُلُوۡۤا اَمۡوَالَـكُمۡ بَيۡنَكُمۡ بِالۡبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنۡ تَكُوۡنَ تِجَارَةً عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡكُمۡ ۚ وَلَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡـفُسَكُمۡؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمۡ رَحِيۡمًا ۞ اے ایمان والو! تم ایک دوسرے کا مال آپس میں ناحق طریقے سے نہ کھاؤ سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضا مندی سے کوئی تجارت ہو، اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بیشک اللہ تم پر مہربان ہے،
سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2224
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں:
مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِرَجُلٍ يَبِيعُ طَعَامًا، فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهِ فَإِذَا هُوَ مَغْشُوشٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: لَيْسَ مِنَّا مَنْ غَشَّ.
رسول اللہ ﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو گیہوں (غلہ) بیچ رہا تھا، آپ نے اپنا ہاتھ اس کے اندر ڈالا تو وہ مغشوش (غیر خالص اور دھوکے والا گڑبڑ) تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: جو دھوکہ دے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2247
عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ بَاعَ عَيْبًا لَمْ يُبَيِّنْهُ لَمْ يَزَلْ فِي مَقْتِ مِنَ اللَّهِ، وَلَمْ تَزَلِ الْمَلَائِكَةُ تَلْعَنُهُ.
واثلہ بن اسقع ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: جو کوئی عیب دار چیز بیچے اور اس کے عیب کو بیان نہ کرے، تو وہ برابر اللہ تعالیٰ کے غضب میں رہے گا، اور فرشتے اس پر برابر لعنت کرتے رہیں گے ۔
سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2246
عقبہ بن عامر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:
الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ بَاعَ مِنْ أَخِيهِ بَيْعًا فِيهِ عَيْبٌ إِلَّا بَيَّنَهُ لَهُ.
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ہاتھ کوئی ایسی چیز بیچے جس میں عیب ہو، مگر یہ کہ وہ اس کو اس سے بیان کر دے۔
خرید و فروخت کرتے وقت قسمیں کھانے سے بچنا:
سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2209
ابوقتادہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِيَّاكُمْ وَالْحَلِفَ فِي الْبَيْعِ، فَإِنَّهُ يُنَفِّقُ ثُمَّ يَمْحَقُ.
بیع (خریدو فروخت) میں قسمیں کھانے سے بچو، کیونکہ اس سے گرم بازاری تو ہوجاتی ہے اور برکت جاتی رہتی ہے ۔
وہ اوصاف جن سے کمائی میں پاکیزگی اور برکت پیدا ہوتی ہے:
کنزالعمال، حدیث نمبر: 9340
إن أطيب الكسب كسب التجار الذين إذا حدثوا لم يكذبوا، وإذا ائتمنوا لم يخونوا، وإذا وعدوا لم يخلفوا، وإذا اشتروا لم يذموا، وإذا باعوا لم يطروا، وإذا كان عليهم لم يمطلوا، وإذا كان لهم لم يعسروا.
سب سے پاک کمائی ان تاجروں کی ہے جو:
1) بات کرتے ہوئے جھوٹ نہیں بولتے،
2) ان کے پاس امانت رکھوائی جائے تو خیانت نہیں کرتے،
3) وعدہ کرلیں تو وعدہ خلافی نہیں کرتے،
4) خریدتے ہیں تو برائی نہیں کرتے،
5) بیچتے ہیں تو دھتکارتے نہیں،
6) اگر کسی کا قرض دینا ہو تو ٹال مٹول نہیں کرتے،
7) اگر کسی سے قرض وصول کرنا ہو تو سختی نہیں کرتے۔
قرضِ حسنہ دینا:
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 245
مَنۡ ذَا الَّذِىۡ يُقۡرِضُ اللّٰهَ قَرۡضًا حَسَنًا فَيُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضۡعَافًا کَثِيۡرَةً ؕ وَاللّٰهُ يَقۡبِضُ وَيَبۡصُۜطُ ۖ وَ اِلَيۡهِ تُرۡجَعُوۡنَ ۞
کون ہے جو اﷲ کو قرضِ حسنہ دے پھر وہ اس کے لئے اسے کئی گنا بڑھا دے گا، اور اﷲ ہی (تمہارے رزق میں) تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے،
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 280
وَاِنۡ كَانَ ذُوۡ عُسۡرَةٍ فَنَظِرَةٌ اِلٰى مَيۡسَرَةٍ ؕ وَاَنۡ تَصَدَّقُوۡا خَيۡرٌ لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ۞
اور اگر قرض دار تنگدست ہو تو خوشحالی تک مہلت دی جانی چاہئے، اور تمہارا (قرض کو) معاف کر دینا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تمہیں معلوم ہو۔
سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2431
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
رَأَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عَلَى بَاب: الْجَنَّةِ مَكْتُوبًا الصَّدَقَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، وَالْقَرْضُ بِثَمَانِيَةَ عَشَرَ، فَقُلْتُ: يَا جِبْرِيلُ مَا بَالُ الْقَرْضِ أَفْضَلُ مِنَ الصَّدَقَةِ، قَالَ: لِأَنَّ السَّائِلَ يَسْأَلُ وَعِنْدَهُ، وَالْمُسْتَقْرِضُ لَا يَسْتَقْرِضُ إِلَّا مِنْ حَاجَةٍ.
معراج کی رات میں نے جنت کے دروازے پر لکھا دیکھا کہ صدقہ کا ثواب دس گنا ہے، اور قرض کا اٹھارہ گنا، میں نے کہا: جبرائیل! کیا بات ہے؟ قرض صدقہ سے افضل کیسے ہے؟ تو کہا: اس لیے کہ سائل سوال کرتا ہے حالانکہ اس کے پاس کھانے کو ہوتا ہے، اور قرض لینے والا قرض اس وقت تک نہیں مانگتا جب تک اس کو واقعی ضرورت نہ ہو ۔
صحیح مسلم، حدیث نمبر: 4000
حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُنْجِيَهُ اللَّهُ مِنْ کُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلْيُنَفِّسْ عَنْ مُعْسِرٍ أَوْ يَضَعْ عَنْهُ۔
جس کو یہ پسند ہو کہ اللہ اسے قیامت کے دن کی سختیوں سے نجات دے تو چاہئے کہ وہ مفلس (مقروض) کو مہلت دے یا اس کا قرض معاف کر دے۔
سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2418
بریدہ اسلمی ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا كَانَ لَهُ بِكُلِّ يَوْمٍ صَدَقَةٌ وَمَنْ أَنْظَرَهُ بَعْدَ حِلِّهِ كَانَ لَهُ مِثْلُهُ فِي كُلِّ يَوْمٍ صَدَقَةٌ.
جو کسی تنگ دست کو مہلت دے گا تو اس کو ہر دن کے حساب سے ایک صدقہ کا ثواب ملے گا، اور جو کسی تنگ دست کو میعاد گزر جانے کے بعد مہلت دے گا تو اس کو ہر دن کے حساب سے اس کے قرض کے (برابر) صدقہ کا ثواب ملے گا ۔
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1317
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں:
أَنَّ رَجُلًا تَقَاضَى رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَأَغْلَظَ لَهُ فَهَمَّ بِهِ أَصْحَابُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: دَعُوهُ فَإِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا ، ثُمَّ قَالَ: اشْتَرُوا لَهُ بَعِيرًا، فَأَعْطُوهُ إِيَّاهُ، فَطَلَبُوهُ فَلَمْ يَجِدُوا إِلَّا سِنَّا أَفْضَلَ مِنْ سِنِّهِ ، فَقَالَ: اشْتَرُوهُ، فَأَعْطُوهُ إِيَّاهُ، فَإِنَّ خَيْرَكُمْ أَحْسَنُكُمْ قَضَاءً .
ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے (قرض کا) تقاضہ کیا اور سختی کی، صحابہ نے اسے دفع کرنے کا قصد کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو، کیونکہ حقدار کو کہنے کا حق ہے ، پھر آپ نے فرمایا: اسے ایک اونٹ خرید کر دے دو ، لوگوں نے تلاش کیا تو انہیں ایسا ہی اونٹ ملا جو اس کے اونٹ سے بہتر تھا، آپ نے فرمایا: اسی کو خرید کر دے دو، کیونکہ تم میں بہتر وہ لوگ ہیں جو قرض کی ادائیگی میں بہتر ہوں ۔
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1640
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُكَفِّرُ كُلَّ خَطِيئَةٍ، إِلَّا الدَّيْنَ۔
اللہ کی راہ میں شہادت (شہید کے لیے) ہر گناہ کا کفارہ بن جاتی ہے، سوائے قرض کے۔
سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2414
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ دِينَارٌ أَوْ دِرْهَمٌ قُضِيَ مِنْ حَسَنَاتِهِ لَيْسَ ثَمَّ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ.
جو مرجائے اور اس کے ذمہ کسی کا کوئی دینار یا درہم ہو تو (قیامت میں) جہاں دینار اور درہم نہیں ہوگا، اس کی نیکیوں سے ادا کیا جائے گا ۔
سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2412
ثوبان ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ فَارَقَ الرُّوحُ الْجَسَدَ وَهُوَ بَرِيءٌ مِنْ ثَلَاثٍ دَخَلَ الْجَنَّةَ مِنَ الْكِبْرِ وَالْغُلُولِ وَالدَّيْنِ.
جس کی روح بدن سے جدا ہوئی اور وہ تین چیزوں غرور (گھمنڈ) خیانت اور قرض سے پاک ہو، تو وہ جنت میں داخل ہوگا ۔
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1079
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِهِ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ۔
مومن کی جان اس کے قرض کی وجہ سے اٹکی رہتی ہے جب تک کہ اس کی ادائیگی نہ ہوجائے۔
حرام ذرائع تجارت سے بچنا:
جو چیز اسلام نے حرام قرار دی ہے اس کی تجارت (خرید و فروخت) بھی حرام ہے۔
سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 3685
عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے:
أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَهَى عَنِ الْخَمْرِ، وَالْمَيْسِرِ، وَالْكُوبَةِ، وَالْغُبَيْرَاءِ، وَقَالَ: كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ، قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ ابْنُ سَلَامٍ أَبُو عُبَيْدٍ: الْغُبَيْرَاءُ: السُّكْرُكَةُ تُعْمَلُ مِنَ الذُّرَةِ، شَرَابٌ يَعْمَلُهُ الْحَبَشَةُ.
نبی اکرم ﷺ نے شراب، جوا، کوبہ (چوسر یا ڈھولک) اور غبیراء سے منع کیا، اور فرمایا: ہر نشہ آور چیز حرام ہے ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن سلام ابو عبید نے کہا ہے: غبیراء ایسی شراب ہے جو مکئی سے بنائی جاتی ہے حبشہ کے لوگ اسے بناتے ہیں۔
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1297
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے فتح مکہ کے سال مکہ کے اندر رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:
إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَيْعَ الْخَمْرِ، وَالْمَيْتَةِ، وَالْخِنْزِيرِ، وَالْأَصْنَامِ ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ شُحُومَ الْمَيْتَةِ ؟ فَإِنَّهُ يُطْلَى بِهَا السُّفُنُ، وَيُدْهَنُ بِهَا الْجُلُودُ، وَيَسْتَصْبِحُ بِهَا النَّاسُ، قَالَ: لَا، هُوَ حَرَامٌ ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ: قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ، إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَيْهِمُ الشُّحُومَ، فَأَجْمَلُوهُ، ثُمَّ بَاعُوهُ، فَأَكَلُوا ثَمَنَهُ۔
اللہ اور اس کے رسول نے شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کی بیع کو حرام قرار دیا ہے، عرض کیا گیا، اللہ کے رسول! مجھے مردار کی چربی کے بارے میں بتائیے، اسے کشتیوں پہ ملا جاتا ہے، چمڑوں پہ لگایا جاتا ہے، اور لوگ اس سے چراغ جلاتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، یہ جائز نہیں، یہ حرام ہے ، پھر آپ نے اسی وقت فرمایا: یہود پر اللہ کی مار ہو، اللہ نے ان کے لیے چربی حرام قرار دے دی، تو انہوں نے اس کو پگھلایا پھر اسے بیچا اور اس کی قیمت کھائی ۔
مسند احمد، حدیث نمبر: 1937
عبدالرحمن بن وعلہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے شراب کی تجارت کے متعلق مسئلہ دریافت کیا؟ انہوں نے فرمایا:
كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ صَدِيقٌ مِنْ ثَقِيفٍ أَوْ مِنْ دَوْسٍ فَلَقِيَهُ بِمَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ بِرَاوِيَةِ خَمْرٍ يُهْدِيهَا إِلَيْهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَا أَبَا فُلَانٍ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ اللَّهَ حَرَّمَهَا فَأَقْبَلَ الرَّجُلُ عَلَى غُلَامِهِ فَقَالَ اذْهَبْ فَبِعْهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَبَا فُلَانٍ بِمَاذَا أَمَرْتَهُ قَالَ أَمَرْتُهُ أَنْ يَبِيعَهَا قَالَ إِنَّ الَّذِي حَرَّمَ شُرْبَهَا حَرَّمَ بَيْعَهَا فَأَمَرَ بِهَا فَأُفْرِغَتْ فِي الْبَطْحَاءِ۔
قبیلہ ثقیف یا دوس میں نبی ﷺ کا ایک دوست رہتا تھا، وہ فتح مکہ کے سال مکہ مکرمہ میں نبی ﷺ سے ملاقات کے لئے شراب کا ایک مشکیزہ بطور ہدیہ کے لے کر آیا، نبی ﷺ نے اس سے فرمایا اے فلاں! کیا تمہارے علم میں یہ بات نہیں کہ اللہ نے شراب کو حرام قرار دے دیا ہے؟ یہ سن کر وہ شخص اپنے غلام کی طرف متوجہ ہو کر سرگوشی میں اسے کہنے لگا کہ اسے لے جا کر بیچ دو، نبی ﷺ نے اس سے پوچھا کہ اے ابو فلاں! تم نے اسے کیا کہا ہے؟ اس نے کہا کہ میں نے اسے یہ حکم دیا ہے کہ اسے بیچ آئے، نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس ذات نے اس کا پینا حرام قرار دیا ہے، اسی نے اس کی خریدو فروخت بھی حرام کردی ہے چناچہ اس کے حکم پر اس شراب کو وادی بطحاء میں بہا دیا گیا۔
مسند احمد، حدیث نمبر: 2111
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ حُرِّمَتْ عَلَيْهِمْ الشُّحُومُ فَبَاعُوهَا وَأَكَلُوا أَثْمَانَهَا وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا حَرَّمَ عَلَى قَوْمٍ أَكْلَ شَيْءٍ حَرَّمَ عَلَيْهِمْ ثَمَنَهُ.
اللہ تعالیٰ یہودیوں پر لعنت فرمائے کہ ان پر چربی کو حرام قرار دیا گیا لیکن انہوں نے اسے پگھلا کر اس کا تیل بنا لیا اور اسے فروخت کرنا شروع کردیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پر کسی چیز کو کھانا حرام قرار دیتا ہے تو ان پر اس کی قیمت بھی حرام کردیتا ہے۔
مسند احمد،حدیث نمبر: 21253
حضرت ابو امامہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا تَبِيعُوا الْمُغَنِّيَاتِ وَلَا تَشْتَرُوهُنَّ وَلَا تُعَلِّمُوهُنَّ وَلَا خَيْرَ فِي تِجَارَةٍ فِيهِنَّ وَثَمَنُهُنَّ حَرَامٌ۔
گانا گانے والی باندیوں کی خریدوفروخت نہ کرو اور انہیں گانے بجانے کی تعلیم نہ دلواؤ اور ان کی تجارت میں کوئی خیر نہیں اور ان کی قیمت میں (کمائی) کھانا حرام ہے۔
قبضے سے پہلے چیز کو بیچنے کی ممانعت:
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1232
حکیم بن حزام ؓ کہتے ہیں
أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَقُلْتُ: يَأْتِينِي الرَّجُلُ، يَسْأَلُنِي مِنَ الْبَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدِي أَبْتَاعُ لَهُ مِنَ السُّوقِ، ثُمَّ أَبِيعُهُ، قَالَ: لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ۔
میرے پاس کچھ لوگ آتے ہیں اور اس چیز کو بیچنے کے لیے کہتے ہیں جو میرے پاس نہیں ہوتی، تو کیا میں اس چیز کو ان کے لیے بازار سے خرید کر لاؤں پھر فروخت کروں؟ آپ نے فرمایا: جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے اس کی بیع نہ کرو ۔
سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 3503
حکیم بن حزام ؓ کہتے ہیں میں نے عرض کیا:
يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَأْتِينِي الرَّجُلُ فَيُرِيدُ مِنِّي الْبَيْعَ لَيْسَ عِنْدِي أَفَأَبْتَاعُهُ لَهُ مِنَ السُّوقِ. فَقَالَ: لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ.
اللہ کے رسول! آدمی آتا ہے اور مجھ سے اس چیز کی بیع کرنا چاہتا ہے جو میرے پاس موجود نہیں ہوتی، تو کیا میں اس سے سودا کرلوں، اور بازار سے لا کر اسے وہ چیز دے دوں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: جو چیز تمہارے پاس موجود نہ ہو اسے نہ بیچو ۔
سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 3499
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں:
ابْتَعْتُ زَيْتًا فِي السُّوقِ فَلَمَّا اسْتَوْجَبْتُهُ لِنَفْسِي، لَقِيَنِي رَجُلٌ فَأَعْطَانِي بِهِ رِبْحًا حَسَنًا، فَأَرَدْتُ أَنْ أَضْرِبَ عَلَى يَدِهِ، فَأَخَذَ رَجُلٌ مِنْ خَلْفِي بِذِرَاعِي فَالْتَفَتُّ، فَإِذَا زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ، فَقَالَ: لَا تَبِعْهُ حَيْثُ ابْتَعْتَهُ حَتَّى تَحُوزَهُ إِلَى رَحْلِكَ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَنَهَى أَنْ تُبَاعَ السِّلَعُ حَيْثُ تُبْتَاعُ حَتَّى يَحُوزَهَا التُّجَّارُ إِلَى رِحَالِهِمْ.
میں نے بازار میں تیل خریدا، تو جب اس بیع کو میں نے مکمل کرلیا، تو مجھے ایک شخص ملا، وہ مجھے اس کا اچھا نفع دینے لگا، تو میں نے ارادہ کیا کہ اس سے سودا پکا کرلوں اتنے میں ایک شخص نے پیچھے سے میرا ہاتھ پکڑ لیا، میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ زید بن ثابت ؓ تھے، انہوں نے کہا: جب تک کہ تم اسے جہاں سے خریدے ہو وہاں سے اٹھا کر اپنے ٹھکانے پر نہ لے آؤ نہ بیچنا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے سامان کو اسی جگہ بیچنے سے روکا ہے، جس جگہ خریدا گیا ہے یہاں تک کہ تجار سامان تجارت کو اپنے ٹھکانوں پر لے آئیں۔
بیع پر بیع کرنے کی ممانعت:
سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 3436
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، وَلَا تَلَقَّوْا السِّلَعَ حَتَّى يُهْبَطَ بِهَا الْأَسْوَاقَ.
کوئی کسی کی بیع پر بیع نہ کرے اور تاجر سے پہلے ہی مل کر سودا نہ کرے جب تک کہ وہ اپنا سامان بازار میں نہ اتار لے۔
سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: 2088
سمرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أَيُّمَا امْرَأَةٍ زَوَّجَهَا وَلِيَّانِ فَهِيَ لِلْأَوَّلِ مِنْهُمَا، وَأَيُّمَا رَجُلٍ بَاعَ بَيْعًا مِنْ رَجُلَيْنِ فَهُوَ لِلْأَوَّلِ مِنْهُمَا.
جس عورت کا نکاح دو ولی کردیں تو وہ اس کی ہوگی جس سے پہلے نکاح ہوا ہے اور جس شخص نے ایک ہی چیز کو دو آدمیوں سے فروخت کردیا تو وہ اس کی ہے جس سے پہلے بیچی گئی ۔
مندرجہ بالا احادیث میں بیع پر بیع سے تب ممانعت ہے جب سودا طے ہو چکا ہو جبکہ نیلامی کے ذریعے بولی لگانا اور زیادہ قیمت لگانا جائز ہے:
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1218
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ بَاعَ حِلْسًا وَقَدَحًا، وَقَالَ: مَنْ يَشْتَرِي هَذَا الْحِلْسَ وَالْقَدَحَ ، فَقَالَ رَجُلٌ: أَخَذْتُهُمَا بِدِرْهَمٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: مَنْ يَزِيدُ عَلَى دِرْهَمٍ مَنْ يَزِيدُ عَلَى دِرْهَمٍ ، فَأَعْطَاهُ رَجُلٌ دِرْهَمَيْنِ فَبَاعَهُمَا مِنْهُ.
رسول اللہ ﷺ نے ایک ٹاٹ جو کجاوہ کے نیچے بچھایا جاتا ہے اور ایک پیالہ بیچا، آپ نے فرمایا: یہ ٹاٹ اور پیالہ کون خریدے گا؟ ایک آدمی نے عرض کیا: میں انہیں ایک درہم میں لے سکتا ہوں ، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ایک درہم سے زیادہ کون دے گا؟ تو ایک آدمی نے آپ کو دو درہم دیا، تو آپ نے اسی کے ہاتھ سے یہ دونوں چیزیں بیچ دیں۔
لگی ہوئی روزی کو چھوڑنے کی ممانعت:
سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2148
ام المؤمنین عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں:
فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: إِذَا سَبَّبَ اللَّهُ لِأَحَدِكُمْ رِزْقًا مِنْ وَجْهٍ، فَلَا يَدَعْهُ حَتَّى يَتَغَيَّرَ لَهُ، أَوْ يَتَنَكَّرَ لَهُ.
میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: اللہ تعالیٰ جب تم میں سے کسی کے لیے روزی کا کوئی ذریعہ پیدا کر دے، تو وہ اسے نہ چھوڑے یہاں تک کہ وہ بدل جائے، یا بگڑ جائے ۔
بیچی ہوئی چیز واپس لے لینا:
سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2199
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ أَقَالَ مُسْلِمًا، أَقَالَهُ اللَّهُ عَثْرَتَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
جو شخص کسی مسلمان کے اقالے کو مان لے (یعنی اس کے ساتھ بیع کے فسخ پر راضی ہوجائے) تو اللہ تعالیٰ (اس احسان کے بدلہ میں) قیامت کے دن اس کے گناہوں کو مٹا دے گا ۔
تجارتی معاہدہ یا سودہ:
القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 282
وَلَا تَسۡــئَمُوۡۤا اَنۡ تَكۡتُبُوۡهُ صَغِيۡرًا اَوۡ كَبِيۡرًا اِلٰٓى اَجَلِهٖؕ ذٰ لِكُمۡ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰهِ وَاَقۡوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَاَدۡنٰۤى اَلَّا تَرۡتَابُوۡٓا اِلَّاۤ اَنۡ تَكُوۡنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيۡرُوۡنَهَا بَيۡنَكُمۡ فَلَيۡسَ عَلَيۡكُمۡ جُنَاحٌ اَلَّا تَكۡتُبُوۡهَا ؕ وَاَشۡهِدُوۡۤا اِذَا تَبَايَعۡتُمۡ۔
اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا اسے اپنی میعاد تک لکھ رکھنے میں اکتایا نہ کرو، یہ تمہارا دستاویز تیار کر لینا اﷲ کے نزدیک زیادہ قرینِ انصاف ہے اور گواہی کے لئے مضبوط تر اور یہ اس کے بھی قریب تر ہے کہ تم شک میں مبتلا نہ ہو سوائے اس کے کہ دست بدست ایسی تجارت ہو جس کا لین دین تم آپس میں کرتے رہتے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے کا کوئی گناہ نہیں، اور جب بھی آپس میں خرید و فروخت کرو تو گواہ بنا لیا کرو۔
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1352
عمرو بن عوف مزنی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ، إِلَّا صُلْحًا حَرَّمَ حَلَالًا، أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا، وَالْمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا، أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا۔
صلح مسلمان کے درمیان نافذ ہوگی سوائے ایسی صلح کے جو کسی حلال کو حرام کر دے یا کسی حرام کو حلال۔ اور مسلمان اپنی شرطوں کے پابند ہیں۔ سوائے ایسی شرط کے جو کسی حلال کو حرام کر دے یا کسی حرام کو حلال ۔
تجارتی معاہدات کی پاسداری:
القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 34
وَاَوۡفُوۡا بِالۡعَهۡدِۚ اِنَّ الۡعَهۡدَ كَانَ مَسۡــئُوۡلًا ۞
اور وعدہ پورا کیا کرو، بیشک وعدہ کی ضرور پوچھ گچھ ہوگی۔
قیمتوں کا تعین:
سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2185
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّمَا الْبَيْعُ عَنْ تَرَاضٍ.
بیع بیچنے والے اور خریدنے والے کی باہمی رضا مندی سے منعقد ہوتی ہے ۔
سنن ابن ماجہ, حدیث نمبر: 2200
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں:
غَلَا السِّعْرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ غَلَا السِّعْرُ فَسَعِّرْ لَنَا، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّازِقُ، إِنِّي لَأَرْجُو، أَنْ أَلْقَى رَبِّي وَلَيْسَ أَحَدٌ يَطْلُبُنِي بِمَظْلَمَةٍ فِي دَمٍ وَلَا مَالٍ.
رسول اللہ ﷺ کے عہد میں ایک دفعہ قیمتیں چڑھ گئیں، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے لیے ایک نرخ (بھاؤ) مقرر کر دیجئیے! آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ ہی نرخ مقرر کرنے والا ہے، کبھی کم کردیتا ہے اور کبھی زیادہ کردیتا ہے، وہی روزی دینے والا ہے، اور مجھے امید ہے کہ میں اپنے رب سے اس حال میں ملوں کہ کوئی مجھ سے جان یا مال میں کسی ظلم کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو۔
مزدور کی مزدوری وقت پر دینا:
سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر: 2443
عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَعْطُوا الْأَجِيرَ أَجْرَهُ قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُهُ.
مزدور کو اس کا پسینہ سوکھنے سے پہلے اس کی مزدوری دے دو۔
تکبر اور دوسرے کو کمتر سمجھنے کی ممانعت:
صحیح مسلم، حدیث نمبر: 265
عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ کَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ کِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَکُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا وَنَعْلُهُ حَسَنَةً قَالَ إِنَّ اللَّهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ
جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا اس پر ایک آدمی نے عرض کیا کہ ایک آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کی جوتی بھی اچھی ہو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ جمیل ہے اور جمال ہی کو پسند کرتا ہے تکبر تو حق کی طرف سے منہ موڑنے اور دوسرے لوگوں کو کمتر سمجھنے کو کہتے ہیں۔
میانہ روی اختیار کرنا:
مسند احمد، حدیث نمبر: 20710
حضرت ابودرداء ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا
مِنْ فِقْهِ الرَّجُلِ رِفْقُهُ فِي مَعِيشَتِهِ
انسان کی سمجھداری کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنے معاشی معاملات میں میانہ روی اختیار کرتا ہے۔
مسند احمد، حدیث نمبر: 2565
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
إِنَّ الْهَدْيَ الصَّالِحَ وَالسَّمْتَ الصَّالِحَ وَ الِاقْتِصَادَ جُزْءٌ مِنْ خَمْسَةٍ وَعِشْرِينَ جُزْءًا مِنْ النُّبُوَّةِ۔
اچھا راستہ، نیک سیرت اور میانہ روی اجزاء نبوت میں سے ٢٥ واں جزء ہے۔
مسند احمد، حدیث نمبر: 4048
حضرت ابن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَا عَالَ مَنْ اقْتَصَدَ۔
میانہ روی سے چلنے والا کبھی محتاج اور تنگدست نہیں ہوتا۔
معاملات میں نرم دلی کا مظاہرہ کرنا:
جامع ترمذی، حدیث نمبر: 1319
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ سَمْحَ الْبَيْعِ، سَمْحَ الشِّرَاءِ، سَمْحَ الْقَضَاءِ۔
اللہ تعالیٰ بیچنے، خریدنے اور قرض کے مطالبہ میں نرمی و آسانی کو پسند کرتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان زریں اصولوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین